اتوار 23 اکتوبر ، 2022
”جو غالب آئے میں اْسے زندگی کے درخت میں سے جو خدا کے فردوس میں ہے پھل کھانے کو دوں گا۔“
“To him that overcometh will I give to eat of the tree of life, which is in the midst of the paradise of God.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
8۔ ساری زمین خداوند سے ڈرے۔ جہان کے سب باشندے اْس کا خوف رکھیں۔
9۔ کیونکہ اْس نے فرمایا اور ہوگیا۔اْس نے حکم دیا اور واقع ہوا۔
18۔ دیکھو، خداوند کی نگاہ اْن پر ہے جو اْس سے ڈرتے ہیں۔ جو اْس کی شفقت کے اْمیدوار ہیں۔
19۔ تاکہ اْن کی جان موت سے بچائے اور قحط میں اْن کو جیتا رکھے۔
20۔ ہماری جان کو خداوند کی آس ہے۔ وہی ہماری کْمک اور ہماری سِپر ہے۔
21۔ ہمارا دل اْس میں شادمان رہے گا کیونکہ ہم نے اْس کے پاک نام پر توکل کیا ہے۔
14۔ تو بھی آدم سے لے کر موسیٰ تک موت نے اْن پر بھی بادشاہی کی جنہوں نے اْس آدم کی نافرمانی کی طرح جو آنے والے کا مثیِل تھا گناہ نہ کیا تھا۔
20۔ مگر جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اْس سے بھی نہایت زیادہ ہوا۔
21۔ تاکہ جس طرح گناہ نے موت کے سبب سے بادشاہی کی اْسی طرح فضل بھی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعے سے بادشاہی کرے۔
8. Let all the earth fear the Lord: let all the inhabitants of the world stand in awe of him.
9. For he spake, and it was done; he commanded, and it stood fast.
18. Behold, the eye of the Lord is upon them that fear him, upon them that hope in his mercy;
19. To deliver their soul from death, and to keep them alive in famine.
20. Our soul waiteth for the Lord: he is our help and our shield.
21. For our heart shall rejoice in him, because we have trusted in his holy name.
14. Nevertheless death reigned from Adam to Moses, even over them that had not sinned after the similitude of Adam’s transgression, who is the figure of him that was to come.
20. But where sin abounded, grace did much more abound:
21. That as sin hath reigned unto death, even so might grace reign through righteousness unto eternal life by Jesus Christ our Lord.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
11۔ میرا توکل خدا پر ہے مَیں ڈرنے کا نہیں۔ انسان میرا کیا کرسکتا ہے؟
12۔ اے خدا! تیری مِنتیں مجھ پر ہیں۔ مَیں تیرے حضور شکرگزاری کی قربانیاں گزرانوں گا۔
13۔ کیونکہ تْو نے میری جان کو موت سے چھڑایا۔ کیا تْو نے میرے پاؤں کو پھسلنے سے نہیں بچایا تاکہ مَیں خدا کے سامنے زندوں کے نور میں چلوں؟
11 In God have I put my trust: I will not be afraid what man can do unto me.
12 Thy vows are upon me, O God: I will render praises unto thee.
13 For thou hast delivered my soul from death: wilt not thou deliver my feet from falling, that I may walk before God in the light of the living?
19۔ خداوند مبارک ہو جو ہر روز ہمارا بوجھ اٹھاتا ہے۔
20۔ خدا ہمارے لئے چھڑانے والا خدا ہے۔ اور موت سے بچنے کی راہیں بھی خداوند خدا کی ہیں۔
