اتوار 5 نومبر ، 2023
”کیا پہلا انسان تْو ہی پیدا ہوا یا پہاڑوں سے پہلے تیری پیدائش ہوئی؟“
“Art thou the first man that was born? or wast thou made before the hills?”
1۔ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔
3۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔
13۔ وہ نہ خون سے جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔
6۔ بلکہ زمین سے کْہر اٹھتی تھی اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی۔
7۔ اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اْس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھْونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔
21۔ اور خداوند خدا نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور وہ سو گیا اور اْس نے اْس کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال لیا اور اْس کی جگہ گوشت بھر دیا۔
22۔ اور خداوند خدا اْس پسلی سے جو اْس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اْسے آدم کے پاس لایا۔
1۔ اور آدم اپنی بیوی حوا کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی اور اْس کے قائن پیدا ہوا۔ تب اْس نے کہا مجھے خداوند سے ایک مرد ملا۔
1. In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God.
3. All things were made by him; and without him was not any thing made that was made.
13. Which were born, not of blood, nor of the will of the flesh, nor of the will of man, but of God.
6. But there went up a mist from the earth, and watered the whole face of the ground.
7. And the Lord God formed man of the dust of the ground, and breathed into his nostrils the breath of life; and man became a living soul.
21. And the Lord God caused a deep sleep to fall upon Adam, and he slept: and he took one of his ribs, and closed up the flesh instead thereof;
22. And the rib, which the Lord God had taken from man, made he a woman, and brought her unto the man.
1. And Adam knew Eve his wife; and she conceived, and bare Cain, and said, I have gotten a man from the Lord.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
22۔ پس تم انسان سے جس کا دم اْس کے نتھنوں میں ہے باز رہو۔ کیونکہ اْس کی کیا قدر ہے؟
22 Cease ye from man, whose breath is in his nostrils: for wherein is he to be accounted of?
22۔ خداوند نے انتقامِ عالم کے شروع میں اپنی قدیمی صنعتوں سے پہلے مجھے پیدا کیا۔
23۔ مَیں ازل سے یعنی ابتدا ہی سے مقرر ہوئی۔ اِس سے پہلے کہ زمین تھی۔
25۔ مَیں پہاڑوں کے قائم کئے جانے سے پہلے اور ٹیلوں سے پہلے خلق ہوئی۔
26۔ جب کہ اْس نے نہ ابھی زمین کوبنایاتھا نہ میدانوں کو اور نہ زمین کی خاک کی ابتدا تھی۔
27۔ جب اْس نے آسمان کو قائم کیا مَیں وہیں تھی۔ جب اْس نے سمندر کی سطح پر دائرہ کھینچا۔
28۔ جب اْس نے اوپر افلاک کو استوار کیا اور گہراؤ کے سوتے مضبوط ہوگئے۔
29۔ جب اْس نے سمندر کی حد ٹھہرائی تاکہ پانی اْس کے حکم کو نہ توڑے۔ جب اْس نے زمین کی بنیاد کے نشان لگائے۔
30۔ اْس وقت ماہر کاریگر کی مانند اْس کے پاس تھی اور مَیں ہر روز اْس کی خوشنودی تھی اور ہمیشہ اْس کے حضور شادمان رہتی تھی۔
32۔ اِس لئے اے میرے بیٹو! میری سنو۔
22 The Lord possessed me in the beginning of his way, before his works of old.
23 I was set up from everlasting, from the beginning, or ever the earth was.
25 Before the mountains were settled, before the hills was I brought forth:
26 While as yet he had not made the earth, nor the fields, nor the highest part of the dust of the world.
27 When he prepared the heavens, I was there: when he set a compass upon the face of the depth:
28 When he established the clouds above: when he strengthened the fountains of the deep:
29 When he gave to the sea his decree, that the waters should not pass his commandment: when he appointed the foundations of the earth:
30 Then I was by him, as one brought up with him: and I was daily his delight, rejoicing always before him;
32 Now therefore hearken unto me, O ye children:
1۔ انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے تھوڑے دنوں کا ہے اور دکھوں سے بھرا ہے۔
