اتوار 29 اگست،2021



مضمون۔ مسیح یسوع

SubjectChrist Jesus

سنہری متن: 1 تمیتھیس 2 باب5 آیت

”کیونکہ خدا ایک ہے اور خدا اور انسان کے بیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو انسان ہے۔“



Golden Text: I Timothy 2 : 5

For there is one God, and one mediator between God and men, the man Christ Jesus.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: یوحنا 1 باب6 تا 13، 16، 17 آیات


6۔ایک آدمی یوحنا نام آموجود ہوا جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔

7۔ یہ گواہی کے لئے آیا کہ نور کی گواہی دے تاکہ سب اُس کے وسیلہ سے ایمان لائیں۔

8۔وہ خود تو نور نہ تھا مگرنور کی گواہی دینے آیا تھا۔

9۔حقیقی نور جو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے دنیا میں آنے کو تھا۔

10۔وہ دنیا میں تھا اور دنیا اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئی اور دنیا نے اُسے نہ پہچانا۔

11۔وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا۔

12۔لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر اِیمان لاتے ہیں۔

13۔ وہ نہ خون سے جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔

16۔ کیونکہ اْس کی معموری میں سے ہم سب نے پایا یعنی فضل پر فضل۔

17۔ اس لئے کہ شریعت تو موسیٰ کی معرفت دی گئی مگر فضل اور سچائی یسوع مسیح کی معرفت پہنچی۔

Responsive Reading: John 1 : 6-13, 16, 17

7.     The same came for a witness, to bear witness of the Light, that all men through him might believe.

8.     He was not that Light, but was sent to bear witness of that Light.

9.     That was the true Light, which lighteth every man that cometh into the world.

10.     He was in the world, and the world was made by him, and the world knew him not.

11.     He came unto his own, and his own received him not.

12.     But as many as received him, to them gave he power to become the sons of God, even to them that believe on his name:

13.     Which were born, not of blood, nor of the will of the flesh, nor of the will of man, but of God.

16.     And of his fulness have all we received, and grace for grace.

17.     For the law was given by Moses, but grace and truth came by Jesus Christ.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ یسعیاہ 9 باب 2، 6، 7 آیات

2۔ جو لوگ تاریکی میں چلتے تھے انہوں نے بڑی روشنی دیکھی۔ جو موت کے سایہ کے ملک میں رہتے تھے اْن پر نور چمکا۔

6۔ اس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اْس کے کندھے پر ہوگی اور اْس کا نام عجیب مشیر خدائے قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شہزادہ ہوگا۔

7۔ اْس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی انتہا نہ ہوگی۔ وہ داؤد کے تخت اور اْس کی مملکت پر آج سے ابد تک حکمران رہے گا اور عدالت اور صداقت سے اْسے قیام بخشے گا رب الا افواج کی غیوری یہ کرے گی۔

1. Isaiah 9 : 2, 6, 7

2     The people that walked in darkness have seen a great light: they that dwell in the land of the shadow of death, upon them hath the light shined.

6     For unto us a child is born, unto us a son is given: and the government shall be upon his shoulder: and his name shall be called Wonderful, Counseller, The mighty God, The everlasting Father, The Prince of Peace.

7     Of the increase of his government and peace there shall be no end, upon the throne of David, and upon his kingdom, to order it, and to establish it with judgment and with justice from henceforth even for ever. The zeal of the Lord of hosts will perform this.

2۔ متی 4 باب23آیت

23۔اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور اْن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا۔

2. Matthew 4 : 23

23     And Jesus went about all Galilee, teaching in their synagogues, and preaching the gospel of the kingdom, and healing all manner of sickness and all manner of disease among the people.

