اتوار 24 جولائی، 2022
”وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔“
“The hour cometh, and now is, when the true worshippers shall worship the Father in spirit and in truth: for the Father seeketh such to worship him.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
5۔تم اپنے آپ کو آزماؤ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔ اپنے آپ کو جانچو۔
8۔ کیونکہ ہم حق کے برخلاف کچھ نہیں کر سکتے مگر صرف حق کے لئے کر سکتے ہیں۔
1۔ پس جب ہم پر ایسا رحم ہوا کہ ہمیں یہ خدمت ملی تو ہم ہمت نہیں ہارتے۔
2۔ بلکہ ہم نے شرم کی پوشیدہ باتوں کو ترک کر دیا اور مکاری کی چال نہیں چلتے۔ نہ خدا کے کلام میں آمیزش کرتے ہیں بلکہ حق ظاہر کر کے خدا کے روبرو ہر ایک آدمی کے دل میں اپنی نیکی بٹھاتے ہیں۔
6۔اِس لئے کہ خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکا تاکہ خداکے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو۔
5. Examine yourselves, whether ye be in the faith; prove your own selves.
8. For we can do nothing against the truth, but for the truth.
1. Therefore seeing we have this ministry, as we have received mercy, we faint not;
2. But have renounced the hidden things of dishonesty, not walking in craftiness, nor handling the word of God deceitfully; but by manifestation of the truth commending ourselves to every man’s conscience in the sight of God.
6. For God, who commanded the light to shine out of darkness, hath shined in our hearts, to give the light of the knowledge of the glory of God in the face of Jesus Christ.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
5۔ مجھے اپنی سچائی پر چلا اور تعلیم دے۔ کیونکہ تْو میرا نجات دینے والا خدا ہے۔ مَیں دن بھر تیرا ہی منتظر رہتا ہوں۔
5 Lead me in thy truth, and teach me: for thou art the God of my salvation; on thee do I wait all the day.
1۔ دارا کے دوسرے برس کے آٹھویں مہینے میں خداوند کا کلام زکریاہ نبی بن برکیاہ بن عدو پر نازل ہوا۔
2۔ کہ خداوند تمہارے باپ دادا سے سخت ناراض رہا۔
3۔ اِس لئے تْو اْن سے کہہ کہ تم میری طرف رجوح ہو رب الافواج کافرمان ہے تو مَیں تمہاری طرف رجوح ہوں گا رب الا فواج فرماتا ہے۔
4۔ تم اپنے باپ دادا کی مانند بنو جن سے اگلے نبیوں نے با آواز بلند کہا رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ تم اپنی بری روش اور بد اعمالی سے باز آؤ پر اْنہوں نے نہ سنا اور مجھے نہ مانا خداوند فرماتا ہے۔
5۔ تمہارے باپ دادا کہاں ہیں؟ کیا انبیاہمیشہ زندہ رہتے ہیں؟
6۔ لیکن میرا کلام اور میرے آئین جو مَیں نے اپنے خدمتگزار نبیوں کو فرمائے تھے کیا وہ تمہارے باپ دادا پر پورے نہیں ہوئے؟ چنانچہ اْنہوں نے رجوح لا کر کہا رب الافواج نے اپنے ارادہ کے مطابق ہماری عداوت اور ہمارے اعمال کا بدلہ دیا ہے۔
1 In the eighth month, in the second year of Darius, came the word of the Lord unto Zechariah, the son of Berechiah, the son of Iddo the prophet, saying,
2 The Lord hath been sore displeased with your fathers.
3 Therefore say thou unto them, Thus saith the Lord of hosts; Turn ye unto me, saith the Lord of hosts, and I will turn unto you, saith the Lord of hosts.
4 Be ye not as your fathers, unto whom the former prophets have cried, saying, Thus saith the Lord of hosts; Turn ye now from your evil ways, and from your evil doings: but they did not hear, nor hearken unto me, saith the Lord.
5 Your fathers, where are they? and the prophets, do they live for ever?
6 But my words and my statutes, which I commanded my servants the prophets, did they not take hold of your fathers? and they returned and said, Like as the Lord of hosts thought to do unto us, according to our ways, and according to our doings, so hath he dealt with us.
