اتوار 19 مارچ، 2023



مضمون۔ مادہ

SubjectMatter

سنہری متن: امثال 28 باب6 آیت

”راست رو مسکین کج رو دولت مند سے بہتر ہے۔“



Golden Text: Proverbs 28 : 6

Better is the poor that walketh in his uprightness, than he that is perverse in his ways, though he be rich.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: زبور112: 1تا5، 9 آیات


1۔ خداوند کی حمد کرو۔ مبارک ہے وہ آدمی جو خداوند سے ڈرتا ہے۔ اور اْس کے حکموں میں خوب مسرور رہتا ہے۔

2۔ اْس کی نسل زمین پر زور آور ہوگی۔ راستبازوں کی اولاد مبارک ہوگی۔

3۔ مال و دولت اْس کے گھر میں ہے۔ اور اْس کی صداقت ابد تک قائم ہے۔

4۔ راستبازوں کے لئے تاریکی میں نور چمکتا ہے۔ وہ رحیم و کریم اور صادق ہے۔

5۔ رحمدل اور قرض دینے والا آدمی سعادتمند ہے۔ وہ اپنا کاروبار راستی سے کرے گا۔

9۔ اْس نے بانٹا اور محتاجوں کو دیا۔ اْس کی صداقت ہمیشہ قائم رہے گی۔ اْس کا سینگ عزت کے ساتھ بلند کیا جائے گا۔

Responsive Reading: Psalm 112 : 1-5, 9

1.     Praise ye the Lord. Blessed is the man that feareth the Lord, that delighteth greatly in his commandments.

2.     His seed shall be mighty upon earth: the generation of the upright shall be blessed.

3.     Wealth and riches shall be in his house: and his righteousness endureth for ever.

4.     Unto the upright there ariseth light in the darkness: he is gracious, and full of compassion, and righteous.

5.     A good man sheweth favour, and lendeth: he will guide his affairs with discretion.

9.     He hath dispersed, he hath given to the poor; his righteousness endureth for ever; his horn shall be exalted with honour.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 49: 1تا4، 6تا11، 16تا18 آیات

1۔ اے سب اْمتو! یہ سنو۔ اے جہان کے سب باشندو کان لگاؤ۔

2۔ کیا ادنیٰ کیا اعلیٰ۔ کیا امیر کیا غریب۔

3۔ میرے منہ سے حکمت کی باتیں نکلیں گی اور میرے دل کا خیال پْر خرد ہوگا۔

4۔ مَیں تمثیل کی طرف کان لگاؤں گا۔ مَیں اپنا معما سِتار بیان کروں گا۔

6۔ جو اپنی دولت پر بھروسہ رکھتے اور اپنے مال کی کثرت پر فخر کرتے ہیں۔

7۔ اْن میں سے کوئی کسی طرح بھی اپنے بھائی کا فدیہ نہیں دے سکتا نہ خدا کو اْس کا معاوضہ دے سکتا ہے۔

8۔ کیونکہ (اْن کی جان کا فدیہ گِراں بہا ہے۔ وہ ابد تک ادا نہ ہوگا)۔

9۔ تاکہ وہ ابد تک جیتا رہے اور قبر کو نہ دیکھے۔

10۔ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ دانشمند مر جاتے ہیں۔ بیوقوف و حیوان خصلت باہم ہلاک ہوتے ہیں۔ اور اپنی دولت اَوروں کے لئے چھوڑ جاتے ہیں۔

11۔ اْن کا دلی خیال یہ ہے کہ اْن کے گھر ہمیشہ تک اور اْن کے مسکن پشت در پشت بنے رہیں گے۔ وہ اپنی زمین اپنے ہی نام سے نامزد کرتے ہیں۔

16۔ جب کوئی مال دار ہوجائے۔ جب اْس کے گھر کی حشمت بڑھے تو تْو خوف نہ کر۔

17۔ کیونکہ وہ مر کر کچھ ساتھ نہ لے جائے گا۔ اْس کی حشمت اْس کے ساتھ نہ جائے گی۔

18۔ خواہ جیتے جی وہ اپنی جان مبارک کہتا رہا ہو۔ اور جب تْو اپنا بھلا کرتا ہے۔ تو لوگ تعریف کرتے ہیں۔

