اتوار 26ستمبر ،2021



مضمون۔ حقیقت

SubjectReality

سنہری متن: یوحنا 11 باب40 آیت

”کیا مَیں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تْو ایمان لائے گی تو خدا کا جلال دیکھے گی؟- مسیح یسوع“



Golden Text: John 11 : 40

Said I not unto thee, that, if thou wouldest believe, thou shouldest see the glory of God?”— Christ Jesus





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: 2 سلاطین 6 باب 15تا17 آیات • رومیوں 1 باب17، 19، 20 آیات • صفنیاہ 3 باب15آیت


15۔ اور جب اْس مرد خدا کا خادم صبح کو اٹھ کر باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک لشکر معہ گھوڑوں اور رتھوں کے شہر کے چوگرد ہے سو اْس خادم نے جا کر اْس سے کہا ہائے اے میرے مالک! ہم کیا دعا کریں؟

16۔ اْس نے جواب دیا خوف نہ کر کیونکہ ہمارے ساتھ والے اْن کے ساتھ والوں سے زیادہ ہیں۔

17۔ اور الیشع نے دعا کی اور کہا اے خداوند اْس کی آنکھیں کھول دے تاکہ وہ دیکھ سکے تب خداوند نے اْس جوان کی آنکھیں کھول دیں تو اْس نے جونگاہ کی تو دیکھا کہ الیشع کے گردا گرد ایک پہاڑ آتشی گھوڑوں اور رتھوں سے بھراہے۔

17۔اِس واسطے کہ اْس میں خدا کی راستبازی ایمان سے اور ایمان کے لئے ظاہر ہوتی ہے۔

19۔کیونکہ جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہوسکتا ہے وہ اْن کے باطن میں ظاہر ہے۔

20۔کیونکہ اْس کی اندیکھی صفتیں یعنی اْس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں۔

15۔ خداوند اسرائیل کا بادشاہ تیرے اندر ہے۔ تْو پھر مصیبت کو نہ دیکھے گی۔

Responsive Reading: II Kings 6 : 15-17; Romans 1 : 17, 19, 20; Zephaniah 3 : 15

15.     And when the servant of the man of God was risen early, and gone forth, behold, an host compassed the city both with horses and chariots. And his servant said unto him, Alas, my master! how shall we do?

16.     And he answered, Fear not: for they that be with us are more than they that be with them.

17.     And Elisha prayed, and said, Lord, I pray thee, open his eyes, that he may see. And the Lord opened the eyes of the young man; and he saw: and, behold, the mountain was full of horses and chariots of fire round about Elisha.

17.     For therein is the righteousness of God revealed from faith to faith:

19.     Because that which may be known of God is manifest.

20.     For the invisible things of him from the creation of the world are clearly seen, being understood by the things that are made, even his eternal power and Godhead;

15.     The king of Israel, even the Lord, is in the midst of thee: thou shalt not see evil any more.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1. . ۔ زبور 119:12، 18 آیات

12۔ اے خداوند! تْو مبارک ہے مجھے اپنے آئین سکھا۔

18۔ میری آنکھیں کھول دے تاکہ مَیں تیری شریعت کے عجائب دیکھوں۔

1. Psalm 119 : 12, 18

12     Blessed art thou, O Lord: teach me thy statutes.

18     Open thou mine eyes, that I may behold wondrous things out of thy law.

2. . ۔ یسعیاہ 60 باب2تا4 (تا پہلا)، 18تا20 آیات

2۔ کیونکہ دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائے گی اور تیرگی اْمتوں پر لیکن خداوند تجھ پر طالع ہوگا اور اْس کا جلال تجھ پر نمایاں ہوگا۔

3۔ اور قومیں تیری روشنی کی طرف آئیں گی اور سلاطین تیرے طلوع کی تجلی میں چلیں گے۔

4۔ اپنی آنکھ اْٹھا کر چاروں طرف دیکھ۔

18۔ پھر تیرے ملک میں ظلم کاذکر نہ ہوگا اور نہ تیری حدود کے اندر خرابی یا بربادی کا بلکہ تو اپنی دیواروں کا نام نجات اور اپنے پھاٹکوں کا حمد رکھے گی۔

