اتوار 17 اپریل، 2022



مضمون۔ کفارے کا عقیدہ

SubjectDoctrine of Atonement

سنہری متن: یوحنا 10 باب 30 آیت

”مَیں اور باپ ایک ہیں۔“ مسیح یسوع



Golden Text: John 10 : 30

I and my Father are one.”— Christ Jesus





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: یوحنا 17 باب 1، 2، 19تا23 آیات


1۔ یسوع نے یہ باتیں کہیں اور اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اْٹھا کر کہا کہ اے باپ! وہ گھڑی آ پہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔

2۔ چنانچہ تْو نے اْسے ہر بشر پر اختیار دیا تاکہ جنہیں تْو نے اْسے بخشا ہے اْن سب کو ہمیشہ کی زندگی دے۔

19۔ اور اْن کی خاطر مَیں اپنے آپ کو مقدس کرتا ہوں تاکہ وہ بھی سچائی کے وسیلہ سے مقدس کئے جائیں۔

20۔ مَیں صرف انہی کے لئے درخواست نہیں کرتا بلکہ اْن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایمان لائیں گے۔

21۔ تاکہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اے باپ! تْو مجھ میں ہے اور مَیں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں اور دنیا ایمان لائے کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا ہے۔

22۔ اور وہ جلال جو تْو نے مجھے دیا ہے مَیں نے اْنہیں دیا ہے تاکہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں۔

23۔ مَیں اْن میں اور تْو مجھ میں تاکہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں اور دنیا جانے کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا اور جس طرح کہ تْو نے مجھ سے محبت رکھی۔

Responsive Reading: John 17 : 1, 2, 19-23

1.     These words spake Jesus, and lifted up his eyes to heaven, and said, Father, the hour is come; glorify thy Son, that thy Son also may glorify thee:

2.     As thou hast given him power over all flesh, that he should give eternal life to as many as thou hast given him.

19.     And for their sakes I sanctify myself, that they also might be sanctified through the truth.

20.     Neither pray I for these alone, but for them also which shall believe on me through their word;

21.     That they all may be one; as thou, Father, art in me, and I in thee, that they also may be one in us: that the world may believe that thou hast sent me.

22.     And the glory which thou gavest me I have given them; that they may be one, even as we are one:

23.     I in them, and thou in me, that they may be made perfect in one; and that the world may know that thou hast sent me, and hast loved them, as thou hast loved me.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ متی 4 باب17 آیت

17۔ اْس وقت سے یسوع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔

1. Matthew 4 : 17

17     From that time Jesus began to preach, and to say, Repent: for the kingdom of heaven is at hand.

2 . ۔ یوحنا 13 باب31 آیت

31۔ جب وہ باہر چلا گیا تو یسوع نے کہا اب ابنِ آدم نے جلال پایا اور خدا نے اْس میں جلال پایا۔

2. John 13 : 31

31     Therefore, when he was gone out, Jesus said, Now is the Son of man glorified, and God is glorified in him.

3 . ۔ یوحنا 14 باب2، 8تا12 آیات

2۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں اگر نہ ہوتے تو مَیں تم سے کہہ دیتا کیونکہ مَیں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں۔

8۔ فلپس نے اْس سے کہا اے خداوند! باپ کو ہم کو دکھا۔ یہی ہمیں کافی ہے۔

9۔ یسوع نے اْس سے کہا اے فلپس! مَیں اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تْو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا ہے اْس نے باپ کو دیکھا ہے۔ تْو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟

10۔ کیا تْو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو مَیں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر کام کرتا ہے۔

11۔ میرا یقین کرو کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو۔

12۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں۔

3. John 14 : 2, 8-12

2     In my Father’s house are many mansions: if it were not so, I would have told you. I go to prepare a place for you.

8     Philip saith unto him, Lord, shew us the Father, and it sufficeth us.

9     Jesus saith unto him, Have I been so long time with you, and yet hast thou not known me, Philip? he that hath seen me hath seen the Father; and how sayest thou then, Shew us the Father?

