اتوار 10جنوری،2021



مضمون۔ ساکرامنٹ

SubjectSacrament

سنہری متن: 2 تواریخ 34 باب27 آیت

”خدا یوں فرماتا ہے چونکہ تیرا دل موم ہوگیا تْو نے خداوند کے حضور عاجزی کی جب تْو نے اْس کی وہ باتیں سنیں، اِس لئے مَیں نے بھی تیری سن لی ہے۔“



Golden Text: II Chronicles 34 : 27

Because thine heart was tender, and thou didst humble thyself before God, when thou heardest his words, I have even heard thee also, saith the Lord.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: استثنا 8 باب 1تا4، 11، 17، 18آیات


1۔ سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں تم احتیاط کر کے عمل کرنا تاکہ تم جیتے اور بڑھتے رہو اور جس ملک کی بابت خداوند نے تمہارے باپ دادا سے قسم کھائی ہے تم اْس میں جا کر اْس پر قبضہ کرو۔

2۔ اور تْو اْس سارے طریق کو یاد رکھنا جس پر اِن چالیس برسوں میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو اِس بیابان میں چلایا تاکہ وہ تجھ کو عاجز کر کے آزمائے اور تیرے دل کی بات دریافت کرے کہ تْو اْس کے حکموں کو مانے گا یا نہیں۔

3۔ اور اْس نے تجھ کو عاجز کیا بھی اور تجھ کو بھوکا ہونے دیا اور وہ من جسے نہ تْو نہ تیرے باپ دادا جانتے تھے تجھ کو کھلایا تاکہ تجھ کو سکھائے کہ انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا بلکہ ہر بات سے جوخداوند کے منہ سے نکلتی ہے وہ جیتا رہتا ہے۔

4۔ اْن چالیس برسوں میں نہ تو تیرے تن پر تیرے کپڑے پرانے ہوئے اور نہ تیرے پاؤں سوجے۔

11۔ سو خبردار رہنا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تْو خداوند اپنے خدا کو بھول کر اْس کے فرمانوں اور حکموں اور آئین کو جن کو مَیں آج تجھ کو سناتا ہوں ماننا چھوڑ دے۔

17۔ اور ایسا نہ ہو کہ تْو اپنے دل میں کہنے لگے کہ میری ہی طاقت اور ہاتھ کے زور سے مجھ کو یہ دولت نصیب ہوئی۔

18۔ بلکہ تْو خداوند اپنے خدا کو یاد رکھنا کیونکہ وہی تجھ کو دولت حاصل کرنے کی قوت اِس لئے دیتا ہے کہ اپنے اْس عہد کو جس کی قسم اْس نے تیرے باپ دادا سے کھائی تھی قائم رکھے جیسا آج کے دن ظاہر ہے۔

Responsive Reading: Deuteronomy 8 : 1-4, 11, 17, 18

1.     All the commandments which I command thee this day shall ye observe to do, that ye may live, and multiply, and go in and possess the land which the Lord sware unto your fathers.

2.     And thou shalt remember all the way which the Lord thy God led thee these forty years in the wilderness, to humble thee, and to prove thee, to know what was in thine heart, whether thou wouldest keep his commandments, or no.

3.     And he humbled thee, and suffered thee to hunger, and fed thee with manna, which thou knewest not, neither did thy fathers know; that he might make thee know that man doth not live by bread only, but by every word that proceedeth out of the mouth of the Lord doth man live.

4.     Thy raiment waxed not old upon thee, neither did thy foot swell, these forty years.

11.     Beware that thou forget not the Lord thy God, in not keeping his commandments, and his judgments, and his statutes, which I command thee this day:

17.     And thou say in thine heart, My power and the might of mine hand hath gotten me this wealth.

18.     But thou shalt remember the Lord thy God: for it is he that giveth thee power to get wealth, that he may establish his covenant which he sware unto thy fathers, as it is this day.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ میکاہ 6 باب6 تا8 آیات

6۔ مَیں کیا لے کر خداوند کے حضور آؤں اور خدا تعالیٰ کو کیونکر سجدہ کروں؟ کیا سوختنی قربانیوں اور یکسالہ بچھڑوں کو لے کر اْس کے حضور آؤں؟

7۔ کیا خداوند ہزاروں مینڈھوں سے یا تیل کی دس ہزار نہروں سے خوش ہوگا؟ کیا مَیں اپنے پہلوٹھے کو اپنے گناہ کے عوض میں اور اپنی اولاد کو اپنی جان کی خطا کے بدلہ میں دے دوں؟

8۔ اے انسان اْس نے تجھ پر نیکی ظاہر کر دی ہے۔ خداوند تجھ سے اِس کے سوا کیا چاہتا ہے کہ تْو انصاف کرے اور رحم دلی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟

1. Micah 6 : 6-8

6     Wherewith shall I come before the Lord, and bow myself before the high God? shall I come before him with burnt offerings, with calves of a year old?

