اتوار 13 نومبر، 2022



مضمون۔ فانی اور لافانی

SubjectMortals and Immortals

سنہری متن: رومیوں 6 باب23 آیت

”خدا کی بخشش ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔“



Golden Text: Romans 6 : 23

The gift of God is eternal life through Jesus Christ our Lord.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: یوحنا 3 باب16تا21، 36 آیات


16۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

17۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اْس کے وسیلہ سے نجات پائے۔

18۔ جو اْس پر ایمان لاتا ہے اْس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا۔ جو اْس پر ایمان نہیں لاتا اْس پر سزا کا حکم ہو چکا۔ اس لئے کہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہیں لایا۔

19۔ اور سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ نور دنیا میں آیا ہے اور آدمیوں نے تاریکی کو نور سے زیادہ پسند کیا۔ اس لئے کہ اْن کے کام بْرے تھے۔

20۔ کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا۔ ایسا نہ ہو کہ اْس کے کاموں پر ملامت کی جائے۔

21۔ مگر جو سچائی پر عمل کرتا ہے وہ نور کے پاس آتا ہے تاکہ اْس کے کام ظاہر ہوں کہ وہ خدا میں کئے گئے ہیں۔

36۔ جو بیٹے پر ایمان لاتاہے ہمیشہ کی زندگی اْس کی ہے۔

Responsive Reading: John 3 : 16-21, 36

16.     For God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.

17.     For God sent not his Son into the world to condemn the world; but that the world through him might be saved.

18.     He that believeth on him is not condemned: but he that believeth not is condemned already, because he hath not believed in the name of the only begotten Son of God.

19.     And this is the condemnation, that light is come into the world, and men loved darkness rather than light, because their deeds were evil.

20.     For every one that doeth evil hateth the light, neither cometh to the light, lest his deeds should be reproved.

21.     But he that doeth truth cometh to the light, that his deeds may be made manifest, that they are wrought in God.

36.     He that believeth on the Son hath everlasting life.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 145: 1تا5، 10تا13 آیات

1۔ اے میرے خدا! اے بادشاہ! مَیں تیری تمجید کروں گا۔ اور ابدالاآباد تیرے نام کو مبارک کہوں گا۔

2۔ مَیں ہر روز تجھے مبارک کہوں گا۔ اور ابدالاآباد تیرے نام کی ستائش کروں گا۔

3۔ خداوند بزرگ اور بے حد ستائش کے لائق ہے۔اْس کی بزرگی ادراک سے باہر ہے۔

4۔ ایک پشت دوسری پشت سے تیرے کاموں کی تعریف اور تیری قدرت کے کاموں کا بیان کرے گی۔

5۔ مَیں تیری عظمت کی جلالی شان پر اور تیرے عجائب پر غور کروں گا۔

10۔ اے خداوند! تیری ساری مخلوق تیرا شکر کرے گی۔ اور تیرے مقدس تجھے مبارک کہیں گے۔

11۔ اور تیری سلطنت کے جلال کا بیان اور تیری قدرت کا چرچا کریں گے۔

12۔ تاکہ بنی آدم پر اْس کی قدرت کے کاموں کو اور اْس کی سلطنت کے جلال کی شان کو ظاہر کریں۔

13۔ تیری سلطنت ابدی سلطنت ہے۔ اور تیری حکومت پشت در پشت۔

1. Psalm 145 : 1-5, 10-13

1     I will extol thee, my God, O king; and I will bless thy name for ever and ever.

2     Every day will I bless thee; and I will praise thy name for ever and ever.

3     Great is the Lord, and greatly to be praised; and his greatness is unsearchable.

4     One generation shall praise thy works to another, and shall declare thy mighty acts.

5     I will speak of the glorious honour of thy majesty, and of thy wondrous works.

10     All thy works shall praise thee, O Lord; and thy saints shall bless thee.

11     They shall speak of the glory of thy kingdom, and talk of thy power;

12     To make known to the sons of men his mighty acts, and the glorious majesty of his kingdom.

13     Thy kingdom is an everlasting kingdom, and thy dominion endureth throughout all generations.

2 . ۔ یوحنا 12 باب44تا50 آیات

44۔ یسوع نے پکار کر کہا کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مجھ پر نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہے۔

