اتوار 27دسمبر، 2020



مضمون۔ کرسچن سائنس

SubjectChristian Science

سنہری متن: لوقا 18 باب27 آیت

یسوع مسیح۔ ”جو انسان سےنہیں ہو سکتا وہ خدا سے ہو سکتا ہے۔“



Golden Text: Luke 18 : 27

The things which are impossible with men are possible with God.”— Christ Jesus





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: مرقس 16 باب15تا18 آیات • دانی ایل 4باب3 آیت • زبور 77:14 آیت


15۔ تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔

16۔ جو ایمان لائے اور بپتسمہ لے وہ نجات پائے گا۔

17۔ اور ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔ وہ میرے نام سے بدروحوں کو نکالیں گے، نئی نئی زبانیں بولیں گے۔

18۔ سانپوں کو اٹھائیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پئیں گے تو انہیں کچھ ضرر نہ پہنچے گا۔وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو وہ اچھے ہو جائیں گے۔

3۔ اْس کے نشان کیسے عظیم اور اْس کے عجائب کیسے مہیب ہیں! اْس کی مملکت ابدی مملکت ہے اور اْس کی سلطنت پشت در پشت۔

14۔ تْو نے قوموں کے درمیان اپنی قدرت ظاہر کی۔

Responsive Reading: Mark 16 : 15-18;Daniel 4 : 3;Psalm 77 : 14

15.     Go ye into all the world, and preach the gospel to every creature.

16.     He that believeth and is baptized shall be saved;

17.     And these signs shall follow them that believe; In my name shall they cast out devils; they shall speak with new tongues;

18.     They shall take up serpents; and if they drink any deadly thing, it shall not hurt them; they shall lay hands on the sick, and they shall recover.

3.     How great are his signs! and how mighty are his wonders! his kingdom is an everlasting kingdom, and his dominion is from generation to generation.

14.     Thou art the God that doest wonders.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ یوحنا 1 باب 1تا3، 12(جتنوں نے)، 13 آیات

1۔ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔

2۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔

3۔ سب چیزیں اْسی کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا اْس میں سے کوئی چیز بھی اْس کے بغیر پیدا نہ ہوئی۔

12۔۔۔۔جتنوں نے اْسے قبول کیا اْس نے انہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اْنہیں جو اْس کے نام پر ایمان لاتے ہیں۔

13۔ وہ نہ خون سے جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔

1. John 1 : 1-3, 12 (as), 13

1     In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God.

2     The same was in the beginning with God.

3     All things were made by him; and without him was not any thing made that was made.

12     …as many as received him, to them gave he power to become the sons of God, even to them that believe on his name:

13     Which were born, not of blood, nor of the will of the flesh, nor of the will of man, but of God.

2۔ لوقا 1باب 26تا28،(تا)، 30(خوف)تا 35،37 آیات

26۔ چھٹے مہینے میں جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرت تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا۔

27۔ جس کی منگنی داؤد کے گھرانے کے ایک مرد یوسف نام سے ہوئی تھی اور اْس کنواری کا نام مریم تھا۔

28۔ اور فرشتے نے اْس کے پاس اندر آکر کہا سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے! خداوند تیرے ساتھ ہے۔

30۔ خوف نہ کر کیونکہ خداوند کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے۔

31۔ اور دیکھ تْو حاملہ ہوگی اور تیرے بیٹا ہوگا۔ اْس کا نام یسوع رکھنا۔

32۔ وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خداوند خدا اْس کے باپ داؤد کا تخت اْسے دے گا۔

33۔ اور وہ یعقوب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کرے گا اور اْس کی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا۔

34۔ مریم نے فرشتے سے کہا یہ کیونکر ہوگا جبکہ مَیں مرد کو نہیں جانتی؟

35۔ اور فرشتے نے جواب میں اْس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگا اور خدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہلائے گا۔

