اتوار 11 ستمبر ، 2022



مضمون۔ مواد

SubjectSubstance

سنہری متن: عبرانیوں 11 باب1 آیت

”اب ایمان اْمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔“



Golden Text: Hebrews 11 : 1

Now faith is the substance of things hoped for, the evidence of things not seen.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: امثال 3 باب1، 5، 6، 9، 10، 13، 16 آیات


1۔ اے میرے بیٹے!میری تعلیم کو فراموش نہ کربلکہ تیرا دل میرے حکموں کو مانے۔

5۔ سارے دل سے خداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔

6۔ اپنی سب راہوں میں اْس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔

9۔ اپنے مال سے اور اپنی ساری پیداوار کے پہلے پھلوں سے خداوند کی تعظیم کر۔

10۔ یوں تیرے کھتے خوب بھرے رہیں گے اور تیرے حوض نئی مے سے لبریز ہونگے۔

13۔ مبارک ہے وہ آدمی جو حکمت کو پاتا ہے اور وہ جو فہم حاصل کرتا ہے۔

16۔ اْس کے دہنے ہاتھ میں عمر کی درازی ہے اور اْس کے بائیں ہاتھ میں دولت و عزت۔

Responsive Reading: Proverbs 3 : 1, 5, 6, 9, 10, 13, 16

1.     My son, forget not my law; but let thine heart keep my commandments:

5.      Trust in the Lord with all thine heart; and lean not unto thine own understanding.

6.     In all thy ways acknowledge him, and he shall direct thy paths.

9.     Honour the Lord with thy substance, and with the firstfruits of all thine increase:

10.     So shall thy barns be filled with plenty, and thy presses shall burst out with new wine.

13.     Happy is the man that findeth wisdom, and the man that getteth understanding.

16.     Length of days is in her right hand; and in her left hand riches and honour.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 23: 1، 6 آیات

1۔ خداوند میرا چوپان ہے۔ مجھے کمی نہ ہو گی۔

6۔ یقیناً بھلائی اور رحمت عمر بھر میرے ساتھ ساتھ رہیں گی اور میں ہمیشہ خداوند کے گھر میں سکونت کروں گا۔

1. Psalm 23 : 1, 6

1     The Lord is my shepherd; I shall not want.

6     Surely goodness and mercy shall follow me all the days of my life: and I will dwell in the house of the Lord for ever.

2 . ۔ 2 سلاطین 4 باب8، 12 (تا پہلی)، 14، 15 (اور جب)، 16تا26، 32تا37 آیات

8۔ اور ایک روز اایسا ہوا کہ الیشع شونیم کو گیا۔ وہاں ایک دولتمند عورت تھی اور اْس نے اْسے روٹی کھانے پر مجبور کیا۔ پھر تو جب کبھی وہ وہاں سے گزرتا روٹی کھانے کے لئے وہاں چلا جاتا تھا۔

12۔ پھر اْس نے اپنے خادم جیحازی سے کہا کہ اِس شونیمی عورت کو بلا لے۔ اْس نے اْسے بلالیا اور وہ اْس کے سامنے کھڑی ہوئی۔

14۔ پھر اْس نے اْس سے کہا اْس کے لئے کیا کِیا جائے؟ تب جیحازی نے جواب دیاکہ کیا واقعی اْس کے کوئی فرزند نہیں اور اْس کا شوہر بْڈھا ہے۔

15۔ تب اْس نے اْس سے کہا اْسے بلا لے اور جب اْس نے اْسے بلایا تو وہ دروازے پر کھڑی ہوئی۔

16۔ تب اْس نے کہا موسمِ بہار میں وقت پورا ہونے پر تیری گود میں بیٹا ہوگا۔ اْس نے کہا نہیں اے میرے مالک اے مردِ خدا اپنی لونڈی سے جھوٹ نہ کہہ۔