45۔ اور جو مجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتا ہے۔

46۔ مَیں نور ہو کر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔

47۔ اگر کوئی میری باتیں سن کر اْن پر عمل نہ کرے تو مَیں اْس کو مجرم نہیں ٹھہراتا کیونکہ مَیں دنیا کو مجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دنیا کو نجات دینے آیا ہوں۔

48۔ جو مجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبول نہیں کرتا اْس کا ایک مجرم ٹھرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کیا ہے وہی اْسے مجرم ٹھہرائے گا۔

49۔ کیونکہ مَیں نے کچھ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اْسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ کیا کہوں اور کیا بولوں۔

50۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ اْس کا حکم ہمیشہ کی زندگی ہے۔ پس جو کچھ مَیں کہتا ہوں جس طرح باپ نے مجھ سے فرمایا ہے اْسی طر ح کہتا ہوں۔

2. John 12 : 44-50

44     Jesus cried and said, He that believeth on me, believeth not on me, but on him that sent me.

45     And he that seeth me seeth him that sent me.

46     I am come a light into the world, that whosoever believeth on me should not abide in darkness.

47     And if any man hear my words, and believe not, I judge him not: for I came not to judge the world, but to save the world.

48     He that rejecteth me, and receiveth not my words, hath one that judgeth him: the word that I have spoken, the same shall judge him in the last day.

49     For I have not spoken of myself; but the Father which sent me, he gave me a commandment, what I should say, and what I should speak.

50     And I know that his commandment is life everlasting: whatsoever I speak therefore, even as the Father said unto me, so I speak.

3 . ۔ لوقا 18 باب18تا30 آیات

18۔اورکسی سردار نے اْس سے یہ سوال کیا کہ اے نیک اْستاد! مَیں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟

19۔ یسوع نے اْس سے کہا تْو مجھے کیوں نیک کہتا ہے؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا۔

20۔ تْو حکموں کو تو جانتا ہے۔ زنا نہ کر۔ خون نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھوٹی گواہی نہ دے۔ اور اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کر۔

21۔ اْس نے کہا مَیں نے لڑکپن سے ان سب پر عمل کیا ہے۔

22۔ یسوع نے یہ سْن کر اْس سے کہا ابھی تک تجھ میں ایک بات کی کمی ہے۔ اپنا سب کچھ بیچ کر غریبوں میں بانٹ دے تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آکر میرے پیچھے ہو لے۔

23۔ یہ سْن کر وہ بڑا غمگین ہوا کیونکہ بہت دولتمند تھا۔

24۔ یسوع نے اْس کو دیکھ کر کہا کہ دولتمند کا خدا کی بادشاہی میں داخل ہونا کیسا مشکل ہے!

25۔ کیونکہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔

26۔ سننے والوں نے کہا تو پھر کون نجات پا سکتا ہے؟

27۔ اْس نے کہا جو انسان سے نہیں ہو سکتا وہ خدا سے ہو سکتا ہے۔

28۔ پطرس نے اْس سے کہا دیکھ ہم تو اپنا گھر بار چھوڑ کر تیرے پیچھے ہو لئے ہیں۔

29۔ اْس نے اْن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایسا کوئی نہیں جس نے گھر یا بیوی یا بھائیوں یا ماں باپ یا بچوں کو خدا کی بادشاہی کی خاطر چھوڑ دیا ہو۔

30۔ اور اِس زمانہ میں کئی گْنا زیادہ نہ پائے اور آنے والے عالم میں ہمیشہ کی زندگی۔

3. Luke 18 : 18-30

18     And a certain ruler asked him, saying, Good Master, what shall I do to inherit eternal life?

19     And Jesus said unto him, Why callest thou me good? none is good, save one, that is, God.

20     Thou knowest the commandments, Do not commit adultery, Do not kill, Do not steal, Do not bear false witness, Honour thy father and thy mother.