10     Believest thou not that I am in the Father, and the Father in me? the words that I speak unto you I speak not of myself: but the Father that dwelleth in me, he doeth the works.

11     Believe me that I am in the Father, and the Father in me: or else believe me for the very works’ sake.

12     Verily, verily, I say unto you, He that believeth on me, the works that I do shall he do also; and greater works than these shall he do; because I go unto my Father.

4 . ۔ یوحنا 19 باب1تا3، 16، 18 (تا پہلی) آیات

1۔ اِس پر پلاطوس نے یسوع کو لے کر کوڑے لگوائے۔

2۔ اور سپاہیوں نے کانٹوں کا تاج بنا کر اْس کے سر پر رکھا اور اْسے ارغوانی پوشاک پہنائی۔

3۔اور اْس کے پاس آکر کہنے لگے اے یہودیوں کے بادشاہ آداب! اور اْس کے طمانچے بھی مارے۔

16۔ اِس پر اْس نے اْس کو اْن کے حوالے کیا کہ مصلوب کیا جائے۔ پس وہ یسوع کو لے گئے۔

18۔ وہاں اْس کو مصلوب کیا۔

4. John 19 : 1-3, 16, 18 (to 1st ,)

1     Then Pilate therefore took Jesus, and scourged him.

2     And the soldiers platted a crown of thorns, and put it on his head, and they put on him a purple robe,

3     And said, Hail, King of the Jews! and they smote him with their hands.

16     Then delivered he him therefore unto them to be crucified. And they took Jesus, and led him away.

18     Where they crucified him.

5 . ۔ یوحنا 20 باب1، 11(مریم) تا28 آیات

1۔ ہفتہ کے پہلے دن مریم مگدلینی ایسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا قبر پر آئی اور پتھر کو قبر پر سے ہٹا دیکھا۔

11۔ لیکن مریم باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی۔ اور جب روتے روتے قبر کی طرف جھْک کر اندر نظر کی۔

12۔ تو دو فرشتوں کو سفید پوشاک پہنے ہوئے ایک کو سرہانے اور دوسرے کو پینتانے بیٹھے دیکھا جہاں یسوع کی لاش پڑی تھی۔

13۔ انہوں نے اْس سے کہا اے عورت! تْوکیوں روتی ہے؟ اْس نے اْن سے کہا اِس لئے کہ میرے خداوند کو اٹھا لے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ اْسے کہاں رکھا ہے۔

14۔ یہ کہہ کر وہ پیچھے مْڑی اور یسوع کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔

15۔ یسوع نے اْس سے کہا اے عورت! تْو کیوں روتی ہے؟ کس کو ڈھونڈتی ہے؟ اْس نے باغبان سمجھ کر اْس سے کہا میاں اگر تْو نے اْس کو یہاں سے اٹھایا ہو تو مجھے بتا دے کہ اْسے کہاں رکھا ہے تاکہ مَیں اْسے لے جاؤں۔

16۔ یسوع نے اْس سے کہا مریم! اْس نے مڑ کر اْسے عبرانی زبان میں کہا ربْونی! یعنی اے استاد!

17۔ یسوع نے اْس سے کہا مجھے نہ چھْو کیونکہ میں اب تک باپ کے پاس اوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جا کر اْن سے کہہ کہ مَیں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں۔

18۔ مریم مگدلینی نے آکر شاگردوں کو خبر دی مَیں نے خداوند کو دیکھا اور اْس نے مجھ سے باتیں کیں۔

19۔پھر اْسی دن جو ہفتے کا پہلا دن تھا شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے یہودیوں کے ڈر سے بند تھے یسوع آکر بیچ میں کھڑا ہوا اور اْن سے کہا تمہاری سلامتی ہو!