1. Psalm 49 : 1-4, 6-11, 16-18

1     Hear this, all ye people; give ear, all ye inhabitants of the world:

2     Both low and high, rich and poor, together.

3     My mouth shall speak of wisdom; and the meditation of my heart shall be of understanding.

4     I will incline mine ear to a parable: I will open my dark saying upon the harp.

6     They that trust in their wealth, and boast themselves in the multitude of their riches;

7     None of them can by any means redeem his brother, nor give to God a ransom for him:

8     (For the redemption of their soul is precious, and it ceaseth for ever:)

9     That he should still live for ever, and not see corruption.

10     For he seeth that wise men die, likewise the fool and the brutish person perish, and leave their wealth to others.

11     Their inward thought is, that their houses shall continue for ever, and their dwelling places to all generations; they call their lands after their own names.

16     Be not thou afraid when one is made rich, when the glory of his house is increased;

17     For when he dieth he shall carry nothing away: his glory shall not descend after him.

18     Though while he lived he blessed his soul: and men will praise thee, when thou doest well to thyself.

2 . ۔ لوقا 7 باب6 (یسوع) (تا) آیت

6۔ یسوع اْن کے ساتھ چلا۔

2. Luke 7 : 6 (Jesus) (to .)

6     Jesus went with them.

3 . ۔ لوقا 12 باب13تا21 آیات

13۔ پھر بھیڑ میں سے کسی نے اْس سے کہا اے استاد! میرے بھائی سے کہہ کہ میراث کا میرا حصہ مجھے دے۔

14۔ اْس نے اْس سے کہا۔ میاں! کس نے مجھے تمہارا منصف یا بانٹنے والا مقرر کیا ہے؟

15۔ اور اْس نے اْن سے کہا خبردار! اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو۔ کیونکہ کسی کی زندگی اْس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔

16۔ اور اْس نے اْن سے تمثیل کہی کہ کسی دولتمند کی زمین میں بڑی فصل ہوئی۔

17۔ پس وہ اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگا مَیں کیا کروں کیونکہ میرے ہا ں جگہ نہیں جہاں اپنی پیداوار بھر رکھوں۔

18۔ اْس نے کہا مَیں یوں کروں گا کہ اپنی کوٹھیاں ڈھا کر اْن سے بڑی بناؤں گا۔

19۔ اور اْن میں اپنا سارا اناج اور مال بھر رکھوں گا اور اپنی جان سے کہوں گا اے جان! تیرے پاس بہت برسوں کے لئے بہت سا مال جمع ہے۔ چین کر، کھا پی۔ خوش رہ۔

20۔ مگر خداوند نے اْس سے کہا اے نادان! اسی رات تیری جان تجھ سے طلب کر لی جائے گی۔ پس جو کچھ تْو نے تیار کیا ہے وہ کس کاہوگا؟

21۔ ایسا ہی وہ شخص ہے جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولتمند نہیں۔

3. Luke 12 : 13-21

13     And one of the company said unto him, Master, speak to my brother, that he divide the inheritance with me.

14     And he said unto him, Man, who made me a judge or a divider over you?

15     And he said unto them, Take heed, and beware of covetousness: for a man’s life consisteth not in the abundance of the things which he possesseth.

16     And he spake a parable unto them, saying, The ground of a certain rich man brought forth plentifully:

17     And he thought within himself, saying, What shall I do, because I have no room where to bestow my fruits?

18     And he said, This will I do: I will pull down my barns, and build greater; and there will I bestow all my fruits and my goods.

19     And I will say to my soul, Soul, thou hast much goods laid up for many years; take thine ease, eat, drink, and be merry.

20     But God said unto him, Thou fool, this night thy soul shall be required of thee: then whose shall those things be, which thou hast provided?

