اتوار 24 اپریل، 2022



مضمون۔ موت کے بعد امتحان

SubjectProbation After Death

سنہری متن: 1 کرنتھیوں 15 باب26 آیت

”سب سے پچھلا دْشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے۔“



Golden Text: I Corinthians 15 : 26

The last enemy that shall be destroyed is death.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: یسعیاہ 2 باب6 تا8 آیات • رومیوں 13 باب11، 12 آیات • 1کرنتھیوں 15 باب20، 25 آیات


6۔ اور رب الافواج اِس پہاڑ پر سب قوموں کے لئے فربہ چیزوں سے ایک ضیافت تیار کرے گا بلکہ ایک ضیافت تلچھٹ پر سے نتھری ہوئی مے سے۔ ہاں فربہ چیزوں سے جو پْر مغز ہوں اور مے سے جو تلچھٹ پر سے خوب نتھری ہوئی ہو۔

7۔ اور وہ اِس پہاڑ پر اِس پردہ کو جو تمام لوگوں پر گر پڑا اور اْس نقاب کو جو سب قوموں پر لٹک رہا ہے دور کرے گا۔

8۔ وہ موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا اور خداوند خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالے گا اور اپنے لوگوں کی رسوائی تمام زمین پر سے مٹا ڈالے گا کیونکہ خداوند نے یہ فرمایا ہے۔

11۔ اب وہ گھڑی آپہنچی کہ تم نیند سے جاگو کیونکہ جس وقت ہم ایمان لائے تھے اْس وقت کی نسبت اب ہماری نجات نزدیک ہے۔

12۔ رات بہت گزر گئی اور دن نکلنے والا ہے۔ پس ہم تاریکی کے کاموں کو ترک کر کے روشنی کے ہتھیار باندھ لیں۔

20۔ لیکن فی الواقع مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور جو سو گئے ہیں اْن میں پہلا پھل ہوا۔

25۔ کیونکہ جب تک کہ وہ سب دْشمنوں کو اپنے پاؤں تلے نہ لے آئے اْس کو بادشاہی کرنا ضرور ہے۔

Responsive Reading: Isaiah 25 : 6-8Romans 13 : 11, 12I Corinthians 15 : 20, 25

6.     And in this mountain shall the Lord of hosts make unto all people a feast of fat things, a feast of wines on the lees, of fat things full of marrow, of wines on the lees well refined.

7.     And he will destroy in this mountain the face of the covering cast over all people, and the vail that is spread over all nations.

8.     He will swallow up death in victory; and the Lord God will wipe away tears from off all faces; and the rebuke of his people shall he take away from off all the earth: for the Lord hath spoken it.

11.     Now it is high time to awake out of sleep: for now is our salvation nearer than when we believed.

12.     The night is far spent, the day is at hand: let us therefore cast off the works of darkness, and let us put on the armour of light.

20.     Now is Christ risen from the dead, and become the firstfruits of them that slept.

25.     For he must reign, till he hath put all enemies under his feet.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 37: 3تا6، 35تا37 آیات

3۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ ملک میں آباد رہ اور اْس کی وفاداری سے پرورش پا۔

4۔ خداوند میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا۔

5۔ اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے اور اْس پر توکل کر۔وہی سب کچھ کرے گا۔

6۔ وہ تیری راستبازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔

35۔ مَیں نے شریر کو بڑے اقتدار میں اور ایسا پھیلتے دیکھا جیسے کوئی ہرا درخت اپنی اصلی زمین میں پھیلتا ہے۔

36۔ لیکن جب کوئی اْدھر سے گزرا اور دیکھا تو وہ تھا ہی نہیں بلکہ مَیں نے اْسے ڈھونڈا پر ملا ہی نہیں۔