19 Blessed be the Lord, who daily loadeth us with benefits,
20 He that is our God is the God of salvation; and unto God the Lord belong the issues from death.
14۔ مَیں اْن کو پاتال کے قابو سے نجات دوں گا مَیں اْن کو موت سے چھڑاؤں گا۔ اے موت تیری وبا کہاں ہے؟ اے پاتال تیری ہلاکت کہاں ہے؟
14 I will ransom them from the power of the grave; I will redeem them from death: O death, I will be thy plagues; O grave, I will be thy destruction:
1۔ مریم اور اْس کی بہن مارتھا کے گاؤں بیت عنیاہؔ کا لعزر نامی ایک آدمی بیمار تھا۔
4۔ یسوع نے سْن کر کہا کہ یہ بیماری موت کی نہیں بلکہ خدا کے جلال کے لئے ہے تاکہ اْس کے وسیلہ سے خدا کے بیٹے کا جلال ظاہر ہو۔
5۔ اور یسوع مارتھا اور اْس کی بہن اور لعزر سے محبت رکھتا تھا۔
6۔ پس جب اْس نے سنا کہ وہ بیمار ہے تو جس جگہ تھا وہیں دو دن اَور رہا۔
7۔ پھر اْس کے بعد شاگردوں سے کہا آؤ پھر یہودیہ کو چلیں۔
11۔ ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے اور میں اْسے جگانے جاتا ہوں۔
17۔ پس یسوع کو آکر معلوم ہوا کہ اْسے قبر میں رکھے چار دن ہوئے۔
20۔ پس مارتھا یسوع کے آنے کی خبر سن کر اْس سے ملنے کو گئی لیکن مریم گھر میں بیٹھی رہی۔
21۔ مارتھا نے یسوع سے کہا اے خداوند! اگر تْو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔
22۔ اور اب بھی مَیں جانتی ہوں کہ جو کچھ تْو خدا سے مانگے گا وہ تجھے دے گا۔
23۔ یسوع نے اْس سے کہا تیرا بھائی جی اٹھے گا۔
24۔ مارتھا نے اْس سے کہا مَیں جانتی ہوں کہ قیامت کے دن میں آخری دن جی اٹھے گا۔
25۔ یسوع نے اْس سے کہا قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر بھی جائے تو بھی زندہ رہتا ہے۔
26۔ اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔ کیا تْو اِس پر ایمان رکھتی ہے؟
27۔ اْس نے اْس سے کہا ہاں اے خداوند مَیں ایمان لا چکی ہوں کہ خدا کا بیٹا مسیح جو دنیا میں آنے والا تھا تْو ہی ہے۔
32۔ جب مریم وہاں پہنچی جہاں یسوع تھا اور اْسے دیکھا تو اْس کے قدموں میں گر کر اْس سے کہا اے خداوند اگر تْو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔
33۔جب یسوع نے اْسے اور اْن یہودیوں کو جو اْس کے ساتھ آئے تھے روتے دیکھا تو دل میں نہایت رنجیدہ ہوا۔
34۔ تم نے اْسے کہاں رکھا ہے؟ انہوں نے کہا اے خداوند چل کر دیکھ لے۔
35۔ یسوع کے آنسو بہنے لگے۔
36۔ پس یہودیوں نے کہا دیکھو وہ اْس کو کیسا عزیز تھا۔
38۔ یسوع پھر اپنے دل میں نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر آیا۔ وہ ایک غار تھا اور اْس پر پتھر دھرا تھا۔
39۔ یسوع نے کہا پتھر کو ہٹاؤ۔ اْس مرے ہوئے شخص کی بہن مارتھا نے اْس سے کہا اے خداوند! اْس میں سے تو اب بدبو آتی ہے کیونکہ اْسے چار دن ہو گئے۔
40۔ یسوع نے اْس سے کہا میں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تْو ایمان لائے گی تو خدا کا جلال دیکھے گی؟
41۔ پس انہوں نے اْس پتھر کو ہٹا دیا۔ پھر یسوع نے آنکھیں اْٹھا کر کہا اے باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تْو نے میری سْن لی۔
42۔ اور مجھے تو معلوم تھا کہ تْو ہمیشہ میری سْنتا ہے مگر ان لوگوں کے باعث جو آس پاس کھڑے ہیں مَیں نے کہا تاکہ وہ ایمان لائیں کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا ہے۔
43۔ اور یہ کہہ کر اْس نے بلند آواز سے پکارا کہ اے لعزر نکل آ۔
44۔ جو مر گیا تھا کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نکل آیا اور اْس کا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔ یسوع نے اْن سے کہا اِسے کھول کر جانے دو۔
