اتوار 31 جولائی، 2022
”خداوند سے محبت رکھو اے اْس کے سب مقدسو! خداوند ایمانداروں کو سلامت رکھتا ہے۔ اور مغروروں کو خوب ہی بدلہ دیتا ہے۔“
“O love the Lord, all ye his saints: for the Lord preserveth the faithful, and plentifully rewardeth the proud doer.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
14۔ اِس سبب سے مَیں باپ کے آگے گھٹنے ٹیکتا ہوں۔
17۔ اور ایمان کے وسیلہ سے مسیح تمہارے دلوں میں سکونت کرے تاکہ تم محبت میں جڑ پکڑ کے اور بنیاد قائم کر کے۔
18۔ سب مقدسوں سمیت بخوبی معلوم کر سکو کہ اْس کی چوڑائی اور لمبائی اور اونچائی اور گہرائی کتنی ہے۔
19۔ اور مسیح کی اْس محبت کو جان سکو جو جاننے سے باہر ہے تاکہ تم خدا کی ساری معموری تک معمور ہو جاؤ۔
20۔ اب جو ایسا قادر ہے کہ اْس قدرت کے موافق جو ہم میں تاثیر کرتی ہے ہماری درخواست اور خیال سے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے۔
21۔ کلیسیا میں اور مسیح یسوع میں پشت در پشت اور ابدالا باد اْس کی تمجید ہوتی رہے۔
14. For this cause I bow my knees unto the Father of our Lord Jesus Christ,
17. That Christ may dwell in your hearts by faith; that ye, being rooted and grounded in love,
18. May be able to comprehend with all saints what is the breadth, and length, and depth, and height;
19. And to know the love of Christ, which passeth knowledge, that ye might be filled with all the fulness of God.
20. Now unto him that is able to do exceeding abundantly above all that we ask or think, according to the power that worketh in us,
21. Unto him be glory in the church by Christ Jesus throughout all ages, world without end.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
7۔ اے عزیزو! آؤ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں، کیونکہ محبت خدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی خدا سے محبت رکھتا ہے وہ خدا سے پیدا ہوا ہے اور خدا کو جانتا ہے۔
8۔جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔
9۔ جو محبت خدا کو ہم سے ہے وہ اس سے ظاہر ہوئی کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اْس کے سبب سے زندہ رہیں۔
10۔ محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ اْس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارے کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا۔
11۔ اے عزیزو! جب خدانے ہم سے ایسی محبت کی تو ہم پر بھی ایک دوسرے سے محبت رکھنا فرض ہے۔
12۔ خدا کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ اگر ہم ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں تو خدا ہم میں رہتا ہے اور اْس کی محبت ہمارے دل میں کامل ہو گئی ہے۔
13۔ چونکہ اْس نے اپنے روح میں سے ہمیں دیا ہے اِس سے ہم جانتے ہیں کہ ہم اْس میں قائم رہتے ہیں اور وہ ہم میں۔
14۔ اور ہم نے دیکھ لیا ہے اور گواہی دیتے ہیں کہ باپ نے بیٹے کو دنیا کا منجی کر کے بھیجا ہے۔
15۔ جو کوئی اقرار کرتا ہے کہ یسوع خدا کا بیٹا ہے خدا اْس میں رہتا ہے اور وہ خدا میں۔
16۔ جو محبت خدا کو ہم سے ہے اْس کو ہم جان گئے اور ہمیں اْس کا یقین ہے۔ خدامحبت ہے اور جو محبت میں قائم رہتا ہے وہ خدا میں قائم رہتا ہے اور خدا اْس میں قائم رہتا ہے۔
17۔ اِسی سبب سے محبت ہم میں کامل ہوگئی ہے تاکہ ہمیں عدالت کے دن دلیری ہو کیونکہ جیسا وہ ہے ویسے ہی دنیا میں ہم بھی ہیں۔
18۔ محبت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ کامل محبت خوف کو دور کردیتی ہے۔
7 Beloved, let us love one another: for love is of God; and every one that loveth is born of God, and knoweth God.
8 He that loveth not knoweth not God; for God is love.
9 In this was manifested the love of God toward us, because that God sent his only begotten Son into the world, that we might live through him.
