اتوار 3 ستمبر ، 2023
”کامل آدمی پر نگاہ کر اور راستباز کو دیکھ کیونکہ صلح دوست آدمی کے لئے اجر ہے۔“
“Mark the perfect man, and behold the upright: for the end of that man is peace.”
1۔ مبارک ہے وہ آدمی جو شریروں کی راہ پر نہیں چلتا اور خطاکاروں کی راہ میں کھڑا نہیں ہوتا اور ٹھٹھہ بازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتا۔
2۔ بلکہ خداوند کی شریعت میں اْس کی خوشنودی ہے اور اْسی کی شریعت پر دن رات اْس کا دھیان رہتا ہے۔
3۔ وہ اْس درخت کی مانند ہوگا جو پانی کی ندیوں کے پاس لگایا گیا ہے۔ جو اپنے وقت پر پھلتا اور جس کا پتا بھی نہیں مرجھاتا۔ سو جو کچھ وہ کرے بار آور ہوگا۔
4۔ شریر ایسے نہیں بلکہ وہ بھْوسے کی مانند ہیں جسے ہوا اڑا لے جاتی ہے۔
5۔ اِس لئے شریر عدالت میں قائم نہ رہیں گے نہ خطاکار صادقوں کی جماعت میں۔
6۔ کیونکہ خداوند صادقوں کی راہ جانتا ہے پر شریروں کی راہ نابود ہو جائے گی۔
1. Blessed is the man that walketh not in the counsel of the ungodly, nor standeth in the way of sinners, nor sitteth in the seat of the scornful.
2. But his delight is in the law of the Lord; and in his law doth he meditate day and night.
3. And he shall be like a tree planted by the rivers of water, that bringeth forth his fruit in his season; his leaf also shall not wither; and whatsoever he doeth shall prosper.
4. The ungodly are not so: but are like the chaff which the wind driveth away.
5. Therefore the ungodly shall not stand in the judgment, nor sinners in the congregation of the righteous.
6. For the Lord knoweth the way of the righteous: but the way of the ungodly shall perish.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ خداوند کی حمد کرو! اے میری جان خداوند کی حمد کر!
2۔مَیں عمر بھر خداوند کی حمد کروں گا۔ جب تک میرا وجود ہے مَیں اپنے خداوند کی مدح سرائی کروں گا۔
3۔ نہ اْمرا پر بھروسہ کرو نہ آدم زاد پر۔ وہ بچا نہیں سکتا۔
4۔ اْس کا دم نکل جاتا ہے تو وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔ اْسی دن اْس کے منصوبے فنا ہوجاتے ہیں۔
5۔ خوش نصیب ہے وہ جس کا مددگار یعقوب کا خدا ہے۔ اور جس کی اْمید خداوند اْس کے خدا سے ہے۔
6۔ جس نے آسمان اور زمین اور سمندر کو اور جو کچھ اْن میں ہے بنایا۔ وہ سچائی کو ہمیشہ قائم رکھتا ہے۔
7۔ جو مظلوموں کا انصاف کرتا ہے۔ جوبھوکوں کوکھانا دیتا ہے۔ خداوند قیدوں کو آزاد کرتا ہے۔
8۔ خداوند اندھوں کی آنکھیں کھولتا ہے۔ خداوند جھکے کو اْٹھا کھڑا کرتا ہے۔ خداوند صادقوں سے محبت کرتا ہے۔
9۔ خداوند پردیسوں کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ یتیم اور بیوہ کو سنبھالتا ہے۔ لیکن شریروں کی راہ ٹیڑھی کر دیتا ہے۔
10۔ خداوند ابد تک سلطنت کرے گا۔ اے صیون! تیرا خدا پشت در پشت۔ خداوند کی حمد کرو۔
1 Praise ye the Lord. Praise the Lord, O my soul.
2 While I live will I praise the Lord: I will sing praises unto my God while I have any being.
3 Put not your trust in princes, nor in the son of man, in whom there is no help.
4 His breath goeth forth, he returneth to his earth; in that very day his thoughts perish.
5 Happy is he that hath the God of Jacob for his help, whose hope is in the Lord his God:
6 Which made heaven, and earth, the sea, and all that therein is: which keepeth truth for ever:
7 Which executeth judgment for the oppressed: which giveth food to the hungry. The Lord looseth the prisoners:
8 The Lord openeth the eyes of the blind: the Lord raiseth them that are bowed down: the Lord loveth the righteous:
9 The Lord preserveth the strangers; he relieveth the fatherless and widow: but the way of the wicked he turneth upside down.
