اتوار 12 مئی ، 2024
”تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔“
“Ye must be born again.”
1۔پس مَیں جو خداوند میں قیدی ہوں تم سے التماس کرتا ہوں کہ جس بلاوے سے تم بلائے گئے تھے اْس کے لائق چال چلو۔
2۔ یعنی کمال فروتنی یعنی حلم کے ساتھ تحمل کر کے محبت سے ایک دوسرے کی برداشت کرو۔
14۔ تاکہ ہم آگے کو بچے نہ رہیں اور آدمیوں کی بازیگری اورمکاری کے سبب اْن کے گمراہ کرنے والے منصوبوں کی طرف ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اچھلتے بہتے نہ پھریں۔
15۔ بلکہ محبت کے ساتھ سچائی پر قائم رہ کر اور اْس کے ساتھ جو سر ہے یعنی مسیح کے ساتھ پیوستہ ہوکر ہر طرح سے بڑھتے جائیں۔
22۔ کہ تم اپنے اگلے چال چلن کی پرانی انسانیت کو اتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔
23۔ اور اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے بنتے جاؤ۔
24۔ اور نئی انسانیت کو پہنو جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔
1. I therefore, the prisoner of the Lord, beseech you that ye walk worthy of the vocation wherewith ye are called,
2. With all lowliness and meekness, with longsuffering, forbearing one another in love;
14. That we henceforth be no more children, tossed to and fro, and carried about with every wind of doctrine, by the sleight of men, and cunning craftiness, whereby they lie in wait to deceive;
15. But speaking the truth in love, may grow up into him in all things, which is the head, even Christ:
22. That ye put off concerning the former conversation the old man, which is corrupt according to the deceitful lusts;
23. And be renewed in the spirit of your mind;
24. And that ye put on the new man, which after God is created in righteousness and true holiness.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا۔
26۔ پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔
27۔ اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اْس کو پیدا کیا۔ نر اور ناری اْن کو پیدا کیا۔
28۔ خدا نے اْن کو برکت دی۔
31۔ اور خدا نے سب پر جو اْس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔
1 In the beginning God created the heaven and the earth.
26 And God said, Let us make man in our image, after our likeness:
27 So God created man in his own image, in the image of God created he him; male and female created he them.
28 And God blessed them,
31 And God saw every thing that he had made, and, behold, it was very good.
1۔ سو آسمان اور زمین اور اْن کے کْل لشکر کا بنانا ختم ہوا۔
6۔ بلکہ زمین سے کْہر اٹھتی تھی اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی۔
7۔ اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اْس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھْونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔
1 Thus the heavens and the earth were finished, and all the host of them.
6 But there went up a mist from the earth, and watered the whole face of the ground.
7 And the Lord God formed man of the dust of the ground, and breathed into his nostrils the breath of life; and man became a living soul.
1۔ اے خداوند! تْو میرا خدا ہے۔ مَیں تیری تمجید کروں گا۔ تیرے نام کی ستائش کروں گا کیونکہ تْو نے عجیب کام کئے ہیں۔
6۔ اور رب الافواج اِس پہاڑ پر سب قوموں کے لئے فربہ چیزوں سے ایک ضیافت تیار کرے گا بلکہ ایک ضیافت تلچھٹ پر سے نتھری ہوئی مے سے۔ ہاں فربہ چیزوں سے جو پْر مغز ہوں اور مے سے جو تلچھٹ پر سے خوب نتھری ہوئی ہو۔
7۔ اور وہ اِس پہاڑ پر اِس پردہ کو جو تمام لوگوں پر گر پڑا اور اْس نقاب کو جو سب قوموں پر لٹک رہا ہے دور کرے گا۔
1 O Lord, thou art my God; I will exalt thee, I will praise thy name; for thou hast done wonderful things; thy counsels of old are faithfulness and truth.
6 And in this mountain shall the Lord of hosts make unto all people a feast of fat things, a feast of wines on the lees, of fat things full of marrow, of wines on the lees well refined.
7 And he will destroy in this mountain the face of the covering cast over all people, and the vail that is spread over all nations.
