اتوار 13 اگست ، 2023



مضمون۔ جان

SubjectSoul

سنہری متن: امثال 16باب17 آیت

”راستکار آدمی کی شاہراہ یہ ہے کہ بدی سے بھاگے اوراپنی راہ کا نگہبان اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے۔“



Golden Text: Proverbs 16 : 17

The highway of the upright is to depart from evil: he that keepeth his way preserveth his soul.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: زبور 19: 1، 7تا10، 14 آیات


1۔ آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اْس کی دستکاری دکھاتی ہے۔

7۔ خداوند کی شریعت کامل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ خداوندکی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔

8۔ خداوند کے قوانین راست ہیں۔ وہ دِل کو فرحت پہنچاتے ہیں۔ خداوند کا حکم بے عیب ہے۔ وہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔

9۔ خداوند کا خوف پاک ہے۔ وہ ابد تک قائم رہتا ہے۔ خداوند کے احکام برحق اور بالکل راست ہیں۔

10۔ وہ سونے سے بلکہ بہت کندن سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔ وہ شہد سے بلکہ چھتے کے ٹپکوں سے بھی شیریں ہیں۔

11۔ نیز اْن سے تیرے بندے کو آگاہی ملتی ہے۔ اْن کو ماننے کا اجر بڑا ہے۔

14۔ میرے منہ کا کلام اور میرے دل کا خیال تیرے حضور مقبول ٹھہرے۔ اے خداوند! اے میرے چٹان اور میرے فدیہ دینے والے۔

Responsive Reading: Psalm 19 : 1, 7-10, 14

1.     The heavens declare the glory of God; and the firmament sheweth his handiwork.

7.     The law of the Lord is perfect, converting the soul: the testimony of the Lord is sure, making wise the simple.

8.     The statutes of the Lord are right, rejoicing the heart: the commandment of the Lord is pure, enlightening the eyes.

9.     The fear of the Lord is clean, enduring for ever: the judgments of the Lord are true and righteous altogether.

10.     More to be desired are they than gold, yea, than much fine gold: sweeter also than honey and the honeycomb.

14.     Let the words of my mouth, and the meditation of my heart, be acceptable in thy sight,

O Lord, my strength, and my redeemer.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 42: 5، 8 (خداوند) آیات

5۔ اے میری جان! تْو کیوں گری جاتی ہے؟ تْو اندر ہی اندر کیوں بے چین ہے؟ خدا سے اْمید رکھ کیونکہ اْس کے نجات بخش دیدار کی خاطر مَیں پھر اْس کی ستائش کروں گا۔

8۔۔۔۔ دن کو خداوند اپنی شفقت دکھائے گا۔ اور رات کو مَیں اْس کا گیت گاؤں گا بلکہ اپنی حیات کے خدا سے دعا کروں گا۔

1. Psalm 42 : 5, 8 (the Lord)

5     Why art thou cast down, O my soul? and why art thou disquieted in me? hope thou in God: for I shall yet praise him for the help of his countenance.

8     …the Lord will command his lovingkindness in the daytime, and in the night his song shall be with me, and my prayer unto the God of my life.

2 . ۔ 1 سیموئیل 16 باب1، 4 (تا)، 5 (اور اْن کو پاک کیا) تا 7، 11تا13 (تا پہلی) آیات

1۔ اور خداوند نے سیموئیل سے کہا تْو کب تک داؤد کے لئے غم کھاتا رہے گا جس حال کہ مَیں نے اْسے اسرائیل کا بادشاہ ہونے سے رد کردیا ہے؟ تْو اپنے سینگ میں تیل بھر اور جا۔ مَیں تجھے بیت الحمی یسی کے پاس بھیجتا ہوں کیونکہ مَیں نے اْس کے بیٹوں میں سے ایک اپنی طرف سے بادشاہ چنا ہے۔

