اتوار 16 اکتوبر ، 2022



مضمون۔ کفارے کا عقیدہ

SubjectDoctrine of Atonement

سنہری متن: مکاشفہ 12 باب10 آیت

”اب ہمارے خدا کی نجات اور قدرت اور بادشاہی اور اْس کے مسیح کا اختیار ظاہر ہوا۔“



Golden Text: Revelation 12 : 10

Now is come salvation, and strength, and the kingdom of our God, and the power of his Christ.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: یوحنا 17 باب1، 2، 20تا23 آیات


1۔ یسوع نے یہ باتیں کہیں اور اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اْٹھا کر کہا کہ اے باپ! وہ گھڑی آ پہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔

2۔ چنانچہ تْو نے اْسے ہر بشر پر اختیار دیا تاکہ جنہیں تْو نے اْسے بخشا ہے اْن سب کو ہمیشہ کی زندگی دے۔

20۔ مَیں صرف انہی کے لئے درخواست نہیں کرتا بلکہ اْن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایمان لائیں گے۔

21۔ تاکہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اے باپ! تْو مجھ میں ہے اور مَیں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں اور دنیا ایمان لائے کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا ہے۔

22۔ اور وہ جلال جو تْو نے مجھے دیا ہے مَیں نے اْنہیں دیا ہے تاکہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں۔

23۔ مَیں اْن میں اور تْو مجھ میں تاکہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں اور دنیا جانے کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا اور جس طرح کہ تْو نے مجھ سے محبت رکھی۔

Responsive Reading: John 17 : 1, 2, 20-23

1.     These words spake Jesus, and lifted up his eyes to heaven, and said, Father, the hour is come; glorify thy Son, that thy Son also may glorify thee:

2.     As thou hast given him power over all flesh, that he should give eternal life to as many as thou hast given him.

20.     Neither pray I for these alone, but for them also which shall believe on me through their word;

21.     That they all may be one; as thou, Father, art in me, and I in thee, that they also may be one in us: that the world may believe that thou hast sent me.

22.     And the glory which thou gavest me I have given them; that they may be one, even as we are one:

23.     I in them, and thou in me, that they may be made perfect in one; and that the world may know that thou hast sent me, and hast loved them, as thou hast loved me.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یوحنا 3 باب16، 17 آیات

16۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

17۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اْس کے وسیلہ سے نجات پائے۔

1. John 3 : 16, 17

16     For God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.

17     For God sent not his Son into the world to condemn the world; but that the world through him might be saved.

2 . ۔ متی 12 باب22تا28 آیات

22۔اْس وقت لوگ اْس کے پاس ایک اندھے گونگے کو لائے جس میں بد روح تھی۔ اْس نے اْسے اچھا کر دیا، چنانچہ وہ گونگاہ بولنے اور دیکھنے لگا۔

23۔ اور ساری بھیڑ حیران ہو کر کہنے لگی کیا یہ ابنِ داؤد ہے؟

24۔ فریسیوں نے سْن کر کہا کیا یہ بدوحوں کے سردار بعلزبول کی مدد کے بغیر بدروحوں کو نہیں نکالتا۔

25۔ اْس نے اْن کے خیالوں کو جان کراْن سے کہا جس بادشاہی میں پھوٹ پڑتی ہے وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس شہر یا گھر میں پھوٹ پڑے گی وہ قائم نہ رہے گا۔

26۔ اور اگر شیطان ہی نے شیطان کو نکالا تو وہ آپ اپنا مخالف ہو گیا۔ پھر اْس کی بادشاہی کیونکر قائم رہے گی؟

27۔ اور اگر میں بعلزبول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو تمہارے بیٹے کس کی مدد سے نکالتے ہیں؟ پس وہی تمہارے مْنصف ہوں گے۔

28۔ لیکن اگر میں خدا کی روح کی مدد سے روحیں نکالتا ہوں تو خدا کی بادشای تمہارے پاس آ پہنچی۔

2. Matthew 12 : 22-28

22     Then was brought unto him one possessed with a devil, blind, and dumb: and he healed him, insomuch that the blind and dumb both spake and saw.