10 The Lord shall reign for ever, even thy God, O Zion, unto all generations. Praise ye the Lord.
1۔ پھر اْس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا۔
2۔اور اْس کے شاگردوں نے اْس سے پوچھا اے ربی! کس نے گناہ کیا تھا جو یہ اندھا پیدا ہوا۔ اس شخص نے یا اِس کے ماں باپ نے؟
3۔ یسوع نے جواب دیا کہ نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے یہ اِس لئے ہوا کہ خدا کے کام اْس میں ظاہر ہوں۔
4۔ جس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اْس کے کام دن ہی دن میں کرنا ضرور ہے۔ وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا۔
5۔ جب تک مَیں دنیا میں دنیا کا نور ہوں۔
6۔یہ کہہ کر اْس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مِٹی سانی اور وہ مٹی اندھے کی آنکھوں پر لگا کر
7۔اْس سے کہا جا شیلوخ (جس کا ترجمہ ”بھیجا ہوا“ ہے) کے حوض میں دھو لے۔ پس اْس نے جا کر دھویا اور بِینا ہو کر واپس آیا۔
8۔ پس پڑوسی اور جن جن لوگوں نے پہلے اْس کو بھیک مانگتے دیکھا تھا کہنے لگے کیا یہ وہ نہیں جو بیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا؟
9۔ بعض نے کہا یہ وہی ہے اوَوروں نے کہا نہیں لیکن کوئی اْس کا ہمشکل ہے۔ اْس نے کہا مَیں وہی ہوں۔
10۔ پس وہ اْس سے کہنے لگے پھر تیری آنکھیں کیونکر کھل گئیں؟
11۔ اْس نے جواب دیا کہ اْس شخص نے جس کا نام یسوع ہے مٹی سانی اور میری آنکھوں پر لگا کر مجھ سے کہا شیلوخ میں جا کر دھو لے۔ پس مَیں گیا اور دھو کر بینا ہوگیا۔
1 And as Jesus passed by, he saw a man which was blind from his birth.
2 And his disciples asked him, saying, Master, who did sin, this man, or his parents, that he was born blind?
3 Jesus answered, Neither hath this man sinned, nor his parents: but that the works of God should be made manifest in him.
4 I must work the works of him that sent me, while it is day: the night cometh, when no man can work.
5 As long as I am in the world, I am the light of the world.
6 When he had thus spoken, he spat on the ground, and made clay of the spittle, and he anointed the eyes of the blind man with the clay,
7 And said unto him, Go, wash in the pool of Siloam, (which is by interpretation, Sent.) He went his way therefore, and washed, and came seeing.
8 The neighbours therefore, and they which before had seen him that he was blind, said, Is not this he that sat and begged?
9 Some said, This is he: others said, He is like him: but he said, I am he.
10 Therefore said they unto him, How were thine eyes opened?
11 He answered and said, A man that is called Jesus made clay, and anointed mine eyes, and said unto me, Go to the pool of Siloam, and wash: and I went and washed, and I received sight.
31۔ یسوع نے کہا اب ابنِ آدم نے جلال پایا اور خدا نے اْس میں جلال پایا۔
31 Jesus said, Now is the Son of man glorified, and God is glorified in him.
1۔ انگور کا حقیقی درخت مَیں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔
2۔ جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اورجو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے تاکہ زیادہ پھل لائے۔
3۔ اب تم اُس کلام کے سبب سے جو مَیں نے تم سے کیا پاک ہو۔
4۔ تم مجھ میں قائم رہو اور مَیں تم میں۔ جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لاسکتی اُسی طرح تم بھی اگر مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لاسکتے۔
5۔ مَیں انگور کا درخت ہوں تُم ڈالیاں ہو۔ جو مجھ قائم رہتا ہے اور مَیں اُس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جدا ہوکرتم کچھ نہیں کرسکتے۔
6۔اگر کوئی مجھ میں قائم نہ رہے تو وہ ڈالی کی طرح پھینک دیا جاتا اور سُوکھ جاتا ہے اور لوگ اُنہِیں جمع کر کے آگ میں جھونک دیتے ہیں اور وہ جل جاتی ہیں۔
7۔ اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں قائم رہیں تو جو چاہو مانگو۔ وہ تمہارے لئے ہوجائے گا۔
8۔میرے باپ کا جلال اِسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔
9۔جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی مَیں نے تم سے محبت رکھی تم میری محبت میں قائم رہو۔
10۔ اگر تم میرے حکموں پر عمل کروگے تو میری محبت میں قائم رہوگے جیسے مَیں نے اپنے باپ کے حُکموں پر عمل کیا ہے اور اُس کی محبت میں قائم ہوں۔
1 I am the true vine, and my Father is the husbandman.
2 Every branch in me that beareth not fruit he taketh away: and every branch that beareth fruit, he purgeth it, that it may bring forth more fruit.