3۔ متی 8 باب5تا10، 13 آیات

5۔ اور جب وہ کفر نحوم میں داخل ہوا تو ایک صوبہ دار اْس کے پاس آیا اور اْس کی منت کر کے کہا

6۔ اے خداوند میرا خادم فالج کا مارا گھرمیں پڑا ہے اور نہایت تکلیف میں ہے۔

7۔ اْس نے اْس سے کہا مَیں آکر اْسے شفا دوں گا۔

8۔ صوبہ دار نے جواب میں کہا اے خداوند مَیں اِس لائق نہیں کہ تْو میری چھت کے نیچے آئے بلکہ صرف زبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پا جا ئے گا۔

9۔ کیونکہ مَیں بھی دوسروں کے اختیار میں ہوں اور سپاہی میرے ماتحت ہیں جب ایک سے کہتا ہوں کہ جا تو وہ جاتا ہے اور دوسرے سے کہ آ تو وہ آتا ہے اور اپنے نوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے۔

10۔ یسوع نے یہ سْن کر تعجب کیا اور پیچھے آنے والوں سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مَیں نے اسرائیل میں بھی ایسا ایمان نہیں پایا۔

13۔ اور یسوع نے صوبہ دار سے کہا جا جیسا تو نے اعتقاد کیا ہے تیرے لئے ویسا ہی ہواور اْسی گھڑی خادم نے شفا پائی۔

3. Matthew 8 : 5-10, 13

5     And when Jesus was entered into Capernaum, there came unto him a centurion, beseeching him,

6     And saying, Lord, my servant lieth at home sick of the palsy, grievously tormented.

7     And Jesus saith unto him, I will come and heal him.

8     The centurion answered and said, Lord, I am not worthy that thou shouldest come under my roof: but speak the word only, and my servant shall be healed.

9     For I am a man under authority, having soldiers under me: and I say to this man, Go, and he goeth; and to another, Come, and he cometh; and to my servant, Do this, and he doeth it.

10     When Jesus heard it, he marvelled, and said to them that followed, Verily I say unto you, I have not found so great faith, no, not in Israel

13     And Jesus said unto the centurion, Go thy way; and as thou hast believed, so be it done unto thee. And his servant was healed in the selfsame hour.

4۔ متی 9 باب1تا8 آیات

1۔ پھر وہ کشتی پر چڑھ کر پار گیااور اپنے شہر میں آیا۔

2۔ اور دیکھو لوگ ایک مفلوج کو چار پائی پر پڑا ہوا اْس کے پاس لائے۔ یسوع نے اْن کا ایمان دیکھ کر مفلوج سے کہا بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے۔

3۔ اور دیکھو بعض فقیہوں نے اپنے دل میں کہا یہ کفر بکتا ہے۔

4۔ یسوع نے اْن کے خیال معلوم کر کے کہا تم کیوں اپنے دلوں میں برا خیال لاتے ہو؟

5۔ آسان کیا ہے۔ یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہ اٹھ اور چل پھر؟

6۔ لیکن اِس لئے کہ تم جان لو کہ ابنِ آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ (اْس نے مفلوج سے کہا) اْٹھ اپنی چار پائی اْٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔

7۔ وہ اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔

8۔ لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا۔

4. Matthew 9 : 1-8

1     And he entered into a ship, and passed over, and came into his own city.

2     And, behold, they brought to him a man sick of the palsy, lying on a bed: and Jesus seeing their faith said unto the sick of the palsy; Son, be of good cheer; thy sins be forgiven thee.

3     And, behold, certain of the scribes said within themselves, This man blasphemeth.

4     And Jesus knowing their thoughts said, Wherefore think ye evil in your hearts?

5     For whether is easier, to say, Thy sins be forgiven thee; or to say, Arise, and walk?

6     But that ye may know that the Son of man hath power on earth to forgive sins, (then saith he to the sick of the palsy,) Arise, take up thy bed, and go unto thine house.