19۔ پھر تیری روشنی نہ دن کو سورج سے ہوگی نہ چاند کے چمکنے سے بلکہ خداوند تیرا ابدی نور اور تیرا خدا تیرا جلال ہوگا۔

20۔ تیرا سورج پھر کبھی نہ ڈھلے گا اور تیرے چاند کو زوال نہ ہوگا کیونکہ تیرا خداوند تیرا ابدی نور ہوگا اور تیرے ماتم کے دن ختم ہو جائیں گے۔

2. Isaiah 60 : 2-4 (to 1st :), 18-20

2     For, behold, the darkness shall cover the earth, and gross darkness the people: but the Lord shall arise upon thee, and his glory shall be seen upon thee.

3     And the Gentiles shall come to thy light, and kings to the brightness of thy rising.

4     Lift up thine eyes round about, and see:

18     Violence shall no more be heard in thy land, wasting nor destruction within thy borders; but thou shalt call thy walls Salvation, and thy gates Praise.

19     The sun shall be no more thy light by day; neither for brightness shall the moon give light unto thee: but the Lord shall be unto thee an everlasting light, and thy God thy glory.

20     Thy sun shall no more go down; neither shall thy moon withdraw itself: for the Lord shall be thine everlasting light, and the days of thy mourning shall be ended.

3. . ۔ 2 کرنتھیوں 4 باب1تا4، 6، 17، 18 آیات

1۔ پس جب ہم پر ایسا رحم ہوا کہ ہمیں یہ خدمت ملی تو ہم ہمت نہیں ہارتے۔

2۔ بلکہ ہم نے شرم کی پوشیدہ باتوں کو ترک کر دیا اور مکاری کی چال نہیں چلتے۔ نہ خدا کے کلام میں آمیزش کرتے ہیں بلکہ حق ظاہر کر کے خدا کے روبرو ہر ایک آدمی کے دل میں اپنی نیکی بٹھاتے ہیں۔

3۔ اور اگر ہماری خوشخبری پر پردہ پڑا ہے تو ہلاک ہونے والوں ہی کے واسطے پڑا ہے۔

4۔ یعنی اْن بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کواِس جہان کے خدانے اندھا کر دیا ہے تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اْس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی اْن پر نہ پڑے۔

6۔اِس لئے کہ خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکا تاکہ خداکے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو۔

8۔ ہم ہر طرف سے مصیبت تو اٹھاتے ہیں لیکن لاچار نہیں ہوتے۔ حیران تو ہوتے ہیں مگر نہ اْمید نہیں ہوتے۔

9۔ ستائے تو جاتے ہیں مگر اکیلے نہیں چھوڑے جاتے۔ گرائے تو جاتے ہیں لیکن ہلاک نہیں ہوتے۔

16۔ اِس لئے ہم ہمت نہیں ہارتے بلکہ گو ہماری ظاہری انسانیت زائل ہوتی جاتی ہے پھر بھی ہماری باطنی انسانیت روز بروز نئی ہوتی جاتی ہے۔

17۔ کیونکہ ہماری دم بھر کی ہلکی سی مصیبت ہمارے لئے از حد بھاری اور ابدی جلال پیدا کرتی جاتی ہے۔

18۔ جس حال میں کہ ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں کیونکہ دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں مگر اندیکھی چیزیں ابدی ہیں۔

3. II Corinthians 4 : 1-4, 6, 17, 18

1     Therefore seeing we have this ministry, as we have received mercy, we faint not;

2     But have renounced the hidden things of dishonesty, not walking in craftiness, nor handling the word of God deceitfully; but by manifestation of the truth commending ourselves to every man’s conscience in the sight of God.

3     But if our gospel be hid, it is hid to them that are lost:

4     In whom the god of this world hath blinded the minds of them which believe not, lest the light of the glorious gospel of Christ, who is the image of God, should shine unto them.