37۔ کیونکہ جو قول خدا کی طرف سے ہے وہ ہر گز بے تاثیر نہ ہوگا۔

2. Luke 1 : 26-28 (to :), 30 (Fear)-35, 37

26     And in the sixth month the angel Gabriel was sent from God unto a city of Galilee, named Nazareth,

27     To a virgin espoused to a man whose name was Joseph, of the house of David; and the virgin’s name was Mary.

28     And the angel came in unto her, and said, Hail, thou that art highly favoured, the Lord is with thee:

30     Fear not, Mary: for thou hast found favour with God.

31     And, behold, thou shalt conceive in thy womb, and bring forth a son, and shalt call his name JESUS.

32     He shall be great, and shall be called the Son of the Highest: and the Lord God shall give unto him the throne of his father David:

33     And he shall reign over the house of Jacob for ever; and of his kingdom there shall be no end.

34     Then said Mary unto the angel, How shall this be, seeing I know not a man?

35     And the angel answered and said unto her, The Holy Ghost shall come upon thee, and the power of the Highest shall overshadow thee: therefore also that holy thing which shall be born of thee shall be called the Son of God.

37     For with God nothing shall be impossible.

3۔ یوحنا 6 باب 1 (یسوع) تا 3،5، 6، 8 تا11، 26 (سچ) تا 29 آیات

1۔ اِن باتوں کے بعد یسوع گلیل کی جھیل یعنی تبریاس کی جھیل کے پار گیا۔

2۔ اور بڑی بھیڑ اْس کے پیچھے ہو لی کیونکہ جو معجزے وہ بیماروں پر کرتا تھا اْن کو وہ دیکھتے تھے۔

3۔ یسوع پہاڑ پر چڑھ گیا اور اپنے شاگردوں کے ساتھ وہاں بیٹھا۔

5۔ پس جب یسوع نے اپنی آنکھیں اْٹھا کر دیکھا کہ میرے پاس بڑی بھیڑ آرہی ہے تو فلپس سے کہا ہم اِن کے کھانے کے لئے کہاں سے روٹیاں مول لیں؟

6۔ مگر اْس نے اْسے آزمانے کے لئے یہ کہا کیونکہ وہ آپ جانتا تھا کہ مَیں کیا کروں گا۔

8۔ اْس کے شاگردوں میں سے ایک نے یعنی شمعون پطرس کے بھائی اندریاس نے اْس سے کہا۔

9۔ یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس جو کی پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں مگر یہ اتنے لوگوں میں کیا ہیں؟

10۔ یسوع نے کہا لوگوں کو بٹھاؤ اور اْس جگہ بہت گھاس تھی۔پس وہ مرد جو تخمیناً پانچ ہزار تھے بیٹھ گئے۔

11۔ یسوع نے روٹیاں لیں اور شکر کر کے انہیں جو بیٹھے تھے بانٹ دیں اور اِس طرح مچھلیوں میں سے جس قدر چاہتے تھے بانٹ دیا۔

26۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم مجھے اِس لئے نہیں ڈھونڈتے کہ معجزے دیکھے بلکہ اِس لئے کہ تم روٹیاں کھا کر سیر ہوئے۔

27۔ فانی خوراک کے لئے محنت نہ کرو بلکہ اْس خوراک کے لئے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے جسے ابنِ آدم تمہیں دے گا کیونکہ باپ یعنی خدا نے اْسی پر مہر کی ہے۔

28۔ پس اْنہوں نے اْس سے کہا کہ ہم کیا کریں تاکہ خدا کے کام انجام دیں؟

29۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا خدا کا کام یہ ہے جسے اْس نے بھیجا ہے اْس پر ایمان لاؤ۔

3. John 6 : 1 (Jesus)-3, 5, 6, 8-11, 26 (Verily)-29

1     Jesus went over the sea of Galilee, which is the sea of Tiberias.

2     And a great multitude followed him, because they saw his miracles which he did on them that were diseased.

3     And Jesus went up into a mountain, and there he sat with his disciples.

5     When Jesus then lifted up his eyes, and saw a great company come unto him, he saith unto Philip, Whence shall we buy bread, that these may eat?

