اتوار 24 دسمبر ، 2023



مضمون۔ مسیح یسوع

SubjectChrist Jesus

سنہری متن: افسیوں 1 باب2 آیت

”ہمارے باپ خدا اور خداوند یسوع مسیح کی طرف سے تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے۔“



Golden Text: Ephesians 1 : 2

Grace be to you, and peace, from God our Father, and from the Lord Jesus Christ.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: افسیوں 3 باب14تا21 آیات


14۔ اِس سبب سے مَیں باپ کے آگے گھٹنے ٹیکتا ہوں۔

15۔ جس سے آسمان اور زمین کا ہر ایک خاندان نامزد ہے۔

16۔ کہ وہ اپنے جلال کی دولت کے موافق تمہیں یہ عنایت کرے کہ تم اْس کے روح سے اپنی باطنی انسانیت میں بہت ہی زور آور ہو جاؤ۔

17۔ اور ایمان کے وسیلہ سے مسیح تمہارے دلوں میں سکونت کرے تاکہ تم محبت میں جڑ پکڑ کے اور بنیاد قائم کر کے۔

18۔ سب مقدسوں سمیت بخوبی معلوم کر سکو کہ اْس کی چوڑائی اور لمبائی اور اونچائی اور گہرائی کتنی ہے۔

19۔ اور مسیح کی اْس محبت کو جان سکو جو جاننے سے باہر ہے تاکہ تم خدا کی ساری معموری تک معمور ہو جاؤ۔

20۔ اب جو ایسا قادر ہے کہ اْس قدرت کے موافق جو ہم میں تاثیر کرتی ہے ہماری درخواست اور خیال سے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے۔

21۔ کلیسیا میں اور مسیح یسوع میں پشت در پشت اور ابدالا باد اْس کی تمجید ہوتی رہے۔

Responsive Reading: Ephesians 3 : 14-21

14.     For this cause I bow my knees unto the Father of our Lord Jesus Christ,

15.     Of whom the whole family in heaven and earth is named,

16.     That he would grant you, according to the riches of his glory, to be strengthened with might by his Spirit in the inner man;

17.     That Christ may dwell in your hearts by faith; that ye, being rooted and grounded in love,

18.     May be able to comprehend with all saints what is the breadth, and length, and depth, and height;

19.     And to know the love of Christ, which passeth knowledge, that ye might be filled with all the fulness of God.

20.     Now unto him that is able to do exceeding abundantly above all that we ask or think, according to the power that worketh in us,

21.     Unto him be glory in the church by Christ Jesus throughout all ages, world without end.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ لوقا 1:26تا28 (تا:)، 31تا35، 37 آیات

26۔ چھٹے مہینے میں جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرت تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا۔

27۔ جس کی منگنی داؤد کے گھرانے کے ایک مرد یوسف نام سے ہوئی تھی اور اْس کنواری کا نام مریم تھا۔

28۔ اور فرشتے نے اْس کے پاس اندر آکر کہا سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے! خداوند تیرے ساتھ ہے۔

31۔ اور دیکھ تْو حاملہ ہوگی اور تیرے بیٹا ہوگا۔ اْس کا نام یسوع رکھنا۔

32۔ وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خداوند خدا اْس کے باپ داؤد کا تخت اْسے دے گا۔

33۔ اور وہ یعقوب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کرے گا اور اْس کی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا۔

34۔ مریم نے فرشتے سے کہا یہ کیونکر ہوگا جبکہ مَیں مرد کو نہیں جانتی؟

35۔ اور فرشتے نے جواب میں اْس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگا اور خدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہلائے گا۔

