اتوار 17مارچ ، 2019



مضمون۔ مواد

سنہری متن: زبور 85: 12آیت



’’ جو کچھ اچھا ہے وہی خداوند عطا فرمائے گااور ہماری زمین اپنی پیداوار دے گی۔‘‘





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: امثال 8باب 1 ،10 ،11 ،18 تا 21آیات


1۔ کیا حکمت پکار نہیں رہی اور فہم آواز بلند نہیں کر رہا؟ 

10۔ چاندی کو نہیں بلکہ میری تربیت کو قبول کرو اور کندن سے بڑھ کر علم کو۔ 

11۔ کیونکہ حکمت مر جان سے افضل ہے اور سب مرغوب چیزوں میں بے نظیر۔

18 ۔ دولت وعزت میرے ساتھ ہیں۔بلکہ دائمی دولت اور صداقت بھی۔ 

19۔ میراپھل سونے سے بلکہ کندن سے بھی بہتر ہےاور میرا حاصل خالص چاندی سے۔ 

20۔ میں صداقت کی راہ پر انصاف کے راستوں میں چلتی ہوں۔ 

21 ۔ تاکہ میں اُنکو جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں مال کے وارث بناوں اور انکے خزانوں کو بھردوں۔



درسی وعظ



بائبل


1۔ امثال 3باب9، 10 آیت

9۔ اپنے مال سے اور اپنی ساری پیداوار کے پہلے پھلوں سے خداوند کی تعظیم کر۔ 

10 ۔ یوں تیرے کھتے خوب بھرے رہیں گے اور تیرے حوض نئی مے سے لبریز ہونگے۔

2۔ 1سلاطین 17باب 1(ایلیاہ) ، 8تا16آیات

1۔ اور ایلیاہ تشبی جو جلعاد کے پردیسیوں میں سے تھا اخی اب سے کہا کہ خُداوند اسرائیل کے خُدا کی حیات کی قسم جسکے سامنے میں کھڑا ہوں اِن برسوں میں نہ اوس پڑے گی نہ مینہ برسیگا جب تک میں نہ کہوں۔ 

8۔ تب خُداوند کا یہ کلام اُس پر نازل ہوا۔ 

9 ۔ کہ اٹھ اور صیدا کے صارپت کو جا اور وہیں رہ۔ دیکھ میں نے ایک بیوہ کو وہاں حکم دیا ہے کہ تیری پرورش کرے۔ 

10۔ سو وہ اٹھ کر صارپت کو گیا اور جب وہ شہر کے پھاٹک پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک بیوہ وہاں لکڑیاں چن رہی ہے۔ سو اُس نے اُسے پکار کر کہا ذرا مجھے تھوڑا سا پانی کسی برتن میں لادے کہ میں پیوں۔ 

11۔ اور جب وہ لینے چلی تو اُس نے پکار کر کہا ذرا اپنے ہاتھ میں ایک ٹکڑا روٹی میرے واسطے لیتی آنا۔ 

12۔ اُس نے کہ خداوند تیرے خدا کی حیات کی قسم میر ے ہاں روٹی نہیں۔ صرف مُٹھی بھر آٹا ایک مٹکے میں اور تھوڑا سا تیل ایک کُپی میں ہے اور دیکھ میں دو ایک لکڑیاں چُن رہی ہوں تاکہ گھر جا کر اپنے اور اپنے بیٹے کے لیے اُسے پکاوں اور ہم اُسے کھائیں۔ اور پھر مر جائیں۔ 

13۔ اور ایلیاہ نے اُس سے کہا مت ڈر۔ جا اور جیسا کہتی ہے کر پر پہلے میرے لیے ایک ٹکیا اُس میں سے بنا کر میرے پاس لے آ۔ اُسکے بعد اپنے اور اپنے بیٹے کے لیے بنا لینا۔ 

14۔ کیونکہ خُداوند اسرائیل کا خُدا یوں فرماتا ہے کہ اُس دن تک جب تک خُداوند زمین پر مینہ نہ برسائے نہ تو آٹے کا مٹکا خالی ہو گا اور نہ تیل کی کپی میں کمی ہو گی۔ 

15۔ سو اُس نے جا کر ایلیاہ کے کہنے کے مطابق کیا اور یہ اور وہ اور اُسکا کنبہ بہت دنوں تک کھاتے رہے۔ 

16۔ اور خُداوند کے کلام کے مطابق جو اُس نے ایلیاہ کی معرفت فرمایا تھا نہ تو آٹے کا مٹکا خالی ہُوا اور نہ تیل کی کُپی میں کمی ہوئی۔