7     And he arose, and departed to his house.

8     But when the multitudes saw it, they marvelled, and glorified God, which had given such power unto men.

5۔ یوحنا 4 باب 48 آیت (تا یسوع)

48۔ یسوع نے کہا۔

5. John 4 : 48 (to Jesus)

48     Then said Jesus

6۔ یوحنا 5 باب 19 (سچ) تا 21، 26، 30 آیات

19۔ پس یسوع نے اْن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سوائے اْس کے جو باپ کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جِن کاموں کو وہ کرتا ہے انہیں بیٹا بھی اْسی طرح کرتا ہے۔

20۔ اِس لئے کہ باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے اور جتنے کام خود کرتا ہے اْسے دکھاتا ہے بلکہ اِن سے بھی بڑے کام اْسے دکھائے گا تاکہ تم تعجب کرو۔

21۔ کیونکہ جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتا ہے اور زندہ کرتا ہے اور اْسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے۔

26۔ کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اْسی طرح اْس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔

30۔ مَیں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ جیسا سنتا ہوں عدالت کرتا ہوں اور میری عدالت راست ہے کیونکہ مَیں اپنی مرضی نہیں اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں۔

6. John 5 : 19 (Verily)-21, 26, 30

19     …Verily, verily, I say unto you, The Son can do nothing of himself, but what he seeth the Father do: for what things soever he doeth, these also doeth the Son likewise.

20     For the Father loveth the Son, and sheweth him all things that himself doeth: and he will shew him greater works than these, that ye may marvel.

21     For as the Father raiseth up the dead, and quickeneth them; even so the Son quickeneth whom he will.

26     For as the Father hath life in himself; so hath he given to the Son to have life in himself;

30     I can of mine own self do nothing: as I hear, I judge: and my judgment is just; because I seek not mine own will, but the will of the Father which hath sent me.

7۔ یوحنا 8 باب29 آیت

29۔ اور جس نے مجھے بھیجا ہے وہ میرے ساتھ ہے۔ اْس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ میں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اْسے پسند آتے ہیں۔

7. John 8 : 29

29     And he that sent me is with me: the Father hath not left me alone; for I do always those things that please him.

8۔ یوحنا 10 باب14تا16 آیات

14۔ اچھا چرواہا مَیں ہوں۔ جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور مَیں باپ کو جانتا ہوں۔

15۔ اْسی طرح مَیں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مجھے جانتی ہیں اور مَیں بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں۔

16۔ اور میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اِس بھیڑ خانہ کی نہیں۔ مجھے اْن کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا۔

8. John 10 : 14-16

14     I am the good shepherd, and know my sheep, and am known of mine.

15     As the Father knoweth me, even so know I the Father: and I lay down my life for the sheep.

16     And other sheep I have, which are not of this fold: them also I must bring, and they shall hear my voice; and there shall be one fold, and one shepherd.

9۔ یوحنا 14 باب8تا12 آیات

8۔ فلپس نے اْس سے کہا اے خداوند! باپ کو ہم کو دکھا۔ یہی ہمیں کافی ہے۔

9۔ یسوع نے اْس سے کہا اے فلپس! مَیں اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تْو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا ہے اْس نے باپ کو دیکھا ہے۔ تْو کیونکہ کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟

10۔ کیا تْو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو مَیں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر کام کرتا ہے۔

11۔ میرا یقین کرو کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو۔

12۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں۔

9. John 14 : 8-12

8     Philip saith unto him, Lord, shew us the Father, and it sufficeth us.

9     Jesus saith unto him, Have I been so long time with you, and yet hast thou not known me, Philip? he that hath seen me hath seen the Father; and how sayest thou then, Shew us the Father?

10     Believest thou not that I am in the Father, and the Father in me? the words that I speak unto you I speak not of myself: but the Father that dwelleth in me, he doeth the works.

11     Believe me that I am in the Father, and the Father in me: or else believe me for the very works’ sake.

12     Verily, verily, I say unto you, He that believeth on me, the works that I do shall he do also; and greater works than these shall he do; because I go unto my Father.