23     And all the people were amazed, and said, Is not this the son of David?

24     But when the Pharisees heard it, they said, This fellow doth not cast out devils, but by Beelzebub the prince of the devils.

25     And Jesus knew their thoughts, and said unto them, Every kingdom divided against itself is brought to desolation; and every city or house divided against itself shall not stand:

26     And if Satan cast out Satan, he is divided against himself; how shall then his kingdom stand?

27     And if I by Beelzebub cast out devils, by whom do your children cast them out? therefore they shall be your judges.

28     But if I cast out devils by the Spirit of God, then the kingdom of God is come unto you.

3 . ۔ یوحنا 10 باب22تا30 آیات

22۔ یروشلیم میں عیدِ تجدید ہوئی اور جاڑے کا موسم تھا۔

23۔ اور یسوع ہیکل کے اندر سلیمانی برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔

24۔ پس یہودیوں نے اْس کے گرد جمع ہو کر اْس سے کہا تْو کب تک ہمارے دلوں کو ڈانوانڈول رکھے گا؟ اگر تْو مسیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔

25۔ یسوع نے اْنہیں جواب دیا کہ مَیں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام مَیں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں۔

26۔ لیکن تم اِس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔

27۔ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔

28۔ اور مَیں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔

29۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دیں ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔

30۔ مَیں اور باپ ایک ہیں۔

3. John 10 : 22-30

22     And it was at Jerusalem the feast of the dedication, and it was winter.

23     And Jesus walked in the temple in Solomon’s porch.

24     Then came the Jews round about him, and said unto him, How long dost thou make us to doubt? If thou be the Christ, tell us plainly.

25     Jesus answered them, I told you, and ye believed not: the works that I do in my Father’s name, they bear witness of me.

26     But ye believe not, because ye are not of my sheep, as I said unto you.

27     My sheep hear my voice, and I know them, and they follow me:

28     And I give unto them eternal life; and they shall never perish, neither shall any man pluck them out of my hand.

29     My Father, which gave them me, is greater than all; and no man is able to pluck them out of my Father’s hand.

30     I and my Father are one.

4 . ۔ یوحنا 12 باب42تا50 آیات

42۔ تو بھی سرداروں میں سے بھی بہتیرے اْس پر ایمان لائے مگر فریسیوں کے سبب سے اقرار نہ کرتے تھے تاایسا نہ ہو کہ عبادتخانہ سے خارج کئے جائیں۔

43۔ کیونکہ وہ خدا سے عزت حاصل کرنے کی نسبت انسان سے عزت حاصل کرنا زیادہ چاہتے تھے۔

44۔ یسوع نے پکار کر کہا کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مجھ پر نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہے۔

45۔ اور جو مجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتا ہے۔

46۔ مَیں نور ہو کر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔

47۔ اگر کوئی میری باتیں سن کر اْن پر عمل نہ کرے تو مَیں اْس کو مجرم نہیں ٹھہراتا کیونکہ مَیں دنیا کو مجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دنیا کو نجات دینے آیا ہوں۔

48۔ جو مجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبول نہیں کرتا اْس کا ایک مجرم ٹھرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کیا ہے وہی اْسے مجرم ٹھہرائے گا۔

49۔ کیونکہ مَیں نے کچھ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اْسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ کیا کہوں اور کیا بولوں۔

50۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ اْس کا حکم ہمیشہ کی زندگی ہے۔ پس جو کچھ مَیں کہتا ہوں جس طرح باپ نے مجھ سے فرمایا ہے اْسی طر ح کہتا ہوں۔

4. John 12 : 42-50

42     Nevertheless among the chief rulers also many believed on him; but because of the Pharisees they did not confess him, lest they should be put out of the synagogue:

43     For they loved the praise of men more than the praise of God.

44     Jesus cried and said, He that believeth on me, believeth not on me, but on him that sent me.

45     And he that seeth me seeth him that sent me.

46     I am come a light into the world, that whosoever believeth on me should not abide in darkness.

47     And if any man hear my words, and believe not, I judge him not: for I came not to judge the world, but to save the world.

48     He that rejecteth me, and receiveth not my words, hath one that judgeth him: the word that I have spoken, the same shall judge him in the last day.

49     For I have not spoken of myself; but the Father which sent me, he gave me a commandment, what I should say, and what I should speak.