37۔ کیونکہ جو قول خدا کی طرف سے ہے وہ ہر گز بے تاثیر نہ ہوگا۔

1. Luke 1 : 26-28 (to :), 31-35, 37

26     And in the sixth month the angel Gabriel was sent from God unto a city of Galilee, named Nazareth,

27     To a virgin espoused to a man whose name was Joseph, of the house of David; and the virgin’s name was Mary.

28     And the angel came in unto her, and said, Hail, thou that art highly favoured, the Lord is with thee:

31     And, behold, thou shalt conceive in thy womb, and bring forth a son, and shalt call his name JESUS.

32     He shall be great, and shall be called the Son of the Highest: and the Lord God shall give unto him the throne of his father David:

33     And he shall reign over the house of Jacob for ever; and of his kingdom there shall be no end.

34     Then said Mary unto the angel, How shall this be, seeing I know not a man?

35     And the angel answered and said unto her, The Holy Ghost shall come upon thee, and the power of the Highest shall overshadow thee: therefore also that holy thing which shall be born of thee shall be called the Son of God.

37     For with God nothing shall be impossible.

2 . ۔ لوقا 2 باب1، 3تا11، 40 آیات

1۔ان دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر اوگستس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں۔

3۔اور سب لوگ نام لکھوانے کے لئے اپنے اپنے شہر کو گئے۔

4۔پس یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرت سے داؤد کے شہر بیت الحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے۔اس لئے کہ وہ داؤد کے گھرانے اور اولاد سے تھا۔

5۔تاکہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے۔

6۔جب وہ وہاں تھے تو ایسا ہوا کہ اس کے وضعِ حمل کا وقت آ پہنچا۔

7۔اور اس کا پہلوٹا بیٹا پیدا ہوا اور اس نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ ان کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی۔

؎8۔اسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔

9۔اور خداوند کا فرشتہ اْن کے پاس آ کھڑا ہوا اور خداوند کا جلال اْن کے چو گرد چمکا اور وہ نہایت ڈر گئے۔

10۔مگر فرشتہ نے اْن سے کہا ڈرو مت کیونکہ دیکھو میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری امت کے واسطے ہو گی۔

11۔کہ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لیے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند۔

2. Luke 2 : 1, 3-11, 40

1     And it came to pass in those days, that there went out a decree from Cæsar Augustus, that all the world should be taxed.

3     And all went to be taxed, every one into his own city.

4     And Joseph also went up from Galilee, out of the city of Nazareth, into Judæa, unto the city of David, which is called Bethlehem; (because he was of the house and lineage of David:)

5     To be taxed with Mary his espoused wife, being great with child.

6     And so it was, that, while they were there, the days were accomplished that she should be delivered.

7     And she brought forth her firstborn son, and wrapped him in swaddling clothes, and laid him in a manger; because there was no room for them in the inn.

8     And there were in the same country shepherds abiding in the field, keeping watch over their flock by night.

9     And, lo, the angel of the Lord came upon them, and the glory of the Lord shone round about them: and they were sore afraid.

10     And the angel said unto them, Fear not: for, behold, I bring you good tidings of great joy, which shall be to all people.

11     For unto you is born this day in the city of David a Saviour, which is Christ the Lord.

40     And the child grew, and waxed strong in spirit, filled with wisdom: and the grace of God was upon him.

3 . ۔ یوحنا 2 باب1تا11 آیات

1۔پھر تیسرے دن قانائے گلیل میں شادی ہوئی اور یسوع کی ماں وہاں تھی۔

2۔ اور یسوع اور اْس کے شاگردوں کی بھی اْس شادی میں دعوت تھی۔

3۔ اور جب مَے ختم ہو چکی تو یسوع کی ماں نے اْس سے کہا کہ اْن کے پاس مَے نہیں رہی۔

4۔ یسوع نے اْس سے کہااے عورت مجھے تجھ سے کیا کام ہے؟ ابھی میرا وقت نہیں آیا۔

5۔ اْس کی ماں نے خادموں سے کہا جو کچھ یہ تم سے کہے وہ کرو۔

6۔ وہاں یہودیوں کی طہارت کے دستور کے موافق پتھر کے چھے مٹکے رکھے تھے اور اْن میں دو دو تین تین من کی گنجائش تھی۔