3 Now ye are clean through the word which I have spoken unto you.
4 Abide in me, and I in you. As the branch cannot bear fruit of itself, except it abide in the vine; no more can ye, except ye abide in me.
5 I am the vine, ye are the branches: He that abideth in me, and I in him, the same bringeth forth much fruit: for without me ye can do nothing.
6 If a man abide not in me, he is cast forth as a branch, and is withered; and men gather them, and cast them into the fire, and they are burned.
7 If ye abide in me, and my words abide in you, ye shall ask what ye will, and it shall be done unto you.
8 Herein is my Father glorified, that ye bear much fruit; so shall ye be my disciples.
9 As the Father hath loved me, so have I loved you: continue ye in my love.
10 If ye keep my commandments, ye shall abide in my love; even as I have kept my Father’s commandments, and abide in his love.
35۔ کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال نہ ننگا پن یا خطرہ یا تلوار؟
38۔ کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی محبت جو ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہے اْس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی۔
39۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں۔ نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق۔
35 Who shall separate us from the love of Christ? shall tribulation, or distress, or persecution, or famine, or nakedness, or peril, or sword?
38 For I am persuaded, that neither death, nor life, nor angels, nor principalities, nor powers, nor things present, nor things to come,
39 Nor height, nor depth, nor any other creature, shall be able to separate us from the love of God, which is in Christ Jesus our Lord.
3۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ ملک میں آباد رہ اور اْس کی وفاداری سے پرورش پا۔
4۔ خداوند میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا۔
5۔ اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے اور اْس پر توکل کر۔وہی سب کچھ کرے گا۔
6۔ وہ تیری راستبازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔
7۔ خداوند میں مطمین رہ اور صبر سے اْس کی آس رکھ۔
3 Trust in the Lord, and do good; so shalt thou dwell in the land, and verily thou shalt be fed.
4 Delight thyself also in the Lord; and he shall give thee the desires of thine heart.
5 Commit thy way unto the Lord; trust also in him; and he shall bring it to pass.
6 And he shall bring forth thy righteousness as the light, and thy judgment as the noonday.
7 Rest in the Lord, and wait patiently for him:
4۔ جب مسیح جو ہماری زندگی ہے ظاہر کیا جائے گا تو تم بھی اْس کے ساتھ جلال میں ظاہر کئے جاؤ گے۔
12۔ پس خدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔
13۔ اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے خداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔
14۔ اور اِن سب کے اوپر محبت کو جو کمال کا پٹکا ہے باندھ لو۔
15۔ اور مسیح کا اطمینان جس کے لئے تم ایک بدن ہوکر بلائے بھی گئے ہو تمہارے دلوں پر حکومت کرے اور تم شکرگزار رہو۔
16۔ مسیح کے کلام کو اپنے دلوں میں کثرت سے بسنے دو اور کمال دانائی سے آپس میں تعلیم اور نصیحت کرو اور اپنے دلوں میں فضل کے ساتھ خدا کے لئے مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گاؤ۔
17۔ اور کلام یا کام جو کچھ کرتے ہو وہ سب خداوند یسوع کے نام سے کرو اور اْسی کے وسیلہ سے خدا باپ کا شکر بجا لاؤ۔
4 When Christ, who is our life, shall appear, then shall ye also appear with him in glory.
12 Put on therefore, as the elect of God, holy and beloved, bowels of mercies, kindness, humbleness of mind, meekness, longsuffering;
13 Forbearing one another, and forgiving one another, if any man have a quarrel against any: even as Christ forgave you, so also do ye.
14 And above all these things put on charity, which is the bond of perfectness.
15 And let the peace of God rule in your hearts, to the which also ye are called in one body; and be ye thankful.
16 Let the word of Christ dwell in you richly in all wisdom; teaching and admonishing one another in psalms and hymns and spiritual songs, singing with grace in your hearts to the Lord.
