اتوار 15 جنوری، 2023
”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تْو نے بھیجا ہے جانیں۔“
“This is life eternal, that they might know thee the only true God, and Jesus Christ, whom thou hast sent.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
1۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب ہمارا خیمہ کا گھر جو زمین پر ہے گرایا جائے گا تو ہم کو خدا کی طرف سے آسمان پر ایک ایسی عمارت ملے گی جو ہاتھ کا بنا ہوا گھر نہیں بلکہ ابدی ہے۔
2۔ چنانچہ ہم اس میں کراہتے ہیں اور بڑی آرزو رکھتے ہیں کہ اپنے آسمانی گھر سے ملبس ہو جائیں۔
3۔ تاکہ ملبس ہونے کے باعث ننگے نہ پائے جائیں۔
4۔ کیونکہ ہم اس خیمہ میں رہ کر بوجھ کے مارے کراہتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ یہ لباس اتارنا چاہتے ہیں بلکہ اس پر اور پہننا چاہتے ہیں تاکہ وہ جو فانی ہے زندگی میں غرق ہو جائے۔
5۔ اور جس نے ہم کو اِس بات کے لئے تیار کیا وہ خدا ہے اور اسی نے ہمیں روح بیعانہ میں دیا۔
6۔ پس ہمیشہ ہماری خاطر جمع رہتی ہے اور یہ جانتے ہیں کہ جب تک ہم بدن کے وطن میں ہیں خداوند کے ہاں سے جلاوطن ہیں۔
7۔ (کیونکہ ہم ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔)
8۔ غرض ہماری خاطر جمع ہے اور ہم کو بدن کے وطن سے جدا ہوکر خداوند کے وطن میں رہنا زیادہ منظور ہے۔
1. For we know that if our earthly house of this tabernacle were dissolved, we have a building of God, an house not made with hands, eternal in the heavens.
2. For in this we groan, earnestly desiring to be clothed upon with our house which is from heaven:
3. If so be that being clothed we shall not be found naked.
4. For we that are in this tabernacle do groan, being burdened: not for that we would be unclothed, but clothed upon, that mortality might be swallowed up of life.
5. Now he that hath wrought us for the selfsame thing is God, who also hath given unto us the earnest of the Spirit.
6. Therefore we are always confident, knowing that, whilst we are at home in the body, we are absent from the Lord:
7. (For we walk by faith, not by sight:)
8. We are confident, I say, and willing rather to be absent from the body, and to be present with the Lord.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔
2۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔
3۔ سب چیزیں اْسی کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا اْس میں سے کوئی چیز بھی اْس کے بغیر پیدا نہ ہوئی۔
4۔اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔
1 In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God.
2 The same was in the beginning with God.
3 All things were made by him; and without him was not any thing made that was made.
4 In him was life; and the life was the light of men.
4۔ خدا کی روح نے مجھے بنایا ہے اور قادر مطلق کا دم مجھے زندگی بخشتا ہے۔
4 The Spirit of God hath made me, and the breath of the Almighty hath given me life.
7۔ اے خدا! تیری شفقت کیا ہی بیش قیمت ہے بنی آدم تیرے بازووں کے سایے میں پناہ لیتے ہیں۔
8۔ وہ تیرے گھر کی نعمتوں سے خوب آسودہ ہوں گے۔تْو اْن کی اپنی خوشنودی کے دریا میں سے پلائے گا۔
9۔ کیونکہ زندگی کا چشمہ تیرے پاس ہے۔ تیرے نور کی بدولت ہم روشنی دیکھیں گے۔
7 How excellent is thy lovingkindness, O God! therefore the children of men put their trust under the shadow of thy wings.
8 They shall be abundantly satisfied with the fatness of thy house; and thou shalt make them drink of the river of thy pleasures.
9 For with thee is the fountain of life: in thy light shall we see light.
1۔ اْس وقت روح یسوع کو جنگل میں لے گیا تاکہ ابلیس سے آزمایا جائے۔
2۔ اور چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر کو اْسے بھوک لگی۔
3۔ اور آزمانے والے نے پاس آکر اْس سے کہا اگر تْو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔
4۔ اْس نے جواب میں کہا کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔
11۔ تب ابلیس اْس کے پاس سے چلا گیا اور دیکھو فرشتے آکر اْس کی خدمت کرنے لگے۔
1 Then was Jesus led up of the Spirit into the wilderness to be tempted of the devil.
2 And when he had fasted forty days and forty nights, he was afterward an hungred.
3 And when the tempter came to him, he said, If thou be the Son of God, command that these stones be made bread.
4 But he answered and said, It is written, Man shall not live by bread alone, but by every word that proceedeth out of the mouth of God.