20۔ اور یہ کہہ اْس نے اپنے ہاتھوں اور پسلی کو اْنہیں دکھایا۔پس شاگرد خداوند کو دیکھ کر خوش ہوئے۔

21۔ یسوع نے پھر اْن سے کہا تمہاری سلامتی ہو!جس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے مَیں بھی تمہیں بھیجتا ہوں۔

22۔ اور یہ کہہ کر اْن پر پھونکا اور اْن سے کہا روح القدس لو۔

23۔ جن کے گناہ تم بخشو اْن کے بخشے گئے ہیں۔ جن کے گناہ تم قائم رکھو اْن کے قائم رکھے گئے ہیں۔

24۔ مگر اْن بارہ میں سے ایک شخص یعنی توما جسے توام کہتے ہیں یسوع کے آنے کے وقت اْن کے ساتھ نہ تھا۔

25۔ پس باقی شاگرد اْس سے کہنے لگے ہم نے خداوند کو دیکھا ہے مگر اْس نے اْن سے کہا جب تک مَیں اْس کے ہاتھوں میں میخوں کے سوراخ نہ دیکھ لوں اور میخوں کے سوراخوں میں اپنی انگلی نہ ڈال لوں اور اپنا ہاتھ اْس کی پسلی میں نہ ڈال لوں ہر گز یقین نہ کروں گا۔

26۔ آٹھ روز کے بعد جب اْس کے شاگرد پھر اندر تھے اور توما اْن کے ساتھ تھا اور دروازے بند تھے یسوع نے آکر اور بیچ میں کھڑا ہو کر کہا تمہاری سلامتی ہو۔

27۔ پھر اْس نے توما سے کہا اپنی انگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ لا کر میری پسلی میں ڈال اور بے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ۔

28۔ توما نے جواب میں اْس سے کہا اے میرے خداوند! اے میرے خدا!

5. John 20 : 1, 11 (Mary)-28

1     The first day of the week cometh Mary Magdalene early, when it was yet dark, unto the sepulchre, and seeth the stone taken away from the sepulchre.

11     Mary stood without at the sepulchre weeping: and as she wept, she stooped down, and looked into the sepulchre,

12     And seeth two angels in white sitting, the one at the head, and the other at the feet, where the body of Jesus had lain.

13     And they say unto her, Woman, why weepest thou? She saith unto them, Because they have taken away my Lord, and I know not where they have laid him.

14     And when she had thus said, she turned herself back, and saw Jesus standing, and knew not that it was Jesus.

15     Jesus saith unto her, Woman, why weepest thou? whom seekest thou? She, supposing him to be the gardener, saith unto him, Sir, if thou have borne him hence, tell me where thou hast laid him, and I will take him away.

16     Jesus saith unto her, Mary. She turned herself, and saith unto him, Rabboni; which is to say, Master.

17     Jesus saith unto her, Touch me not; for I am not yet ascended to my Father: but go to my brethren, and say unto them, I ascend unto my Father, and your Father; and to my God, and your God.

18     Mary Magdalene came and told the disciples that she had seen the Lord, and that he had spoken these things unto her.

19     Then the same day at evening, being the first day of the week, when the doors were shut where the disciples were assembled for fear of the Jews, came Jesus and stood in the midst, and saith unto them, Peace be unto you.

20     And when he had so said, he shewed unto them his hands and his side. Then were the disciples glad, when they saw the Lord.

21     Then said Jesus to them again, Peace be unto you: as my Father hath sent me, even so send I you.

22     And when he had said this, he breathed on them, and saith unto them, Receive ye the Holy Ghost:

23     Whose soever sins ye remit, they are remitted unto them; and whose soever sins ye retain, they are retained.

24     But Thomas, one of the twelve, called Didymus, was not with them when Jesus came.

25     The other disciples therefore said unto him, We have seen the Lord. But he said unto them, Except I shall see in his hands the print of the nails, and put my finger into the print of the nails, and thrust my hand into his side, I will not believe.

26     And after eight days again his disciples were within, and Thomas with them: then came Jesus, the doors being shut, and stood in the midst, and said, Peace be unto you.