6۔ایک آدمی یوحنا نام آموجود ہوا جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔
7۔ یہ گواہی کے لئے آیا کہ نور کی گواہی دے تاکہ سب اُس کے وسیلہ سے ایمان لائیں۔
8۔وہ خود تو نور نہ تھا مگرنور کی گواہی دینے آیا تھا۔
9۔حقیقی نور جو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے دنیا میں آنے کو تھا۔
10۔وہ دنیا میں تھا اور دنیا اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئی اور دنیا نے اُسے نہ پہچانا۔
11۔وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا۔
12۔لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر اِیمان لاتے ہیں۔
13۔ وہ نہ خون سے جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔
6 There was a man sent from God, whose name was John.
7 The same came for a witness, to bear witness of the Light, that all men through him might believe.
8 He was not that Light, but was sent to bear witness of that Light.
9 That was the true Light, which lighteth every man that cometh into the world.
10 He was in the world, and the world was made by him, and the world knew him not.
11 He came unto his own, and his own received him not.
12 But as many as received him, to them gave he power to become the sons of God, even to them that believe on his name:
13 Which were born, not of blood, nor of the will of the flesh, nor of the will of man, but of God.
14۔ اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اونچے پر چڑھایااْسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم بھی اونچے پر چڑھایا جائے۔
15۔ تاکہ جو کوئی ایمان لائے اْس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔
16۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔
17۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اْس کے وسیلہ سے نجات پائے۔
14 And as Moses lifted up the serpent in the wilderness, even so must the Son of man be lifted up:
15 That whosoever believeth in him should not perish, but have eternal life.
16 For God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.
17 For God sent not his Son into the world to condemn the world; but that the world through him might be saved.
12۔ پس ہم ایسی امید کر کے بڑی دلیری سے بولتے ہیں۔
13۔ اور موسیٰ کی طرح نہیں ہیں جس نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا تاکہ بنی اسرائیل اْس مٹنے والی چیز کے انجام کو نہ دیکھ سکیں۔
14۔ لیکن اْن کے خیالات کثیف ہوگئے کیونکہ آج تک پرانے عہد نامے کو پڑھتے وقت اْن کے دلوں پر وہی پردہ پڑا رہتا ہے اور وہ مسیح میں اْٹھ جاتا ہے۔
15۔ مگر آج تک جب کبھی موسیٰ کی کتاب پڑھی جاتی ہے تو اْن کے دل پر پردہ پڑا رہتا ہے۔
16۔ لیکن جب کبھی اْن کا دل خداوند کی طرف پھرے تو وہ پردہ اْٹھ جائے گا۔
17۔ اور وہ خداوند روح ہے اور جہاں کہیں خداوند کا روح ہے وہاں آزادی ہے۔
18۔ مگر جب ہم سب کے بے نقاب چہروں سے خداوند کا جلال اِس طرح منعکس ہوتا ہے جس طرح آئینہ میں تو اْس خداوند کے وسیلہ سے جو روح ہے ہم اْس جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں۔
12 Seeing then that we have such hope, we use great plainness of speech:
13 And not as Moses, which put a vail over his face, that the children of Israel could not stedfastly look to the end of that which is abolished:
14 But their minds were blinded: for until this day remaineth the same vail untaken away in the reading of the old testament; which vail is done away in Christ.
15 But even unto this day, when Moses is read, the vail is upon their heart.
16 Nevertheless when it shall turn to the Lord, the vail shall be taken away.
17 Now the Lord is that Spirit: and where the Spirit of the Lord is, there is liberty.
18 But we all, with open face beholding as in a glass the glory of the Lord, are changed into the same image from glory to glory, even as by the Spirit of the Lord.