1 Now a certain man was sick, named Lazarus, of Bethany, the town of Mary and her sister Martha.
4 When Jesus heard that, he said, This sickness is not unto death, but for the glory of God, that the Son of God might be glorified thereby.
5 Now Jesus loved Martha, and her sister, and Lazarus.
6 When he had heard therefore that he was sick, he abode two days still in the same place where he was.
7 Then after that saith he to his disciples, Let us go into Judæa again.
11 Our friend Lazarus sleepeth; but I go, that I may awake him out of sleep.
17 Then when Jesus came, he found that he had lain in the grave four days already.
20 Then Martha, as soon as she heard that Jesus was coming, went and met him: but Mary sat still in the house.
21 Then said Martha unto Jesus, Lord, if thou hadst been here, my brother had not died.
22 But I know, that even now, whatsoever thou wilt ask of God, God will give it thee.
23 Jesus saith unto her, Thy brother shall rise again.
24 Martha saith unto him, I know that he shall rise again in the resurrection at the last day.
25 Jesus said unto her, I am the resurrection, and the life: he that believeth in me, though he were dead, yet shall he live:
26 And whosoever liveth and believeth in me shall never die. Believest thou this?
27 She saith unto him, Yea, Lord: I believe that thou art the Christ, the Son of God, which should come into the world.
32 Then when Mary was come where Jesus was, and saw him, she fell down at his feet, saying unto him, Lord, if thou hadst been here, my brother had not died.
33 When Jesus therefore saw her weeping, and the Jews also weeping which came with her, he groaned in the spirit, and was troubled,
34 And said, Where have ye laid him? They said unto him, Lord, come and see.
35 Jesus wept.
36 Then said the Jews, Behold how he loved him!
38 Jesus therefore again groaning in himself cometh to the grave. It was a cave, and a stone lay upon it.
39 Jesus said, Take ye away the stone. Martha, the sister of him that was dead, saith unto him, Lord, by this time he stinketh: for he hath been dead four days.
40 Jesus saith unto her, Said I not unto thee, that, if thou wouldest believe, thou shouldest see the glory of God?
41 Then they took away the stone from the place where the dead was laid. And Jesus lifted up his eyes, and said, Father, I thank thee that thou hast heard me.
42 And I knew that thou hearest me always: but because of the people which stand by I said it, that they may believe that thou hast sent me.
43 And when he thus had spoken, he cried with a loud voice, Lazarus, come forth.
44 And he that was dead came forth, bound hand and foot with graveclothes: and his face was bound about with a napkin. Jesus saith unto them, Loose him, and let him go.
24۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا ہے اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اْس کی ہے اور اْس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔
25۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سنیں گے وہ جیئں گے۔
26۔ کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اْسی طرح اْس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔
24 Verily, verily, I say unto you, He that heareth my word, and believeth on him that sent me, hath everlasting life, and shall not come into condemnation; but is passed from death unto life.
25 Verily, verily, I say unto you, The hour is coming, and now is, when the dead shall hear the voice of the Son of God: and they that hear shall live.