7     Will the Lord be pleased with thousands of rams, or with ten thousands of rivers of oil? shall I give my firstborn for my transgression, the fruit of my body for the sin of my soul?

8     He hath shewed thee, O man, what is good; and what doth the Lord require of thee, but to do justly, and to love mercy, and to walk humbly with thy God?

2۔ استثناء 5 باب 1تا 4 آیات

1۔ پھر موسیٰ نے سب اسرائیلیوں کو بلوا کر اْن کو کہا اے اسرائیلیو! تم اْن آئین اور احکام کو سن لو جن کو مَیں آج تم کو سناتا ہوں تاکہ تم سْن کر سیکھ کر اْن پر عمل کرو۔

2۔ خداوند ہمارے خدا نے حوریب میں ہم سے ایک عہد باندھا۔

3۔ خداوند نے یہ عہد ہمارے باپ دادا سے نہیں بلکہ خود ہم سے جو یہاں آج کے دن جیتے ہیں باندھا۔

4۔ خداوند نے تم سے اْس پہاڑ پر روبرو آگ کے بیچ میں سے باتیں کیں۔

2. Deuteronomy 5 : 1-4

1     And Moses called all Israel, and said unto them, Hear, O Israel, the statutes and judgments which I speak in your ears this day, that ye may learn them, and keep, and do them.

2     The Lord our God made a covenant with us in Horeb.

3     The Lord made not this covenant with our fathers, but with us, even us, who are all of us here alive this day.

4     The Lord talked with you face to face in the mount out of the midst of the fire,

3۔ استثناء 6 باب 1، 4 تا8، 18 آیات

1۔ یہ وہ فرمان اور آئین اور احکام ہیں جن کو خداوند تمہارے خدا نے تم کو سکھانے کا حکم دیا ہے تاکہ تم اْن پر اْس ملک میں عمل کرو جس پر قبضہ کرنے کے لئے پار جانے کو ہو۔

4۔ سْن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔

5۔ تْو اپنے سار ے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔

6۔ اور یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔

7۔ اور تْو اْن کو اپنی اولاد کے ذہن نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اْٹھتے وقت اِن کا ذکر کیا کرنا۔

8۔ اور تْو نشان کے طور پر اِن کو اپنے ہاتھ پر باندھنا اور وہ تیری پیشانی پر ٹیکوں کی مانند ہوں۔

18۔ اور تْو وہی کرنا جو خداوند کی نظر میں درست اور اچھا ہے تاکہ تیرا بھلا ہو اور جس اچھے ملک کی بابت خداوند نے تیرے باپ دادا سے قسم کھائی تْو اْس میں داخل ہو کر اْس پر قبضہ کر سکے۔

3. Deuteronomy 6 : 1, 4-8, 18

1     Now these are the commandments, the statutes, and the judgments, which the Lord your God commanded to teach you, that ye might do them in the land whither ye go to possess it:

4     Hear, O Israel: The Lord our God is one Lord:

5     And thou shalt love the Lord thy God with all thine heart, and with all thy soul, and with all thy might.

6     And these words, which I command thee this day, shall be in thine heart:

7     And thou shalt teach them diligently unto thy children, and shalt talk of them when thou sittest in thine house, and when thou walkest by the way, and when thou liest down, and when thou risest up.