17 And whatsoever ye do in word or deed, do all in the name of the Lord Jesus, giving thanks to God and the Father by him.
پانی کا ایک قطرہ سمندر کے ساتھ ایک ہے، روشنی کی ایک کرن سورج کے ساتھ ایک ہے، اسی طرح خدا اور انسان، باپ اور بیٹا ہستی میں ایک ہیں۔ کلام کہتا ہے: ”کیونکہ اْسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔“
As a drop of water is one with the ocean, a ray of light one with the sun, even so God and man, Father and son, are one in being. The Scripture reads: "For in Him we live, and move, and have our being."
یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔ اْس کا مشن انفرادی اور اجتماعی دونوں تھا۔ اْس نے زندگی کا مناسب کام سر انجام دیا نہ صرف خود کے انصاف کے لئے بلکہ انسانوں پر رحم کے باعث، انہیں یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے، بلکہ نہ تو اْن کے لئے خود کچھ کرنے یا نہ ہی اْنہیں کسی ایک ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئے یہ کیا۔
Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage. His mission was both individual and collective. He did life's work aright not only in justice to himself, but in mercy to mortals, — to show them how to do theirs, but not to do it for them nor to relieve them of a single responsibility.
یہ جانتے ہوئے کہ جان اور اْس کی خصوصیات ہمیشہ کے لئے انسان کے وسیلہ ظاہر کی جاتی رہی ہیں، مالک نے بیمار کو شفا دی، اندھے کو آنکھیں دیں، بہرے کو کان دئیے، لنگڑے کو پاؤں دئیے، یوں وہ انسانی خیالوں اور بدنوں پر الٰہی عقل کے سائنسی عمل کو روشنی میں لایااور انہیں جان اور نجات کی بہتر سمجھ عطا کی۔یسوع نے ایک ہی اور یکساں مابعد لاطبیعی مرحلے کے ساتھ گناہ اوربیماری کو ٹھیک کیا۔
Knowing that Soul and its attributes were forever manifested through man, the Master healed the sick, gave sight to the blind, hearing to the deaf, feet to the lame, thus bringing to light the scientific action of the divine Mind on human minds and bodies and giving a better understanding of Soul and salvation. Jesus healed sickness and sin by one and the same metaphysical process.
وراثت کوئی قانون نہیں ہے۔ بیماری کی ممکنہ وجہ یا ایمان اِس کی ترجیح اور ماضی کے انسانی خیالات کے حال کے ساتھ تعلق کی وجہ سے خطرناک نہیں ہے۔ مائل کرنے والی وجہ اورولولہ خیز وجہ ذہنی ہے۔
شاید کسی بالغ شخص کی بدصورتی جواْس کی پیدائش سے قبل پیدا ہوئی وہ اْس کی ماں کے خوف کے باعث ہو۔جب انسانی عقیدے سے آزاد ہوتا ہے اور سائنس یا اْس الٰہی عقل پر بنیاد رکھتا ہے جس کے لئے سب کچھ ممکن ہے، تو اِس درینہ مرض کا علاج مشکل نہیں رہتا۔
Heredity is not a law. The remote cause or belief of disease is not dangerous because of its priority and the connection of past mortal thoughts with present. The predisposing cause and the exciting cause are mental.
Perhaps an adult has a deformity produced prior to his birth by the fright of his mother. When wrested from human belief and based on Science or the divine Mind, to which all things are possible, that chronic case is not difficult to cure.