6     For God, who commanded the light to shine out of darkness, hath shined in our hearts, to give the light of the knowledge of the glory of God in the face of Jesus Christ.

17     For our light affliction, which is but for a moment, worketh for us a far more exceeding and eternal weight of glory;

18     While we look not at the things which are seen, but at the things which are not seen: for the things which are seen are temporal; but the things which are not seen are eternal.

4. . ۔ یوحنا 4 باب46تا53 آیات

46۔ پس وہ پھر قانائے گلیل میں آیا جہاں اْس نے پانی کو مے بنایا تھا اور بادشاہ کا ایک ملازم تھا جس کابیٹا کفر نحوم میں بیمار تھا۔

47۔ وہ یہ سن کر کہ یسوع یہودیہ میں آگیا ہے اْس کے پاس گیا اور اْس سے درخواست کرنے لگا کہ چل کر میرے بیٹے کو شفا بخش کیونکہ وہ مرنے کو تھا۔

48۔ یسوع نے اْس سے کہا جب تک تم نشان اور عجیب کام نہ دیکھ لوہر گز ایمان نہ لاؤ گے۔

49۔ بادشاہ کے ملازم نے اْس سے کہا اے خداوند میرے بچے کے مرنے سے پہلے چل۔

50۔ یسوع نے اْس سے کہا جا تیرا بیٹا جیتا ہے۔ اْس شخص نے اْس بات کا یقین کیا جو یسوع نے اْس سے کہی اور چلا گیا۔

51۔ وہ راستے میں ہی تھا کہ اْس کے نوکر اْسے ملے اور کہنے لگے کہ تیرا بیٹا جیتا ہے۔

52۔ اْس نے اْن سے پوچھا کہ اْسے کس وقت سے آرام ہونے لگا تھا؟ اْنہوں نے اْس سے کہا کہ کل ساتویں گھنٹے میں اْس کی تاپ اْتر گئی۔

53۔ پس باپ جان گیا کہ یہ وہی وقت تھا جب یسوع نے اْس سے کہاتھا کہ تیرا بیٹا جیتا ہے اور وہ خود اور اْس کا سارا گھرانہ ایمان لایا۔

4. John 4 : 46-53

46     So Jesus came again into Cana of Galilee, where he made the water wine. And there was a certain nobleman, whose son was sick at Capernaum.

47     When he heard that Jesus was come out of Judæa into Galilee, he went unto him, and besought him that he would come down, and heal his son: for he was at the point of death.

48     Then said Jesus unto him, Except ye see signs and wonders, ye will not believe.

49     The nobleman saith unto him, Sir, come down ere my child die.

50     Jesus saith unto him, Go thy way; thy son liveth. And the man believed the word that Jesus had spoken unto him, and he went his way.

51     And as he was now going down, his servants met him, and told him, saying, Thy son liveth.

52     Then inquired he of them the hour when he began to amend. And they said unto him, Yesterday at the seventh hour the fever left him.

53     So the father knew that it was at the same hour, in the which Jesus said unto him, Thy son liveth: and himself believed, and his whole house.

5. . ۔ یوحنا 8 باب2، 12، 32 آیات

2۔ صبح سویرے ہی وہ پھر ہیکل میں آیا اور سب لوگ اْس کے پاس آئے اور وہ بیٹھ کر اْنہیں تعلیم دینے لگا۔

12۔ یسوع نے پھر اْن سے مخاطب ہو کر کہا دنیا کا نور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔

32۔ اور سچائی سے واقف ہوگے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔

5. John 8 : 2, 12, 32

2     And early in the morning he came again into the temple, and all the people came unto him; and he sat down, and taught them.

12     Then spake Jesus again unto them, saying, I am the light of the world: he that followeth me shall not walk in darkness, but shall have the light of life.

