اتوار 20 مارچ، 2022



مضمون۔ مادہ

SubjectMatter

سنہری متن: امثال 28باب 6آیت

”راست رو مسکین کج رو دولت مند سے بہتر ہے۔“



Golden Text: Proverbs 28 : 6

Better is the poor that walketh in his uprightness, than he that is perverse in his ways, though he be rich.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: زبور 112: 1تا5، 9 آیات


1۔ خداوند کی حمد کرو۔ مبارک ہے وہ آدمی جو خداوند سے ڈرتا ہے۔ اور اْس کے حکموں میں خوب مسرور رہتا ہے۔

2۔ اْس کی نسل زمین پر زور آور ہوگی۔ راستبازوں کی اولاد مبارک ہوگی۔

3۔ مال و دولت اْس کے گھر میں ہے۔ اور اْس کی صداقت ابد تک قائم ہے۔

4۔ راستبازوں کے لئے تاریکی میں نور چمکتا ہے۔ وہ رحیم و کریم اور صادق ہے۔

5۔ رحمدل اور قرض دینے والا آدمی سعادتمند ہے۔ وہ اپنا کاروبار راستی سے کرے گا۔

9۔ اْس نے بانٹا اور محتاجوں کو دیا۔ اْس کی صداقت ہمیشہ قائم رہے گی۔ اْس کا سینگ عزت کے ساتھ بلند کیا جائے گا۔

Responsive Reading: Psalm 112 : 1-5, 9

1.     Praise ye the Lord. Blessed is the man that feareth the Lord, that delighteth greatly in his commandments.

2.     His seed shall be mighty upon earth: the generation of the upright shall be blessed.

3.     Wealth and riches shall be in his house: and his righteousness endureth for ever.

4.     Unto the upright there ariseth light in the darkness: he is gracious, and full of compassion, and righteous.

5.     A good man sheweth favour, and lendeth: he will guide his affairs with discretion.

9.     He hath dispersed, he hath given to the poor; his righteousness endureth for ever; his horn shall be exalted with honour.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 ۔ 1 تمیتھیس 6 باب17 تا19 آیات

17۔ اِس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کہ مغرور نہ ہوں اور ناپائیدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر امید رکھیں جو ہمیں لطف اٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے۔

18۔ اور نیکی کریں اور اچھے کاموں میں دولتمند بنیں اور سخاوت پر تیار اور امداد پر مستعد ہوں۔

19۔ اور آئندہ کے لئے اپنے واسطے ایک اچھی بنیاد قائم کر رکھیں تاکہ حقیقی زندگی پر قبضہ کریں۔

1. I Timothy 6 : 17-19

17     Charge them that are rich in this world, that they be not highminded, nor trust in uncertain riches, but in the living God, who giveth us richly all things to enjoy;

18     That they do good, that they be rich in good works, ready to distribute, willing to communicate;

19     Laying up in store for themselves a good foundation against the time to come, that they may lay hold on eternal life.

2 ۔ یشوع 7 باب10 (تا پہلا)، 11، 13، 19تا 22، 25، 26 (تا پہلا) آیات

10۔ اور خداوند نے یشوع سے کہا۔

11۔ اسرائیلیوں نے گناہ کیا اور اْنہوں نے اْس عہد کو جس کا مَیں نے اْن کو حکم دیا توڑ ا ہے۔ اْنہوں نے مخصوص کی چیزوں میں سے کچھ لے بھی لیا اور چوری بھی کی اور ریاکاری بھی کی اور اپنے اسباب میں اِسے ملا بھی لیا ہے۔

13۔ اْٹھ لوگوں کو پاک کر اور کہہ کہ تم اپنے آپ کو کل کے لئے پاک کرو کیونکہ خداوند اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ اے اسرائیلیو! تمہارے درمیان مخصوص کی ہوئی چیز موجود ہے۔ تم اپنے دشمنوں کے آگے ٹھہر نہیں سکتے جب تک تم اِس مخصوص کی ہوئی چیز کو اپنے درمیان سے دور نہ کرو۔