3۔ 2سلاطین 5باب1 ،10 ،14تا16، 20، 21(تا۔) ، 22 (میرا) ، 23 (پانچویں تک،) ، 25تا27آیات

1۔ اورشاہِ ارام کے لشکر کا سردار نعمان اپنے آقا کے نزدیک معزز و مکرم شخص تھا کیونکہ خُداوند نے اُس کے وسیلہ سے ارام کو فتح بخشی تھی وہ زبردست سورما بھی تھا لیکن کوڑھی تھا۔

10۔ اور الیشع نے ایک قاصد کی معرفت کہلا بھیجا جا اور یردن میں سات بار غوطہ مار تو تیرا جسم پھر بحال ہو جائے گا اور تو پاک صاف ہو گا۔

14۔ تب اُس نے اُتر کر مردِ خُدا کے کہنے کے مطابق یردن میں سات غوطے مارے اور اُس کا جسم چھوٹے بچے کے جسم کی مانند ہو گیا اور وہ پاک صاف ہوا۔ 

15۔ پھر وہ اپنی جلو کے سب لوگوں کے ساتھ مردِ خُدا کے پاس لوٹااور اُس کے سامنے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ دیکھ اب میں نے جان لیا کہ اسرائیل کو چھوڑ اور کہیں رویِ زمین پر کوئی خُدا نہیں اِس لیے اب کرم فرما کر اپنے خادم کا ہدیہ قبول کر۔ 

16۔ لیکن اُس نے جواب دیا خُداوند کی حیات کی قسم جس کے آگے میں کھڑا ہوں میں کچھ نہیں لونگا اور اُس نے اُس سے بہت اصرار کیا کہ لے پر اُس نے انکار کیا۔ 

20۔ لیکن اس مردِ خُدا الیشع کے خادم جیحازی نے سوچا کہ میرے آقا نے ارامی نعمان کو یوں ہی جانے دیا کہ جو کچھ وہ لایا تھااُس سے نہ لیا سو خُداوند کی حیات کی قسم میں اُس کے پیچھے دوڑ جاوں گا اور اُ س سے کچھ نہ کچھ لوں گا۔ 

21۔ سو جیحازی نعمان کے پیچھے چلا، جب نعمان نے دیکھا کہ کوئی اُس کے پیچھے دوڑا چلا آ رہا ہے تو وہُ ا سے ملنے کو رتھ پر سے اُترا اور کہا خیر تو ہے۔ 

22۔ اُس نے کہا سب خیر ہے میرے مالک نے مجھے یہ کہنے کو بھیجا ہے کہ دیکھ انبیا زادوں میں سے ابھی دو جوان افرائیم کے کوہستانی مُلک سے میرے پاس آ گئے ہیں سو ذرا ایک قنطار چاندی اور دو جوڑے کپڑے اُن کے لیے دے دے۔ 

23۔ نعمان نے کہا خوشی سے دو قنطار کے اور وہ اُس سے بجد ہوا اور اُس نے دو قنطار چاندی اور دو تھیلیوں میں باندھی اور دو جوڑے کپڑوں سمیت اُن کو اپنے دو نوکروں پر لادا اور وہ اُن کو لیکر اُس کے آگے آگے چلے۔ 

25۔ لیکن آپ اندر جا کر اپنے آقا کے حضور کھڑا ہو گیا، الیشع نے اُس سے کہا جیحازی تُو کہاں سے آ رہا ہے اُس نے کہا تیرا خادم تو کہیں نہیں گیا تھا۔ 

26 ۔ اُس نے اُس سے کہا کیا میرا دل اُس وقت تیرے ساتھ نہ تھا جب دو شخص تُجھ سے ملنے کو اپنے رتھ پر سے لوٹا کیا روپے لینے اور پوشاک اور زیتون کے باغوں اور تاکستانوں اور بھیڑوں اور بیلوں اور غُلاموں اور لونڈیوں کے لینے کا یہ وقت ہے 

27 ۔ اِس لیے نعمان کا کوڑھ تُجھے اور تیری نسل کو سد ا لگا رہے گا۔ سو وہ برف سا سفید کوڑھی ہو کر اُس کے سامنے سے چلا گیا۔

4۔ متی 6باب19تا21، 25(تا۔) ، 32 (آپ کے لئے) ، 33 آیات

19۔ اپنے واسطے زمِین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چُراتے ہیں۔ 

20 ۔ بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چُراتے ہیں۔ 

21 ۔ کیونکہ جہاں تیرا مال ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا۔ 

25 ۔ اِس لئے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اپنی جان کی فِکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پیئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟

32۔ ۔۔۔تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تُم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔

33 ۔ بلکہ تم پہلے اُس کی بادشاہی اوراس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مِل جائیں گی۔



سائنس اور صح


1۔ 468: 16۔ 24

سوال۔ مواد کیا ہے؟

جواب۔ مواد وہ ہے جو ابدی ہے اور نیست ہونے اور مخالفت سے عاجز ہے۔ سچائی، زندگی اور محبت مواد ہیں، جیسے کہ کلام عبرانیوں میں یہ الفاظ استعمال کرتا ہے: ’’ایمان اْمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔‘‘روح، جو فہم،جان، یا خدا کا مترادف لفظ ہے، واحد حقیقی مواد ہے۔ روحانی کائنات، بشمول انفرادی انسان، ایک مشترک خیال ہے، جو روح کے الٰہی مواد کی عکاسی کرتا ہے۔

2۔ 469: 2۔3

جسے مادے کی اصطلاح کہا گیا ہے وہ روح سے نا آشنا ہے، جو خود میں تمام مواد سمودیتا ہے اور خود ابدی زندگی ہے۔ 

3۔ 278: 28۔3

وہ سب کچھ جس کے لئے ہم گناہ، بیماری اور موت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں فانی یقین ہے۔ ہم مادے کی تشریح بطور غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ زندگی، مواد اور شعور کے اْلٹ ہے۔ اگر روح حقیقی اور ابدی ہے تو مادہ، اپنی فانیت کے ہمراہ، حقیقی نہیں ہوسکتا۔ہماری نظر میں کیا چیز مواد ہونی چاہئے، غلطی، تبدیل ہونے والا ، فنا ہونے والا اور فانی، یا پھر غلطی سے مبرا، ناقابل تغیر اور لافانی؟

4۔ 311: 26۔7

وہ چیزیں جو جسمانی حواس کی بدولت شناخت پاتی ہیں اْن میں مواد کی حقیقت نہیں ہوتی۔یہ محض وہی ہیں جو فانی یقین انہیں کہتا ہے۔ مادہ، گناہ اور فانیت تمام فرضی شعور یا زندگی اور وجودیت کے دعوے کو جھٹلاتے ہیں، کیونکہ فانی لوگ زندگی ، مواد اور عقل کے جھوٹے حواس مہیا کرتے ہیں۔ لیکن روحانی ابدی انسان کو فانیت کے ان مراحل کی بدولت چھوا بھی نہیں جاتا۔ 

یہ کتنی بڑی حقیقت ہے کہ مادی حس کے وسیلہ جو کچھ بھی سیکھا گیا ہوتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ سائنس میں ایسا نام نہاد علم زندگی کے روحانی حقائق کے ذریعے اْلٹ ہو جاتا ہے۔ مادی حس جِسے غیر مادی تصور کرتی ہے اسے مواد کہا جاتا ہے۔ جب احساسی خواب غائب ہوتا اور حقیقت سامنے آتی ہے تو مادی حس جسے مواد سمجھتی ہے وہ عدم بن جاتا ہے۔ 

5۔ 458: 32۔8

جیسے پھول اندھیرے سے روشنی کی طرف مْڑتا ہے ،مسیحت انسان کو فطری طور پر مادے سے روح کی جانب موڑنے کا موجب بنتی ہے۔پھر انسان اْن چیزوں کو مختص کرتا ہے جو ’’نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سْنیں۔‘‘یوحنا اور پولوس کو بہت واضح ادراک تھا کہ ، چونکہ فانی آدمی کو قربانی کے بغیردنیاوی عظمت حاصل نہیں ہو سکتی، اس لئے اْسے سب دنیاداری چھور کر آسمانی خزانے حاصل کرنے چاہئیں۔پھر اْس کا دنیاوی ہمدردیوں، اغراض و مقاصد میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ 

6۔ 252: 15۔23 (تا۔) ، 31۔8

مادے کی حِس کا جھوٹا ثبوت نہایت موثر انداز سے روح کی گواہی کی مخالفت کرتا ہے۔مادے کی حِس خود کی آواز کو حقیقت کی شدت کے ساتھ اونچا کرتی ہے اور کہتی ہے:

میں مکمل طور پر بے ایمان ہوں، اور انسان یہ جانتا ہے۔ میں دھوکہ دے سکتی، جھوٹ بول سکتی، زناکاری کر سکتی، چوری کر سکتی، قتل کر سکتی اور نرم لہجے کی کمینگی کے ذریعے میں سراغ رسانی سے بچ سکتی ہوں۔ خواہش میں حیوان، جذبے میں فریبی، مقصد میں مکار، میرا مطلب میری زندگی کے مختصر دورانیے کو ایک جشن کا دن بناتی ہوں۔ 