8     And thou shalt bind them for a sign upon thine hand, and they shall be as frontlets between thine eyes.

18     And thou shalt do that which is right and good in the sight of the Lord: that it may be well with thee, and that thou mayest go in and possess the good land which the Lord sware unto thy fathers,

4۔ استثناء 7 باب9 آیت

9۔ سو جان لے کہ خداوند تیرا خدا وہی خدا ہے۔ وہ وفادار خدا ہے اور جو اْس سے محبت رکھتے اور اْس کے حکموں کو مانتے ہیں اْن کے ساتھ ہزار پشت تک وہ اپنے عہد کو قائم رکھتا اور اْن پر رحم کرتا ہے۔

4. Deuteronomy 7 : 9

9     Know therefore that the Lord thy God, he is God, the faithful God, which keepeth covenant and mercy with them that love him and keep his commandments to a thousand generations;

5۔ مرقس 1 باب 14 (یسوع) تا 22، 32تا 39 آیات

14۔ پھر یوحنا کے پکڑوائے جانے کے بعد یسوع نے گلیل میں آکر خدا کی بادشاہی کی منادی کی۔

15۔ اور کہا کہ وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔ توبہ کرو اور خوشخبری پر ایمان لاؤ۔

16۔ اور گلیل کی جھیل کے کنارے جاتے ہوئے اْس نے شمعون اور شمعون کے بھائی اندریاس کو جھیل میں جال ڈالتے دیکھا کیونکہ وہ ماہی گیر تھے۔

17۔ اور یسوع نے اْن سے کہا میرے پیچھے چلے آؤ تو مَیں تم کو آدم گیر بناؤں گا۔

18۔ وہ فی الفور جال چھوڑ کر اْس کے پیچھے ہو لئے۔

19۔ اور تھوڑی دور بڑھ کر اْس نے زبدی کے بیٹے یعقوب اور اْس کے بھائی یوحنا کو کشتی پر جالوں کی مرمت کرتے دیکھا۔

20۔ اْس نے فی الفور اْن کو بلایا اور وہ اپنے باپ زبدی کو کشتی پر مزدوروں کے ساتھ چھوڑ کر اْس کے پیچھے ہو لئے۔

21۔ پھر وہ کفر نحوم میں داخل ہوئے اور وہ فی الفور سبت کے دن عبادت خانہ میں جا کر تعلیم دینے لگا۔

22۔ اور لوگ اْس کی تعلیم سے حیران ہوئے کیونکہ وہ اْن کو فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحب اختیار کی طرح تعلیم دیتا تھا۔

32۔ شام کو جب سورج ڈوب گیا تو لوگ سب بیماروں کو اور اْن کو جن میں بدروحیں تھیں اْس کے پاس لائے۔

33۔ اور سارا شہر دروازے پر جمع ہو گیا۔

34۔ اور اْس نے بہتوں کو جو طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار تھے اچھا کیا اور بہت سی بدروحوں کو نکالا اور بد روحوں کو بولنے نہ دیا کیونکہ وہ اْس کو پہچانتی تھیں۔

35۔ اور صبح ہی دن نکلنے سے بہت پہلے وہ اْٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہاں دعا کی۔

36۔ اور شمعون اور اْس کے ساتھی پیچھے گئے۔

37۔ اور جب وہ ملا تو اْس سے کہا کہ سب لوگ تجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔

38۔ اْس نے اْن سے کہا آؤ ہم اور کہیں آس پاس کے شہروں میں چلیں تاکہ مَیں وہاں بھی منادی کروں کیونکہ مَیں اِسی لئے نکلا ہوں۔

39۔ اور وہ تمام گلیل میں اْن کے عبادت خانوں میں جا جا کر منادی کرتا اور بدروحوں کو نکالتا رہا۔

5. Mark 1 : 14 (Jesus)-22, 32-39

14     Jesus came into Galilee, preaching the gospel of the kingdom of God,

15     And saying, The time is fulfilled, and the kingdom of God is at hand: repent ye, and believe the gospel.

16     Now as he walked by the sea of Galilee, he saw Simon and Andrew his brother casting a net into the sea: for they were fishers.

17     And Jesus said unto them, Come ye after me, and I will make you to become fishers of men.

18     And straightway they forsook their nets, and followed him.

19     And when he had gone a little further thence, he saw James the son of Zebedee, and John his brother, who also were in the ship mending their nets.

20     And straightway he called them: and they left their father Zebedee in the ship with the hired servants, and went after him.

21     And they went into Capernaum; and straightway on the sabbath day he entered into the synagogue, and taught.

22     And they were astonished at his doctrine: for he taught them as one that had authority, and not as the scribes.

32     And at even, when the sun did set, they brought unto him all that were diseased, and them that were possessed with devils.