37۔ کامل آدمی پر نگاہ کر اور راستباز کو دیکھ کیونکہ صلح دوست آدمی کے لئے اجر ہے۔

1. Psalm 37 : 3-6, 35-37

3     Trust in the Lord, and do good; so shalt thou dwell in the land, and verily thou shalt be fed.

4     Delight thyself also in the Lord; and he shall give thee the desires of thine heart.

5     Commit thy way unto the Lord; trust also in him; and he shall bring it to pass.

6     And he shall bring forth thy righteousness as the light, and thy judgment as the noonday.

35     I have seen the wicked in great power, and spreading himself like a green bay tree.

36     Yet he passed away, and, lo, he was not: yea, I sought him, but he could not be found.

37     Mark the perfect man, and behold the upright: for the end of that man is peace.

2 . ۔ یوحنا 10 باب23 تا29 آیات

23۔ اور یسوع ہیکل کے اندر سلیمانی برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔

24۔ پس یہودیوں نے اْس کے گرد جمع ہو کر اْس سے کہا تْو کب تک ہمارے دلوں کو ڈانوانڈول رکھے گا؟ اگر تْو مسیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔

25۔ یسوع نے اْنہیں جواب دیا کہ مَیں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام مَیں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں۔

26۔ لیکن تم اِس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔

27۔ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔

28۔ اور مَیں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔

29۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دیں ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔

2. John 10 : 23-29

23     And Jesus walked in the temple in Solomon’s porch.

24     Then came the Jews round about him, and said unto him, How long dost thou make us to doubt? If thou be the Christ, tell us plainly.

25     Jesus answered them, I told you, and ye believed not: the works that I do in my Father’s name, they bear witness of me.

26     But ye believe not, because ye are not of my sheep, as I said unto you.

27     My sheep hear my voice, and I know them, and they follow me:

28     And I give unto them eternal life; and they shall never perish, neither shall any man pluck them out of my hand.

29     My Father, which gave them me, is greater than all; and no man is able to pluck them out of my Father’s hand.

3 . ۔ یوحنا 8 باب31، 32، 51 آیات

31۔ پس یسوع نے اْن یہودیوں سے کہا جنہوں نے اْس کا یقین کیا تھا کہ اگر تم میرے کلام پر عمل کرو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔

32۔ اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔

51۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔

3. John 8 : 31, 32, 51

31     Then said Jesus to those Jews which believed on him, If ye continue in my word, then are ye my disciples indeed;

32     And ye shall know the truth, and the truth shall make you free.

51     Verily, verily, I say unto you, If a man keep my saying, he shall never see death.

4 . ۔ لوقا 7 باب11تا16 آیات

11۔ تھوڑے عرصے کے بعد ایسا ہوا کہ وہ نائین نام کے ایک شہر کو گیا اور اْس کے شاگرد اور بہت سے لوگ اْس کے ہمراہ تھے۔

12۔ جب وہ شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھو ایک مردے کو باہر لئے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھااور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بہتیرے لوگ اْس کے ساتھ تھے۔

13۔ اْسے دیکھ کر خداوند کو ترس آیا اور اْس سے کہا مت رو۔

14۔ پھر اْس نے پاس آکر جنازے کو چھوا اور اٹھانے والے کھڑے ہوگئے اور اْس نے کہا اے جوان! مَیں تجھ سے کہتا ہوں اْٹھ۔

15۔ وہ مردہ اْٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اْس نے اْسے اْس کی ماں کو سونپ دیا۔

16۔ اور سب پر دہشت چھا گئی اور خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہوا ہے اور خدا نے اپنی امت پر توجہ کی ہے۔

4. Luke 7 : 11-16

11     And it came to pass the day after, that he went into a city called Nain; and many of his disciples went with him, and much people.

12     Now when he came nigh to the gate of the city, behold, there was a dead man carried out, the only son of his mother, and she was a widow: and much people of the city was with her.

13     And when the Lord saw her, he had compassion on her, and said unto her, Weep not.

14     And he came and touched the bier: and they that bare him stood still. And he said, Young man, I say unto thee, Arise.

15     And he that was dead sat up, and began to speak. And he delivered him to his mother.

16     And there came a fear on all: and they glorified God, saying, That a great prophet is risen up among us; and, That God hath visited his people.