27     Then saith he to Thomas, Reach hither thy finger, and behold my hands; and reach hither thy hand, and thrust it into my side: and be not faithless, but believing.

28     And Thomas answered and said unto him, My Lord and my God.

6 . ۔ رومیوں 5 باب8تا11 آیات

8۔لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔

9۔پس جب ہم اُس کے خون کے باعث اب راستباز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضب الہٰی سے ضرور ہی بچیں گے۔

10۔ کیونکہ جب باوجود دشمن ہونے کے خدا سے اس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہوگیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔

11۔اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے خداوند یسوع مسیح کے طفیل سے جس کے وسیلہ سے اب ہمارا خدا کے ساتھ میل ہوگیا خدا پر فخر بھی کرتے ہیں۔

6. Romans 5 : 8-11

8     But God commendeth his love toward us, in that, while we were yet sinners, Christ died for us.

9     Much more then, being now justified by his blood, we shall be saved from wrath through him.

10     For if, when we were enemies, we were reconciled to God by the death of his Son, much more, being reconciled, we shall be saved by his life.

11     And not only so, but we also joy in God through our Lord Jesus Christ, by whom we have now received the atonement.

7 . ۔ رومیوں 6 باب1، 2، 4، (جس طرح)، 9 تا11 آیات

1۔ پس ہم کیا کہیں؟ کیا گناہ کرتے رہیں تاکہ فضل زیادہ ہو؟

2۔ ہر گز نہیں۔ ہم جو گناہ کے اعتبار سے مر گئے کیونکر اْس میں آئندہ کو زندگی گزاریں؟

4۔۔۔۔جس طرح مسیح باپ کے جلال کے وسیلہ سے مردوں میں سے جلایا گیا اْسی طرح ہم بھی نئی زندگی میں چلیں۔

9۔ کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ مسیح جب مردوں میں سے جی اٹھا ہے تو پھر نہیں مرنے کا موت کا پھر اْس پر اختیار نہیں ہونے کا۔

10۔ کیونکہ مسیح جو موا گناہ کے اعتبار سے ایک بار موا مگر اب جو جیتا ہے تو خدا کے اعتبار سے جیتا ہے۔

11۔ اسی طرح تم بھی اپنے آپ کو گناہ کے اعتبار سے مردہ مگر خدا کے اعتبار سے مسیح یسوع میں زندہ سمجھو۔

7. Romans 6 : 1, 2, 4 (like), 9-11

1     What shall we say then? Shall we continue in sin, that grace may abound?

2     God forbid. How shall we, that are dead to sin, live any longer therein?

4     … like as Christ was raised up from the dead by the glory of the Father, even so we also should walk in newness of life.

9     Knowing that Christ being raised from the dead dieth no more; death hath no more dominion over him.

10     For in that he died, he died unto sin once: but in that he liveth, he liveth unto God.

11     Likewise reckon ye also yourselves to be dead indeed unto sin, but alive unto God through Jesus Christ our Lord.



سائنس اور صح


1 . ۔ 332 :32 (مسیح)۔2

یہ مسیح ہی ہے جو اپنی صورت پر بنائے گئے انسان اور خدا کے مابین اتفاق یا روحانی معاہدے کو بیان کرتا ہے۔

1. 332 : 32 (Christ)-2

Christ illustrates the coincidence, or spiritual agreement, between God and man in His image.