21     And he said, All these have I kept from my youth up.

22     Now when Jesus heard these things, he said unto him, Yet lackest thou one thing: sell all that thou hast, and distribute unto the poor, and thou shalt have treasure in heaven: and come, follow me.

23     And when he heard this, he was very sorrowful: for he was very rich.

24     And when Jesus saw that he was very sorrowful, he said, How hardly shall they that have riches enter into the kingdom of God!

25     For it is easier for a camel to go through a needle’s eye, than for a rich man to enter into the kingdom of God.

26     And they that heard it said, Who then can be saved?

27     And he said, The things which are impossible with men are possible with God.

28     Then Peter said, Lo, we have left all, and followed thee.

29     And he said unto them, Verily I say unto you, There is no man that hath left house, or parents, or brethren, or wife, or children, for the kingdom of God’s sake,

30     Who shall not receive manifold more in this present time, and in the world to come life everlasting.

4 . ۔ 1 تمیتھیس 6 باب17تا19 آیات

17۔ اِس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کہ مغرور نہ ہوں اور ناپائیدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر امید رکھیں جو ہمیں لطف اٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے۔

18۔ اور نیکی کریں اور اچھے کاموں میں دولتمند بنیں اور سخاوت پر تیار اور امداد پر مستعد ہوں۔

19۔ اور آئندہ کے لئے اپنے واسطے ایک اچھی بنیاد قائم کر رکھیں تاکہ حقیقی زندگی پر قبضہ کریں۔

4. I Timothy 6 : 17-19

17     Charge them that are rich in this world, that they be not highminded, nor trust in uncertain riches, but in the living God, who giveth us richly all things to enjoy;

18     That they do good, that they be rich in good works, ready to distribute, willing to communicate;

19     Laying up in store for themselves a good foundation against the time to come, that they may lay hold on eternal life.

5 . ۔ رومیوں 6 باب17(خدا) تا22 آیات

17۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اگرچہ تم گناہ کے غلام تھے تو بھی دل سے اْس تعلیم کے فرمانبردار ہوگئے جس کے سانچے میں تم ڈھالے گئے تھے۔

18۔ اور گناہ سے آزاد ہو کرراستبازی کے غلام ہوگئے۔

19۔ مَیں تمہاری انسانی کمزوری کے سبب سے انسانی طور پر کہتا ہوں۔ جس طرح تم نے اپنے اعضاء بدکاری کرنے کے لئے ناپاکی اور بدکاری کی غلامی کے حوالے کئے تھے اْسی طرح اب اپنے اعضاء پاک ہونے کے لئے راستبازی کی غلامی کے حوالے کر دو۔

20۔ کیونکہ جب تم گناہ کے غلام تھے تو راستبازی کے اعتبار سے آزاد تھے۔

21۔ پس جن باتوں سے اب تم شرمندہ ہو اْن سے تم اْس وقت کیا پھل پاتے تھے؟کیونکہ اْن کا انجام تو موت ہے۔

22۔ مگر اب گناہ سے آزاد اور خدا کے غلام ہو کر تم کو اپنا پھل ملا جس سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور اِس کا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے۔

5. Romans 6 : 17 (God)-22

17     God be thanked, that ye were the servants of sin, but ye have obeyed from the heart that form of doctrine which was delivered you.

18     Being then made free from sin, ye became the servants of righteousness.

19     I speak after the manner of men because of the infirmity of your flesh: for as ye have yielded your members servants to uncleanness and to iniquity unto iniquity; even so now yield your members servants to righteousness unto holiness.

20     For when ye were the servants of sin, ye were free from righteousness.

21     What fruit had ye then in those things whereof ye are now ashamed? for the end of those things is death.

22     But now being made free from sin, and become servants to God, ye have your fruit unto holiness, and the end everlasting life.