5 . ۔ مرقس 8 باب34 تا36 آیات

34۔ پھر اْس نے بھیڑ کو اپنے شاگردوں سمیت پاس بلا کر اْن سے کہا اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔

35۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اْسے کھوئے گا اور جو کوئی میری اور انجیل کی خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اْسے بچائے گا۔

36۔ اور آدمی اگر ساری دنیا کو حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اْٹھائے تو اْسے کیا فائدہ ہوگا۔

5. Mark 8 : 34-36

34     And when he had called the people unto him with his disciples also, he said unto them, Whosoever will come after me, let him deny himself, and take up his cross, and follow me.

35     For whosoever will save his life shall lose it; but whosoever shall lose his life for my sake and the gospel’s, the same shall save it.

36     For what shall it profit a man, if he shall gain the whole world, and lose his own soul?

6 . ۔ مرقس 9 باب1 آیت

1۔ اور اْس نے اْن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں اْن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک خدا کی بادشاہی کو قدرت کے ساتھ آیا ہوا نہ دیکھ لیں موت کا مزہ ہر گز نہ چکھیں گے۔

6. Mark 9 : 1

1     And he said unto them, Verily I say unto you, That there be some of them that stand here, which shall not taste of death, till they have seen the kingdom of God come with power.

7 . ۔ رومیوں 8 باب28، 31، 35، 37تا39 آیات

28۔ اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اْن کے لئے جو خدا کے ارادہ کے موافق بلائے گئے۔

31۔ پس ہم اِن باتوں کی بابت کیا کہیں َ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟

35۔ کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال نہ ننگا پن یا خطرہ یا تلوار؟

37۔ مگر اْن سب حالتوں میں اْس کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کے غلبہ حاصل ہوتا ہے۔

38۔ کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی محبت جو ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہے اْس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی۔

39۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں۔ نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق۔

7. Romans 8 : 28, 31, 35, 37-39

28     And we know that all things work together for good to them that love God, to them who are the called according to his purpose.

31     What shall we then say to these things? If God be for us, who can be against us?

35     Who shall separate us from the love of Christ? shall tribulation, or distress, or persecution, or famine, or nakedness, or peril, or sword?

37     Nay, in all these things we are more than conquerors through him that loved us.

38     For I am persuaded, that neither death, nor life, nor angels, nor principalities, nor powers, nor things present, nor things to come,

39     Nor height, nor depth, nor any other creature, shall be able to separate us from the love of God, which is in Christ Jesus our Lord.

8 . ۔ مکاشفہ 1 باب1 آیت

1۔ یسوع مسیح کا مکاشفہ جو اْسے خدا کی طرف سے اس لئے ہوا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دکھائے جن کا جلد ہونا ضرور ہے اور اْس نے اپنے فرشتے کو بھیج کر اْس کی معرفت انہیں اپنے بندہ یوحنا پر ظاہر کیا۔

8. Revelation 1 : 1

1     The Revelation of Jesus Christ, which God gave unto him, to shew unto his servants things which must shortly come to pass; and he sent and signified it by his angel unto his servant John:

9 . ۔ مکاشفہ 20 باب1تا6 آیات

1۔ پھر مَیں نے ایک فرشتہ کو آسمان سے اْترتے دیکھا جس کے ہاتھ میں اتھاہ گھڑے کی کنجی اور ایک بڑی زنجیر تھی۔

2۔ اْس نے اْس اژدھا یعنی پرانے سانپ کو جو ابلیس اور شیطان ہے پکڑ کر ہزار برس کے لئے باندھا۔

3۔ اور اْسے اتھاہ گھڑے میں ڈال کر بند کر دیا اور اْس پر مہر کر دی تاکہ وہ ہزار برس کے پورے ہونے تک قوموں کو پھر گمراہ نہ کرے۔ اِس کے بعد ضرور ہے کہ تھوڑے عرصے کے لئے کھولا جائے۔