6     And this he said to prove him: for he himself knew what he would do.

8     One of his disciples, Andrew, Simon Peter’s brother, saith unto him,

9     There is a lad here, which hath five barley loaves, and two small fishes: but what are they among so many?

10     And Jesus said, Make the men sit down. Now there was much grass in the place. So the men sat down, in number about five thousand.

11     And Jesus took the loaves; and when he had given thanks, he distributed to the disciples, and the disciples to them that were set down; and likewise of the fishes as much as they would.

26     Verily, verily, I say unto you, Ye seek me, not because ye saw the miracles, but because ye did eat of the loaves, and were filled.

27     Labour not for the meat which perisheth, but for that meat which endureth unto everlasting life, which the Son of man shall give unto you: for him hath God the Father sealed.

28     Then said they unto him, What shall we do, that we might work the works of God?

29     Jesus answered and said unto them, This is the work of God, that ye believe on him whom he hath sent.

4۔ یوحنا 12 باب 44 (وہ جو) تا46 آیات

44۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مجھ پر نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہے۔

45۔ اور جو مجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتا ہے۔

46۔ مَیں نور ہو کر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔

4. John 12 : 44 (He)-46

44     He that believeth on me, believeth not on me, but on him that sent me.

45     And he that seeth me seeth him that sent me.

46     I am come a light into the world, that whosoever believeth on me should not abide in darkness.

5۔ یوحنا 14 باب10 (باپ جو)، 12، 14 آیات

10۔۔۔۔باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے۔

12۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں۔

14۔ اگر میرے نام سے مجھ سے کچھ چاہو گے تو مَیں وہی کروں گا۔

5. John 14 : 10 (the Father that), 12, 14

10     …the Father that dwelleth in me, he doeth the works.

12     Verily, verily, I say unto you, He that believeth on me, the works that I do shall he do also; and greater works than these shall he do; because I go unto my Father.

14     If ye shall ask any thing in my name, I will do it.

6۔ 1 کرنتھیوں 2 باب5 (تمہارا)، 12 تا14، 16 آیات

5۔۔۔۔تمہار اایمان انسان کی حکمت نہیں بلکہ خدا کی قدرت پر موقوف ہو۔

12۔ مگر ہم نے نہ دنیا کی روح بلکہ وہ روح پایا ہے جو خدا کی طرف سے ہے تاکہ اْن باتوں کو جانیں جو خدا نے ہمیں عنایت کیں ہیں۔

13۔ اور ہم اْن باتوں کو اْن الفاظ میں بیان نہیں کرتے جو انسانی حکمت نے ہم کو سکھائے ہوں بلکہ اْن الفاظ میں جو روح نے سکھائے ہیں اور روحانی باتوں کا روحانی باتوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔

14۔ مگر نفسانی آدمی خدا کے روح کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اْس کے نزدیک بے وقوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ انہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ روحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں۔

16۔ خدا کی عقل کو کس نے جانا کہ اْس کو تعلیم دے سکے؟ مگر ہم میں مسیح کی عقل ہے۔

6. I Corinthians 2 : 5 (your), 12-14, 16

5     …your faith should not stand in the wisdom of men, but in the power of God.

12     Now we have received, not the spirit of the world, but the spirit which is of God; that we might know the things that are freely given to us of God.

13     Which things also we speak, not in the words which man’s wisdom teacheth, but which the Holy Ghost teacheth; comparing spiritual things with spiritual.

14     But the natural man receiveth not the things of the Spirit of God: for they are foolishness unto him: neither can he know them, because they are spiritually discerned.