1۔پس جب ہم ایمان سے راستباز ٹھہرے تو خدا کے ساتھ اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے صلح رکھیں۔
2۔جس کے وسیلہ سے ایمان کے سبب سے اُس فضل تک ہماری رسائی بھی ہوئی جس پر قائم ہیں اور خدا کے جلال کی امید پر فخر کریں۔
14۔ تو بھی آدم سے لے کر موسیٰ تک موت نے اْن پر بھی بادشاہی کی جنہوں نے اْس آدم کی نافرمانی کی طرح جو آنے والے کا مثیِل تھا گناہ نہ کیا تھا۔
17۔ کیونکہ جب ایک شخص کے گناہ کے سبب سے موت نے اْس ایک کے ذریعہ سے بادشاہی کی تو جو لوگ فضل اور بادشاہی کی بخشش افراط سے حاصل کرتے ہیں وہ ایک شخص یعنی یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی میں ضرور ہی بادشاہی کریں گے۔
18۔ غرض جیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فیصلہ ہوا جس کا نتیجہ سب آدمیوں کی سزا کا حکم تھا ویسا ہی راستبازی کے کام کے وسیلہ سے سب آدمیوں کو وہ نعمت ملی جس سے راستباز ٹھہر کر زندگی پائیں۔
19۔ کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گناہگار ٹھہرے اْسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے۔
20۔ اور بیچ میں شریعت آموجود ہوئی تاکہ گناہ زیادہ ہو جائے مگر جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اْس سے بھی زیادہ ہوا۔
21۔ تاکہ جس طرح گناہ نے موت کے سبب سے بادشاہی کی اْسی طرح فضل بھی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعہ سے بادشاہی کرے۔
1 Therefore being justified by faith, we have peace with God through our Lord Jesus Christ:
2 By whom also we have access by faith into this grace wherein we stand, and rejoice in hope of the glory of God.
14 Nevertheless death reigned from Adam to Moses, even over them that had not sinned after the similitude of Adam’s transgression, who is the figure of him that was to come.
17 For if by one man’s offence death reigned by one; much more they which receive abundance of grace and of the gift of righteousness shall reign in life by one, Jesus Christ.)
18 Therefore as by the offence of one judgment came upon all men to condemnation; even so by the righteousness of one the free gift came upon all men unto justification of life.
19 For as by one man’s disobedience many were made sinners, so by the obedience of one shall many be made righteous.
20 Moreover the law entered, that the offence might abound. But where sin abounded, grace did much more abound:
21 That as sin hath reigned unto death, even so might grace reign through righteousness unto eternal life by Jesus Christ our Lord.
22۔ اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے۔
22 For as in Adam all die, even so in Christ shall all be made alive.
1۔ پس جب ہم پر ایسا رحم ہوا کہ ہمیں یہ خدمت ملی تو ہم ہمت نہیں ہارتے۔
3۔ اور اگر ہماری خوشخبری پر پردہ پڑا ہے تو ہلاک ہونے والوں ہی کے واسطے پڑا ہے۔
4۔ یعنی اْن بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کواِس جہان کے خدانے اندھا کر دیا ہے تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اْس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی اْن پر نہ پڑے۔
6۔اِس لئے کہ خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکا تاکہ خداکے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو۔
1 Therefore seeing we have this ministry, as we have received mercy, we faint not;
3 But if our gospel be hid, it is hid to them that are lost:
4 In whom the god of this world hath blinded the minds of them which believe not, lest the light of the glorious gospel of Christ, who is the image of God, should shine unto them.
6 For God, who commanded the light to shine out of darkness, hath shined in our hearts, to give the light of the knowledge of the glory of God in the face of Jesus Christ.
ہستی کی حقیقت اور ترتیب کو اْس کی سائنس میں تھامنے کے لئے، وہ سب کچھ حقیقی ہے اْس کے الٰہی اصول کے طور پر آپ کو خدا کا تصور کرنے کی ابتدا کرنی چاہئے۔ روح، زندگی، سچائی، محبت یکسانیت میں جْڑ جاتے ہیں، اور یہ سب خدا کے روحانی نام ہیں۔سب مواد، ذہانت، حکمت، ہستی، لافانیت، وجہ اور اثر خْدا سے تعلق رکھتے ہیں۔
To grasp the reality and order of being in its Science, you must begin by reckoning God as the divine Principle of all that really is. Spirit, Life, Truth, Love, combine as one, — and are the Scriptural names for God. All substance, intelligence, wisdom, being, immortality, cause, and effect belong to God.