4۔ پھر مَیں نے تخت دیکھے اور لوگ اْن پر بیٹھ گئے اور عدالت اْن کے سپرد کی گئی اور اْن کی روحوں کو بھی دیکھا جن کے سر یسوع کی گواہی دینے اور خدا کے کلام کے سبب سے کاٹے گئے تھے اور جنہوں نے نہ اْس حیوان کی پرستش کی تھی نہ اْس کے بت کی اور نہ اْس کی چھاپ اپنے ماتھے اور ہاتھوں پر لی تھی۔ وہ زندہ ہو کر ہزار برس مسیح کے ساتھ بادشاہی کرتے رہے۔

5۔ اور جب تک یہ ہزار برس پورے نہ ہولئے باقی مردے زندہ نہ ہوئے۔ پہلی قیامت یہی ہے۔

6۔ مبارک اور مقدس وہ ہے جو پہلی قیامت میں شریک ہو۔ ایسوں پر دوسری موت کا کچھ اختیار نہیں بلکہ وہ خدا اور مسیح کے کاہن ہوں گے اور اْس کے ساتھ ہزار برس تک بادشاہی کریں گے۔

9. Revelation 20 : 1-6

1     And I saw an angel come down from heaven, having the key of the bottomless pit and a great chain in his hand.

2     And he laid hold on the dragon, that old serpent, which is the Devil, and Satan, and bound him a thousand years,

3     And cast him into the bottomless pit, and shut him up, and set a seal upon him, that he should deceive the nations no more, till the thousand years should be fulfilled: and after that he must be loosed a little season.

4     And I saw thrones, and they sat upon them, and judgment was given unto them: and I saw the souls of them that were beheaded for the witness of Jesus, and for the word of God, and which had not worshipped the beast, neither his image, neither had received his mark upon their foreheads, or in their hands; and they lived and reigned with Christ a thousand years.

5     But the rest of the dead lived not again until the thousand years were finished. This is the first resurrection.

6     Blessed and holy is he that hath part in the first resurrection: on such the second death hath no power, but they shall be priests of God and of Christ, and shall reign with him a thousand years.



سائنس اور صح


1 . ۔ 470 :21۔24، 32۔5

خدا انسان کا خالق ہے، اور انسان کا الٰہی اصول کامل ہونے سے الٰہی خیال یا عکس یعنی انسان کامل ہی رہتا ہے۔ انسان خدا کی ہستی کا ظہور ہے۔

سائنس میں خدا اور انسان، الٰہی اصول اور خیال، کے تعلقات لازوال ہیں؛ اور سائنس بھول چوک جانتی ہے نہ ہم آہنگی کی جانب واپسی، لیکن یہ الٰہی ترتیب یا روحانی قانون رکھتی ہے جس میں خدا اور جو کچھ وہ خلق کرتا ہے کامل اور ابدی ہیں، جو اس کی پوری تاریخ میں غیر متغیر رہے ہیں۔

1. 470 : 21-24, 32-5

God is the creator of man, and, the divine Principle of man remaining perfect, the divine idea or reflection, man, remains perfect. Man is the expression of God's being.

The relations of God and man, divine Principle and idea, are indestructible in Science; and Science knows no lapse from nor return to harmony, but holds the divine order or spiritual law, in which God and all that He creates are perfect and eternal, to have remained unchanged in its eternal history.

2 . ۔ 476 :4۔5

الٰہی سائنس میں، خدااور حقیقی انسان الٰہی اصول اور خیال کی مانند ناقابل غیر مْنفک ہیں۔

2. 476 : 4-5

In divine Science, God and the real man are inseparable as divine Principle and idea.

3 . ۔ 487 :3۔6، 27۔29

زندگی لازوال ہے۔ زندگی انسان کا اصل اور بنیاد ہے، موت کے وسیلہ کبھی قابلِ حصول نہیں، بلکہ اِس سے پہلے اور بعد میں جسے موت کہا جاتا ہے سچائی پر چلتے رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ ادراک کہ زندگی خدا، روح ہے، زندگی کی لازوال حقیقت پر، اْس کی قدرت اور لافانیت پر یقین رکھنے سے ہمارے ایام کو دراز کرتا ہے۔

3. 487 : 3-6, 27-29

Life is deathless. Life is the origin and ultimate of man, never attainable through death, but gained by walking in the pathway of Truth both before and after that which is called death.