10۔ اے دْختر صیون تْو گا اور خوشی کر کیونکہ دیکھ مَیں آکر تیرے اندر سکونت کروں گا خداوند فرماتا ہے۔
11۔ اور اْس وقت بہت سی قومیں خداوند کے ساتھ میل کریں گی اور میری امت ہوں گی اور مَیں تیرے اندر سکونت کروں گا۔ تب تْو جانے گی کہ رب الا فواج نے مجھے تیرے پاس بھیجا ہے۔
10 Sing and rejoice, O daughter of Zion: for, lo, I come, and I will dwell in the midst of thee, saith the Lord.
11 And many nations shall be joined to the Lord in that day, and shall be my people: and I will dwell in the midst of thee, and thou shalt know that the Lord of hosts hath sent me unto thee.
6۔ نہ تو زور سے اور نہ توانائی سے بلکہ میری روح سے رب الا فواج فرماتا ہے۔
6 Not by might, nor by power, but by my spirit, saith the Lord of hosts.
8۔ پھر خداوند کا کلام زکریاہ پر نازل ہوا۔
9۔ کہ رب الافواج نے یوں فرمایا تھاکہ راستی سے عدالت کرو اور ہر شخص اپنے بھائی پر کرم اور رحم کیا کرے۔
10۔ اور بیوہ اور یتیم اور مسافر اور مسکین پر ظلم نہ کرو اور تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے خلاف برا منصوبہ نہ باندھے۔
11۔ لیکن وہ شْنوا نہ ہوئے بلکہ اْنہوں نے گردن کشی کی اور اپنے کانوں کو بند کیا تاکہ نہ سنیں۔
12۔ اور اْنہوں نے اپنے دلوں کو الماس کی مانند سخت کیا۔
13۔ اسی لئے
14۔ مَیں سب قوموں میں جن سے وہ ناواقف ہیں پراگندہ کروں گا۔ یوں اْن کے بعد ملک ویران ہوا یہاں تک کسی نے اْس میں آمدورفت نہ کی کیونکہ اْنہوں نے اْس دلکش ملک کو ویران کر دیا۔
8 And the word of the Lord came unto Zechariah, saying,
9 Thus speaketh the Lord of hosts, saying, Execute true judgment, and shew mercy and compassions every man to his brother:
10 And oppress not the widow, nor the fatherless, the stranger, nor the poor; and let none of you imagine evil against his brother in your heart.
11 But they refused to hearken, and pulled away the shoulder, and stopped their ears, that they should not hear.
12 Yea, they made their hearts as an adamant stone,
13 Therefore
14 I scattered them with a whirlwind among all the nations whom they knew not. Thus the land was desolate after them, that no man passed through nor returned: for they laid the pleasant land desolate.
3۔ خداوند یوں فرماتا ہے کہ مَیں صیون میں واپس آیا ہوں اور یروشلیم میں سکونت کروں گا اور یروشلیم کا نام شہرِ صدق ہوگا اور رب الا فواج کا پہاڑ کوہ مقدس کہلائے گا۔
7۔ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ دیکھ مَیں اپنے لوگوں کو مشرقی اور مغربی ممالک سے چھڑا لوں گا۔
8۔ اور مَیں اْن کو واپس لاؤں گا اور وہ یروشلیم میں سکونت کریں گے اور وہ میرے لوگ ہوں گے اور مَیں راستی اور صداقت سے اْن کا خدا ہوں گا۔
16۔ تم اِن باتوں پر عمل کرو۔ تم سب اپنے پڑوسیوں سے سچ بولو اور اپنے پھاٹکوں میں راستی سے عدالت کرو۔
17۔ اور تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے خلاف دل میں برا منصوبہ نہ باندھے اور جھوٹی قسم کو عزیز نہ رکھے کیونکہ مَیں اِن سب باتوں سے نفرت رکھتا ہوں خداوند فرماتا ہے۔
19۔ ۔۔۔اِس لئے تم سچائی اور سلامتی کو عزیز رکھو۔
20۔ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ پھر قومیں اور بڑے بڑے شہروں کے باشندے آئیں گے۔
21۔ اور ایک شہر کے باشندے دوسرے شہر میں جا کر کہیں گے چلو ہم جلد خداوند سے درخواست کریں اور رب الا فواج کے طالب ہوں۔ مَیں بھی چلتا ہوں۔
23۔ ہم تمہارے ساتھ جائیں گے کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔
3 Thus saith the Lord; I am returned unto Zion, and will dwell in the midst of Jerusalem: and Jerusalem shall be called a city of truth; and the mountain of the Lord of hosts the holy mountain.