4۔ اور سیموئیل نے وہی جو خداوند نے کہا تھا کیا اور وہ بیت الحم میں آیا۔

5۔ اور اْس نے یسی کو اور اْس کے بیٹوں کو پاک کیا اور اْن کو قربانی کی دعو ت دی۔

6۔ جب وہ آئے تو وہ الیاب کو دیکھ کر کہنے لگایقیناً خداوند کا ممسوخ اْس کے آگے ہے۔

7۔ پر خداوند نے سیموئیل سے کہا کہ تْو اْس کے چہرے اور اْس کے قد کی بلندی کو نہ دیکھ اِس لئے کہ مَیں نے اْسے ناپسند کیا ہے کیونکہ خداوند انسان کی مانند نظر نہیں کرتا کہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر خداوند دل پر نظر کرتا ہے۔

11۔ پھر سیموئیل نے یسی سے پوچھا کیا تیرے لڑکے یہی ہیں؟ اْس نے کہا سب سے چھوٹا ابھی رہ گیا۔

12۔ سو وہ اْسے بلوا کر اندر لایا وہ سرخ رنگ اور خوبصورت اور حسین تھا اور خداوند نے فرمایا اٹھ اور اْسے مسح کر کیونکہ وہ یہی ہے۔

13۔ تب سیموئیل نے تیل کا سینگ لیا اور اْسے اْس کے بھائیوں کے درمیان مسح کیا اور خداوند کی روح اْس دن سے آگے کو داؤد پر زور سے نازل ہوتی رہی۔

2. I Samuel 16 : 1, 4 (to .), 5 (And he sanctified)-7, 11-13 (to 1st .)

1     And the Lord said unto Samuel, How long wilt thou mourn for Saul, seeing I have re-jected him from reigning over Israel? fill thine horn with oil, and go, I will send thee to Jesse the Beth-lehemite: for I have provided me a king among his sons.

4     And Samuel did that which the Lord spake, and came to Beth-lehem.

5     And he sanctified Jesse and his sons, and called them to the sacrifice.

6     And it came to pass, when they were come, that he looked on Eliab, and said, Surely the Lord’s anointed is before him.

7     But the Lord said unto Samuel, Look not on his countenance, or on the height of his stature; because I have refused him: for the Lord seeth not as man seeth; for man looketh on the outward appearance, but the Lord looketh on the heart.

11     And Samuel said unto Jesse, Are here all thy children? And he said, There remaineth yet the youngest, and, behold, he keepeth the sheep. And Samuel said unto Jesse, Send and fetch him: for we will not sit down till he come hither.

12     And he sent, and brought him in. Now he was ruddy, and withal of a beautiful countenance, and goodly to look to. And the Lord said, Arise, anoint him: for this is he.

13     Then Samuel took the horn of oil, and anointed him in the midst of his brethren: and the Spirit of the Lord came upon David from that day forward.

3 . ۔ 1 سیموئیل 17 باب55تا58 آیات

55۔ جب ساؤل نے داؤد کو اْس فِلستی کامقابلہ کرنے کے لئے جاتے دیکھا تو اْس نے لشکر کے سردار ابنیر سے پوچھا ابنیر یہ لڑکا کس کا بیٹا ہے؟ ابنیر نے کہا اے بادشاہ تیری جان کی قسم مَیں نہیں جانتا۔

56۔ تب بادشاہ نے کہا کہ تْو تحقیق کر کہ یہ نوجوان کس کا بیٹا ہے۔

57۔ اور جب داؤد اْس فِلستی کو قتل کر کے پھِرا تو ابنیر اْسے لے کر ساؤل کے پاس لایا اور فِلستی کا سر اْس کے ہاتھ میں تھا۔

58۔ تب ساؤل نے اْس سے کہا اے جوان تْو کس کابیٹا ہے؟ داؤد نے جواب دیا مَیں تیرے خادم بیت الحمی یسی کا بیٹا ہوں۔

3. I Samuel 17 : 55-58

55     And when Saul saw David go forth against the Philistine, he said unto Abner, the captain of the host, Abner, whose son is this youth? And Abner said, As thy soul liveth, O king, I cannot tell.