سائنس میں انسان روح کی اولاد ہے۔ اْس کا نسب خوبصورت، اچھائی اور پاکیزگی تشکیل دیتی ہے۔ اْس کا اصل، بشر کی مانند، وحشی جبلت میں نہیں اور نہ ہی وہ ذہانت تک پہنچنے سے پہلے مادی حالات سے گزرتا ہے۔ روح اْس کی ہستی کا ابتدائی اور اصلی منبع ہے؛ خدا اْس کا باپ ہے، اور زندگی اْس کی ہستی کا قانون ہے۔
In Science man is the offspring of Spirit. The beautiful, good, and pure constitute his ancestry. His origin is not, like that of mortals, in brute instinct, nor does he pass through material conditions prior to reaching intelligence. Spirit is his primitive and ultimate source of being; God is his Father, and Life is the law of his being.
فانی عقل مادی کو روحانی میں تبدیل کر دے گی، اور پھر انسان کی اصل خودی کو غلطی کی فانیت سے رہا کرنے کے لئے ٹھیک کرے گی۔ فانی لوگ غیر فانیوں کی مانند خدا کی صورت پر پیدا نہیں کئے گئے، بلکہ لامحدود روحانی ہستی کی مانند فانی ضمیر بالا آخر سائنسی حقیقت کو تسلیم کرے گا اور غائب ہو جائے گا،اور ہستی کا،کامل اور ہمیشہ سے برقرار حقیقی فہم سامنے آئے گا۔
Mortal mind would transform the spiritual into the material, and then recover man's original self in order to escape from the mortality of this error. Mortals are not like immortals, created in God's own image; but infinite Spirit being all, mortal consciousness will at last yield to the scientific fact and disappear, and the real sense of being, perfect and forever intact, will appear.
سائنس اْس لافانی انسان کے جلالی امکانات کو ظاہر کرتی ہے جو ہمیشہ کے لئے فانی حواس کی طرف سے لامحدود ہوتا ہے۔مسیحا کے اندر مسیحائی کے عنصر نے اْسے راہ دکھانے والا، سچائی اور زندگی بنایا۔
ابدی سچائی اِسے تباہ کرتی ہے جو بشر کو غلطی سے سیکھا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور بطور خدا کے فرزند انسان کی حقیقت روشنی میں آتی ہے۔ ظاہر کی گئی سچائی ابدی زندگی ہے۔ بشر جب تک یہ نہیں سیکھتا کہ خدا ہی واحد زندگی ہے، وہ غلطی کے عارضی ملبے، گناہ، بیماری اور موت کے عقیدے سے کبھی نہیں باہر آ سکتا۔بدن میں زندگی اور احساس اِس فہم کے تحت فتح کئے جانے چاہئیں جو انسان کو خدا کی شبیہ بناتا ہے۔پھر روح بدن پر فتح مند ہوگی۔
Science reveals the glorious possibilities of immortal man, forever unlimited by the mortal senses.
The eternal Truth destroys what mortals seem to have learned from error, and man's real existence as a child of God comes to light. Truth demonstrated is eternal life. Mortal man can never rise from the temporal débris of error, belief in sin, sickness, and death, until he learns that God is the only Life. The belief that life and sensation are in the body should be overcome by the understanding of what constitutes man as the image of God.
آدم نام اِس جھوٹے عقیدے کو پیش کرتا ہے کہ زندگی ابدی نہیں ہے، بلکہ اِس کا آغاز اور انجام ہے؛ کہ لامتناہی متناہی میں شامل ہوتا ہے، کہ ذہانت غیر ذہانت میں سے گزرتی ہے، اور کہ روح مادی فہم میں بستی ہے؛ کہ فانی عقل مادے کو اور مادا فانی عقل سے ماخوذ ہوتا ہے؛ کہ واحد خدا اور خالق اْس میں شامل ہوا جسے اْس نے خلق کیا اور پھر مادے کی غیر مذہبیت میں غائب ہوا۔
The name Adam represents the false supposition that Life is not eternal, but has beginning and end; that the infinite enters the finite, that intelligence passes into non-intelligence, and that Soul dwells in material sense; that immortal Mind results in matter, and matter in mortal mind; that the one God and creator entered what He created, and then disappeared in the atheism of matter.