33     And all the city was gathered together at the door.

34     And he healed many that were sick of divers diseases, and cast out many devils; and suffered not the devils to speak, because they knew him.

35     And in the morning, rising up a great while before day, he went out, and departed into a solitary place, and there prayed.

36     And Simon and they that were with him followed after him.

37     And when they had found him, they said unto him, All men seek for thee.

38     And he said unto them, Let us go into the next towns, that I may preach there also: for therefore came I forth.

39     And he preached in their synagogues throughout all Galilee, and cast out devils.

6۔ مرقس 12 باب28تا34 (تا پہلا) آیات

28۔ اور فقیہوں میں سے ایک نے اْن کو بحث کرتے سْن کر جان لیا کہ اْس نے اْن کو خوب جواب دیا ہے۔ وہ پاس آیا اور اْس سے پوچھا کہ سب حکموں میں سے اول کون سا ہے؟

29۔ یسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے اے اسرائیل سن۔ خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔

30۔ اور تْو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔

31۔ دوسرا یہ ہے کہ تْو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ اِن سے بڑا اور کوئی حکم نہیں۔

32۔ فقیہ نے اْس سے کہا اے استاد بہت خوب! تْو نے سچ کہا کہ وہ ایک ہی ہے اور اْس کے سوا اور کوئی نہیں۔

33۔ اور اْس سے سارے دل اور ساری عقل ساری طاقت سے محبت رکھنااور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھنا سب سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے بڑھ کر ہے۔

34۔ جب یسوع نے دیکھا کہ اْس نے دانائی سے جواب دیا تو اْس سے کہا تْو خدا کی بادشاہی سے دور نہیں۔

6. Mark 12 : 28-34 (to 1st .)

28     And one of the scribes came, and having heard them reasoning together, and perceiving that he had answered them well, asked him, Which is the first commandment of all?

29     And Jesus answered him, The first of all the commandments is, Hear, O Israel; The Lord our God is one Lord:

30     And thou shalt love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy mind, and with all thy strength: this is the first commandment.

31     And the second is like, namely this, Thou shalt love thy neighbour as thyself. There is none other commandment greater than these.

32     And the scribe said unto him, Well, Master, thou hast said the truth: for there is one God; and there is none other but he:

33     And to love him with all the heart, and with all the understanding, and with all the soul, and with all the strength, and to love his neighbour as himself, is more than all whole burnt offerings and sacrifices.

34     And when Jesus saw that he answered discreetly, he said unto him, Thou art not far from the kingdom of God.

7۔ عبرانیوں 8 باب8(دیکھو)، 10، 11آیات

8۔ دیکھو! وہ دن آتے ہیں کہ مَیں اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے سے ایک نیا عہد باندھوں گا۔

10۔ خداوند فرماتا ہے کہ جو عہد اسرائیل کے گھرانے سے اْن دنوں کے بعد باندھوں گا وہ یہ ہے کہ مَیں اپنے قانون اْن کے ذہن میں ڈالوں گا اور اْن کے دلوں پر لکھوں گا اور مَیں اْن کا خدا ہوں گا اور وہ میری امت ہوں گے۔

11۔ اور ہر شخص اپنے ہم وطن اور اپنے بھائی کو یہ تعلیم نہ دے گا کہ تْو خداوند کو پہچان کیونکہ چھوٹے سے بڑے تک سب مجھ کو جان لیں گے۔

7. Hebrews 8 : 8 (Behold), 10, 11

8     Behold, the days come, saith the Lord, when I will make a new covenant with the house of Israel and with the house of Judah:

10     For this is the covenant that I will make with the house of Israel after those days, saith the Lord; I will put my laws into their mind, and write them in their hearts: and I will be to them a God, and they shall be to me a people:

11     And they shall not teach every man his neighbour, and every man his brother, saying, Know the Lord: for all shall know me, from the least to the greatest.

