اتوار 23 اپریل، 2023



مضمون۔ موت کے بعد امتحان

SubjectProbation After Death

سنہری متن: 1 کرنتھیوں 15 باب26 آیت

”سب سے پچھلا دْشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے۔“



Golden Text: I Corinthians 15 : 26

The last enemy that shall be destroyed is death.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: عبرانیوں 2 باب1 تا3، 6تا9 آیات


1۔ اِس لئے جوباتیں ہم نے سنیں ان پر اور بھی دل لگا کر غور کرنا چاہئے تاکہ بہ کر اْن سے دور نہ ہوجائیں۔

2۔ کیونکہ جو کلام فرشتوں کی معرفت فرمایا گیا تھا جب وہ قائم رہا اور ہر قصور اور نافرمانی کا ٹھیک ٹھیک بدلہ ملا۔

3۔ تو اتنی بڑی نجات سے غافل رہ کر ہم کیونکر بچ سکتے ہیں؟

6۔ بلکہ کسی نے کسی موقعہ پر یہ بیان کیا ہے کہ انسان کیا چیز ہے جو تْو اْس کا خیال کرتا ہے؟ یا آدم زاد کیا ہے جو تْو اْس پر نگاہ کرتا ہے؟

7۔ تْو نے اْسے فرشتوں سے کچھ ہی کم کیا۔ تْونے اْس پر جلال اور عزت کا تاج رکھا اور اپنے ہاتھوں کے کاموں پر اْسے اختیار بخشا۔

8۔ تْو نے سب چیزیں تابع کر کے اْس کے پاؤں تلے کر دی ہیں۔ پس جس صورت میں اْس نے سب چیزیں اْس کے تابع کر دیں ہیں تو اْس نے کوئی چیز ایسی نہ چھوڑی جو اْس کے تابع نہ کی ہو مگر ہم اب تک سب چیزیں اْس کے تابع نہیں دیکھتے۔

9۔ البتہ اس کو دیکھتے ہیں جو فرشتوں سے کچھ ہی کم کیا گیا یعنی یسوع کو کہ موت کا دکھ سہنے کے سبب سے جلال اور عزت کا تاج اسے پہنایا گیا ہے۔

Responsive Reading: Hebrews 2 : 1-3, 6-9

1.     Therefore we ought to give the more earnest heed to the things which we have heard, lest at any time we should let them slip.

2.     For if the word spoken by angels was stedfast, and every transgression and disobedience received a just recompence of reward;

3.     How shall we escape, if we neglect so great salvation?

6.     But one in a certain place testified, saying, What is man, that thou art mindful of him? or the son of man, that thou visitest him?

7.     Thou madest him a little lower than the angels; thou crownedst him with glory and honour, and didst set him over the works of thy hands:

8.     Thou hast put all things in subjection under his feet. For in that he put all in subjection under him, he left nothing that is not put under him. But now we see not yet all things put under him.

9.     But we see Jesus, who was made a little lower than the angels for the suffering of death, crowned with glory and honour.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یسعیاہ 25 باب1، 4، 7، 8 آیات

1۔ اے خداوند! تْو میرا خدا ہے۔ مَیں تیری تمجید کروں گا۔ تیرے نام کی ستائش کروں گا کیونکہ تْو نے عجیب کام کئے ہیں۔

4۔ کیونکہ تْو مسکین کے لئے قلعہ اور محتاج کے لئے پریشانی کے وقت ملجا اور آندھی سے پناہ گاہ اور گرمی سے بچانے کو سایہ ہوا جس وقت ظالموں کی سانس دیوار کْن طوفان کی مانند ہوگی۔

7۔ اور وہ اِس پہاڑ پر اِس پردہ کو جو تمام لوگوں پر گر پڑا اور اْس نقاب کو جو سب قوموں پر لٹک رہا ہے دور کرے گا۔

8۔ وہ موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا اور خداوند خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالے گا اور اپنے لوگوں کی رسوائی تمام زمین پر سے مٹا ڈالے گا کیونکہ خداوند نے یہ فرمایا ہے۔

1. Isaiah 25 : 1, 4, 7, 8

1     O Lord, thou art my God; I will exalt thee, I will praise thy name; for thou hast done wonderful things; thy counsels of old are faithfulness and truth.