7۔ یسوع نے اْن سے کہا مٹکوں میں پانی بھر دو۔ پس اْنہوں نے اْن کو لبالب بھر دیا۔

8۔ پھر اْس نے اْن سے کہا اب نکال کر میرِمجلس کے پاس لے جاؤ۔ پس وہ لے گئے۔

9۔ جب میرِمجلس نے وہ پانی چکھا جو مَے بن گیا تھا اور جانتانہ تھا کہ یہ کہاں سے آئی ہے (مگر خادم جنہوں نے پانی بھرا تھا جانتے تھے)تو میرِ مجلس نے دلہا کو بلا کراْس سے کہا۔

10۔ ہر شخص پہلے اچھی مَے پیش کرتا ہے اور ناقص اْس وقت جب پی کر چھک گئے مگر تْو نے اچھی مَے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔

11۔ یہ پہلا معجزہ یسوع نے قانائے گلیل میں دکھا کر اپنا جلال ظاہر کیا اور اْس کے شاگرد اْس پر ایمان لائے۔

3. John 2 : 1-11

1     And the third day there was a marriage in Cana of Galilee; and the mother of Jesus was there:

2     And both Jesus was called, and his disciples, to the marriage.

3     And when they wanted wine, the mother of Jesus saith unto him, They have no wine.

4     Jesus saith unto her, Woman, what have I to do with thee? mine hour is not yet come.

5     His mother saith unto the servants, Whatsoever he saith unto you, do it.

6     And there were set there six waterpots of stone, after the manner of the purifying of the Jews, containing two or three firkins apiece.

7     Jesus saith unto them, Fill the waterpots with water. And they filled them up to the brim.

8     And he saith unto them, Draw out now, and bear unto the governor of the feast. And they bare it.

9     When the ruler of the feast had tasted the water that was made wine, and knew not whence it was: (but the servants which drew the water knew;) the governor of the feast called the bridegroom,

10     And saith unto him, Every man at the beginning doth set forth good wine; and when men have well drunk, then that which is worse: but thou hast kept the good wine until now.

11     This beginning of miracles did Jesus in Cana of Galilee, and manifested forth his glory; and his disciples believed on him.

4 . ۔ یوحنا 9 باب1تا7 آیات

1۔ پھر اْس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا۔

2۔اور اْس کے شاگردوں نے اْس سے پوچھا اے ربی! کس نے گناہ کیا تھا جو یہ اندھا پیدا ہوا۔ اس شخص نے یا اِس کے ماں باپ نے؟

3۔ یسوع نے جواب دیا کہ نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے یہ اِس لئے ہوا کہ خدا کے کام اْس میں ظاہر ہوں۔

4۔ جس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اْس کے کام دن ہی دن میں کرنا ضرور ہے۔ وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا۔

5۔ جب تک مَیں دنیا میں ہوں دنیا کا نور ہوں۔

6۔یہ کہہ کر اْس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مِٹی سانی اور وہ مٹی اندھے کی آنکھوں پر لگا کر

7۔اْس سے کہا جا شیلوخ (جس کا ترجمہ ”بھیجا ہوا“ ہے) کے حوض میں دھو لے۔ پس اْس نے جا کر دھویا اور بِینا ہو کر واپس آیا۔

4. John 9 : 1-7

1     And as Jesus passed by, he saw a man which was blind from his birth.

2     And his disciples asked him, saying, Master, who did sin, this man, or his parents, that he was born blind?

3     Jesus answered, Neither hath this man sinned, nor his parents: but that the works of God should be made manifest in him.

4     I must work the works of him that sent me, while it is day: the night cometh, when no man can work.

5     As long as I am in the world, I am the light of the world.

6     When he had thus spoken, he spat on the ground, and made clay of the spittle, and he anointed the eyes of the blind man with the clay,

7     And said unto him, Go, wash in the pool of Siloam, (which is by interpretation, Sent.) He went his way therefore, and washed, and came seeing.