17۔ سو وہ عورت حاملہ ہوئی اور جیسا الیشع نے اْس سے کہا تھا موسمِ بہار میں وقت پوراہونے پر اْس کے بیٹا ہوا۔

18۔ اور جب وہ لڑکا بڑھا تو ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اپنے باپ کے پاس کھیت کاٹنے والوں میں چلا گیا۔

19۔اور اْس نے باپ سے کہا ہائے میرا سر! ہائے میرا سر! اْس نے اْس سے کہا اْسے اْس کی ماں کے پاس لے جا۔

20۔ جب اْس نے اْسے لے کر اْس کی ماں کے پاس پہنچا دیا تو وہ اْس کے گھٹنوں پر دوپہر تک بیٹھا رہا اِس کے بعد مر گیا۔

21۔ اِس کے بعد اْس کی ماں نے اوپرجا کر اْسے مردِ خدا کے پلنگ پر لیٹا دیا اور دروازہ بند کر کے باہر چلی گئی۔

22۔ اور اْس نے اپنے شوہر سے پکار کر کہا جلد جوانوں میں سے ایک کو اور گدھوں میں سے ایک کو میرے لئے بھیج دے تاکہ میں مردِ خدا کے پاس دوڑ جاؤں اور پھر لوٹ آؤں۔

23۔ اْس نے کہا آج تْو اْس کے پاس کیوں جانا چاہتی ہے آج نہ تو نیا چاند ہے نہ سبت۔ اْس نے جواب دیا کہ اچھا ہی ہوگا۔

24۔ اور اْس نے گدھے پر زین کس کر اپنے خادم سے کہا ہانک۔ آگے بڑھ اور سواری چلانے میں ڈھیل نہ ڈال جب تک مَیں تجھ سے نہ کہوں۔

25۔ سو وہ چلی اور کوہِ کِرمل کو مردِ خدا کے پاس گئی۔ اْس مردِ خدا نے دور سے اْسے دیکھ کر اپنے خادم جیحازی سے کہا دیکھ اْدھر وہ شونیمی عورت ہے۔

26۔ اب ذرا اْس کے استقبال کو دوڑ جا اور اْس سے پْوچھ کیا تْو خیریت سے ہے؟ تیرا شوہر خیریت سے ہے؟ بچہ خیریت سے ہے؟ اْس نے جواب دیا خیریت ہے۔

32۔ جب الیشع اْس گھر میں آیا تو دیکھو وہ لڑکا مرا ہوا اْس کے پلنگ پر پڑا تھا۔

33۔ سو وہ اندر گیا اور دروازہ بند کر کے خداوند سے دعا کی۔

34۔ اور اوپر چڑھ کر اْس بچے پر لیٹ گیا اور اْس کے منہ پر اپنا منہ اور اْس کی آنکھوں پر اپنی آنکھیں اور اْس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ لئے اور اْس کے اوپر پسر گیا۔ تب اْس بچے کا جسم گرم ہونے لگا۔

35۔ پھر وہ اٹھ کر اْس گھر میں ایک بار ٹہلا اور اوپر چڑھ کر اْس بچے کے اوپر پسر گیا اوروہ بچہ سات بار چھینکا اور بچے نے آنکھیں کھول دیں۔

36۔ تب اْس نے جیحازی کو بلا کر کہا اْس شونیمی عورت کو بلا لے سو اْس نے اْسے بلایا اور جب وہ اْس کے پاس آئی تو اْس نے اْس سے کہا اپنے بیٹے کو اٹھا لے۔

37۔ تب وہ اندر جا کر اْس کے قدموں پر گری اور زمین پر سر نگوں ہوگئی پھر اپنے بیٹے کو اٹھا کر باہر چلی گئی۔

2. II Kings 4 : 8, 12 (to 1st .), 14, 15 (And when), 16-26, 32-37

8     And it fell on a day, that Elisha passed to Shunem, where was a great woman; and she constrained him to eat bread. And so it was, that as oft as he passed by, he turned in thither to eat bread.