26 For as the Father hath life in himself; so hath he given to the Son to have life in himself;
1۔ اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے۔
2۔ اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اْس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا۔
1 God, who at sundry times and in divers manners spake in time past unto the fathers by the prophets,
2 Hath in these last days spoken unto us by his Son, whom he hath appointed heir of all things,
14۔ پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی ان کی طرح ان میں شریک ہوا تاکہ موت کے وسیلہ سے اس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے۔
15۔ اور جوعمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے انہیں چھڑا لے۔
14 Forasmuch then as the children are partakers of flesh and blood, he also himself likewise took part of the same; that through death he might destroy him that had the power of death, that is, the devil;
15 And deliver them who through fear of death were all their lifetime subject to bondage.
20۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا آگیا ہے اور اْس نے ہمیں سمجھ بخشی ہے تاکہ اْس کو جو حقیقی ہے جانیں اور ہم اْس میں جو حقیقی ہے یعنی اْس کے بیٹے یسوع مسیح میں ہیں۔ حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے۔
20 And we know that the Son of God is come, and hath given us an understanding, that we may know him that is true, and we are in him that is true, even in his Son Jesus Christ. This is the true God, and eternal life.
10۔۔۔۔جان دینے تک بھی وفادار رہ تو مَیں تجھے زندگی کا تاج دوں گا۔
10 …be thou faithful unto death, and I will give thee a crown of life.
کرسچن سائنس کے گرجے میں بنیادی ستون درج ذیل نظریات میں پائے جاتے ہیں: کہ زندگی خدا، یعنی اچھائی ہے نہ کہ بدی؛ کہ روح بے گناہ ہے، جو بدن میں نہیں ہوتی؛ کہ روح مادی نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے؛ کہ زندگی موت کے تابع نہیں ہے؛ کہ روحانی حقیقی انسان کی نہ پیدائش، نہ مادی زندگی اور نہ ہی موت ہے۔
سائنس اْس لافانی انسان کے جلالی امکانات کو ظاہر کرتی ہے جو ہمیشہ کے لئے فانی حواس کی طرف سے لامحدود ہوتا ہے۔مسیحا کے اندر مسیحائی کے عنصر نے اْسے راہ دکھانے والا، سچائی اور زندگی بنایا۔
ابدی سچائی اِسے تباہ کرتی ہے جو بشر کو غلطی سے سیکھا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور بطور خدا کے فرزند انسان کی حقیقت روشنی میں آتی ہے۔ ظاہر کی گئی سچائی ابدی زندگی ہے۔ بشر جب تک یہ نہیں سیکھتا کہ خدا ہی واحد زندگی ہے، وہ غلطی کے عارضی ملبے، گناہ، بیماری اور موت کے عقیدے سے کبھی نہیں باہر آ سکتا۔بدن میں زندگی اور احساس اِس فہم کے تحت فتح کئے جانے چاہئیں جو انسان کو خدا کی شبیہ بناتا ہے۔پھر روح بدن پر فتح مند ہوگی۔
The chief stones in the temple of Christian Science are to be found in the following postulates: that Life is God, good, and not evil; that Soul is sinless, not to be found in the body; that Spirit is not, and cannot be, materialized; that Life is not subject to death; that the spiritual real man has no birth, no material life, and no death.
Science reveals the glorious possibilities of immortal man, forever unlimited by the mortal senses. The Christ-element in the Messiah made him the Way-shower, Truth and Life.
The eternal Truth destroys what mortals seem to have learned from error, and man's real existence as a child of God comes to light. Truth demonstrated is eternal life. Mortal man can never rise from the temporal débris of error, belief in sin, sickness, and death, until he learns that God is the only Life. The belief that life and sensation are in the body should be overcome by the understanding of what constitutes man as the image of God. Then Spirit will have overcome the flesh.
یہ حقیقت کہ مسیح، یا سچائی نے موت پر فتح پائی یا ابھی بھی فتح پاتا ہے،”دہشت کے بادشاہ“ کو محض ایک فانی عقیدے یا غلطی کے علاوہ کچھ بھی ثابت نہیں کرتی، جسے سچائی زندگی کی روحانی شہادتوں کے ساتھ تباہ کرتی ہے؛ اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ حواس کو جو موت دکھائی دیتی ہے فانی فریب نظری کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ حقیقی انسان اور حقیقی کائنات کے لئے کوئی موت کا عمل نہیں۔
The fact that the Christ, or Truth, overcame and still overcomes death proves the "king of terrors" to be but a mortal belief, or error, which Truth destroys with the spiritual evidences of Life; and this shows that what appears to the senses to be death is but a mortal illusion, for to the real man and the real universe there is no death-process.