6 . ۔ 1 کرنتھیوں 15 باب50 تا57 آیات

50۔ اے بھائیو! میرا مطلب یہ ہے کہ گوشت اور خون خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہو سکتے اور نہ فنا بقا کی وارث ہو سکتی ہے۔

51۔ دیکھو میں تم سے بھید کی بات کہتا ہوں۔ ہم سب تو نہیں سوئیں گے مگر سب بدل جائیں گے۔

52۔ اور یہ ایک دم میں۔ ایک پل میں۔ پچھلا نرسنگا پھونکتے ہی ہوگا کیونکہ نرسنگا پھونکا جائے گا اور مردے غیر فانی حالت میں اْٹھیں گے اور ہم بدل جائیں گے۔

53۔ کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے اور مرنے والا جسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہنے۔

54۔ اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیات ِ ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوگا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لْقمہ ہو گئی۔

55۔ اے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟

56۔ موت کا ڈنک گناہ ہے اور گناہ کا زور شریعت ہے۔

57۔ مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔

6. I Corinthians 15 : 50-57

50     Now this I say, brethren, that flesh and blood cannot inherit the kingdom of God; neither doth corruption inherit incorruption.

51     Behold, I shew you a mystery; We shall not all sleep, but we shall all be changed,

52     In a moment, in the twinkling of an eye, at the last trump: for the trumpet shall sound, and the dead shall be raised incorruptible, and we shall be changed.

53     For this corruptible must put on incorruption, and this mortal must put on immortality.

54     So when this corruptible shall have put on incorruption, and this mortal shall have put on immortality, then shall be brought to pass the saying that is written, Death is swallowed up in victory.

55     O death, where is thy sting? O grave, where is thy victory?

56     The sting of death is sin; and the strength of sin is the law.

57     But thanks be to God, which giveth us the victory through our Lord Jesus Christ.



سائنس اور صح


1 . ۔ 42 :26 (میں)۔28

۔۔۔ کرسچن سائنس میں حقیقی انسان پر خدا یعنی اچھائی حکومت کرتی ہے نہ کہ بدی، اور اسی لئے وہ فانی نہیں بلکہ لافانی ہے۔

1. 42 : 26 (in)-28

…in Christian Science the true man is governed by God — by good, not evil — and is therefore not a mortal but an immortal.

2 . ۔ 295 :5۔15

خدا کائنات کو،بشمول انسان،خلق کرتا اور اْس پر حکومت کرتا ہے، یہ کائنات روحانی خیالات سے بھری پڑی ہے، جنہیں وہ تیار کرتا ہے، اور وہ اْس عقل کی فرمانبرداری کرتے ہیں جو انہیں بناتی ہے۔ فانی عقل مادی کو روحانی میں تبدیل کر دے گی، اور پھر انسان کی اصل خودی کو غلطی کی فانیت سے رہا کرنے کے لئے ٹھیک کرے گی۔ فانی لوگ غیر فانیوں کی مانند خدا کی صورت پر پیدا نہیں کئے گئے، بلکہ لامحدود روحانی ہستی کی مانند فانی ضمیر بالا آخر سائنسی حقیقت کو تسلیم کرے گا اور غائب ہو جائے گا،اور ہستی کا،کامل اور ہمیشہ سے برقرار حقیقی فہم سامنے آئے گا۔

2. 295 : 5-15

God creates and governs the universe, including man. The universe is filled with spiritual ideas, which He evolves, and they are obedient to the Mind that makes them. Mortal mind would transform the spiritual into the material, and then recover man's original self in order to escape from the mortality of this error. Mortals are not like immortals, created in God's own image; but infinite Spirit being all, mortal consciousness will at last yield to the scientific fact and disappear, and the real sense of being, perfect and forever intact, will appear.