4     For thou hast been a strength to the poor, a strength to the needy in his distress, a refuge from the storm, a shadow from the heat, when the blast of the terrible ones is as a storm against the wall.

7     And he will destroy in this mountain the face of the covering cast over all people, and the vail that is spread over all nations.

8     He will swallow up death in victory; and the Lord God will wipe away tears from off all faces; and the rebuke of his people shall he take away from off all the earth: for the Lord hath spoken it.

2 . ۔ لوقا 8 باب40تا42، 49تا56 (تا:)آیات

40۔ جب یسوع واپس آرہا تھا تو لوگ اْس سے خوشی کے ساتھ ملے کیونکہ سب اْس کی راہ تکتے تھے۔

41۔ اور دیکھو یائیر نام ایک شخص جو عبادتخانے کا سردار تھا آیا اور یسوع کے قدموں پر گر کر اْس کی منت کی کہ میرے گھر چل۔

42۔ کیونکہ اْس کی اکلوتی بیٹی جو بارہ برس کی تھی مرنے کو تھی۔

49۔ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ عبادتخانہ کے سردار کے ہاں سے کسی نے آکر کہا تیری بیٹی مرگئی۔استاد کو تکلیف نہ دے۔

50۔ یسوع نے سن کر اْسے جواب دیا خوف نہ کر فقط اعتقاد رکھ۔ وہ بچ جائے گی۔

51۔ اور گھر میں پہنچ کر پطرس اور یوحنا اور یعقوب اور لڑکی کے ماں باپ کے سوا کسی کو اپنے ساتھ اندر نہ جانے دیا۔

52۔ اور سب اْس کے لئے رو پیٹ رہے تھے مگر اْس نے کہا ماتم نہ کرو۔ وہ مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔

53۔ وہ اْس پر ہنسنے لگے کیونکہ جانتے تھے کہ وہ مر گئی ہے۔

54۔ مگر اْس نے اْس کا ہاتھ پکڑا اور پکار کر کہا اے لڑکی اْٹھ۔

55۔ اْس کی روح پھر آئی اور وہ اْسی دم اْٹھی۔ پھر یسوع نے حکم دیا کہ لڑکی کو کچھ کھانے کو دو۔

56۔ اْس کے ماں باپ حیران ہوئے۔

2. Luke 8 : 40-42, 49-56 (to :)

40     And it came to pass, that, when Jesus was returned, the people gladly received him: for they were all waiting for him.

41     And, behold, there came a man named Jairus, and he was a ruler of the synagogue: and he fell down at Jesus’ feet, and besought him that he would come into his house:

42     For he had one only daughter, about twelve years of age, and she lay a dying. But as he went the people thronged him.

49     While he yet spake, there cometh one from the ruler of the synagogue’s house, saying to him, Thy daughter is dead; trouble not the Master.

50     But when Jesus heard it, he answered him, saying, Fear not: believe only, and she shall be made whole.

51     And when he came into the house, he suffered no man to go in, save Peter, and James, and John, and the father and the mother of the maiden.

52     And all wept, and bewailed her: but he said, Weep not; she is not dead, but sleepeth.

53     And they laughed him to scorn, knowing that she was dead.

54     And he put them all out, and took her by the hand, and called, saying, Maid, arise.

55     And her spirit came again, and she arose straightway: and he commanded to give her meat.

56     And her parents were astonished:

3 . ۔ یوحنا 14 باب6 (تا کہا) آیت

6۔ یسوع نے کہا۔۔۔

3. John 14 : 6 (to saith)

6     Jesus saith…

4. John 5 : 20 (the Father) (to :), 21, 24-29 (to 2nd ;)

20     …the Father loveth the Son, and sheweth him all things that himself doeth:

21     For as the Father raiseth up the dead, and quickeneth them; even so the Son quickeneth whom he will.

24     Verily, verily, I say unto you, He that heareth my word, and believeth on him that sent me, hath everlasting life, and shall not come into condemnation; but is passed from death unto life.

25     Verily, verily, I say unto you, The hour is coming, and now is, when the dead shall hear the voice of the Son of God: and they that hear shall live.