19۔ تب یشوع نے عکن سے کہا۔ ا ے میرے فرزند مَیں تیری منت کرتا ہوں کہ خداوند اسرائیل کے خدا کی تمجید کر اور اْس کے آگے اقرار کر۔ اب تْو مجھے بتا دے کہ تْو نے کیا کِیا ہے اورمجھ سے مت چھپا۔

20۔ اور عکن نے یشوع کو جواب دیا فی ا لحقیقت مَیں نے خداوند اسرائیل کے خدا کا گناہ کیا ہے اور یہ یہ مجھ سے سرزد ہوا ہے۔

21۔ کہ جب مَیں نے لْوٹ کے مال میں بابل کی ایک نفیس چادر اور دو سو مثقال چاندی اور پچاس مثقال سونے کی ایک اینٹ دیکھی تو مَیں نے للچا کر اْن کو لے لیا اور دیکھو وہ میرے ڈیرے پر زمین میں چھپائی ہوئی ہیں اور چاندی اْن کے نیچے ہے۔

22۔ پس یشوع نے قاصد بھیجے۔ وہ اْس ڈیرے کو دوڑے گئے اور کیا دیکھا کہ وہ اْس کے ڈیرے پر چھپائی ہوئی ہیں اور چاندی اْن کے نیچے ہے۔

25۔ اور یشوع نے کہا کہ تْو نے ہم کو کیوں دْکھ دیا؟ خداوند آج کے دن تجھے دْکھ دے گا! تب سب اسرائیلیوں نے اْسے سنگسار کیا اور اْنہوں نے اْس کو آگ میں جلایا اور اْس کو پتھروں سے مارا۔

26۔ اور اْنہوں نے اْس کے اوپر پتھروں کا ایک ڈھیر لگا دیا جو آج تک ہے۔

2. Joshua 7 : 10 (to 1st ,), 11, 13, 19-22, 25, 26 (to 1st .)

10     And the Lord said unto Joshua,

11     Israel hath sinned, and they have also transgressed my covenant which I commanded them: for they have even taken of the accursed thing, and have also stolen, and dissembled also, and they have put it even among their own stuff.

13     Up, sanctify the people, and say, Sanctify yourselves against to morrow: for thus saith the Lord God of Israel, There is an accursed thing in the midst of thee, O Israel: thou canst not stand before thine enemies, until ye take away the accursed thing from among you.

19     And Joshua said unto Achan, My son, give, I pray thee, glory to the Lord God of Israel, and make confession unto him; and tell me now what thou hast done; hide it not from me.

20     And Achan answered Joshua, and said, Indeed I have sinned against the Lord God of Israel, and thus and thus have I done:

21     When I saw among the spoils a goodly Babylonish garment, and two hundred shekels of silver, and a wedge of gold of fifty shekels weight, then I coveted them, and took them; and, behold, they are hid in the earth in the midst of my tent, and the silver under it.

22     So Joshua sent messengers, and they ran unto the tent; and, behold, it was hid in his tent, and the silver under it.

25     And Joshua said, Why hast thou troubled us? the Lord shall trouble thee this day. And all Israel stoned him with stones, and burned them with fire, after they had stoned them with stones.

26     And they raised over him a great heap of stones unto this day.

3 ۔ 2 تواریخ 1باب 1 (سلیمان)، 6تا12 آیات

1۔سلیمان بن داؤد اپنی مملکت میں مْستحکم ہوا اور خداوند اْس کا خدا اْس کے ساتھ رہا اور اْسے نہایت سرفراز کیا۔

6۔ اور سلیمان وہاں پیتل کے مذبح کے پاس جو خداوند کے آگے خیمہ اجتماع میں تھا گیا اور اْس پر ایک ہزار سوختنی قربانیاں چڑھائیں۔

7۔ اْسی رات خداسلیمان کو دکھائی دیا اور اْس نے کہا مانگ مَیں تجھے کیا دوں؟

8۔ سلیمان نے خدا سے کہا تْو نے میرے باپ داؤد پر بڑی مہربانی کی اور مجھے اْس کی جگہ بادشاہ بنایا۔

9۔ اب اے خداوند خدا جو وعدہ تْو نے میرے باپ داؤد سے کیا وہ برقرار رہے کیونکہ تْو نے مجھے ایک ایسی قوم کا بادشاہ بنایا ہے جو کثرت میں زمین کی خاک کے ذروں کی مانند ہے۔