روح مخالف گواہی دیتے ہوئے، کہتی ہے:

میں روح ہوں۔ انسان، جس کے حواس روحانی ہیں، میری صورت پر ہے۔وہ لافانی فہم کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ میں لافانی ہوں۔ پاکیزگی کی خوبصورتی، وجود کی کاملیت، ناقابل تسخیر جلال، سب میرے ہیں، کیونکہ میں خدا ہوں۔ میں انسان کو لافانیت دیتا ہوں کیونکہ میں سچائی ہوں۔ میں تمام تر نعمتیں شامل کرتا اور عطا کرتا ہوں، کیونکہ میں محبت ہوں۔ میں ، ازل اور ابد سے مبرا، زندگی دیتا ہوں کیونکہ میں زندگی ہوں۔ میں اعلیٰ ہوں اور سب کچھ عطا کرتا ہوں کیونکہ میں شعور ہوں۔ میں ہر چیز کا مواد ہوں، کیونکہ مَیں جو ہوں سومَیں ہوں۔ 

7۔450: 27۔4

کون ایسا ہے جس نے زندگی میں خطرناک عقائد ، مواد، اور خدا سے جْدا شعور کو محسوس کیا ہو اور یہ کہہ سکتا ہوکہ ایمان میں کوئی غلطی نہیں ہے؟ حیوانی کشش کے دعوے کو جانتے ہوئے، کہ ساری بدی مادے، بجلی، جانوروں کی فطرت اور نامیاتی حیات کی زندگی، مواد اور شعور کے یقین میں اکٹھی ہوتی ہے، کون اس سے منکر ہو گا کہ یہ وہ غلطیاں ہیں سچائی جن کو نیست کرے گی اور کرنا بھی چاہئے۔

مسیحی سائنسدانوں کو مادی دنیا سے باہر نکلنے اور اِس سے دور رہنے کے رسولی حْکم کے متواتر دباؤ میں رہنا چاہئے

8۔ 239: 5۔10، 16۔22

اْس دولت ، شہرت اور معاشرتی تنظیم کو دور کردیں جن کا خدا کے ترازو میں تنکا برابر وزن بھی نہیں ہے، تو پھر ہمیں اصول کے واضح خیالات ملتے ہیں۔ گروہ بندی کو توڑیں، دولت کو ایمانداری سے ہموار کریں، قابلیت کو حکمت سے آزمائیں تو ہمیں انسانیت کے بہتر خیالات ملتے ہیں۔ 

ہماری ترقی کا تعین کرنے کے لئے، ہمیں یہ سیکھنا چاہئے کہ ہماری ہمدردیاں کیا مقام رکھتی ہیں اور بطور خدا ہم کسے تسلیم کرتے اور کس کے حْکم کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر الٰہی محبت ہمارے لئے قریب تر، عزیز تر اور زیادہ حقیقی بن رہی ہے تو پھر مادہ روح کے سپرد ہورہا ہے۔جن چیزوں کا ہم تعاقب کرتے ہیں اورجس روح کو ہم آشکار کرتے ہیں وہ ہمارے نقطہ نظر کو ظاہرکرتی ہے اور ہمیں دکھاتی ہے کہ ہم کیا فتح کر رہے ہیں۔

9۔ 518: 15۔21

روح کے امیراعلیٰ بھائی چارے میں ،ایک ہی اصول یا باپ کے وسیلہ، غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور مبارک ہے وہ شخص جودوسرے کی بھلائی میں اپنی بھلائی دیکھتے ہوئے، اپنے بھائی کی ضرورت دیکھتا اور پوری کرتا ہے۔ محبت کمزور روحانی خیال کو طاقت، لافانیت اور بھلائی عطا کرتی ہے جو سب میں ایسے ہی روشن ہوتی ہے جیسے شگوفہ ایک کونپل میں روشن ہوتا ہے۔

10۔ 21: 9۔14

اگر شاگرد روحانی طور پر ترقی کر رہا ہے، تو وہ داخل ہونے کی جدجہد کر رہا ہے۔ وہ مادی حِس سے دور ہونے کی مسلسل کوشش کررہا ہے اور روح کی ناقابل تسخیر چیزوں کا متلاشی ہے۔اگر ایماندار ہے تو وہ ایمانداری سے ہی آغاز کرے گا اور آئے دن درست سمت پائے گا جب تک کہ وہ آخر کار شادمانی کے ساتھ اپنا سفر مکمل نہیں کر لیتا۔


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████