اتوار 10 ستمبر ، 2023
”بیٹا! تْو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے۔“
“Son, thou art ever with me, and all that I have is thine.”
34۔ آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنائے عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اْسے میراث میں لو۔
31۔ اْس کی بادشاہی کی تلاش میں رہو۔
32۔ کیونکہ تمہارے باپ کو پسند آیا کہ تم کو بادشاہی دے۔
9۔ پس تم اِس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ تْو جو آسمان پر ہے۔ تیرا نام پاک مانا جائے۔
10۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔
11۔ ہمارے روز کی روٹی آج ہمیں دے۔
12۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے تْو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔
13۔ اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں۔ آمین۔
34. Come, ye blessed of my Father, inherit the kingdom prepared for you from the foundation of the world:
31. Seek ye the kingdom of God;
32. For it is your Father’s good pleasure to give you the kingdom.
9. After this manner therefore pray ye: Our Father which art in heaven, Hallowed be thy name.
10. Thy kingdom come. Thy will be done in earth, as it is in heaven.
11. Give us this day our daily bread.
12. And forgive us our debts, as we forgive our debtors.
13. And lead us not into temptation, but deliver us from evil: For thine is the kingdom, and the power, and the glory, for ever. Amen.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
4۔ کیونکہ ابتدا ہی سے نہ کسی نے سنا نہ کسی کے کان تک پہنچا اور آنکھوں نے تیرے سوا ایسے خدا کو دیکھا جو اپنے انتظار کرنے والے کے لئے کچھ کر دکھائے۔
8۔ تو بھی اے خداوند! تْو ہمارا باپ ہے۔ ہم مٹی ہیں اور تْو ہمارا کمہار ہے اور ہم سب کے سب تیری دستکاری ہیں۔
4 For since the beginning of the world men have not heard, nor perceived by the ear, neither hath the eye seen, O God, beside thee, what he hath prepared for him that waiteth for him.
8 But now, O Lord, thou art our father; we are the clay, and thou our potter; and we all are the work of thy hand.
14۔ مَیں تیرا شکر کروں گا کیونکہ مَیں عجیب و غریب طور سے بنا ہوں۔ تیرے کام حیرت انگیز ہیں۔ میرا دل اِسے خوب جانتا ہے۔
15۔ جب مَیں پوشیدگی میں بن رہا تھا اور زمین کے اسفل میں عجیب طور سے مرتب ہو رہا تھا تو میرا قالب تجھ سے چھِپا نہ تھا۔
16۔ تیری آنکھوں نے میرے بے ترتیب مادے کو دیکھا۔
23۔ اے خدا! تْو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان۔ مجھے آزما اور میرے خیالوں کو جان لے۔
24۔ اور دیکھ کہ مجھ میں کوئی بری روش تو نہیں اور مجھ کو ابدی راہ میں لے چل۔
14 I will praise thee; for I am fearfully and wonderfully made: marvellous are thy works; and that my soul knoweth right well.
15 My substance was not hid from thee, when I was made in secret, and curiously wrought in the lowest parts of the earth.
16 Thine eyes did see my substance,
23 Search me, O God, and know my heart: try me, and know my thoughts:
24 And see if there be any wicked way in me, and lead me in the way everlasting.
14۔ پھر یسوع روح کی قوت سے بھرا ہوا گلیل سے لوٹا اور سارے گردو نواح میں اْس کی شہرت پھیل گئی۔
14 And Jesus returned in the power of the Spirit into Galilee: and there went out a fame of him through all the region round about.
12۔ جب وہ شہر میں تھا تو دیکھو کوڑھ سے بھرا ہوا ایک آدمی یسوع کو دیکھ کر منہ کے بل گرا اور اْس کی منت کر کے کہنے لگا اے خداوند! اگر تْو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔
13۔ اْس نے اْسے ہاتھ بڑھا کر چھوا اور کہا مَیں چاہتا ہوں کہ تْو پاک صاف ہو جا اور فوراً اْس کا کوڑھ جاتا رہا۔
12 And it came to pass, when he was in a certain city, behold a man full of leprosy: who seeing Jesus fell on his face, and besought him, saying, Lord, if thou wilt, thou canst make me clean.
13 And he put forth his hand, and touched him, saying, I will: be thou clean. And immediately the leprosy departed from him.