50     And I know that his commandment is life everlasting: whatsoever I speak therefore, even as the Father said unto me, so I speak.

5 . ۔ یوحنا 14 باب6 آیت(مَیں)

6۔ راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔

5. John 14 : 6 (I)

6     I am the way, the truth, and the life: no man cometh unto the Father, but by me.

6 . ۔ رومیوں 5 باب1، 10، 11 آیات

1۔ پس جب ہم ایمان سے راستباز ٹھہرے تو خدا کے ساتھ اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ صلح رکھیں۔

10۔ کیونکہ جب باوجود دشمن ہونے کے خدا سے اس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہوگیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔

11۔اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے خداوند یسوع مسیح کے طفیل سے جس کے وسیلہ سے اب ہمارا خدا کے ساتھ میل ہوگیا خدا پر فخر بھی کرتے ہیں۔

6. Romans 5 : 1, 10, 11

1     Therefore being justified by faith, we have peace with God through our Lord Jesus Christ:

10     For if, when we were enemies, we were reconciled to God by the death of his Son, much more, being reconciled, we shall be saved by his life.

11     And not only so, but we also joy in God through our Lord Jesus Christ, by whom we have now received the atonement.

7 . ۔ 1 یوحنا 3 باب5تا8 آیات

5۔ اور تم جانتے ہوکہ وہ اِس لئے ظاہر ہوا تھا کہ گناہوں کو اٹھا لے جائے اور اْس کی ذات میں گناہ نہیں۔

6۔ جو کوئی اْس میں قائم رہتا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔ جو کوئی گناہ کرتا ہے نہ اْس نے اْسے دیکھا ہے نہ جانا ہے۔

7۔ اے بچو! کسی کے فریب میں نہ آنا۔ جو راستبازی کے کام کرتا ہے وہی اْس کی طرح راستباز ہے۔

8۔ جو شخص گناہ کرتا ہے وہ ابلیس سے ہے کیونکہ ابلیس شروع ہی سے گناہ کرتا رہا ہے۔ خدا کا بیٹا اِسی لئے ظاہر ہوا تھا کہ ابلیس کے کاموں کو مٹائے۔

7. I John 3 : 5-8

5     And ye know that he was manifested to take away our sins; and in him is no sin.

6     Whosoever abideth in him sinneth not: whosoever sinneth hath not seen him, neither known him.

7     Little children, let no man deceive you: he that doeth righteousness is righteous, even as he is righteous.

8     He that committeth sin is of the devil; for the devil sinneth from the beginning. For this purpose the Son of God was manifested, that he might destroy the works of the devil.

8 . ۔ عبرانیوں 10 باب19تا22 آیات

19۔ پس اے بھائیو! چونکہ ہمیں یسوع کے خون کے سبب سے اْس نئی اور زندہ راہ سے پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری ہے۔

20۔ جو اْس نے پردہ یعنی اپنے جسم میں سے ہو کر ہمارے واسطے مخصوص کی ہے۔

21۔ اور چونکہ ہمارا ایسا بڑا کاہن ہے جو خدا کے گھر کا مختار ہے۔

22۔ تو آؤ ہم سچے دل اور پورے ایمان کے ساتھ اور دل کے الزام کو دور کرنے کے لئے دلوں پر چھینٹے لے کر اور بدن کو صاف پانی سے دھْلوا کر خدا کے پاس چلیں۔

8. Hebrews 10 : 19-22

19     Having therefore, brethren, boldness to enter into the holiest by the blood of Jesus,

20     By a new and living way, which he hath consecrated for us, through the veil, that is to say, his flesh;

21     And having an high priest over the house of God;

22     Let us draw near with a true heart in full assurance of faith, having our hearts sprinkled from an evil conscience, and our bodies washed with pure water.