56     And the king said, Inquire thou whose son the stripling is.

57     And as David returned from the slaughter of the Philistine, Abner took him, and brought him before Saul with the head of the Philistine in his hand.

58     And Saul said to him, Whose son art thou, thou young man? And David answered, I am the son of thy servant Jesse the Beth-lehemite.

4 . ۔ 1 سیموئیل 18 باب1تا3، 12تا 15 آیات

1۔ جب وہ ساؤل سے باتیں کر چکا تو یونتن کا دل داؤد کے دل سے ایسا مل گیا کہ یونتن اْس سے اپنی جان کے برابر محبت کرنے لگا۔

2۔ اور ساؤل نے اْس دن سے اْسے اپنے پاس رکھا اور پھِر اْسے اْس کے باپ کے گھر جانے نہ دیا۔

3۔ اور یونتن اور داؤد نے باہم عہد کیا کیونکہ وہ اْس سے اپنی جان کے برابر محبت رکھتا تھا۔

12۔ سو ساؤل داؤد سے ڈرا کرتا تھا کیونکہ خداوند اْس کے ساتھ تھااور ساؤل سے جدا ہوگیا تھا۔

13۔ اِس لئے ساؤل نے اْسے اپنے پاس سے جدا کر کے اْسے ہزار جوانوں کا سردار بنا دیا اور وہ لوگوں کے سامنے آیا جایا کرتا تھا۔

14۔ اور داؤد اپنی سب راہوں میں دانائی کے ساتھ چلتا تھا اور خداوند اْس کے ساتھ تھا۔

15۔ جب ساؤل نے دیکھا کہ وہ عقل مندی سے کام کرتا ہے تو وہ اْس سے خوف کھانے لگا۔

4. I Samuel 18 : 1-3, 12-15

1     And it came to pass, when he had made an end of speaking unto Saul, that the soul of Jonathan was knit with the soul of David, and Jonathan loved him as his own soul.

2     And Saul took him that day, and would let him go no more home to his father’s house.

3     Then Jonathan and David made a covenant, because he loved him as his own soul.

12     And Saul was afraid of David, because the Lord was with him, and was departed from Saul.

13     Therefore Saul removed him from him, and made him his captain over a thousand; and he went out and came in before the people.

14     And David behaved himself wisely in all his ways; and the Lord was with him.

15     Wherefore when Saul saw that he behaved himself very wisely, he was afraid of him.

5 . ۔ 1 سیموئیل 19 باب1تا6 آیات

1۔ اور ساؤل نے اپنے بیٹے یونتن اور اپنے سب خادموں سے کہا کہ داؤد کو مار ڈالو۔

2۔ لیکن ساؤل کا بیٹا یونتن داؤد سے بہت خُوش تھا۔ سو یُونتن نے داؤد سے کہا میرا باپ تیرے قتل کی فکر میں ہے اس لئے تو صبح کو اپنا خیال رکھنا اور کسی پوشیدہ جگہ میں چھپے رہنا۔

3۔ اور میں باہر جا کر اس میدان میں جہاں تو ہوگا اپنے باپ کے پاس کھڑا ہونگا اور اپنے باپ سے تیری بابت گفتگو کرونگا اور اگر مجھے کچھ معلوم ہو جائے تو تجھے بتا دونگا۔

4۔ اور یونتن نے اپنے باپ ساؤل سے داؤد کی تعریف کی اور کہا کہ بادشاہ اپنے خادم داؤد سے بدی نہ کرے کیونکہ اس نے تیرا کچھ گناہ نہیں کیا بلکہ تیرے لئے اسکے کام بہت اچھے رہے ہیں۔