3 . ۔ 190 :14۔20

انسانی پیدائش، بالیدگی، بلوغت اورزوال اْس گھاس کی مانند ہیں جو سبز پتوں کے ساتھ مٹی میں سے اگتی ہے، تاکہ بعد میں مرجھا ئے اور اپنے آبائی عدم میں لوٹ جائے۔ یہ فانی اظہار عارضی ہے، یہ لافانی ہستی میں کبھی ضم نہیں ہوتا، بلکہ بالاآخر ختم ہو جاتا ہے، اور فانی انسان، روحانی اور ابدی، حقیقی انسان ہی سمجھا جاتا ہے۔

3. 190 : 14-20

Human birth, growth, maturity, and decay are as the grass springing from the soil with beautiful green blades, afterwards to wither and return to its native nothingness. This mortal seeming is temporal; it never merges into immortal being, but finally disappears, and immortal man, spiritual and eternal, is found to be the real man.

4 . ۔ 476 :1۔5، 10۔20، 28۔32

بشر لافانیوں کا فریب ہیں۔ وہ بدکرداروں، یا بدوں کی اولاد ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان مٹی سے شروع ہوایا مادی ایمبریو کے طور پر پیدا ہوا ہے۔ الٰہی سائنس میں، خدااور حقیقی انسان الٰہی اصول اور خیال کی مانند ناقابل غیر مْنفک ہیں۔

خدا انسان کا اصول ہے، اور انسان خدا کا خیال ہے۔ لہٰذہ انسان نہ فانی ہے نہ مادی ہے۔فانی غائب ہو جائیں گے اور لافانی یا خدا کے فرزند انسان کی واحد اور ابدی سچائیوں کے طور پر سامنے آئیں گے۔ فانی بشر خدا کے گرائے گئے فرزند نہیں ہیں۔ وہ کبھی بھی ہستی کی کامل حالت میں نہیں تھے، جسے بعد ازیں دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔فانی تاریخ کے آغاز سے انہوں نے ”بدی میں حالت پکڑی اور گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑے۔“آخر کار فانیت غیر فانیت کے باعث ہڑپ کر لی جاتی ہے۔ جو حقائق غیر فانی انسان سے تعلق رکھتے ہیں انہیں جگہ فراہم کرنے کے لئے گناہ، بیماری اور موت کوغائب ہونا چاہئے۔

خدا کے لوگوں سے متعلق، نہ کہ انسان کے بچوں سے متعلق، بات کرتے ہوئے یسوع نے کہا، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے؛“ یعنی سچائی اور محبت حقیقی انسان پر سلطنت کرتی ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انسان خدا کی صورت پر بے گناہ اور ابدی ہے۔

4. 476 : 1-5, 10-20, 28-32

Mortals are the counterfeits of immortals. They are the children of the wicked one, or the one evil, which declares that man begins in dust or as a material embryo. In divine Science, God and the real man are inseparable as divine Principle and idea.

Hence man is not mortal nor material. Mortals will disappear, and immortals, or the children of God, will appear as the only and eternal verities of man. Mortals are not fallen children of God. They never had a perfect state of being, which may subsequently be regained. They were, from the beginning of mortal history, "conceived in sin and brought forth in iniquity." Mortality is finally swallowed up in immortality. Sin, sickness, and death must disappear to give place to the facts which belong to immortal man.

When speaking of God's children, not the children of men, Jesus said, "The kingdom of God is within you;" that is, Truth and Love reign in the real man, showing that man in God's image is unfallen and eternal.