یہ جانتے ہوئے (جیسا کہ آپ کو جاننا چاہئے) کہ خدا کو نام نہاد مادی قانون کی فرمانبرداری کی کبھی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ ایسا قانون وجود ہی نہیں رکھتا، گناہ، بیماری اور موت کے لئے کسی بھی فرضی ضرورت پر یقین نہ کریں۔گناہ اور موت پر یقین کو خدا کی شریعت کی بدولت نیست کیا جاتا ہے، جو کہ موت کی بجائے زندگی، مخالفت کی بجائے ہم آہنگی، جسم کی بجائے روح کی شریعت ہے۔
Do not believe in any supposed necessity for sin, disease, or death, knowing (as you ought to know) that God never requires obedience to a so-called material law, for no such law exists. The belief in sin and death is destroyed by the law of God, which is the law of Life instead of death, of harmony instead of discord, of Spirit instead of the flesh.
نفسی دور کے دوران، قطعی کرسچن سائنس کو اْس تبدیلی سے پہلے حاصل نہیں کیا جا سکتا جسے موت کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ جسے ہم سمجھ نہیں پاتے اْسے ظاہر کرنے کی طاقت ہم میں نہیں ہے۔مگر انسانی خودی کو انجیلی تبلیغ ملنی چاہئے۔آج خدا ہم سے اِس کام کو قبول کرنے کا اور جلدی سے عملی طور پر مادی کو ترک کرنے اور روحانی پر عمل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جس سے بیرونی اور اصلی کا تعین ہوتا ہے۔
During the sensual ages, absolute Christian Science may not be achieved prior to the change called death, for we have not the power to demonstrate what we do not understand. But the human self must be evangelized. This task God demands us to accept lovingly to-day, and to abandon so fast as practical the material, and to work out the spiritual which determines the outward and actual.
الٰہی کو ہر مقام پر انسان پر فاتح ہونا چاہئے۔ وہ سائنس جس کی تعلیم یسوع نے دی اور اْس پر زندگی گزاری اْسے زندگی، مواد اور ذہانت سے متعلق تمام تر مادی عقائد پراور ایسے عقائد سے فروغ پانے والی کثیر غلطیوں پر فتح مند ہونا چاہئے۔
محبت کو نفرت پر ہمیشہ فتح مند ہونا چاہئے۔ اس سے قبل کہ کانٹوں کو تاج بنانے کے لئے چنا جائے اور روح کی برتری کو ظاہر کیا جائے، سچائی اور زندگی کو غلطی اور موت پر فتح کی مہر ثبت کرنی چاہئے، دعائے خیر کہتی ہے، ”ایک اچھے اور وفادار خادم، تو نے بہت اچھا کیا“۔
The divine must overcome the human at every point. The Science Jesus taught and lived must triumph over all material beliefs about life, substance, and intelligence, and the multitudinous errors growing from such beliefs.
Love must triumph over hate. Truth and Life must seal the victory over error and death, before the thorns can be laid aside for a crown, the benediction follow, "Well done, good and faithful servant," and the supremacy of Spirit be demonstrated.