21     So is he that layeth up treasure for himself, and is not rich toward God.

4 . ۔ اعمال 20 باب1(پولوس)، 32تا35 آیات

1۔ پولوس نے شاگردوں کو بلوا کر نصیحت کی اور اْن سے رخصت ہو کر مکدونیہ کو روانہ ہوا۔

32۔ اب مَیں تمہیں خدا اور اْس کے فضل کے کلام کے سپرد کرتا ہوں جو تمہاری ترقی کرسکتا ہے اور تمام مقدسوں میں شریک کر کے میراث دے سکتا ہے۔

33۔ مَیں نے کسی کی چاندی یا سونے یا کپڑے کا لالچ نہیں کیا۔

34۔ تم آپ جانتے ہو کہ انہی باتوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی حاجتیں رفع کیں۔

35۔ مَیں نے تم کو سب باتیں کر کے دکھا دیں کہ اِس طرح محنت کر کے کمزوروں کو سنبھالنا اور خداوند یسوع کی باتیں یاد رکھنا چاہئے کہ اْس نے خود کہا دینا لینے سے مبارک ہے۔

4. Acts 20 : 1 (Paul), 32-35

1     Paul called unto him the disciples, and embraced them, and departed for to go into Macedonia.

32     And now, brethren, I commend you to God, and to the word of his grace, which is able to build you up, and to give you an inheritance among all them which are sanctified.

33     I have coveted no man’s silver, or gold, or apparel.

34     Yea, ye yourselves know, that these hands have ministered unto my necessities, and to them that were with me.

35     I have shewed you all things, how that so labouring ye ought to support the weak, and to remember the words of the Lord Jesus, how he said, It is more blessed to give than to receive.

5 . ۔ 1 تمیتھیس 6 باب17تا19 آیات

17۔ اِس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کہ مغرور نہ ہوں اور ناپائیدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر امید رکھیں جو ہمیں لطف اٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے۔

18۔ اور نیکی کریں اور اچھے کاموں میں دولتمند بنیں اور سخاوت پر تیار اور امداد پر مستعد ہوں۔

19۔ اور آئندہ کے لئے اپنے واسطے ایک اچھی بنیاد قائم کر رکھیں تاکہ حقیقی زندگی پر قبضہ کریں۔

5. I Timothy 6 : 17-19

17     Charge them that are rich in this world, that they be not highminded, nor trust in uncertain riches, but in the living God, who giveth us richly all things to enjoy;

18     That they do good, that they be rich in good works, ready to distribute, willing to communicate;

19     Laying up in store for themselves a good foundation against the time to come, that they may lay hold on eternal life.

6 . ۔ اعمال 5 باب 1 (ایک شخص) تا11 آیات

1۔۔۔۔ایک شخص حننیاہ نام اور اْس کی بیوی سفیرہ نے جائیداد بیچی۔

2۔ اور اْس نے اپنی بیوی کے جانتے ہوئے قیمت میں سے کچھ رکھ چھوڑی اورایک حصہ لا کر رسولوں کے پاؤں میں رکھ دیا۔

3۔ مگر پطرس نے کہا اے حننیاہ! کیوں شیطان نے تیرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تْو روح القدس سے جھوٹ بولے اور زمین کی قیمت میں سے کچھ رکھ چھوڑے؟

4۔ کیا جب تک وہ تیرے پاس تھی تیری نہ تھی؟ اور جب بیچی گئی تو تیرے اختیار میں نہ رہی؟ تْو نے کیوں اپنے دل میں اِس بات کا خیال باندھا؟ تْو نے آدمیوں سے نہیں بلکہ خدا سے جھوٹ بولا۔

5۔ یہ باتیں سنتے ہی حننیاہ گِر پڑا اور اْس کا دم نکل گیا اور سب سننے والوں پر بڑا خوف چھا گیا۔

6۔ پھر جوانوں نے اْٹھ کر اْسے کفنایا اورباہر لے جاکر اْسے دفن کیا۔

7۔ اور قریباً تین گھنٹے گزر جانے کے بعد اْس کی بیوی اِس ماجرے سے بے خبر اندر آئی۔

8۔ پطرس نے اْس سے کہا مجھے بتا تْو۔ کیا تم نے اتنے ہی کو زمین بیچی تھی؟ اْس نے کہاہاں۔ اتنے ہی کو۔