32     And ye shall know the truth, and the truth shall make you free.

6. . ۔ یوحنا 9 باب1تا3، 6، 7، 39 تا41 آیات

1۔ پھر اْس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا۔

2۔اور اْس کے شاگردوں نے اْس سے پوچھا اے ربی! کس نے گناہ کیا تھا جو یہ اندھا پیدا ہوا۔ اس شخص نے یا اِس کے ماں باپ نے؟

3۔ یسوع نے جواب دیا کہ نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے یہ اِس لئے ہوا کہ خدا کے کام اْس میں ظاہر ہوں۔

6۔یہ کہہ کر اْس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مِٹی سانی اور وہ مٹی اندھے کی آنکھوں پر لگا کر

7۔اْس سے کہا جا شیلوخ (جس کا ترجمہ ”بھیجا ہوا“ ہے) کے حوض میں دھو لے۔ پس اْس نے جا کر دھویا اور بِینا ہو کر واپس آیا۔

39۔ یسوع نے کہا مَیں دنیا میں عدالت کے لئے آیا ہوں تاکہ جو نہیں دیکھتے وہ دیکھیں اور جو دیکھتے ہیں وہ اندھے ہوجائیں۔

40۔ جو فریسی اْس کے ساتھ تھے اْنہوں نے یہ باتیں سن کر کہا کیا ہم بھی اندھے ہیں؟

41۔ یسوع نے اْن سے کہا کہ اگر تم اندھے ہوتے تو گناہگار نہ ٹھہرتے۔ مگر اب کہتے ہو کہ ہم دیکھتے ہیں۔ پس تمہارا گناہ قائم رہتا ہے۔

6. John 9 : 1-3, 6, 7, 39-41

1     And as Jesus passed by, he saw a man which was blind from his birth.

2     And his disciples asked him, saying, Master, who did sin, this man, or his parents, that he was born blind?

3     Jesus answered, Neither hath this man sinned, nor his parents: but that the works of God should be made manifest in him.

6     When he had thus spoken, he spat on the ground, and made clay of the spittle, and he anointed the eyes of the blind man with the clay,

7     And said unto him, Go, wash in the pool of Siloam, (which is by interpretation, Sent.) He went his way therefore, and washed, and came seeing.

39     And Jesus said, For judgment I am come into this world, that they which see not might see; and that they which see might be made blind.

40     And some of the Pharisees which were with him heard these words, and said unto him, Are we blind also?

41     Jesus said unto them, If ye were blind, ye should have no sin: but now ye say, We see; therefore your sin remaineth.

7. . ۔ 1 کرنتھیوں 2 باب5 (تمہارا)، 9، 10، 12 آیات

5۔۔۔۔تمہارا ایمان انسان کی حکمت پر نہیں بلکہ خدا کی قدرت پر موقوف ہو۔

9۔ بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی ہوا کہ جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سنیں نہ آدمی کے دل میں آئیں۔ وہ سب خدا نے اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے تیار کر دیں۔

10۔ لیکن ہم پر خدا نے اْن کو روح کے وسیلہ سے ظاہر کیا۔

12۔ بلکہ ہم نے نہ دنیا کی روح بلکہ وہ روح پایاجوخدا کی طرف سے ہے تاکہ اْن باتوں کو جانیں جو خدا نے ہمیں عنایت کی ہیں۔

7. I Corinthians 2 : 5 (your), 9, 10, 12

5     … your faith should not stand in the wisdom of men, but in the power of God.

9     But as it is written, Eye hath not seen, nor ear heard, neither have entered into the heart of man, the things which God hath prepared for them that love him.

10     But God hath revealed them unto us by his Spirit: for the Spirit searcheth all things, yea, the deep things of God.

12     Now we have received, not the spirit of the world, but the spirit which is of God; that we might know the things that are freely given to us of God.