11 Then the devil leaveth him, and, behold, angels came and ministered unto him.
1۔ اِن باتوں کے بعد یسوع گلیل کی جھیل یعنی تبریاس کی جھیل کے پار گیا۔
2۔ اور بڑی بھیڑ اْس کے پیچھے ہو لی کیونکہ جو معجزے وہ بیماروں پر کرتا تھا اْن کو وہ دیکھتے تھے۔
3۔ یسوع پہاڑ پر چڑھ گیا اور اپنے شاگردوں کے ساتھ وہاں بیٹھا۔
26۔ یسوع نے اْن سے کہا۔
27۔ فانی خوراک کے لئے محنت نہ کرو بلکہ اْس خوراک کے لئے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے جسے ابنِ آدم تمہیں دے گا کیونکہ باپ یعنی خدا نے اْسی پر مہر کی ہے۔
40۔ کیونکہ میرے باپ کی مرضی یہ ہے کہ جو کوئی بیٹے کو دیکھے اور اْس پر ایمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے۔
63۔ زندہ کرنے والی تو روح ہے۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔ جو باتیں مَیں نے تم سے کہی ہیں وہ روح ہیں اور زندگی بھی ہیں۔
1 After these things Jesus went over the sea of Galilee, which is the sea of Tiberias.
2 And a great multitude followed him, because they saw his miracles which he did on them that were diseased.
3 And Jesus went up into a mountain, and there he sat with his disciples.
26 Jesus answered them and said,
27 Labour not for the meat which perisheth, but for that meat which endureth unto everlasting life, which the Son of man shall give unto you: for him hath God the Father sealed.
40 And this is the will of him that sent me, that every one which seeth the Son, and believeth on him, may have everlasting life:
63 It is the spirit that quickeneth; the flesh profiteth nothing: the words that I speak unto you, they are spirit, and they are life.
24۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا ہے اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اْس کی ہے اور اْس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔
25۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سنیں گے وہ جیئں گے۔
26۔ کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اْسی طرح اْس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔
24 Verily, verily, I say unto you, He that heareth my word, and believeth on him that sent me, hath everlasting life, and shall not come into condemnation; but is passed from death unto life.
25 Verily, verily, I say unto you, The hour is coming, and now is, when the dead shall hear the voice of the Son of God: and they that hear shall live.
26 For as the Father hath life in himself; so hath he given to the Son to have life in himself;
7۔ ہفتے کے پہلے دن جب ہم روٹی توڑنے کے لئے جمع ہوئے تو پولوس نے دوسرے دن روانہ ہونے کا ارادہ کرکے اْن سے باتیں کیں اور آدھی رات تک کلام کرتا رہا۔
8۔ جس بالا خانہ میں ہم جمع تھے اْس میں بہت سے چراغ جل رہے تھے۔
9۔ یوتخْس نام ایک جوان کھڑکی میں بیٹھا تھا۔ اْس پر نیند کا بڑا غلبہ تھا اور جب پولوس زیادہ دیر تک باتیں کرتا رہا تو وہ نیند کے غلبہ میں تیسری منزل سے گر پڑا اور اْٹھایا گیا تو مردہ تھا۔
10۔ پولوس اْتر کر اْس سے لپٹ گیا اور گلے لگا کر کہا گھبراؤ نہیں۔ اِس میں جان ہے۔
11۔ پھر اوپر جا کر روٹی توڑی اور کھا کر اِتنی دیر اْن سے باتیں کرتا رہا کہ پو پھٹ گئی۔ پھر وہ روانہ ہوگیا۔
12۔ اور وہ اْس لڑکے کو جیتا لائے اور اْن کی بڑی خاطر جمع ہوئی۔
7 And upon the first day of the week, when the disciples came together to break bread, Paul preached unto them, ready to depart on the morrow; and continued his speech until midnight.