1۔ سب محصول لینے والے اور گناہگار اْس کے پاس آتے تھے تاکہ اْس کی باتیں سنیں۔
11۔ پھر اْس نے کہا کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔
12۔ اْن میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا اے باپ! مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دے دے۔ اْس نے اپنا مال متاع اْنہیں بانٹ دیا۔
13۔ اور بہت دن نہ گزرے کہ چھوٹا بیٹا اپناسب کچھ جمع کر کے دور دراز ملک کو روانہ ہوا اور وہاں اپنا مال بد چلنی میں اڑا دیا۔
17۔ پھر اْس نے ہوش میں آکر کہا میرے باپ کے بہت سے مزدوروں کو افراط سے روٹی ملتی ہے اور مَیں یہاں بھوکہ مر رہا ہوں!
18۔ مَیں اٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اْس سے کہوں گا اے باپ! مَیں آسمان کا اور تیری نظر میں گناہگار ہوں۔
19۔ اب اِس لائق نہیں رہا کہ پھر سے تیرا بیٹا کہلاؤں۔مجھے اپنے مزدوروں جیسا کر لے۔
20۔پس وہ اٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا۔ وہ ابھی دور ہی تھا کہ اْسے دیکھ کر اْس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اْس کو گلے لگایا اور چومہ۔
21۔ بیٹے نے اْس سے کہا اے باپ! مَیں آسمان کا اور تیری نظر میں گناہگار ہوں۔اب اِس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔
22۔باپ نے اپنے نوکروں سے کہا اچھے سے اچھا لباس جلد نکال کر اْسے پہناؤ اور اْس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی پہناؤ۔
24۔ کیونکہ میرا یہ بیٹا مردہ تھا اب زندہ ہوا۔ کھو گیا تھا اب ملا ہے۔
1 Then drew near unto him all the publicans and sinners for to hear him.
11 And he said, A certain man had two sons:
12 And the younger of them said to his father, Father, give me the portion of goods that falleth to me. And he divided unto them his living.
13 And not many days after the younger son gathered all together, and took his journey into a far country, and there wasted his substance with riotous living.
17 And when he came to himself, he said, How many hired servants of my father’s have bread enough and to spare, and I perish with hunger!
18 I will arise and go to my father, and will say unto him, Father, I have sinned against heaven, and before thee,
19 And am no more worthy to be called thy son: make me as one of thy hired servants.
20 And he arose, and came to his father. But when he was yet a great way off, his father saw him, and had compassion, and ran, and fell on his neck, and kissed him.
21 And the son said unto him, Father, I have sinned against heaven, and in thy sight, and am no more worthy to be called thy son.
22 But the father said to his servants, Bring forth the best robe, and put it on him; and put a ring on his hand, and shoes on his feet:
24 For this my son was dead, alive again; he was lost, and is found.
3۔ اور خدا کی محبت یہ ہے۔
14۔ اور ہمیں جو اْس کے سامنے دلیری ہے اْس کا سبب یہ ہے کہ اگر اْس کی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔
19۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم خدا سے ہیں اور ساری دنیا اْس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔
20۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا آگیا ہے اور اْس نے ہمیں سمجھ بخشی ہے تاکہ اْس کو جو حقیقی ہے جانیں اور ہم اْس میں جو حقیقی ہے یعنی اْس کے بیٹے خداوند یسوع مسیح میں ہیں۔ حقیقی خدا او رہمیشہ کی زندگی یہی ہے۔
3 For this is the love of God,
14 And this is the confidence that we have in him, that, if we ask any thing according to his will, he heareth us:
19 And we know that we are of God, and the whole world lieth in wickedness.
20 And we know that the Son of God is come, and hath given us an understanding, that we may know him that is true, and we are in him that is true, even in his Son Jesus Christ. This is the true God, and eternal life.