9۔ پطرس نے اْس سے کہا تم نے کیوں خداوند کے روح کو آزمانے کے لئے ایکا کیا؟ دیکھ تیرے شوہر کے دفن کرنے والے دروازے پر کھڑے ہیں اور تجھے بھی باہر لے جائیں گے۔

10۔ وہ اْسی دم اْس کے قدموں میں گر پڑی اور اْس کا دم نکل گیا اور جوانوں نے اندر آکر اْسے مردہ پایا اور باہر لے جاکر اْس کے شوہر کے پاس دفن کر دیا۔

11۔ اور ساری کلیسیا بلکہ اِن باتوں کے سب سننے والوں پربڑا خوف چھا گیا۔

6. Acts 5 : 1 (a certain)-11

1     …a certain man named Ananias, with Sapphira his wife, sold a possession,

2     And kept back part of the price, his wife also being privy to it, and brought a certain part, and laid it at the apostles’ feet.

3     But Peter said, Ananias, why hath Satan filled thine heart to lie to the Holy Ghost, and to keep back part of the price of the land?

4     Whiles it remained, was it not thine own? and after it was sold, was it not in thine own power? why hast thou conceived this thing in thine heart? thou hast not lied unto men, but unto God.

5     And Ananias hearing these words fell down, and gave up the ghost: and great fear came on all them that heard these things.

6     And the young men arose, wound him up, and carried him out, and buried him.

7     And it was about the space of three hours after, when his wife, not knowing what was done, came in.

8     And Peter answered unto her, Tell me whether ye sold the land for so much? And she said, Yea, for so much.

9     Then Peter said unto her, How is it that ye have agreed together to tempt the Spirit of the Lord? behold, the feet of them which have buried thy husband are at the door, and shall carry thee out.

10     Then fell she down straightway at his feet, and yielded up the ghost: and the young men came in, and found her dead, and, carrying her forth, buried her by her husband.

11     And great fear came upon all the church, and upon as many as heard these things.

7 . ۔ 1 یوحنا 2 باب15تا17 آیات

15۔ نہ دنیا سے محبت رکھو نہ اْن چیزوں سے جو دنیا میں ہیں۔ جو کوئی دنیا سے محبت رکھتا ہے اْس میں باپ کی محبت نہیں۔

16۔ کیونکہ جو کچھ دنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی طرف سے ہے۔

17۔ دنیا اور اْس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔

7. I John 2 : 15-17

15     Love not the world, neither the things that are in the world. If any man love the world, the love of the Father is not in him.

16     For all that is in the world, the lust of the flesh, and the lust of the eyes, and the pride of life, is not of the Father, but is of the world.

17     And the world passeth away, and the lust thereof: but he that doeth the will of God abideth for ever.



سائنس اور صح


1 . ۔ 275 :1 (مادے)۔9

مادے میں کھونے کے لئے زندگی نہیں ہے، اور روح کبھی مرتی نہیں ہے۔ عقل کی مادے کے ساتھ شراکت داری قادر مطلق اور ہر جا موجود عقل کو نظر انداز کرے گی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مادہ خدا، روح سے پیدا نہیں ہوا اور یہ ابدی نہیں ہے۔اِس لئے مواد مادی، زندہ نہیں اور نہ ہی ذہین ہے۔الٰہی سائنس کا واضح نقطہ یہ ہے کہ خدا، روح، حاکمِ کْل ہے، اور اْس کے علاوہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی عقل ہے، کہ خدا محبت ہے، اور اسی لئے وہ الٰہی اصول ہے۔

1. 275 : 1 (Matter)-9

Matter has no life to lose, and Spirit never dies. A partnership of mind with matter would ignore omnipresent and omnipotent Mind. This shows that matter did not originate in God, Spirit, and is not eternal. Therefore matter is neither substantial, living, nor intelligent. The starting-point of divine Science is that God, Spirit, is All-in-all, and that there is no other might nor Mind, — that God is Love, and therefore He is divine Principle.

