اتوار 12 جنوری، 2025



مضمون۔ ساکرامنٹ

SubjectSacrament

سنہری متن: اعمال 9 باب6 آیت

اے خداوند! تْو کیا چاہتا ہے کہ مَیں کروں؟



Golden Text: Acts 9 : 6

Lord, what wilt thou have me to do?





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: عبرانیوں 3 باب 1، 2، 4تا8، 14 آیات


1۔ پس اے بھائیو! تم جو آسمانی بلاوے میں شریک ہو۔ اْس رسول اور سردار کاہن یسوع پر غور کرو جس کا ہم اقرار کرتے ہیں۔

2۔ جو اپنے مقرر کرنے والے کے حق میں دیانتدار تھا جس طرح موسیٰ اْس کے سارے گھر میں تھا۔

4۔ چنانچہ ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے۔

5۔ موسیٰ تو اْس کے سارے گھر میں خادم کی طرح دیانتدار رہا تاکہ آئندہ بیان ہونے والی باتوں کی گواہی دے۔

6۔ مگر مسیح بیٹے کی طرح اْس کے گھر کا مختار ہے اور اْس کا گھر ہم ہیں بشرطیکہ اپنی دلیری اور امید کا فخر آخر تک مضبوطی سے قائم رکھیں۔

7۔ اگر آج تم اْس کی آواز سنو۔

8۔ تو اپنے دلوں کو سخت نہ کرو۔

14۔ کیونکہ ہم مسیح میں شریک ہوئے ہیں بشرطیکہ اپنے ابتدائی بھروسے پر آخر تک مضبوطی سے قائم رہیں۔

Responsive Reading: Hebrews 3 : 1, 2, 4-8, 14

1.     Wherefore, holy brethren, partakers of the heavenly calling, consider the Apostle and High Priest of our profession, Christ Jesus;

2.     Who was faithful to him that appointed him, as also Moses was faithful in all his house.

4.     For every house is builded by some man; but he that built all things is God.

5.     And Moses verily was faithful in all his house, as a servant, for a testimony of those things which were to be spoken after;

6.     But Christ as a son over his own house; whose house are we, if we hold fast the confidence and the rejoicing of the hope firm unto the end.

7.     To day if ye will hear his voice,

8.     Harden not your hearts,

14.     For we are made partakers of Christ, if we hold the beginning of our confidence stedfast unto the end.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 123: 1، 2 آیات

1۔تْو جو آسمان پر تخت نشین ہے مَیں اپنی آنکھیں تیری طرف اٹھاؤں گا۔

2۔ دیکھ جس طرح غلاموں کی آنکھیں اپنے آقا کے ہاتھ کی طرف اور لونڈی کی آنکھیں اپنی بی بی کے ہاتھ کی طرف لگی رہتی ہیں اْسی طرح ہماری آنکھیں خداوند اپنے خدا کی طرف لگی ہیں۔ جب تک وہ ہم پر رحم نہ کرے۔

1. Psalm 123 : 1, 2

1     Unto thee lift I up mine eyes, O thou that dwellest in the heavens.

2     Behold, as the eyes of servants look unto the hand of their masters, and as the eyes of a maiden unto the hand of her mistress; so our eyes wait upon the Lord our God, until that he have mercy upon us.

2 . ۔ گنتی 10 باب12 (تا؛) آیت

12۔ تب بنی اسرائیل دشتِ سیناہ سے کوچ کر کے نکلے۔

2. Numbers 10 : 12 (to ;)

12     And the children of Israel took their journeys out of the wilderness of Sinai;

3 . ۔ گنتی 11 باب1، 2، 4، 16 (تا دوسری)، 17 (تا؛)، 18 (تا پہلی)، 21، 22(تا پہلی؟)، 23، 24 (تا دوسری)، 31 (تا تیسری) آیات

1۔ پھر لوگ کڑکڑانے اور خدا کے سنتے برا کہنے لگے چنانچہ خداوند نے سنا اور اْس کا غضب بھڑکا اور خداوند کی آگ اْن کے درمیان جل اْٹھی اور لشکر گاہ کو ایک کنارے سے بھسم کرنے لگی۔