10 Herein is love, not that we loved God, but that he loved us, and sent his Son to be the propitiation for our sins.
11 Beloved, if God so loved us, we ought also to love one another.
12 No man hath seen God at any time. If we love one another, God dwelleth in us, and his love is perfected in us.
13 Hereby know we that we dwell in him, and he in us, because he hath given us of his Spirit.
14 And we have seen and do testify that the Father sent the Son to be the Saviour of the world.
15 Whosoever shall confess that Jesus is the Son of God, God dwelleth in him, and he in God.
16 And we have known and believed the love that God hath to us. God is love; and he that dwelleth in love dwelleth in God, and God in him.
17 Herein is our love made perfect, that we may have boldness in the day of judgment: because as he is, so are we in this world.
18 There is no fear in love; but perfect love casteth out fear:
23۔ اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور اْن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا۔
23 Jesus went about all Galilee, teaching in their synagogues, and preaching the gospel of the kingdom, and healing all manner of sickness and all manner of disease among the people.
1۔ وہ اس بھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ گیا تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آئے۔
2۔ اور وہ اپنی زبان کھول کر یوں اْن کو تعلیم دینے لگا۔
43۔ تم سْن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دْشمن سے عداوت۔
44۔ لیکن مَیں تم سے کہتاہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اوراپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو۔
45۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔
46۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارا کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والا بھی ایسا نہیں کرتے؟
47۔ اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرتے ہو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟
48۔ پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔
1 And seeing the multitudes, he went up into a mountain: and when he was set, his disciples came unto him:
2 And he opened his mouth, and taught them, saying,
43 Ye have heard that it hath been said, Thou shalt love thy neighbour, and hate thine enemy.
44 But I say unto you, Love your enemies, bless them that curse you, do good to them that hate you, and pray for them which despitefully use you, and persecute you;
45 That ye may be the children of your Father which is in heaven: for he maketh his sun to rise on the evil and on the good, and sendeth rain on the just and on the unjust.
46 For if ye love them which love you, what reward have ye? do not even the publicans the same?
47 And if ye salute your brethren only, what do ye more than others? do not even the publicans so?
48 Be ye therefore perfect, even as your Father which is in heaven is perfect.
36۔۔۔۔کسی فریسی نے اُس سے دخواست کی کہ میرے ساتھ کھانا کھا۔ پس وہ اُس فریسی کے گھر جا کر کھانا کھانے بیٹھا۔
37۔ تو دیکھو ایک بدچلن عورت جو اُس شہر کی تھی۔ یہ جان کر کہ وہ اُس فریسی کے گھر میں کھانا کھانے بیٹھا ہے سنگ مر مر کے عطردان میں عطر لائی۔
38۔ اور اُس کے پاؤں کے پاس روتی ہوئی پیچھے کھڑی ہوکر اُس کے پاؤں آنسوؤں سے بھگونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے اُن کو پونچھا اور اُس کے پاؤں بہت چومے اور ان پر عطر ڈالا۔
39۔ اس کی دعوت کرنے والا فریسی یہ دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اُسے چھوتی ہے وہ کون اور کیسی عورت ہے کیونکہ بدچلن ہے۔
40۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اے شمعون مجھے تجھ سے کچھ کہنا ہے۔ اُس نے کہا اے استاد کہہ۔
41۔ کسی ساہوکار کے دو قرضدار تھے۔ ایک پانچ سو دینار کا دوسرا پچاس کا۔
42۔ جب ان کے پاس ادا کرنے کو کچھ نہ رہا تو اس نے دونوں کو بخش دیا۔ پس اُن میں سے کون اُس سے زیادہ محبت رکھے گا؟
43۔ شمعون نے جواب میں اُس سے کہا میری دانست میں وہ جسے اُس نے زیادہ بخشا۔ اُس نے اُس سے کہا تو نے ٹھیک فیصلہ کیا۔
44۔ اور اُس عورت کی طرف پھر کر اُس نے شمعون سے کہا کیا تو اس عورت کو دیکھتا ہے؟ میں تیرے گھر میں آیا۔ تونے میرے پاؤں دھونے کو پانی نہ دیا مگر اِس نے میرے پاؤں آنسوؤں سے بھگو دئے اور اپنے بالوں سے پونچھے۔
45۔ تونے مجھ کو بوسہ نہ دیا مگر اِس نے جب سے میں آیا ہوں میرے پاؤں چومنا نہ چھوڑا۔
46۔ تونے میرے سر پر تیل نہ ڈالا مگر اِس نے میرے پاؤں پر عطر ڈالا ہے۔
47۔ اسی لئے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ اس کے گناہ جو بہت تھے معاف ہوئے کیونکہ اِس نے بہت محبت کی مگر جس کے تھوڑے گناہ معاف ہوئے وہ تھوڑی محبت کرتا ہے۔
48۔ اور اُس عورت سے کہا تیرے گناہ معاف ہوئے۔
49۔ اِس پر وہ جو اُس کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تھے اپنے جی میں کہنے لگے کہ یہ کون ہے جو گناہ بھی معاف کرتا ہے؟
50۔ مگر اُس نے عورت سے کہا تیرے ایمان نے تجھے بچا لیا ہے۔ سلامت چلی جا۔
36 … one of the Pharisees desired him that he would eat with him. And he went into the Pharisee’s house, and sat down to meat.