6۔ اْس کی طرف سے نظر ہٹا لے۔
1 Man that is born of a woman is of few days, and full of trouble.
6 Turn from him,
22۔ اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے۔
45۔ چنانچہ لکھا بھی ہے کہ پہلا آدمی یعنی آدم زاد نفس بنا۔ پچھلا آدمی زندگی بخشنے والی روح بنا۔
47۔ پہلا آدمی زمین سے یعنی خاکی تھا۔ دوسرا آسمانی ہے۔
49۔ اور جس طرح ہم اِس خاکی کی صورت پر ہوئے اْسی طرح اْس آسمانی کی صورت پر بھی ہوں گے۔
22 For as in Adam all die, even so in Christ shall all be made alive.
45 And so it is written, The first man Adam was made a living soul; the last Adam was made a quickening spirit.
47 The first man is of the earth, earthy: the second man is the Lord from heaven.
49 And as we have borne the image of the earthy, we shall also bear the image of the heavenly.
1۔ فریسیوں میں سے ایک شخص نیکودیمس نام یہودیوں کا ایک سردار تھا۔
2۔ اْس نے رات کو یسوع کے پاس آکر اْس سے کہا اے ربی ہم جانتے ہیں کہ تْو خدا کی طرف سے استاد ہو کر آیا ہے کیونکہ جو معجزے تْو دکھاتا ہے کوئی شخص نہیں دکھا سکتا جب تک خدا اْس کے ساتھ نہ ہو۔
3۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔
4۔ نیکودیمس نے اْس سے کہا آدمی جب بوڑھا ہوگیا تو کیونکر پیدا ہوسکتا ہے؟ کیا وہ دوبارہ اپنی ماں کے پیٹ میں داخل ہو کر پیدا ہوسکتا ہے؟
5۔ یسوع نے جواب دیا کہ مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی آدمی پانی اور روح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتا۔
6۔ جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو روح سے پیدا ہوا ہے روح ہے۔
7۔ تعجب نہ کر کہ مَیں نے تجھ سے کہا کہ تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔
1 There was a man of the Pharisees, named Nicodemus, a ruler of the Jews:
2 The same came to Jesus by night, and said unto him, Rabbi, we know that thou art a teacher come from God: for no man can do these miracles that thou doest, except God be with him.
3 Jesus answered and said unto him, Verily, verily, I say unto thee, Except a man be born again, he cannot see the kingdom of God.
4 Nicodemus saith unto him, How can a man be born when he is old? can he enter the second time into his mother’s womb, and be born?
5 Jesus answered, Verily, verily, I say unto thee, Except a man be born of water and of the Spirit, he cannot enter into the kingdom of God.
6 That which is born of the flesh is flesh; and that which is born of the Spirit is spirit.
7 Marvel not that I said unto thee, Ye must be born again.
2۔ صبح سویرے ہی وہ پھر ہیکل میں آیا اور سب لوگ اْس کے پاس آئے۔
13۔ فریسیوں نے اْس سے کہا تْو اپنی گواہی آپ دیتا ہے۔ تیری گواہی سچی نہیں۔
25۔ انہوں نے اْس سے کہا تْو کون ہے؟ یسوع نے اْن سے کہا وہی ہوں جو شروع سے تم سے کہتا آیا ہوں۔
38۔میں نے جو اپنے باپ کے ہاں دیکھا وہ کہتا ہوں اور تم نے جو اپنے باپ سے سنا ہے وہ کرتے ہو۔
41۔ پھراْنہوں نے اْس سے کہا ہم حرام سے پیدا نہیں ہوئے۔ ہمار ا ایک باپ ہے یعنی خدا۔
42۔یسوع نے اْن سے کہا اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے اس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اْسی نے مجھے بھیجا۔
44۔تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے خونی ہے اور سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اْس میں سچائی ہے نہیں۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔
45۔ لیکن مَیں جو سچ بولتا ہوں اِسی لئے تم میرا یقین نہیں کرتے۔
51۔ مَیں تم سے سچ کہتاہوں کہ اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔
2 And early in the morning he came again into the temple, and all the people came unto him; and he sat down, and taught them.