5 . ۔ فلپیوں 2 باب1، 2، 5تا11 آیات

1۔پس اگر کچھ تسلی مسیح میں اور محبت کی دلجمعی اور روح کی شراکت اور رحم دلی اور درد مندی ہے۔

2۔تو میری یہ خوشی پوری کرو کہ یک دل رہو۔ یکساں محبت رکھو۔ایک جان ہو۔ ایک ہی خیال رکھو۔

5۔ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا تھا۔

6۔ اْس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔

7۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔

8۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کردیااور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔

9۔ اِسی واسطے خدا نے بھی اْسے بہت سر بلند کیا اور اْسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔

10۔ تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھْکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ اْن کا ہو جو زمین کے نیچے ہیں۔

11۔ اور خدا باپ کے جلال کے لئے ہر ایک زبا ن اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے۔

5. Philippians 2 : 1, 2, 5-11

1     If there be therefore any consolation in Christ, if any comfort of love, if any fellowship of the Spirit, if any bowels and mercies,

2     Fulfil ye my joy, that ye be likeminded, having the same love, being of one accord, of one mind.

5     Let this mind be in you, which was also in Christ Jesus:

6     Who, being in the form of God, thought it not robbery to be equal with God:

7     But made himself of no reputation, and took upon him the form of a servant, and was made in the likeness of men:

8     And being found in fashion as a man, he humbled himself, and became obedient unto death, even the death of the cross.

9     Wherefore God also hath highly exalted him, and given him a name which is above every name:

10     That at the name of Jesus every knee should bow, of things in heaven, and things in earth, and things under the earth;

11     And that every tongue should confess that Jesus Christ is Lord, to the glory of God the Father.



سائنس اور صح


1 . ۔ 18: 3۔12

یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔ اْس کا مشن انفرادی اور اجتماعی دونوں تھا۔ اْس نے زندگی کا مناسب کام سر انجام دیا نہ صرف خود کے انصاف کے لئے بلکہ انسانوں پر رحم کے باعث، انہیں یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے، بلکہ نہ تو اْن کے لئے خود کچھ کرنے یا نہ ہی اْنہیں کسی ایک ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئے یہ کیا۔یسوع نے دلیری سے حواس کے تسلیم شْدہ ثبوت کے خلاف، منافقانہ عقائد اور مشقوں کے خلاف کام کیا، اور اْس نے اپنی شفائیہ طاقت کی بدولت اپنے سبھی حریفوں کی تردید کی۔

1. 18 : 3-12

Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage. His mission was both individual and collective. He did life's work aright not only in justice to himself, but in mercy to mortals, — to show them how to do theirs, but not to do it for them nor to relieve them of a single responsibility. Jesus acted boldly, against the accredited evidence of the senses, against Pharisaical creeds and practices, and he refuted all opponents with his healing power.

2 . ۔ 29: 32۔25

یسوع مریم کی خود آگاہی کا فرزند تھا جو خدا کے ساتھ شراکت میں تھی۔ پس وہ کسی دوسرے شخص کی نسبت زندگی سے متعلق زیادہ روحانی تصور پیش کرسکتا ہے، اور محبت، اپنے باپ یا الٰہی اصول کی سائنس کو ظاہر کرسکتا ہے۔

عورت سے پیدا ہوکر، یسوع کی جسم میں آمد نے مریم کی زمینی حالت میں جزوی طور پر حصہ لیا، اگرچہ اْسے مسیح، بلا شرکتِ غیر، الٰہی روح، کا نام عطا کیا گیا تھا۔یہ اِس کے اندر گتسمنی میں اور کلوری پر اْس کی جدوجہد کو شمار کرتا ہے، اوراِسی نے اْسے خدا اور انسانوں کے مابین، درمیانی، یا راہ دکھانے والا بننے کے قابل بنایا۔اگر اْس کا اصل اور پیدائش مکمل طور پر فانی استعمال کے برعکس ہوتی، تو یسوع کو بطور ”راہ“ فانی عقل کی جانب سے پذیرائی نہ ملتی۔