8. . ۔ کلسیوں 1 باب13، 16، 21، 26، 27 آیات

13۔ اْسی نے ہم کو تاریکی کے قبضے سے چھڑا کر اپنے عزیز بیٹے کی بادشاہی میں داخل کیا۔

16۔ کیونکہ اْسی میں سب چیزیں پیدا کیں گئیں ہیں۔ آسمان کی ہوں یا زمین کی۔ دیکھی ہوں یا اندیکھی۔ تخت ہوں یا ریاستیں حکومتیں یا اختیارات۔ سب چیزیں اْسی کے وسیلہ سے اور اْسی کے واسطے پیدا ہوئی ہیں۔

21۔ اور اْس نے اب تمہارا بھی جو پہلے خارج اور برے کاموں کے سبب سے دل سے دشمن تھے میل کر لیا۔

26۔ یعنی اْس بھید کی جو تمام زمانوں اور پشتوں سے پوشیدہ رہا لیکن اب اْس کے اْن مقدسوں پر ظاہر ہوا۔

27۔ جن پر خدا نے ظاہر کرنا چاہا کہ غیر قوموں میں اْس بھید کے جلال کی دولت کیسی کچھ ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیح جو جلال کی امید ہے تم میں رہتا ہے۔

8. Colossians 1 : 13, 16, 21, 26, 27

13     Who hath delivered us from the power of darkness, and hath translated us into the kingdom of his dear Son:

16     For by him were all things created, that are in heaven, and that are in earth, visible and invisible, whether they be thrones, or dominions, or principalities, or powers: all things were created by him, and for him:

21     And you, that were sometime alienated and enemies in your mind by wicked works, yet now hath he reconciled

26     Even the mystery which hath been hid from ages and from generations, but now is made manifest to his saints:

27     To whom God would make known what is the riches of the glory of this mystery among the Gentiles; which is Christ in you, the hope of glory:



سائنس اور صح


1. . ۔ 472 :24 (سب)۔26

خدا اور اْس کی تخلیق میں پائی جانے والی ساری حقیقت ہم آہنگ اور ابدی ہے۔ جو کچھ وہ بناتا ہے اچھا بناتا ہے، اور جو کچھ بنا ہے اْسی نے بنایاہے۔

1. 472 : 24 (All)-26

All reality is in God and His creation, harmonious and eternal. That which He creates is good, and He makes all that is made.

2. . ۔ 242 :9۔14

آسمان پر جانے کا واحد راستہ ہم آہنگی ہے اور مسیح الٰہی سائنس میں ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا مطلب خدا، اچھائی اور اْس کے عکس کے علاوہ کسی اور حقیقت کو نہ جاننا، زندگی کے کسی اور ضمیر کو نا جاننا ہے، اور نام نہاد درد اور خوشی کے احساسات سے برتر ہونا ہے۔

2. 242 : 9-14

There is but one way to heaven, harmony, and Christ in divine Science shows us this way. It is to know no other reality — to have no other consciousness of life — than good, God and His reflection, and to rise superior to the so-called pain and pleasure of the senses.

3. . ۔ 325 :2۔9

جس کے پاس نیکی کا حقیقی تصور ہے وہ بدی کا سارا فہم کھو دیتا ہے، اور اِس وجہ سے روح کے نا مرنے والے حقائق میں رہنمائی پاتا ہے۔ ایسا شخص زندگی میں قائم ہوتا ہے، ایسی زندگی جو زندگی کو سہارا نہ دینے کے قابل بدن سے نہیں بلکہ اْس سچائی سے حاصل کی گئی ہوجو خود کے لافانی خیال کو آشکار کرتی ہے۔ یسوع نے ہستی کا حقیقی تصور پیش کیا، جس کا نتیجہ انسانوں کے لئے لامحدود برکات کی صورت نکلا۔

3. 325 : 2-9

He who has the true idea of good loses all sense of evil, and by reason of this is being ushered into the undying realities of Spirit. Such a one abideth in Life, — life obtained not of the body incapable of supporting life, but of Truth, unfolding its own immortal idea. Jesus gave the true idea of being, which results in infinite blessings to mortals.

