اتوار 31 مارچ، 2024



مضمون۔ حقیقت

SubjectReality

سنہری متن: یسعیاہ 64 باب4 آیت

”کیونکہ ابتدا ہی سے نہ کسی نے سنا نہ کسی کے کان تک پہنچا اور آنکھوں نے تیرے سوا ایسے خدا کو دیکھا جو اپنے انتظار کرنے والے کے لئے کچھ کر دکھائے۔“



Golden Text: Isaiah 64 : 4

Since the beginning of the world men have not heard, nor perceived by the ear, neither hath the eye seen, O God, beside thee, what he hath prepared for him that waiteth for him.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: 1کرنتھیوں 2 باب9تا16 آیات


9۔ بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی ہوا جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سنیں نہ آدمی کے دل میں آئیں۔ وہ سب خدا نے اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے تیار کر دیں۔

10۔ لیکن ہم پر خدا نے اْن کو روح کے وسیلہ ظاہر کیا کیونکہ روح سب باتیں بلکہ خدا کی تہہ کی باتیں بھی دریافت کرلیتا ہے۔

11۔ کیونکہ انسانوں میں سے کون کسی انسان کی باتیں جانتا ہے سوا انسان کی اپنی روح کے جو اْس میں ہے؟ اِسی طرح خدا کے روح کے سوا کوئی خدا کے روح کی باتیں نہیں جانتا۔

12۔ مگر ہم نے نہ دنیا کی روح بلکہ وہ روح پایا جو خدا کی طرف سے ہے تاکہ اْن باتوں کو جانیں جو خدا نے ہمیں عنایت کی ہیں۔

13۔ اور ہم اْن باتوں کو اْن الفاظ میں بیان نہیں کرتے جو انسانی حکمت نے ہم کو سکھائے ہوں بلکہ اْن الفاظ میں جو روح نے سکھائے ہیں اور روحانی باتوں کا روحانی باتوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔

14۔ مگر نفسانی آدمی خدا کے روح کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اْس کے نزدیک بے وقوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اْنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ روحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں۔

15۔ لیکن روحانی شخص سب باتوں کو پرکھ لیتا ہے مگر خود کسی سے پرکھا نہیں جاتا۔

16۔ خدا کی عقل کو کس نے جانا ہے کہ اْس کو تعلیم دے سکے؟ مگر ہم میں مسیح کی عقل ہے۔

Responsive Reading: I Corinthians 2 : 9-16

9.     As it is written, Eye hath not seen, nor ear heard, neither have entered into the heart of man, the things which God hath prepared for them that love him.

10.     But God hath revealed them unto us by his Spirit: for the Spirit searcheth all things, yea, the deep things of God.

11.     For what man knoweth the things of a man, save the spirit of man which is in him? even so the things of God knoweth no man, but the Spirit of God.

12.     Now we have received, not the spirit of the world, but the spirit which is of God; that we might know the things that are freely given to us of God.

13.     Which things also we speak, not in the words which man’s wisdom teacheth, but which the Holy Ghost teacheth; comparing spiritual things with spiritual.

14.     But the natural man receiveth not the things of the Spirit of God: for they are foolishness unto him: neither can he know them, because they are spiritually discerned.

15.     But he that is spiritual judgeth all things, yet he himself is judged of no man.

16.     For who hath known the mind of the Lord, that he may instruct him? But we have the mind of Christ.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ عبرانیوں 11 باب3 آیت

3۔ ایمان ہی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ عالم خدا کے کہنے سے بنے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہے۔

1. Hebrews 11 : 3

3     Through faith we understand that the worlds were framed by the word of God, so that things which are seen were not made of things which do appear.

2 . ۔ متی 12 باب1 (یسوع) (تا؛)، 22تا26، 28 آیات

1۔ اْس وقت یسوع سبت کے دن کھیتوں میں ہو کر گیا۔

22۔اْس وقت لوگ اْس کے پاس ایک اندھے گونگے کو لائے جس میں بد روح تھی۔ اْس نے اْسے اچھا کر دیا، چنانچہ وہ گونگاہ بولنے اور دیکھنے لگا۔

23۔ اور ساری بھیڑ حیران ہو کر کہنے لگی کیا یہ ابنِ داؤد ہے؟

24۔ فریسیوں نے سْن کر کہا کیا یہ بدوحوں کے سردار بعلزبول کی مدد کے بغیر بدروحوں کو نہیں نکالتا۔