رّبی اور کاہن موسوی شریعت کی تعلیم دیتے تھے، جو کہتی ہے: ”آنکھ کے بدلے آنکھ،“ اور ”جو آدمی کا خون کرے اْس کا خون آدمی سے ہوگا۔“یسوع نے ایسا نہیں کیا جوخدا کے لئے عمل پیرا ہونے والا نیا شخص تھا، اْس نے محبت کی الٰہی شریعت پیش کی جو اپنے لعنت بھیجنے والوں پر بھی برکت چاہتی ہے۔

سچائی کے انفرادی نمونے کے طور پر، یسوع مسیح ربونی غلطی اور تمام گناہ، بیماری اور موت کو رد کرنے آیا، تاکہ سچائی اور زندگی کی راہ ہموار کرے۔روح کے پھلوں اور مادی فہم، سچائی اور غلطی کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے، یہ نمونہ یسوع کی پوری زمینی زندگی کے دوران ظاہر ہوتا رہا۔

2. 29 : 32-25

Jesus was the offspring of Mary's self-conscious communion with God. Hence he could give a more spiritual idea of life than other men, and could demonstrate the Science of Love — his Father or divine Principle.

Born of a woman, Jesus' advent in the flesh partook partly of Mary's earthly condition, although he was endowed with the Christ, the divine Spirit, without measure. This accounts for his struggles in Gethsemane and on Calvary, and this enabled him to be the mediator, or way-shower, between God and men. Had his origin and birth been wholly apart from mortal usage, Jesus would not have been appreciable to mortal mind as "the way."

Rabbi and priest taught the Mosaic law, which said: "An eye for an eye," and "Whoso sheddeth man's blood, by man shall his blood be shed." Not so did Jesus, the new executor for God, present the divine law of Love, which blesses even those that curse it.

As the individual ideal of Truth, Christ Jesus came to rebuke rabbinical error and all sin, sickness, and death, — to point out the way of Truth and Life. This ideal was demonstrated throughout the whole earthly career of Jesus, showing the difference between the offspring of Soul and of material sense, of Truth and of error.

3 . ۔ 539: 27۔4

یسوع کی الٰہی پیدائش نے اْسے تخلیق کے حقائق کو وسیع کرنے اور اْس واحد عقل کوجو انسان اور کائنات کو خلق کرتا اور اْس پر حکمرانی کرتا ہے، ظاہر کرنے کے لئے انسانی طاقت کی نسبت بہت زیادہ عطا کیا۔تخلیق کی سائنس نے، جو یسوع کی پیدائش میں بہت واضح تھی، اْس کے عاقل ترین اور کم سمجھے جانے والے اقوال کو الہامی بنایا، اور یہ اْس کے حیرت انگیز اظہارات کی بنیاد تھا۔ مسیح روح کی اولاد ہے، اور روحانی وجودیت واضح کرتی ہے کہ روح گناہ، بیماری اور موت میں مبتلا ہوکر، نہ توایک بدکاراور نہ ہی ایک فانی انسان پیدا کرتی ہے۔

3. 539 : 27-4

The divine origin of Jesus gave him more than human power to expound the facts of creation, and demonstrate the one Mind which makes and governs man and the universe. The Science of creation, so conspicuous in the birth of Jesus, inspired his wisest and least-understood sayings, and was the basis of his marvellous demonstrations. Christ is the offspring of Spirit, and spiritual existence shows that Spirit creates neither a wicked nor a mortal man, lapsing into sin, sickness, and death.