7 Thus saith the Lord of hosts; Behold, I will save my people from the east country, and from the west country;
8 And I will bring them, and they shall dwell in the midst of Jerusalem: and they shall be my people, and I will be their God, in truth and in righteousness.
16 These are the things that ye shall do; Speak ye every man the truth to his neighbour; execute the judgment of truth and peace in your gates:
17 And let none of you imagine evil in your hearts against his neighbour; and love no false oath: for all these are things that I hate, saith the Lord.
19 …therefore love the truth and peace.
20 Thus saith the Lord of hosts; It shall yet come to pass, that there shall come people, and the inhabitants of many cities:
21 And the inhabitants of one city shall go to another, saying, Let us go speedily to pray before the Lord, and to seek the Lord of hosts: I will go also.
23 We will go with you: for we have heard that God is with you.
14۔ پھر یسوع روح کی قوت سے بھرا ہوا گلیل سے لوٹا اور سارے گردو نواح میں اْس کی شہرت پھیل گئی۔
33۔ اور عبادتخانہ میں ایک آدمی تھا جس میں ناپاک دیو کی روح تھی وہ بڑی آواز سے چلااْٹھا کہ
34۔ اے یسوع ناصری ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تْو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تجھے جانتا ہوں کہ تْو کون ہے۔ خدا کا قدوس ہے۔
35۔ یسوع نے اْسے جھڑک کر کہا چْپ رہ اور اْس میں سے نکل جا۔ اِس پر بد روح اْسے بیچ میں پٹک کر بغیر ضرر پہنچائے اْس میں سے نکل گئی۔
36۔ اور سب حیران ہو کر آپس میں کہنے لگے یہ کیسا کلام ہے؟ کیونکہ وہ اختیار اور قدرت سے ناپاک روحوں کو حکم دیتا ہے اور وہ نکل جاتی ہیں۔
37۔ اور گردو نواح میں ہر جگہ اْس کی دھوم مچ گئی۔
38۔ پھر وہ عبادتخانہ سے اٹھ کر شمعون کے گھر میں داخل ہوا اور شمعون کی ساس کو بڑی تپ چڑھی ہوئی تھی اور اْنہوں نے اْس کے لئے اْس سے عرض کی۔
39۔وہ کھڑا ہو کر اْس کی طرف جھکا اور تپ کو جھڑکا تو وہ اْتر گئی اور وہ اْسی دم اْٹھ کر اْن کی خدمت کرنے لگی۔
14 And Jesus returned in the power of the Spirit into Galilee:
33 And in the synagogue there was a man, which had a spirit of an unclean devil, and cried out with a loud voice,
34 Saying, Let us alone; what have we to do with thee, thou Jesus of Nazareth? art thou come to destroy us? I know thee who thou art; the Holy One of God.
35 And Jesus rebuked him, saying, Hold thy peace, and come out of him. And when the devil had thrown him in the midst, he came out of him, and hurt him not.
36 And they were all amazed, and spake among themselves, saying, What a word is this! for with authority and power he commandeth the unclean spirits, and they come out.
37 And the fame of him went out into every place of the country round about.
38 And he arose out of the synagogue, and entered into Simon’s house. And Simon’s wife’s mother was taken with a great fever; and they besought him for her.