37 And, behold, a woman in the city, which was a sinner, when she knew that Jesus sat at meat in the Pharisee’s house, brought an alabaster box of ointment,
38 And stood at his feet behind him weeping, and began to wash his feet with tears, and did wipe them with the hairs of her head, and kissed his feet, and anointed them with the ointment.
39 Now when the Pharisee which had bidden him saw it, he spake within himself, saying, This man, if he were a prophet, would have known who and what manner of woman this is that toucheth him: for she is a sinner.
40 And Jesus answering said unto him, Simon, I have somewhat to say unto thee. And he saith, Master, say on.
41 There was a certain creditor which had two debtors: the one owed five hundred pence, and the other fifty.
42 And when they had nothing to pay, he frankly forgave them both. Tell me therefore, which of them will love him most?
43 Simon answered and said, I suppose that he, to whom he forgave most. And he said unto him, Thou hast rightly judged.
44 And he turned to the woman, and said unto Simon, Seest thou this woman? I entered into thine house, thou gavest me no water for my feet: but she hath washed my feet with tears, and wiped them with the hairs of her head.
45 Thou gavest me no kiss: but this woman since the time I came in hath not ceased to kiss my feet.
46 My head with oil thou didst not anoint: but this woman hath anointed my feet with ointment.
47 Wherefore I say unto thee, Her sins, which are many, are forgiven; for she loved much: but to whom little is forgiven, the same loveth little.
48 And he said unto her, Thy sins are forgiven.
49 And they that sat at meat with him began to say within themselves, Who is this that forgiveth sins also?
50 And he said to the woman, Thy faith hath saved thee; go in peace.
35۔ کون ہم کو مسیح کی محبت سے جْدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی، یا ظلم یا کال یا ننگا پن یا خطرہ یا تلوار؟
36۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ہم تیری خاطر دن بھر جان سے مارے جاتے ہیں۔ ہم ذبح ہونے والی بھیڑوں کی مانند گنے گئے۔
37۔ مگر ان سب حالتوں میں مسیح کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔
38۔ کیونکہ مجھ کو یقین ہے خدا کی محبت جو ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہے اْس سے نہ ہمیں موت جدا کر سکے گی نہ زندگی۔
39۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں،نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق۔
35 Who shall separate us from the love of Christ? shall tribulation, or distress, or persecution, or famine, or nakedness, or peril, or sword?
36 As it is written, For thy sake we are killed all the day long; we are accounted as sheep for the slaughter.
37 Nay, in all these things we are more than conquerors through him that loved us.
38 For I am persuaded, that neither death, nor life, nor angels, nor principalities, nor powers, nor things present, nor things to come,
39 Nor height, nor depth, nor any other creature, shall be able to separate us from the love of God, which is in Christ Jesus our Lord.
1۔ دیکھو باپ نے ہم سے کیسی محبت کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے اور ہم ہیں بھی۔ دنیا ہمیں اِس لئے نہیں جانتی کہ اْس نے اْسے بھی نہیں جانا۔
2۔ عزیزو! ہم جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوگا تو ہم بھی اْس کی مانند ہوں گے۔ کیونکہ اْس کو ویسا ہی دیکھیں گے جیسا وہ ہے۔
3۔ اور جو کوئی اْس سے یہ امید رکھتا ہے اپنے آپ کو ویسا ہی پاک کرتا ہے جیسا وہ پاک ہے۔
1 Behold, what manner of love the Father hath bestowed upon us, that we should be called the sons of God: therefore the world knoweth us not, because it knew him not.
2 Beloved, now are we the sons of God, and it doth not yet appear what we shall be: but we know that, when he shall appear, we shall be like him; for we shall see him as he is.