5۔کیونکہ اس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی اور اس فلستی کو قتل کیا اور خداوند نے سب اسرائیلیوں کے لئے بڑی فتح کرائی۔ تو نے یہ دیکھا اور خوش ہوا۔ پس تو کس لئے داؤد کو بے سبب قتل کرکے بے گناہ کے خون کا مجرم بننا چاہتا ہے؟

6۔ اور ساؤل نے یونتن کی بات سنی اور ساؤل نے قسم کھا کر کہا کہ خداوند کی حیات کی قسم ہے وہ مارا نہیں جائے گا۔

5. I Samuel 19 : 1-6

1     And Saul spake to Jonathan his son, and to all his servants, that they should kill David.

2     But Jonathan Saul’s son delighted much in David: and Jonathan told David, saying, Saul my father seeketh to kill thee: now therefore, I pray thee, take heed to thyself until the morning, and abide in a secret place, and hide thyself:

3     And I will go out and stand beside my father in the field where thou art, and I will commune with my father of thee; and what I see, that I will tell thee.

4     And Jonathan spake good of David unto Saul his father, and said unto him, Let not the king sin against his servant, against David; because he hath not sinned against thee, and because his works have been to thee-ward very good:

5     For he did put his life in his hand, and slew the Philistine, and the Lord wrought a great salvation for all Israel: thou sawest it, and didst rejoice: wherefore then wilt thou sin against innocent blood, to slay David without a cause?

6     And Saul hearkened unto the voice of Jonathan: and Saul sware, As the Lord liveth, he shall not be slain.

6 . ۔ مرقس 1باب14 (یسوع) آیت

14۔ یسوع نے گلیل میں آکر خدا کی بادشاہی کی منادی کی۔

6. Mark 1 : 14 (Jesus)

14     Jesus came into Galilee, preaching the gospel of the kingdom of God,

7 . ۔ مرقس 7 باب31 (نکل کر) تا 37 آیات

31۔۔۔۔وہ پھر صور کی سرحدوں سے نکل کر صیدا کی راہ سے دکپلس کی سرحدوں سے ہوتا ہوا گلیل کی جھیل پر پہنچا۔

32۔ اور لوگوں نے ایک بہرے کو جو ہکلا بھی تھا اْس کے پاس لا کر اْس کی منت کی کہ اپنا ہاتھ اْس پر رکھ۔

33۔ وہ اْس کو بھیڑ میں سے الگ لے گیا اور اپنی انگلیاں اْس کے کانوں میں ڈالیں اور تھوک کر اْس کی زبان چھوئی۔

34۔ اور آسمان کی طرف نظر کر کے ایک آہ بھری اور اْس سے کہا اِفتح یعنی کھل جا۔

35۔ اور اْس کے کان کھل گئے اور اْس کی زبان کی گِرہ کھل گئی اور وہ صاف بولنے لگا۔

36۔ اور اْس نے اْن کو حکم دیا کہ کسی سے نہ کہنا لیکن جتنا وہ اْن کو حکم دیتا رہا اْتنا ہی وہ چرچا کرتے رہے۔

37۔ اور اْنہوں نے نہایت ہی حیران ہوکر کہا جو کچھ اْس نے کیا سب اچھا ہے۔ وہ بہروں کو سننے کی اور گونگوں کو بولنے کی طاقت دیتا ہے۔

7. Mark 7 : 31 (departing)-37

31     …departing from the coasts of Tyre and Sidon, he came unto the sea of Galilee, through the midst of the coasts of Decapolis.

32     And they bring unto him one that was deaf, and had an impediment in his speech; and they beseech him to put his hand upon him.

33     And he took him aside from the multitude, and put his fingers into his ears, and he spit, and touched his tongue;

34     And looking up to heaven, he sighed, and saith unto him, Ephphatha, that is, Be opened.

35     And straightway his ears were opened, and the string of his tongue was loosed, and he spake plain.

36     And he charged them that they should tell no man: but the more he charged them, so much the more a great deal they published it;

37     And were beyond measure astonished, saying, He hath done all things well: he maketh both the deaf to hear, and the dumb to speak.