2 . ۔ 333 :19۔31

مسیحی دورسے پیشتر اور بعد ازاں نسل در نسل مسیح بطور روحانی خیال، بطور خدا کے سایہ، اْن لوگوں کے لئے کچھ خاص طاقت اور فضل کے ساتھ آیا جو مسیح، یعنی سچائی کو حاصل کرنے کے لئے تیار تھے۔ ابراہیم، یعقوب، موسیٰ اور انبیاء نے مسیحا یا مسیح کی جلالی جھلکیاں پائی تھیں، جس نے ان دیکھنے والوں کو الٰہی فطرت، محبت کے جوہر میں بپتسمہ دیا تھا۔ الٰہی شبیہ، خیال یا مسیح الٰہی اصول یعنی خدا سے غیر منفِک تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یسوع نے اپنی روحانی شناخت کے اس اتحاد کو یوں بیان کیا: ”پیشتر اِس سے کہ ابراہیم پیدا ہوا، میں ہوں“؛ ”مَیں اور باپ ایک ہیں؛“ ”باپ مجھ سے بڑا ہے۔“ ایک روح میں ساری شناختیں پائی جاتی ہیں۔

2. 333 : 19-31

Throughout all generations both before and after the Christian era, the Christ, as the spiritual idea, — the reflection of God, — has come with some measure of power and grace to all prepared to receive Christ, Truth. Abraham, Jacob, Moses, and the prophets caught glorious glimpses of the Messiah, or Christ, which baptized these seers in the divine nature, the essence of Love. The divine image, idea, or Christ was, is, and ever will be inseparable from the divine Principle, God. Jesus referred to this unity of his spiritual identity thus: "Before Abraham was, I am;" "I and my Father are one;" "My Father is greater than I." The one Spirit includes all identities.

3 . ۔ 18 :3۔9، 13۔2

یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔ اْس کا مشن انفرادی اور اجتماعی دونوں تھا۔ اْس نے زندگی کا مناسب کام سر انجام دیا نہ صرف خود کے انصاف کے لئے بلکہ انسانوں پر رحم کے باعث، انہیں یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے، بلکہ نہ تو اْن کے لئے خود کچھ کرنے یا نہ ہی اْنہیں کسی ایک ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئے یہ کیا۔

مسیح کا کفارہ انسان کی خدا کے ساتھ نہ کہ خدا کی انسان کے ساتھ مفاہمت کرواتا ہے؛ کیونکہ مسیح کا الٰہی اصول خدا ہے، اور خدا خود کو تسکین کیسے دے سکتا ہے؟ مسیح سچائی ہے جو خود اِس سے زیادہ نہیں پہنچ سکتی۔ چشمہ اپنے منبع سے زیادہ اونچا کبھی نہیں ہو سکتا۔مسیح یعنی سچائی اپنی خود کی کسی ایسی فطرت سے بڑی کسی اور فطرت کے ساتھ مصلحت نہیں کر تا جو ابدی محبت سے ماخوذ ہو۔اِس لئے مسیح کا یہ مقصد تھا کہ انسان کی خدا کے ساتھ نہ کہ خدا کی انسان کے ساتھ مفاہمت کروائے۔

3. 18 : 3-9, 13-2

Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage. His mission was both individual and collective. He did life's work aright not only in justice to himself, but in mercy to mortals, — to show them how to do theirs, but not to do it for them nor to relieve them of a single responsibility.

The atonement of Christ reconciles man to God, not God to man; for the divine Principle of Christ is God, and how can God propitiate Himself? Christ is Truth, which reaches no higher than itself. The fountain can rise no higher than its source. Christ, Truth, could conciliate no nature above his own, derived from the eternal Love. It was therefore Christ's purpose to reconcile man to God, not God to man.

4 . ۔ 19 :6۔11

یسوع نے انسان کو محبت کا حقیقی فہم، یسوع کی تعلیمات کا الٰہی اصول دیتے ہوئے خدا کے ساتھ راضی ہونے میں مدد کی، اور محبت کا یہ حقیقی فہم روح کے قانون، الٰہی محبت کے قانون کے وسیلہ انسان کو مادے، گناہ اور موت کے قانون سے آزاد کرتا ہے۔

4. 19 : 6-11

Jesus aided in reconciling man to God by giving man a truer sense of Love, the divine Principle of Jesus' teachings, and this truer sense of Love redeems man from the law of matter, sin, and death by the law of Spirit, — the law of divine Love.