جب ہستی کو سمجھ لیا جاتا ہے تو زندگی کو نہ مادی نہ محدود مانا جاتا ہے بلکہ اِسے خدا، یعنی عالمگیر اچھائی کی مانند لامحدود سمجھا جاتا ہے، اور یہ ایمان نیست ہوجائے گاکہ زندگی یا عقل کبھی محدود شکل میں، یا اچھائی بدی کی شکل میں تھی۔ پھر یہ سمجھ لیا جائے گا کہ روح کبھی مادے میں داخل نہیں ہوئی اور اِسی لئے کبھی مادے سے پروان نہیں چڑھتی۔جب روحانی ہستی میں اور خدا کے ادراک میں ترقی کی جاتی ہے، تو انسان مزید مادے کے ساتھ شراکت نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اِس میں لوٹ کے جا سکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے ایک درخت واپس اپنے بیج میں نہیں جا سکتا۔نہ ہی انسان جسمانی دکھائی دے گا بلکہ وہ ایک انفرادی شعور ہوگاجو بطور خیال نہ کہ مادہ، الٰہی روح کی خصوصیت رکھتا ہے۔
بے گناہ خوشی، زندگی کی کامل ہم آہنگی اور لافانیت، ایک بھی جسمانی تسکین یا درد کے بِنا لامحدود الٰہی خوبصورتی اور اچھائی کی ملکیت رکھتے ہوئے، اصلی اور لازوال انسان تشکیل دیتی ہے، جس کا وجود روحانی ہوتا ہے۔ وجودیت کی یہ حالت سائنسی ہے اور برقرار ہے، یعنی ایسی کاملیت جو محض اْن لوگوں کے لئے قابل فہم ہے جنہیں الٰہی سائنس میں مسیح کی حتمی سمجھ ہے۔ موت وجودیت کی اس حالت کو کبھی تیز نہیں کر سکتی کیونکہ لافانیت کے ظاہر ہونے سے قبل موت پر فتح مند ہونا چاہئے نہ کہ اْس کے سپرد ہونا چاہئے۔
When being is understood, Life will be recognized as neither material nor finite, but as infinite, — as God, universal good; and the belief that life, or mind, was ever in a finite form, or good in evil, will be destroyed. Then it will be understood that Spirit never entered matter and was therefore never raised from matter. When advanced to spiritual being and the understanding of God, man can no longer commune with matter; neither can he return to it, any more than a tree can return to its seed. Neither will man seem to be corporeal, but he will be an individual consciousness, characterized by the divine Spirit as idea, not matter.
The sinless joy, — the perfect harmony and immortality of Life, possessing unlimited divine beauty and goodness without a single bodily pleasure or pain, — constitutes the only veritable, indestructible man, whose being is spiritual. This state of existence is scientific and intact, — a perfection discernible only by those who have the final understanding of Christ in divine Science. Death can never hasten this state of existence, for death must be overcome, not submitted to, before immortality appears.
اگر انسان نے کبھی موت پر فتح مند نہیں ہونا تو کلام یہ کیوں کہتا ہے کہ، ”سب سے پچھلا دْشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے“؟ کلام کا یہ حصہ واضح کرتا ہے کہ ہم گناہ پر فتح پانے کے تناسب میں موت پر فتح حاصل کریں گے۔ زیادہ بڑی مشکل اِس لاعلمی میں پائی جاتی ہے کہ خدا کیا ہے۔خدا، زندگی، حق اور محبت انسان کو امر بناتے ہیں۔ لافانی عقل کو، جو سب پر حکمرانی کرتی ہے، جسمانی سلطنت،اِس کے ساتھ ساتھ روحانی میں بھی سب سے اعلیٰ تسلیم کیا جانا چاہئے۔
If man is never to overcome death, why do the Scriptures say, "The last enemy that shall be destroyed is death"? The tenor of the Word shows that we shall obtain the victory over death in proportion as we overcome sin. The great difficulty lies in ignorance of what God is. God, Life, Truth, and Love make man undying. Immortal Mind, governing all, must be acknowledged as supreme in the physical realm, so-called, as well as in the spiritual.