39 And he stood over her, and rebuked the fever; and it left her: and immediately she arose and ministered unto them.
1۔ پولوس جو خداوند کی مرضی سے مسیح یسوع کا رسول ہے۔
1 Paul, an apostle of Jesus Christ by the will of God,
1۔پس مَیں جو خداوند میں قیدی ہوں تم سے التماس کرتا ہوں کہ جس بلاوے سے تم بلائے گئے تھے اْس کے لائق چال چلو۔
13۔ جب تک ہم سب کے سب خدا کے بیٹے کے ایمان اور اْس کی پہچان میں ایک نہ ہو جائیں اور کامل انسان نہ بنیں یعنی مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک نہ پہنچ جائیں۔
14۔ تاکہ ہم آگے کو بچے نہ رہیں اور آدمیوں کی بازیگری اورمکاری کے سبب اْن کے گمراہ کرنے والے منصوبوں کی طرف ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اچھلتے بہتے نہ پھریں۔
15۔ بلکہ محبت کے ساتھ سچائی پر قائم رہ کر اور اْس کے ساتھ جو سر ہے یعنی مسیح کے ساتھ پیوستہ ہوکر ہر طرح سے بڑھتے جائیں۔
23۔ اور اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے بنتے جاؤ۔
24۔ اور نئی انسانیت کو پہنو جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔
25۔ پس جھوٹ بولنا چھوڑ کر ہر ایک شخص اپنے پڑوسی سے سچ بولے کیونکہ ہم آپس میں ایک دوسرے کا عضو ہیں۔
1 I therefore, the prisoner of the Lord, beseech you that ye walk worthy of the vocation wherewith ye are called,
13 Till we all come in the unity of the faith, and of the knowledge of the Son of God, unto a perfect man, unto the measure of the stature of the fulness of Christ:
14 That we henceforth be no more children, tossed to and fro, and carried about with every wind of doctrine, by the sleight of men, and cunning craftiness, whereby they lie in wait to deceive;
15 But speaking the truth in love, may grow up into him in all things, which is the head, even Christ:
23 And be renewed in the spirit of your mind;
24 And that ye put on the new man, which after God is created in righteousness and true holiness.
25 Wherefore putting away lying, speak every man truth with his neighbour: for we are members one of another.
بھلائی سچائی کا اظہار حاصل کرتی ہے۔
Goodness attains the demonstration of Truth.
جب دل الٰہی سچائی اور محبت سے کوسوں دور ہو تو ہم بنجر زندگیوں کی ناشکری کو چھْپا نہیں سکتے۔
صبر، حلیمی، محبت اور نیک کاموں میں ظاہر ہونے والے فضل میں ترقی کرنے کی پْر جوش خواہش کے لئے ہمیں سب سے زیادہ دعا کرنے کی ضرورت ہے۔
While the heart is far from divine Truth and Love, we cannot conceal the ingratitude of barren lives.
What we most need is the prayer of fervent desire for growth in grace, expressed in patience, meekness, love, and good deeds.
حق کی پاک سلطنت میں مضبوط درآمد کی آوازیں آتی ہیں، مگر ہم اْن پر توجہ نہیں دیتے۔یہ صرف تبھی ہوتا جب ہماری زندگیوں میں سے فہم کی تکالیف اور خوشیاں ختم ہوجاتی ہیں کہ ہم غلطی کی تدفین اور روحانی زندگی کے جی اٹھنے کی ناقابل اعتراض علامات کو سمجھتے ہیں۔
In the sacred sanctuary of Truth are voices of solemn import, but we heed them not. It is only when the so-called pleasures and pains of sense pass away in our lives, that we find unquestionable signs of the burial of error and the resurrection to spiritual life.
نبی۔ ایک روحانی نظر رکھنے والا؛ روحانی سچائی کے باضمیر حقائق کے سامنے مادی حواس کی غیر موجودگی۔
Prophet. A spiritual seer; disappearance of material sense before the conscious facts of spiritual Truth.
روح سے معمور بزرگوں نے سچائی کی آواز سنی، اور انہوں نے خدا کے ساتھ ویسے ہی بات کی جیسے انسان انسانوں کے ساتھ بات کرتا ہے۔
The Soul-inspired patriarchs heard the voice of Truth, and talked with God as consciously as man talks with man.