5 . ۔ 11 :18۔20

یسوع نے ہمارے گناہوں کی خاطر دْکھ اٹھایا، کسی کے انفرادی گناہ پر الٰہی سزا کو منسوخ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اِس لئے کہ گناہ ناگزیر دْکھ لاتا ہے۔

5. 11 : 18-20

Jesus suffered for our sins, not to annul the divine sentence for an individual's sin, but because sin brings inevitable suffering.

6 . ۔ 38 :21۔32

یسوع نے جسمانی حواس کی چند ایک لذتوں کا تجربہ کیا تھا، مگر اْس کے دْکھ اْس کے اپنے گناہوں کا نہیں بلکہ دوسروں کے گناہوں کا پھل تھے۔ابدی مسیح یعنی اْس کی روحانی شخصیت نے کبھی دْکھ نہیں اٹھایا۔ یسوع نے دوسروں کے لئے راہ تیار کی۔ اْس نے مسیح کا نقاب اْٹھایا، جو الٰہی محبت کا روحانی خیال ہے۔جو لوگ صرف اپنی خوشی اور حواس کی تسکین میں جیتے ہوئے گناہ پر یقین کرنے اور خودی میں دفن ہیں اْن کے لئے اْس نے مادیت میں کہا: آنکھیں ہیں پر تم دیکھتے نہیں، کان ہیں پر تم سنتے نہیں؛ کہ کہیں تم دل سے سمجھ نہ لو اور باز آؤ اور میں تمہیں شفا دوں۔ اْس نے تعلیم دی کہ مادی حواس سچائی کواور اْس کی شفائیہ قوت کو خاموش کرتے ہیں۔

6. 38 : 21-32

Jesus experienced few of the pleasures of the physical senses, but his sufferings were the fruits of other people's sins, not of his own. The eternal Christ, his spiritual selfhood, never suffered. Jesus mapped out the path for others. He unveiled the Christ, the spiritual idea of divine Love. To those buried in the belief of sin and self, living only for pleasure or the gratification of the senses, he said in substance: Having eyes ye see not, and having ears ye hear not; lest ye should understand and be converted, and I might heal you. He taught that the material senses shut out Truth and its healing power.

7 . ۔ 24 :27۔2

مصلوبیت کی افادیت اس عملی پیار اور اچھائی میں پنہاں ہے جو انسان کے لئے ظاہر ہوتی ہے۔ سچائی انسانوں کے درمیان رہتی رہی ہے؛ لیکن جب تک انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ اس سچائی نے اْن کے مالک کو قبر پر فتح بخشی ہے، اْس کے اپنے شاگردوں نے اس بات کا یقین نہ کیا کہ ایسا ہونا بھی ممکن ہوسکتا تھا۔ جی اْٹھنے کے بعد، حتیٰ کہ توما جیسا غیر معتقد شخص بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا کہ سچائی اور محبت کا عظیم ثبوت کس قدر کامل تھا۔

7. 24 : 27-2

The efficacy of the crucifixion lay in the practical affection and goodness it demonstrated for mankind. The truth had been lived among men; but until they saw that it enabled their Master to triumph over the grave, his own disciples could not admit such an event to be possible. After the resurrection, even the unbelieving Thomas was forced to acknowledge how complete was the great proof of Truth and Love.

8 . ۔ 19 :17۔24

توبہ اور دْکھوں کا ہر احساس، اصلاح کی ہر کوشش، ہر اچھی سوچ اور کام گناہ کے لئے یسوع کے کفارے کو سمجھنے میں مدد کرے گا اور اِس کی افادیت میں مدد کرے گا؛ لیکن اگر گناہگار دعا کرنا اور توبہ کرنا، گناہ کرنا اور معافی مانگنا جاری رکھتا ہے، تو کفارے میں، خدا کے ساتھ یکجہتی میں اْس کا بہت کم حصہ ہوگا، کیونکہ اْس میں عملی توبہ کی کمی ہے، جو دل کی اصلاح کرتی اور انسان کو حکمت کی رضا پوری کرنے کے قابل بناتی ہے۔

8. 19 : 17-24

Every pang of repentance and suffering, every effort for reform, every good thought and deed, will help us to understand Jesus' atonement for sin and aid its efficacy; but if the sinner continues to pray and repent, sin and be sorry, he has little part in the atonement, — in the at-one-ment with God, — for he lacks the practical repentance, which reforms the heart and enables man to do the will of wisdom.