8 . ۔ متی 16 باب24تا27 آیات

24۔اُس وقت یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر کوئی میرے پِیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔

25۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا اسے پائے گا۔

26۔اور اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اٹھائے تو اسے کیا فائدہ ہوگا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے گا؟

27۔ کیونکہ ابن آدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئے گا۔ اُس وقت ہر ایک کو اُس کے کاموں کے مطابق بدلہ دے گا۔

8. Matthew 16 : 24-27

24     Then said Jesus unto his disciples, If any man will come after me, let him deny himself, and take up his cross, and follow me.

25     For whosoever will save his life shall lose it: and whosoever will lose his life for my sake shall find it.

26     For what is a man profited, if he shall gain the whole world, and lose his own soul? or what shall a man give in exchange for his soul?

27     For the Son of man shall come in the glory of his Father with his angels; and then he shall reward every man according to his works.



سائنس اور صح


1 . ۔ 140 :17۔18

روحانی عقیدت مسیحت کی جان ہے۔

1. 140 : 17-18

Spiritual devoutness is the soul of Christianity.

2 . ۔ 307 :25 (الوہیت)۔30

الٰہی فہم بشر کی جان ہے، اور انسان کو سب چیزوں پر حاکمیت عطا کرتا ہے۔ انسان کو مادیت کی بنیاد پر خلق نہیں کیا گیا اور نہ اسے مادی قوانین کی پاسداری کا حکم دیا گیا جو روح نے کبھی نہیں بنائے؛ اس کا صوبہ روحانی قوانین، فہم کے بلند آئین میں ہے۔

2. 307 : 25 (The divine)-30

The divine Mind is the Soul of man, and gives man dominion over all things. Man was not created from a material basis, nor bidden to obey material laws which Spirit never made; his province is in spiritual statutes, in the higher law of Mind.

3 . ۔ 335 :16 (جان)۔24

روح اور جان کے ایک ہونے سے، خدا اور جان ایک ہیں، اور یہ اتحاد کبھی بھی محدود عقل یا ایک محدود بدن میں شامل نہیں ہوتا۔ روح ابدی، الٰہی ہے۔روح، جان کے علاوہ زندگی کو کچھ بھی مرتب نہیں کر سکتا، کیونکہ روح باقی کسی بھی چیز سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ جان لافانی ہے، یہ فانیت میں وجود نہیں رکھتی۔ جان یقیناً روح بننے کے لئے غیر حقیقی ہوگی، کیونکہ روح محدود نہیں ہے۔روح سے متعلق جھوٹے فہم کو کھونے سے ہم زندگی کے ابدی راز پا سکتے ہیں جیسے لافانیت کو روشنی میں لایا جاتا ہے۔

3. 335 : 16 (Soul)-24

Soul and Spirit being one, God and Soul are one, and this one never included in a limited mind or a limited body. Spirit is eternal, divine. Nothing but Spirit, Soul, can evolve Life, for Spirit is more than all else. Because Soul is immortal, it does not exist in mortality. Soul must be incorporeal to be Spirit, for Spirit is not finite. Only by losing the false sense of Soul can we gain the eternal unfolding of Life as immortality brought to light.