26     For as the Father hath life in himself; so hath he given to the Son to have life in himself;

27     And hath given him authority to execute judgment also, because he is the Son of man.

28     Marvel not at this: for the hour is coming, in the which all that are in the graves shall hear his voice,

29     And shall come forth; they that have done good, unto the resurrection of life;

4 . ۔ یوحنا 5 باب20 (باپ) (تا:)، 21، 24تا29 (تا دوسری؛) آیات

20۔۔۔۔ باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے اور جتنے کام خود کرتا ہے اْسے دکھاتا ہے۔

21۔ کیونکہ جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتا ہے اور زندہ کرتا ہے اور اْسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے۔

24۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا ہے اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اْس کی ہے اور اْس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔

25۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سنیں گے وہ جیئں گے۔

26۔ کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اْسی طرح اْس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔

27۔ بلکہ اْسے عدالت کرنے کا بھی اختیار بخشا۔ اِس لئے کہ وہ آدم زاد ہے۔

28۔ اِس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اْس کی آواز سن کر نکلیں گے۔

29۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔

5 . ۔ 2 کرنتھیوں 4 باب6، 7، 14تا18 آیات

6۔اِس لئے کہ خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکا تاکہ خداکے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو۔

7۔ لیکن ہمارے پاس یہ خزانہ مٹی کے برتنوں میں رکھا ہے تاکہ یہ حد سے زیادہ قدرت ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے معلوم ہو۔

14۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جس نے خداوند یسوع کو جِلایا وہ ہم کو بھی یسوع کے ساتھ شامل جان کر جلائے گا اور تمہارے ساتھ اپنے سامنے حاضر کرے گا۔

15۔ اِس لئے کہ سب چیزیں تمہارے واسطے ہیں تاکہ بہت سے لوگوں کے سبب سے فضل زیادہ ہوکر خدا کے جلال کے لئے شکر گزاری بھی بڑھائے۔

16۔ اِس لئے ہم ہمت نہیں ہارتے بلکہ گو ہماری ظاہری انسانیت زائل ہوتی جاتی ہے پھر بھی ہماری باطنی انسانیت روز بروز نئی ہوتی جاتی ہے۔

17۔ کیونکہ ہماری دم بھر کی ہلکی سی مصیبت ہمارے لئے از حد بھاری اور ابدی جلال پیدا کرتی جاتی ہے۔

18۔ جس حال میں کہ ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں کیونکہ دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں مگر اندیکھی چیزیں ابدی ہیں۔

5. II Corinthians 4 : 6, 7, 14-18

6     For God, who commanded the light to shine out of darkness, hath shined in our hearts, to give the light of the knowledge of the glory of God in the face of Jesus Christ.

7     But we have this treasure in earthen vessels, that the excellency of the power may be of God, and not of us.

14     Knowing that he which raised up the Lord Jesus shall raise up us also by Jesus, and shall present us with you.

15     For all things are for your sakes, that the abundant grace might through the thanksgiving of many redound to the glory of God.

16     For which cause we faint not; but though our outward man perish, yet the inward man is renewed day by day.

17     For our light affliction, which is but for a moment, worketh for us a far more exceeding and eternal weight of glory;

18     While we look not at the things which are seen, but at the things which are not seen: for the things which are seen are temporal; but the things which are not seen are eternal.

6 . ۔ 1 پطرس 1 باب3تا9 آیات

3۔ہمارے خداوند یسوع مسیح کے خدا اور باپ کی حمد ہو جس نے یسوع مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کے باعث اپنی بڑی رحمت سے ہمیں زندہ امید کے لئے نئے سرے سے پیدا کیا۔

4۔ تاکہ ایک غیر فانی اور بے داغ اور لازوال میراث کو حاصل کریں۔

5۔ وہ تمہارے واسطے جو خدا کی قدرت سے ایمان کے وسیلہ سے اْس نجات کے لئے جو آخری وقت میں ظاہر ہونے کوتیار ہے حفاظت کئے جاتے ہو، آسمان پر محفوظ ہے۔

6۔ اِس کے سبب سے تم خوشی مناتے ہو۔اگرچہ اب چند روز کے لئے ضرورت کی وجہ سے طرح طرح کی آزمائشوں کے سبب سے غم زدہ ہو۔