آدم، جیسے کلام میں خاک سے بنا ہوا پیش کیا گیا ہے، انسانی عقل سے ایک کمتر چیزہے۔ آدم کی مانند مادی حواس، جو مادے سے پیدا ہوتے اور خاک میں لوٹ جاتے ہیں، غیر ذہین ثابت ہوئے ہیں۔ جیسے وہ اندر آتے ہیں ویسے ہی باہر جاتے ہیں، کیونکہ وہ ابھی بھی ہستی کی غلطی ہیں نہ کہ سچائی ہیں۔
Adam, represented in the Scriptures as formed from dust, is an object-lesson for the human mind. The material senses, like Adam, originate in matter and return to dust, — are proved non-intelligent. They go out as they came in, for they are still the error, not the truth of being.
پیدائش 2باب6 آیت: بلکہ زمین سے کْہر اٹھتی تھی اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی۔
الٰہی تخلیق کی سائنس اور سچائی کو پہلے سے پیش کردہ آیات میں بیان کیا جا چکا ہے، اور اب مخالف غلطی، تخلیق کا ایک مادی منظر، پیش کیا جانا ہے۔پیدائش کے دوسرے باب میں خدا اور کائنات کے اس مادی نظریے کا بیان پایا جاتا ہے، وہ بیان جو جیسے پہلے ریکارڈ ہوئی اْسی سائنسی سچائی کے عین متضاد ہے۔
Genesis ii. 6. But there went up a mist from the earth, and watered the whole face of the ground.
The Science and truth of the divine creation have been presented in the verses already considered, and now the opposite error, a material view of creation, is to be set forth. The second chapter of Genesis contains a statement of this material view of God and the universe, a statement which is the exact opposite of scientific truth as before recorded.
پہلاریکارڈ ساری طاقت اور حکمرانی خدا کو سونپتا ہے، اور انسان کو خدا کی کاملیت اور قوت سے شبیہ دیتا ہے۔دوسرا ریکارڈ انسان کو قابل تغیر اور لافانی، بطور اپنے دیوتا سے الگ ہوا اور اپنے ہی مدار میں گھومتا ہوا، تحریر کرتا ہے۔وجودیت کو، الوہیت سے الگ، سائنس بطور ناممکن واضح کر تی ہے۔
The first record assigns all might and government to God, and endows man out of God's perfection and power. The second record chronicles man as mutable and mortal, — as having broken away from Deity and as revolving in an orbit of his own. Existence, separate from divinity, Science explains as impossible.
مادے کی مخلوقات کْہر یا جھوٹے دعوے یا پْر اسراریت سے پیدا ہوتے ہیں نہ کہ آسمان یا اْس سمجھ سے پیدا ہوتے ہیں جو خدا سچ اور جھوٹ کے مابین کھڑا کرتا ہے۔غلطی میں ہر چیز نیچے سے آتی ہے اوپر سے نہیں۔ سب کچھ روح کے عکس کی بجائے مادی افسانہ ہے۔
The creations of matter arise from a mist or false claim, or from mystification, and not from the firmament, or understanding, which God erects between the true and false. In error everything comes from beneath, not from above. All is material myth, instead of the reflection of Spirit.
معروف الٰہیات انسانی تاریخ سے متعلق سمجھتی ہے کہ جیسے انسان نے مادی طور پر درست شروعات کی ہو، مگر وہ فوراً ذہنی گناہ میں پڑ گیا؛ جبکہ ظاہر کیا گیا مذہب عقل کی سائنس اور اْ س کی اشکال کی تبلیغ کرتا ہے کہ جیسے وہ پرانے عہد نامہ کے پہلے باب سے مطابقت رکھتے ہیں، جب خدا، یعنی عقل، نے کہا اور وہ ہوگیا۔
Popular theology takes up the history of man as if he began materially right, but immediately fell into mental sin; whereas revealed religion proclaims the Science of Mind and its formations as being in accordance with the first chapter of the Old Testament, when God, Mind, spake and it was done.
جو کچھ بھی انسان کے گناہ یا خدا کے مخالف یا خدا کی غیر موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے، وہ آدم کا خواب ہے، جو نہ ہی عقل ہے اورنہ انسان ہے، کیونکہ یہ باپ کا اکلوتا نہیں ہے۔
Whatever indicates the fall of man or the opposite of God or God's absence, is the Adam-dream, which is neither Mind nor man, for it is not begotten of the Father.