4 . ۔ 482 :3۔12

انسانی سوچ نے اِس مفروضے کے تحت لفظ جان کے مفہوم کو ملاوٹ زدہ کردیا ہے کہ مادے میں رہتے ہوئے جان بدکار اور نیک ذہانت دونوں ہے۔جہاں معبود کے معنی مطلوب ہوں وہاں لفظ جان کا موزوں استعمال صرف لفظ خدا کے ساتھ تبادلہ کرنے سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ دیگر معاملات میں، فہم کا لفظ استعمال کریں تو آپ کو اِس کا سائنسی مفہوم میسر ہوگا۔ جیسے کہ کرسچن سائنس میں استعمال کیا گیا ہے،جان روح یا خدا کے لئے موزوں مترادف الفاظ ہیں؛ لیکن سائنس کے علاوہ، جان فہم کے ساتھ، مادی احساس کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔

4. 482 : 3-12

Human thought has adulterated the meaning of the word soul through the hypothesis that soul is both an evil and a good intelligence, resident in matter. The proper use of the word soul can always be gained by substituting the word God, where the deific meaning is required. In other cases, use the word sense, and you will have the scientific signification. As used in Christian Science, Soul is properly the synonym of Spirit, or God; but out of Science, soul is identical with sense, with material sensation.

5 . ۔ 590 :1۔3

آسمان کی بادشاہی۔ الٰہی سائنس میں ہم آہنگی کی سلطنت؛ غلطی نہ کرنے والے کی ریاست، ابدی اور قادر مطلق عقل، روح کا ماحول، جہاں جان اعلیٰ ہے۔

5. 590 : 1-3

Kingdom of Heaven. The reign of harmony in divine Science; the realm of unerring, eternal, and omnipotent Mind; the atmosphere of Spirit, where Soul is supreme.

6 . ۔ 390 :4۔11

ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ زندگی خود پرور ہے، اور ہمیں روح کی ابدی ہم آہنگی سے منکر نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ، بظاہر فانی احساسات میں اختلاف ہیں۔ یہ خدا، الٰہی اصول، سے ہماری نا واقفیت ہے جو ظاہری اختلاف کو جنم دیتی ہے، اور اس سے متعلق بہتر سوچ ہم آہنگی کو بحال کرتی ہے۔سچائی تفصیل میں ہمیں مجبور کرے گی کہ ہم سب خوشیوں اور دْکھوں کے فہم کا زندگی کی خوشیوں کے ساتھ تبادلہ کریں۔

6. 390 : 4-11

We cannot deny that Life is self-sustained, and we should never deny the everlasting harmony of Soul, simply because, to the mortal senses, there is seeming discord. It is our ignorance of God, the divine Principle, which produces apparent discord, and the right understanding of Him restores harmony. Truth will at length compel us all to exchange the pleasures and pains of sense for the joys of Soul.

7 . ۔ 488 :14۔31

سوال۔ کیا جسمانی حواسِ خمسہ انسان کو تشکیل دیتے ہیں؟

جواب۔ کرسچن سائنس لافانی ثبوت کے ساتھ کسی بھی مادی حس کے عدم امکان کو قائم کرتی ہے، اور اِن نام نہاد حواس کو بطور فانی عقائد واضح کرتی ہے، جس کی گواہی خواہ انسان کی یا اْس کے خالق کی طرف سے ہو سچ نہیں ہوسکتی۔جسمانی حواس روحانی حقیقت اور لافانیت کا ادراک نہیں کرسکتے۔اعصاب کے اندر کسی پودے کے ریشوں سے زیادہ احساس نہیں ہوتا، ماسوائے اْس کے جو ایمان اِنہیں عطا کرتا ہے۔عقل تمام تر فہم، ادراک اور استعداد کی ملکیت رکھتی ہے۔ اس لئے ذہنی صلاحتیں تنظیم سازی اورتعفن پذیری کے رحم کرم پر نہیں ہیں، وگرنہ اس کے کیڑے انسان کو نیست کر دیں۔ اگر انسان کے حقیقی حواس کے لئے زخمی ہونا ممکن ہوتا تو روح کو انہیں تمام تر کاملیت میں دوبارہ خلق کر دینا چاہئے؛ لیکن یہ خراب یا برباد نہیں کئے جا سکتے، کیونکہ یہ فانی عقل میں وجود رکھتے ہیں نہ کہ فانی مادے میں۔

7. 488 : 14-31

Question. — Do the five corporeal senses constitute man?

