اتوار 9 اکتوبر ، 2022



مضمون۔ کیا گناہ، بیماری اور موت حقیقی ہیں؟

SubjectAre Sin, Disease, and Death Real?

سنہری متن: امثال 12 باب28 آیت

”صداقت کی راہ میں زندگی ہے اور اْس کے راستے میں ہر گز موت نہیں۔“



Golden Text: Proverbs 12 : 28

In the way of righteousness is life; and in the pathway thereof there is no death.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: زبور 118: 1، 14تا18 آیات


1۔ خداوند کا شکر کرو کیونکہ وہ بھلا ہے اور اْس کی شفقت ابدی ہے۔

14۔ خداوند میری قوت اور میرا گیت ہے۔ وہی میری نجات ہوا۔

15۔ صادقوں کے خیموں میں شادمانی اور نجات کی راگنی ہے۔ خداوند کا دہنا ہاتھ دلاوری کرتا ہے۔

16۔ خداوند کا دہنا ہاتھ بلند ہوا۔ خداوند کا دہنا ہاتھ دلاوری کرتا ہے۔

17۔ مَیں مروں گا نہیں بلکہ جیتا رہوں گا۔ اور خداوند کے کاموں کا بیان کروں گا۔

18۔ خداوند نے مجھے سخت تنبیہ توکی لیکن موت کے حوالہ نہیں کیا۔

Responsive Reading: Psalm 118 : 1, 14-18

1.     O give thanks unto the Lord; for he is good: because his mercy endureth for ever.

14.     The Lord is my strength and song, and is become my salvation.

15.     The voice of rejoicing and salvation is in the tabernacles of the righteous: the right hand of the Lord doeth valiantly.

16.     The right hand of the Lord is exalted: the right hand of the Lord doeth valiantly.

17.     I shall not die, but live, and declare the works of the Lord.

18.     The Lord hath chastened me sore: but he hath not given me over unto death.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 103: 1تا8، 10تا12، 20، تا22 آیات

1۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور جو کچھ مجھ میں ہے اْس کے قدوس نام کو مبارک کہے۔

2۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور اْس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر۔

3۔ وہ تیری ساری بدکاری بخشتا ہے۔ وہ تجھے تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔

4۔ وہ تیری جان ہلاکت سے بچاتا ہے۔ وہ تیرے سر پر شفقت و رحمت کا تاج رکھتا ہے۔

5۔ وہ تجھے عمر بھر اچھی اچھی چیزوں سے آسودہ کرتا ہے۔ تْو عْقاب کی مانند از سرِ نو جوان ہوتا ہے۔

6۔ خداوند سب مظلوموں کے لئے صداقت اور عدل کے کام کرتا ہے۔

7۔ اْس نے اپنی راہیں موسیٰ پر اور اپنے سب کام بنی اسرائیل پر ظاہر کئے۔

8۔ خداوند رحیم اور کریم ہے۔ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی۔

10۔ اْس نے ہمارے گناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہمیں بدلہ نہیں دیا۔

11۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اْسی قدر اْس کی شفقت اْن پر ہے جو اْس سے ڈرتے ہیں۔

12۔ جیسے پورب پچھم سے دور ہے ویسے ہی اْس نے ہماری خطائیں ہم سے دور کردیں۔

20۔ اے خداوند کے فرشتو! اْس کو مبارک کہو۔ تم جو زور میں بڑھ کر ہو اور اْس کے کلام کی آواز سن کر اْس پر عمل کرتے ہو۔

21۔ اے خداوند کے لشکرو! سب اْس کو مبارک کہو۔ تم جو اْس کے خادم ہو اور اْس کی مرضی بجا لاتے ہو۔