2۔ تب لوگوں نے موسیٰ سے فریاد کی اور موسیٰ نے خداوند سے دعا کی تو آگ بجھ گئی۔

4۔ اور جو ملی جلی بھیڑ اْن لوگوں میں تھی وہ طرح طرح کی حرص کرنے لگی اور بنی اسرائیل پھر رونے اور کہنے لگے کہ ہم کو کون گوشت کھانے کو دے گا؟

16۔ خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے ستر مرد جن کو تْو جانتا ہے کہ قوم کے بزرگ ہیں میرے حضور جمع کر۔

17۔ اور مَیں اْتر کہ تیرے ساتھ وہاں باتیں کروں گا۔

18۔ اور لوگوں سے کہہ کہ کل کے لئے اپنے آپ کو پاک رکھو تو تم گوشت کھاؤ گے۔

21۔ پھر موسیٰ کہنے لگا کہ جن لوگوں میں مَیں ہو ں اِن میں چھ لاکھ تو پیادے ہی ہیں تْو نے کہاہے کہ مَیں اِن کو اتنا گوشت دوں گا کہ مہینہ بھر اِسے کھاتے رہیں گے۔

22۔ تو کیا یہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور گائے بیلوں کے جھْنڈ اِن کی خاطر ذبح ہوں کہ اِن کے لئے بس ہو؟

23۔ خداوند نے موسیٰ سے کہا کیا خداوند کا ہاتھ چھوٹا ہوگیا؟ اب تْو دیکھ لے گا کہ جو کچھ مَیں نے تجھ سے کہا ہے وہ پورا ہوتا ہے کہ نہیں۔

24۔ تب موسیٰ نے باہر جا کر خداوند کی باتیں اْن لوگوں کو جا سنائیں۔

31۔ اور خداوند کی طرف سے ایک آندھی چلی اور سمندر کی طرف سے بٹیریں اْڑا لائی اور اْن کو لشکر گاہ کے برابر ڈال دیا۔

3. Numbers 11 : 1, 2, 4, 16 (to 2nd ,), 17 (to :), 18 (to 1st :), 21, 22 (to 1st ?), 23, 24 (to 2nd ,), 31 (to 3rd ,)

1     And when the people complained, it displeased the Lord: and the Lord heard it; and his anger was kindled; and the fire of the Lord burnt among them, and consumed them that were in the uttermost parts of the camp.

2     And the people cried unto Moses; and when Moses prayed unto the Lord, the fire was quenched.

4     And the mixt multitude that was among them fell a lusting: and the children of Israel also wept again, and said, Who shall give us flesh to eat?

16     And the Lord said unto Moses, Gather unto me seventy men of the elders of Israel,

17     And I will come down and talk with thee there:

18     And say thou unto the people, Sanctify yourselves against to morrow, and ye shall eat flesh:

21     And Moses said, The people, among whom I am, are six hundred thousand footmen; and thou hast said, I will give them flesh, that they may eat a whole month.

22     Shall the flocks and the herds be slain for them, to suffice them?

23     And the Lord said unto Moses, Is the Lord’s hand waxed short? thou shalt see now whether my word shall come to pass unto thee or not.

24     And Moses went out, and told the people the words of the Lord,

31     And there went forth a wind from the Lord, and brought quails from the sea, and let them fall by the camp,

4 . ۔ یسعیاہ 52 باب13 آیت

13۔ دیکھو میرا خادم اقبالمند ہوگا۔ وہ اعلیٰ برتر اور نہایت بلند ہوگا۔

4. Isaiah 52 : 13

13     Behold, my servant shall deal prudently, he shall be exalted and extolled, and be very high.

5 . ۔ یوحنا 9 باب1تا7، 13تا16، 30تا33 آیات

1۔ پھر اْس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا۔

2۔اور اْس کے شاگردوں نے اْس سے پوچھا اے ربی! کس نے گناہ کیا تھا جو یہ اندھا پیدا ہوا۔ اس شخص نے یا اِس کے ماں باپ نے؟