12     And he said to Gehazi his servant, Call this Shunammite.

14     And he said, What then is to be done for her? And Gehazi answered, Verily she hath no child, and her husband is old.

15     And when he had called her, she stood in the door.

16     And he said, About this season, according to the time of life, thou shalt embrace a son. And she said, Nay, my lord, thou man of God, do not lie unto thine handmaid.

17     And the woman conceived, and bare a son at that season that Elisha had said unto her, according to the time of life.

18     And when the child was grown, it fell on a day, that he went out to his father to the reapers.

19     And he said unto his father, My head, my head. And he said to a lad, Carry him to his mother.

20     And when he had taken him, and brought him to his mother, he sat on her knees till noon, and then died.

21     And she went up, and laid him on the bed of the man of God, and shut the door upon him, and went out.

22     And she called unto her husband, and said, Send me, I pray thee, one of the young men, and one of the asses, that I may run to the man of God, and come again.

23     And he said, Wherefore wilt thou go to him to day? it is neither new moon, nor sabbath. And she said, It shall be well.

24     Then she saddled an ass, and said to her servant, Drive, and go forward; slack not thy riding for me, except I bid thee.

25     So she went and came unto the man of God to mount Carmel. And it came to pass, when the man of God saw her afar off, that he said to Gehazi his servant, Behold, yonder is that Shunammite:

26     Run now, I pray thee, to meet her, and say unto her, Is it well with thee? is it well with thy husband? is it well with the child? And she answered, It is well.

32     And when Elisha was come into the house, behold, the child was dead, and laid upon his bed.

33     He went in therefore, and shut the door upon them twain, and prayed unto the Lord.

34     And he went up, and lay upon the child, and put his mouth upon his mouth, and his eyes upon his eyes, and his hands upon his hands: and he stretched himself upon the child; and the flesh of the child waxed warm.

35     Then he returned, and walked in the house to and fro; and went up, and stretched himself upon him: and the child sneezed seven times, and the child opened his eyes.

36     And he called Gehazi, and said, Call this Shunammite. So he called her. And when she was come in unto him, he said, Take up thy son.

37     Then she went in, and fell at his feet, and bowed herself to the ground, and took up her son, and went out.

3 . ۔ متی 14 باب14تا21 آیات

14۔ اْس نے اْتر کر بڑی بھیڑ دیکھی اور اْسے اْن پر بڑا ترس آیا اور اْس نے اْن کے بیماروں کو اچھا کر دیا۔

15۔ اور جب شام ہوئی تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آکر کہنے لگے کہ جگہ ویران ہے اور وقت گزر گیا ہے۔ لوگوں کو رخصت کردے تاکہ گاؤں میں جا کر اپنے لئے کھانا مول لیں۔

16۔ یسوع نے اْن سے کہا اِن کا جانا ضرور نہیں۔ تم ہی اِن کو کھانے کو دو۔

17۔ اْنہوں نے اْس سے کہا کہ یہاں ہمارے پاس پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔

18۔ اْس نے اْن سے کہا وہ یہاں میرے پاس لے آؤ۔

19۔ اور اْس نے لوگوں کو گھاس پر بیٹھنے کا حکم دیا۔ پھر اْس نے وہ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں لیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر برکت دی اور روٹیاں توڑ کر شاگردوں کو دیں اور شاگردوں نے لوگوں کو۔

20۔ اور سب کھا کر سیر ہو گئے اور اْنہوں نے بچے ہوئے ٹکڑوں سے بھری ہوئی بارہ ٹوکریاں اْٹھائیں۔

21۔ اور کھانے والے عورتوں اور بچوں کے سوا پانچ ہزار مرد کے قریب تھے۔

3. Matthew 14 : 14-21

14     And Jesus went forth, and saw a great multitude, and was moved with compassion toward them, and he healed their sick.