25۔ اْس نے اْن کے خیالوں کو جان کراْن سے کہا جس بادشاہی میں پھوٹ پڑتی ہے وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس شہر یا گھر میں پھوٹ پڑے گی وہ قائم نہ رہے گا۔

26۔ اور اگر شیطان ہی نے شیطان کو نکالا تو وہ آپ اپنا مخالف ہو گیا۔ پھر اْس کی بادشاہی کیونکر قائم رہے گی؟

28۔ لیکن اگر میں خدا کی روح کی مدد سے روحیں نکالتا ہوں تو خدا کی بادشای تمہارے پاس آ پہنچی۔

2. Matthew 12 : 1 (Jesus) (to ;), 22-26, 28

1     Jesus went on the sabbath day through the corn;

22     Then was brought unto him one possessed with a devil, blind, and dumb: and he healed him, insomuch that the blind and dumb both spake and saw.

23     And all the people were amazed, and said, Is not this the son of David?

24     But when the Pharisees heard it, they said, This fellow doth not cast out devils, but by Beelzebub the prince of the devils.

25     And Jesus knew their thoughts, and said unto them, Every kingdom divided against itself is brought to desolation; and every city or house divided against itself shall not stand:

26     And if Satan cast out Satan, he is divided against himself; how shall then his kingdom stand?

28     But if I cast out devils by the Spirit of God, then the kingdom of God is come unto you.

3 . ۔ متی 13 باب1، 2 (تا پہلی)، 3تا11، 13، 15 آیات

1۔ اْسی روز یسوع گھر سے نکل کر جھیل کے کنارے جا بیٹھا۔

2۔ اور اْس کے پاس ایسی بڑی بھیڑ جمع ہو گئی کہ وہ کشتی پر چڑھ بیٹھا اور ساری بھیڑ کنارے پر کھڑی رہی۔

3۔ اور اْس نے اْن سے بہت سی باتیں تمثیلوں میں کہیں کہ دیکھو ایک بیج بونے والا بیج بونے نکلا۔

4۔ اور بوتے وقت کچھ دانے راہ کے کنارے گرے اور پرندوں نے آکر اْنہیں چْگ لیا۔

5۔ اور کچھ پتھریلی زمین پر گرے جہاں اْن کو بہت مٹی نہ ملی اور گہری مٹی نہ ملنے کے سبب سے جلد اْگ آئے۔

6۔ اور جب سورج نکلا تو جل گئے اور جڑ نہ ہونے کے سبب سے سوکھ گئے۔

7۔ اور کچھ جھاڑیوں میں گرے اور جھاڑیوں نے بڑھ کر اْن کو دبا لیا۔

8۔ اور کچھ اچھی زمین میں گر ے اور پھل لائے۔ کچھ سو گنا کچھ ساٹھ گنا کچھ تیس گنا۔

10۔ شاگردوں نے پاس آکر اْس سے کہا کہ تْو اْن سے تمثیلوں میں باتیں کیوں کرتا ہے؟

11۔اْس نے جواب میں اْن سے کہا اِس لئے کہ تم کو آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر اْن کو نہیں دی گئی۔

13۔ مَیں اْن سے تمثیلوں میں اِس لئے باتیں کرتا ہوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے اور نہیں سمجھتے۔

15۔ کیونکہ اِس امت کے دل پر چربی چھا گئی ہے اور وہ کانوں سے اونچا سنتے ہیں اور اْنہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ہیں تا ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کریں اور کانوں سے سنیں اور دل سے سمجھیں اور رجوع لائیں اور میں اْن کو شفا بخشوں۔

3. Matthew 13 : 1, 2 (to 1st ,), 3-11, 13, 15

1     The same day went Jesus out of the house, and sat by the sea side.

2     And great multitudes were gathered together unto him,

3     And he spake many things unto them in parables, saying, Behold, a sower went forth to sow;

4     And when he sowed, some seeds fell by the way side, and the fowls came and devoured them up:

5     Some fell upon stony places, where they had not much earth: and forthwith they sprung up, because they had no deepness of earth:

6     And when the sun was up, they were scorched; and because they had no root, they withered away.

7     And some fell among thorns; and the thorns sprung up, and choked them:

8     But other fell into good ground, and brought forth fruit, some an hundredfold, some sixtyfold, some thirtyfold.

9     Who hath ears to hear, let him hear.

10     And the disciples came, and said unto him, Why speakest thou unto them in parables?

11     He answered and said unto them, Because it is given unto you to know the mysteries of the kingdom of heaven, but to them it is not given.