اس سے قبل کہ انسانی علم چیزوں سے متعلق جھوٹے فہم میں گہرا غرق ہوتا، یعنی اْن مادی اصلیتوں میں جو واحد عقل اور ہستی کے حقیقی وسیلہ کو خارج کردیتی ہیں، یہ ممکن ہے کہ سچائی سے نکلنے والے تاثرات آواز کی مانند واضح ہوتے اور یہ کہ وہ تاریخی انبیاء پربطور آواز نازل ہوئے۔ اگر سننے کا وسیلہ مکمل طور پر روحانی ہے تو یہ عام اور لازوال ہے۔
Before human knowledge dipped to its depths into a false sense of things, — into belief in material origins which discard the one Mind and true source of being, — it is possible that the impressions from Truth were as distinct as sound, and that they came as sound to the primitive prophets. If the medium of hearing is wholly spiritual, it is normal and indestructible.
مسیحی شہدا کرسچن سائنس کے نبی تھے۔الٰہی سچائی کی ترقی دینے والی اور مخصوص شدہ طاقت کے وسیلہ انہوں نے جسمانی حواس پر فتح پائی، ایسی فتح جسے صرف سائنس ہی واضح کرسکتی ہے۔
The Christian martyrs were prophets of Christian Science. Through the uplifting and consecrating power of divine Truth, they obtained a victory over the corporeal senses, a victory which Science alone can explain.
آپ جانتے ہیں کب پہلی سچائی اِس کے پیروکاروں کی وفاداری اور قلت کے باعث فتح مند ہوتی ہے۔پس یہ تب ہے جب وقت کا احتجاج آزادی کاجھنڈا اْٹھائے آگے بڑھتا ہے۔دنیاوی قوتیں لڑیں گی، اور اپنے پاسبانوں کو حکم دیں گی کہ اِس سچائی کو دروازے میں سے نہ گزرنے دیا جائے جب تک کہ یہ اْن کے نظاموں کی تائید نہ کرے؛ مگر سائنس، چھْرے کی نوک کی پرواہ کئے بغیر، آگے بڑھتی ہے۔یہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ہنگامہ ہوتا ہے، لیکن سچائی کے معیار کایہ ایک جلسہ ہوتا ہے۔
You may know when first Truth leads by the fewness and faithfulness of its followers. Thus it is that the march of time bears onward freedom's banner. The powers of this world will fight, and will command their sentinels not to let truth pass the guard until it subscribes to their systems; but Science, heeding not the pointed bayonet, marches on. There is always some tumult, but there is a rallying to truth's standard.
تکلیفوں کے وقت سچائی سے ہٹ جانا ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے حق کو کبھی نہیں سمجھا۔۔۔۔
غیر ترقی یافتہ مواقع ہمیں ملامت کریں گے جب ہم اْس تجربے کے فوائد کا دعویٰ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو تجربہ ہم نے خود کبھی نہیں کیا، وہ فصل کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہم نے کبھی نہیں بوئی اور غیر قانونی طور پر دوسروں کی محنت پر حق جتانے کی خواہش کرتے ہیں۔ سچائی اکثر غیر مطلوب ہی رہتی ہے جب تک کہ ہم انسانی رنج کا علاج تلاش کرتے ہیں کیونکہ ہم غلطی کی بدولت شدید تکلیف اٹھاتے ہیں۔
To fall away from Truth in times of persecution, shows that we never understood Truth. …
Unimproved opportunities will rebuke us when we attempt to claim the benefits of an experience we have not made our own, try to reap the harvest we have not sown, and wish to enter unlawfully into the labors of others. Truth often remains unsought, until we seek this remedy for human woe because we suffer severely from error.