13 The Pharisees therefore said unto him,
25 Who art thou? And Jesus saith unto them, Even the same that I said unto you from the beginning.
38 I speak that which I have seen with my Father: and ye do that which ye have seen with your father.
41 Then said they to him, We be not born of fornication; we have one Father, even God.
42 Jesus said unto them, If God were your Father, ye would love me: for I proceeded forth and came from God; neither came I of myself, but he sent me.
44 Ye are of your father the devil, and the lusts of your father ye will do. He was a murderer from the beginning, and abode not in the truth, because there is no truth in him. When he speaketh a lie, he speaketh of his own: for he is a liar, and the father of it.
45 And because I tell you the truth, ye believe me not.
51 Verily, verily, I say unto you, If a man keep my saying, he shall never see death.
37۔ اور اگر چہ اْس نے اْن کے سامنے اتنے معجزے دکھائے تو بھی وہ اْس پر ایمان نہ لائے۔
39۔ اِس سبب سے وہ پھر ایمان نہ لاسکے یسعیاہ نے پھر کہا۔
40۔ اْس نے اْن کی آنکھوں کو اندھا اور اْن کے دل کو سخت کردیا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آنکھوں سے دیکھیں اور دل سے سمجھیں اور رجوح کریں۔ اور مَیں اْنہیں شفا بخشوں۔
43۔ کیونکہ وہ خدا سے عزت حاصل کرنے کی نسبت انسان سے عزت حاصل کرنا زیادہ چاہتے تھے۔
37 But though he had done so many miracles before them, yet they believed not on him:
39 Therefore they could not believe, because that Esaias said …
40 He hath blinded their eyes, and hardened their heart; that they should not see with their eyes, nor understand with their heart, and be converted, and I should heal them.
43 For they loved the praise of men more than the praise of God.
1۔ پولوس کی طرف سے(جو نہ انسانوں کی جانب سے نہ انسان کے سبب سے بلکہ یسوع مسیح اور خدا باپ کے سبب سے جس نے اْس کو مردوں میں سے جلایا) رسول ہے۔
6۔ مَیں تعجب کرتا ہوں کہ جس نے تمہیں مسیح کے فضل سے بلایا اْس سے تم اِس قدر پھر کر کسی اَور طرح کی خوشخبری کی طرف مائل ہونے لگے۔
10۔ اب مَیں آدمیوں کو دوست بناتا ہوں یا خدا کو؟کیا آدمیوں کو خوش کرنا چاہتا ہوں؟ اگر اب تک آدمیوں کو خوش کرتا رہتا تو مسیح کا بندہ نہ ہوتا۔
15۔ لیکن جس خدا نے مجھے میری ماں کے پیٹ ہی سے مخصوص کرلیا اور اپنے فضل سے بلالیا جب اْس کی یہ مرضی ہوئی۔
16۔ کہ اپنے بیٹے کو مجھ میں ظاہر کرے تاکہ مَیں غیر قوموں میں اْس کی خوشخبری دوں تو مَیں نے گوشت اور خون سے صلاح نہیں لی۔
1 Paul, an apostle, (not of men, neither by man, but by Jesus Christ, and God the Father, who raised him from the dead;)
6 I marvel that ye are so soon removed from him that called you into the grace of Christ unto another gospel:
10 For do I now persuade men, or God? or do I seek to please men? for if I yet pleased men, I should not be the servant of Christ.
15 But when it pleased God, who separated me from my mother’s womb, and called me by his grace,
16 To reveal his Son in me, that I might preach him among the heathen; immediately I conferred not with flesh and blood:
1۔ اے میرے بچو!
13۔۔۔۔جو ابتدا سے ہے اْسے تم جان گئے ہو۔۔۔۔تم باپ کو جان گئے ہو۔
16۔ کیونکہ جو کچھ دنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی طرف سے ہے۔
17۔ دنیا اور اْس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔
20۔۔۔۔تم کو تو اْس قدوس کی طرف سے مسح کیا گیا ہے اور تم سب کچھ جانتے ہو۔
24۔ جو تم نے شروع سے سنا ہے وہی تم میں قائم رہے۔ جو تم نے شروع سے سنا ہے اگر وہی تم میں قائم رہے تو تم بھی بیٹے اور باپ میں قائم رہو گے۔
1 My little children,
13 …ye have known him that is from the beginning. … ye have known the Father.