8۔ عبرانیوں 9 باب13 (تا پہلا)، 13 (پاکیزگی)، 14 آیات

13۔ کیونکہ جب بکروں اور بیلوں کے خون سے۔۔۔ظاہری پاکیزگی ظاہر ہوتی ہے۔

14۔ تو مسیح کا خون جس نے اپنے آپ کو ازلی روح کے وسیلہ سے خدا کے سامنے اپنے آپ کو بے عیب قربان کر دیا تمہارے دلوں کو مردہ کاموں سے کیوں نہ پاک کرے گا تاکہ زندہ خدا کی عبادت کریں۔

8. Hebrews 9 : 13 (to 1st ,), 13 (sanctifieth), 14

13     For if the blood of bulls and of goats, … sanctifieth to the purifying of the flesh:

14     How much more shall the blood of Christ, who through the eternal Spirit offered himself without spot to God, purge your conscience from dead works to serve the living God?



سائنس اور صح


1۔ 183 :21۔25

الٰہی عقل بجا طور پر انسان کی مکمل فرمانبرداری، پیار اور طاقت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس سے کم وفاداری کے لئے کوئی تحفظات نہیں رکھے جاتے۔ سچائی کی تابعداری انسان کو قوت اور طاقت فراہم کرتی ہے۔ غلطی کو سپردگی طاقت کی کمی کو بڑھا دیتی ہے۔

1. 183 : 21-25

Divine Mind rightly demands man's entire obedience, affection, and strength. No reservation is made for any lesser loyalty. Obedience to Truth gives man power and strength. Submission to error superinduces loss of power.

2۔ 3 :14 (تا)۔16

۔۔۔خدا کو سمجھنا ابدیت کا کام ہے، اور یہ سوچ، طاقت اور خواہش کی مکمل پاکیزگی کا مطالبہ کرتا ہے۔

2. 3 : 14 (to)-16

…to understand God is the work of eternity, and demands absolute consecration of thought, energy, and desire.

3۔ 40 :25۔30

ہمارا آسمانی باپ، الٰہی محبت، یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہمیں ہمارے مالک اور اْس کے شاگردوں کے نمونے کی پیروی کرنی چاہئے اور صرف اْس کی شخصیت کی عبادت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ الٰہی خدمت کا جملہ عام طور پر روز مرہ کے اعمال کی بجائے عوامی عبادت کے معنوں کے ساتھ آیا ہے۔

3. 40 : 25-30

Our heavenly Father, divine Love, demands that all men should follow the example of our Master and his apostles and not merely worship his personality. It is sad that the phrase divine service has come so generally to mean public worship instead of daily deeds.

4۔ 32 :3۔14

قدیم روم میں ایک سپاہی کے لئے اپنے جرنل کے ساتھ وفادارا کا عہد باندھناضروری ہوتا تھا۔اِس عہد کے لئے لاطینی لفظ ساکرامینٹم تھا، اور ہمارا انگریزی لفظ ساکرامنٹ اِسی سے اخذ کیا گیا ہے۔یہودیوں میں یہ قدیم روایت تھی کہ دعوت کا مالک ہر کسی کو مے کا پیالہ دیا کرتا تھا۔ مگر یوخرست کسی رومی سپاہی کے حلف کی یاد گاری نہیں تھا اور نہ ہی مے تھی، جو اجتماعی مواقعوں میں اور یہودی رسوم میں استعمال ہوتی تھی، یعنی ہمارے خداوند کا پیالہ تھی۔پیالہ اْس کے تلخ تجربے کو ظاہر کرتا ہے، یعنی وہ پیالہ جس کے لئے اْس نے دعا چاہی کہ وہ اْس سے ٹل جائے، حالانکہ وہ الٰہی فرمان کی پاک سپردگی میں جھک گیا تھا۔

4. 32 : 3-14

In ancient Rome a soldier was required to swear allegiance to his general. The Latin word for this oath was sacramentum, and our English word sacrament is derived from it. Among the Jews it was an ancient custom for the master of a feast to pass each guest a cup of wine. But the Eucharist does not commemorate a Roman soldier’s oath, nor was the wine, used on convivial occasions and in Jewish rites, the cup of our Lord. The cup shows forth his bitter experience, — the cup which he prayed might pass from him, though he bowed in holy submission to the divine decree.