22۔ تم جو اْس کے تسلط کے سب مقاموں میں ہو۔ اے میری جان! تْو خداوند کو مبارک کہہ۔

1. Psalm 103 : 1-8, 10-12, 20-22

1     Bless the Lord, O my soul: and all that is within me, bless his holy name.

2     Bless the Lord, O my soul, and forget not all his benefits:

3     Who forgiveth all thine iniquities; who healeth all thy diseases;

4     Who redeemeth thy life from destruction; who crowneth thee with lovingkindness and tender mercies;

5     Who satisfieth thy mouth with good things; so that thy youth is renewed like the eagle’s.

6     The Lord executeth righteousness and judgment for all that are oppressed.

7     He made known his ways unto Moses, his acts unto the children of Israel.

8     The Lord is merciful and gracious, slow to anger, and plenteous in mercy.

10     He hath not dealt with us after our sins; nor rewarded us according to our iniquities.

11     For as the heaven is high above the earth, so great is his mercy toward them that fear him.

12     As far as the east is from the west, so far hath he removed our transgressions from us.

20     Bless the Lord, ye his angels, that excel in strength, that do his commandments, hearkening unto the voice of his word.

21     Bless ye the Lord, all ye his hosts; ye ministers of his, that do his pleasure.

22     Bless the Lord, all his works in all places of his dominion: bless the Lord, O my soul.

2 . ۔ 1 سلاطین 8 باب22 (سلیمان)، 23، 33تا36 آیات

22۔ سلیمان نے اسرائیل کی ساری جماعت کے روبرو خداوند کے منبع کے آگے کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے۔

23۔ اور کہا اے خداوند اسرائیل کے خدا تیری مانند نہ تو اوپر آسمان میں نہ نیچے زمین پر کوئی خدا ہے۔ تْو اپنے اْن بندوں کے لئے جو تیرے حضور اپنے سارے دل سے چلتے ہیں عہد اور رحمت کو نگاہ میں رکھتا ہے۔

33۔ جب تیری قوم اسرائیل تیرا گناہ کرنے کے باعث اپنے دشمنوں سے شکست کھائے اور پھر تیری طرف رجوح لائے اور تیرے نام کا اقرار کر کے اِس گھر میں تجھ سے دعا اور مناجات کرے۔

34۔ تو تْو آسمان پر سے سن کر اپنی قوم اسرائیل کا گناہ معاف کرنا اور اْن کو اِس ملک میں جو تْو نے اْن کے باپ دادا کو دیا پھر لے آنا۔

35۔ جب اِس سبب سے کہ انہوں نے تیرا گناہ کیا ہو آسمان بند ہو جائے اور بارش نہ ہو اور وہ اِس مقام کی طرف رْخ کر کے دعا کریں اور تیرے نام کا اقرار کریں اور اپنے گناہ سے باز آئیں جب تْو اْن کو دکھ دے۔

36۔ تو تْو آسمان پر سے سن کر اپنے بندوں اور اپنی قوم اسرائیل کا گناہ معاف کر کیونکہ تْو اْن کو اْس اچھی راہ کی تعلیم دیتا ہے جس پر اْن کو چلنا فرض ہے اور اپنے ملک پر جسے تْونے اپنی قوم کو میراث میں دیا ہے مینہ برسانا۔

2. I Kings 8 : 22 (Solomon), 23, 33-36

22     Solomon stood before the altar of the Lord in the presence of all the congregation of Israel, and spread forth his hands toward heaven:

23     And he said, Lord God of Israel, there is no God like thee, in heaven above, or on earth beneath, who keepest covenant and mercy with thy servants that walk before thee with all their heart:

33     When thy people Israel be smitten down before the enemy, because they have sinned against thee, and shall turn again to thee, and confess thy name, and pray, and make supplication unto thee in this house:

34     Then hear thou in heaven, and forgive the sin of thy people Israel, and bring them again unto the land which thou gavest unto their fathers.

35     When heaven is shut up, and there is no rain, because they have sinned against thee; if they pray toward this place, and confess thy name, and turn from their sin, when thou afflictest them:

36     Then hear thou in heaven, and forgive the sin of thy servants, and of thy people Israel, that thou teach them the good way wherein they should walk, and give rain upon thy land, which thou hast given to thy people for an inheritance.