7۔ کہ تمہارا آزمایا ہوا ایمان جو آگ سے آزمائے ہوئے فانی سونے سے بھی بہت ہی بیش قیمت ہے یسوع مسیح کے ظہور کے وقت تعریف اور جلال اور عزت کا باعث ٹھہرے۔

8۔ اْس سے تم بے دیکھے محبت رکھتے ہو اور اگر چہ اِس وقت اْس کو نہیں دیکھتے تو بھی اْس پر ایمان لا کر ایسی خوشی مناتے ہو جو بیان سے باہر اور جلال سے بھری ہے۔

9۔ اور اپنے ایمان کا مقصد یعنی روحوں کی نجات حاصل کرتے ہو۔

6. I Peter 1 : 3-9

3     Blessed be the God and Father of our Lord Jesus Christ, which according to his abundant mercy hath begotten us again unto a lively hope by the resurrection of Jesus Christ from the dead,

4     To an inheritance incorruptible, and undefiled, and that fadeth not away, reserved in heaven for you,

5     Who are kept by the power of God through faith unto salvation ready to be revealed in the last time.

6     Wherein ye greatly rejoice, though now for a season, if need be, ye are in heaviness through manifold temptations:

7     That the trial of your faith, being much more precious than of gold that perisheth, though it be tried with fire, might be found unto praise and honour and glory at the appearing of Jesus Christ:

8     Whom having not seen, ye love; in whom, though now ye see him not, yet believing, ye rejoice with joy unspeakable and full of glory:

9     Receiving the end of your faith, even the salvation of your souls.



سائنس اور صح


1 . ۔ 200 :9۔15 (تا دوسرا)

زندگی ہمیشہ مادے سے آزاد ہے، تھی اور ہمیشہ رہے گی،کیونکہ زندگی خدا ہے اور انسان خدا کا تصور ہے، جسے مادی طور پر نہیں بلکہ روحانی طور پر خلق کیا گیا، اور وہ فنا ہونے اور نیست ہونے سے مشروط نہیں۔ زبور نویس نے کہا: ”تْو نے اْسے اپنی دستکاری پر تسلط بخشا ہے۔ تْو نے سب کچھ اْس کے قدموں کے نیچے کر دیا ہے۔“

1. 200 : 9-15 (to 2nd .)

Life is, always has been, and ever will be independent of matter; for Life is God, and man is the idea of God, not formed materially but spiritually, and not subject to decay and dust. The Psalmist said: "Thou madest him to have dominion over the works of Thy hands. Thou hast put all things under his feet."

2 . ۔ 487 :3 (زندگی لازوال ہے)۔6

زندگی لازوال ہے۔ زندگی انسان کا اصل اور بنیاد ہے، موت کے وسیلہ کبھی قابلِ حصول نہیں، بلکہ اِس سے پہلے اور بعد میں جسے موت کہا جاتا ہے سچائی پر چلتے رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔

2. 487 : 3 (Life is deathless)-6

Life is deathless. Life is the origin and ultimate of man, never attainable through death, but gained by walking in the pathway of Truth both before and after that which is called death.

3 . ۔ 98: 31۔5

وہ راہ جس سے لافانیت اور زندگی کی تعلیم پائی جاتی ہے وہ کلیسیائی نہیں بلکہ مسیحی، انسانی نہیں الٰہی، جسمانی نہیں مابعد الطبیعاتی، مادی نہیں بلکہ سائنسی طور پر روحانی ہے۔انسانی فلسفہ، اخلاقیات اور توہم اْس قابل اثبات الٰہی اصول کو برداشت نہیں کرتے جس کی بدولت بشر گناہ سے فرار ہو سکیں؛ تاہم گناہ سے فرار، بائبل کا مطالبہ ہے۔

3. 98 : 31-5

The way through which immortality and life are learned is not ecclesiastical but Christian, not human but divine, not physical but metaphysical, not material but scientifically spiritual. Human philosophy, ethics, and superstition afford no demonstrable divine Principle by which mortals can escape from sin; yet to escape from sin, is what the Bible demands.