یہ فرض کرنا کہ راستبازی کی خاطر تکلیف سہنا ماضی سے تعلق رکھتا ہے، اور یہ کہ آج مسیحیت پوری دنیا کے ساتھ امن میں ہے کیونکہ تمام شبہ جات اور معاشرے اِس کی تعظیم کرتے ہیں، یہ مذہبت کی عین فطرت کی غلطی ہوگی۔غلطی خود کو دوہراتی ہے۔ اْس نبی، رسول اور شاگرد نے”دنیا جس کے لائق نہ تھی“، جس تکلیف کا سامنا کیا وہ،کسی نہ کسی صورت میں، سچائی کے ہر سرخیل کی منتظر ہے۔
To suppose that persecution for righteousness' sake belongs to the past, and that Christianity to-day is at peace with the world because it is honored by sects and societies, is to mistake the very nature of religion. Error repeats itself. The trials encountered by prophet, disciple, and apostle, "of whom the world was not worthy," await, in some form, every pioneer of truth.
اخلاقی کیمیائی مادے کے استعمال میں، جب بدی، فریب نظری کی علامات کو بھڑکا دیا جاتا ہے، ہم اپنی لاعلمی میں یہ سوچ سکتے ہیں کہ خدا نے بدی کو جنم دیا ہے؛ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ خدا کی شریعت نام نہاد گناہ اور اِس کے اثرات کو عیاں کرتی ہے، محض اِس لئے کہ سچائی بدی کے تمام تر حواس کو اور گناہ کرنے کے لئے اِس کی طاقت کو فنا کر سکے۔
In moral chemicalization, when the symptoms of evil, illusion, are aggravated, we may think in our ignorance that the Lord hath wrought an evil; but we ought to know that God's law uncovers so-called sin and its effects, only that Truth may annihilate all sense of evil and all power to sin.
سچائی کے انفرادی نمونے کے طور پر، یسوع مسیح ربونی غلطی اور تمام گناہ، بیماری اور موت کو رد کرنے آیا، تاکہ سچائی اور زندگی کی راہ ہموار کرے۔روح کے پھلوں اور مادی فہم، سچائی اور غلطی کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے، یہ نمونہ یسوع کی پوری زمینی زندگی کے دوران ظاہر ہوتا رہا۔
As the individual ideal of Truth, Christ Jesus came to rebuke rabbinical error and all sin, sickness, and death, — to point out the way of Truth and Life. This ideal was demonstrated throughout the whole earthly career of Jesus, showing the difference between the offspring of Soul and of material sense, of Truth and of error.
اگر خدا بیماری کا موجب بنتا تو بیماری اچھی ہوتی اور اس کی مخالف صحت، بْری ہوتی، کیونکہ وہ سب کچھ جو وہ خلق کرتا ہے اچھا ہے اور وہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ اگر خدا کی شریعت سے بغاوت بیماری پیدا کرتی ہے، تو بیمار ہونا ٹھیک ہے، اور ہم چاہ کر بھی حکمت کے احکامات کو رد نہیں کر سکتے اور کر سکنے کے باوجود ہمیں یہ نہیں کرنا چاہئے۔ یہ فانی عقل کے یقین کی بغاوت ہی ہے جو بیماری کے یقین کی وجہ بنتی ہے،نہ کہ مادے کے قانون اور نہ ہی الٰہی عقل کے خلاف بغاوت ہے۔ علاج سچائی ہے نہ کہ مادا، یعنی یہ سچائی کہ بیماری غیر حقیقی ہے۔
اگر بیماری حقیقی ہے،تو یہ لافانیت سے تعلق رکھتی ہے؛ اگر سچی ہے تو یہ سچائی سے تعلق رکھتی ہے۔ کیا آپ منشیات کے ساتھ یا بِنا سچائی کے معیار یا حالت کو نیست کرنے کی کوشش کر یں گے؟لیکن اگر بیماری یا گناہ فریب نظری ہیں، تو اس فانی خواب یا دھوکے سے بیدار ہونا ہمارے لئے صحت، پاکیزگی اور لافانیت پیدا کرے گا۔یہ بیداری مسیح کی ہمیشہ کے لئے آمد ہے، یعنی سچائی کا ترقی یافتہ ظہور، جو غلطی کو دور کرتا اور بیمار کو شفا دیتا ہے۔
If God causes man to be sick, sickness must be good, and its opposite, health, must be evil, for all that He makes is good and will stand forever. If the transgression of God's law produces sickness, it is right to be sick; and we cannot if we would, and should not if we could, annul the decrees of wisdom. It is the transgression of a belief of mortal mind, not of a law of matter nor of divine Mind, which causes the belief of sickness. The remedy is Truth, not matter, — the truth that disease is unreal.