2 . ۔ 458 :32۔8

جیسے پھول اندھیرے سے روشنی کی طرف مْڑتا ہے،مسیحت انسان کو فطری طور پر مادے سے روح کی جانب موڑنے کا موجب بنتی ہے۔پھر انسان اْن چیزوں کو مختص کرتا ہے جو ”نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سْنیں۔“یوحنا اور پولوس کو بہت واضح ادراک تھا کہ، چونکہ فانی آدمی کو قربانی کے بغیردنیاوی عظمت حاصل نہیں ہو سکتی، اس لئے اْسے سب دنیاداری چھوڑ کر آسمانی خزانے حاصل کرنے چاہئیں۔پھر اْس کا دنیاوی ہمدردیوں، اغراض و مقاصد میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

2. 458 : 32-8

Christianity causes men to turn naturally from matter to Spirit, as the flower turns from darkness to light. Man then appropriates those things which "eye hath not seen nor ear heard." Paul and John had a clear apprehension that, as mortal man achieves no worldly honors except by sacrifice, so he must gain heavenly riches by forsaking all worldliness. Then he will have nothing in common with the worldling's affections, motives, and aims.

3 . ۔ 241 :31۔8

”اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزر جانا آسان ہے“ اِس سے کہ گناہ آلودہ عقائد آسمان کی بادشاہی، ابدی ہم آہنگی میں داخل ہوں۔ معافی، روحانی بپتسمہ، اور نئی پیدائش کے وسیلہ بشر اپنے لافانی عقائد اور جھوٹی انفرادیت کو اتار پھینکتے ہیں۔ یہ بس وقت کی بات ہے کہ ”چھوٹے سے بڑے تک وہ سب مجھے (خدا کو) جانیں گے۔“ مادے کے دعووں سے انکار خوشی کی روح کی جانب انسانی آزادی اور بدن پر آخری فتح کی جانب بڑا قدم ہے۔

3. 241 : 31-8

It is "easier for a camel to go through the eye of a needle," than for sinful beliefs to enter the kingdom of heaven, eternal harmony. Through repentance, spiritual baptism, and regeneration, mortals put off their material beliefs and false individuality. It is only a question of time when "they shall all know Me [God], from the least of them unto the greatest." Denial of the claims of matter is a great step towards the joys of Spirit, towards human freedom and the final triumph over the body.

4 . ۔ 273 :1۔9

مادہ اور اِس کے گناہ، بیماری اور موت کے دعوے خدا کے خلاف ہیں اور اْس سے جاری نہیں ہو سکتے۔ مادی سچائی کوئی نہیں ہوتی۔ جسمانی حواس خدا اور روحانی سچائی کی آگاہی نہیں حاصل کر سکتے۔انسانی عقیدے نے بہت سی ایجادات دریافت کی ہیں، مگر اْن میں سے کوئی ایک بھی الٰہی اصول کے بغیر الٰہی سائنس کے ہونے کے مسئلے کو حل نہیں کرسکتی ہے۔ مادی قیاس کی تفرقات سائنسی نہیں ہیں۔وہ حقیقی سائنس سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ وہ الٰہی قانون پر بنیاد نہیں رکھتے۔

4. 273 : 1-9

Matter and its claims of sin, sickness, and death are contrary to God, and cannot emanate from Him. There is no material truth. The physical senses can take no cognizance of God and spiritual Truth. Human belief has sought out many inventions, but not one of them can solve the problem of being without the divine Principle of divine Science. Deductions from material hypotheses are not scientific. They differ from real Science because they are not based on the divine law.

5 . ۔ 120 :7۔14

سائنس جسمانی حواس کی جھوٹی گواہی کو تبدیل کرتی ہے، اور اس تبدیلی کے باعث بشر ہستی کے بنیادی حقائق تک پہنچتے ہیں۔ پھر لامحالہ یہ سوال اٹھتا ہے: اگر مادی حواس اشارے کریں کہ انسان اچھی صحت رکھتا ہے تو کیا وہ انسان اصل میں بیمار ہے؟ جی نہیں! کیونکہ مادہ انسان کے لئے کوئی شرائط نہیں رکھ سکتا۔ اور کیا وہ اصل میں ٹھیک ہے اگر حواس کہتے ہیں کہ وہ بیمار ہے؟ جی ہاں، وہ اْس سائنس میں ٹھیک ہے جس میں صحت معمولی ہے بیماری غیر معمولی ہے۔

5. 120 : 7-14

Science reverses the false testimony of the physical senses, and by this reversal mortals arrive at the fundamental facts of being. Then the question inevitably arises: Is a man sick if the material senses indicate that he is in good health? No! for matter can make no conditions for man. And is he well if the senses say he is sick? Yes, he is well in Science in which health is normal and disease is abnormal.