10۔ سو مجھے حکمت و معرفت عنایت کر تاکہ مَیں اِن لوگوں کے آگے اندر باہر آیا جایا کروں کیونکہ تیری اِس بڑی قوم کا انصاف کون کر سکتا ہے؟

11۔ تب خداوند نے سلیمان سے کہا چونکہ تیرے دل میں یہ بات تھی اور تْو نے نہ دولت نہ مال نہ عزت نہ اپنے دشمنوں کی موت مانگی اور نہ عمر کی درازی طلب کی بلکہ اپنے لئے حکمت و معرفت کی درخواست کی تاکہ میرے لوگوں کا جن پر مَیں نے تجھے بادشاہ بنایا ہے انصاف کرے۔

12۔ سو حکمت و معرفت تجھے عطا ہوئی اور مَیں تجھے اِس قدر دولت اور مال اور عزت بخشوں گا کہ نہ تواْن بادشاہوں میں سے جو تجھ سے پہلے ہوئے کسی کو نصیب ہوئی اورنہ کسی کو تیرے بعد نصیب ہوگی۔

3. II Chronicles 1 : 1 (Solomon), 6-12

1     Solomon the son of David was strengthened in his kingdom, and the Lord his God was with him, and magnified him exceedingly.

6     And Solomon went up thither to the brasen altar before the Lord, which was at the tabernacle of the congregation, and offered a thousand burnt offerings upon it.

7     In that night did God appear unto Solomon, and said unto him, Ask what I shall give thee.

8     And Solomon said unto God, Thou hast shewed great mercy unto David my father, and hast made me to reign in his stead.

9     Now, O Lord God, let thy promise unto David my father be established: for thou hast made me king over a people like the dust of the earth in multitude.

10     Give me now wisdom and knowledge, that I may go out and come in before this people: for who can judge this thy people, that is so great?

11     And God said to Solomon, Because this was in thine heart, and thou hast not asked riches, wealth, or honour, nor the life of thine enemies, neither yet hast asked long life; but hast asked wisdom and knowledge for thyself, that thou mayest judge my people, over whom I have made thee king:

12     Wisdom and knowledge is granted unto thee; and I will give thee riches, and wealth, and honour, such as none of the kings have had that have been before thee, neither shall there any after thee have the like.

4 ۔ لوقا 18باب18(کسی) تا30 آیات

18۔۔۔۔کسی سردار نے اْس سے یہ سوال کیا کہ اے نیک اْستاد! مَیں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟

19۔ یسوع نے اْس سے کہا تْو مجھے کیوں نیک کہتا ہے؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا۔

20۔ تْو حکموں کو تو جانتا ہے۔ زنا نہ کر۔ خون نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھوٹی گواہی نہ دے۔ اور اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کر۔

21۔ اْس نے کہا مَیں نے لڑکپن سے ان سب پر عمل کیا ہے۔

22۔ یسوع نے یہ سْن کر اْس سے کہا ابھی تک تجھ میں ایک بات کی کمی ہے۔ اپنا سب کچھ بیچ کر غریبوں میں بانٹ دے تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آکر میرے پیچھے ہو لے۔

23۔ یہ سْن کر وہ بڑا غمگین ہوا کیونکہ بہت دولتمند تھا۔

24۔ یسوع نے اْس کو دیکھ کر کہا کہ دولتمند کا خدا کی بادشاہی میں داخل ہوا کیسا مشکل ہے!

25۔کیونکہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔

26۔ سننے والوں نے کہا تو پھر کون نجات پا سکتا ہے؟

27۔ اْس نے کہا جو انسان سے نہیں ہو سکتا وہ خدا سے ہو سکتا ہے۔

28۔ پطرس نے اْس سے کہا دیکھ ہم تو اپنا گھر بار چھوڑ کر تیرے پیچھے ہو لئے ہیں۔

29۔ اْس نے اْن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایسا کوئی نہیں جس نے گھر یا بیوی یا بھائیوں یا ماں باپ یا بچوں کو خدا کی بادشاہی کی خاطر چھوڑ دیا ہو۔

30۔ اور اِس زمانہ میں کئی گْنا زیادہ نہ پائے اور آنے والے عالم میں ہمیشہ کی زندگی۔

4. Luke 18 : 18 (a)-30

18     …a certain ruler asked him, saying, Good Master, what shall I do to inherit eternal life?