5۔ 33 :27۔17

مسیحیو! کیا آپ اْس کا پیالہ پی رہے ہیں؟ کیا آپ نے نئے عہد کا خون بانٹا ہے، یعنی وہ ایذائیں جو خدا سے متعلق ایک نئے اور بلند فہم کو پیش کرتی ہیں؟اگر نہیں تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اْس کے پیالے میں یسوع کی یادگاری منائی ہے؟ وہ سب جو یسوع کی یاد گاری میں روٹی کھاتے اور مے پیتے ہیں وہ حقیقت میں اْس کے پیالے اور اْس کی صلیب میں سے بانٹنے کی اور اصول ِمسیح کی خاطر سب کچھ چھوڑنے کے لئے رضا مند ہیں؟ تو پھر اس الہام کو ایک مردہ رسم کے ساتھ کیوں منسوب کیا جاتا ہے بجائے غلطی کو دور کرتے ہوئے اور بدن کو ”پاک اور خدا کے لئے قابل قبول“ بناتے ہوئے، یہ دکھایا جائے سچائی کا فہم فراہم ہوا ہے؟ اگر مسیح، سچائی اظہار میں ہمارے پاس آیا، تو کسی دوسری یاد گاری کی ضرورت نہیں، کیونکہ اظہار اعمانوئیل یا خدا ہمارے ساتھ ہے؛ اور اگر کوئی دوسرا ہمارے ساتھ ہے تو اْس کی یادگاری منانے کی کیا ضرورت ہے؟

اگر وہ سب جنہوں نے ساکرامنٹ میں حصہ لیا یسوع کے دکھوں کی حقیقتاً یادگاری منائی تھی اور اْس کے پیالے میں سے پیا تھا تو وہ دنیا میں انقلاب برپا کر دیتے۔ وہ سب جومادی علامات کے وسیلہ اْس کی یادگاری کے متلاشی ہیں وہ صلیب اٹھائیں گے، بیماروں کو شفا دیں گے، بدروحوں کو نکالیں گے اور مسیح، سچائی کی خوشخبری غریبوں، منفی سوچ والوں،کو دیں گے، وہ ہزار سالہ دور لائیں گے۔

5. 33 : 27-17

Christians, are you drinking his cup? Have you shared the blood of the New Covenant, the persecutions which attend a new and higher understanding of God? If not, can you then say that you have commemorated Jesus in his cup? Are all who eat bread and drink wine in memory of Jesus willing truly to drink his cup, take his cross, and leave all for the Christ-principle? Then why ascribe this inspiration to a dead rite, instead of showing, by casting out error and making the body "holy, acceptable unto God," that Truth has come to the understanding? If Christ, Truth, has come to us in demonstration, no other commemoration is requisite, for demonstration is Immanuel, or God with us; and if a friend be with us, why need we memorials of that friend?

If all who ever partook of the sacrament had really commemorated the sufferings of Jesus and drunk of his cup, they would have revolutionized the world. If all who seek his commemoration through material symbols will take up the cross, heal the sick, cast out evils, and preach Christ, or Truth, to the poor, — the receptive thought, — they will bring in the millennium.

6۔ 25 :26۔32

استاد پر مکمل ایمان اور وہ سارا جذباتی پیار جو ہم اْس پر نچھاور کر سکتے ہیں، صرف یہی ہمیں اْس کی تقلید کرنے والے نہیں بنائیں گے۔ ہمیں جا کر اْسی کی مانند کام کرنا چاہئے، وگرنہ ہم اْن بڑی برکات کو فروغ نہیں دے رہے جو ہمارے مالک نے ہمیں عطا کرنے کے لئے کام کیا اور تکلیف اٹھائی۔ مسیح کی الوہیت کا اظہار یسوع کی انسانیت میں کیا گیا تھا۔

6. 25 : 26-32

Implicit faith in the Teacher and all the emotional love we can bestow on him, will never alone make us imitators of him. We must go and do likewise, else we are not improving the great blessings which our Master worked and suffered to bestow upon us. The divinity of the Christ was made manifest in the humanity of Jesus.

7۔ 54 :10۔13

یسوع کی انتہائی انسانی قربانی کی ہدایت یہ تھی کہ وہ اپنا خریدا ہوا عزیز خزانہ گناہ آلود انسان کے خالی گوداموں میں آزادی کے ساتھ اْنڈیلے۔

7. 54 : 10-13

That he might liberally pour his dear-bought treasures into empty or sin-filled human store-houses, was the inspiration of Jesus' intense human sacrifice.