13     Therefore speak I to them in parables: because they seeing see not; and hearing they hear not, neither do they understand.

15     For this people’s heart is waxed gross, and their ears are dull of hearing, and their eyes they have closed; lest at any time they should see with their eyes, and hear with their ears, and should understand with their heart, and should be converted, and I should heal them.

4 . ۔ 1 یوحنا 4 باب12، 13 آیات

12۔ خدا کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ اگر ہم ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں تو خدا ہم میں رہتا ہے اور اْس کی محبت ہمارے دل میں کامل ہو گئی ہے۔

13۔ چونکہ اْس نے اپنے روح میں سے ہمیں دیا ہے اِس سے ہم جانتے ہیں کہ ہم اْس میں قائم رہتے ہیں اور وہ ہم میں۔

4. I John 4 : 12, 13

12     No man hath seen God at any time. If we love one another, God dwelleth in us, and his love is perfected in us.

13     Hereby know we that we dwell in him, and he in us, because he hath given us of his Spirit.

5 . ۔ مکاشفہ 1 باب1 آیت

1۔ یسوع مسیح کا مکاشفہ جو اْسے خدا کی طرف سے اس لئے ہوا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دکھائے جن کا جلد ہونا ضرور ہے اور اْس نے اپنے فرشتے کو بھیج کر اْس کی معرفت انہیں اپنے بندہ یوحنا پر ظاہر کیا۔

5. Revelation 1 : 1

1     The Revelation of Jesus Christ, which God gave unto him, to shew unto his servants things which must shortly come to pass; and he sent and signified it by his angel unto his servant John:

6 . ۔ مکاشفہ 21 باب1تا7، 10، 22تا27 آیات

1۔ پھر مَیں نے ایک نیا آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔

2۔ پھر مَیں نے شہرِ مقدس نئے یرشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اترتے دیکھا اور وہ اْس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کے لئے شنگھار کیا ہو۔

3۔ پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اْن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اْس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اْن کے ساتھ رہے گا اور اْن کا خدا ہوگا۔

4۔ اور وہ اْن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اور اْس کے بعد نہ موت رہے گی نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔

5۔ اور جو تخت پر بیٹھا ہوا تھا اْس نے کہا دیکھ مَیں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں۔ پھر اْس نے کہا لکھ لے کیونکہ یہ باتیں سچ اور بر حق ہیں۔

6۔ پھر اْس نے مجھ سے کہا یہ باتیں پوری ہوگئیں۔ مَیں الفا اور اومیگا یعنی ابتدا اور انتہا ہوں۔ مَیں پیاسے کو آبِ حیات کے چشمے سے مفت پلاؤں گا۔

7۔ جو غالب آئے وہی اِن چیزوں کا وارث ہوگا اور مَیں اْس کا خدا ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہوگا۔

10۔ اور وہ مجھے روح میں ایک بڑے اور اونچے پہاڑ پر لے گیا اور شہرِ مقدس یروشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس اْترتے دکھایا۔

22۔ اور مَیں نے اْس میں کوئی مقدس نہ دیکھا اِس لئے کہ خداوند خدا قادرِ مطلق اور برہ اْس کے مقدس ہیں۔

23۔ اور اْس شہر میں سورج اور چاند کی روشنی کی کچھ حاجت نہیں کیونکہ خدا کے جلال نے اْسے روشن کر رکھا ہے اور برہ اْس کا چراغ ہے۔

24۔ اور قومیں اْس کی روشنی میں چلیں پھریں گی۔ اور زمین کے بادشاہ اپنی شان و شوکت کا سامان اْس میں لائیں گے۔

25۔ اور اْس کے دروازے دن کو ہرگز بند نہ ہوں گے۔ اور رات وہاں نہ ہوگی۔

26۔ اور لوگ قوموں کی شان و شوکت اور عزت کا سامان اْس میں لائیں گے۔

27۔ اور اْس میں کوئی ناپاک چیز یا کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا یا جھوٹی باتیں کرتاہے ہرگز داخل نہ ہوگا مگر وہی جن کے نام برہ کی کتابِ حیات میں لکھے ہوئے ہیں۔

6. Revelation 21 : 1-7, 10, 22-27

1     And I saw a new heaven and a new earth: for the first heaven and the first earth were passed away; and there was no more sea.