The understanding that Life is God, Spirit, lengthens our days by strengthening our trust in the deathless reality of Life, its almightiness and immortality.

4 . ۔ 429 :31۔12

یسوع نے کہا (یوحنا 8 باب51 آیت)، ”اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابدتک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔“ یہ بیان روحانی زندگی تک محدود نہیں، بلکہ اس میں وجودیت کا کرشمہ بھی شامل ہے۔ یسوع نے اس کا اظہار مرنے والے کو شفا دیتے اور مردہ کو زندہ کرتے ہوئے کیا۔ فانی عقل کو غلطی سے دور ہونا چاہئے، خود کو اس کے کاموں سے الگ رکھنا چاہئے تو لافانی جوان مردی، مثالی مسیح، غائب ہو جائے گا۔ مادے کی بجائے روح پر انحصار کرتے ہوئے ایمان کو اپنی حدود کو وسیع کرنا اور اپنی بنیاد کو مضبوط کرنا چاہئے۔ جب انسان موت پر اپنے یقین کو ترک کر دیتا ہے،وہ مزید تیزی سے خدا، زندگی اور محبت کی جانب بڑھے گا۔ بیماری اور موت پر یقین، یقیناً گناہ پر یقین کی مانند، زندگی اور صحت مندی کے سچے فہم کو بند کرنے کی جانب رجوع کرتا ہے۔انسان کب سائنس میں اِس حقیقت کے لئے بیدار ہوگا؟

4. 429 : 31-12

Jesus said (John viii. 51), "If a man keep my saying, he shall never see death." That statement is not confined to spiritual life, but includes all the phenomena of existence. Jesus demonstrated this, healing the dying and raising the dead. Mortal mind must part with error, must put off itself with its deeds, and immortal manhood, the Christ ideal, will appear. Faith should enlarge its borders and strengthen its base by resting upon Spirit instead of matter. When man gives up his belief in death, he will advance more rapidly towards God, Life, and Love. Belief in sickness and death, as certainly as belief in sin, tends to shut out the true sense of Life and health. When will mankind wake to this great fact in Science?

5 . ۔ 42: 5۔8

موت پر عالمگیر ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ زندگی یا سچائی کو آشکارنہیں کر سکتا۔ موت بالاآخر ایک فانی خواب ہی پائی جائے گی، جو تاریکی میں آتی اور نور سے غائب ہو جاتی ہے۔

5. 42 : 5-8

The universal belief in death is of no advantage. It cannot make Life or Truth apparent. Death will be found at length to be a mortal dream, which comes in darkness and disappears with the light.

6 . ۔ 296 :4۔13

ترقی تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ فانی انسان کی پختگی ہے، جس کے وسیلہ لافانی کی خاطر فانی بشر کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خواہ یہاں یا اس کے بعد، تکالیف یا سائنس کو زندگی اور عقل کے حوالے سے تمام تر فریب نظری کو ختم کر دینا چاہئے، او ر مادی فہم اور خودی کو از سرے نو پیدا کرنا چاہئے۔ انسانیت کو اْس کے اعمال کے ساتھ منسوخ کر دینا چاہئے۔ کوئی بھی نفس پرستی یا گناہ آلود چیز لافانی نہیں ہے۔یہ مادے کی موت نہیں بلکہ جھوٹے مادی فہم اور گناہ کی موت ہی ہے جسے انسان اور زندگی ہم آہنگ، حقیقی اور ابدی ظاہر کرتے ہیں۔

6. 296 : 4-13

Progress is born of experience. It is the ripening of mortal man, through which the mortal is dropped for the immortal. Either here or hereafter, suffering or Science must destroy all illusions regarding life and mind, and regenerate material sense and self. The old man with his deeds must be put off. Nothing sensual or sinful is immortal. The death of a false material sense and of sin, not the death of organic matter, is what reveals man and Life, harmonious, real, and eternal.