Answer. — Christian Science sustains with immortal proof the impossibility of any material sense, and defines these so-called senses as mortal beliefs, the testimony of which cannot be true either of man or of his Maker. The corporeal senses can take no cognizance of spiritual reality and immortality. Nerves have no more sensation, apart from what belief bestows upon them, than the fibres of a plant. Mind alone possesses all faculties, perception, and comprehension. Therefore mental endowments are not at the mercy of organization and decomposition, — otherwise the very worms could unfashion man. If it were possible for the real senses of man to be injured, Soul could reproduce them in all their perfection; but they cannot be disturbed nor destroyed, since they exist in immortal Mind, not in matter.

8 . ۔ 209 :31۔16

روحانی فہم خدا کو سمجھنے کی ایک با خبر، متواتر صلاحیت ہے۔یہ ایمان بذریعہ الفاظ کے اوپر ایمان بذریعہ اعمال کی برتری کو ظاہر کرتا ہے۔اِس کے خیالات صرف ”نئی زبانوں؛“ میں ظاہر ہوتے ہیں اور اِن کی تشریح روحانی اصل کے ترجمہ کی بدولت اْس زبان میں ہوتی ہے جسے انسانی سوچ سمجھ سکے۔

مسیحت کا اصول اور ثبوت روحانی فہم کے وسیلہ سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں یسوع کے اظہاروں کے سامنے رکھا جاتا ہے، اْس کے بیمار کو شفا دینے، بدروحوں کو نکالنے اور اْس موت یعنی جو ”سب سے پچھلا دْشمن ہے جسے نیست کیا جائے گا“، اِسے تباہ کرنے کے وسیلہ مادے اور اِس کے نام نہاد قوانین کے لئے اْس کی لاپروائی دکھاتے ہیں۔

یہ جانتے ہوئے کہ جان اور اْس کی خصوصیات ہمیشہ کے لئے انسان کے وسیلہ ظاہر کی جاتی رہی ہیں، مالک نے بیمار کو شفا دی، اندھے کو آنکھیں دیں، بہرے کو کان دئیے، لنگڑے کو پاؤں دئیے، یوں وہ انسانی خیالوں اور بدنوں پر الٰہی عقل کے سائنسی عمل کو روشنی میں لایااور انہیں جان اور نجات کی بہتر سمجھ عطا کی۔

8. 209 : 31-16

Spiritual sense is a conscious, constant capacity to understand God. It shows the superiority of faith by works over faith in words. Its ideas are expressed only in "new tongues;" and these are interpreted by the translation of the spiritual original into the language which human thought can comprehend.

The Principle and proof of Christianity are discerned by spiritual sense. They are set forth in Jesus' demonstrations, which show — by his healing the sick, casting out evils, and destroying death, "the last enemy that shall be destroyed," — his disregard of matter and its so-called laws.

Knowing that Soul and its attributes were forever manifested through man, the Master healed the sick, gave sight to the blind, hearing to the deaf, feet to the lame, thus bringing to light the scientific action of the divine Mind on human minds and bodies and giving a better understanding of Soul and salvation.

9 . ۔ 306 :7۔29

زندگی زندگی کو ہی ظاہر کرتی ہے۔جان کی لافانیت انسان کو لافانی بناتی ہے۔اگر خدا، جو زندگی ہے، اپنے عکس یعنی انسان سے ایک لمحے کے لئے الگ ہوجاتا، تو اْس لمحے کے دوران الوہیت منعکس ہرگز نہ ہوتی۔انا غیر مزکور ہوتی،اور باپ بے اولاد ہوتا، یعنی کوئی باپ نہ ہوتا۔