16     For who hath known the mind of the Lord, that he may instruct him? But we have the mind of Christ.

7۔ 1 تواریخ 16 باب 11، 12، 24 آیات

11۔ تم خداوند اور اْس کی قوت کے طالب رہو تم سدا اْس کے دیدار کے طالب رہو۔

12۔ تم اْس کے عجیب کاموں کو جو اْس نے کئے اور اْس کے معجزوں اور منہ کے آئین کو یاد رکھو۔

24۔ قوموں میں اْس کے جلال کا سب لوگوں میں اْس کے عجائب کا بیان کرو۔

7. I Chronicles 16 : 11, 12, 24

11     Seek the Lord and his strength, seek his face continually.

12     Remember his marvellous works that he hath done, his wonders, and the judgments of his mouth;

24     Declare his glory among the heathen; his marvellous works among all nations.

8۔ لوقا 9 باب1، 2 آیات

1۔ پھر اْس نے اْن بارہ کو بلا کر سب بدروحوں پر اور بیماریوں کو دور کرنے کے لئے قدرت اور اختیار بخشا۔

2۔ اور انہیں خدا کی بادشاہی کی منادی کرنے اور بیماروں کو اچھا کرنے کے لئے بھیجا۔

8. Luke 9 : 1, 2

1     Then he called his twelve disciples together, and gave them power and authority over all devils, and to cure diseases.

2     And he sent them to preach the kingdom of God, and to heal the sick.

9۔ لوقا 10 باب2 (تا پہلا)، 16 (تا پہلا:)، 20 (خوش نہ ہو) آیات

2۔اور وہ اْن سے کہنے لگا۔

16۔ جو تمہاری سنتا ہے وہ میری سنتا ہے۔

20۔۔۔۔خوش نہ ہو کہ روحیں تمہارے تابع ہیں بلکہ اِس سے خوش ہو کہ تمہارے نام آسمان پر لکھے ہوئے ہیں۔

9. Luke 10 : 2 (to 1st ,), 16 (to 1st ;), 20 (rejoice not)

2     Therefore said he unto them,

16     He that heareth you heareth me;

20     …rejoice not, that the spirits are subject unto you; but rather rejoice, because your names are written in heaven.



سائنس اور صح


1۔ 293 :28۔31

کرسچن سائنس سچائی اور اِس کی عظمت، عالمگیر ہم آہنگی، خدا کی کاملیت، اچھائی اور بدی کے عدم کو روشنی میں لاتی ہے۔

1. 293 : 28-31

Christian Science brings to light Truth and its supremacy, universal harmony, the entireness of God, good, and the nothingness of evil.

2۔ 180 :25۔30

جب خدا، ازلی فہم جو سب باتیں سمجھتا ہے، انسان پر حکومت کرتا ہے تو انسان جانتا ہے کہ خدا کے لئے سب کچھ ممکن ہے۔ اِس زندہ سچائی کو جاننے کا واحد راستہ، جو بیمار کو شفا دیتی ہے، الٰہی فہم کی سائنس میں پایا جاتا ہے کیونکہ یہ مسیح یسوع کے وسیلہ سے سکھائی گئی اور ظاہر ہوئی۔

2. 180 : 25-30

When man is governed by God, the ever-present Mind who understands all things, man knows that with God all things are possible. The only way to this living Truth, which heals the sick, is found in the Science of divine Mind as taught and demonstrated by Christ Jesus.

3۔ 343 :14۔20

یسوع غلطی کے سارے بھیس بے نقاب کرتا ہے، جب اْس کی تعلیمات کو مکمل طور پر سمجھا جاتا ہے۔ تمثیل اور بحث کے ذریعے وہ اچھائی سے بدی پیدا کرنے کے عدم امکان کو واضح کرتا ہے؛ اور وہ سائنسی طور پر اِس بڑی حقیقت کو بیان کرتا ہے، معجزات کو ثابت کرتے ہوئے، کہ گناہ، بیماری اور موت وہ عقائد، پْر فریب غلطیاں، ہیں جنہیں وہ نیست کرسکتا ہے اور اْس نے کیا بھی۔

3. 343 : 14-20

Jesus strips all disguise from error, when his teachings are fully understood. By parable and argument he explains the impossibility of good producing evil; and he also scientifically demonstrates this great fact, proving by what are wrongly called miracles, that sin, sickness, and death are beliefs — illusive errors — which he could and did destroy.