8 And there were many lights in the upper chamber, where they were gathered together.
9 And there sat in a window a certain young man named Eutychus, being fallen into a deep sleep: and as Paul was long preaching, he sunk down with sleep, and fell down from the third loft, and was taken up dead.
10 And Paul went down, and fell on him, and embracing him said, Trouble not yourselves; for his life is in him.
11 When he therefore was come up again, and had broken bread, and eaten, and talked a long while, even till break of day, so he departed.
12 And they brought the young man alive, and were not a little comforted.
22۔ پولوس نے اریوپگس میں کھڑے ہو کر کہا اے ایتھنے والو! مَیں دیکھتا ہوں کہ تم ہر بات میں دیوتاؤں کے بڑے ماننے والے ہو۔
23۔ چنانچہ میں نے سیر کرتے اور تمہارے معبودوں ہر غور کرتے وقت ایک ایسی قربانگاہ بھی پائی جس پر لکھا تھا کہ نہ معلوم خدا کے لئے۔ پس جس کو تم بغیر معلوم کئے پوجتے ہوئے مَیں تم کو اْسی کی خبر دیتا ہوں۔
24۔جس خدا نے دنیا اور اْس کی سب چیزوں کو بنایا وہ آسمان اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔
25۔ نہ کسی کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔
26۔ اور اْس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام روئے زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی اور اْن کی معیادیں اور سکونت کی حدیں مقرر کیں۔
27۔ تاکہ خدا کو ڈھونڈیں۔ شاید کہ ٹٹول کر اْسے پا ئیں ہر چند وہ ہم میں سے کسی سے دور نہیں۔
28۔ کیونکہ اْسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔جیسا تمہارے شاعروں میں سے بھی بعض نے کہا کہ ہم تو اْسی کی نسل بھی ہیں۔
22 Then Paul stood in the midst of Mars’ hill, and said, Ye men of Athens, I perceive that in all things ye are too superstitious.
23 For as I passed by, and beheld your devotions, I found an altar with this inscription, TO THE UNKNOWN GOD. Whom therefore ye ignorantly worship, him declare I unto you.
24 God that made the world and all things therein, seeing that he is Lord of heaven and earth, dwelleth not in temples made with hands;
25 Neither is worshipped with men’s hands, as though he needed any thing, seeing he giveth to all life, and breath, and all things;
26 And hath made of one blood all nations of men for to dwell on all the face of the earth, and hath determined the times before appointed, and the bounds of their habitation;
27 That they should seek the Lord, if haply they might feel after him, and find him, though he be not far from every one of us:
28 For in him we live, and move, and have our being; as certain also of your own poets have said, For we are also his offspring.
30۔ صادق کا پھل حیات کا درخت ہے۔
30 The fruit of the righteous is a tree of life;
20۔ اے میرے بیٹے! میری باتوں پر توجہ کر۔ میرے کلام پر کان لگا۔
21۔ اْس کو اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دے۔ اْس کو اپنے دل میں رکھ۔
22۔ کیونکہ جو اْس کو پالیتے ہیں یہ اْن کی حیات اور اْن کے سارے جسم کی صحت ہے۔
23۔ اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سر چشمہ وہی ہے۔
20 My son, attend to my words; incline thine ear unto my sayings.
21 Let them not depart from thine eyes; keep them in the midst of thine heart.
22 For they are life unto those that find them, and health to all their flesh.
23 Keep thy heart with all diligence; for out of it are the issues of life.
خدا الٰہی زندگی ہے، اور زندگی اْن صورتوں میں زیادہ محدود نہیں ہے جو اِسے منعکس کرتی ہیں بہ نسبت اْس مواد کے جو اپنے سایہ سے منعکس ہوتا ہے۔اگرزندگی مادی انسان یا مادی چیزوں میں ہوتی، تو یہ اْن کی حدود کے تابع نہ ہوتی اور موت میں ختم نہ ہوتی۔ زندگی عقل ہے، جسے خالق نے اپنی تخلیق میں منعکس کیا۔
God is divine Life, and Life is no more confined to the forms which reflect it than substance is in its shadow. If life were in mortal man or material things, it would be subject to their limitations and would end in death. Life is Mind, the creator reflected in His creations.