3۔ یسوع نے جواب دیا کہ نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے یہ اِس لئے ہوا کہ خدا کے کام اْس میں ظاہر ہوں۔

4۔ جس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اْس کے کام دن ہی دن میں کرنا ضرور ہے۔ وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا۔

5۔ جب تک مَیں دنیا میں ہوں دنیا کا نور ہوں۔

6۔یہ کہہ کر اْس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مِٹی سانی اور وہ مٹی اندھے کی آنکھوں پر لگا کر

7۔اْس سے کہا جا شیلوخ (جس کا ترجمہ ”بھیجا ہوا“ ہے) کے حوض میں دھو لے۔ پس اْس نے جا کر دھویا اور بِینا ہو کر واپس آیا۔

13۔ لوگ اْس شخص کو جو پہلے اندھا تھا فریسیوں کے پاس لے گئے۔

14۔اور جس روز یسوع نے مٹی سان کر اْس کی اْنکھیں کھولی تھیں وہ سبت کا دن تھا۔

15۔پھر فریسیوں نے بھی اْس سے پوچھا تْو کس طرح بِینا ہوا؟ اْس نے اْن سے کہا اْس نے میری آنکھوں پر مٹی لگائی۔ میں نے دھو لیا اور اب بِینا ہوں۔

16۔پس بعض فریسی کہنے لگے کہ یہ آدمی خدا کی طرف سے نہیں کیونکہ سبت کے دن کو نہیں مانتا مگر بعض نے کہا کہ گناہگار آدمی کیونکر ایسے معجزے دکھا سکتا ہے؟ پس اْن میں اختلاف ہوا۔

30۔ اْس آدمی نے جواب میں اْن سے کہا یہ تو تعجب کی بات ہے کہ تم نہیں جانتے کہ وہ کہاں کا ہے حالانکہ اْس نے میری آنکھیں کھولیں۔

31۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا گناہگاروں کی نہیں سنتا لیکن اگر کوئی خدا پرست ہو اور اْس کی مرضی پر چلے تو وہ اْس کی سنتا ہے۔

32۔ دنیا کے شروع سے کبھی سننے میں نہیں آیا کہ کسی نے جنم کے اندھے کی آنکھیں کھولی ہوں۔

33۔ اگر یہ شخص خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو کچھ نہ کر سکتا۔

5. John 9 : 1-7, 13-16, 30-33

1     And as Jesus passed by, he saw a man which was blind from his birth.

2     And his disciples asked him, saying, Master, who did sin, this man, or his parents, that he was born blind?

3     Jesus answered, Neither hath this man sinned, nor his parents: but that the works of God should be made manifest in him.

4     I must work the works of him that sent me, while it is day: the night cometh, when no man can work.

5     As long as I am in the world, I am the light of the world.

6     When he had thus spoken, he spat on the ground, and made clay of the spittle, and he anointed the eyes of the blind man with the clay,

7     And said unto him, Go, wash in the pool of Siloam, (which is by interpretation, Sent.) He went his way therefore, and washed, and came seeing.

13     They brought to the Pharisees him that aforetime was blind.

14     And it was the sabbath day when Jesus made the clay, and opened his eyes.

15     Then again the Pharisees also asked him how he had received his sight. He said unto them, He put clay upon mine eyes, and I washed, and do see.

16     Therefore said some of the Pharisees, This man is not of God, because he keepeth not the sabbath day. Others said, How can a man that is a sinner do such miracles? And there was a division among them.

30     The man answered and said unto them, Why herein is a marvellous thing, that ye know not from whence he is, and yet he hath opened mine eyes.

31     Now we know that God heareth not sinners: but if any man be a worshipper of God, and doeth his will, him he heareth.