10۔ یوحنا 3 باب16، 17 آیات

16۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

17۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اِس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اِس لئے کہ دنیا اْس کے وسیلہ سے نجات پائے۔

10. John 3 : 16, 17

16     For God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.

17     For God sent not his Son into the world to condemn the world; but that the world through him might be saved

11۔ یوحنا 17 باب1تا3 آیات

1۔ یسوع نے یہ باتیں کہیں اوراپنی آنکھیں آسمان کی طرف اْٹھا کر کہا اے باپ! وہ گھڑی آپہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔

2۔ چنانچہ تْو نے اْسے ہر بشر پر اختیار دیا ہے تاکہ جنہیں تْو نے اْسے بخشا ہے اْن سب کو ہمیشہ کی زندگی دے۔

3۔ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور بر حق کو اور یسوع مسیح کو جسے تْو نے بھیجا ہے جانیں۔

11. John 17 : 1-3

1     These words spake Jesus, and lifted up his eyes to heaven, and said, Father, the hour is come; glorify thy Son, that thy Son also may glorify thee:

2     As thou hast given him power over all flesh, that he should give eternal life to as many as thou hast given him.

3     And this is life eternal, that they might know thee the only true God, and Jesus Christ, whom thou hast sent.



سائنس اور صح


1۔ 332 :9 (مسیح)۔17، 19 (یسوع)۔22، 23 (یسوع)۔26، 29۔2

مسیح اچھا ظاہر ہونے والا حقیقی خیال، انسانی ضمیر کے ساتھ بات کرنے والابشر کے لئے خدا کا پیغام ہے۔مسیح غیر مادی، روحانی، ہاں، الٰہی شبیہ اور صورت، حواس کے فریب کی تردید کرنے والا؛ راہ، حق اور زندگی، بیماروں کو شفا دینے اور بدروحوں کو نکالنے والا، گناہ، بیماری اور موت کو نیست کرنے والا ہے۔ جیسے پولوس کہتا ہے: ”خدا ایک ہے اور خدا اور انسان کے بیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو انسان ہے۔“

یسوع نے مسیح کو ظاہر کیا؛ اْس نے یہ ثابت کیا کہ مسیح خدا، پاک روح یا سلامتی دینے والے کا الٰہی خیال ہے، جو الٰہی اصول، محبت کو ظاہر کرتا ہے اور ساری سچائی کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔

یسوع ایک کنواری کا بیٹا تھا۔ اْسے خدا کا کلام سنانے کے لئے اور ایک ایسی انسانی شکل میں بشر پر ظاہر ہونے کے لئے مقرر کیا گیا تھا جسے وہ سمجھ سکتے اور ساتھ ہی ساتھ اس کا ادراک پا سکیں۔۔۔۔اْس نے الوہیت کی اعلیٰ قسم ظاہر کی، جسے ایک جسمانی شکل ہی اْس دور میں ظاہر کر سکتی تھی۔ایک حقیقی اور مثالی انسان میں جسمانی عنصر داخل نہیں ہو سکتا۔تاہم یہ مسیح ہی ہے جو اپنی صورت پر بنائے گئے انسان اور خدا کے مابین اتفاق یا روحانی معاہدے کو بیان کرتا ہے۔

1. 332 : 9 (Christ)-17, 19 (Jesus)-22, 23 (Jesus)-26, 29-2

Christ is the true idea voicing good, the divine message from God to men speaking to the human consciousness. The Christ is incorporeal, spiritual, — yea, the divine image and likeness, dispelling the illusions of the senses; the Way, the Truth, and the Life, healing the sick and casting out evils, destroying sin, disease, and death. As Paul says: "There is one God, and one mediator between God and men, the man Christ Jesus."

Jesus demonstrated Christ; he proved that Christ is the divine idea of God — the Holy Ghost, or Comforter, revealing the divine Principle, Love, and leading into all truth.

Jesus was the son of a virgin. He was appointed to speak God's word and to appear to mortals in such a form of humanity as they could understand as well as perceive. … He expressed the highest type of divinity, which a fleshly form could express in that age. Into the real and ideal man the fleshly element cannot enter. Thus it is that Christ illustrates the coincidence, or spiritual agreement, between God and man in His image.

2۔ 333 :8 (مسیح)۔9

۔۔۔الٰہی خطاب یسوع کی مانند مسیح کوئی نام نہیں ہے۔

2. 333 : 8 (Christ)-9

… Christ is not a name so much as the divine title of Jesus.