2     And I John saw the holy city, new Jerusalem, coming down from God out of heaven, prepared as a bride adorned for her husband.

3     And I heard a great voice out of heaven saying, Behold, the tabernacle of God is with men, and he will dwell with them, and they shall be his people, and God himself shall be with them, and be their God.

4     And God shall wipe away all tears from their eyes; and there shall be no more death, neither sorrow, nor crying, neither shall there be any more pain: for the former things are passed away.

5     And he that sat upon the throne said, Behold, I make all things new. And he said unto me, Write: for these words are true and faithful.

6     And he said unto me, It is done. I am Alpha and Omega, the beginning and the end. I will give unto him that is athirst of the fountain of the water of life freely.

7     He that overcometh shall inherit all things; and I will be his God, and he shall be my son.

10     And he carried me away in the spirit to a great and high mountain, and shewed me that great city, the holy Jerusalem, descending out of heaven from God,

22     And I saw no temple therein: for the Lord God Almighty and the Lamb are the temple of it.

23     And the city had no need of the sun, neither of the moon, to shine in it: for the glory of God did lighten it, and the Lamb is the light thereof.

24     And the nations of them which are saved shall walk in the light of it: and the kings of the earth do bring their glory and honour into it.

25     And the gates of it shall not be shut at all by day: for there shall be no night there.

26     And they shall bring the glory and honour of the nations into it.

27     And there shall in no wise enter into it any thing that defileth, neither whatsoever worketh abomination, or maketh a lie: but they which are written in the Lamb’s book of life.



سائنس اور صح


1 . ۔ 472 :24 (ساری)۔26

خدا اور اْس کی تخلیق میں پائی جانے والی ساری حقیقت ہم آہنگ اور ابدی ہے۔ جو کچھ وہ بناتا ہے اچھا بناتا ہے، اور جو کچھ بنا ہے اْسی نے بنایاہے۔

1. 472 : 24 (All)-26

All reality is in God and His creation, harmonious and eternal. That which He creates is good, and He makes all that is made.

2 . ۔ 335 :27۔31

حقیقت روحانی، ہم آہنگ، ناقابل تبدیل، لافانی، الٰہی، ابدی ہے۔غیر روحانی کچھ بھی حقیقی، ہم آہنگ یا ابدی نہیں ہو سکتا۔گناہ، بیماری اور فانیت روح کے فرضی سمت القدم ہیں، اور یہ یقیناً حقیقت کے مخالف ہوں گے۔

2. 335 : 27-31

Reality is spiritual, harmonious, immutable, immortal, divine, eternal. Nothing unspiritual can be real, harmonious, or eternal. Sin, sickness, and mortality are the suppositional antipodes of Spirit, and must be contradictions of reality.

3 . ۔ 275 :10۔32

ہستی کی حقیقت اور ترتیب کو اْس کی سائنس میں تھامنے کے لئے، وہ سب کچھ حقیقی ہے اْس کے الٰہی اصول کے طور پر آپ کو خدا کا تصور کرنے کی ابتدا کرنی چاہئے۔ روح، زندگی، سچائی، محبت یکسانیت میں جْڑ جاتے ہیں، اور یہ سب خدا کے روحانی نام ہیں۔سب مواد، ذہانت، حکمت، ہستی، لافانیت، وجہ اور اثر خْدا سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ اْس کی خصوصیات ہیں، یعنی لامتناہی الٰہی اصول، محبت کے ابدی اظہار۔ کوئی حکمت عقلمند نہیں سوائے اْس کی؛ کوئی سچائی سچ نہیں، کوئی محبت پیاری نہیں، کوئی زندگی زندگی نہیں ماسوائے الٰہی کے، کوئی اچھائی نہیں ماسوائے اْس کے جو خدا بخشتا ہے۔

جیسا کہ روحانی سمجھ پر ظاہر ہوا ہے، الٰہی مابعدلاطبیعیات واضح طور پر دکھاتا ہے کہ سب کچھ عقل ہی ہے اور یہ عقل خدا، قادر مطلق، ہمہ جائی، علام الغیوب ہے یعنی کہ سبھی طاقت والا، ہر جگہ موجود اور سبھی سائنس پر قادر ہے۔ لہٰذہ حقیقت میں سبھی کچھ عقل کا اظہار ہے۔