32     Since the world began was it not heard that any man opened the eyes of one that was born blind.

33     If this man were not of God, he could do nothing.

6 . ۔ لوقا 22 باب1، 14، 24تا27 آیات

1۔ اور عیدِ فطیر جس کو عیدِ فسح کہتے ہیں نزدیک تھی۔

14۔ جب وقت ہوگیا تو وہ کھانا کھانے بیٹھا اور رسول اْس کے ساتھ بیٹھے۔

24۔ اور اْن میں یہ تکرار بھی ہوئی کہ ہم مَیں سے کون بڑا سمجھا جاتا ہے؟

25۔ اْس نے اْن سے کہا کہ غیر قوموں کے بادشاہ اْن پر حکومت چلاتے ہیں اور جو اْن پر اختیار رکھتے ہیں وہ خداوندِ نعمت کہلاتے ہیں۔

26۔ مگر تم ایسے نہ ہونا بلکہ جو تم میں بڑا ہے وہ چھوٹے کی مانند اور جو سردار ہے وہ خدمت کرنے والے کی مانند بنے۔

27۔ کیونکہ بڑا کون ہے؟ وہ جو کھانا کھانے بیٹھا یا وہ جو خدمت کرتا ہے؟ کیا وہ نہیں جو کھانا کھانے بیٹھا ہے؟ لیکن مَیں تمہارے درمیان خدمت کرنے والے کی مانند ہوں۔

6. Luke 22 : 1, 14, 24-27

1     Now the feast of unleavened bread drew nigh, which is called the Passover.

14     And when the hour was come, he sat down, and the twelve apostles with him.

24     And there was also a strife among them, which of them should be accounted the greatest.

25     And he said unto them, The kings of the Gentiles exercise lordship over them; and they that exercise authority upon them are called benefactors.

26     But ye shall not be so: but he that is greatest among you, let him be as the younger; and he that is chief, as he that doth serve.

27     For whether is greater, he that sitteth at meat, or he that serveth? is not he that sitteth at meat? but I am among you as he that serveth.

7 . ۔ رومیوں 13 باب1، 3 (کرے گا) 4 (تا پہلی) آیات

1۔ ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابعدار رہے کیونکہ کوئی خدمت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔

3۔ پس اگر حاکم سے نڈر رہنا چاہتا ہے تو نیکی کر۔ اْس کی طرف سے تیری تعریف ہوگی۔

4۔ کیونکہ وہ تیری بہتری کے لئے خدا کا خادم ہے۔

7. Romans: 13 : 1, 3 (Wilt), 4 (to 1st .)

1     Let every soul be subject unto the higher powers. For there is no power but of God: the powers that be are ordained of God.

3     Wilt thou then not be afraid of the power? do that which is good, and thou shalt have praise of the same:

4     For he is the minister of God to thee for good.

8 . ۔ افسیوں 5 باب17، 19تا21 آیات

17۔ اِس سبب سے نادان نہ بنو بلکہ خداوند کی مرضی کو سمجھو کہ کیا ہے۔

19۔ اور آپس میں مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گایا کرو اور دل سے خداوند کے لئے گایا بجایا کرو۔

20۔ اور سب باتوں میں ہمارے خداوند یسوع مسیح کے نام سے ہمیشہ خدا باپ کا شکر کرتے رہو۔

21۔ اور مسیح کے خوف سے ایک دوسرے کے تابع رہو۔

8. Ephesians 5 : 17, 19-21

17     Wherefore be ye not unwise, but understanding what the will of the Lord is.

19     Speaking to yourselves in psalms and hymns and spiritual songs, singing and making melody in your heart to the Lord;

20     Giving thanks always for all things unto God and the Father in the name of our Lord Jesus Christ;

21     Submitting yourselves one to another in the fear of God.



سائنس اور صح


1 . ۔ 202: 3۔5

سائنسی اتحاد جو خدا اور انسا ن کے درمیان موجود ہے اْسے عملی زندگی میں کشیدہ کرنا چاہئے اور خدا کی مرضی عالگیر طور پر پوری کی جانی چاہئے۔

1. 202 : 3-5

The scientific unity which exists between God and man must be wrought out in life-practice, and God's will must be universally done.