16۔پھر جب شام ہوئی تو اْس کے شاگرد جھیل کے کنارے گئے۔
17۔ اور کشتی میں بیٹھ کر جھیل کے پار کفر نحوم کو چلے جاتے تھے۔ اْس وقت اندھیرا ہوگیا تھا اور یسوع ابھی تک اْن کے پاس نہ آیا تھا۔
19۔ پس جب وہ کھیتے کھیتے تین چار میل کے قریب نکل گئے تو اْنہوں نے یسوع کو جھیل پر چلتے اور کشتی کے نزدیک آتے دیکھا اور ڈر گئے۔
20۔ مگر اْس نے اْن سے کہا مَیں ہوں۔ ڈرو مت۔
24۔پس جب بھیڑ نے دیکھا کہ یہاں نہ یسوع ہے نہ اْس کے شاگرد تووہ خود چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر یسوع کی تلاش میں کفر نحوم کو آئے۔
26۔ یسوع نے اْن کے جواب میں کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم مجھے اِس لئے نہیں ڈھونڈتے کہ معجزے دیکھے بلکہ اِس لئے کہ روٹیاں کھا کر سیر ہوئے۔
27۔ فانی خوراک کے لئے محنت نہ کرو اْس خوراک کے لئے جو ہمیشہ کی زندگی تک برقرار رہتی ہے جِسے ابنِ آدم تمہیں دے گا کیونکہ باپ یعنی خدا نے اْسی پر مہر کی ہے۔
28۔ پس اْنہوں نے اْس سے کہا ہم کیا کریں تاکہ خدا کے کام انجام دیں؟
29۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا کہ خدا کا کام یہ ہے کہ جسے اْس نے بھیجا ہے اْس پر ایمان لاؤ۔
33۔ کیونکہ خداوند کی روٹی وہ ہے جو آسمان سے اْتر کر دنیا کو زندگی بخشتی ہے۔
34۔ انہوں نے اْس سے کہا اے خداوند! یہ روٹی ہم کو ہمیشہ دیا کر۔
16 And when even was now come, his disciples went down unto the sea,
17 And entered into a ship, and went over the sea toward Capernaum.
19 So when they had rowed about five and twenty or thirty furlongs, they see Jesus walking on the sea, and drawing nigh unto the ship: and they were afraid.
20 But he saith unto them, It is I; be not afraid.
24 When the people therefore saw that Jesus was not there, neither his disciples, they also took shipping, and came to Capernaum, seeking for Jesus.
26 Jesus answered them and said, Verily, verily, I say unto you, Ye seek me, not because ye saw the miracles, but because ye did eat of the loaves, and were filled.
27 Labour not for the meat which perisheth, but for that meat which endureth unto everlasting life, which the Son of man shall give unto you: for him hath God the Father sealed.
28 Then said they unto him, What shall we do, that we might work the works of God?
29 Jesus answered and said unto them, This is the work of God, that ye believe on him whom he hath sent.
33 For the bread of God is he which cometh down from heaven, and giveth life unto the world.
34 Then said they unto him, Lord, evermore give us this bread.
3۔ خداوند قدیم سے مجھ پر ظاہر ہوا اور کہا کہ مَیں نے تجھ سے ابدی محبت رکھی اِسی لئے مَیں نے اپنی شفقت تجھ پر بڑھائی۔
11۔ کیونکہ خداوند نے یعقوب کا فدیہ دیا ہے اور اْسے اْس کے ہاتھ جو اْس سے زور آور تھا رہائی بخشی ہے۔
12۔ پس وہ آئیں گے اور صیون کی چوٹی پر گائیں گے اور خداوند کی نعمتوں یعنی اناج اور مے اور تیل اور گائے بیل کے اور بھیڑ بکری کی طرف اکٹھے رواں ہوں گے اور اْن کی جان سیراب باغ کی مانند ہوگی اور وہ پھر کبھی غمزدہ نہ ہوں گے۔
25۔ کیونکہ مَیں نے تھکی جان کو آسودہ اور ہر غمگین روح کو سیر کیا ہے۔
33۔ خداوند فرماتا ہے اْن دنوں کے بعدمَیں اپنی شریعت اْن کے باطن میں رکھوں گا اور اْن کے دل پر اْسے لکھوں گا اور مَیں اْن کاخدا ہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے۔
34۔ اور وہ پھر اپنے اپنے پڑوسی اور اپنے اپنے بھائی کو یہ کہہ کر تعلیم نہیں دیں گے کہ خداوند کو پہچانو کیونکہ چھوٹے سے بڑے تک وہ سب مجھے جانیں گے خداوند فرماتا ہے اِس لئے کہ مَیں اْن کی بد کرداری کو بخش دوں گا اور اْن کے گناہ کو یاد نہ کروں گا۔<
3 The Lord hath appeared of old unto me, saying, Yea, I have loved thee with an everlasting love: therefore with lovingkindness have I drawn thee.