7 . ۔ 409 :27۔3

ہمیں یہ کہنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ زندگی اب مادے پر منحصر ہے مگر موت کے بعد یہ اِس پر انحصار نہیں کرے گی۔یہاں ہم زندگی کی سائنس سے لاعلمی میں اپنی زندگی نہیں گزار سکتے، اور قبر کے بعد اِس لاعلمی کے لئے اجر کی توقع نہیں کرسکتے۔لاعملی کے اجر کے طور پر موت ہمیں ہم آہنگ اور لافانی نہیں بنائے گی۔اگر یہاں ہم کرسچن سائنس پر توجہ نہیں دیتے جو کہ روحانی اور ابدی ہے،تو ہم اِس کے بعد روحانی زندگی کے لئے بھی تیار نہیں ہوں گے۔

7. 409 : 27-3

We have no right to say that life depends on matter now, but will not depend on it after death. We cannot spend our days here in ignorance of the Science of Life, and expect to find beyond the grave a reward for this ignorance. Death will not make us harmonious and immortal as a recompense for ignorance. If here we give no heed to Christian Science, which is spiritual and eternal, we shall not be ready for spiritual Life hereafter.

8 . ۔ 290 :23۔27

گناہ اور غلطی جو ہمیں موت کے دہانے پر لا کھڑا کرتے ہیں اْس لمحے رْکتے نہیں، بلکہ اِن غلطیوں کی موت تک مستقل رہتے ہیں۔مکمل طور پر روحانی بننے کے لئے انسان کو بے عیب ہونا چاہئے، اور یہ وہ صرف تبھی ہوسکتا ہے جب وہ کاملیت تک پہنچتا ہے۔

8. 290 : 23-27

The sin and error which possess us at the instant of death do not cease at that moment, but endure until the death of these errors. To be wholly spiritual, man must be sinless, and he becomes thus only when he reaches perfection.

9 . ۔ 291 :12۔18

عالمگیر نجات ترقی اور امتحان پر مرکوز ہے، اور ان کے بغیر غیر ممکن الحصول ہے۔آسمان کوئی جگہ نہیں، عقل کی الٰہی حالت ہے جس میں عقل کے تمام تر ظہور ہم آہنگ اور فانی ہوتے ہیں کیونکہ وہاں گناہ نہیں ہے اور انسان وہاں خود کی راستبازی کے ساتھ نہیں ”خداوند کی سوچ“ کی ملکیت میں پایا جاتا ہے جیسا کہ کلام یہ کہتا ہے۔

9. 291 : 12-18

Universal salvation rests on progression and probation, and is unattainable without them. Heaven is not a locality, but a divine state of Mind in which all the manifestations of Mind are harmonious and immortal, because sin is not there and man is found having no righteousness of his own, but in possession of "the mind of the Lord," as the Scripture says.

10 . ۔ 76 :32۔18

روح کی اور لامحدودیت کی پہچان یہاں یا اِس کے بعد اچانک رونما نہیں ہوتی۔ مقدس پولی کارپ نے کہا: ”مَیں نیکی سے یکدم بدی کی طرف مائل نہیں ہو سکتا۔“ نہ ہی دیگر بشر ایک ہی چھلانگ میں غلطی سے سچائی کی طرف تبدیلی کومکمل کر تے ہیں۔

وجودیت جسمانی فہم کا عقیدہ ہونا جاری رکھتی ہے جب تک کہ ہونے کی سائنس نہیں پہنچتی۔غلطی اپنی خود کار تباہی لاتی ہے یہاں بھی اور اِس کے بعد بھی، کیونکہ مادی عقل خود کی جسمانی شرائط پیدا کرتی ہے۔موت وجودیت کی اگلی سطح پر رونما ہوگی جیسے اِس پر ہے، جب تک کہ زندگی کا روحانی فہم نہیں ملتا۔ پھر یہ ظاہر ہوگا، اور تب تک نہیں ہوگا، کہ ”دوسری موت کا کچھ اختیار نہیں۔“

اِس کی نام نہاد خوشیوں اور درد کو قبول کرتے ہوئے، مادی زندگی کے اِس خواب کے لئے جس وقت کی ضرورت ہے تاکہ یہ شعور سے غائب ہو جائے، اْسے ”کوئی شخص نہیں جانتا۔۔۔نہ ہی بیٹا جانتا ہے سوائے باپ کے۔“اِس وقت کا دورانیہ غلطی کی شدت کے مطابق طویل یا مختصر ہوگا۔

10. 76 : 32-18

The recognition of Spirit and of infinity comes not suddenly here or hereafter. The pious Polycarp said: "I cannot turn at once from good to evil." Neither do other mortals accomplish the change from error to truth at a single bound.