3۔ 136 :1۔8

یسوع نے مسیح کی شفا کی روحانی بنیاد پر اپنا چرچ قائم کیا اور اپنے مشن کو برقرار رکھا۔ اْس نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ اْس کا مذہب الٰہی اصول تھا، جو خطا کو خارج کرتا اور بیمار اور گناہگار دونوں کو شفا دیتا تھا۔ اْس نے خدا سے جدا کسی دانش، عمل اور نہ ہی زندگی کا دعویٰ کیا۔ باوجود اْس ایذا کے جو اِسی کے باعث اْس پر آئی، اْس نے الٰہی قوت کو انسان کو بدنی اور روحانی دونوں لحاظ سے نجات دینے کے لئے استعمال کیا۔

3. 136 : 1-8

Jesus established his church and maintained his mission on a spiritual foundation of Christ-healing. He taught his followers that his religion had a divine Principle, which would cast out error and heal both the sick and the sinning. He claimed no intelligence, action, nor life separate from God. Despite the persecution this brought upon him, he used his divine power to save men both bodily and spiritually.

4۔ 473 :26۔3

اپنے کاموں کو اپنے الفاظ کی نسبت زیادہ ترجیح دیتے ہوئے یسوع نے جو کہا اْسے اظہار کی بدولت پورا کیا۔جو اْس نے سکھایا اْسے ثابت کیا۔ یہی مسیحت کی سائنس ہے۔ یسوع نے اْس اصول کو، جو بیمار کو شفا دیتا اور غلطی کو باہر نکالتا ہے، الٰہی ثابت کیا۔تاہم اْس کے چند طالب علم ہی اْس کی تعلیمات اور اْن کے جلالی ثبوتوں کو سمجھ پائے، جیسے کہ، زندگی، حق اور محبت (اِس غیر تسلیم شدہ سائنس کا اصول) ساری غلطی، بدی، بیماری اور موت کو نیست کرتا ہے۔

4. 473 : 26-3

Jesus established what he said by demonstration, thus making his acts of higher importance than his words. He proved what he taught. This is the Science of Christianity. Jesus proved the Principle, which heals the sick and casts out error, to be divine. Few, however, except his students understood in the least his teachings and their glorious proofs, — namely, that Life, Truth, and Love (the Principle of this unacknowledged Science) destroy all error, evil, disease, and death.

5۔ 28 :15۔21

یسوع کی نہ تو پیدائش، کردار اور نہ ہی کام عمومی طور پر سمجھا گیا۔ اْس کی فطرت کے ایک بھی جزو کومادی دنیا نے صحیح نہ مانا۔ حتیٰ کہ اْس کی راستی اور پاکیزگی نے بھی آدمیوں کو یہ کہنے سے باز نہ رکھا کہ: یہ پیٹو اور ناپاک لوگوں کا دوست ہے اور بعلزبول اِس کا سر پرست ہے۔

5. 28 : 15-21

Neither the origin, the character, nor the work of Jesus was generally understood. Not a single component part of his nature did the material world measure aright. Even his righteousness and purity did not hinder men from saying: He is a glutton and a friend of the impure, and Beelzebub is his patron.

6۔ 482 :19۔25

یسوع کامل انسان کا بلند ترین انسانی تصور تھا۔ وہ اْس مسیح، مسیحا سے غیر منفک تھا جو بدن کے بغیر خدا کا الٰہی خیال تھا۔اِس نے یسوع کو مادے پر اپنا اختیار ظاہر کرنے کے قابل بنایا۔فرشتوں نے اِس دوہرے ظہور سے متعلق مجوسیوں کو بتایا، اور فرشتوں نے ایمان کے وسیلہ ہرزمانے میں آرزو رکھنے والے دلوں کے لئے اِس کی سرگوشی کی۔

6. 482 : 19-25

Jesus was the highest human concept of the perfect man. He was inseparable from Christ, the Messiah, — the divine idea of God outside the flesh. This enabled Jesus to demonstrate his control over matter. Angels announced to the Wisemen of old this dual appearing, and angels whisper it, through faith, to the hungering heart in every age.