2 . ۔ 241 :1 (وہ جو)۔ 4، 19۔30

وہ جو خدا کی مرضی یا الٰہی سائنس کی شرائط کو جانتا اور اْن پر عمل کرتا ہے، وہ حسد کی عداوت اپنے اوپرلیتا ہے؛ اور جو خدا کی فرمانبرداری سے انکار کرتا ہے، محبت کی طرف سے اْسے تنبیہ کی جاتی ہے۔

ساری جانثاری کا مادا الٰہی محبت، بیماری کی شفا اور گناہ کی تباہی کا عکس اور اظہار ہے۔ہمارے مالک نے کہا، ”اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔“

ایمان سے آگے، کسی شخص کا مقصد سچائی کے نقش قدم کو ڈھونڈنا ہونا چاہئے جو صحت اور پاکیزگی کی راہ ہے۔ہمیں حوریب کی چوٹی تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے جہاں خدا ظاہر ہوتا ہے؛ اور روحانی عمارت کے کونے کے سِرے کا پتھر پاکیزگی ہے۔روح کا بپتسمہ، بدن کی ساری ناپاکی کو دھونا، اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ پاک دل خدا کو دیکھتے ہیں اور وہ روحانی زندگی اور اْس کے اظہار تک پہنچ رہے ہیں۔

2. 241 : 1 (He, who)-4, 19-30

He, who knows God's will or the demands of divine Science and obeys them, incurs the hostility of envy; and he who refuses obedience to God, is chastened by Love.

The substance of all devotion is the reflection and demonstration of divine Love, healing sickness and destroying sin. Our Master said, "If ye love me, keep my commandments."

One's aim, a point beyond faith, should be to find the footsteps of Truth, the way to health and holiness. We should strive to reach the Horeb height where God is revealed; and the corner-stone of all spiritual building is purity. The baptism of Spirit, washing the body of all the impurities of flesh, signifies that the pure in heart see God and are approaching spiritual Life and its demonstration.

3 . ۔ 33: 18۔26

جب اْس کے اندر انسانی عنصر الٰہی عنصر کے ساتھ کشمکش کر رہا تھا تو ہمارے عظیم استاد نے کہا: ”میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو!“، یعنی، مجھ میں بدن نہیں بلکہ روح ظاہر ہو۔ یہ روحانی محبت کی نئی سمجھ ہے۔ یہ سبھی کچھ مسیح یا سچائی کے لئے مہیا کرتا ہے۔ یہ دشمنوں کو برکت دیتا، بیماروں کو شفا دیتا، غلطیوں کو خارج کرتا، خطاؤں اور گناہوں میں مردہ لوگوں کو زندہ کرتا اور جو دل کے غریب اور فروتن ہیں اْن کو انجیل کی خوشخبری سناتا ہے۔

3. 33 : 18-26

When the human element in him struggled with the divine, our great Teacher said: "Not my will, but Thine, be done!" — that is, Let not the flesh, but the Spirit, be represented in me. This is the new understanding of spiritual Love. It gives all for Christ, or Truth. It blesses its enemies, heals the sick, casts out error, raises the dead from trespasses and sins, and preaches the gospel to the poor, the meek in heart.

4 . ۔ 144: 14 (انسانی قوتِ ارادی)۔22

انسانی قوتِ ارادی سائنس نہیں ہے۔ انسانی مرضی نام نہاد مادی حواس سے تعلق رکھتی ہے، اور اِس کے استعمال کی مذمت کی جانی چاہئے۔ بیمار کی صحت یابی کی خواہش کرسچن سائنس کا مابعد الاطبعیاتی عمل نہیں ہے، بلکہ سراسر حیوانی مقناطیسیت ہے۔ انسانی قوت ارادی انسان کے حقوق کی خلاف ورزی کر سکتی ہے۔ یہ مسلسل بدی پیدا کرتی ہے، اور ہستی کی حقیقت پسندی کا ایک عنصر نہیں ہے۔سچائی، نہ کہ جسمانی رضا، وہ الٰہی قوت ہے جو بیماری سے کہتی ہے، ”ساکت ہو، تھم جا۔“

4. 144 : 14 (Human will-power)-22

Human will-power is not Science. Human will belongs to the so-called material senses, and its use is to be condemned. Willing the sick to recover is not the metaphysical practice of Christian Science, but is sheer animal magnetism. Human will-power may infringe the rights of man. It produces evil continually, and is not a factor in the realism of being. Truth, and not corporeal will, is the divine power which says to disease, "Peace, be still."