9 . ۔ 542 :1۔13

مادے پر زندگی کا بھروسہ ہر قدم پر گناہ کرواتا ہے۔ یہ الٰہی ناراضگی کو پالتا ہے، اور یہ یسوع کو قتل کرے گا کہ شاید وہ تکلیف دہ سچائی کے لئے ایک رکاوٹ تھا۔ مادی عقائد روحانی خیال کو ذبح کریں گے جب کبھی اور جہاں کہیں وہ ظاہر ہوتے ہیں۔ اگرچہ غلطی کے پیچھے ایک جھوٹ یا حیلوں کا احساسِ جرم چھپا ہوتا ہے مگر غلطی پر ہمیشہ کے لئے مہرثبت نہیں کی جاسکتی۔سچائی، اپنے ابدی قوانین کے وسیلہ، غلطی کو بے نقاب کرتی ہے۔سچائی غلطی کو اپنے آپ سے فریب دلوانے کا موجب بنتی ہے، اور غلطی پر حیوان کا نشان لگاتی ہے۔حتیٰ کہ احساسِ جرم کے بہانے کی یا اِس پر مہر ثبت کرنے کی رغبت کو سزا دی جاتی ہے۔انصاف سے اجتناب اور سچائی سے انکارگناہ کو مسلسل ہونے، جرم کو بڑھاوا دینے،قوت ارادی کو خطرے میں ڈالنے اور الٰہی رحم کا مذاق اْڑانے کا رجحان پیدا کرتے ہیں۔

9. 542 : 1-13

The belief of life in matter sins at every step. It incurs divine displeasure, and it would kill Jesus that it might be rid of troublesome Truth. Material beliefs would slay the spiritual idea whenever and wherever it appears. Though error hides behind a lie and excuses guilt, error cannot forever be concealed. Truth, through her eternal laws, unveils error. Truth causes sin to betray itself, and sets upon error the mark of the beast. Even the disposition to excuse guilt or to conceal it is punished. The avoidance of justice and the denial of truth tend to perpetuate sin, invoke crime, jeopardize self-control, and mock divine mercy.

10 . ۔ 23 :4۔11

کفارے کے لئے گناہگار کی طرف سے مسلسل بے لوث قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ الٰہی طور پر غیر فطری ہے کہ خدا کا غضب اْس کے پیارے بیٹے پر نکلے۔ایسا نظریہ انسان کا بنایا ہوا ہے۔علم الٰہیات میں کفارہ ایک سنگین مسئلہ ہے، مگر اِس کی سائنسی تفصیل یہ ہے کہ دْکھ گناہ آلودہ فہم کی ایک غلطی ہے جسے سچائی نیست کرتی ہے، اور بالاآخر یہ دونوں گناہ اور دْکھ ہمیشہ کی محبت کے قدموں پر آگرتے ہیں۔

10. 23 : 4-11

The atonement requires constant self-immolation on the sinner's part. That God's wrath should be vented upon His beloved Son, is divinely unnatural. Such a theory is man-made. The atonement is a hard problem in theology, but its scientific explanation is, that suffering is an error of sinful sense which Truth destroys, and that eventually both sin and suffering will fall at the feet of everlasting Love.