زندگی ہمیشہ مادے سے آزاد ہے، تھی اور ہمیشہ رہے گی،کیونکہ زندگی خدا ہے اور انسان خدا کا تصور ہے، جسے مادی طور پر نہیں بلکہ روحانی طور پر خلق کیا گیا، اور وہ فنا ہونے اور نیست ہونے سے مشروط نہیں۔
Life is, always has been, and ever will be independent of matter; for Life is God, and man is the idea of God, not formed materially but spiritually, and not subject to decay and dust.
انسان جسم کی نہیں بلکہ روح کی اولاد ہے، زندگی کی اولاد ہے نہ کہ مادے کی۔کیونکہ زندگی خدا ہے، تو زندگی ابدی یعنی خود وجود رکھنے والی ہونی چاہئے۔ زندگی ہمیشہ کا ”مَیں ہوں“، یعنی وہ ہستی جو تھا اور جو ہے اور جو آنے والا ہے، جسے کوئی چیز بھی ختم نہیں کر سکتی۔
Man is not the offspring of flesh, but of Spirit, — of Life, not of matter. Because Life is God, Life must be eternal, self-existent. Life is the everlasting I am, the Being who was and is and shall be, whom nothing can erase.
یہ ادراک کہ زندگی خدا، روح ہے، زندگی کی لازوال حقیقت پر، اْس کی قدرت اور لافانیت پر یقین رکھنے سے ہمارے ایام کو دراز کرتا ہے۔
ایمان ایک سمجھے گئے اصول پر انحصار کرتا ہے۔ یہ اصول بیمار کو شفایاب کرتا ہے اور برداشت اور چیزوں کے ہم آہنگ مراحل ظاہر کرتاہے۔
The understanding that Life is God, Spirit, lengthens our days by strengthening our trust in the deathless reality of Life, its almightiness and immortality.
This faith relies upon an understood Principle. This Principle makes whole the diseased, and brings out the enduring and harmonious phases of things.
عقل ”کل، آج اور ابد تک“ زندگی، محبت اور حکمت کے ساتھ یکساں ہے۔ مادہ اور اِس کے اثرات، گناہ، بیماری اور موت، فانی عقل کی حالتیں ہیں جو عمل کرتی، رد عمل کرتی اور پھر اختتام کو پہنچتی ہیں۔ وہ عقل کی حقیقتیں نہیں ہیں۔ وہ خیالات نہیں بلکہ بھرم ہیں۔ اصول ہی مطلق ہے۔ یہ غلطی سے تسلیم نہیں ہوتا، بلکہ فہم پر تکیہ کرتا ہے۔
مگر مروجہ مفروضے کیا کہتے ہیں؟ وہ زور دیتے ہیں زندگی، یا خدا نام نہاد مادی زندگی کے ساتھ واحد اور یکساں ہے۔ وہ سچ اور غلطی دونوں کو عقل، اور نیکی اور بدی کو روح کہتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ زندگی مادی فہم کی مادی حالت ہے، جیسے کہ حیات کے درخت کی بناوٹ اور مادی انسان، اور اِسے وہ واحد زندگی یعنی خدا کا اظہار سمجھتے ہیں۔
زندگی کو ظاہر کرنے کا جھوٹا عقیدہ خدا کے کردار اور فطرت سے اِس قدر منحرف کرتا ہے کہ اْن سب کے لئے جو اِس مغالطے کے ساتھ جڑے ہیں خدا کی قدرت کا حقیقی فہم کھو جاتا ہے۔الٰہی اصول یا زندگی کو ایام کی درازی کے ساتھ عملی طور پر ظاہر نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ آباو اجداد کے ساتھ ہوتا تھا، جب تک کہ اِس کی سائنس صحیح طور پر بیان نہیں کی گئی۔ہمیں الٰہی اصول کو فہم کے ساتھ حاصل کرنا اور اِسے اپنی روز مرہ کی زندگی میں محسوس کرنا چاہئے؛ اور جب تک ہم نہیں کرتے، ہم سائنس کو اِس سے زیادہ ظاہر نہیں کرسکتے جتنا کہ ہم جیومیٹری سمجھانے اور سکھانے میں ایک خم کو سیدھی لکیر یا ایک سیدھی لکیر کو ایک دائرہ بیان کرتے ہیں۔
Mind is the same Life, Love, and wisdom "yesterday, and to-day, and forever." Matter and its effects — sin, sickness, and death — are states of mortal mind which act, react, and then come to a stop. They are not facts of Mind. They are not ideas, but illusions. Principle is absolute. It admits of no error, but rests upon understanding.