4 . ۔ 26: 28۔32

ہمارے مالک نے محض نظریے، عقیدے یا ایمان کی تعلیم نہیں دی۔یہ الٰہی اصول کی مکمل ہستی تھی جس کی اْس نے تعلیم دی اور مشق کی۔ مسیحیت کے لئے اْس کا ثبوت مذہب اور عبادت کا کوئی نظام یا شکل نہیں تھی، بلکہ یہ کرسچن سائنس تھی جو زندگی اور محبت کی ہم آہنگی پر عمل کرتی ہے۔

4. 26 : 28-32

Our Master taught no mere theory, doctrine, or belief. It was the divine Principle of all real being which he taught and practised. His proof of Christianity was no form or system of religion and worship, but Christian Science, working out the harmony of Life and Love.

5 . ۔ 473 :6۔17

مسیح گناہ پر عقیدے کو نیست کرنے آیا۔الٰہی اصول ہر جا موجود اور قادرِمطلق ہے۔خدا ہر جگہ موجود ہے اور اْس سے جْدا کوئی موجود نہیں ہے یا کوئی طاقت نہیں ہے۔ مسیح ایک مثالی سچائی ہے، جو کرسچن سائنس کے وسیلہ بیماری اور گناہ سے شفا دینے کو آتی ہے، اور ساری طاقت خدا کو منسوب کرتی ہے۔یسوع اْس شخص کا نام ہے جس نے، دوسرے انسانوں کی نسبت زیادہ،مسیح، یعنی خدا کے اْس حقیقی خیال کو، پیش کیا جو بیماراور گناہگار کو شفا دیتا اور موت کی طاقت کو نیست کرتا ہے۔یسوع انسانی آدمی ہے، اور مسیح الٰہی خیال ہے؛ پس وہ یسوع مسیح کااتحاد ہے۔

5. 473 : 6-17

Christ came to destroy the belief of sin. The God-principle is omnipresent and omnipotent. God is everywhere, and nothing apart from Him is present or has power. Christ is the ideal Truth, that comes to heal sickness and sin through Christian Science, and attributes all power to God. Jesus is the name of the man who, more than all other men, has presented Christ, the true idea of God, healing the sick and the sinning and destroying the power of death. Jesus is the human man, and Christ is the divine idea; hence the duality of Jesus the Christ.

6 . ۔ 51 :19۔27

اْس کا کامل نمونہ ہم سب کی نجات کے لئے تھا، مگر صرف وہ کام کرنے کے وسیلہ سے جو اْس نے کئے اور دوسروں کو اْن کی تعلیم دی۔شفا کے لئے اْس کا مقصد صرف صحت کو بحال کرنا نہیں تھا بلکہ اپنا الٰہی اصول ظاہر کرنا بھی تھا۔ جو کچھ اْس نے کیا اور کہا اْس میں وہ خدا سے، سچائی اور محبت سے متاثر تھا۔ اْس کو اذیت دینے والوں کے مقاصد غرور، حسد، ظلم اور بدلہ تھا جو جسمانی یسوع پر اْترا، مگر نشانہ الٰہی اصول یعنی محبت تھی، جس نے اْن کی شہوت پرستی کو ملامت کیا تھا۔

6. 51 : 19-27

His consummate example was for the salvation of us all, but only through doing the works which he did and taught others to do. His purpose in healing was not alone to restore health, but to demonstrate his divine Principle. He was inspired by God, by Truth and Love, in all that he said and did. The motives of his persecutors were pride, envy, cruelty, and vengeance, inflicted on the physical Jesus, but aimed at the divine Principle, Love, which rebuked their sensuality.

7 . ۔ 52: 1۔8

وہ اپنے لڑکپن کی ابتدا ہی سے ”باپ کے کام“ میں لگ گیا تھا۔ اْس کے مشاغل دوسروں سے بہت منفرد تھے۔ اْس کا مالک روح تھا؛ جب کہ دوسروں کا مالک مادا تھا۔ وہ خدا کی خدمت کرتا؛ وہ حرص کی خدمت کرتے۔ اْس کے جذبات پاکیزہ تھے؛ اْن کے جسمانی تھے۔ اْس کے حواس صحت، پاکیزگی اور زندگی کی روحانی گواہی میں گْم ہو چکے تھے؛ اْن کے حواس متضاد تصدیق کرتے ہیں، اور وہ گناہ، بیماری اور موت کی مادی گواہی میں محوہوتے ہیں۔

7. 52 : 1-8

From early boyhood he was about his "Father's business." His pursuits lay far apart from theirs. His master was Spirit; their master was matter. He served God; they served mammon. His affections were pure; theirs were carnal. His senses drank in the spiritual evidence of health, holiness, and life; their senses testified oppositely, and absorbed the material evidence of sin, sickness, and death.