5 . ۔ 206: 10 (قوتِ ارادی)۔14

قوتِ ارادی ہر قسم کی بدی کے قابل ہے۔ یہ کبھی بیمار کو شفا نہیں دے سکتی، کیونکہ یہ غیر راستباز کی دعا ہے؛ جبکہ جذبات کی مشق، امید، ایمان، محبت، راستباز کی دعا ہے۔یہ دعا، حواس کی بجائے سائنس کی زیرِنگرانی ہوتے ہوئے، بیمار کو شفا دیتی ہے۔

5. 206 : 10 (Will-power)-14

Will-power is capable of all evil. It can never heal the sick, for it is the prayer of the unrighteous; while the exercise of the sentiments — hope, faith, love — is the prayer of the righteous. This prayer, governed by Science instead of the senses, heals the sick.

6 . ۔ 11 :1۔21

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کرسچن سائنس میں جسمانی شفا کا اظہار انسانی سوچ کے عمل کا صرف ایک مرحلہ پیش کرتا ہے، جو ایسے غیر واضح طریقے سے کام کرتا ہے جس کا نتیجہ بیماری کا علاج ہوتا ہے۔اِس کے برعکس، کرسچن سائنس عقلی طور پر واضح کرتی ہے کہ دیگر تمام تر مرضیاتی طریقہ کار انسان کے مادے پر ایمان، کاموں پر ایمان نہ کہ روح پر ایمان، بلکہ اْس جسمانی عقل کا پھل ہیں جو سائنس کو حاصل ہونے چاہئیں۔

کرسچن سائنس کی جسمانی شفا الٰہی اصول کے کام سے اب، یسوع کے زمانے کی طرح، سامنے آتی ہے، جس سے قبل گناہ اور بیماری انسانی ضمیر میں اپنی حقیقت کھو دیتے ہیں اور ایسے فطری اورایسے لازمی طور پر غائب ہو جاتے ہیں جیسے تاریکی روشنی کو اور گناہ درستگی کو جگہ دیتے ہیں۔ اْس وقت کی طرح، اب بھی یہ قادر کام مافوق الفطرتی نہیں بلکہ انتہائی فطرتی ہیں۔ یہ اعمانوئیل، یا ”خدا ہمارے ساتھ ہے“ کا نشان ہیں، ایک الٰہی اثر جو انسانی شعور میں ہمیشہ سے موجود ہے اور خود کو دوہراتے ہوئے، ابھی آرہا ہے جیسے کہ ماضی میں اس کا وعدہ کیا گیا تھاکہ،

(شعور کے)قیدیوں کو رہائی

اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر پانے کے لئے

اور کچلے ہوؤں کو آزاد کرنے کے لئے

6. xi : 1-21

Many imagine that the phenomena of physical healing in Christian Science present only a phase of the action of the human mind, which action in some unexplained way results in the cure of disease. On the contrary, Christian Science rationally explains that all other pathological methods are the fruits of human faith in matter, — faith in the workings, not of Spirit, but of the fleshly mind which must yield to Science.

The physical healing of Christian Science results now, as in Jesus' time, from the operation of divine Principle, before which sin and disease lose their reality in human consciousness and disappear as naturally and as necessarily as darkness gives place to light and sin to reformation. Now, as then, these mighty works are not supernatural, but supremely natural. They are the sign of Immanuel, or "God with us," — a divine influence ever present in human consciousness and repeating itself, coming now as was promised aforetime,

 To preach deliverance to the captives [of sense],
 And recovering of sight to the blind,
 To set at liberty them that are bruised.