آدم وہ مثالی انسان نہیں تھا جس کے لئے زمین کو برکت دی گئی تھی۔مثالی انسان اپنے وقت پر ظاہر کیا گیا، اور اْسے بطور یسوع مسیح جانا جاتا تھا۔
Adam was not the ideal man for whom the earth was blessed. The ideal man was revealed in due time, and was known as Christ Jesus.
سچائی کے انفرادی نمونے کے طور پر، یسوع مسیح ربونی غلطی اور تمام گناہ، بیماری اور موت کو رد کرنے آیا، تاکہ سچائی اور زندگی کی راہ ہموار کرے۔روح کے پھلوں اور مادی فہم، سچائی اور غلطی کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے، یہ نمونہ یسوع کی پوری زمینی زندگی کے دوران ظاہر ہوتا رہا۔
As the individual ideal of Truth, Christ Jesus came to rebuke rabbinical error and all sin, sickness, and death, — to point out the way of Truth and Life. This ideal was demonstrated throughout the whole earthly career of Jesus, showing the difference between the offspring of Soul and of material sense, of Truth and of error.
خدا کے لوگوں سے متعلق، نہ کہ انسان کے بچوں سے متعلق، بات کرتے ہوئے یسوع نے کہا، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے؛“ یعنی سچائی اور محبت حقیقی انسان پر سلطنت کرتی ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انسان خدا کی صورت پر بے گناہ اور ابدی ہے۔ یسوع نے سائنس میں کامل آدمی کو دیکھا جو اْس پر وہاں ظاہر ہوا جہاں گناہ کرنے والا فانی انسان لافانی پر ظاہر ہوا۔ اس کامل شخص میں نجات دہندہ نے خدا کی اپنی شبیہ اور صورت کو دیکھا اور انسان کے اس درست نظریے نے بیمار کو شفا بخشی۔ لہٰذہ یسوع نے تعلیم دی کہ خدا برقرار اور عالمگیر ہے اور یہ کہ انسان پاک اور مقدس ہے۔
When speaking of God's children, not the children of men, Jesus said, "The kingdom of God is within you;" that is, Truth and Love reign in the real man, showing that man in God's image is unfallen and eternal. Jesus beheld in Science the perfect man, who appeared to him where sinning mortal man appears to mortals. In this perfect man the Saviour saw God's own likeness, and this correct view of man healed the sick. Thus Jesus taught that the kingdom of God is intact, universal, and that man is pure and holy.
جب ہم سائنس میں یہ سیکھ لیتے ہیں کہ ہم کامل کیسے بنیں جیسے ہمار ا آسمانی باپ کامل ہے، تو سوچ جدید اور صحتمند راستوں کی جانب، لافانی چیزوں کی فکرمندی کی طرف مڑ جاتی ہے اور بشمول ہم آہنگ انسان کائنات کے اصول کی مادیت سے دورہو جاتی ہے۔
When we learn in Science how to be perfect even as our Father in heaven is perfect, thought is turned into new and healthy channels, — towards the contemplation of things immortal and away from materiality to the Principle of the universe, including harmonious man.
مادیت کے روحانی مخالف کے تفہیم کے وسیلہ، حتیٰ کہ مسیح، حق کے وسیلہ، انسان اْس جنت کے دروازے الٰہی سائنس کی کنجی کے ساتھ دوبارہ کھولے گا جسے انسانی عقائد نے بند کر دیا ہے، اور وہ خود کو بے گناہ، راست، پاک اور آزاد پائے گا، اپنی زندگی یا موسم کے امکانات کے لئے تقویم سے صلاح لینے کی ضرورت نہ محسوس کرتے ہوئے، یہ جاننے کے لئے کہ اْس میں کتنی انسانیت ہے دماغی علوم کا مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے۔
Through discernment of the spiritual opposite of materiality, even the way through Christ, Truth, man will reopen with the key of divine Science the gates of Paradise which human beliefs have closed, and will find himself unfallen, upright, pure, and free, not needing to consult almanacs for the probabilities either of his life or of the weather, not needing to study brainology to learn how much of a man he is.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