11 For the Lord hath redeemed Jacob, and ransomed him from the hand of him that was stronger than he.
12 Therefore they shall come and sing in the height of Zion, and shall flow together to the goodness of the Lord, for wheat, and for wine, and for oil, and for the young of the flock and of the herd: and their soul shall be as a watered garden; and they shall not sorrow any more at all.
25 For I have satiated the weary soul, and I have replenished every sorrowful soul.
33 After those days, saith the Lord, I will put my law in their inward parts, and write it in their hearts; and will be their God, and they shall be my people.
34 And they shall teach no more every man his neighbour, and every man his brother, saying, Know the Lord: for they shall all know me, from the least of them unto the greatest of them, saith the Lord:
خدا لامحدود، واحد زندگی، مواد، روح یا جان، کائنات،بشمول انسان کی واحد ذہانت ہے۔ آنکھ نے نہ خدا کو دیکھا ہے اور نہ اْس کی شبیہ اور صورت کو۔ نہ تو خدا اور نہ ہی کامل انسان مادی حواس کی بدولت جانے جاسکتے ہیں۔ روح یا لامحدود کی انفرادیت نامعلوم ہے، اور اِسی لئے اِس کا علم انسانی قیاس یا الٰہی سائنس کے الہام پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
God is infinite, the only Life, substance, Spirit, or Soul, the only intelligence of the universe, including man. Eye hath neither seen God nor His image and likeness. Neither God nor the perfect man can be discerned by the material senses. The individuality of Spirit, or the infinite, is unknown, and thus a knowledge of it is left either to human conjecture or to the revelation of divine Science.
وہ سائنس جس کی تعلیم یسوع نے دی اور اْس پر زندگی گزاری اْسے زندگی، مواد اور ذہانت سے متعلق تمام تر مادی عقائد پراور ایسے عقائد سے فروغ پانے والی کثیر غلطیوں پر فتح مند ہونا چاہئے۔
محبت کو نفرت پر ہمیشہ فتح مند ہونا چاہئے۔ اس سے قبل کہ کانٹوں کاتاج بنانے کے لئے چنا جائے اور روح کی برتری کو ظاہر کیا جائے، سچائی اور زندگی کو غلطی اور موت پر فتح کی مہر ثبت کرنی چاہئے، دعائے خیر کہتی ہے، ”ایک اچھے اور وفادار خادم، تو نے بہت اچھا کیا“۔
The Science Jesus taught and lived must triumph over all material beliefs about life, substance, and intelligence, and the multitudinous errors growing from such beliefs.
Love must triumph over hate. Truth and Life must seal the victory over error and death, before the thorns can be laid aside for a crown, the benediction follow, "Well done, good and faithful servant," and the supremacy of Spirit be demonstrated.
”اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزر جانا آسان ہے“ اِس سے کہ گناہ آلودہ عقائد آسمان کی بادشاہی، ابدی ہم آہنگی میں داخل ہوں۔ معافی، روحانی بپتسمہ، اور نئی پیدائش کے وسیلہ بشر اپنے لافانی عقائد اور جھوٹی انفرادیت کو اتار پھینکتے ہیں۔ یہ بس وقت کی بات ہے کہ ”چھوٹے سے بڑے تک وہ سب مجھے (خدا کو) جانیں گے۔“
It is "easier for a camel to go through the eye of a needle," than for sinful beliefs to enter the kingdom of heaven, eternal harmony. Through repentance, spiritual baptism, and regeneration, mortals put off their material beliefs and false individuality. It is only a question of time when "they shall all know Me [God], from the least of them unto the greatest."
آسمان پر جانے کا واحد راستہ ہم آہنگی ہے اور مسیح الٰہی سائنس میں ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا مطلب خدا، اچھائی اور اْس کے عکس کے علاوہ کسی اور حقیقت کو نہ جاننا، زندگی کے کسی اور ضمیر کو نا جاننا ہے، اور نام نہاد درد اور خوشی کے احساسات سے برتر ہونا ہے۔
There is but one way to heaven, harmony, and Christ in divine Science shows us this way. It is to know no other reality — to have no other consciousness of life — than good, God and His reflection, and to rise superior to the so-called pain and pleasure of the senses.