یہ مادی فہم کی چیزوں کی بنیاد پر قائم جہالت اور جھوٹا عقیدہ ہے جو روحانی خوبصورتی اور اچھائی کو چھپاتا ہے۔ اسے سمجھتے ہوئے پولوس نے کہا، ”خدا کی محبت سے ہم کو نہ موت، نہ زندگی۔۔۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں، نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق جدا کرسکے گی۔“یہ کرسچن سائنس کا عقیدہ ہے: کہ الٰہی محبت اپنے اظہار یا موضوع سے عاری نہیں ہوسکتی، کہ خوشی غم میں تبدیل نہیں ہو سکتی کیونکہ غمی خوشی کی مالک نہیں ہے؛ کہ اچھائی بدی کو کبھی پیدا نہیں کرسکتی؛ کہ مادا کبھی عقل کو پیدا نہیں کر سکتا نہ ہی زندگی کبھی موت کا نتیجہ موت ہو سکتی ہے۔ کامل انسان، خدایعنی اپنے کامل اصول کے ماتحت، گناہ سے پاک اور ابدی ہے۔
ہم آہنگی خود کے اصول کے وسیلہ پیدا ہوتی، اِس کے وسیلہ کنٹرول ہوتی اور اِس میں قائم رہتی ہے۔الٰہی اصول انسان کی زندگی ہے۔اِس لئے،انسان کی خوشی جسمانی فہم کے خاتمے میں نہیں۔ سچائی کو غلطی سے آلودہ نہیں کیا جاتا۔ انسان میں ہم آہنگی موسیقی کی طرح ہی خوبصورت اور مخالفت غیر فطری اور غیر حقیقی ہوتی ہے۔
موسیقی کی سائنس سْروں پر حکمران ہوتی ہے۔ اگر انسانوں نے مادی حس کے ذریعے ہم آہنگی پائی تھی، تو وہ ہم آہنگی کھو دیں گے، اگر وقت یا حادثہ مادی حس سے یہ چھین لے جائے۔سروں کی ترتیب یا بے ترتیبی کے ماہر ہونے کے لئے، موسیقی کی سائنس کو لازمی سمجھنا چاہئے۔ مادی حس کے فیصلوں پر چھوڑنے سے، موسیقی بے ترتیبی اور اْلجھن کا شکار ہونے کے لائق بن جائے گی۔سمجھ کی بجائے،ایمان کے وسیلہ ترتیب دی جائے تو موسیقی، یقیناً،نامکمل طور پر، ظاہر کی جائے گی۔پس انسان، ہستی کی سائنس کو نہ سمجھتے ہوئے، اپنے الٰہی اصول کو نا قابل فہم سمجھ کر پھینکتے ہوئے، قیاس آرائیوں کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے، لاعلمی کے ہاتھوں میں دے دیا جاتا ہے، بھرموں کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے، اْس مادی حس کے ماتحت کر دیا جاتا ہے جو مخالف ہے۔ ایک غیر مطمین، متضاد بشر کسی بے ترتیب موسیقی کی نسبت زیادہ بہترنہیں ہے۔
کیمرے میں ایک تصویر یا کسی آئینے میں منعکس ہونے والا ایک چہرہ اصلی نہیں ہوتا،حالانکہ وہ اِس کی مشابہت ہوتے ہیں۔ انسان، اپنے خالق کی صورت میں ہوتے ہوئے، ہستی کی مرکزی روشنی، نادیدنی خدا، کو منعکس کرتا ہے۔جیسے آئینے والی ایک شکل میں کوئی جسمانیت نہیں ہوتی، جو ایک عکس کے سوا کچھ نہیں، ویسے ہی انسان، تمام اصل چیزوں کی مانند، خدا، اپنے الٰہی اصول کو منعکس کرتا ہے، نہ کہ فانی بدن میں۔
It is ignorance and false belief, based on a material sense of things, which hide spiritual beauty and goodness. Understanding this, Paul said: "Neither death, nor life, ... nor things present, nor things to come, nor height, nor depth, nor any other creature, shall be able to separate us from the love of God." This is the doctrine of Christian Science: that divine Love cannot be deprived of its manifestation, or object; that joy cannot be turned into sorrow, for sorrow is not the master of joy; that good can never produce evil; that matter can never produce mind nor life result in death. The perfect man — governed by God, his perfect Principle — is sinless and eternal.
Harmony is produced by its Principle, is controlled by it and abides with it. Divine Principle is the Life of man. Man's happiness is not, therefore, at the disposal of physical sense. Truth is not contaminated by error. Harmony in man is as beautiful as in music, and discord is unnatural, unreal.
The science of music governs tones. If mortals caught harmony through material sense, they would lose harmony, if time or accident robbed them of material sense. To be master of chords and discords, the science of music must be understood. Left to the decisions of material sense, music is liable to be misapprehended and lost in confusion. Controlled by belief, instead of understanding, music is, must be, imperfectly expressed. So man, not understanding the Science of being, — thrusting aside his divine Principle as incomprehensible, — is abandoned to conjectures, left in the hands of ignorance, placed at the disposal of illusions, subjected to material sense which is discord. A discontented, discordant mortal is no more a man than discord is music.