16 For all that is in the world, the lust of the flesh, and the lust of the eyes, and the pride of life, is not of the Father, but is of the world.
17 And the world passeth away, and the lust thereof: but he that doeth the will of God abideth for ever.
20 …ye have an unction from the Holy One, and ye know all things.
24 Let that therefore abide in you, which ye have heard from the beginning. If that which ye have heard from the beginning shall remain in you, ye also shall continue in the Son, and in the Father.
لامتناہی کی کوئی ابتدا نہیں ہے۔یہ لفظ ابتدا اْس واحد کی طرف اشارہ کرنے کے لئے، یعنی انسان اور خدا کی، بشمول کائنات، ابدی حقیقت اور واحدانیت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔
The infinite has no beginning. This word beginning is employed to signify the only, — that is, the eternal verity and unity of God and man, including the universe.
۔۔۔روحانی حقیقی انسان کی کوئی پیدائش نہیں، نہ کوئی مادی زندگی اور نہ موت ہوتی ہے۔
…the spiritual real man has no birth, no material life, and no death.
خدا کی حکمرانی کے تحت ابدی سائنس میں کبھی نہ پیدا ہونے اور کبھی نہ مرنے سے انسان کے لئے اپنے بلند مقام سے نیچے گرنا ناممکن تھا۔
Never born and never dying, it were impossible for man, under the government of God in eternal Science, to fall from his high estate.
جلد یا بدیر ہم یہ سیکھیں گے کہ انسان کی متناہی حیثیت کی بیڑیاں اس فریب نظری کے باعث پگھلنے لگتی ہیں کہ وہ جان کی بجائے بدن میں، روح کی بجائے مادے میں رہتا ہے۔
اگر روح سب کچھ ہے اور ہرجا موجود ہے، تو مادا کیا اور کہاں ہے؟
Sooner or later we shall learn that the fetters of man's finite capacity are forged by the illusion that he lives in body instead of in Soul, in matter instead of in Spirit.
If Spirit is all and is everywhere, what and where is matter?
نیند اور میسمرازم مادی فہم کی افسانوی فطرت کو واضح کرتے ہیں۔ نیند مادی فہم کو فراموشی، عدم یا ایک بھرم یا خواب کے طور پر ظاہر کرتی ہے۔
Sleep and mesmerism explain the mythical nature of material sense. Sleep shows material sense as either oblivion, nothingness, or an illusion or dream.
جب ہم جاگتے ہیں، ہم مادے کے درد اور خوشیوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ کون ایسا ہے جو کہتا ہے، خواہ وہ کرسچن سائنس کو نہ بھی جانتا ہو، کہ یہ خواب، خواب دیکھنے والے کی بجائے، مادی انسان نہیں ہوسکتا۔وگرنہ کون عقلی طور پر یہ کہہ سکتا ہے، جب خواب فانی انسان کو بدن اور سوچ کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے، اگرچہ یہ نام نہاد خواب دیکھنے والا لا شعور ہے؟ درست وجہ کی بنا پر یہاں تصور کے سامنے ایک حقیقت ہونی چاہئے، یعنی روحانی وجودیت۔ حقیقت میں اور کوئی وجودیت نہیں ہے، کیونکہ زندگی اِس کی غیر مشابہت، لافانیت کے ساتھ متحد نہیں ہوسکتی۔
When we are awake, we dream of the pains and pleasures of matter. Who will say, even though he does not understand Christian Science, that this dream — rather than the dreamer — may not be mortal man? Who can rationally say otherwise, when the dream leaves mortal man intact in body and thought, although the so-called dreamer is unconscious? For right reasoning there should be but one fact before the thought, namely, spiritual existence. In reality there is no other existence, since Life cannot be united to its unlikeness, mortality.
تمام تر انسانی مخالفت کا باپ آدم کا خواب تھا، گہری نیند، جس سے یہ بھرم پیدا ہوا کہ زندگی اور ذہانت مادے سے پروان چڑھی اور مادے میں سے گزری۔
The parent of all human discord was the Adam-dream, the deep sleep, in which originated the delusion that life and intelligence proceeded from and passed into matter.