15     And when it was evening, his disciples came to him, saying, This is a desert place, and the time is now past; send the multitude away, that they may go into the villages, and buy themselves victuals.

16     But Jesus said unto them, They need not depart; give ye them to eat.

17     And they say unto him, We have here but five loaves, and two fishes.

18     He said, Bring them hither to me.

19     And he commanded the multitude to sit down on the grass, and took the five loaves, and the two fishes, and looking up to heaven, he blessed, and brake, and gave the loaves to his disciples, and the disciples to the multitude.

20     And they did all eat, and were filled: and they took up of the fragments that remained twelve baskets full.

21     And they that had eaten were about five thousand men, beside women and children.

4 . ۔ لوقا 20 باب1 آیت

1۔ اْن دنوں میں ایک روز ایسا ہوا کہ جب وہ ہیکل میں لوگوں کو تعلیم اور خوشخبری دے رہا تھا تو سردار کاہن اور فقیہ بزرگوں کے ساتھ اْس کے پاس آکھڑے ہوئے۔

4. Luke 20 : 1

1     And it came to pass, that on one of those days, as he taught the people in the temple, and preached the gospel, the chief priests and the scribes came upon him with the elders,

5 . ۔ لوقا 21 باب1تا4 آیات

1۔ پھر اْس نے آنکھ اٹھا کر اْن دولت مندوں کو دیکھا جو اپنی نذروں کے روپے ہیکل کے خزانہ میں ڈال رہے تھے۔

2۔ اور ایک کنگال بیوہ کو بھی اْس میں دو دمڑیاں ڈالتے دیکھا۔

3۔ اِس پر اْس نے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اِس کنگال بیوہ نے سب سے زیادہ ڈالا۔

4۔ کیونکہ اْن سب نے اپنے مال کی بہتات سے نذر کا چندہ ڈالا مگر اِس نے اپنی ناداری کے حالت میں جتنی روزی اْس کے پاس تھی سب ڈال دی۔

5. Luke 21 : 1-4

1     And he looked up, and saw the rich men casting their gifts into the treasury.

2     And he saw also a certain poor widow casting in thither two mites.

3     And he said, Of a truth I say unto you, that this poor widow hath cast in more than they all:

4     For all these have of their abundance cast in unto the offerings of God: but she of her penury hath cast in all the living that she had.

6 . ۔ زبور 147: 5، 10، 11، 14 آیات

5۔ ہمارا خداوند بزرگ اور قدرت میں عظیم ہے۔ اْس کے فہم کی انتہا نہیں۔

10۔ گھوڑے کے زور میں اْس کی خوشنودی نہیں۔ نہ آدمی کی ٹانگوں سے اْسے کوئی خوشی ہے۔

11۔ خداوند اْن سے خوش ہے جو اْس سے ڈرتے ہیں۔ اور اْن سے جو اْس کی شفقت کے امیدوار ہیں۔

14۔ وہ تیری حدود میں امن رکھتا ہے۔ وہ تجھے اچھے سے اچھے گیہوں سے آسودہ کرتا ہے۔

6. Psalm 147 : 5, 10, 11, 14

5     Great is our Lord, and of great power: his understanding is infinite.

10     He delighteth not in the strength of the horse: he taketh not pleasure in the legs of a man.

11     The Lord taketh pleasure in them that fear him, in those that hope in his mercy.

14     He maketh peace in thy borders, and filleth thee with the finest of the wheat.

7 . ۔ فلپیوں 4 باب19 (میرا)، 20 آیات

19۔ ۔۔۔میرا خدا اپنی دولت کے موافق جلال سے مسیح یسوع میں تمہاری ہر ایک احتیاج رفع کرے گا۔

20۔ ہمارے خدا اور باپ کی ابد الا باد تمجید ہوتی رہے۔ آمین۔

7. Philippians 4 : 19 (my), 20

19     …my God shall supply all your need according to his riches in glory by Christ Jesus.