4 . ۔ 291 :9۔13

انسان کو یہ گمان رکھنا چاہئے کہ موت کے تجربہ کا یقین انہیں جلالی ہستی میں بیدار کرے گا۔

عالمگیر نجات ترقی اور امتحان پر مرکوز ہے، اور ان کے بغیر غیر ممکن الحصول ہے۔

4. 291 : 9-13

Mortals need not fancy that belief in the experience of death will awaken them to glorified being.

Universal salvation rests on progression and probation, and is unattainable without them.

5 . ۔ 296 :4 (ترقی)۔13

ترقی تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ فانی انسان کی پختگی ہے، جس کے وسیلہ لافانی کی خاطر فانی بشر کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خواہ یہاں یا اس کے بعد، تکالیف یا سائنس کو زندگی اور عقل کے حوالے سے تمام تر فریب نظری کو ختم کر دینا چاہئے، او ر مادی فہم اور خودی کو از سرے نو پیدا کرنا چاہئے۔پرانی انسانیت کو اْس کے اعمال کے ساتھ منسوخ کر دینا چاہئے۔ کوئی بھی نفس پرستی یا گناہ آلود چیز لافانی نہیں ہے۔یہ مادے کی موت نہیں بلکہ جھوٹے مادی فہم اور گناہ کی موت ہی ہے جسے انسان اور زندگی ہم آہنگ، حقیقی اور ابدی ظاہر کرتے ہیں۔

5. 296 : 4 (Progress)-13

Progress is born of experience. It is the ripening of mortal man, through which the mortal is dropped for the immortal. Either here or hereafter, suffering or Science must destroy all illusions regarding life and mind, and regenerate material sense and self. The old man with his deeds must be put off. Nothing sensual or sinful is immortal. The death of a false material sense and of sin, not the death of organic matter, is what reveals man and Life, harmonious, real, and eternal.

6 . ۔ 46 :20۔24

یسوع کی موت کے بعداْسکی نہ بدلنے والی جسمانی حالت نے تمام تر مادی حالتوں پرسر بلندی پائی اور اِس سر بلندی نے اْس کے آسمان پر اٹھائے جانے کو واضح کیا، اور بغیر غلطی کے قبر سے آگے ایک امتحانی اور ترقی یافتہ حالت کو ظاہر کیا۔

6. 46 : 20-24

Jesus' unchanged physical condition after what seemed to be death was followed by his exaltation above all material conditions; and this exaltation explained his ascension, and revealed unmistakably a probationary and progressive state beyond the grave.

7 . ۔ 427 :13۔25، 29۔2

موت خواب کا ایک مرحلہ ہے کیونکہ وجود مادی ہوسکتا ہے۔ ہستی کی ہم آہنگی میں کوئی چیز مداخلت نہیں کرسکتی اورنہ ہی سائنس میں انسان کی وجودیت کو ختم کرسکتی ہے۔ انسان ویسا ہی رہتا ہے جیسا وہ ہڈی ٹوٹنے یا سر قلم ہونے سے پہلے تھا۔ اگر انسان نے کبھی موت پر فتح مند نہیں ہونا تو کلام یہ کیوں کہتا ہے کہ، ”سب سے پچھلا دْشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے“؟ کلام کا یہ حصہ واضح کرتا ہے کہ ہم گناہ پر فتح پانے کے تناسب میں موت پر فتح حاصل کریں گے۔زیادہ بڑی مشکل اِس لاعلمی میں پائی جاتی ہے کہ خدا کیا ہے۔خدا، زندگی، حق اور محبت انسان کو امر بناتے ہیں۔ لافانی عقل کو، جو سب پر حکمرانی کرتی ہے، جسمانی سلطنت،اِس کے ساتھ ساتھ روحانی میں بھی سب سے اعلیٰ تسلیم کیا جانا چاہئے۔

یہاں اور آخرت میں موت کے خواب کی قیادت عقل کرتی ہے۔اپنے خود کے مادی ظہور سے سوچ ”میں مردہ ہوں“ جنم لے گی تاکہ سچائی کے اس گونج دار لفظ کو پکڑ سکے، ”کوئی موت، بے عملی، بیماری والا عمل، رد عمل اور نہ ہی شدید رد عمل ہے۔“

7. 427 : 13-25, 29-2

Death is but another phase of the dream that existence can be material. Nothing can interfere with the harmony of being nor end the existence of man in Science. Man is the same after as before a bone is broken or the body guillotined. If man is never to overcome death, why do the Scriptures say, "The last enemy that shall be destroyed is death"? The tenor of the Word shows that we shall obtain the victory over death in proportion as we overcome sin. The great difficulty lies in ignorance of what God is. God, Life, Truth, and Love make man undying. Immortal Mind, governing all, must be acknowledged as supreme in the physical realm, so-called, as well as in the spiritual.