9 . ۔ 2 کرنتھیوں 5 باب17تا20 آیات

17۔ اس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں۔

18۔ اور سب چیزیں خدا کی طرف سے ہیں جس نے مسیح کے وسیلہ سے اپنے ساتھ ہمارا میل ملاپ کر لیا۔

19۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دنیا کا میل ملاپ کر لیا اور اْن کی تقصیروں کو اْن کے ذمہ نہ لگایا اور اْس نے میل ملاپ کا پیغام ہمیں سونپ دیا ہے۔

20۔ پس ہم مسیح کے ایلچی ہیں۔ گویا ہمارے وسیلہ سے خدا التماس کرتا ہے۔ ہم مسیح کی طرف سے منت کرتے ہیں کہ خدا سے میل ملاپ کرلو۔

9. II Corinthians 5 : 17-20

17     Therefore if any man be in Christ, he is a new creature: old things are passed away; behold, all things are become new.

18     And all things are of God, who hath reconciled us to himself by Jesus Christ, and hath given to us the ministry of reconciliation;

19     To wit, that God was in Christ, reconciling the world unto himself, not imputing their trespasses unto them; and hath committed unto us the word of reconciliation.

20     Now then we are ambassadors for Christ, as though God did beseech you by us: we pray you in Christ’s stead, be ye reconciled to God.

10 . ۔ 1 یوحنا 3 باب2، 3 آیات

2۔ عزیزو! ہم جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوگا تو ہم بھی اْس کی مانند ہوں گے۔ کیونکہ اْس کو ویسا ہی دیکھیں گے جیسا وہ ہے۔

3۔ اور جو کوئی اْس سے یہ امید رکھتا ہے اپنے آپ کو ویسا ہی پاک کرتا ہے جیسا وہ پاک ہے۔

10. I John 3 : 2, 3

2     Beloved, now are we the sons of God, and it doth not yet appear what we shall be: but we know that, when he shall appear, we shall be like him; for we shall see him as he is.

3     And every man that hath this hope in him purifieth himself, even as he is pure.



سائنس اور صح


1 . ۔ 336 :25 (خدا)۔26، 28۔31

خدا، انسان کا الٰہی اصول، اور خدا کی شبیہ پر بناانسان غیر منفک، ہم آہنگ اورابدی ہیں۔۔۔۔خدا اور انسان ایک جیسے نہیں ہیں، مگر الٰہی سائنس کی ترتیب میں، خدا اور انسان ایک ساتھ وجود رکھتے اور ابدی ہیں۔ خدا ولدیت کی عقل ہے اور انسان خدا کی روحانی اولاد ہے۔

1. 336 : 25 (God)-26, 28-31

God, the divine Principle of man, and man in God's likeness are inseparable, harmonious, and eternal. ... God and man are not the same, but in the order of divine Science, God and man coexist and are eternal. God is the parent Mind, and man is God's spiritual offspring.

2 . ۔ 497 :13 (ہم)۔15 (تا؛)

ہم یسوع کے کفارے کواْس الٰہی یعنی موثر محبت کے ثبوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں جو راہ دکھانے والے یسوع مسیح کے وسیلہ خدا کے ساتھ انسان کے اتحاد کو آشکار کرتی ہے؛

2. 497 : 13 (We)-15 (to ;)

We acknowledge Jesus' atonement as the evidence of divine, efficacious Love, unfolding man's unity with God through Christ Jesus the Way-shower;

3 . ۔ 18 :13۔14 (تا،)

مسیح کا کفارہ انسان کی خدا کے ساتھ نہ کہ خدا کی انسان کے ساتھ مفاہمت کرواتا ہے؛ کیونکہ مسیح کا الٰہی اصول خدا ہے،

3. 18 : 13-14 (to ,)

The atonement of Christ reconciles man to God, not God to man; for the divine Principle of Christ is God,

4 . ۔ 19 :6۔11

یسوع نے انسان کو محبت کا حقیقی فہم، یسوع کی تعلیمات کا الٰہی اصول دیتے ہوئے خدا کے ساتھ راضی ہونے میں مدد کی، اور محبت کا یہ حقیقی فہم روح کے قانون، الٰہی محبت کے قانون کے وسیلہ انسان کو مادے، گناہ اور موت کے قانون سے آزاد کرتا ہے۔

4. 19 : 6-11

Jesus aided in reconciling man to God by giving man a truer sense of Love, the divine Principle of Jesus' teachings, and this truer sense of Love redeems man from the law of matter, sin, and death by the law of Spirit, — the law of divine Love.