3 . ۔ لوقا 13 باب11(یہاں) تا17 آیات

11۔۔۔۔یہاں ایک عورت تھی جس کو اٹھارہ برس سے کسی بد روح کے باعث کمزوری تھی۔ وہ کْبڑی ہو گئی تھی اور کسی طرح سیدھی نہیں ہو سکتی تھی۔

12۔ یسوع نے اْسے دیکھ کر بلایا اور اْس سے کہا اے عورت تْو اپنی کمزوری سے چھوٹ گئی۔

13۔ اور اْس نے اْس پر ہاتھ رکھے۔ وہ اْسی دم سیدھی ہوگئی اور خدا کی تمجید کرنے لگی۔

14۔ عبادتخانے کا سردار اِس لئے کہ یسوع نے سبت کے دن شفا بخشی خفا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا چھ دن ہیں جن میں کام کرنا چاہئے پس اْنہی میں آکر شفا پاؤ نہ کہ سبت کے دن۔

15۔ خداوند نے اْس کے جواب میں کہا اے ریاکارو! کیا ہر ایک تم میں سے سبت کے دن اپنے بیل یا گدھے کو تھان سے کھول کر پانی پینے نہیں لے جاتا؟

16۔اورواجب نہ تھا کہ یہ جو ابراہام کی بیٹی ہے جس کو شیطان نے اٹھارہ برس سے باندھ رکھا تھا سبت کے دن اِس بند سے چھڑائی جاتی؟

17۔ جب اْس نے یہ باتیں کہیں تو اْس کے سب مخالف شرمندہ ہوئے اور ساری بھیڑ اْن عالیشان کاموں سے جو اْس سے ہوتے تھے خوش ہوئی۔

3. Luke 13 : 11 (there)-17

11     … there was a woman which had a spirit of infirmity eighteen years, and was bowed together, and could in no wise lift up herself.

12     And when Jesus saw her, he called her to him, and said unto her, Woman, thou art loosed from thine infirmity.

13     And he laid his hands on her: and immediately she was made straight, and glorified God.

14     And the ruler of the synagogue answered with indignation, because that Jesus had healed on the sabbath day, and said unto the people, There are six days in which men ought to work: in them therefore come and be healed, and not on the sabbath day.

15     The Lord then answered him, and said, Thou hypocrite, doth not each one of you on the sabbath loose his ox or his ass from the stall, and lead him away to watering?

16     And ought not this woman, being a daughter of Abraham, whom Satan hath bound, lo, these eighteen years, be loosed from this bond on the sabbath day?

17     And when he had said these things, all his adversaries were ashamed: and all the people rejoiced for all the glorious things that were done by him.

4 . ۔ 1 یوحنا 2 باب1تا5 آیات

1۔ اے میرے بچو! یہ باتیں مَیں تمہیں اِس لئے لکھتا ہوں کہ تم گناہ نہ کرو اور اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پا س ہمارا ایک مدد گار موجود ہے یعنی یسوع مسیح راستباز۔

2۔ اور وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا۔

3۔ اگر ہم اْس کے حکموں پر عمل کریں گے تو اِس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم اْسے جان گئے ہیں۔

4۔ جو کوئی یہ کہتا ہے کہ مَیں اْسے جان گیا ہوں اور اْس کے حکموں پر عمل نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے اور اْس میں سچائی نہیں۔

5۔ ہاں جو کوئی اْس کے کلام پر عمل کرے اْس میں یقیناً خدا کی محبت کامل ہو گئی ہے۔ ہمیں اِسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اْس میں ہیں۔

4. I John 2 : 1-5

1     My little children, these things write I unto you, that ye sin not. And if any man sin, we have an advocate with the Father, Jesus Christ the righteous:

2     And he is the propitiation for our sins: and not for ours only, but also for the sins of the whole world.

3     And hereby we do know that we know him, if we keep his commandments.

4     He that saith, I know him, and keepeth not his commandments, is a liar, and the truth is not in him.

5     But whoso keepeth his word, in him verily is the love of God perfected: hereby know we that we are in him.

5 . ۔ مکاشفہ21 باب1(مَیں)تا7 آیات

1۔ پھر مَیں نے ایک نیا آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔

2۔ پھر مَیں نے شہرِ مقدس نئے یرشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اترتے دیکھا اور وہ اْس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کے لئے شنگھار کیا ہو۔

3۔ پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اْن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اْس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اْن کے ساتھ رہے گا اور اْن کا خدا ہوگا۔

4۔ اور وہ اْن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اور اْس کے بعد نہ موت رہے گی نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔

5۔ اور جو تخت پر بیٹھا ہوا تھا اْس نے کہا دیکھ مَیں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں۔ پھر اْس نے کہا لکھ لے کیونکہ یہ باتیں سچ اور بر حق ہیں۔

6۔ پھر اْس نے مجھ سے کہا یہ باتیں پوری ہوگئیں۔ مَیں الفا اور اومیگا یعنی ابتدا اور انتہا ہوں۔ مَیں پیاسے کو آبِ حیات کے چشمے سے مفت پلاؤں گا۔

7۔ جو غالب آئے وہی اِن چیزوں کا وارث ہوگا اور مَیں اْس کا خدا ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہوگا۔

5. Revelation 21 : 1 (I)-7

1     I saw a new heaven and a new earth: for the first heaven and the first earth were passed away; and there was no more sea.

2     And I John saw the holy city, new Jerusalem, coming down from God out of heaven, prepared as a bride adorned for her husband.

3     And I heard a great voice out of heaven saying, Behold, the tabernacle of God is with men, and he will dwell with them, and they shall be his people, and God himself shall be with them, and be their God.

4     And God shall wipe away all tears from their eyes; and there shall be no more death, neither sorrow, nor crying, neither shall there be any more pain: for the former things are passed away.

5     And he that sat upon the throne said, Behold, I make all things new. And he said unto me, Write: for these words are true and faithful.

6     And he said unto me, It is done. I am Alpha and Omega, the beginning and the end. I will give unto him that is athirst of the fountain of the water of life freely.

7     He that overcometh shall inherit all things; and I will be his God, and he shall be my son.



سائنس اور صح


1 . ۔ 99 :23۔29

سچی روحانیت کے پْر سکون، مضبوط دھارے، جن کے اظہار صحت، پاکیزگی اور خود کار قربانی ہیں، اِنہیں اْس وقت تک انسانی تجربے کو گہرا کرنا چاہئے جب تک مادی وجودیت کے عقائد واضح مسلط ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور گناہ، بیماری اور موت روحانی الوہیت کے سائنسی اظہاراور خدا کے روحانی، کامل انسان کو جگہ فراہم نہیں کرتے۔

1. 99 : 23-29

The calm, strong currents of true spirituality, the manifestations of which are health, purity, and self-immolation, must deepen human experience, until the beliefs of material existence are seen to be a bald imposition, and sin, disease, and death give everlasting place to the scientific demonstration of divine Spirit and to God's spiritual, perfect man.

2 . ۔ 248 :26۔32

ہمیں خیالات میں کامل نمونے بنانے چاہئیں اور اْن پر لگاتار غور کرنا چاہئے، وگرنہ ہم انہیں کبھی عظیم اور شریفانہ زندگیوں میں نقش نہیں کر سکتے۔ ہمارے اندر بے غرضی، اچھائی، رحم، عدل، صحت، پاکیزگی، محبت، آسمان کی بادشاہی کو سلطنت کرنے دیں اور گناہ، بیماری اور موت تلف ہونے تک کم ہوتے جائیں گے۔

2. 248 : 26-32

We must form perfect models in thought and look at them continually, or we shall never carve them out in grand and noble lives. Let unselfishness, goodness, mercy, justice, health, holiness, love — the kingdom of heaven — reign within us, and sin, disease, and death will diminish until they finally disappear.