But what say prevalent theories? They insist that Life, or God, is one and the same with material life so-called. They speak of both Truth and error as mind, and of good and evil as spirit. They claim that to be life which is but the objective state of material sense, — such as the structural life of the tree and of material man, — and deem this the manifestation of the one Life, God.
This false belief as to what really constitutes life so detracts from God's character and nature, that the true sense of His power is lost to all who cling to this falsity. The divine Principle, or Life, cannot be practically demonstrated in length of days, as it was by the patriarchs, unless its Science be accurately stated. We must receive the divine Principle in the understanding, and live it in daily life; and unless we so do, we can no more demonstrate Science, than we can teach and illustrate geometry by calling a curve a straight line or a straight line a sphere.
یہاں صرف ایک مَیں یا ہم کے علاوہ اور کوئی نہیں، مگر ایک الٰہی اصول یا عقل، ساری وجودیت پر حکمرانی کرتا ہے؛ ۔۔۔خدا کی تخلیق کی تمام تر اشیاء ایک عقل کو منعکس کرتی ہے، اور جو چیز اِس ایک عقل کو منعکس نہیں کرتی، وہ جھوٹی اور غلط ہے، حتیٰ کہ یہ عقیدہ بھی کہ زندگی، مواد، اور ذہانت، ذہنی اور مادی دونوں ہیں۔
There is but one I, or Us, but one divine Principle, or Mind, governing all existence; … All the objects of God's creation reflect one Mind, and whatever reflects not this one Mind, is false and erroneous, even the belief that life, substance, and intelligence are both mental and material.
خیال کی غلطی عمل کی غلطی سے منعکس ہوتی ہے۔وجودیت کی متواتر فکر مندی، بطور مادی اور جسمانی، بطور شروع ہونے والی اور ختم ہونے والی، پیدائش، فنا پذیری اور خاتمہ کو اپنے ضروری مراحل کے طور پر رکھنے والی، حقیقی اور روحانی زندگی کو چھپا دیتی ہے اور ہمارے معیار کو مٹی میں ملانے کا باعث بنتی ہے۔اگر زندگی کا کوئی کیسا بھی نقطۂ آغاز ہے، تو عظیم مَیں ہوں ایک فرضی داستان ہے۔اگر زندگی خدا ہے، جیسا کہ کلام پاک اشارہ کرتا ہے، تو زندگی جینیاتی نہیں ہے، یہ لامحدود ہے۔
Error of thought is reflected in error of action. The continual contemplation of existence as material and corporeal — as beginning and ending, and with birth, decay, and dissolution as its component stages — hides the true and spiritual Life, and causes our standard to trail in the dust. If Life has any starting-point whatsoever, then the great I am is a myth. If Life is God, as the Scriptures imply, then Life is not embryonic, it is infinite.
مادی فہم وجودیت کے حقائق کو اجاگر نہیں کرتا؛ بلکہ روحانی فہم انسانی شعور کو ابدی سچائی میں بلند کرتا ہے۔
Material sense does not unfold the facts of existence; but spiritual sense lifts human consciousness into eternal Truth.