5 . ۔ 296 :4۔13

ترقی تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ فانی انسان کی پختگی ہے، جس کے وسیلہ لافانی کی خاطر فانی بشر کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خواہ یہاں یا اس کے بعد، تکالیف یا سائنس کو زندگی اور عقل کے حوالے سے تمام تر فریب نظری کو ختم کر دینا چاہئے، او ر مادی فہم اور خودی کو از سرے نو پیدا کرنا چاہئے۔پرانی انسانیت کو اْس کے اعمال کے ساتھ منسوخ کر دینا چاہئے۔ کوئی بھی نفس پرستی یا گناہ آلود چیز لافانی نہیں ہے۔یہ مادے کی موت نہیں بلکہ جھوٹے مادی فہم اور گناہ کی موت ہی ہے جسے انسان اور زندگی ہم آہنگ، حقیقی اور ابدی ظاہر کرتے ہیں۔

5. 296 : 4-13

Progress is born of experience. It is the ripening of mortal man, through which the mortal is dropped for the immortal. Either here or hereafter, suffering or Science must destroy all illusions regarding life and mind, and regenerate material sense and self. The old man with his deeds must be put off. Nothing sensual or sinful is immortal. The death of a false material sense and of sin, not the death of organic matter, is what reveals man and Life, harmonious, real, and eternal.

6 . ۔ 496 :20۔27

”موت کا ڈنک گناہ ہے اور گناہ کا زور شریعت ہے“، فانی عقیدے کی شریعت جو لافانی زندگی کے حقائق کے ساتھ جنگ کرتی ہے، حتیٰ کہ روحانی شریعت کے ساتھ بھی جو قبرکو کہتی ہے، ”تیری فتح کہاں رہی؟“ لیکن ”اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوگا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لْقمہ ہوگئی۔“

6. 496 : 20-27

"The sting of death is sin; and the strength of sin is the law," — the law of mortal belief, at war with the facts of immortal Life, even with the spiritual law which says to the grave, "Where is thy victory?" But "when this corruptible shall have put on incorruption, and this mortal shall have put on immortality, then shall be brought to pass the saying that is written, Death is swallowed up in victory."

7 . ۔ 247 :10۔18

خوبصورتی، اس کے ساتھ ساتھ سچائی بھی، ابدی ہیں؛ لیکن مادی چیزوں کی خوبصورتی،فانی یقین کی مانند دھندلا تے اور عارضی ہوتے ہوئے، ختم ہو جاتی ہے۔ رواج، تعلیم اور فیشن فانی انسانوں کے عارضی معیار تشکیل دیتے ہیں۔ لافانیت، عمر اور فنا پذیری سے مستثنیٰ ہو تے ہوئے، اپنا جلال آپ،یعنی روح کی چمک رکھتی ہے۔غیر فانی مرد اور خواتین روحانی حس کا نمونہ ہوتے ہیں جو کامل عقل سے اور پاکیزگی کے اْن بلند نظریات کی عکاسی کرنے سے بنائے جاتے ہیں جو مادی حس سے بالا تر ہوتے ہیں۔

7. 247 : 10-18

Beauty, as well as truth, is eternal; but the beauty of material things passes away, fading and fleeting as mortal belief. Custom, education, and fashion form the transient standards of mortals. Immortality, exempt from age or decay, has a glory of its own, — the radiance of Soul. Immortal men and women are models of spiritual sense, drawn by perfect Mind and reflecting those higher conceptions of loveliness which transcend all material sense.

8 . ۔ 428 :22۔29

ایک بڑی روحانی حقیقت سامنے لائی جانی چاہئے کہ انسان کامل اور لافانی ہوگا نہیں بلکہ ہے۔ ہمیں وجودیت کے شعور کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے اور جلد یا بدیر، مسیح اور کرسچن سائنس کے وسیلہ گناہ اور موت پر حاکم ہونا چاہئے۔ جب مادی عقائد کو ترک کیا جاتا ہے اورہستی کے غیر فانی حقائق کو قبول کر لیا جاتا ہے تو انسان کی لافانیت کی شہادت مزید واضح ہو جاتی ہے۔

8. 428 : 22-29

The great spiritual fact must be brought out that man is, not shall be, perfect and immortal. We must hold forever the consciousness of existence, and sooner or later, through Christ and Christian Science, we must master sin and death. The evidence of man's immortality will become more apparent, as material beliefs are given up and the immortal facts of being are admitted.