8۔ 11 :22۔27

ہم جانتے ہیں کہ پاکیزگی پانے کے لئے پاکیزگی کی خواہش رکھنا لازمی شرط ہے؛ لیکن اگر ہم سب چیزوں سے زیادہ پاکیزگی کی خواہش رکھتے ہیں، تو ہم اس کے لئے ہر چیز قربان کر دیں گے۔ ہمیں ایسا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ ہم پاکیزگی کی عملی راہ پر بحفاظت چل سکتے ہیں۔

8. 11 : 22-27

We know that a desire for holiness is requisite in order to gain holiness; but if we desire holiness above all else, we shall sacrifice everything for it. We must be willing to do this, that we may walk securely in the only practical road to holiness.

9۔ 15 :26۔32

خودفراموشی، پاکیزگی اور احساس مسلسل دعائیں ہیں۔مشق نہ کہ پیشہ، فہم نہ کہ ایمان قادر مطلق کے کان اور دست راست حاصل کرتے ہیں اور بلاشبہ یہ بے انتہا نعمتیں نچھاور کرواتے ہیں۔ اعتماد روشن ایمان کی بنیاد ہے۔پاکیزگی کے لئے صحتمندی کے بغیر ہم پاکیزگی نہیں پا سکتے۔

9. 15 : 26-32

Self-forgetfulness, purity, and affection are constant prayers. Practice not profession, understanding not belief, gain the ear and right hand of omnipotence and they assuredly call down infinite blessings. Trustworthiness is the foundation of enlightened faith. Without a fitness for holiness, we cannot receive holiness.

10۔ 261 :31۔5

ہمیں اچھائی اور انسانی نسل کو یاد رکھنے کے لئے ہمارے بدنوں کو بھولنا چاہئے۔ اچھائی انسان کے ہر لمحے کا مطالبہ کرتی ہے جس میں ہستی کے مسئلے کا حل نکا لنا ہوتا ہے۔اچھائی کی تقدیس خدا پر انسان کے انحصار کوکم نہیں کرتی بلکہ اْسے بلند کرتی ہے۔نہ ہی تقدیس خدا کے لئے انسان کے فرائض کو ختم کرتی ہے، بلکہ اْنہیں پورا کرنے کے لئے بڑی ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔

10. 261 : 31-5

We should forget our bodies in remembering good and the human race. Good demands of man every hour, in which to work out the problem of being. Consecration to good does not lessen man's dependence on God, but heightens it. Neither does consecration diminish man's obligations to God, but shows the paramount necessity of meeting them.

11۔ 167 :32۔3

اچھی زندگی کے لئے اچھے الفاظ کو بدلنا، سیدھے کردار کے لئے بہتر دکھائی دینا، کمزور اور دنیاوی لوگوں کے لئے ایک ناقص تبدیلی ہے، جو کرسچن سائنس کے معیار کو بہت اونچا سمجھتے ہیں۔

11. 167 : 32-3

Substituting good words for a good life, fair seeming for straightforward character, is a poor shift for the weak and worldly, who think the standard of Christian Science too high for them.

12۔ 462 :9۔19

اگر کوئی طالب علم ایک طرف سچائی کی تعلیمات پر عمل کرنے کے لئے دور جاتا ہے، اپنے مفادات کو خدا اور دولت کے مابین منقسم کرتے ہوئے اور اپنے خود کے خیالات کو سچائی کے لئے تبدیل کرتے ہوئے، تو وہ لامحالہ اس غلطی کو کاٹے گا جو وہ بوتا ہے۔جو کوئی بھی کرسچن سائنس کی شفا کا اظہار کرتا ہے اْسے اِس کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنا چاہئے، ہر فقرے پر توجہ دینی چاہئے، اور ڈالی گئی بنیادوں سے آگے بڑھنا چاہئے۔ اِس کام میں نہ کچھ مشکل ہے نہ ہی کچھ سخت ہے، جب راستہ دکھا دیا جائے؛ مگر خود انکاری، تابعداری، مسیحت اور مستقل مزاجی اکیلے انعام جیت لیتے ہیں، جیسا کہ وہ عموماً زندگی کے ہر پہلو میں کرتے ہیں۔

12. 462 : 9-19

If the student goes away to practise Truth's teachings only in part, dividing his interests between God and mammon and substituting his own views for Truth, he will inevitably reap the error he sows. Whoever would demonstrate the healing of Christian Science must abide strictly by its rules, heed every statement, and advance from the rudiments laid down. There is nothing difficult nor toilsome in this task, when the way is pointed out; but self-denial, sincerity, Christianity, and persistence alone win the prize, as they usually do in every department of life.