19     And Jesus said unto him, Why callest thou me good? none is good, save one, that is, God.

20     Thou knowest the commandments, Do not commit adultery, Do not kill, Do not steal, Do not bear false witness, Honour thy father and thy mother.

21     And he said, All these have I kept from my youth up.

22     Now when Jesus heard these things, he said unto him, Yet lackest thou one thing: sell all that thou hast, and distribute unto the poor, and thou shalt have treasure in heaven: and come, follow me.

23     And when he heard this, he was very sorrowful: for he was very rich.

24     And when Jesus saw that he was very sorrowful, he said, How hardly shall they that have riches enter into the kingdom of God!

25     For it is easier for a camel to go through a needle’s eye, than for a rich man to enter into the kingdom of God.

26     And they that heard it said, Who then can be saved?

27     And he said, The things which are impossible with men are possible with God.

28     Then Peter said, Lo, we have left all, and followed thee.

29     And he said unto them, Verily I say unto you, There is no man that hath left house, or parents, or brethren, or wife, or children, for the kingdom of God’s sake,

30     Who shall not receive manifold more in this present time, and in the world to come life everlasting.

5 ۔ 1 یوحنا 2 باب15تا17 آیات

15۔ نہ دنیا سے محبت رکھو نہ اْن چیزوں سے جو دنیا میں ہیں۔ جو کوئی دنیا سے محبت رکھتا ہے اْس میں باپ کی محبت نہیں۔

16۔ کیونکہ جو کچھ دنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی طرف سے ہے۔

17۔ دنیا اور اْس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔

5. I John 2 : 15-17

15     Love not the world, neither the things that are in the world. If any man love the world, the love of the Father is not in him.

16     For all that is in the world, the lust of the flesh, and the lust of the eyes, and the pride of life, is not of the Father, but is of the world.

17     And the world passeth away, and the lust thereof: but he that doeth the will of God abideth for ever.



سائنس اور صح


1 ۔ 468 :8۔15

سوال: ہستی کا سائنسی بیان کیا ہے؟

جواب: مادے میں کوئی زندگی، سچائی، ذہانت اورنہ ہی مواد پایا جاتا ہے۔کیونکہ خدا حاکم کْل ہے اس لئے سب کچھ لامتناہی عقل اور اْس کا لامتناہی اظہار ہے۔ روح لافانی سچائی ہے؛ مادہ فانی غلطی ہے۔ روح ابدی اور حقیقی ہے؛ مادہ غیر حقیقی اور عارضی ہے۔ روح خدا ہے اور انسان اْس کہ صورت اور شبیہ۔ اس لئے انسان مادی نہیں بلکہ وہ روحانی ہے۔

1. 468 : 8-15

Question. — What is the scientific statement of being?

Answer. — There is no life, truth, intelligence, nor substance in matter. All is infinite Mind and its infinite manifestation, for God is All-in-all. Spirit is immortal Truth; matter is mortal error. Spirit is the real and eternal; matter is the unreal and temporal. Spirit is God, and man is His image and likeness. Therefore man is not material; he is spiritual.

2 ۔ 477 :9۔17

جوکچھ بھی مادی ہے وہ فانی ہے۔ پانچ جسمانی حواس کے لئے انسان بطور مادا اور عقل ایک ساتھ سامنے آتا ہے؛ مگر کرسچن سائنس یہ پیش کرتی ہے کہ انسان خدا کا خیال ہے اور واضح کرتی ہے کہ جسمانی حواس فانی اور جھوٹے بھرم ہیں۔ الٰہی سائنس اِسے ناممکن پیش کرتی ہے کہ مادی بدن کو، مادے کی بلند سطح کے ساتھ باہم ہونے کے وسیلہ، جس کا اْلٹا نام عقل لیا جاتا ہے، انسان ہونا چاہئے، یعنی اصلی اور کامل انسان، ہستی کا لافانی خیال، لازوال اور ابدی انسان۔

2. 477 : 9-17

Whatever is material is mortal. To the five corporeal senses, man appears to be matter and mind united; but Christian Science reveals man as the idea of God, and declares the corporeal senses to be mortal and erring illusions. Divine Science shows it to be impossible that a material body, though interwoven with matter's highest stratum, misnamed mind, should be man, — the genuine and perfect man, the immortal idea of being, indestructible and eternal.