3 . ۔ 166 :23۔32

علم الحیات اور حفظان صحت کے فروغ کے وسیلہ صحت مندی کو بحال کرنے میں ناکام ہونا، مایوس باطل اکثر اْنہیں ترک کردیتا ہے، اور اپنی انتہا میں اور صرف بطور آخری قیام گاہ، وہ خدا کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ ادویات، ہوا اور تجربے پریقین کی نسبت باطل کا الٰہی عقل پر یقین کم ہوتا ہے، وگرنہ وہ پہلے عقل سے بحال ہوجاتا۔ زیادہ تر طبی نظاموں کی جانب سے قوت کا توازن مادے کی بدولت تسلیم کیا جاتا ہے؛ لیکن جب عقل کم از کم اپنی مہارت کاگناہ، بیماری اور موت پر دعویٰ کرتی ہے، تبھی انسان ہم آہنگ اور لافانی پایا جاتا ہے۔

3. 166 : 23-32

Failing to recover health through adherence to physiology and hygiene, the despairing invalid often drops them, and in his extremity and only as a last resort, turns to God. The invalid's faith in the divine Mind is less than in drugs, air, and exercise, or he would have resorted to Mind first. The balance of power is conceded to be with matter by most of the medical systems; but when Mind at last asserts its mastery over sin, disease, and death, then is man found to be harmonious and immortal.

4 . ۔ 317 :16۔23

انسان کی انفرادیت کم ٹھوس نہیں ہے کیونکہ یہ روحانی ہے اور کیونکہ اْس کی زندگی مادے کے رحم و کرم پر نہیں ہے۔ خود کی روحانیت انفرادیت کا ادراک انسان کو مزید حقیقی، سچائی میں مزید مضبوط بناتا ہے اور اْسے گناہ، بیماری اور موت کو فتح کرنے کے قابل بناتا ہے۔ قبر میں سے جی اٹھنے کے بعد ہمارے خداوند اور مالک نے خود کو اپنے شاگردوں پر ہو بہو اْسی یسوع کے طور پر پیش کیا جسے وہ کلوری کے سانحہ سے پہلے پیار کرتے تھے۔

4. 317 : 16-23

The individuality of man is no less tangible because it is spiritual and because his life is not at the mercy of matter. The understanding of his spiritual individuality makes man more real, more formidable in truth, and enables him to conquer sin, disease, and death. Our Lord and Master presented himself to his disciples after his resurrection from the grave, as the self-same Jesus whom they had loved before the tragedy on Calvary.

5 . ۔ 494 :15 (یسوع)۔24

یسوع نے مادیت کی نااہلیت کو اس کے ساتھ ساتھ روح کی لامحدود قابلیت کو ظاہر کیا، یوں غلطی کرنے والے انسانی فہم کو خود کی سزاؤں سے بھاگنے اور الٰہی سائنس میں تحفظ تلاش کرنے میں مدد کی۔مناسب ہدایت کی گئی وجہ جسمانی حس کی غلطی کو سدھارنے کا کام کرتی ہے، لیکن جب تک انسان کی ابدی ہم آہنگی کی سائنس سائنسی ہستی کی مْتصل حقیقت کے ذریعے اْن کی فریب نظری کو ختم نہیں کرتی گناہ، بیماری اور موت حقیقی ہی نظر آتے رہیں گے (جیسا کہ سوتے ہوئے خوابوں کے تجربات حقیقی دکھائی دیتے ہیں)۔

5. 494 : 15 (Jesus)-24

Jesus demonstrated the inability of corporeality, as well as the infinite ability of Spirit, thus helping erring human sense to flee from its own convictions and seek safety in divine Science. Reason, rightly directed, serves to correct the errors of corporeal sense; but sin, sickness, and death will seem real (even as the experiences of the sleeping dream seem real) until the Science of man's eternal harmony breaks their illusion with the unbroken reality of scientific being.