ہمارے انسانی نظریات سائنس کے محتاج ہیں۔خدا کا حقیقی فہم روحانی ہے۔ یہ فتح کی قبر لوٹ لیتا ہے۔ یہ اْس جھوٹی گواہی کو نیست کرتا ہے جو دوسرے دیوتاؤں یا نام نہاد قوتوں کی طرف سوچ کو گامزن کرتی اور اشارہ کرتی ہے، جیسے کہ مادا، بیماری، گناہ، اور موت، جو واحد روح سے برتر یا اْس کے مخالف ہوتے ہیں۔

سچ، روحانی طور پر ادراک پاتے ہوئے، سائنسی طور پر سمجھا جاتا ہے۔یہ غلطی کو باہر نکالتا اور بیمار کو شفا دیتا ہے۔

3. 275 : 10-32

To grasp the reality and order of being in its Science, you must begin by reckoning God as the divine Principle of all that really is. Spirit, Life, Truth, Love, combine as one, — and are the Scriptural names for God. All substance, intelligence, wisdom, being, immortality, cause, and effect belong to God. These are His attributes, the eternal manifestations of the infinite divine Principle, Love. No wisdom is wise but His wisdom; no truth is true, no love is lovely, no life is Life but the divine; no good is, but the good God bestows.

Divine metaphysics, as revealed to spiritual understanding, shows clearly that all is Mind, and that Mind is God, omnipotence, omnipresence, omniscience, — that is, all power, all presence, all Science. Hence all is in reality the manifestation of Mind.

Our material human theories are destitute of Science. The true understanding of God is spiritual. It robs the grave of victory. It destroys the false evidence that misleads thought and points to other gods, or other so-called powers, such as matter, disease, sin, and death, superior or contrary to the one Spirit.

Truth, spiritually discerned, is scientifically understood. It casts out error and heals the sick.

4 . ۔ 505 :16۔28

روح اْس فہم سے آگاہ کرتی ہے جو شعور کو بلند کرتا اور سچائی کی جانب راہنمائی دیتا ہے۔زبور نویس نے کہا: ”بحروں کی آواز سے۔ سمندر کی زبرددست موجوں سے بھی خداوند بلند و قادر ہے۔“روحانی حس روحانی نیکی کا شعور ہے۔ فہم حقیقی اورغیر حقیقی کے مابین حد بندی کی لکیر ہے۔ روحانی فہم عقل -یعنی زندگی، سچائی اور محبت، کو کھولتا ہے اور الٰہی حس کو، کرسچن سائنس میں کائنات کا روحانی ثبوت فراہم کرتے ہوئے، ظاہر کرتا ہے۔

یہ فہم شعوری نہیں ہے،محققانہ حاصلات کا نتیجہ نہیں ہے؛ یہ نور میں لائی گئی سب چیزوں کی حقیقت ہے۔

4. 505 : 16-28

Spirit imparts the understanding which uplifts consciousness and leads into all truth. The Psalmist saith: "The Lord on high is mightier than the noise of many waters, yea, than the mighty waves of the sea." Spiritual sense is the discernment of spiritual good. Understanding is the line of demarcation between the real and unreal. Spiritual understanding unfolds Mind, — Life, Truth, and Love, — and demonstrates the divine sense, giving the spiritual proof of the universe in Christian Science.

This understanding is not intellectual, is not the result of scholarly attainments; it is the reality of all things brought to light.

5 . ۔ 284 :21۔6

جسمانی حواس خدا کا کوئی ثبوت حاصل نہیں کر سکتیں۔ وہ نہ تو آنکھ سے روح کو دیکھ سکتے ہیں نہ کان سے سْن سکتے ہیں، نہ ہی وہ روح کو محسوس کر سکتے، چکھ سکتے یا سونگھ سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ بہت ہلکے اور غلط استعمال ہونے والے مادے کے عناصر ان حواس کی آگاہی سے دور ہیں، اور صرف اْن تاثرات کے وسیلہ جانے جاتے ہیں جو عموماً ان سے منسوب کئے گئے ہوتے ہیں۔