7 . ۔ 40: 25۔30

ہمارا آسمانی باپ، الٰہی محبت، یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہمیں ہمارے مالک اور اْس کے شاگردوں کے نمونے کی پیروی کرنی چاہئے اور صرف اْس کی شخصیت کی عبادت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ الٰہی خدمت کا جملہ عام طور پر روز مرہ کے اعمال کی بجائے عوامی عبادت کے معنوں کے ساتھ آیا ہے۔

7. 40 : 25-30

Our heavenly Father, divine Love, demands that all men should follow the example of our Master and his apostles and not merely worship his personality. It is sad that the phrase divine service has come so generally to mean public worship instead of daily deeds.

8 . ۔ 51 :19۔32

اْس کا کامل نمونہ ہم سب کی نجات کے لئے تھا، مگر صرف وہ کام کرنے کے وسیلہ سے جو اْس نے کئے اور دوسروں کو اْن کی تعلیم دی۔شفا کے لئے اْس کا مقصد صرف صحت کو بحال کرنا نہیں تھا بلکہ اپنا الٰہی اصول ظاہر کرنا بھی تھا۔ جو کچھ اْس نے کیا اور کہا اْس میں وہ خدا سے، سچائی اور محبت سے متاثر تھا۔ اْس کو اذیت دینے والوں کے مقاصد غرور، حسد، ظلم اور بدلہ تھا جو جسمانی یسوع پر اْترا، مگر نشانہ الٰہی اصول یعنی محبت تھی، جس نے اْن کی شہوت پرستی کو ملامت کیا تھا۔

یسوع بے غرض تھا۔ اْس کی روحانیت نے اْسے حسی لوگوں سے منفرد رکھا، اور خود غرض مادی لوگوں کی اْس کے لئے نفرت کا سبب بھی یہی بنی؛ مگر یہ اْس کی روحانیت ہی تھی جس نے یسوع کو بیمار کو شفا دینے، بدروح کو نکالنے اور مردوں کو زندہ کرنے کے قابل بنایا۔

8. 51 : 19-32

His consummate example was for the salvation of us all, but only through doing the works which he did and taught others to do. His purpose in healing was not alone to restore health, but to demonstrate his divine Principle. He was inspired by God, by Truth and Love, in all that he said and did. The motives of his persecutors were pride, envy, cruelty, and vengeance, inflicted on the physical Jesus, but aimed at the divine Principle, Love, which rebuked their sensuality.

Jesus was unselfish. His spirituality separated him from sensuousness, and caused the selfish materialist to hate him; but it was this spirituality which enabled Jesus to heal the sick, cast out evil, and raise the dead.

9 . ۔ 168: 15۔23

کیونکہ انسان کے بنائے ہوئے نظام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خدا کے قوانین کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتے ہوئے انسان بیمار اور ناکارہ ہوجاتا، تکلیف اٹھاتا اور مر جاتا ہے، کیا ہمیں اس پر یقین کرنا چاہئے؟ کیا ہمیں ایسے اختیار پر یقین رکھنا چاہئے جو کاملیت سے متعلق خدا کے روحانی حکم سے انکاری ہے، ایسا اختیار جسے یسوع نے غلط ثابت کیا؟اْس نے باپ کی مرضی کو پورا کیا۔ اْس نے اْس کے انحراف میں بیماری سے شفا بخشی جسے مادی شریعت کہا جاتا ہے،لیکن خدا کی شریعت، عقل کی شریعت کے مطابق۔

9. 168 : 15-23

Because man-made systems insist that man becomes sick and useless, suffers and dies, all in consonance with the laws of God, are we to believe it? Are we to believe an authority which denies God's spiritual command relating to perfection, — an authority which Jesus proved to be false? He did the will of the Father. He healed sickness in defiance of what is called material law, but in accordance with God's law, the law of Mind.