4. . ۔ 264 :13۔19

جب بشر خدا اور انسان سے متعلق درست خیالات رکھتے ہیں، تخلیق کے مقاصد کی کثرت، جو اس سے قبل نادیدنی تھی، اب دیدنی ہو جائے گی۔ جب ہمیں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ زندگی روح ہے، نہ کبھی مادے کا اور نہ کبھی مادے میں، یہ ادراک خدا میں سب کچھ اچھا پاتے ہوئے اور کسی دوسرے شعور کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے، خود کاملیت کی طرف وسیع ہو گا۔

4. 264 : 13-19

As mortals gain more correct views of God and man, multitudinous objects of creation, which before were invisible, will become visible. When we realize that Life is Spirit, never in nor of matter, this understanding will expand into self-completeness, finding all in God, good, and needing no other consciousness.

5. . ۔ 297 :32 (بیماری)۔15

بیماری، گناہ اور موت انسانی نتائج کے مبہم حقیقتیں ہیں۔ زندگی، سچائی اور محبت الٰہی سائنس کی حقیقتیں ہیں۔ ان کا آغاز ایمان میں ہوتا ہے اور روحانی سمجھ میں مکمل مدار کے ساتھ روشن ہوتے ہیں۔ جیسے بادل سورج کو چھپا لیتا ہے مگر اْسے بجھا نہیں سکتا، ویسے ہی جھوٹا عقیدہ عارضی طور پر ناقابل تغیر ہم آہنگی کی آواز کوخاموش کر دیتا ہے مگر جھوٹا عقیدہ ایمان، امید اور پھلوں سے مسلح سائنس کو تباہ نہیں کرسکتا۔

جس کی اصطلاح مادی فہم ہے وہ چیزوں کے صرف فانی عارضی فہم کی رپورٹ کر سکتا ہے، جبکہ روحانی فہم صرف سچائی کی گواہی دے سکتا ہے۔مادی فہم کے لئے غیر حقیقی تب تک حقیقی رہتا ہے جب تک کہ کرسچن سائنس کی بدولت اِس فہم کی تصحیح نہیں ہوجاتی۔

مادی فہم کی مخالفت کرتے ہوئے روحانی فہم میں الہام، امید، ایمان، سمجھ، سود مندی، حقیقت شامل ہوتے ہیں۔

5. 297 : 32 (Sickness)-15

Sickness, sin, and death are the vague realities of human conclusions. Life, Truth, and Love are the realities of divine Science. They dawn in faith and glow full-orbed in spiritual understanding. As a cloud hides the sun it cannot extinguish, so false belief silences for a while the voice of immutable harmony, but false belief cannot destroy Science armed with faith, hope, and fruition.

What is termed material sense can report only a mortal temporary sense of things, whereas spiritual sense can bear witness only to Truth. To material sense, the unreal is the real until this sense is corrected by Christian Science.

Spiritual sense, contradicting the material senses, involves intuition, hope, faith, understanding, fruition, reality.

6. . ۔ 335 :27۔28

حقیقت روحانی، ہم آہنگ، ناقابل تبدیل، لافانی، الٰہی، ابدی ہے۔

6. 335 : 27-28

Reality is spiritual, harmonious, immutable, immortal, divine, eternal.

7. . ۔ 212 :29۔3

ہستی کے حقائق، اِس کے عمومی کام، اور سب چیزوں کی ابتدا مادی فہم کے لئے اندیکھے ہیں؛ جبکہ مادی فہم کی غیر حقیقی اور تقلیدی حرکات، جو لافانی ضابطہ کار اور عمل کو اْلٹ کردیں، حقیقی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ جو کوئی اِس حقیقت کی اِس ماد ی فرضی عقل کی مخالفت کرتا ہے اْسے فریبی کہا جاتا یا فریب کھانے والا کہا جاتا ہے۔

7. 212 : 29-3

The realities of being, its normal action, and the origin of all things are unseen to mortal sense; whereas the unreal and imitative movements of mortal belief, which would reverse the immortal modus and action, are styled the real. Whoever contradicts this mortal mind supposition of reality is called a deceiver, or is said to be deceived.