If sickness is real, it belongs to immortality; if true, it is a part of Truth. Would you attempt with drugs, or without, to destroy a quality or condition of Truth? But if sickness and sin are illusions, the awakening from this mortal dream, or illusion, will bring us into health, holiness, and immortality. This awakening is the forever coming of Christ, the advanced appearing of Truth, which casts out error and heals the sick.
صحت مادے کی حالت نہیں بلکہ عقل کی حالت ہے؛اور نہ ہی مادی حواس صحت کے موضوع پر قابل یقین گواہی پیش کر سکتے ہیں۔ شفائیہ عقل کی سائنس کسی کمزور کے لئے یہ ہونا ناممکن بیان کرتی ہے جبکہ عقل کے لئے اِس کی حقیقتاً تصدیق کرنا یا انسان کی اصلی حالت کو ظاہر کرنا ممکن پیش کرتی ہے۔اس لئے سائنس کا الٰہی اصول جسمانی حواس کی گواہی کو تبدیل کرتے ہوئے انسان کو بطور سچائی میں ہم آہنگی کے ساتھ موجود ہوتا ظاہر کرتا ہے، جو صحت کی واحد بنیاد ہے؛ اور یوں سائنس تمام بیماری سے انکار کرتی، بیمار کو شفا دیتی، جھوٹی گواہی کو برباد کرتی اور مادی منطق کی تردید کرتی ہے۔
Health is not a condition of matter, but of Mind; nor can the material senses bear reliable testimony on the subject of health. The Science of Mind-healing shows it to be impossible for aught but Mind to testify truly or to exhibit the real status of man. Therefore the divine Principle of Science, reversing the testimony of the physical senses, reveals man as harmoniously existent in Truth, which is the only basis of health; and thus Science denies all disease, heals the sick, overthrows false evidence, and refutes materialistic logic.
آسمان پر جانے کا واحد راستہ ہم آہنگی ہے اور مسیح الٰہی سائنس میں ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا مطلب خدا، اچھائی اور اْس کے عکس کے علاوہ کسی اور حقیقت کو نہ جاننا، زندگی کے کسی اور ضمیر کو نا جاننا ہے، اور نام نہاد درد اور خوشی کے احساسات سے برتر ہونا ہے۔
خود پرستی ایک مضبوط جسم سے زیادہ غیر شفاف ہے۔ صابر خدا کی صابر تابعداری میں آئیے غلطی، خود ارادی، خود جوازی اور خود پرستی کے سخت پتھر کو محبت کے محلول کے ساتھ تحلیل کرنے کے لئے جدو جہد کریں، جو روحانیت کے خلاف جنگ کرتا اوروہ گناہ اور موت کا قانون ہے۔
زندگی کا جامہ حق ہے۔
There is but one way to heaven, harmony, and Christ in divine Science shows us this way. It is to know no other reality — to have no other consciousness of life — than good, God and His reflection, and to rise superior to the so-called pain and pleasure of the senses.
Self-love is more opaque than a solid body. In patient obedience to a patient God, let us labor to dissolve with the universal solvent of Love the adamant of error, — self-will, self-justification, and self-love, — which wars against spirituality and is the law of sin and death.
The vesture of Life is Truth.
ابدی حق کائنات کو تبدیل کر رہا ہے۔ جب انسان اپنے ذہنی پوتڑے اْتار ڈالتا ہے، تو خیال اظہار میں وسعت پاتے ہیں۔ ”روشنی ہو جا،“ حق اور محبت کا دائمی مطالبہ ہے، جو افراتفری کو تہذیب میں اور بے سْرکو کائنات کی موسیقی میں تبدیل کرتا ہے۔
روز مرہ کے فرائضمنجاب میری بیکر ایڈی
Eternal Truth is changing the universe. As mortals drop off their mental swaddling-clothes, thought expands into expression. "Let there be light," is the perpetual demand of Truth and Love, changing chaos into order and discord into the music of the spheres.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████