3 And every man that hath this hope in him purifieth himself, even as he is pure.
الٰہی محبت، جس نے زہریلے سانپ کو بے ضرر بنایا، جس نے آدمیوں کو اْبلتے ہوئے تیل سے، بھڑکتے ہوئے تندور سے، شیر کے پنجوں سے بچایا، وہ ہر دور میں بیمار کو شفا دے سکتی اور گناہ اور موت پر فتح مند ہو سکتی ہے۔اس نے یسوع کے اظہاروں کو بلا سبقت طاقت اور محبت سے سرتاج کیا۔ لیکن ”وہی عقل۔۔۔ جو مسیح یسوع کی بھی ہے“ سائنس کے خط کے ہمراہ ہونی چاہئے تاکہ نبیوں اور رسولوں کے پرانے اظہاروں کو دوہرائے اور تصدیق کرے۔
The divine Love, which made harmless the poisonous viper, which delivered men from the boiling oil, from the fiery furnace, from the jaws of the lion, can heal the sick in every age and triumph over sin and death. It crowned the demonstrations of Jesus with unsurpassed power and love. But the same "Mind ... which was also in Christ Jesus" must always accompany the letter of Science in order to confirm and repeat the ancient demonstrations of prophets and apostles.
خدا الٰہی مابعد الطبیعات کا اصول ہے۔جیسا کہ صرف ایک واحد خدا ہے، تو پوری سائنس کا صرف ایک ہی الٰہی اصول ہے؛ اور اس الٰہی اصول کے اظہار کے لئے بھی طے شدہ قوانین ہونے چاہئیں۔ سائنس کا خط آج کثرت کے ساتھ انسانیت تک پہنچ رہا ہے، لیکن ا س کی روح بہت چھوٹے درجات میں آتی ہے۔ کرسچن سائنس کا لازمی حصہ، دل اور جان محبت ہے۔
God is the Principle of divine metaphysics. As there is but one God, there can be but one divine Principle of all Science; and there must be fixed rules for the demonstration of this divine Principle. The letter of Science plentifully reaches humanity to-day, but its spirit comes only in small degrees. The vital part, the heart and soul of Christian Science, is Love.
خدا کی بطور بچانے والے اصول یا الٰہی محبت کی بجائے جسمانی نجات دہندہ کے طور پر تشریح کرتے ہوئے، ہم اصلاحات کی بجائے معافی کے وسیلہ نجات کو تلاش کرنا جاری رکھتے اور روح کی بجائے مادے کی جانب رجوح کرتے ہوئے بیماری کا اعلاج کرتے ہیں۔ جیسا کہ کرسچن سائنس کے علم کے وسیلہ بشر بلند فہم تک پہنچتے ہیں وہ مادے کی بدولت نہیں بلکہ اصول، خدا سے سیکھتے ہیں کہ مسیح یعنی سچائی کو نجات دینے والی اور شفا دینے والی طاقت کے طور پر کیسے ظاہر کیا جائے۔
By interpreting God as a corporeal Saviour but not as the saving Principle, or divine Love, we shall continue to seek salvation through pardon and not through reform, and resort to matter instead of Spirit for the cure of the sick. As mortals reach, through knowledge of Christian Science, a higher sense, they will seek to learn, not from matter, but from the divine Principle, God, how to demonstrate the Christ, Truth, as the healing and saving power.
شفا اور تعلیم دونوں میں خدا اور انسان سے محبت سچی ترغیب ہے۔محبت راہ کو متاثر کرتی، روشن کرتی، نامزد کرتی اور راہنمائی کرتی ہے۔ درست مقاصد خیالات کو شہ دیتے، اور کلام اور اعمال کو قوت اور آزادی دیتے ہیں۔محبت سچائی کی الطار پر بڑی راہبہ ہے۔ فانی عقل کے پانیوں پر چلنے اور کامل نظریہ تشکیل دینے کے لئے صبر کے ساتھ الٰہی محبت کا انتظار کریں۔
Love for God and man is the true incentive in both healing and teaching. Love inspires, illumines, designates, and leads the way. Right motives give pinions to thought, and strength and freedom to speech and action. Love is priestess at the altar of Truth. Wait patiently for divine Love to move upon the waters of mortal mind, and form the perfect concept.