3 ۔ 279 :13۔21، 26۔29

روح اور مادا نہ تو ایک ساتھ وجود رکھ سکتے ہیں اور نہ تعاون کر سکتے ہیں، اور اِن میں سے کوئی ایک دوسرے کو اِس طرح سے خلق نہیں کرسکتا جیسے سچائی غلطی کو کر سکتی ہے یا اِس کے برعکس ہوسکتا ہے۔

اِس عقیدے کے غائب ہونے کے تناسب میں کہ زندگی اور ذہانت مادے میں ہیں یا مادے سے ہیں، لافانی حقائق دکھائی دیتے ہیں، اور اْن کا واحد خیال یا ذہانت خدا ہے۔ روح تک صرف زندگی اور سچائی اور محبت کے فہم اور اظہار کے وسیلہ پہنچا جاتا ہے۔

ایک منطقی اور سائنسی نتیجے پر محض اِس علم کے ساتھ پہنچا جاتا ہے کہ ہستی کی دو بنیادیں مادا اور عقل نہیں، بلکہ صرف واحد عقل ہے۔

3. 279 : 13-21, 26-29

Spirit and matter can neither coexist nor cooperate, and one can no more create the other than Truth can create error, or vice versa.

In proportion as the belief disappears that life and intelligence are in or of matter, the immortal facts of being are seen, and their only idea or intelligence is in God. Spirit is reached only through the understanding and demonstration of eternal Life and Truth and Love.

A logical and scientific conclusion is reached only through the knowledge that there are not two bases of being, matter and mind, but one alone, — Mind.

4 ۔ 301 :17۔23، 24۔29

جیسا کہ خدا اصل ہے اور انسان الٰہی صورت اور شبیہ ہے، تو انسان کو صرف اچھائی کے اصل، روح کے اصل نہ کہ مادے کی خواہش رکھنی چاہئے، اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہے۔یہ عقیدہ روحانی نہیں ہے کہ انسان کے پاس کوئی دوسرا مواد یا عقل ہے،اور یہ پہلے حکم کو توڑتا ہے کہ تْو ایک خدا، ایک عقل کو ماننا۔۔۔۔فریب نظری، گناہ، بیماری اور موت مادی فہم کی جھوٹی گواہی سے جنم لیتے ہیں، جو لا محدود روح کے مرکزی فاصلے سے باہر ایک فرضی نظریے سے، عقل اور اصل کی پلٹی ہوئی تصویر پیش کرتی ہے، جس میں ہر چیز اوپر سے نیچے اْلٹ ہوئی ہوتی ہے۔

4. 301 : 17-23, 24-29

As God is substance and man is the divine image and likeness, man should wish for, and in reality has, only the substance of good, the substance of Spirit, not matter. The belief that man has any other substance, or mind, is not spiritual and breaks the First Commandment, Thou shalt have one God, one Mind. … Delusion, sin, disease, and death arise from the false testimony of material sense, which, from a supposed standpoint outside the focal distance of infinite Spirit, presents an inverted image of Mind and substance with everything turned upside down.