20     Now unto God and our Father be glory for ever and ever. Amen.



سائنس اور صح


1 . ۔ 468 :16۔24

سوال۔ مواد کیا ہے؟

جواب۔ مواد وہ ہے جو ابدی ہے اور نیست ہونے اور مخالفت سے عاجز ہے۔ سچائی، زندگی اور محبت مواد ہیں، جیسے کہ کلام عبرانیوں میں یہ الفاظ استعمال کرتا ہے: ”ایمان اْمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔“روح، جو فہم،جان، یا خدا کا مترادف لفظ ہے، واحد حقیقی مواد ہے۔ روحانی کائنات، بشمول انفرادی انسان، ایک مشترک خیال ہے، جو روح کے الٰہی مواد کی عکاسی کرتا ہے۔

1. 468 : 16-24

Question. — What is substance?

Answer. — Substance is that which is eternal and incapable of discord and decay. Truth, Life, and Love are substance, as the Scriptures use this word in Hebrews: "The substance of things hoped for, the evidence of things not seen." Spirit, the synonym of Mind, Soul, or God, is the only real substance. The spiritual universe, including individual man, is a compound idea, reflecting the divine substance of Spirit.

2 . ۔ 335 :7 (روح)۔8 (تا دوسرا)،12۔15

روح، یعنی خدا نے سب کو خود سے اور خود میں بنایا۔ روح نے مادے کو کبھی نہیں بنایا۔۔۔۔روح ہی واحد مواد ہے، یعنی دیدہ اور نادیدہ لامحدود خدا۔ روحانی اور ابدی سب چیزیں حقیقی ہیں۔ مادی اور عارضی چیزیں غیر مادی ہیں۔

2. 335 : 7 (Spirit)-8 (to 2nd .), 12-15

Spirit, God, has created all in and of Himself. Spirit never created matter. … Spirit is the only substance, the invisible and indivisible infinite God. Things spiritual and eternal are substantial. Things material and temporal are insubstantial.

3 . ۔ 123 :11۔15

عقل کی سچائی حتمی طور پر دکھاتی ہے کہ مادہ کیسا دکھائی دیتا ہے، جبکہ وہ ایسا ہے نہیں۔ الٰہی سائنس، جسمانی نظریات کو بلند کرتے ہوئے، مادے کو منہا کرتی ہے، باتوں کو خیالات میں تبدیل کرتی ہے اور مادی فہم کی چیزوں کا روحانی خیالات کے ساتھ تبادلہ کرتی ہے۔

3. 123 : 11-15

The verity of Mind shows conclusively how it is that matter seems to be, but is not. Divine Science, rising above physical theories, excludes matter, resolves things into thoughts, and replaces the objects of material sense with spiritual ideas.

4 . ۔ 278 :3۔11 (تا دوسرا)، 28۔5

الٰہی مابعد الطبعیات مادے کی وضاحت کرتی ہے۔ روح الٰہی سائنس کا تسلیم شْدہ واحد مواد اور شعور ہے۔مادی حواس اِس کی مخالفت کرتے ہیں، مگر یہاں کوئی مادی حواس ہیں ہی نہیں کیونکہ مادے میں عقل نہیں ہے۔ روح میں کوئی مادا نہیں ہے، حتیٰ کہ جیسے سچائی میں کوئی غلطی نہیں، اور اچھائی میں کوئی بدی نہیں ہے۔ یہ ایک جھوٹا مفروضہ، تصور ہے کہ یہاں کوئی مادی مواد، روح کا مخالف ہے۔روح، خدا، لامحدود، سب کچھ ہے۔ روح کا کوئی مخالف نہیں ہوسکتا۔