فانی زندگی میں انسانی تجربہ، جو ایک انڈے سے شروع ہوتا ہے، ایوب سے تعلق رکھتا ہے، جب وہ کہتا ہے، ”انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے تھوڑے دن کا ہے اور دْکھ سے بھرا ہے۔“بشر کو اِس مادی زندگی کے خیال سے پورے کا پورا ظاہر ہونا چاہئے۔ اْنہیں کرسچن سائنس کے ساتھ چوٹی سے اپنے خول کھولنے چاہئے، اور اوپر نیچے دیکھنا چاہئے۔
Human experience in mortal life, which starts from an egg, corresponds with that of Job, when he says, "Man that is born of a woman is of few days, and full of trouble." Mortals must emerge from this notion of material life as all-in-all. They must peck open their shells with Christian Science, and look outward and upward.
جیسے کہ فانی انسان اور گناہ دونوں کا ایک آغاز ہے، تو نتیجتاً اْن کا ایک اختتام بھی ہوگا، جبکہ ایک بے گناہ، حقیقی انسان ابدی ہے۔حوا کا یہ اقرار نامہ کہ، ”مجھے خداوند سے ایک مرد ملا“، خدا کو ایک گناہ اور گناہ کی اولاد کا مصنف تصورکرتا ہے۔ وجودیت کا یہ جھوٹا فہم اتحادی ہے۔بقول یسوع کے یہ (بدی، شیطان) ”شروع ہی سے خونی“ ہے۔
As both mortal man and sin have a beginning, they must consequently have an end, while the sinless, real man is eternal. Eve's declaration, "I have gotten a man from the Lord," supposes God to be the author of sin and sin's progeny. This false sense of existence is fratricidal. In the words of Jesus, it (evil, devil) is "a murderer from the beginning."
جتنا ہم کرسکتے ہیں اْس کی نسبت یسوع نے خدا اور اْس کی تخلیق کی اِس مخالفت کو بہتر واضح کیا جب اْس نے کہا، ”وہ جھوٹا ہے، بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔“ یسوع نے یہ بھی کہا، ”مَیں نے تم بارہ کو نہیں چْن لیا؟ اور تم میں سے ایک شیطان ہے۔“یہ اْس نے یہوداہ کے بارے میں کہا تھا جو آدم ہی کی نسل میں سے ایک تھا۔یسوع نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خدا نے شیطان کو بنایا، بلکہ اْس نے کہا، ”تم اپنے باپ ابلیس سے ہو۔“اِن سب اقوال کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ مادے میں عقل خود کی مصنف ہے اوریہ محض جھوٹ اور بھرم ہے۔
Jesus defined this opposite of God and His creation better than we can, when he said, "He is a liar, and the father of it." Jesus also said, "Have not I chosen you twelve, and one of you is a devil?" This he said of Judas, one of Adam's race. Jesus never intimated that God made a devil, but he did say, "Ye are of your father, the devil." All these sayings were to show that mind in matter is the author of itself, and is simply a falsity and illusion.
آدم، کلام میں مٹی سے بنا ہوا پیش کیا گیا، انسانی عقل کے لئے ایک مادی سبق ہے۔ مادی حواس، آدم کی مانند، مادے میں جنم لیتی ہیں اور مٹی میں لوٹ جاتی ہیں، یہ اْن کے غیر ذہین ہونے کا ثبوت ہے۔وہ ویسے ہی باہر جاتی ہیں جیسے وہ اندر آتی ہیں، کیونکہ وہ ابھی بھی غلطی ہیں، نہ کہ ہستی کی سچائی ہیں۔
Adam, represented in the Scriptures as formed from dust, is an object-lesson for the human mind. The material senses, like Adam, originate in matter and return to dust, — are proved non-intelligent. They go out as they came in, for they are still the error, not the truth of being.