5 ۔ 269 :21۔28

مادی حواس کی گواہی نہ تو مطلق ہے اور نہ الٰہی ہے۔ اِسی لئے میں خود کو غیر محفوظ طریقے سے یسوع کی، اْس کے شاگردوں کی، انبیاء کی تعلیمات اور عقل کی سائنس کی گواہی پر قائم کرتا ہوں۔یہاں دیگر بنیادیں بالکل نہیں ہیں۔باقی تمام تر نظام، وہ نظام جو مکمل طور پر یا جزوی طور پر مادی حواس سے حاصل شدہ علم پر بنیاد رکھتے ہیں، ایسے سرکنڈے ہیں جو ہوا سے لڑکھڑاتے ہیں، نہ کہ چٹان پر تعمیر کئے گئے گھر ہیں۔

5. 269 : 21-28

The testimony of the material senses is neither absolute nor divine. I therefore plant myself unreservedly on the teachings of Jesus, of his apostles, of the prophets, and on the testimony of the Science of Mind. Other foundations there are none. All other systems — systems based wholly or partly on knowledge gained through the material senses — are reeds shaken by the wind, not houses built on the rock.

6 ۔ 326 :8۔14

ساری فطرت انسان کے ساتھ خدا کی محبت کی تعلیم دیتی ہے، لیکن انسان خدا سے بڑھ کر اْسے پیار نہیں کر سکتا اورروحانیت کی بجائے مادیت سے پیار کرتے اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے احساس کو روحانی چیزوں پر مرتب نہیں کرسکتا۔

ہمیں مادی نظاموں کی بنیاد کو ترک کرنا چاہئے، تاہم یہ منحصر ہے، اگر ہم مسیح کو ہمارے واحد نجات دہندہ کے طور پر حاصل کرتے ہیں۔

6. 326 : 8-14

All nature teaches God's love to man, but man cannot love God supremely and set his whole affections on spiritual things, while loving the material or trusting in it more than in the spiritual.

We must forsake the foundation of material systems, however time-honored, if we would gain the Christ as our only Saviour.

7 ۔ 593 :6 (تا دوسرا)۔

بٹوا۔ مادے یعنی غلطی میں اپنا خزانہ جمع کرنا۔

7. 593 : 6

Purse. Laying up treasures in matter; error.

8 ۔ 262 :17۔26

ایوب نے کہا، ”میں نے تیری خبر کان سے سنی تھی، پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے۔“ بشر ایوب کے خیالات کو پھیلائیں گے، جب مادے کی فرضی تکلیف اور خوشی سبقت رکھنا ترک کرتی ہے۔ پھر وہ زندگی اور خوشی، دْکھ اور شادمانی کے جھوٹے اندازے لگائیں گے، اور وہ بے غرضی، صبر سے کام کرنے اور اْس سب کو فتح کرتے ہوئے جو خدا کی مانند نہیں ہے محبت کی نعمت حاصل کریں گے۔ ایک اونچے نقطہ نظر سے آغاز کرتے ہوئے، ایک شخص خود ساختہ بڑھتا ہے، جیسا کہ روشنی خودبغیر کسی کوشش کے روشنی کوخارج کرتی ہے، کیونکہ ”جہاں تیرا خزانہ ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا۔“

8. 262 : 17-26

Job said: "I have heard of Thee by the hearing of the ear: but now mine eye seeth Thee." Mortals will echo Job's thought, when the supposed pain and pleasure of matter cease to predominate. They will then drop the false estimate of life and happiness, of joy and sorrow, and attain the bliss of loving unselfishly, working patiently, and conquering all that is unlike God. Starting from a higher standpoint, one rises spontaneously, even as light emits light without effort; for "where your treasure is, there will your heart be also."

9 ۔ 272 :19۔25

یہ مادی وجودیت کے بھیانک نقلی نتائج کے مقابلے میں خیالات کی روحانیت اور روز مرہ کی مسیحت پسندی ہے؛ یہ نچلے رجحانات اور ناپاکی اور شہوت پرستی کی زمینی کشش کے مقابلے میں پاکیزگی اور صداقت ہے، جو حقیقتاً کرسچن سائنس کی الٰہی ابتدا اور کام کی تصدیق کرتی ہے۔

9. 272 : 19-25

It is the spiritualization of thought and Christianization of daily life, in contrast with the results of the ghastly farce of material existence; it is chastity and purity, in contrast with the downward tendencies and earthward gravitation of sensualism and impurity, which really attest the divine origin and operation of Christian Science.