6 . ۔ 124 :25۔31

روح تمام چیزوں کی زندگی، مواد اور تواتر ہے۔ ہم قوتوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ انہیں چھوڑ دیں تو مخلوق نیست ہو جائے گی۔ انسانی علم انہیں مادے کی قوتیں کہتا ہے، لیکن الٰہی سائنس یہ واضح کرتی ہے کہ وہ مکمل طور پر الٰہی عقل کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور اس عقل میں میراث رکھتی ہیں، اور یوں انہیں اْن کے جائز گھر اور درجہ بندی میں بحال کرتی ہے۔

6. 124 : 25-31

Spirit is the life, substance, and continuity of all things. We tread on forces. Withdraw them, and creation must collapse. Human knowledge calls them forces of matter; but divine Science declares that they belong wholly to divine Mind, are inherent in this Mind, and so restores them to their rightful home and classification.

7 . ۔ 301 :17۔29

جیسا کہ خدا اصل ہے اور انسان الٰہی صورت اور شبیہ ہے، تو انسان کو صرف اچھائی کے اصل، روح کے اصل نہ کہ مادے کی خواہش رکھنی چاہئے، اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہے۔یہ عقیدہ روحانی نہیں ہے کہ انسان کے پاس کوئی دوسرا مواد یا عقل ہے،اور یہ پہلے حکم کو توڑتا ہے کہ تْو ایک خدا، ایک عقل کو ماننا۔ مادی انسان خود کو مادی مواد دکھائی دیتا ہے، جبکہ انسان ”شبیہ“ (خیال) ہے۔ فریب نظری، گناہ، بیماری اور موت مادی فہم کی جھوٹی گواہی سے جنم لیتے ہیں، جو لا محدود روح کے مرکزی فاصلے سے باہر ایک فرضی نظریے سے، عقل اور اصل کی پلٹی ہوئی تصویر پیش کرتی ہے، جس میں ہر چیز اوپر سے نیچے اْلٹ ہوئی ہوتی ہے۔

7. 301 : 17-29

As God is substance and man is the divine image and likeness, man should wish for, and in reality has, only the substance of good, the substance of Spirit, not matter. The belief that man has any other substance, or mind, is not spiritual and breaks the First Commandment, Thou shalt have one God, one Mind. Mortal man seems to himself to be material substance, while man is "image" (idea). Delusion, sin, disease, and death arise from the false testimony of material sense, which, from a supposed standpoint outside the focal distance of infinite Spirit, presents

an inverted image of Mind and substance with everything turned upside down.

8 . ۔ 199 :32۔7

جب ہومر نے یونانی دیوتاؤں کاگیت گایا، اولمپس تاریک تھا، مگرقوم کے ایمان کے مطابق اْس کے ایک مصرے نے دیوتاؤں کو زندہ کردیا۔ غیر قوموں کی پرستش پورے زور و شور سے شروع ہوگئی، مگر کوہِ سیناء کی شریعت نے داؤد کے گیت کے تصور کو فروغ دیا۔ موسیٰ نے مادے کی بجائے روح میں خدا کی پرستش کی جانب قوم کو گامزن کیا، اور لافانی عقل کی طرف سے ہستی کی بڑی انسانی صلاحیتوں کے بخشے جانے کو بیان کیا۔

8. 199 : 32-7

When Homer sang of the Grecian gods, Olympus was dark, but through his verse the gods became alive in a nation's belief. Pagan worship began with muscularity, but the law of Sinai lifted thought into the song of David. Moses advanced a nation to the worship of God in Spirit instead of matter, and illustrated the grand human capacities of being bestowed by immortal Mind.