7۔ 52 :19۔28

”غمزدہ شخص“ مادی زندگی اور ذہانت کے عدم کواور قادر جامع خدا، اچھائی کی قادر حقیقت کو بہتر طور پر سمجھا۔ شفائیہ عقل یا کرسچن سائنس کے یہ دوافضل نکات ہیں جنہوں نے اْسے محبت سے مسلح کیا۔خدا کے اعلیٰ ترین نمائندے نے، الٰہی اصول کی عکاسی کے لئے انسانی قابلیت سے متعلق بات کرتے ہوئے، اپنے شاگردوں سے پیشن گوئی کے طور پر، نہ صرف اپنے دور بلکہ ہر دور کے لئے کہا: ”جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا؛“ اور ”ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔“

7. 52 : 19-28

The "man of sorrows" best understood the nothingness of material life and intelligence and the mighty actuality of all-inclusive God, good. These were the two cardinal points of Mind-healing, or Christian Science, which armed him with Love. The highest earthly representative of God, speaking of human ability to reflect divine power, prophetically said to his disciples, speaking not for their day only but for all time: "He that believeth on me, the works that I do shall he do also;" and "These signs shall follow them that believe."

8۔ 146 :2 (دی)۔12

قدیم مسیحی معالج تھے۔مسیحت کا یہ عنصر کھو کیوں گیا ہے؟ کیونکہ ہمارا مذہبی نظام کم و بیش ہمارے طبی نظاموں کے زیر اطاعت ہوگیا ہے۔ پہلی بت پرستی مادے پر یقین تھا۔سکولوں نے خدائی پر ایمان کی بجائے، منشیات کے فیشن پر ایمان کو فروغ دیا ہے۔ مادے کے اپنے ہی مخالف کو تباہ کرنے کا یقین رکھتے ہوئے، صحت اور ہم آہنگی کو قربان کر دیا گیا ہے۔ اس قسم کے نظام روحانی قوت کی وحدت سے بنجر ہوتے ہیں، جس کے باعث مادی فہم سائنس کا غلام بنایا جاتا ہے اور مذہب مسیح کی مانند بن جاتا ہے۔

8. 146 : 2 (The)-12

The ancient Christians were healers. Why has this element of Christianity been lost? Because our systems of religion are governed more or less by our systems of medicine. The first idolatry was faith in matter. The schools have rendered faith in drugs the fashion, rather than faith in Deity. By trusting matter to destroy its own discord, health and harmony have been sacrificed. Such systems are barren of the vitality of spiritual power, by which material sense is made the servant of Science and religion becomes Christlike.

9۔ 347 :14۔22

مسیح،بطور خدا کے روحانی اور حقیقی خیال، ماضی کی طرح اب بھی، غریبوں کو خوشخبری کی تعلیم دیتے ہوئے، بیماروں کو شفا دیتے ہوئے اور بدروحوں کو نکالتے ہوئے،آتا ہے۔ کیا یہ غلطی ہے جو مسیحت کے لازمی عنصر کو بحال کر رہی ہے، یعنی رسولی، الٰہی شفاکو؟ جی نہیں؛ یہ مسیحت کی سائنس ہے جو یہ بحال کر رہی ہے، اور یہ تاریکی میں چمکنے والا نور ہے، جسے تاریکی نہیں پہچانتی۔

9. 347 : 14-22

Christ, as the spiritual or true idea of God, comes now as of old, preaching the gospel to the poor, healing the sick, and casting out evils. Is it error which is restoring an essential element of Christianity, — namely, apostolic, divine healing? No; it is the Science of Christianity which is restoring it, and is the light shining in darkness, which the darkness comprehends not.

10۔ 54 :8۔10

اْس کی تعلیم اور نمونے کی پیروی کرنے کے لئے کون تیار ہے؟ سب کو جلد یا بدیر مسیح یعنی خدا کے حقیقی تصور میں خود کو پیوست کرنا ہوگا۔

10. 54 : 8-10

Who is ready to follow his teaching and example? All must sooner or later plant themselves in Christ, the true idea of God.