اِس کی نام نہاد خوشیوں اور درد کو قبول کرتے ہوئے، مادی زندگی کے اِس خواب کے لئے جس وقت کی ضرورت ہے تاکہ یہ شعور سے غائب ہو جائے، اْسے ”کوئی شخص نہیں جانتا۔۔۔نہ ہی بیٹا جانتا ہے سوائے باپ کے۔“اِس وقت کا دورانیہ غلطی کی شدت کے مطابق طویل یا مختصر ہوگا۔
The period required for this dream of material life, embracing its so-called pleasures and pains, to vanish from consciousness, "knoweth no man ... neither the Son, but the Father." This period will be of longer or shorter duration according to the tenacity of error.
اگر یسوع نے لعزر کو خواب، موت کے بھرم سے جگایا تھا تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسیح جھوٹے فہم کو بہتر بنا سکتا ہے۔
If Jesus awakened Lazarus from the dream, illusion, of death, this proved that the Christ could improve on a false sense.
اگر انسانی ہستی کا اصول، قانون اور اظہار کم سے کم بھی اِس سے قبل سمجھے نہیں جاتے جب موت کی اصطلاح بشر پر قابو پاتی ہے تو وہ اِس ایک واقع کی بنیاد پر وجودیت کے درجے میں روحانی طور پر زیادہ بلند نہیں ہوں گے، بلکہ وہ ایسے ہی مادی رہیں گے جیسے وہ اِس تبدیلی سے پہلے تھے، جو ابھی بھی زندگی کے روحانی فہم کی بجائے مادی کے وسیلہ، اور خود غرض اور کمتر مقاصد کے ذریعے خوشی تلاش کریں گے۔
If the Principle, rule, and demonstration of man's being are not in the least understood before what is termed death overtakes mortals, they will rise no higher spiritually in the scale of existence on account of that single experience, but will remain as material as before the transition, still seeking happiness through a material, instead of through a spiritual sense of life, and from selfish and inferior motives.
عالمگیر نجات ترقی اور امتحان پر مرکوز ہے، اور ان کے بغیر غیر ممکن الحصول ہے۔آسمان کوئی جگہ نہیں، عقل کی الٰہی حالت ہے جس میں عقل کے تمام تر ظہور ہم آہنگ اور فانی ہوتے ہیں کیونکہ وہاں گناہ نہیں ہے اور انسان وہاں خود کی راستبازی کے ساتھ نہیں ”خداوند کی سوچ“ کی ملکیت میں پایا جاتا ہے جیسا کہ کلام یہ کہتا ہے۔
Universal salvation rests on progression and probation, and is unattainable without them. Heaven is not a locality, but a divine state of Mind in which all the manifestations of Mind are harmonious and immortal, because sin is not there and man is found having no righteousness of his own, but in possession of "the mind of the Lord," as the Scripture says.
جب بشر خدا اور انسان سے متعلق درست خیالات رکھتے ہیں، تخلیق کے مقاصد کی کثرت، جو اس سے قبل نادیدنی تھی، اب دیدنی ہو جائے گی۔ جب ہمیں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ زندگی روح ہے، نہ کبھی مادے کا اور نہ کبھی مادے میں، یہ ادراک خدا میں سب کچھ اچھا پاتے ہوئے اور کسی دوسرے شعور کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے، خود کاملیت کی طرف وسیع ہو گا۔
جب ہم کرسچن سائنس میں راستہ جانتے ہیں اور انسان کی روحانی ہستی کو پہچانتے ہیں، ہم خدا کی تخلیق کو سمجھیں اور دیکھیں گے،سارا جلال زمین اور آسمان اور انسان کے لئے۔
روز مرہ کے فرائضمنجاب میری بیکر ایڈی
As mortals gain more correct views of God and man, multitudinous objects of creation, which before were invisible, will become visible. When we realize that Life is Spirit, never in nor of matter, this understanding will expand into self-completeness, finding all in God, good, and needing no other consciousness.
When we learn the way in Christian Science and recognize man's spiritual being, we shall behold and understand God's creation, — all the glories of earth and heaven and man.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████