جب ہم سچ کے لئے جھوٹے فہم کو اْتار ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ گناہ اور فانیت نہ تو اصول ہیں نہ ہی مستقل ہیں، تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ گناہ اور لافانیت حقیقی ابتدا یا درست وجودیت سے مبرا ہیں۔ وہ عدم کے باسی ہیں، جس سے غلطی تخلیق کا جھوٹا دعویٰ کرے گی جو مٹی سے بنے انسان کے وسیلہ ہوئی ہو۔
الٰہی سائنس نئی مے پرانی مشکوں میں، جان کو مادے میں اور نہ ہی لامحدود کو محدود میں انڈیلتی ہے۔جب ہم روح کے حقائق کو تھام لیتے ہیں تو ہمارے مادے سے متعلق جھوٹے خیالات ختم ہو جاتے ہیں۔ پرانے عقیدے کو باہر نکالنا چاہئے وگرنہ نیا خیال بہہ جائے گا، اور وہ الہام جس نے ہمارا نقطہ نظر تبدیل کرنا ہے کھو جائے گا۔ اب، ماضی کی طرح، سچائی بدیوں کو باہر نکاتی ہے اور بیمار کو شفا دیتی ہے۔
When we put off the false sense for the true, and see that sin and mortality have neither Principle nor permanency, we shall learn that sin and mortality are without actual origin or rightful existence. They are native nothingness, out of which error would simulate creation through a man formed from dust.
Divine Science does not put new wine into old bottles, Soul into matter, nor the infinite into the finite. Our false views of matter perish as we grasp the facts of Spirit. The old belief must be cast out or the new idea will be spilled, and the inspiration, which is to change our standpoint, will be lost. Now, as of old, Truth casts out evils and heals the sick.
پیدائش، زوال، اور موت چیزوں کے مادی فہم سے نہ کہ روحانی فہم سے پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ بعد والے میں زندگی اْن چیزوں پر مشتمل نہیں جو انسان کھاتا ہے۔ مادہ اِس ابدی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا کہ انسان اِس لئے موجود ہے کیونکہ خدا موجود ہے۔
Birth, decay, and death arise from the material sense of things, not from the spiritual, for in the latter Life consisteth not of the things which a man eateth. Matter cannot change the eternal fact that man exists because God exists. Nothing is new to the infinite Mind.
نئے بچے یا الٰہی خیال کی پیدائش پر غور کرنے کے لئے، آپ کو اِس کے مادی نظریات سے فانی خیال کو الگ کرنا ہوگا،۔۔۔ایک روحانی خیال میں غلطی کا ایک بھی عنصر نہیں پایا جاتا، اور یہ سچائی مکمل طور پر اْسے ختم کر دیتی ہے جو کچھ اِس کے مخالف ہوتا ہے۔
To attend properly the birth of the new child, or divine idea, you should so detach mortal thought from its material conceptions, … A spiritual idea has not a single element of error, and this truth removes properly whatever is offensive.
۔۔۔انسانی تاریخ میں، جب ممنوع پھل اپنے جیسے پھل پیدا کرنا شروع ہوا تھا، تو اِس طرزِ عمل میں تبدیلی کی تجویز سامنے آئی، کہ انسان کو عورت سے جنم لینا چاہئے، مگر اْس عورت سے نہیں جو آدمی سے بنائی گئی ہو۔
…in human history, when the forbidden fruit was bringing forth fruit of its own kind, there came a suggestion of change in the modus operandi, — that man should be born of woman, not woman again taken from man.
انسان کی ابتدا اور فطرت کے حوالے سے ایک اور تبدیلی آنے والی ہے، اور یہ انکشاف وجودیت کے خواب کو تباہ کردے گا، حقیقت کو، سائنس کو اِس جلالی سچ کوبحال کرے گا، کہ آدمی اور عورت دونوں خدا سے پیدا ہوئے اور اْس کی ابدی اولاد ہیں جن کا تعلق والدین سے کم والا نہیں ہے۔
Another change will come as to the nature and origin of man, and this revelation will destroy the dream of existence, reinstate reality, usher in Science and the glorious fact of creation, that both man and woman proceed from God and are His eternal children, belonging to no lesser parent.
الٰہی سائنس سچائی کی روشنی سے غلطی کے بادلوں کو ہٹا دیتی ہے، اور انسان کے لئے کبھی نہ پیدا ہونے والے یا کبھی نہ مرنے والے بلکہ اپنے خالق کے ساتھ ہمیشہ وجود رکھنے والے کے طور پر پردہ ہٹاتی ہے۔
Divine Science rolls back the clouds of error with the light of Truth, and lifts the curtain on man as never born and as never dying, but as coexistent with his creator.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