Existence continues to be a belief of corporeal sense until the Science of being is reached. Error brings its own self-destruction both here and hereafter, for mortal mind creates its own physical conditions. Death will occur on the next plane of existence as on this, until the spiritual understanding of Life is reached. Then, and not until then, will it be demonstrated that "the second death hath no power."

The period required for this dream of material life, embracing its so-called pleasures and pains, to vanish from consciousness, "knoweth no man ... neither the Son, but the Father." This period will be of longer or shorter duration according to the tenacity of error.

11 . ۔ 427 :17۔21، 29۔2

اگر انسان نے کبھی موت پر فتح مند نہیں ہونا تو کلام یہ کیوں کہتا ہے کہ، ”سب سے پچھلا دْشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے“؟ کلام کا یہ حصہ واضح کرتا ہے کہ ہم گناہ پر فتح پانے کے تناسب میں موت پر فتح حاصل کریں گے۔

یہاں اور آخرت میں موت کے خواب کی قیادت عقل کرتی ہے۔اپنے خود کے مادی ظہور سے سوچ ”میں مردہ ہوں“ جنم لے گی تاکہ سچائی کے اس گونج دار لفظ کو پکڑ سکے، ”کوئی موت، بے عملی، بیماری والا عمل، رد عمل اور نہ ہی شدید رد عمل ہے۔“

11. 427 : 17-21, 29-2

If man is never to overcome death, why do the Scriptures say, "The last enemy that shall be destroyed is death"? The tenor of the Word shows that we shall obtain the victory over death in proportion as we overcome sin.

The dream of death must be mastered by Mind here or hereafter. Thought will waken from its own material declaration, "I am dead," to catch this trumpet-word of Truth, "There is no death, no inaction, diseased action, overaction, nor reaction."

12 . ۔ 428 :6۔14

اس مقتدر لمحے میں انسان کی ترجیح اپنے مالک کے ان الفاظ کو ثابت کرنا ہے: ”اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔“ جھوٹے بھروسوں اور مادی ثبوتوں کے خیالات کو ختم کرنے کے لئے، تاکہ شخصی روحانی حقائق سامنے آئیں، یہ ایک بہت بڑا حصول ہے جس کی بدولت ہم غلط کو تلف کریں گے اور سچائی کو جگہ فراہم کریں گے۔ یوں ہم سچائی کی وہ ہیکل یا بدن تعمیر کرتے ہیں، ”جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے“۔

12. 428 : 6-14

Man's privilege at this supreme moment is to prove the words of our Master: "If a man keep my saying, he shall never see death." To divest thought of false trusts and material evidences in order that the spiritual facts of being may appear, — this is the great attainment by means of which we shall sweep away the false and give place to the true. Thus we may establish in truth the temple, or body, "whose builder and maker is God."

13 . ۔ 492 :7۔12

ہستی، پاکیزگی، ہم آہنگی، لافانیت ہے۔یہ پہلے سے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ اس کا علم، حتیٰ کہ معمولی درجے میں بھی، انسانوں کے جسمانی اور اخلاقی معیار کو اونچا کرے گا، عمر کی درازی کو بڑھائے گا، کردار کو پاک اور بلند کرے گا۔ پس ترقی ساری غلطی کو تباہ کرے گی اور لافانیت کو روشنی میں لائے گی۔

13. 492 : 7-12

Being is holiness, harmony, immortality. It is already proved that a knowledge of this, even in small degree, will uplift the physical and moral standard of mortals, will increase longevity, will purify and elevate character. Thus progress will finally destroy all error, and bring immortality to light.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████