The dream of death must be mastered by Mind here or hereafter. Thought will waken from its own material declaration, "I am dead," to catch this trumpet-word of Truth, "There is no death, no inaction, diseased action, overaction, nor reaction."

8 . ۔ 409 :27۔3

ہمیں یہ کہنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ زندگی اب مادے پر منحصر ہے مگر موت کے بعد یہ اِس پر انحصار نہیں کرے گی۔یہاں ہم زندگی کی سائنس سے لاعلمی میں اپنی زندگی نہیں گزار سکتے، اور قبر کے بعد اِس لاعلمی کے لئے اجر کی توقع نہیں کرسکتے۔لاعملی کے اجر کے طور پر موت ہمیں ہم آہنگ اور لافانی نہیں بنائے گی۔اگر یہاں ہم کرسچن سائنس پر توجہ نہیں دیتے جو کہ روحانی اور ابدی ہے،تو ہم اِس کے بعد روحانی زندگی کے لئے بھی تیار نہیں ہوں گے۔

8. 409 : 27-3

We have no right to say that life depends on matter now, but will not depend on it after death. We cannot spend our days here in ignorance of the Science of Life, and expect to find beyond the grave a reward for this ignorance. Death will not make us harmonious and immortal as a recompense for ignorance. If here we give no heed to Christian Science, which is spiritual and eternal, we shall not be ready for spiritual Life hereafter.

9 . ۔ 39 :10۔30

تعلیم دیا گیا عقیدہ کہ جان بدن میں انسانوں کو موت سے بطور دوست بننے کا سبب بنتا ہے، یعنی لافانیت اورنعمت میں سے فانیت سے اخذ کیا گیا راستے کا پتھر۔بائبل موت کو دشمن کہتی ہے، اور یسوع انہیں قبول کرنے کی بجائے موت اور قبر پر فتح مند ہوا۔ وہ ”راہ“ تھا۔ اس لئے موت اْس کے لئے ایک دہلیز نہیں تھی جس میں سے ہو کر اْسے زندہ جلال میں داخل ہونا تھا۔

رسول نے پکارا، ”اب یہ قبولیت کا وقت ہے۔ دیکھو یہ نجات کا دن ہے“، مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اب انسان کو مستقبل کی دنیا کی نجات یا حفاظت کے لئے تیاری کرنی چاہئے، بلکہ یہ کہ اب اِس نجات کا روح اور زندگی میں تجربہ کرنے کا وقت ہے۔اب وقت ہے نام نہاد مادی تکلیفوں اور مادی خوشیوں کو ترک کرنے کا، کیونکہ دونوں غیر حقیقی ہیں، اس لئے کہ دونوں سائنس میں ناممکن ہیں۔ اِس زمینی جادو کو ختم کرنے کے لئے، بشر کو اْس سب کے حقیقی تصور اور الٰہی اصول کو سمجھنا چاہئے جو ہم آہنگی کے ساتھ کائنات میں وجود رکھتا اور اْس پر حکمرانی کرتا ہے۔ اِس خیال کو آہستہ آہستہ سمجھا جاتا ہے،اور شکوک اور ناکامیوں اِس کے علاوہ فتوحات کے ساتھ اِس کے حصول کو ممکن بنانے سے پیشتر اِس کے دو حصے کئے جاتے ہیں۔

9. 39 : 10-30

The educated belief that Soul is in the body causes mortals to regard death as a friend, as a stepping-stone out of mortality into immortality and bliss. The Bible calls death an enemy, and Jesus overcame death and the grave instead of yielding to them. He was "the way." To him, therefore, death was not the threshold over which he must pass into living glory.