5 . ۔ 26 :10۔18

مسیح روح تھا جسے یسوع نے اپنے خود کے بیانات میں تقویت دی: ”راہ، حق اور زندگی مَیں ہوں“؛ ”مَیں اور میرا باپ ایک ہیں۔“ یہ مسیح، یا انسان یسوع کی الوہیت اْس کی فطرت، خدائی تھی جس نے اْسے متحرک رکھا۔الٰہی حق، زندگی اور محبت نے یسوع کو گناہ، بیماری اور موت پر اختیار دیا۔ اْس کا مقصد آسمانی ہستی کی سائنس کو ظاہر کرنا تھا تاکہ اِسے ثابت کرے جو خدا ہے اور جو وہ انسان کے لئے کرتا ہے۔

5. 26 : 10-18

The Christ was the Spirit which Jesus implied in his own statements: "I am the way, the truth, and the life;" "I and my Father are one." This Christ, or divinity of the man Jesus, was his divine nature, the godliness which animated him. Divine Truth, Life, and Love gave Jesus authority over sin, sickness, and death. His mission was to reveal the Science of celestial being, to prove what God is and what He does for man.

6 . ۔ 6: 23۔28

اسے ختم کرنے سے قبل یسوع گناہ کو بے نقاب کرتا اور ملامت کرتا ہے۔ بیمار عورت سے اْس نے کہا کہ تجھے شیطان نے جکڑرکھا تھا، اور پطرس سے کہا، ”تْو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے۔“ وہ انسان کو دکھانے اور تعلیم دینے آیا کہ کیسے گناہ، بیماری اور موت کو تباہ کرنا ہے۔ اْس نے بے ثمر درخت کے بارے میں کہا، ”]وہ[ کاٹ ڈالا جاتا ہے۔“

6. 6 : 23-28

Jesus uncovered and rebuked sin before he cast it out. Of a sick woman he said that Satan had bound her, and to Peter he said, "Thou art an offence unto me." He came teaching and showing men how to destroy sin, sickness, and death. He said of the fruitless tree, "[It] is hewn down."

7 . ۔ 7 :1۔7

غلطی کے لئے جو واحد سزائے موت اْس نے دی وہ تھی، ”اے شیطان، میرے سامنے سے دور ہو۔“اس بات کی مزید تصدیق کہ یسوع کی سرزنش بہت نوکیلی اور چْبھنے والی تھی اْس کے اپنے الفاظ میں پائی جاتی ہے، اس قدر شدید بیان کو ضروری ثابت کرتے ہوئے، جب اْس نے بدروحوں کو نکالا اور بیمار اور گناہگار کو شفا دی۔غلطی کی دستبرداری مادی فہم کو اِس کے جھوٹے دعووں سے محروم کرتی ہے۔

7. 7 : 1-7

The only civil sentence which he had for error was, "Get thee behind me, Satan." Still stronger evidence that Jesus' reproof was pointed and pungent is found in his own words, — showing the necessity for such forcible utterance, when he cast out devils and healed the sick and sinning. The relinquishment of error deprives material sense of its false claims.

8 . ۔ 25 :22۔31

اگرچہ گناہ اور بیماری پر اپنا اختیار ظاہر کرتے ہوئے، عظیم معلم نے کسی صورت دوسروں کو اْن کے تقویٰ کے مطلوبہ ثبوت دینے میں مدد نہیں کی۔ اْس نے اْن کی ہدایت کے لئے کام کیا، کہ وہ اِس طاقت کا اظہار اْسی طرح کریں جیسے اْس نے کیا اور اِس کے الٰہی اصول کو سمجھیں۔ استاد پر مکمل ایمان اور وہ سارا جذباتی پیار جو ہم اْس پر نچھاور کر سکتے ہیں، صرف یہی ہمیں اْس کی تقلید کرنے والے نہیں بنائیں گے۔ ہمیں جا کر اْسی کی مانند کام کرنا چاہئے، وگرنہ ہم اْن بڑی برکات کو فروغ نہیں دے رہے جو ہمارے مالک نے ہمیں عطا کرنے کے لئے کام کیا اور تکلیف اٹھائی۔

8. 25 : 22-31

Though demonstrating his control over sin and disease, the great Teacher by no means relieved others from giving the requisite proofs of their own piety. He worked for their guidance, that they might demonstrate this power as he did and understand its divine Principle. Implicit faith in the Teacher and all the emotional love we can bestow on him, will never alone make us imitators of him. We must go and do likewise, else we are not improving the great blessings which our Master worked and suffered to bestow upon us.