4۔ 275 :6۔12، 23 (کہ)۔24

الٰہی سائنس کا واضح نقطہ یہ ہے کہ خدا، روح، حاکمِ کْل ہے، اور اْس کے علاوہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی عقل ہے، کہ خدا محبت ہے، اور اسی لئے وہ الٰہی اصول ہے۔

ہستی کی حقیقت اور ترتیب کو اْس کی سائنس میں تھامنے کے لئے، وہ سب کچھ حقیقی ہے اْس کے الٰہی اصول کے طور پر آپ کو خدا کا تصور کرنے کی ابتدا کرنی چاہئے۔

۔۔۔ یعنی کہ سبھی طاقت والا، ہر جگہ موجود اور سبھی سائنس پر قادر ہے۔ لہٰذہ حقیقت میں سبھی کچھ عقل کا اظہار ہے۔

4. 275 : 6-12, 23 (that)-24

The starting-point of divine Science is that God, Spirit, is All-in-all, and that there is no other might nor Mind, — that God is Love, and therefore He is divine Principle.

To grasp the reality and order of being in its Science, you must begin by reckoning God as the divine Principle of all that really is.

…that is, all power, all presence, all Science. Hence all is in reality the manifestation of Mind.

5۔ 150 :10 (دی)۔21

۔۔۔ کرسچن سائنس کا مشن اب، جیسا کہ اِس کے ابتدائی اظہار میں تھا، بنیادی طور پر جسمانی شفا نہیں ہے۔اب، جیسا تب تھا، علامات اور عجائبات جسمانی بیماری کی استعاراتی شفا میں کشیدہ کئے جاتے ہیں؛ مگر یہ علامات صرف اِس کے الٰہی اصل کو ظاہر کرنے، دنیا کے گناہوں کو اٹھالے جانے کے لئے مسیح کی طاقت کے بلند مشن کی حقیقت کی تصدیق کرنے کیلئے ہیں۔

طبیعیات کی(نام نہاد) سائنس ایک عقیدہ رکھے گی کہ مادا اور عقل دونوں بیماری کے ماتحت ہیں، اور وہ بھی الٰہی عقل کے قانون کے خلاف اور انفرادی احتجاج کے باوجود۔

5. 150 : 10 (the)-21

…the mission of Christian Science now, as in the time of its earlier demonstration, is not primarily one of physical healing. Now, as then, signs and wonders are wrought in the metaphysical healing of physical disease; but these signs are only to demonstrate its divine origin, — to attest the reality of the higher mission of the Christ-power to take away the sins of the world.

The science (so-called) of physics would have one believe that both matter and mind are subject to disease, and that, too, in spite of the individual's protest and contrary to the law of divine Mind.

6۔ 52 :19۔28

”غمزدہ شخص“ مادی زندگی اور ذہانت کے عدم کواور قادر جامع خدا، اچھائی کی قادر حقیقت کو بہتر طور پر سمجھا۔ شفائیہ عقل یا کرسچن سائنس کے یہ دوافضل نکات ہیں جنہوں نے اْسے محبت سے مسلح کیا۔خدا کے اعلیٰ ترین نمائندے نے، الٰہی اصول کی عکاسی کے لئے انسانی قابلیت سے متعلق بات کرتے ہوئے، اپنے شاگردوں سے پیشن گوئی کے طور پر، نہ صرف اپنے دور بلکہ ہر دور کے لئے کہا: ”جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا؛“ اور ”ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔“

6. 52 : 19-28

The "man of sorrows" best understood the nothingness of material life and intelligence and the mighty actuality of all-inclusive God, good. These were the two cardinal points of Mind-healing, or Christian Science, which armed him with Love. The highest earthly representative of God, speaking of human ability to reflect divine power, prophetically said to his disciples, speaking not for their day only but for all time: "He that believeth on me, the works that I do shall he do also;" and "These signs shall follow them that believe."