11۔ 286 :9۔15

مالک نے کہا، ”کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ(ہستی کے الٰہی اصول) کے پاس نہیں آتا،“ یعنی مسیح، زندگی، حق اور محبت کے بغیر؛ کیونکہ مسیح کہتا ہے، ”راہ مَیں ہوں۔“ اس اصلی انسان، یسوع، کی بدولت طبیب کے اسباب کو پہلے درجے سے آخری تک کر دیا گیاتھا۔ وہ جانتا تھا کہ الٰہی اصول یعنی محبت اْس سب کو خلق کرتا اور اْس پر حکمرانی کرتا ہے جو حقیقی ہے۔

11. 286 : 9-15

The Master said, "No man cometh unto the Father [the divine Principle of being] but by me," Christ, Life, Truth, Love; for Christ says, "I am the way." Physical causation was put aside from first to last by this original man, Jesus. He knew that the divine Principle, Love, creates and governs all that is real.

12۔ 476 :32۔5

یسوع نے سائنس میں کامل آدمی کو دیکھا جو اْس پر وہاں ظاہر ہوا جہاں گناہ کرنے والا فانی انسان لافانی پر ظاہر ہوا۔ اس کامل شخص میں نجات دہندہ نے خدا کی اپنی شبیہ اور صورت کو دیکھا اور انسان کے اس درست نظریے نے بیمار کو شفا بخشی۔ لہٰذہ یسوع نے تعلیم دی کہ خدا برقرار اور عالمگیر ہے اور یہ کہ انسان پاک اور مقدس ہے۔

12. 476 : 32-5

Jesus beheld in Science the perfect man, who appeared to him where sinning mortal man appears to mortals. In this perfect man the Saviour saw God's own likeness, and this correct view of man healed the sick. Thus Jesus taught that the kingdom of God is intact, universal, and that man is pure and holy.

13۔ 494 :10۔14، 30۔2

الٰہی محبت نے ہمیشہ انسانی ضرورت کو پورا کیا ہے اور ہمیشہ پورا کرے گی۔ اس بات کا تصور کرنا مناسب نہیں کہ یسوع نے محض چند مخصوص تعداد میں یا محدود عرصے تک شفا دینے کے لئے الٰہی طاقت کا مظاہرہ کیا، کیونکہ الٰہی محبت تمام انسانوں کے لئے ہر لمحہ سب کچھ مہیا کرتی ہے۔

ہمارے مالک نے بدروحوں (برائیوں) کو نکالا اور بیمار کو شفا دی۔ یہ اْس کے پیروکاروں کے بارے میں بھی کہا جانا چاہئے کہ انہوں نے خود میں سے اور دوسروں میں سے خوف اور بدی کو نکال دیا اور بیمار کو شفا دی۔ جب بھی انسان پر خدا کی حکمرانی ہوتی ہے، خدا بیمار کو انسان کے وسیلہ شفادے گا۔سچائی غلطی کو اب بھی اتنے یقین کے ساتھ باہر نکال پھینکتی ہے جیسے اِس نے اْنیس صدیاں پہلے کیا تھا۔

13. 494 : 10-14, 30-2

Divine Love always has met and always will meet every human need. It is not well to imagine that Jesus demonstrated the divine power to heal only for a select number or for a limited period of time, since to all mankind and in every hour, divine Love supplies all good.

Our Master cast out devils (evils) and healed the sick. It should be said of his followers also, that they cast fear and all evil out of themselves and others and heal the sick. God will heal the sick through man, whenever man is governed by God.

14۔ 565 :13۔18

ہمارے مالک کی زمینی زندگی میں روحانی خیال کے روپ کی ایک مختصر سی تاریخ تھی؛ مگر ”اْس کی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا،“ کیونکہ مسیح، خدا کا خیال، تمام قوموں اور امتوں پر الٰہی سائنس کے ساتھ آمرانہ طور پر، مکمل طور پر، فیصلہ کن انداز میں حکومت کرے گا۔

14. 565 : 13-18

The impersonation of the spiritual idea had a brief history in the earthly life of our Master; but "of his kingdom there shall be no end," for Christ, God's idea, will eventually rule all nations and peoples — imperatively, absolutely, finally — with divine Science.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████