9 . ۔ 262 :17۔26

ایوب نے کہا، ”میں نے تیری خبر کان سے سنی تھی، پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے۔“ بشر ایوب کے خیالات کو پھیلائیں گے، جب مادے کی فرضی تکلیف اور خوشی سبقت رکھنا ترک کرتی ہے۔ پھر وہ زندگی اور خوشی، دْکھ اور شادمانی کے جھوٹے اندازے لگائیں گے، اور وہ بے غرضی، صبر سے کام کرنے اور اْس سب کو فتح کرتے ہوئے جو خدا کی مانند نہیں ہے محبت کی نعمت حاصل کریں گے۔ ایک اونچے نقطہ نظر سے آغاز کرتے ہوئے، ایک شخص خود ساختہ بڑھتا ہے، جیسا کہ روشنی خودبغیر کسی کوشش کے روشنی کوخارج کرتی ہے، کیونکہ ”جہاں تیرا خزانہ ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا۔“

9. 262 : 17-26

Job said: "I have heard of Thee by the hearing of the ear: but now mine eye seeth Thee." Mortals will echo Job's thought, when the supposed pain and pleasure of matter cease to predominate. They will then drop the false estimate of life and happiness, of joy and sorrow, and attain the bliss of loving unselfishly, working patiently, and conquering all that is unlike God. Starting from a higher standpoint, one rises spontaneously, even as light emits light without effort; for "where your treasure is, there will your heart be also."

10 . ۔ 61 :4۔11

انسانی ہمدردیوں میں اچھائی کو بدی پر اور جانور پر روحانی کو غلبہ پانا چاہئے وگرنہ خوشی کبھی فتح مند نہیں ہوگی۔ اس آسمانی حالت کا حصول ہماری نسل کو ترقی دے گا، جرم کو تلف کرے گا، اور امنگ کو بلند مقاصد عنایت کرے گا۔ گناہ کی ہر وادی سر بلند کی جانی چاہئے، اور خود غرضی کا ہر پہاڑ نیچا کرنا چاہئے، تاکہ سائنس میں ہمارے خدا کی راہ ہموار کی جا سکے۔

10. 61 : 4-11

The good in human affections must have ascendency over the evil and the spiritual over the animal, or happiness will never be won. The attainment of this celestial condition would improve our progeny, diminish crime, and give higher aims to ambition. Every valley of sin must be exalted, and every mountain of selfishness be brought low, that the highway of our God may be prepared in Science.

11 . ۔ 205 :7۔13، 32۔3

یہ ماننا کہ مادے میں زندگی ہے، اور یہ کہ گناہ، بیماری اور موت خدا کی تخلیق کردہ ہیں،یہ غلطی کب بے نقاب ہوگی؟ یہ کب سمجھا جائے گاکہ مادے میں نہ تو ذہانت، زندگی ہے اور نہ ہی احساس ہے اور یہ کہ اِس کا متضاد ایمان تمام دْکھوں کا ثمردار وسیلہ ہے؟ خدا نے سب کچھ عقل کے وسیلہ خلق کیا اور سب کچھ کامل اور ابدی بنایا۔

جب ہم الٰہی کے ساتھ اپنے رشتے کو مکمل طور پر سمجھتے ہیں، تو ہم کوئی اور عقل نہیں رکھتے ماسوائے اْس کی عقل کے، کوئی اور محبت، حکمت یا سچائی نہیں رکھتے، زندگی کا کوئی اور فہم نہیں رکھتے، اور مادے یا غلطی کی وجودیت کا کوئی اور شعور نہیں رکھتے۔

11. 205 : 7-13, 32-3

When will the error of believing that there is life in matter, and that sin, sickness, and death are creations of God, be unmasked? When will it be understood that matter has neither intelligence, life, nor sensation, and that the opposite belief is the prolific source of all suffering? God created all through Mind, and made all perfect and eternal.

When we fully understand our relation to the Divine, we can have no other Mind but His, — no other Love, wisdom, or Truth, no other sense of Life, and no consciousness of the existence of matter or error.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████