7۔ 328 :14۔30

انسان کی قوت کا یہ فہم، جب وہ خدا سے مسلح ہوتا ہے، افسوس کے ساتھ مسیحی تاریخ سے غائب ہو چکا ہے۔کئی صدیوں سے یہ مسیحت کا غیر فعال، کھویا ہوا عنصر ہے۔ہمارے مشنری انڈیا میں بائبل لے جاتے ہیں، مگر کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسے عملی طور پرسکھاتے ہیں، جیسے یسوع نے کیا، جب کہ سالانہ وہاں سینکڑوں لوگ سانپ کے کاٹنے سے مر جاتے ہیں؟روحانی قانون کو سمجھتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ کوئی مادی قانون نہیں ہے، یسوع نے کہا: ”ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔۔۔وہ سانپوں کو اٹھا لیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پئیں گے تو انہیں کچھ ضرر نہ پہنچے گا۔“اِس مقدس قول کو بہتر طور پر مسیحی مملکت نے مانا اور اِس کی فرمانبرداری کی۔

یسوع کا وعدہ مستقل ہے۔ اگر یہ صر ف اْس وقت کے شاگردوں کے لئے ہوتا تو کلام کا یہ حوالہ تم کا لفظ کہتا،نہ کہ وہ۔

7. 328 : 14-30

This understanding of man's power, when he is equipped by God, has sadly disappeared from Christian history. For centuries it has been dormant, a lost element of Christianity. Our missionaries carry the Bible to India, but can it be said that they explain it practically, as Jesus did, when hundreds of persons die there annually from serpent-bites? Understanding spiritual law and knowing that there is no material law, Jesus said: "These signs shall follow them that believe, … they shall take up serpents, and if they drink any deadly thing, it shall not hurt them. They shall lay hands on the sick, and they shall recover." It were well had Christendom believed and obeyed this sacred saying.

Jesus' promise is perpetual. Had it been given only to his immediate disciples, the Scriptural passage would read you, not they.

8۔ 11 :14۔15

اْس وقت کی طرح، اب بھی یہ قادر کام مافوق الفطرتی نہیں بلکہ انتہائی فطرتی ہیں۔

8. xi : 14-15

Now, as then, these mighty works are not supernatural, but supremely natural.

9۔ 591 :21۔22

معجزہ۔ وہ جو الٰہی طور پر فطری ہو، مگر اْسے انسانی طور پر سمجھا گیا ہو؛ایک سائنسی رجحان۔

9. 591 : 21-22

Miracle. That which is divinely natural, but must be learned humanly; a phenomenon of Science.

10۔ 134 :31 (تا،)

ایک معجزہ خدا کی شریعت کو پورا کرتا ہے۔

10. 134 : 31 (to ,)

A miracle fulfils God's law,

11۔ 471 :13۔17، 20۔21

الٰہی سائنس کے حقائق کو تسلیم کیا جانا چاہئے، اگرچہ اِن حقائق کا ثبوت بدی کے وسیلہ، مادے کے وسیلہ یا مادی فہم کے وسیلہ حمایت نہیں پاتا، کیونکہ یہ ثبوت کہ خدا اور انسان ہم عصر ہوتے ہیں مکمل طور پر روحانی فہم کے وسیلہ برقرار رہتا ہے۔ ۔۔۔”بلکہ خدا سچا ٹھہرے اور ہر ایک ]مادی[آدمی جھوٹا۔“

11. 471 : 13-17, 20-21

The facts of divine Science should be admitted, — although the evidence as to these facts is not supported by evil, by matter, or by material sense, — because the evidence that God and man coexist is fully sustained by spiritual sense. …"Let God be true, but every [material] man a liar."