کرسچن سائنس کے مطابق، انسان کے صرف وہی حواس روحانی ہیں، جو الٰہی عقل سے ظاہر ہوتے ہیں۔ خیالات خدا سے انسان میں منتقل ہوتے ہیں، لیکن نہ احساس اور نہ ہی رپورٹ مادی جسم سے عقل میں جاتے ہیں۔ باہمی رابطہ ہمیشہ خدا سے ہوکر اْس کے خیال، یعنی انسان تک جاتا ہے۔ مادہ حساس نہیں ہوتا اور اچھائی یا بدی، خوشی یا درد سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔انسان کی انفرادیت مادی نہیں ہے۔ ہستی کی سائنس صرف مستقبل ہی میں نہیں بلکہ ابھی اور یہاں بھی وہ حاصل کرتی ہے جسے انسان جنت کا نام دیتا ہے؛ وقت اور ابدیت کے ہونے سے متعلق یہ بہت بڑی حقیقت ہے۔

5. 284 : 21-6

The physical senses can obtain no proof of God. They can neither see Spirit through the eye nor hear it through the ear, nor can they feel, taste, or smell Spirit. Even the more subtile and misnamed material elements are beyond the cognizance of these senses, and are known only by the effects commonly attributed to them.

According to Christian Science, the only real senses of man are spiritual, emanating from divine Mind. Thought passes from God to man, but neither sensation nor report goes from material body to Mind. The intercommunication is always from God to His idea, man. Matter is not sentient and cannot be cognizant of good or of evil, of pleasure or of pain. Man's individuality is not material. This Science of being obtains not alone hereafter in what men call Paradise, but here and now; it is the great fact of being for time and eternity.

6 . ۔ 272: 3۔12

سچائی کو سمجھنے سے قبل سچائی کا روحانی فہم حاصل ہونا ضروری ہے۔ یہ فہم اْسی وقت ہمارے اندر سما سکتا ہے جب ہم ایماندار، بے غرض، پیار کرنے والے اور حلیم ہوتے ہیں۔ ایک ”ایماندار اور نیک دل“ کی مٹی میں بیج بویا جانا چاہئے؛ وگرنہ یہ زیادہ پھل نہیں دے گا، کیونکہ انسانی فطرت میں گندہ عنصر اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ یسوع نے کہا: ”تم گمراہ ہو اس لئے کتاب مقدس کو نہیں جانتے۔“ کلام کا روحانی فہم سائنسی فہم کو جنم دیتا ہے، اور یہ نئی زبان ہے جس کا حوالہ مرقس کی انجیل کے آخری باب میں ملتا ہے۔

6. 272 : 3-12

The spiritual sense of truth must be gained before Truth can be understood. This sense is assimilated only as we are honest, unselfish, loving, and meek. In the soil of an "honest and good heart" the seed must be sown; else it beareth not much fruit, for the swinish element in human nature uproots it. Jesus said: "Ye do err, not knowing the Scriptures." The spiritual sense of the Scriptures brings out the scientific sense, and is the new tongue referred to in the last chapter of Mark's Gospel.

7 . ۔ 572: 19۔2 (صفحہ 574)