13۔ 458 :25 (دی)۔11

کرسچن سائنسدان بڑی دانائی سے اپنی راہ ہموار کرتا ہے، اور وہ الٰہی عقل کی ہدایات کی پیروی کرنے میں متواتر اور ایماندار ہوتا ہے۔زندگی گزارنے اور اس کے ساتھ شفا دینے اور تعلیم دینے کے وسیلہ سے اسے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ مسیح کی راہ ہی وہ واحد راہ ہے جس کی بدولت بشر یکسر گناہ اور بیماری سے نجات پاتے ہیں۔

جیسے پھول اندھیرے سے روشنی کی طرف مْڑتا ہے،مسیحت انسان کو فطری طور پر مادے سے روح کی جانب موڑنے کا موجب بنتی ہے۔پھر انسان اْن چیزوں کو مختص کرتا ہے جو ”نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سْنیں۔“یوحنا اور پولوس کو بہت واضح ادراک تھا کہ، چونکہ فانی آدمی کو قربانی کے بغیردنیاوی عظمت حاصل نہیں ہو سکتی، اس لئے اْسے سب دنیاداری چھورڑکر آسمانی خزانے حاصل کرنے چاہئیں۔پھر اْس کا دنیاوی ہمدردیوں، اغراض و مقاصد میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ پہلے سے لئے گئے اقدام کی روشنی میں کرسچن سائنس کے مستقبل کی پیش قدمی کو نہ پرکھیں، ایسا نہ ہو کہ کہیں آپ پہلا قدم اْٹھانے میں ناکام ہونے پر خود کی ملامت کریں۔

13. 458 : 25 (The)-11

The Christian Scientist wisely shapes his course, and is honest and consistent in following the leadings of divine Mind. He must prove, through living as well as healing and teaching, that Christ's way is the only one by which mortals are radically saved from sin and sickness.

Christianity causes men to turn naturally from matter to Spirit, as the flower turns from darkness to light. Man then appropriates those things which "eye hath not seen nor ear heard." Paul and John had a clear apprehension that, as mortal man achieves no worldly honors except by sacrifice, so he must gain heavenly riches by forsaking all worldliness. Then he will have nothing in common with the worldling's affections, motives, and aims. Judge not the future advancement of Christian Science by the steps already taken, lest you yourself be condemned for failing to take the first step.

14۔ 254 :10۔15

جب ہم صبر کے ساتھ خدا کا انتظار کرتے اور راستبازی کے ساتھ سچائی کی تلاش کرتے ہیں تو وہ ہماری راہ میں راہنمائی کرتا ہے۔ غیر کامل انسان آہستہ آہستہ اصلی روحانی کاملیت کو گرفت میں لیتے ہیں؛ مگر ٹھیک طریقے سے شروع کرنے کے لئے اور ہستی کے بڑے مسئلے کے اظہار کے تنازع کو جاری رکھنا بہت بڑا کام ہے۔

14. 254 : 10-15

When we wait patiently on God and seek Truth righteously, He directs our path. Imperfect mortals grasp the ultimate of spiritual perfection slowly; but to begin aright and to continue the strife of demonstrating the great problem of being, is doing much.

15۔ 21 :9۔14

اگر شاگرد روحانی طور پر ترقی کر رہا ہے، تو وہ داخل ہونے کی جدجہد کر رہا ہے۔ وہ مادی حِس سے دور ہونے کی مسلسل کوشش کررہا ہے اور روح کی ناقابل تسخیر چیزوں کا متلاشی ہے۔اگر ایماندار ہے تو وہ ایمانداری سے ہی آغاز کرے گا اور آئے دن درست سمت پائے گا جب تک کہ وہ آخر کار شادمانی کے ساتھ اپنا سفر مکمل نہیں کر لیتا۔

15. 21 : 9-14

If the disciple is advancing spiritually, he is striving to enter in. He constantly turns away from material sense, and looks towards the imperishable things of Spirit. If honest, he will be in earnest from the start, and gain a little each day in the right direction, till at last he finishes his course with joy.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████