اگر بیماری حقیقی ہے تو یہ لافانیت سے تعلق رکھتی ہے؛ اگر سچی ہے تو یہ سچائی کا حصہ ہے۔ منشیات کے ساتھ یا بغیر کیاآپ سچائی کی حالت یا خصوصیت کو تباہ کریں گے؟ لیکن اگر گناہ اور بیماری بھرم ہیں، اس فانی خواب یا بھرم سے بیدار ہونا ہمیں صحتمندی، پاکیزگی اور لافانیت مہیا کرتا ہے۔یہ بیداری مسیح کی ہمیشہ آمد ہے، سچائی کا پیشگی ظہور، جو غلطی کو باہر نکالتا اور بیمار کو شفا دیتا ہے۔ یہ وہ نجات ہے جو خدا، الٰہی اصول،اْس محبت کے وسیلہ ملتی ہے جسے یسوع نے ظاہر کیا۔
If sickness is real, it belongs to immortality; if true, it is a part of Truth. Would you attempt with drugs, or without, to destroy a quality or condition of Truth? But if sickness and sin are illusions, the awakening from this mortal dream, or illusion, will bring us into health, holiness, and immortality. This awakening is the forever coming of Christ, the advanced appearing of Truth, which casts out error and heals the sick. This is the salvation which comes through God, the divine Principle, Love, as demonstrated by Jesus.
وہ طبیب جو اپنے ساتھی انسان کے لئے ہمدردی کی کمی رکھتا ہے انسانی احساس میں نامکمل ہے، اور یہ کہنے کے لئے ہمارے پاس رسولی فرمان ہے کہ: ”جو اپنے بھائی سے جسے اْس نے دیکھا ہے محبت نہیں رکھتا وہ خدا سے بھی جسے اْس نے نہیں دیکھا محبت نہیں رکھ سکتا۔“اس روحانی احساس کے نہ ہوتے ہوئے، طبیب الٰہی عقل پر یقین کی کمی رکھتا ہے اور اْسے لامتناہی محبت سے شناسائی نہیں ہے جو اکیلا شفائیہ طاقت عطا کرتا ہے۔
The physician who lacks sympathy for his fellow-being is deficient in human affection, and we have the apostolic warrant for asking: "He that loveth not his brother whom he hath seen, how can he love God whom he hath not seen?" Not having this spiritual affection, the physician lacks faith in the divine Mind and has not that recognition of infinite Love which alone confers the healing power.
ہمیں خیالات میں کامل نمونے بنانے چاہئیں اور اْن پر لگاتار غور کرنا چاہئے، وگرنہ ہم انہیں کبھی عظیم اور شریفانہ زندگیوں میں نقش نہیں کر سکتے۔
We must form perfect models in thought and look at them continually, or we shall never carve them out in grand and noble lives.
اگر ہم مسیح یعنی سچائی کی پیروی کرنے کے خواہاں ہیں، تو یہ خدا کے مقرر کردہ طریقہ کار کے مطابق ہونا چاہئے۔ یسوع نے کہا، ”جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا۔“ وہ جو منبع تک پہنچے اور ہر بیماری کا الٰہی اعلاج پائے گا اْسے کسی اور راستے سے سائنس کی پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ ساری فطرت انسان کے ساتھ خدا کی محبت کی تعلیم دیتی ہے، لیکن انسان خدا سے بڑھ کر اْسے پیار نہیں کر سکتا اورروحانیت کی بجائے مادیت سے پیار کرتے اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے احساس کو روحانی چیزوں پر مرتب نہیں کرسکتا۔
If we wish to follow Christ, Truth, it must be in the way of God's appointing. Jesus said, "He that believeth on me, the works that I do shall he do also." He, who would reach the source and find the divine remedy for every ill, must not try to climb the hill of Science by some other road. All nature teaches God's love to man, but man cannot love God supremely and set his whole affections on spiritual things, while loving the material or trusting in it more than in the spiritual.
یہ مادی فہم کی چیزوں کی بنیاد پر قائم جہالت اور جھوٹا عقیدہ ہے جو روحانی خوبصورتی اور اچھائی کو چھپاتا ہے۔ اسے سمجھتے ہوئے پولوس نے کہا، ”خدا کی محبت سے ہم کو نہ موت، نہ زندگی۔۔۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں، نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق جدا کرسکے گی۔“یہ کرسچن سائنس کا عقیدہ ہے: کہ الٰہی محبت اپنے اظہار یا موضوع سے عاری نہیں ہوسکتی، کہ خوشی غم میں تبدیل نہیں ہو سکتی کیونکہ غمی خوشی کی مالک نہیں ہے؛ کہ اچھائی بدی کو کبھی پیدا نہیں کرسکتی؛ کہ مادا کبھی عقل کو پیدا نہیں کر سکتا نہ ہی زندگی کبھی موت کا نتیجہ موت ہو سکتی ہے۔ کامل انسان، خدایعنی اپنے کامل اصول کے ماتحت، گناہ سے پاک اور ابدی ہے۔
It is ignorance and false belief, based on a material sense of things, which hide spiritual beauty and goodness. Understanding this, Paul said: "Neither death, nor life, ... nor things present, nor things to come, nor height, nor depth, nor any other creature, shall be able to separate us from the love of God." This is the doctrine of Christian Science: that divine Love cannot be deprived of its manifestation, or object; that joy cannot be turned into sorrow, for sorrow is not the master of joy; that good can never produce evil; that matter can never produce mind nor life result in death. The perfect man — governed by God, his perfect Principle — is sinless and eternal.