9 . ۔ 242 :9۔14

آسمان پر جانے کا واحد راستہ ہم آہنگی ہے اور مسیح الٰہی سائنس میں ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا مطلب خدا، اچھائی اور اْس کے عکس کے علاوہ کسی اور حقیقت کو نہ جاننا، زندگی کے کسی اور ضمیر کو نا جاننا ہے، اور نام نہاد درد اور خوشی کے احساسات سے برتر ہونا ہے۔

9. 242 : 9-14

There is but one way to heaven, harmony, and Christ in divine Science shows us this way. It is to know no other reality — to have no other consciousness of life — than good, God and His reflection, and to rise superior to the so-called pain and pleasure of the senses.

10 . ۔ 201 :20۔5

پاکیزگی پر پاکیزگی کی پیوند کاری کرنا، یہ فرض کرنا کہ گناہ بِنا ترک کئے معاف کیا جاسکتا ہے، ایسی ہی بیوقوفی ہے جیسے مچھروں کو نکیل ڈالنا اور اونٹوں کو نگلنا ہوتا ہے۔

سائنسی اتحاد جو خدا اور انسا ن کے درمیان موجود ہے اْسے عملی زندگی میں کشیدہ کرنا چاہئے اور خدا کی مرضی عالگیر طور پر پوری کی جانی چاہئے۔

10. 201 : 20-5

Grafting holiness upon unholiness, supposing that sin can be forgiven when it is not forsaken, is as foolish as straining out gnats and swallowing camels.

The scientific unity which exists between God and man must be wrought out in life-practice, and God's will must be universally done.

11 . ۔ 22 :23۔30

غلطی سے حتمی رہائی، جس کے تحت ہم لافانیت، بے انتہا آزادی، بے گناہ فہم میں شادمان ہوتے پھولوں سے سجی راہوں سے ہو کر نہیں پائے جاتے نہ کسی کے ایمان کے بغیر کسی اور کی متبادل کوشش سے سامنے آتے ہیں۔ جو کوئی یہ مانتا ہے کہ قہر راست ہے یا الوہیت انسانی تکالیف سے آسودہ ہوتی ہے، وہ خدا کو نہیں سمجھتا۔

عدل کے لئے گناہگار کو اصلاح کی ضرورت ہے۔

11. 22 : 23-30

Final deliverance from error, whereby we rejoice in immortality, boundless freedom, and sinless sense, is not reached through paths of flowers nor by pinning one's faith without works to another's vicarious effort. Whosoever believeth that wrath is righteous or that divinity is appeased by human suffering, does not understand God.

Justice requires reformation of the sinner.

12 . ۔ 23 :1۔11

ہمیں گناہ سے بچانے کے لئے حکمت اور محبت خود کی بہت سی قربانیوں کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ایک قربانی، خواہ وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔کفارے کے لئے گناہگار کی طرف سے مسلسل بے لوث قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ الٰہی طور پر غیر فطری ہے کہ خدا کا غضب اْس کے پیارے بیٹے پر نکلے۔ایسا نظریہ انسان کا بنایا ہوا ہے۔علم الٰہیات میں کفارہ ایک سنگین مسئلہ ہے، مگر اِس کی سائنسی تفصیل یہ ہے کہ دْکھ گناہ آلودہ فہم کی ایک غلطی ہے جسے سچائی نیست کرتی ہے، اور بالاآخر یہ دونوں گناہ اور دْکھ ہمیشہ کی محبت کے قدموں پر آگرتے ہیں۔

12. 23 : 1-11

Wisdom and Love may require many sacrifices of self to save us from sin. One sacrifice, however great, is insufficient to pay the debt of sin. The atonement requires constant self-immolation on the sinner's part. That God's wrath should be vented upon His beloved Son, is divinely unnatural. Such a theory is man-made. The atonement is a hard problem in theology, but its scientific explanation is, that suffering is an error of sinful sense which Truth destroys, and that eventually both sin and suffering will fall at the feet of everlasting Love.