جب ہم تمام مادی جمالیات اور گناہ سے اوپر اٹھتے ہیں صرف تب ہی ہم آسمان سے اْتری خواہش اور روحانی شعور تک پہنچ سکتے ہیں، جس کا اشارہ دعائے ربانی میں دیا گیا ہے اور جو فوری طور پر شفا دیتی ہے۔
اے ہمارے مادر پدر خدا، قادر ہم آہنگ
قابل ستائش
تیری بادشاہی آ گئی ہے؛ تْو ازل سے ہے۔
Only as we rise above all material sensuousness and sin, can we reach the heaven-born aspiration and spiritual consciousness, which is indicated in the Lord's Prayer and which instantaneously heals ....
Our Father-Mother God, all-harmonious,
Adorable One.
Thy kingdom is come; Thou art ever-present.
جیسے آسمان پر ہے زمین پر بھی ہمیں یہ جاننے کے قابل بنا کہ خدا قادر مطلق، اعلیٰ ہے۔
آج کے لئے ہمیں فضل عطا کر؛ محبت کے بھوکوں کو سیر کر؛
اور محبت، محبت میں منعکس ہوتی ہے؛
اور خدا ہمیں آزمائش میں نہیں ڈالتا، بلکہ ہمیں گناہ، بیماری اور موت سے بچاتا ہے۔
کیونکہ خدا لامحدود، قادر مطلق، بھر پور زندگی، سچائی، محبت، ہر ایک پر اور سب پر حاکم ہے۔
Enable us to know, — as in heaven, so on earth, — God is omnipotent, supreme.
Give us grace for to-day; feed the famished affections;
And Love is reflected in love;
And God leadeth us not into temptation, but delivereth us from sin, disease, and death.
For God is infinite, all-power, all Life, Truth, Love, over all, and All.
اگر ہم بطور ایک نفسانی شخص خدا سے دعا کرتے ہیں، تویہ ہمارے اْن انسانی شبہات اور خدشات کو ترک کرنے سے روکے گی جو اِ س قسم کے ایمان کو اجاگر کرتے ہیں، اور یوں ہم اْس لامحدود اور غیر مادی محبت کے کئے ہوئے عجیب کاموں کو نہیں سمجھ سکتے جس کے لئے سب کچھ ممکن ہے۔الٰہی اصول یعنی محبت سے انسان کی لاعلمی کی بدولت سب کے باپ کو ایک جسمانی خالق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے؛ لہٰذہ انسان خود کو محض جسمانی سمجھتے ہیں اور انسان کے بطور خدا کی شبیہ یا عکس اور انسان کی ابدی غیر مادی وجودیت سے لاعلم رہتے ہیں۔غلطی کا جہان سچائی کے جہان سے ناواقف ہوتا ہے، انسان کے وجود کی حقیقت سے بے بہرہ، کیونکہ احساسات کی دنیا بدن کی نہیں بلکہ روح کی زندگی سے آشناہ نہیں ہے۔
If we pray to God as a corporeal person, this will prevent us from relinquishing the human doubts and fears which attend such a belief, and so we cannot grasp the wonders wrought by infinite, incorporeal Love, to whom all things are possible. Because of human ignorance of the divine Principle, Love, the Father of all is represented as a corporeal creator; hence men recognize themselves as merely physical, and are ignorant of man as God's image or reflection and of man's eternal incorporeal existence. The world of error is ignorant of the world of Truth, — blind to the reality of man's existence, — for the world of sensation is not cognizant of life in Soul, not in body.
سچائی میں غلطی کا کوئی شعور نہیں ہے۔ محبت میں نفرت کا کوئی فہم نہیں ہے۔ زندگی کی موت کے ساتھ کوئی شراکت نہیں ہے۔ سچائی، زندگی اور محبت ہر اْس چیز کے لئے ہلاکت کا ایک قانون ہے جو اِن کے برعکس ہے، کیونکہ یہ خدا کے سوا کچھ بھی ظاہر نہیں کرتیں۔
Truth has no consciousness of error. Love has no sense of hatred. Life has no partnership with death. Truth, Life, and Love are a law of annihilation to everything unlike themselves, because they declare nothing except God.