9 . ۔ 246 :27۔31

زندگی ابدی ہے۔ ہمیں اس کی تلاش کرنی چاہئے اور اس سے اظہار کا آغاز کرنا چاہئے۔ زندگی اور اچھائی لافانی ہیں۔ توآئیے ہم وجودیت سے متعلق ہمارے خیالات کوعمر اور خوف کی بجائے محبت، تازگی اور تواتر کے ساتھ تشکیل دیں۔

9. 246 : 27-31

Life is eternal. We should find this out, and begin the demonstration thereof. Life and goodness are immortal. Let us then shape our views of existence into loveliness, freshness, and continuity, rather than into age and blight.

10 . ۔ 495 :14۔24

جب بیماری یا گناہ کا بھرم آپ کو آزماتا ہے تو خدا اور اْس کے خیال کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ منسلک رہیں۔ اْس کے مزاج کے علاوہ کسی چیز کو آپ کے خیال میں قائم ہونے کی اجازت نہ دیں۔ کسی خوف یا شک کو آپ کے اس واضح اورمطمین بھروسے پر حاوی نہ ہونے دیں کہ پہچانِ زندگی کی ہم آہنگی، جیسے کہ زندگی ازل سے ہے، اس چیز کے کسی بھی درد ناک احساس یا یقین کو تبا ہ کر سکتی ہے جو زندگی میں ہے ہی نہیں۔جسمانی حس کی بجائے کرسچن سائنس کو ہستی سے متعلق آپ کی سمجھ کی حمایت کرنے دیں، اور یہ سمجھ غلطی کو سچائی کے ساتھ اکھاڑ پھینکے گی، فانیت کوغیر فانیت کے ساتھ تبدیل کرے گی، اور خاموشی کی ہم آہنگی کے ساتھ مخالفت کرے گی۔

10. 495 : 14-24

When the illusion of sickness or sin tempts you, cling steadfastly to God and His idea. Allow nothing but His likeness to abide in your thought. Let neither fear nor doubt overshadow your clear sense and calm trust, that the recognition of life harmonious — as Life eternally is — can destroy any painful sense of, or belief in, that which Life is not. Let Christian Science, instead of corporeal sense, support your understanding of being, and this understanding will supplant error with Truth, replace mortality with immortality, and silence discord with harmony.

11 . ۔ 76 :22۔31

بے گناہ خوشی، زندگی کی کامل ہم آہنگی اور لافانیت، ایک بھی جسمانی تسکین یا درد کے بِنا لامحدود الٰہی خوبصورتی اور اچھائی کی ملکیت رکھتے ہوئے، اصلی اور لازوال انسان تشکیل دیتی ہے، جس کا وجود روحانی ہوتا ہے۔ وجودیت کی یہ حالت سائنسی ہے اور برقرار ہے، یعنی ایسی کاملیت جو محض اْن لوگوں کے لئے قابل فہم ہے جنہیں الٰہی سائنس میں مسیح کی حتمی سمجھ ہے۔ موت وجودیت کی اس حالت کو کبھی تیز نہیں کر سکتی کیونکہ لافانیت کے ظاہر ہونے سے قبل موت پر فتح مند ہونا چاہئے نہ کہ اْس کے سپرد ہونا چاہئے۔

11. 76 : 22-31

The sinless joy, — the perfect harmony and immortality of Life, possessing unlimited divine beauty and goodness without a single bodily pleasure or pain, — constitutes the only veritable, indestructible man, whose being is spiritual. This state of existence is scientific and intact, — a perfection discernible only by those who have the final understanding of Christ in divine Science. Death can never hasten this state of existence, for death must be overcome, not submitted to, before immortality appears.

12 . ۔ 288 :27۔28

سائنس اْس لافانی انسان کے جلالی امکانات کو ظاہر کرتی ہے جو ہمیشہ کے لئے فانی حواس کی طرف سے لامحدود ہوتا ہے۔

12. 288 : 27-28

Science reveals the glorious possibilities of immortal man, forever unlimited by the mortal senses.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████