وہ سب کچھ جس کے لئے ہم گناہ، بیماری اور موت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں فانی یقین ہے۔ ہم مادے کی تشریح بطور غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ زندگی، مواد اور شعور کے اْلٹ ہے۔ اگر روح حقیقی اور ابدی ہے تو مادہ، اپنی فانیت کے ہمراہ، حقیقی نہیں ہوسکتا۔ہماری نظر میں کیا چیز مواد ہونی چاہئے، غلطی، تبدیل ہونے والا اور فنا ہونے والا، قابل تغیر اور فانی، یا غلطی سے مبرا، ناقابل تغیر اور لافانی؟ نئے عہد نامے کا ایک مصنف تفصیل کے ساتھ ایمان یعنی عقل کے معیار کو ”امید کی ہوئی چیزوں کے اعتماد“ کے طور پر بیان کرتا ہے۔

4. 278 : 3-11 (to 2nd .), 28-5

Divine metaphysics explains away matter. Spirit is the only substance and consciousness recognized by divine Science. The material senses oppose this, but there are no material senses, for matter has no mind. In Spirit there is no matter, even as in Truth there is no error, and in good no evil. It is a false supposition, the notion that there is real substance-matter, the opposite of Spirit. Spirit, God, is infinite, all. Spirit can have no opposite.

All that we term sin, sickness, and death is a mortal belief. We define matter as error, because it is the opposite of life, substance, and intelligence. Matter, with its mortality, cannot be substantial if Spirit is substantial and eternal. Which ought to be substance to us, — the erring, changing, and dying, the mutable and mortal, or the unerring, immutable, and immortal? A New Testament writer plainly describes faith, a quality of mind, as "the substance of things hoped for."

5 . ۔ 23 :16۔20

ایمان، اگر یہ صرف عقیدہ ہے، تو یہ کسی چیز کے ہونے یا عدم کے مابین جھولتا ہوا ایک پینڈولم ہے، جس میں کوئی استقلال نہیں ہے۔ ایمان، روحانی سمجھ کی جانب گامزن، وہ ثبوت ہے جو روح سے حاصل کیا گیا ہو، جو ہر قسم کے گناہ کی مذمت کرتا اور خدا کے دعووں کو قیام بخشتا ہے۔

5. 23 : 16-20

Faith, if it be mere belief, is as a pendulum swinging between nothing and something, having no fixity. Faith, advanced to spiritual understanding, is the evidence gained from Spirit, which rebukes sin of every kind and establishes the claims of God.

6 . ۔ 206 :15۔31

انسان کے ساتھ خدا کے سائنسی تعلق میں، ہم دیکھتے ہیں کہ جو کوئی ایک کو برکت دیتا ہے وہ سب کو برکت دیتا ہے، جیسے یسوع نے روٹیوں اور مچھلیوں کے وسیلہ ظاہر کیا کہ مہیا کرنے کا وسیلہ روح ہے نہ کہ مادا۔

ایک ماں کو چند سالوں کے مختصر وقت کے لئے اْس کا بچہ سونپتے ہوئے اور پھر موت کے ذریعے اْسے واپس لیتے ہوئے کیا خدا بیماری بھیجتا ہے؟ جو کچھ خدا پہلے سے خلق کر چکا ہے کیا اْسے دوبارہ نیا کر رہا ہے؟ صحائف اِس نقطے پر یہ واضح کرتے ہوئے حتمی ہیں کہ اْس کا کام پورا ہوگیا تھا، خدا کے لئے کچھ بھی نیا نہیں ہے اور یہ سب اچھا تھا۔

کیا یہ انسان یعنی خدا کی روحانی شبیہ اور صورت کے لئے کوئی پیدائش یا موت ہو سکتی ہے؟بیماری اور موت کو بھیجنے کی بجائے خدا اِنہیں نیست کرتا ہے، اور معمولی لافانیت لاتا ہے۔قادر مطلق اور لامحدود عقل نے سب کچھ بنایا اور وہ سب کو شامل کرتا ہے۔یہ عقل غلطیا ں نہیں کرتی اور بعد میں اْن کی اصلاح نہیں کرتی۔خدا انسان کے گناہ کرنے، بیمار ہونے یا مرنے کا موجب نہیں بنتا۔

6. 206 : 15-31

In the scientific relation of God to man, we find that whatever blesses one blesses all, as Jesus showed with the loaves and the fishes, — Spirit, not matter, being the source of supply.