6 . ۔ 429 :31۔11

یسوع نے کہا (یوحنا 8 باب51 آیت)، ”اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابدتک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔“ یہ بیان روحانی زندگی تک محدود نہیں، بلکہ اس میں وجودیت کا کرشمہ بھی شامل ہے۔ یسوع نے اس کا اظہار مرنے والے کو شفا دیتے اور مردہ کو زندہ کرتے ہوئے کیا۔ فانی عقل کو غلطی سے دور ہونا چاہئے، خود کو اس کے کاموں سے الگ رکھنا چاہئے تو لافانی جوان مردی، مثالی مسیح، غائب ہو جائے گا۔ مادے کی بجائے روح پر انحصار کرتے ہوئے ایمان کو اپنی حدود کو وسیع کرنا اور اپنی بنیاد کو مضبوط کرنا چاہئے۔ جب انسان موت پر اپنے یقین کو ترک کر دیتا ہے،وہ مزید تیزی سے خدا، زندگی اور محبت کی جانب بڑھے گا۔ بیماری اور موت پر یقین، یقیناً گناہ پر یقین کی مانند، زندگی اور صحت مندی کے سچے فہم کو بند کرنے کی جانب رجوع کرتا ہے۔

6. 429 : 31-11

Jesus said (John viii. 51), "If a man keep my saying, he shall never see death." That statement is not confined to spiritual life, but includes all the phenomena of existence. Jesus demonstrated this, healing the dying and raising the dead. Mortal mind must part with error, must put off itself with its deeds, and immortal manhood, the Christ ideal, will appear. Faith should enlarge its borders and strengthen its base by resting upon Spirit instead of matter. When man gives up his belief in death, he will advance more rapidly towards God, Life, and Love. Belief in sickness and death, as certainly as belief in sin, tends to shut out the true sense of Life and health.

7 . ۔ 543 :8۔16

الٰہی سائنس میں، مادی انسان خدا کی حضوری سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ پانچ مادی جسمانی حواس روح کی پہچان نہیں کر سکتے۔ وہ اْس کی حضوری میں نہیں آسکتے، اور انہیں خوابوں کی دنیا میں ہی رہنا پڑتا ہے، جب تک بشر اس ادراک تک نہیں پہنچتے کہ مادی زندگی، اپنے تمام تر گناہ، بیماری اورموت کے ساتھ، ایک فریب نظری ہے، الٰہی سائنس جس کے خلاف ایک خاتمے کے محاذ میں شامل ہے۔ وجودیت کی بڑی حقیقتیں غلطی کے باعث کبھی خارج نہیں کیں جاتیں۔

7. 543 : 8-16

In divine Science, the material man is shut out from the presence of God. The five corporeal senses cannot take cognizance of Spirit. They cannot come into His presence, and must dwell in dreamland, until mortals arrive at the understanding that material life, with all its sin, sickness, and death, is an illusion, against which divine Science is engaged in a warfare of extermination. The great verities of existence are never excluded by falsity.

8 . ۔ 395 :6۔14

ایک بڑے نمونے کی مانند،روح کو جسمانی حواس کی جھوٹی گواہیوں پر حکومت کرنے اور بیماری اور فانیت پر دعووں کو جتانے کے لئے آزاد کرتے ہوئے، شفا دینے والے کو بیماری کے ساتھ بات کرنی چاہئے کیونکہ اْسے اْس پر اختیا رحاصل ہے۔ یہی اصول گناہ اور بیماری کو شفا دیتا ہے۔ جب الٰہی سائنس نفسانی سوچ کے ایمان پر اور اس ایمان پر قابو پا لیتی ہے کہ خدا پر یقین گناہ اور مادی شفائیہ طریقوں پر یقین کو نیست کردیتا ہے، تو گناہ، بیماری اور موت غائب ہو جائیں گے۔

8. 395 : 6-14

Like the great Exemplar, the healer should speak to disease as one having authority over it, leaving Soul to master the false evidences of the corporeal senses and to assert its claims over mortality and disease. The same Principle cures both sin and sickness. When divine Science overcomes faith in a carnal mind, and faith in God destroys all faith in sin and in material methods of healing, then sin, disease, and death will disappear.