11 . ۔ 91 :16۔21

مادی خودی میں ڈوب کر ہم زندگی اور عقل کے مادے کو ہلکا سا منعکس کرتے اور اسے جان لیتے ہیں۔ مادی خودی سے انکار انسان کی روحانی اور ابدی انفرادیت سے متعلق جاننے میں مدد دیتا ہے، اور مادے سے یا جنہیں مادی حواس کی اصطلاح دی گئی ہے اْن کے وسیلہ غلط علم کو تباہ کرتا ہے۔

11. 91 : 16-21

Absorbed in material selfhood we discern and reflect but faintly the substance of Life or Mind. The denial of material selfhood aids the discernment of man's spiritual and eternal individuality, and destroys the erroneous knowledge gained from matter or through what are termed the material senses.

12 . ۔ 205 :32۔3

جب ہم الٰہی کے ساتھ اپنے رشتے کو مکمل طور پر سمجھتے ہیں، تو ہم کوئی اور عقل نہیں رکھتے ماسوائے اْس کی عقل کے، کوئی اور محبت، حکمت یا سچائی نہیں رکھتے، زندگی کا کوئی اور فہم نہیں رکھتے، اور مادے یا غلطی کی وجودیت کا کوئی اور شعور نہیں رکھتے۔

12. 205 : 32-3

When we fully understand our relation to the Divine, we can have no other Mind but His, — no other Love, wisdom, or Truth, no other sense of Life, and no consciousness of the existence of matter or error.

13 . ۔ 151 :26۔30

جو وجود رکھتا ہے وہ محض الٰہی فہم اور اْس کا خیال ہے، اسی فہم میں ساری ہستی ہم آہنگ اور ابدی پائی جاتی ہے۔ سیدھا یا تنگ راستہ اس حقیقت کو دیکھنے اور تسلیم کرنے، اس قوت کو قبول کرنے اور سچائی کی راہوں کی پیروی کرنے کے لئے ہے۔

13. 151 : 26-30

All that really exists is the divine Mind and its idea, and in this Mind the entire being is found harmonious and eternal. The straight and narrow way is to see and acknowledge this fact, yield to this power, and follow the leadings of truth.

14 . ۔ 45 :6۔21

ہمارے مالک نے مکمل طور پر اور فیصلہ کْن انداز میں موت اور قبر پر اپنی فتح سے الٰہی سائنس کو واضح کیا۔یسوع کا کام انسان کی روشن خیالی اور پوری دنیا کی گناہ، بیماری اور موت سے نجات کے لئے تھا۔ پولوس لکھتا ہے: ”کیونکہ جب باوجود ْشمن ہونے کے خدا سے اْس کے بیٹے کی]بظاہر[ موت کے وسیلہ ہمار امیل ہوگیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اْس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔“ اْس کی جسمانی تدفین کے تین دن بعد اْس نے اپنے شاگردوں سے بات کی۔ اْس پر ظلم ڈھانے والے لافانی سچائی اور محبت کو قبر کے اندر پوشیدہ رکھنے میں ناکام ہو چکے تھے۔

خدا کی تمجید ہو اور جدوجہد کرنے والے دلوں کے لئے سلامتی ہو! مسیح نے انسانی امید اور ایمان کے درواز ے سے پتھر ہٹا دیا ہے، اور خدا میں زندگی کے اظہار اور مکاشفہ کی بدولت اْس نے انسان کے روحانی خیال اور اْس کے الٰہی اصول، یعنی محبت کے ساتھ ممکنہ کفارے سے انہیں بلند کیا۔

14. 45 : 6-21

Our Master fully and finally demonstrated divine Science in his victory over death and the grave. Jesus' deed was for the enlightenment of men and for the salvation of the whole world from sin, sickness, and death. Paul writes: "For if, when we were enemies, we were reconciled to God by the [seeming] death of His Son, much more, being reconciled, we shall be saved by his life." Three days after his bodily burial he talked with his disciples. The persecutors had failed to hide immortal Truth and Love in a sepulchre.

Glory be to God, and peace to the struggling hearts! Christ hath rolled away the stone from the door of human hope and faith, and through the revelation and demonstration of life in God, hath elevated them to possible at-one-ment with the spiritual idea of man and his divine Principle, Love.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████