"Now," cried the apostle, "is the accepted time; behold, now is the day of salvation," — meaning, not that now men must prepare for a future-world salvation, or safety, but that now is the time in which to experience that salvation in spirit and in life. Now is the time for so-called material pains and material pleasures to pass away, for both are unreal, because impossible in Science. To break this earthly spell, mortals must get the true idea and divine Principle of all that really exists and governs the universe harmoniously. This thought is apprehended slowly, and the interval before its attainment is attended with doubts and defeats as well as triumphs.

10 . ۔ 405 :5۔11

کرسچن سائنس انسان کو خواہشات کا مالک بننے، شفقت کے ساتھ نفرت کو ایک تعطل میں روکنے، پاکیزگی کے ساتھ شہوت پر، خیرات کے ساتھ بدلے پرفتح پانے اور ایمانداری کے ساتھ فریب پر قابو پانے کا حکم دیتی ہے۔اگر آپ صحت، خوشی اور کامیابی کے خلاف سازشیوں کی ایک فوج نہیں لانا چاہتے تو اِن غلطیوں کو ابتدائی مراحل میں ہی تلف کر دیں۔

10. 405 : 5-11

Christian Science commands man to master the propensities, — to hold hatred in abeyance with kindness, to conquer lust with chastity, revenge with charity, and to overcome deceit with honesty. Choke these errors in their early stages, if you would not cherish an army of conspirators against health, happiness, and success.

11 . ۔ 324 :7۔15

جب تک ہم آہنگی اور انسان کی لافانیت زیادہ واضح نہیں ہوجاتے، تب تک ہم خدا کا حقیقی تصور نہیں پا سکتے، اور بدن اس کی عکاسی کرے گا جو اْس پر حکمرانی کرتا ہے خواہ یہ سچائی ہو یا غلطی، سمجھ ہو یا عقیدہ، روح ہو یا مادہ۔ لہٰذہ، ”اْس سے ملا رہ تو سلامت رہے گا۔“ ہوشیار، سادہ اور چوکس رہیں۔ جو رستہ اس فہم کی جانب لے جاتا ہے کہ واحد خدا ہی زندگی ہے وہ رستہ سیدھا اور تنگ ہے۔

11. 324 : 7-15

Unless the harmony and immortality of man are becoming more apparent, we are not gaining the true idea of God; and the body will reflect what governs it, whether it be Truth or error, understanding or belief, Spirit or matter. Therefore "acquaint now thyself with Him, and be at peace." Be watchful, sober, and vigilant. The way is straight and narrow, which leads to the understanding that God is the only Life.

12 . ۔ 252 :7۔14

جب جھوٹے انسانی عقائد خود کے جھوٹ کے بارے میں تھوڑا سا بھی جانتے ہیں، تو وہ غائب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ کسی غلطی اور اْس کے اعمال کا علم اِس سچ کے فہم سے پہلے ہونا چاہئے جو غلطی کو نیست کرتا ہے، جب تک کہ مکمل فانی، مادی غلطی بالاآخر غائب نہیں ہوجاتی اور یہ ابدی حقیقت سمجھی اور جانی نہیں جاتی کہ انسان اپنے خالق کی حقیقی صورت پر روح کی بدولت اور روح سے پیدا ہوا ہے۔

12. 252 : 7-14

When false human beliefs learn even a little of their own falsity, they begin to disappear. A knowledge of error and of its operations must precede that understanding of Truth which destroys error, until the entire mortal, material error finally disappears, and the eternal verity, man created by and of Spirit, is understood and recognized as the true likeness of his Maker.

13 . ۔ 428 :8۔14

جھوٹے بھروسوں اور مادی ثبوتوں کے خیالات کو ختم کرنے کے لئے، تاکہ شخصی روحانی حقائق سامنے آئیں، یہ ایک بہت بڑا حصول ہے جس کی بدولت ہم غلط کو تلف کریں گے اور سچائی کو جگہ فراہم کریں گے۔ یوں ہم سچائی کی وہ ہیکل یا بدن تعمیر کرتے ہیں، ”جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے“۔

13. 428 : 8-14

To divest thought of false trusts and material evidences in order that the spiritual facts of being may appear, — this is the great attainment by means of which we shall sweep away the false and give place to the true. Thus we may establish in truth the temple, or body, "whose builder and maker is God."


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████