9 . ۔ 253 :9۔17

عزیز قارین، مجھے امید ہے کہ میں آپ کوآپ کے الٰہی حقوق کے فہم، آپ کی آسمانی عطاکردہ ہم آہنگی کی جانب راہنمائی دے رہا ہوں، تاکہ جب آپ یہ پڑھیں تو آپ دیکھیں کہ ایسی کوئی وجہ (غلطی کرنے کے علاوہ، کوئی مادی حس جس میں کوئی قوت نہیں ہے)اس قابل نہیں ہے کہ آپ کو بیمار یا گناہگار بنا سکے؛ اور مجھے امید ہے کہ آپ اس جھوٹی سوچ پر فتح پا رہے ہیں۔ نام نہاد مادی حس کے جھوٹ کو جانتے ہوئے آپ گناہ، بیماری یاموت کے عقیدے پرفتح پانے والے اپنے استحقاق کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

9. 253 : 9-17

I hope, dear reader, I am leading you into the understanding of your divine rights, your heaven-bestowed harmony, — that, as you read, you see there is no cause (outside of erring, mortal, material sense which is not power) able to make you sick or sinful; and I hope that you are conquering this false sense. Knowing the falsity of so-called material sense, you can assert your prerogative to overcome the belief in sin, disease, or death.

10 . ۔ 572 :19۔25

مکاشفہ 21باب1 آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

”پھر میں نے ایک نیا آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔“

انکشاف کرنے والا ابھی موت کہلانے والے انسانی تجربے کے تبدیل شْدہ مرحلے میں سے نہیں گزرا تھا، لیکن اْس نے پہلے ہی نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھ لیا ہے۔

10. 572 : 19-25

In Revelation xxi. 1 we read: —

And I saw a new heaven and a new earth: for the first heaven and the first earth were passed away; and there was no more sea.

The Revelator had not yet passed the transitional stage in human experience called death, but he already saw a new heaven and a new earth.

11 . ۔ 573 :19 (مقدس یوحنا کی)۔2

کیونکہ آسمان اور زمین سے متعلق مقدس یوحنا کی جسمانی حس غائب ہو چکی تھی، اور اس جھوٹی حس کی جگہ روحانی حس آگئی تھی، جو ایسی نفسی حالت تھی جس کے وسیلہ وہ نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھ سکتاتھا، جس میں روحانی خیال اور حقیقت کا شعور شامل ہے۔ یہ کلام کا اختیار یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے تھا کہ ہستی کی ایسی شناخت اس وجودیت کی موجودہ حالت میں انسان کے لئے ممکن ہے اور رہی تھی، کہ ہم موت، دْکھ اور درد کے آرام سے یہاں اور ابھی باخبر ہو سکتے ہیں۔ یہ قطعی کرسچن سائنس کی چاشنی ہے۔ برداشت کرنے والے عزیزو، حوصلہ کریں، کیونکہ ہستی کی یہ حقیقت یقینا کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں سامنے آئے گی۔ کوئی درد نہیں ہوگا، اور سب آنسو پونچھ دئیے جائیں گے۔ جب آپ یہ پڑھیں تو یسوع کے ان الفاظ کو یاد رکھیں، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے۔“اسی لئے یہ روحانی شعور موجودہ امکان ہے۔

11. 573 : 19 (St. John’s)-2

St. John's corporeal sense of the heavens and earth had vanished, and in place of this false sense was the spiritual sense, the subjective state by which he could see the new heaven and new earth, which involve the spiritual idea and consciousness of reality. This is Scriptural authority for concluding that such a recognition of being is, and has been, possible to men in this present state of existence, — that we can become conscious, here and now, of a cessation of death, sorrow, and pain. This is indeed a foretaste of absolute Christian Science. Take heart, dear sufferer, for this reality of being will surely appear sometime and in some way. There will be no more pain, and all tears will be wiped away. When you read this, remember Jesus' words, "The kingdom of God is within you." This spiritual consciousness is therefore a present possibility.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████