زندگی حقیقی ہے، اور موت بھرم ہے۔ یسوع کی راہ میں روح کے حقائق کا ایک اظہار مادی فہم کے تاریک ادراک میں ہم آہنگی اور لافانیت کو حل کرتا ہے۔اس مقتدر لمحے میں انسان کی ترجیح اپنے مالک کے ان الفاظ کو ثابت کرنا ہے: ”اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔“ جھوٹے بھروسوں اور مادی ثبوتوں کے خیالات کو ختم کرنے کے لئے، تاکہ شخصی روحانی حقائق سامنے آئیں، یہ ایک بہت بڑا حصول ہے جس کی بدولت ہم غلط کو تلف کریں گے اور سچائی کو جگہ فراہم کریں گے۔ یوں ہم سچائی کی وہ ہیکل یا بدن تعمیر کرتے ہیں، ”جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے“۔
ہمیں وجودیت کو ”گمنام خدا کے لئے“ مخصوص نہیں کرنا چاہئے جس کی ہم ”لاعلمی سے عبادت“ کرتے ہیں، بلکہ ابدی معمار، ابدی باپ، اور اْس زندگی کے لئے کرنی چاہئے جسے فانی فہم بگاڑ نہیں سکتا نہ ہی فانی عقیدہ نیست کر سکتا ہے۔انسانی غلط فہمیوں کی تلافی کر نے کے لئے اور اْس زندگی کے ساتھ اْن کا تبادلہ کرنے کے لئے جو روحانی ہے نہ کہ مادی ہمیں ذہنی طاقت کی قابلیت کا ادراک ہونا چاہئے۔
ایک بڑی روحانی حقیقت سامنے لائی جانی چاہئے کہ انسان کامل اور لافانی ہوگا نہیں بلکہ ہے۔ ہمیں وجودیت کے شعور کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے اور جلد یا بدیر، مسیح اور کرسچن سائنس کے وسیلہ گناہ اور موت پر حاکم ہونا چاہئے۔ جب مادی عقائد کو ترک کیا جاتا ہے اورہستی کے غیر فانی حقائق کو قبول کر لیا جاتا ہے تو انسان کی لافانیت کی شہادت مزید واضح ہو جائے گی۔
Life is real, and death is the illusion. A demonstration of the facts of Soul in Jesus' way resolves the dark visions of material sense into harmony and immortality. Man's privilege at this supreme moment is to prove the words of our Master: "If a man keep my saying, he shall never see death." To divest thought of false trusts and material evidences in order that the spiritual facts of being may appear, — this is the great attainment by means of which we shall sweep away the false and give place to the true. Thus we may establish in truth the temple, or body, "whose builder and maker is God."
We should consecrate existence, not "to the unknown God" whom we "ignorantly worship," but to the eternal builder, the everlasting Father, to the Life which mortal sense cannot impair nor mortal belief destroy. We must realize the ability of mental might to offset human misconceptions and to replace them with the life which is spiritual, not material.
The great spiritual fact must be brought out that man is, not shall be, perfect and immortal. We must hold forever the consciousness of existence, and sooner or later, through Christ and Christian Science, we must master sin and death. The evidence of man's immortality will become more apparent, as material beliefs are given up and the immortal facts of being are admitted.
ہم ”دو مالکوں کی غلامی“ نہیں کر سکتے۔ ”خداوند کے وطن“ میں رہنا محض جذباتی خوشی یا ایمان رکھنا نہیں بلکہ زندگی کا اصل اظہار اور سمجھ رکھنا ہے جیسا کہ کرسچن سائنس میں ظاہر کیا گیا ہے۔ ”خداوند کے وطن“ میں رہنا خدا کی شریعت کا فرمانبردار ہونا، مکمل طور پر الٰہی محبت کی، روح کی نہ کہ مادے کی،حکمرانی میں رہنا ہے۔
ایک لمحے کے لئے ہوش کریں کہ زندگی اور ذہانت خالصتاً روحانی ہیں، نہ مادے میں نہ مادے سے، اورپھر بدن کو کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ اگر بیماری پر ایک عقیدے کی بدولت تکلیف میں ہیں تو اچانک آپ خود کو ٹھیک پائیں گے۔جب جسم پر روحانی زندگی، سچائی اور محبت کا پہرہ ہو گا تو دْکھ خوشی میں بدل جائیں گے۔لہٰذہ اْس وعدے کی امید جو یسوع دلاتا ہے: ”جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا؛۔۔۔کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں،“ ]کیونکہ انا بدن سے غائب ہو چکی اور اْس میں سچائی اور محبت آ موجود ہوتی ہے۔[
We cannot "serve two masters." To be "present with the Lord" is to have, not mere emotional ecstasy or faith, but the actual demonstration and understanding of Life as revealed in Christian Science. To be "with the Lord" is to be in obedience to the law of God, to be absolutely governed by divine Love, — by Spirit, not by matter.
Become conscious for a single moment that Life and intelligence are purely spiritual, — neither in nor of matter, — and the body will then utter no complaints. If suffering from a belief in sickness, you will find yourself suddenly well. Sorrow is turned into joy when the body is controlled by spiritual Life, Truth, and Love. Hence the hope of the promise Jesus bestows: "He that believeth on me, the works that I do shall he do also; ... because I go unto my Father," — [because the Ego is absent from the body, and present with Truth and Love.]
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████