A picture in the camera or a face reflected in the mirror is not the original, though resembling it. Man, in the likeness of his Maker, reflects the central light of being, the invisible God. As there is no corporeality in the mirrored form, which is but a reflection, so man, like all things real, reflects God, his divine Principle, not in a mortal body.
خود کی صورت اور شبیہ کے بغیر خدا عدم یا غیر ظاہری عقل ہوتا۔ وہ خود کی فطرت کے ثبوت یا گواہی سے مبرا ہوتا۔ روحانی انسان خدا کی شبیہ یا خیال ہے، ایسا خیال جو گم ہو سکتا اور نہ ہی اپنے الٰہی اصول سے جدا ہو سکتا ہے۔جب گواہی نے مادی حواس کے سامنے روحانی فہم کو قبول کیا تو رسول نے یہ بیان دیا کہ کوئی اْسے خدا سے، شیریں فہم اور زندگی اور سچائی کی حضوری سے الگ نہیں کر سکتا۔
God, without the image and likeness of Himself, would be a nonentity, or Mind unexpressed. He would be without a witness or proof of His own nature. Spiritual man is the image or idea of God, an idea which cannot be lost nor separated from its divine Principle. When the evidence before the material senses yielded to spiritual sense, the apostle declared that nothing could alienate him from God, from the sweet sense and presence of Life and Truth.
۔۔۔اگر انسان خدا کو منعکس کرتا ہے، تو اْسے فوراً خدا سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ پس سائنس انسان کی وجودیت کے برقرار ہونے کو ثابت کرتی ہے۔
...man cannot be separated for an instant from God, if man reflects God. Thus Science proves man's existence to be intact.
کلسیوں (3: 4) میں پولوس لکھتا ہے: ”جب مسیح جو ہماری زندگی ہے ظاہر کیا جائے گا ]سامنے آئے گا[ تو تم بھی اْس کے ساتھ جلال میں ظاہر کئے ]سامنے آ[جاؤ گے۔“ جب روحانی ہستی کو اِس کی ساری کاملیت، تسلسل اور طاقت کے ساتھ سمجھا جاتا ہے، تو انسان خدا کی صورت پر پایا جائے گا۔ اِن رسولی الفاظ کا اصل مفہوم یہ ہے کہ: پھر انسان اْس کی صورت پر، باپ کی مانند کامل، زندگی میں لازوال،اْس الٰہی محبت میں سچائی کے ساتھ، ”مسیح کے ساتھ خدا میں پوشیدہ“، پایا جائے گا، جہاں انسانی فہم نے انسان کو نہیں دیکھا۔
وہ وقت آتا ہے جب انسان کا روحانی اصل،وہ الٰہی سائنس جس نے انسانی وجود میں یسوع کی راہنمائی کی، اْسے سمجھا جائے گا اور ظاہر کیا جائے گا۔
In Colossians (iii. 4) Paul writes: "When Christ, who is our life, shall appear [be manifested], then shall ye also appear [be manifested] with him in glory." When spiritual being is understood in all its perfection, continuity, and might, then shall man be found in God's image. The absolute meaning of the apostolic words is this: Then shall man be found, in His likeness, perfect as the Father, indestructible in Life, "hid with Christ in God," — with Truth in divine Love, where human sense hath not seen man.
The time cometh when the spiritual origin of man, the divine Science which ushered Jesus into human presence, will be understood and demonstrated.
۔۔۔ انسان خدا یا عقل کی عکاسی ہے، اور اسی لئے وہ ابدی ہے،یعنی وہ جس کی خدا سے مختلف کوئی عقل نہیں ہے؛ وہ جس میں ایسی ایک بھی خاصیت نہیں جو خدا سے نہ لی گئی ہو؛ وہ جو خود سے اپنی کوئی زندگی، ذہانت اور نہ ہی کوئی تخلیقی قوت رکھتا ہے؛ مگر اْس سب کی روحانی طور پر عکاسی کرتا ہے جو اْس کے بنانے والے سے تعلق رکھتی ہے۔
...man is the reflection of God, or Mind, and therefore is eternal; that which has no separate mind from God; that which has not a single quality underived from Deity; that which possesses no life, intelligence, nor creative power of his own, but reflects spiritually all that belongs to his Maker.
خدا، انسان کا الٰہی اصول، اور خدا کی شبیہ پر بناانسان غیر منفک، ہم آہنگ اورابدی ہیں۔
God, the divine Principle of man, and man in God's likeness are inseparable, harmonious, and eternal.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