اگر زندگی اور جان اور اِس کا نمائندہ کار یعنی انسان کچھ عرصے کے لئے متحد ہوتے اورپھر طلاق کے قانون کے مطابق جدا ہو جاتے تاکہ مستقبل میں کسی نامعلوم وقت پرکسی نامعلوم انداز میں اْنہیں دوبارہ اکٹھا کیا جاسکے، اور یہ انسان کی عمومی مذہبی رائے ہوتی ہے، تو ہمیں لافانیت کے عقلی ثبوت کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا۔لیکن اگر انسان خداکا سایہ ہے تو انسان کو اچانک خدا سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذہ سائنس انسان کی وجودیت کے برقرار ہونے کو ثابت کرتی ہے۔

فانی سوچ کی ہزار ہا اشکال، جنہیں مادے کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے، نہ تو زیادہ منفرد ہیں اور نہ فانی حواس کے لئے حقیقی ہیں بہ نسبت اْس روحانی حس کے لئے جان کے ساتھ بنائی گئی اشکال، جو زندگی کو بطور مستقل سمجھتی ہیں۔ مادی حواس کی جھنجھلاتی گواہی کا پرسکون درمیان، سائنس، جو ابھی بھی تخت نشین ہے فانی بشر کے لئے ناقابل تغیر، ہم آہنگ، الٰہی اصول کے لئے افشاء ہے،کھْلی زندگی اور کائنات، ہمہ وقت موجود اور ابدی ہے۔

9. 306 : 7-29

Life demonstrates Life. The immortality of Soul makes man immortal. If God, who is Life, were parted for a moment from His reflection, man, during that moment there would be no divinity reflected. The Ego would be unexpressed, and the Father would be childless, — no Father.

If Life or Soul and its representative, man, unite for a period and then are separated as by a law of divorce to be brought together again at some uncertain future time and in a manner unknown, — and this is the general religious opinion of mankind, — we are left without a rational proof of immortality. But man cannot be separated for an instant from God, if man reflects God. Thus Science proves man's existence to be intact.

The myriad forms of mortal thought, made manifest as matter, are not more distinct nor real to the material senses than are the Soul-created forms to spiritual sense, which cognizes Life as permanent. Undisturbed amid the jarring testimony of the material senses, Science, still enthroned, is unfolding to mortals the immutable, harmonious, divine Principle, — is unfolding Life and the universe, ever present and eternal.

10 . ۔ 302 :19۔24

ہستی کی سائنس انسان کو کامل ظاہر کرتی ہے، حتیٰ کہ جیسا کہ باپ کامل ہے، کیونکہ روحانی انسان کی جان یا عقل خدا ہے، جو تمام تر مخلوقات کا الٰہی اصول ہے، اور یہ اس لئے کہ اس حقیقی انسان پر فہم کی بجائے روح کی حکمرانی ہوتی ہے، یعنی شریعت کی روح کی، نہ کہ نام نہاد مادے کے قوانین کی۔

10. 302 : 19-24

The Science of being reveals man as perfect, even as the Father is perfect, because the Soul, or Mind, of the spiritual man is God, the divine Principle of all being, and because this real man is governed by Soul instead of sense, by the law of Spirit, not by the so-called laws of matter.

11 . ۔ 9: 17۔24

”تو اپنے سارے دل، اپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔“ اس حکم میں بہت کچھ شامل ہے، حتیٰ کہ محض مادی احساس، افسوس اور عبادت۔ یہ مسیحت کا ایلڈوراڈو ہے۔ اس میں زندگی کی سائنس شامل ہے اور یہ روح پر الٰہی قابو کی شناخت کرتی ہے، جس میں ہماری روح ہماری مالک بن جاتی ہے اور مادی حس اور انسانی رضا کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔

11. 9 : 17-24

Dost thou "love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy mind"? This command includes much, even the surrender of all merely material sensation, affection, and worship. This is the El Dorado of Christianity. It involves the Science of Life, and recognizes only the divine control of Spirit, in which Soul is our master, and material sense and human will have no place.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