مکاشفہ 21باب1 آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

”پھر میں نے ایک نیا آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔“

انکشاف کرنے والا ابھی موت کہلانے والے انسانی تجربے کے تبدیل شْدہ مرحلے میں سے نہیں گزرا تھا، لیکن اْس نے پہلے ہی نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھ لیا ہے۔مقدس یوحنا کو یہ رویا کس فہم کے وسیلہ ملا؟ دیکھنے والے مادی بصری عضو کے وسیلہ نہیں، کیونکہ آنکھ اِس قدر حیرت انگیز منظر دیکھنے کے لئے ناقص ہے۔ یہ نیا آسمان اور نئی زمین ارضی تھے یا آسمانی، مادی تھے یا روحانی؟یہ پہلے والے نہیں ہوسکتے، کیونکہ انتہا سے متعلق انسانی فہم ایسے منظر کو سمجھ نہیں سکتا۔ انکشاف کرنے والا ہماری وجودیت کی جگہ پر تھا، جبکہ وہ دیکھتے ہوئے جو آنکھ نہیں دیکھ سکتی، جو غیر الہامی سوچ کے لئے غیر حاضر ہے۔ مقدس تحریر کی یہ گواہی سائنس کی اس حقیقت کو قائم رکھتی ہے، کہ آسمان اور زمین ایک انسانی شعور، یعنی وہ شعور جو خدا عطا کرتا ہے، اْس کے لئے روحانی ہے، جبکہ دوسرے شعور، غیر روشن انسانی عقل، کے لئے بصیرت مادی ہے۔ بلاشبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جسے انسانی عقل مادے اور روح کی اصطلاح دیتی ہے اور وہ شعور کے مراحل اور حالتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اس سائنسی شعور کے ہمراہ ایک اور مکاشفہ تھا، حتیٰ کہ آسمان کی طرف سے اعلان، اعلیٰ ہم آہنگی، کہ خدا،ہم آہنگی کا الٰہی اصول ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے، اور وہ اْس کے لوگ ہیں۔ پس انسان کو مزید قابل رحم گناہگار کے طور پر نہیں سمجھا گیا بلکہ خدا کا بابرکت فرزند سمجھا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ آسمان اور زمین سے متعلق مقدس یوحنا کی جسمانی حس غائب ہو چکی تھی، اور اس جھوٹی حس کی جگہ روحانی حس آگئی تھی، جو ایسی نفسی حالت تھی جس کے وسیلہ وہ نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھ سکتاتھا، جس میں روحانی خیال اور حقیقت کا شعور شامل ہے۔ یہ کلام کا اختیار یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے تھا کہ ہستی کی ایسی شناخت اس وجودیت کی موجودہ حالت میں انسان کے لئے ممکن ہے اور رہی تھی، کہ ہم موت، دْکھ اور درد کے آرام سے یہاں اور ابھی باخبر ہو سکتے ہیں۔ یہ قطعی کرسچن سائنس کی چاشنی ہے۔ برداشت کرنے والے عزیزو، حوصلہ کریں، کیونکہ ہستی کی یہ حقیقت یقینا کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں سامنے آئے گی۔ کوئی درد نہیں ہوگا، اور سب آنسو پونچھ دئیے جائیں گے۔ جب آپ یہ پڑھیں تو یسوع کے ان الفاظ کو یاد رکھیں، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے۔“اسی لئے یہ روحانی شعور موجودہ امکان ہے۔

7. 572 : 19 – 2 (pg. 574)

In Revelation xxi. 1 we read: —

And I saw a new heaven and a new earth: for the first heaven and the first earth were passed away; and there was no more sea.

The Revelator had not yet passed the transitional stage in human experience called death, but he already saw a new heaven and a new earth. Through what sense came this vision to St. John? Not through the material visual organs for seeing, for optics are inadequate to take in so wonderful a scene. Were this new heaven and new earth terrestrial or celestial, material or spiritual? They could not be the former, for the human sense of space is unable to grasp such a view. The Revelator was on our plane of existence, while yet beholding what the eye cannot see, — that which is invisible to the uninspired thought. This testimony of Holy Writ sustains the fact in Science, that the heavens and earth to one human consciousness, that consciousness which God bestows, are spiritual, while to another, the unillumined human mind, the vision is material. This shows unmistakably that what the human mind terms matter and spirit indicates states and stages of consciousness.

Accompanying this scientific consciousness was another revelation, even the declaration from heaven, supreme harmony, that God, the divine Principle of harmony, is ever with men, and they are His people. Thus man was no longer regarded as a miserable sinner, but as the blessed child of God. Why? Because St. John's corporeal sense of the heavens and earth had vanished, and in place of this false sense was the spiritual sense, the subjective state by which he could see the new heaven and new earth, which involve the spiritual idea and consciousness of reality. This is Scriptural authority for concluding that such a recognition of being is, and has been, possible to men in this present state of existence, — that we can become conscious, here and now, of a cessation of death, sorrow, and pain. This is indeed a foretaste of absolute Christian Science. Take heart, dear sufferer, for this reality of being will surely appear sometime and in some way. There will be no more pain, and all tears will be wiped away. When you read this, remember Jesus' words, "The kingdom of God is within you." This spiritual consciousness is therefore a present possibility.

8 . ۔ 208 :20۔24

آئیے حقیقی اور ابدی سے متعلق سیکھیں اور روح کی سلطنت، آسمان کی بادشاہی، عالمگیر ہم آہنگی کی بادشاہی اور حکمرانی کے لئے تیاری کریں جو کبھی کھو نہیں سکتی اور نہ ہمیشہ کے لئے اندیکھی رہ سکتی ہے۔

8. 208 : 20-24

Let us learn of the real and eternal, and prepare for the reign of Spirit, the kingdom of heaven, — the reign and rule of universal harmony, which cannot be lost nor remain forever unseen.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