8 . ۔ 40 :25۔28، 31۔7

ہمارا آسمانی باپ، الٰہی محبت، یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہمیں ہمارے مالک اور اْس کے شاگردوں کے نمونے کی پیروی کرنی چاہئے اور صرف اْس کی شخصیت کی عبادت نہیں کرنی چاہئے۔

مسیحت کی فطرت پْر امن اور بابرکت ہے، لیکن بادشاہی میں داخل ہونے کے لئے، امید کا لنگر اْس شکینہ کے اندر مادے کے پردے سے آگے ڈالنا ضروری ہے جس میں سے یسوع ہم سے قبل گز رچکا ہے، اور مادے سے آگے کی یہ ترقی راستباز کی خوشیوں اور فتح مندی اور اِس کے ساتھ ساتھ اْن کے دْکھوں اور تکالیف کے وسیلہ آتی ہے۔ ہمارے مالک کی طرح، ہمیں بھی مادی فہم سے ہستی کے روحانی فہم کی جانب رْخصت ہونا چاہئے۔

8. 40 : 25-28, 31-7

Our heavenly Father, divine Love, demands that all men should follow the example of our Master and his apostles and not merely worship his personality.

The nature of Christianity is peaceful and blessed, but in order to enter into the kingdom, the anchor of hope must be cast beyond the veil of matter into the Shekinah into which Jesus has passed before us; and this advance beyond matter must come through the joys and triumphs of the righteous as well as through their sorrows and afflictions. Like our Master, we must depart from material sense into the spiritual sense of being.

9 . ۔ 52: 19۔28

”غمزدہ شخص“نے مادی زندگی اور ذہانت کے عدم کواور قادر جامع خدا، اچھائی کی قادر حقیقت کو بہتر طور پر سمجھا۔ شفائیہ عقل یا کرسچن سائنس کے یہ دوافضل نکات ہیں جنہوں نے اْسے محبت سے مسلح کیا۔خدا کے اعلیٰ ترین نمائندے نے، الٰہی اصول کی عکاسی کے لئے انسانی قابلیت سے متعلق بات کرتے ہوئے، اپنے شاگردوں سے پیشن گوئی کے طور پر، نہ صرف اپنے دور بلکہ ہر دور کے لئے کہا: ”جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا؛“ اور ”ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔“

9. 52 : 19-28

The "man of sorrows" best understood the nothingness of material life and intelligence and the mighty actuality of all-inclusive God, good. These were the two cardinal points of Mind-healing, or Christian Science, which armed him with Love. The highest earthly representative of God, speaking of human ability to reflect divine power, prophetically said to his disciples, speaking not for their day only but for all time: "He that believeth on me, the works that I do shall he do also;" and "These signs shall follow them that believe."

10 . ۔ 55: 21۔26

وعدے پورے کئے جائیں گے۔ الٰہی شفا کے دوبارہ ظاہر ہونے کا وقت ہمہ وقت ہوتا ہے؛ اور جو کوئی بھی اپنازمینی سب کچھ الٰہی سائنس کی الطار پر رکھتا ہے، وہ اب مسیح کے پیالے میں سے پیتا ہے، اور وہ روح اور مسیحی شفا کی طاقت سے ملبوس ہوتا ہے۔

10. 55 : 21-26

The promises will be fulfilled. The time for the reappearing of the divine healing is throughout all time; and whosoever layeth his earthly all on the altar of divine Science, drinketh of Christ's cup now, and is endued with the spirit and power of Christian healing.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