سچائی، زندگی اور محبت مواد ہیں،
Truth, Life, and Love are substance,
خود سے متعلق، مادی اور فانی انسان اپنے آپ کو مواد دکھائی دیتا ہے، مگر مواد کے اِس فہم میں غلطی ہے اور اسی لئے یہ مادی، عارضی ہے۔
دوسری طرف، لافانی، روحانی انسان حقیقی ذات ہے، اور یہ ابدی مواد یا روح سے متعلق غور کرتا ہے، جس کی بشر امید کرتے ہیں۔وہ اْس الٰہی پر غور کرتا ہے، جو واحد حقیقی اور ابدی الوہیت جاری رکھتا ہے۔یہ فکر فانی فہم کے لئے غیر واضع دکھائی دیتی ہے، کیونکہ روحانی انسان کی اصلیت انسانی بصیرت کو واضح کرتی ہے اور یہ محض الٰہی سائنس کے وسیلہ ظاہر کی جاتی ہے۔
جیسا کہ خدا اصل ہے اور انسان الٰہی صورت اور شبیہ ہے، تو انسان کو صرف اچھائی کے اصل، روح کے اصل نہ کہ مادے کی خواہش رکھنی چاہئے، اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہے۔
To himself, mortal and material man seems to be substance, but his sense of substance involves error and therefore is material, temporal.
On the other hand, the immortal, spiritual man is really substantial, and reflects the eternal substance, or Spirit, which mortals hope for. He reflects the divine, which constitutes the only real and eternal entity. This reflection seems to mortal sense transcendental, because the spiritual man's substantiality transcends mortal vision and is revealed only through divine Science.
As God is substance and man is the divine image and likeness, man should wish for, and in reality has, only the substance of good, the substance of Spirit, not matter.
اِس تناسب میں کہ انسانی فہم کے لئے جب مادا بطور انسان ساری ہستی کھو دیتا ہے تو اِسی تناسب میں وہ اِس کا مالک بن جاتا ہے۔وہ حقائق کے مزید الٰہی فہم میں داخل ہوجاتا ہے، اوروہ یسوع کی الٰہیات سمجھتا ہے جب یہ بیمار کو شفا دینے، مردے کو زندہ کرنے اور پانی پر چلنے سے ظاہر ہوئی۔اِن سب کاموں نے اِس عقیدے پر یسوع کے اختیار کو ظاہر کیا کہ مادا مواد ہے،کہ یہ زندگی کا ثالثی یا وجودیت کی کسی بھی شکل کو تعمیر کرنے والا ہو سکتا ہے۔
In proportion as matter loses to human sense all entity as man, in that proportion does man become its master. He enters into a diviner sense of the facts, and comprehends the theology of Jesus as demonstrated in healing the sick, raising the dead, and walking over the wave. All these deeds manifested Jesus' control over the belief that matter is substance, that it can be the arbiter of life or the constructor of any form of existence.
ہستی کی حقیقت اور ترتیب کو اْس کی سائنس میں تھامنے کے لئے، وہ سب کچھ حقیقی ہے اْس کے الٰہی اصول کے طور پر آپ کو خدا کا تصور کرنے کی ابتدا کرنی چاہئے۔
To grasp the reality and order of being in its Science, you must begin by reckoning God as the divine Principle of all that really is.
ہستی کی حقیقت کو ذہن میں رکھیں، کہ انسان اْس خدا کی صورت اور شبیہ ہے، جس میں تمام ہستی بلا درد اور مستقل ہے۔یاد رکھیں کہ انسان کی کاملیت حقیقی اور ناقابل الزام ہے۔
Keep in mind the verity of being, — that man is the image and likeness of God, in whom all being is painless and permanent. Remember that man's perfection is real and unimpeachable,
۔۔۔کیونکہ وہ لامتناہی عقل، سارے مواد کے منبع کی نمائندگی کرتا ہے۔
...for he represents infinite Mind, the sum of all substance.
جب ہم کرسچن سائنس میں راستہ جانتے ہیں اور انسان کی روحانی ہستی کو پہچانتے ہیں، ہم خدا کی تخلیق کو سمجھیں اور دیکھیں گے،سارا جلال زمین اور آسمان اور انسان کے لئے۔
When we learn the way in Christian Science and recognize man's spiritual being, we shall behold and understand God's creation, — all the glories of earth and heaven and man.
۔۔۔ لامحدود روحانی ہستی کی مانند فانی ضمیر بالا آخر سائنسی حقیقت کو تسلیم کرے گا اور غائب ہو جائے گا،اور ہستی کا،کامل اور ہمیشہ سے برقرار حقیقی فہم سامنے آئے گا۔<
...infinite Spirit being all, mortal consciousness will at last yield to the scientific fact and disappear, and the real sense of being, perfect and forever intact, will appear.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