13 . ۔ 30 :26۔1

اگر ہم نے روح کو پورا اختیار سنبھالنے کی اجازت دینے کے لئے مادی فہم کی غلطیوں پر مناسب طور سے فتح پا لی ہے تو ہم گناہ سے نفرت کریں گے اور اِسے ہر صورت میں رد کریں گے۔صرف اسی طرح سے ہم ہمارے دشمنوں کے لئے برکت چاہ سکتے ہیں، اگرچہ ہوسکتا ہے وہ ہمارے الفاظ کو نہ سمجھیں۔ہم خود اِس کا انتخاب نہیں کر سکتے، مگر ہماری نجات کے لئے ہمیں ویسے ہی کام کرنا چاہئے جیسے یسوع نے ہمیں سکھایا ہے۔ فروتنی اور طاقت میں، وہ غریبوں کو انجیل کی تعلیم دیتا ہوا پایا گیا۔

13. 30 : 26-1

If we have triumphed sufficiently over the errors of material sense to allow Soul to hold the control, we shall loathe sin and rebuke it under every mask. Only in this way can we bless our enemies, though they may not so construe our words. We cannot choose for ourselves, but must work out our salvation in the way Jesus taught. In meekness and might, he was found preaching the gospel to the poor.

14 . ۔ 21 :9۔14

اگر شاگرد روحانی طور پر ترقی کر رہا ہے، تو وہ داخل ہونے کی جدجہد کر رہا ہے۔ وہ مادی حِس سے دور ہونے کی مسلسل کوشش کررہا ہے اور روح کی ناقابل تسخیر چیزوں کا متلاشی ہے۔اگر ایماندار ہے تو وہ ایمانداری سے ہی آغاز کرے گا اور آئے دن درست سمت پائے گا جب تک کہ وہ آخر کار شادمانی کے ساتھ اپنا سفر مکمل نہیں کر لیتا۔

14. 21 : 9-14

If the disciple is advancing spiritually, he is striving to enter in. He constantly turns away from material sense, and looks towards the imperishable things of Spirit. If honest, he will be in earnest from the start, and gain a little each day in the right direction, till at last he finishes his course with joy.

15 . ۔ 45 :6۔21

ہمارے مالک نے مکمل طور پر اور فیصلہ کْن انداز میں موت اور قبر پر اپنی فتح سے الٰہی سائنس کو واضح کیا۔یسوع کا کام انسان کی روشن خیالی اور پوری دنیا کی گناہ، بیماری اور موت سے نجات کے لئے تھا۔ پولوس لکھتا ہے: ”کیونکہ جب باوجود ْشمن ہونے کے خدا سے اْس کے بیٹے کی]بظاہر[ موت کے وسیلہ ہمار امیل ہوگیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اْس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔“ اْس کی جسمانی تدفین کے تین دن بعد اْس نے اپنے شاگردوں سے بات کی۔ اْس پر ظلم ڈھانے والے لافانی سچائی اور محبت کو قبر کے اندر پوشیدہ رکھنے میں ناکام ہو چکے تھے۔

خدا کی تمجید ہو اور جدوجہد کرنے والے دلوں کے لئے سلامتی ہو! مسیح نے انسانی امید اور ایمان کے درواز ے سے پتھر ہٹا دیا ہے، اور خدا میں زندگی کے اظہار اور مکاشفہ کی بدولت اْس نے انسان کے روحانی خیال اور اْس کے الٰہی اصول، یعنی محبت کے ساتھ ممکنہ کفارے سے انہیں بلند کیا۔

15. 45 : 6-21

Our Master fully and finally demonstrated divine Science in his victory over death and the grave. Jesus' deed was for the enlightenment of men and for the salvation of the whole world from sin, sickness, and death. Paul writes: "For if, when we were enemies, we were reconciled to God by the [seeming] death of His Son, much more, being reconciled, we shall be saved by his life." Three days after his bodily burial he talked with his disciples. The persecutors had failed to hide immortal Truth and Love in a sepulchre.

Glory be to God, and peace to the struggling hearts! Christ hath rolled away the stone from the door of human hope and faith, and through the revelation and demonstration of life in God, hath elevated them to possible at-one-ment with the spiritual idea of man and his divine Principle, Love.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████