خدا پر ہمارے ایمان کی ہر آزمائش ہمیں مضبوط کرتی ہے۔ مادی حالت کا روح کے باعث زیر ہونا جتنا زیادہ مشکل لگے گا اْتنا ہی ہمار ایمان مضبوط تر اور ہماری محبت پاک ترین ہونی چاہئے۔ پولوس رسول کہتا ہے: ”محبت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ کامل محبت خوف کو دور کردیتی ہے۔۔۔ کوئی خوف کرنے والا محبت میں کامل نہیں ہوا۔“ یہاں کرسچن سائنس کی حتمی اور الہامی اشاعت ہے۔
Every trial of our faith in God makes us stronger. The more difficult seems the material condition to be overcome by Spirit, the stronger should be our faith and the purer our love. The Apostle John says: "There is no fear in Love, but perfect Love casteth out fear. ... He that feareth is not made perfect in Love." Here is a definite and inspired proclamation of Christian Science.
مالک نے کہا، ”کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ(ہستی کے الٰہی اصول) کے پاس نہیں آتا،“ یعنی مسیح، زندگی، حق اور محبت کے بغیر؛ کیونکہ مسیح کہتا ہے، ”راہ مَیں ہوں۔“ اس اصلی انسان، یسوع، کی بدولت طبیب کے اسباب کو پہلے درجے سے آخری تک کر دیا گیاتھا۔ وہ جانتا تھا کہ الٰہی اصول یعنی محبت اْس سب کو خلق کرتا اور اْس پر حکمرانی کرتا ہے جو حقیقی ہے۔
The Master said, "No man cometh unto the Father [the divine Principle of being] but by me," Christ, Life, Truth, Love; for Christ says, "I am the way." Physical causation was put aside from first to last by this original man, Jesus. He knew that the divine Principle, Love, creates and governs all that is real.
جیسے جیسے سچائی اور محبت کی دولت وسعت پاتے ہیں انسان اسی تناسب سے روحانی وجودیت کو سمجھتا ہے۔ بشر کو خدا کی جانب راغب ہونا چاہئے، تو اْن کے مقاصد اور احساسات روحانی ہوں گے، انہیں ہستی کی تشریحات کو وسعت کے قریب تر لانا چاہئے، اور لامتناہی کا مناسب ادراک پانا چاہئے، تاکہ گناہ اور فانیت کو ختم کیا جا سکے۔
ہستی کا یہ سائنسی فہم، روح کے لئے مادے کو ترک کرتے ہوئے، کسی وسیلہ کے بغیر الوہیت میں انسان کے سوکھے پن اوراْس کی شناخت کی گمشْدگی کی تجویز دیتا ہے، لیکن انسان پر ایک وسیع تر انفرادیت نچھاور کرتا ہے،یعنی اعمال اور خیالات کا ایک بڑا دائرہ، وسیع محبت اور ایک بلند اورمزید مستقل امن عطا کرتا ہے۔
Man understands spiritual existence in proportion as his treasures of Truth and Love are enlarged. Mortals must gravitate Godward, their affections and aims grow spiritual, — they must near the broader interpretations of being, and gain some proper sense of the infinite, — in order that sin and mortality may be put off.
This scientific sense of being, forsaking matter for Spirit, by no means suggests man's absorption into Deity and the loss of his identity, but confers upon man enlarged individuality, a wider sphere of thought and action, a more expansive love, a higher and more permanent peace.
ہمارے اندر بے غرضی، اچھائی، رحم، عدل، صحت، پاکیزگی، محبت، آسمان کی بادشاہی کو سلطنت کرنے دیں اور گناہ، بیماری اور موت تلف ہونے تک کم ہوتے جائیں گے۔
Let unselfishness, goodness, mercy, justice, health, holiness, love — the kingdom of heaven — reign within us, and sin, disease, and death will diminish until they finally disappear.
محبت آزادی دلانے والی ہے۔
Love is the liberator.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████