8. . ۔ 28 :4۔8

اگر استاد نے ایک طالب علم کو لے کر اْسے خدا سے متعلق پوشیدہ حقائق کی تعلیم نہ دی ہوتی تو وہ ہر گز مصلوب نہ ہوتا۔مادے کی گرفت میں روح کو جکڑ کے رکھنے کا عزم سچائی اور محبت کو اذیت دینے والا ہے۔

8. 28 : 4-8

If the Master had not taken a student and taught the unseen verities of God, he would not have been crucified. The determination to hold Spirit in the grasp of matter is the persecutor of Truth and Love.

9. . ۔ 481 :7۔12

مادی فہم روح، خدا کو سمجھنے میں بشر کی کبھی مدد نہیں کرتا۔ صرف روحانی فہم کے وسیلہ انسان خدائی کو سمجھتا اوراْس سے محبت کرتا ہے۔عقل کی سائنس سے متعلق مادی حواس کے بیشمارتضادات اْس اندیکھی سچائی کو تبدیل نہیں کرتے جو ہمیشہ کے لئے برقرار رہتی ہے۔

9. 481 : 7-12

Material sense never helps mortals to understand Spirit, God. Through spiritual sense only, man comprehends and loves Deity. The various contradictions of the Science of Mind by the material senses do not change the unseen Truth, which remains forever intact.

10. . ۔ 486 :23۔26

بصیرت، سماعت تمام تر روحانی احساسات ابدی ہیں۔ یہ ختم نہیں ہو سکتے۔ اِن کی حقیقت اور لافانیت روح اور تفہیم میں ہیں نہ کہ مادے میں، اسی طرح اْن کا استحکام بھی۔

10. 486 : 23-26

Sight, hearing, all the spiritual senses of man, are eternal. They cannot be lost. Their reality and immortality are in Spirit and understanding, not in matter, — hence their permanence.

11. . ۔ 479 :29۔7

پولوس کہتا ہے: ”کیونکہ اْس کی اندیکھی صفتیں دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں۔“ (رومیوں 1: 20 آیت) کرسچن سائنس میں جب روح کا جوہر ظاہر ہوتا ہے، تو مادے کے عدم کی شناخت ہوتی ہے۔جہاں خدا کا روح ہے، اور ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں خدا نہیں ہے، بدی عدم بن جاتی ہے، یعنی روح کا متضاد۔اگر روحانی عکاسی نہیں ہے، تو خلا کی تاریکی باقی رہ جاتی ہے اور آسمانی رنگوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

11. 479 : 29-7

Paul says: "For the invisible things of Him, from the creation of the world, are clearly seen, being understood by the things that are made." (Romans i. 20.) When the substance of Spirit appears in Christian Science, the nothingness of matter is recognized. Where the spirit of God is, and there is no place where God is not, evil becomes nothing, — the opposite of the something of Spirit. If there is no spiritual reflection, then there remains only the darkness of vacuity and not a trace of heavenly tints.

12. . ۔ 572 :19۔22

مکاشفہ 21باب1آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

پھر میں نے ایک نیا آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔

12. 572 : 19-22

In Revelation xxi. 1 we read: —

And I saw a new heaven and a new earth: for the first heaven and the first earth were passed away; and there was no more sea.