10 . ۔ 349: 3۔12

جیسے پولوس رسول نے پرانے زمانے میں غیر ایمانداروں سے پوچھا، ویسے ہی آج کے دن ربی ہماری شفا اور تعلیم سے متعلق پوچھتے ہیں کہ ”شریعت کے عدول سے خدا کی کیوں بے عزتی کرتے ہو؟“تاہم، ہمارے پاس خوشخبری ہے، اور ہمارے مالک نے مادی قانون کو اِس کے بر خلاف شفا دیتے ہوئے کالعدم کر دیا۔ ہم مالک کے نمونے کی پیروی کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ہمیں مادی قانون کو روحانی قانون کے ماتحت رکھنا چاہئے۔ کرسچن سائنس کے دو بنیادی نکات یہ ہیں کہ نہ زندگی نہ انسان مرتا ہے، اور کہ خدا بیماری کا مصنف نہیں ہے۔

10. 349 : 3-12

As Paul asked of the unfaithful in ancient days, so the rabbis of the present day ask concerning our healing and teaching, "Through breaking the law, dishonorest thou God?" We have the gospel, however, and our Master annulled material law by healing contrary to it. We propose to follow the Master's example. We should subordinate material law to spiritual law. Two essential points of Christian Science are, that neither Life nor man dies, and that God is not the author of sickness.

11 . ۔ 37 :16۔25

یسوع کا اقرار کرنے والے اْس کے پیروکار اْس کی راہوں کی پیروی کرنا اور اْس کے بڑے کاموں کی نقل کرنا کب سیکھیں گے؟ وہ لوگ جنہوں نے اْس راستباز شخص کی شہادت حاصل کی وہ خوش دلی سے اْس کے پاک مستقبل کو ایک مسخ شدہ نظریاتی مقام میں تبدیل کردیں گے۔ خدا کرے کہ آج کے مسیحی اِس چال چلن کی مزید عملی اہمیت کو قبول کریں!یہ ممکن ہے، ہاں یہ ہر بچے، مرد اور عورت کی ذمہ داری اور استحقاق ہے کہ وہ زندگی اور سچائی، صحت اور پاکیزگی کے اظہار کے وسیلہ مالک کے نمونے کی کسی حد تک پیروی کریں۔

11. 37 : 16-25

When will Jesus' professed followers learn to emulate him in all his ways and to imitate his mighty works? Those who procured the martyrdom of that righteous man would gladly have turned his sacred career into a mutilated doctrinal platform. May the Christians of to-day take up the more practical import of that career! It is possible, — yea, it is the duty and privilege of every child, man, and woman, — to follow in some degree the example of the Master by the demonstration of Truth and Life, of health and holiness.

12 . ۔ 371: 22۔23 (تا؛)27۔32

کرسچن سائنس کے دعووں کی تاکید دیتے ہوئے مَیں کوئی ناممکن بات نہیں پوچھتا؛۔۔۔ دوڑ کو تیز کرنے کی ضرورت اس حقیقت کا باپ ہے کہ عقل یہ کر سکتی ہے؛ کیونکہ عقل آلودگی کی بجائے پاکیزگی، کمزوری کی بجائے طاقت، اور بیماری کی بجائے صحتمندی بخش سکتی ہے۔ یہ پورے نظام میں قابل تبدیل ہے، اور اسے ”ہر ذرے تک“ بنا سکتی ہے۔

12. 371 : 22-23 (to ;), 27-32

No impossible thing do I ask when urging the claims of Christian Science; … The necessity for uplifting the race is father to the fact that Mind can do it; for Mind can impart purity instead of impurity, strength instead of weakness, and health instead of disease. Truth is an alterative in the entire system, and can make it "every whit whole."

13 . ۔ 17 :1۔3

تیری مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔

جیسے آسمان پر ہے زمین پر بھی ہمیں یہ جاننے کے قابل بنا کہ خدا قادر مطلق، اعلیٰ ہے۔

13. 17 : 1-3

Thy will be done in earth, as it is in heaven.

Enable us to know, — as in heaven, so on earth, — God is omnipotent, supreme.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