Does God send sickness, giving the mother her child for the brief space of a few years and then taking it away by death? Is God creating anew what He has already created? The Scriptures are definite on this point, declaring that His work was finished, nothing is new to God, and that it was good.

Can there be any birth or death for man, the spiritual image and likeness of God? Instead of God sending sickness and death, He destroys them, and brings to light immortality. Omnipotent and infinite Mind made all and includes all. This Mind does not make mistakes and subsequently correct them. God does not cause man to sin, to be sick, or to die.

7 . ۔ 475 :28 صرف

انسان گناہ، بیماری اور موت سے عاجز ہے۔

7. 475 : 28 only

Man is incapable of sin, sickness, and death.

8 . ۔ 300 :28۔29 اگلا صفحہ

کائنات الٰہی مواد یا عقل کی عکاسی کرتی یا ظاہر کرتی ہے، اِس لئے خدا صرف روحانی کائنات اور روحانی انسان میں ہی دکھائی دیتا ہے، جیسا کہ سورج روشنی کی اْسی کرن میں دکھائی دیتا ہے جو اِس سے خارج ہوتی ہے۔خدا صرف اْسی میں ظاہر ہوتا ہے جو زندگی، سچائی اور محبت کی عکاسی کرتا ہے، ہاں، جو خدا کی خصوصیات اور قدرت کو ظاہر کرتا ہے، جیسے کہ انسانی صورت آئینے میں دکھائی دیتی ہے، آئینے کے سامنے کھڑے شخص کے رنگ، شکل اور حرکات کو دوہراتی ہے۔

چند لوگوں نے غور کیا ہے کہ لفظ فکر کرنے سے کرسچن سائنس کی کیا مراد ہے۔ خود سے متعلق، مادی اور فانی انسان اپنے آپ کو مواد دکھائی دیتا ہے، مگر مواد کے اِس فہم میں غلطی ہے اور اسی لئے یہ مادی، عارضی ہے۔

دوسری طرف، لافانی، روحانی انسان حقیقی ذات ہے، اور یہ ابدی مواد یا روح سے متعلق غور کرتا ہے، جس کی بشر امید کرتے ہیں۔وہ اْس الٰہی پر غور کرتا ہے، جو واحد حقیقی اور ابدی الوہیت جاری رکھتا ہے۔یہ فکر فانی فہم کے لئے غیر واضع دکھائی دیتی ہے، کیونکہ روحانی انسان کی اصلیت انسانی بصیرت کو واضح کرتی ہے اور یہ محض الٰہی سائنس کے وسیلہ ظاہر کی جاتی ہے۔

جیسا کہ خدا اصل ہے اور انسان الٰہی صورت اور شبیہ ہے، تو انسان کو صرف اچھائی کے اصل، روح کے اصل نہ کہ مادے کی خواہش رکھنی چاہئے، اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہے۔یہ عقیدہ روحانی نہیں ہے کہ انسان کے پاس کوئی دوسرا مواد یا عقل ہے،اور یہ پہلے حکم کو توڑتا ہے کہ تْو ایک خدا، ایک عقل کو ماننا۔ مادی انسان خود کو مادی مواد دکھائی دیتا ہے، جبکہ انسان ”شبیہ“ (خیال) ہے۔فریب نظری، گناہ، بیماری اور موت مادی فہم کی جھوٹی گواہی سے جنم لیتے ہیں، جو لا محدود روح کے مرکزی فاصلے سے باہر ایک فرضی نظریے سے، عقل اور اصل کی پلٹی ہوئی تصویر پیش کرتی ہے، جس میں ہر چیز اوپر سے نیچے اْلٹ ہوئی ہوتی ہے۔