13. . ۔ 573 :3۔31

انکشاف کرنے والا ہماری وجودیت کی جگہ پر تھا، جبکہ وہ دیکھتے ہوئے جو آنکھ نہیں دیکھ سکتی، وہ غیر الہامی سوچ کے لئے غیر حاضر ہے۔ مقدس تحریر کی یہ گواہی سائنس کی اس حقیقت کو قائم رکھتی ہے، کہ آسمان اور زمین ایک انسانی شعور، یعنی وہ شعور جو خدا عطا کرتا ہے، اْس کے لئے روحانی ہے، جبکہ دوسرے شعور، غیر روشن انسانی عقل، کے لئے بصیرت مادی ہے۔ بلاشبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جسے انسانی عقل مادے اور روح کی اصطلاح دیتی ہے وہ شعور کے مراحل اور حالتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اس سائنسی شعور کے ہمراہ ایک اور مکاشفہ تھا، حتیٰ کہ آسمان کی طرف سے اعلان، اعلیٰ ہم آہنگی، کہ خدا،ہم آہنگی کا الٰہی اصول ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے، اور وہ اْس کے لوگ ہیں۔ پس انسان کو مزید قابل رحم گناہگار کے طور پر نہیں سمجھا گیا بلکہ خدا کا بابرکت فرزند سمجھا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ آسمان اور زمین سے متعلق مقدس یوحنا کی جسمانی حس غائب ہو چکی تھی، اور اس جھوٹی حس کی جگہ روحانی حس آگئی تھی، جو ایسی نفسی حالت تھی جس کے وسیلہ وہ نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھ سکتاتھا، جس میں روحانی خیال اور حقیقت کا شعور شامل ہے۔ یہ کلام کا اختیار یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے تھا کہ ہستی کی ایسی شناخت اس وجودیت کی موجودہ حالت میں انسان کے لئے ممکن ہے اور رہی تھی، کہ ہم موت، دْکھ اور درد کے آرام سے یہاں اور ابھی باخبر ہو سکتے ہیں۔ یہ قطعی کرسچن سائنس کی چاشنی ہے۔ برداشت کرنے والے عزیزو، حوصلہ کریں، کیونکہ ہستی کی یہ حقیقت یقینا کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں سامنے آئے گی۔ کوئی درد نہیں ہوگا، اور سب آنسو پونچھ دئیے جائیں گے۔

13. 573 : 3-31

The Revelator was on our plane of existence, while yet beholding what the eye cannot see, — that which is invisible to the uninspired thought. This testimony of Holy Writ sustains the fact in Science, that the heavens and earth to one human consciousness, that consciousness which God bestows, are spiritual, while to another, the unillumined human mind, the vision is material. This shows unmistakably that what the human mind terms matter and spirit indicates states and stages of consciousness.

Accompanying this scientific consciousness was another revelation, even the declaration from heaven, supreme harmony, that God, the divine Principle of harmony, is ever with men, and they are His people. Thus man was no longer regarded as a miserable sinner, but as the blessed child of God. Why? Because St. John's corporeal sense of the heavens and earth had vanished, and in place of this false sense was the spiritual sense, the subjective state by which he could see the new heaven and new earth, which involve the spiritual idea and consciousness of reality. This is Scriptural authority for concluding that such a recognition of being is, and has been, possible to men in this present state of existence, — that we can become conscious, here and now, of a cessation of death, sorrow, and pain. This is indeed a foretaste of absolute Christian Science. Take heart, dear sufferer, for this reality of being will surely appear sometime and in some way. There will be no more pain, and all tears will be wiped away.

14. . ۔ 208 :20۔24

آئیے حقیقی اور ابدی سے متعلق سیکھیں اور روح کی سلطنت، آسمان کی بادشاہی، عالمگیر ہم آہنگی کی بادشاہی اور حکمرانی کے لئے تیاری کریں جو کبھی کھو نہیں سکتی اور نہ ہمیشہ کے لئے اندیکھی رہ سکتی ہے۔

14. 208 : 20-24

Let us learn of the real and eternal, and prepare for the reign of Spirit, the kingdom of heaven, — the reign and rule of universal harmony, which cannot be lost nor remain forever unseen.

15. . ۔ 264 :28۔31

جب ہم کرسچن سائنس میں راستہ جانتے ہیں اور انسان کی روحانی ہستی کو پہچانتے ہیں، ہم خدا کی تخلیق کو سمجھیں اور دیکھیں گے،سارا جلال زمین اور آسمان اور انسان کے لئے۔

15. 264 : 28-31

When we learn the way in Christian Science and recognize man's spiritual being, we shall behold and understand God's creation, — all the glories of earth and heaven and man.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████