10 ۔ 322 :26۔5

مادے کی فرضی زندگی پر عقیدے کے تیز ترین تجربات، اِس کے علاوہ ہماری مایوسیاں اور نہ ختم ہونے والی پریشانیاں ہمیں الٰہی محبت کی بانہوں میں تھکے ہوئے بچوں کی مانند پہنچاتے ہیں۔پھر ہم الٰہی سائنس میں زندگی کو سیکھنا شروع کرتے ہیں۔ رہائی کے اِس عمل کے بغیر، ”کیا تْو تلاش سے خدا کو پا سکتا ہے؟“کسی شخص کا خود کو غلطی سے بچانے کی نسبت سچائی کی خواہش رکھنا زیادہ آسان ہے۔بشر کرسچن سائنس کے فہم کی تلاش کر سکتے ہیں، مگر وہ کرسچن سائنس میں سے ہستی کے حقائق کو جدوجہد کے بغیر چننے کے قابل نہیں ہوں گے۔یہ اختلاف ہر قسم کی غلطی کو ترک کرنے اور اچھائی کے علاوہ کوئی دوسرا شعور نہ رکھنے کی کوشش کرنے پر مشتمل ہے۔

10. 322 : 26-5

The sharp experiences of belief in the supposititious life of matter, as well as our disappointments and ceaseless woes, turn us like tired children to the arms of divine Love. Then we begin to learn Life in divine Science. Without this process of weaning, "Canst thou by searching find out God?" It is easier to desire Truth than to rid one's self of error. Mortals may seek the understanding of Christian Science, but they will not be able to glean from Christian Science the facts of being without striving for them. This strife consists in the endeavor to forsake error of every kind and to possess no other consciousness but good.

11 ۔ 61 :4۔11

انسانی ہمدردیوں میں اچھائی کو بدی پر اور جانور پر روحانی کو غلبہ پانا چاہئے وگرنہ خوشی کبھی فتح مند نہیں ہوگی۔ اس آسمانی حالت کا حصول ہماری نسل کو ترقی دے گا، جرم کو تلف کرے گا، اور امنگ کو بلند مقاصد عنایت کرے گا۔ گناہ کی ہر وادی سر بلند کی جانی چاہئے، اور خود غرضی کا ہر پہاڑ نیچا کرنا چاہئے، تاکہ سائنس میں ہمارے خدا کی راہ ہموار کی جا سکے۔

11. 61 : 4-11

The good in human affections must have ascendency over the evil and the spiritual over the animal, or happiness will never be won. The attainment of this celestial condition would improve our progeny, diminish crime, and give higher aims to ambition. Every valley of sin must be exalted, and every mountain of selfishness be brought low, that the highway of our God may be prepared in Science.

12 ۔ 518 :15۔19

روح کے امیراعلیٰ بھائی چارے میں،ایک ہی اصول یا باپ رکھتے ہوئے، غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور مبارک ہے وہ شخص جودوسرے کی بھلائی میں اپنی بھلائی دیکھتے ہوئے، اپنے بھائی کی ضرورت دیکھتا اور پوری کرتا ہے۔

12. 518 : 15-19

The rich in spirit help the poor in one grand brotherhood, all having the same Principle, or Father; and blessed is that man who seeth his brother's need and supplieth it, seeking his own in another's good.

13 ۔ 451 :14۔18

انسان اْسی جانب رواں رہتا ہے جہاں اْس کی نظر ہوتی ہو، اور جہاں اْس کا خزانہ ہو وہیں اْس کا دل بھی لگا رہتا ہے۔ اگر ہماری امیدیں اور احساس روحانی ہیں، تو وہ اوپر سے آتے ہیں نیچے سے نہیں، اور وہ ماضی کی طرح روح کے پھل پیدا کرتے ہیں۔

13. 451 : 14-18

Man walks in the direction towards which he looks, and where his treasure is, there will his heart be also. If our hopes and affections are spiritual, they come from above, not from beneath, and they bear as of old the fruits of the Spirit.

14 ۔ 390 :9۔11

سچائی تفصیل میں ہم سب کو مجبور کرے گی کہ ہم فہم کی خوشیوں اور دْکھوں کا روح کی خوشیوں کے ساتھ تبادلہ کریں۔

14. 390 : 9-11

Truth will at length compel us all to exchange the pleasures and pains of sense for the joys of Soul.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████