8. 300 : 28-29 next page

The universe reflects and expresses the divine substance or Mind; therefore God is seen only in the spiritual universe and spiritual man, as the sun is seen in the ray of light which goes out from it. God is revealed only in that which reflects Life, Truth, Love, — yea, which manifests God's attributes and power, even as the human likeness thrown upon the mirror, repeats the color, form, and action of the person in front of the mirror.

Few persons comprehend what Christian Science means by the word reflection. To himself, mortal and material man seems to be substance, but his sense of substance involves error and therefore is material, temporal.

On the other hand, the immortal, spiritual man is really substantial, and reflects the eternal substance, or Spirit, which mortals hope for. He reflects the divine, which constitutes the only real and eternal entity. This reflection seems to mortal sense transcendental, because the spiritual man's substantiality transcends mortal vision and is revealed only through divine Science.

As God is substance and man is the divine image and likeness, man should wish for, and in reality has, only the substance of good, the substance of Spirit, not matter. The belief that man has any other substance, or mind, is not spiritual and breaks the First Commandment, Thou shalt have one God, one Mind. Mortal man seems to himself to be material substance, while man is “image" (idea). Delusion, sin, disease, and death arise from the false testimony of material sense, which, from a supposed standpoint outside the focal distance of infinite Spirit, presents an inverted image of Mind and substance with everything turned upside down.

9 . ۔ 516 :2۔8

جیسے آئینے میں آپ کا عکس دکھائی دیتا ہے، ویسے ہی روحانی ہوتے ہوئے آپ خدا کا عکس ہیں۔ مواد، زندگی، ذہانت، سچائی اور محبت جو خدائے واحد کو متعین کرتے ہیں، اْس کی مخلوق سے منعکس ہوتے ہیں؛ اور جب ہم جسمانی حواس کی جھوٹی گواہی کو سائنسی حقائق کے ماتحت کر دیتے ہیں، تو ہم اس حقیقی مشابہت اور عکس کوہرطرف دیکھیں گے۔

9. 516 : 2-8

As the reflection of yourself appears in the mirror, so you, being spiritual, are the reflection of God. The substance, Life, intelligence, Truth, and Love, which constitute Deity, are reflected by His creation; and when we subordinate the false testimony of the corporeal senses to the facts of Science, we shall see this true likeness and reflection everywhere.

10 . ۔ 494 :10۔14

الٰہی محبت نے ہمیشہ انسانی ضرورت کو پورا کیا ہے اور ہمیشہ پورا کرے گی۔ اس بات کا تصور کرنا مناسب نہیں کہ یسوع نے محض چند مخصوص تعداد میں یا محدود عرصے تک شفا دینے کے لئے الٰہی طاقت کا مظاہرہ کیا، کیونکہ الٰہی محبت تمام انسانوں کے لئے ہر لمحہ سب کچھ مہیا کرتی ہے۔

10. 494 : 10-14

Divine Love always has met and always will meet every human need. It is not well to imagine that Jesus demonstrated the divine power to heal only for a select number or for a limited period of time, since to all mankind and in every hour, divine Love supplies all good.

11 . ۔ 578 :5، 16۔18

]الٰہی محبت[ میرا چوپان ہے؛ مجھے کمی نہ ہوگی۔

یقیناً بھلائی اور رحمت عمر بھر میرے ساتھ رہیں گی میں ہمیشہ ]محبت[ کے گھر میں ]شعور میں [ سکونت کروں گا۔

11. 578 : 5, 16-18

[Divine love] is my shepherd; I shall not want.

Surely goodness and mercy shall follow me all the days of my life; and I will dwell in the house [the consciousness] of [love] for ever.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████