12۔ 418 :21۔7

تمام مابعد الطبعیاتی منطق سچائی کے اِس سادہ اصول سے متاثر ہوتے ہیں، جو ساری حقیقت پر حکمرانی کرتا ہے۔سچے دلائل جو آپ استعمال کرتے ہیں اْن کے وسیلہ، اور خصوصاً سچائی اور محبت کی روح کے وسیلہ جسے آپ مانتے ہیں، آپ بیمار کو شفا دیں گے۔

غلطی کو نیست کرنے کی آپ کی کوششوں میں اخلاقی اور اِس کے ساتھ ساتھ جسمانی عقیدے کو بھی شامل کرلیں۔ بدی کے تمام انداز نکال باہر کریں۔ ”ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔“غلطی کی ہر شکل کے ساتھ سچ بولیں۔ رسولیاں، ناسور، تب دق، سوجن، درد، جوڑوں کی سوزش چلتے پھرتے خوابوں کے سایے، فانی سوچ کے تاریک خیالات ہیں جو سچائی کے نور سے بھاگتے ہیں۔

ایک اخلاقی سوال بیمار کی شفا میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ پوشیدہ غلطی، شہوت، حسد، بدلہ، بدنیتی یا نفرت بیماری پر ایمان کو مستقل بنا سکتا یا حتیٰ کہ پیدا بھی کر سکتا ہے۔ہر قسم کی غلطیاں اِس سمت میں رجحان رکھتی ہیں۔ آپ کا اصل مقصد دشمن کو فنا کرنا اور میدان خدا، زندگی، سچائی اور محبت کے لئے چھوڑ دینا ہے، یہ یاد رکھتے ہوئے کہ خدا اور اْس کے خیالات اکیلے حقیقی اور ہم آہنگ ہیں۔

12. 418 : 21-7

All metaphysical logic is inspired by this simple rule of Truth, which governs all reality. By the truthful arguments you employ, and especially by the spirit of Truth and Love which you entertain, you will heal the sick.

Include moral as well as physical belief in your efforts to destroy error. Cast out all manner of evil. "Preach the gospel to every creature." Speak the truth to every form of error. Tumors, ulcers, tubercles, inflammation, pain, deformed joints, are waking dream-shadows, dark images of mortal thought, which flee before the light of Truth.

A moral question may hinder the recovery of the sick. Lurking error, lust, envy, revenge, malice, or hate will perpetuate or even create the belief in disease. Errors of all sorts tend in this direction. Your true course is to destroy the foe, and leave the field to God, Life, Truth, and Love, remembering that God and His ideas alone are real and harmonious.

13۔ 342 :21۔26

کرسچن سائنس گناہ گار کو بیدار کرتی ہے، کافر کو سدھارتی ہے، اور بے بس معذور کو درد کے بستر سے اْٹھاتی ہے۔یہ بہرے کو سچائی کی باتیں سناتی ہے، اور وہ خوشی سے جواب دیتے ہیں۔ یہ بہرے کے سننے، لنگڑے کے چلنے اور اندھے کے دیکھنے کا سبب بنتی ہے۔

13. 342 : 21-26

Christian Science awakens the sinner, reclaims the infidel, and raises from the couch of pain the helpless invalid. It speaks to the dumb the words of Truth, and they answer with rejoicing. It causes the deaf to hear, the lame to walk, and the blind to see.

14۔ 37 :22۔27، 29۔31

یہ ممکن ہے، ہاں یہ ہر بچے، مرد اور عورت کی ذمہ داری اور استحقاق ہے کہ وہ زندگی اور سچائی، صحت اور پاکیزگی کے اظہار کے وسیلہ مالک کے نمونے کی کسی حد تک پیروی کریں۔ مسیحی لوگ اْس کے پیروکار ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر کیا وہ اْس کی پیروی اْسی طرح کرتے ہیں جیسے اْس نے حکم دیا ہے؟۔۔۔”تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو!“ ”بیمار کو شفا دو!“

14. 37 : 22-27, 29-31

It is possible, — yea, it is the duty and privilege of every child, man, and woman, — to follow in some degree the example of the Master by the demonstration of Truth and Life, of health and holiness. Christians claim to be his followers, but do they follow him in the way that he commanded? … "Go ye into all the world, and preach the gospel to every creature!" "Heal the sick!"


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████