اتوار 12 دسمبر،2021



مضمون۔ خدا محافظِ انسان

SubjectGod the Preserver of Man

سنہری متن: زبور 27: 11 آیت

”اے خداوند مجھے اپنی راہ بتا اور میرے دشمنوں کے سبب سے مجھے ہموار راستے پر چلا۔“



Golden Text: Psalm 27 : 11

Teach me thy way, O Lord, and lead me in a plain path, because of mine enemies.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: زبور 27: 1، 3 تا 5، 8، 13، 14آیات


1۔ خداوند میری روشنی اور میری نجات ہے۔ مجھے کس کی دہشت؟ خداوند میری زندگی کا پشتہ ہے۔ مجھے کس کی ہیبت؟

3۔ خواہ میرے خلاف لشکر خیمہ زن ہو خواہ میرے خلاف جنگ برپا ہو تو بھی مَیں خاطر جمع رہوں گا۔

4۔ مَیں نے خداوند سے ایک درخواست کی ہے۔ مَیں اِسی کا طالب رہوں گا مَیں عمر بھر خداوند کے گھر میں رہوں گا تاکہ خداوند کے جلال کو دیکھوں اور اْس کی ہیکل میں استفسار کیا کروں۔

5۔ کیونکہ مصیبت کے دن وہ مجھے اپنے شامیانہ میں پوشیدہ رکھے گا وہ مجھے اپنے خیمہ کے پردہ میں چھپا لے گا۔ وہ مجھے چٹان پر چڑھا دے گا۔

8۔ جب تْو نے فرمایا کہ میرے دیدار کے طالب ہو تو میرے دل نے تجھ سے کہا۔ اے خداوند مَیں تیرے دیدار کا طالب رہوں گا۔

13۔ اگر مجھے یقین نہ ہوتا کہ زندوں کی زمین میں خداوند کے احسان کو دیکھوں گا تو مجھے غش آجاتا۔

14۔ خداوند کی آس رکھ۔ مضبوط ہو اور تیرا دل قوی ہو۔ ہاں خداوند ہی کی آس رکھ۔

Responsive Reading: Psalm 27 : 1, 3-5, 8, 13, 14

1.     The Lord is the strength of my life; of whom shall I be afraid?

3.     Though an host should encamp against me, my heart shall not fear: though war should rise against me, in this will I be confident.

4.     One thing have I desired of the Lord, that will I seek after; that I may dwell in the house of the Lord all the days of my life, to behold the beauty of the Lord, and to inquire in his temple.

5.     For in the time of trouble he shall hide me in his pavilion: in the secret of his tabernacle shall he hide me; he shall set me up upon a rock.

8.     When thou saidst, Seek ye my face; my heart said unto thee, Thy face, Lord, will I seek.

13.     I had fainted, unless I had believed to see the goodness of the Lord in the land of the living.

14.     Wait on the Lord: be of good courage, and he shall strengthen thine heart: wait, I say, on the Lord.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 36: 5، 6 آیات

5۔ اے خداوند! آسمان میں تیری شفقت ہے۔ تیری وفاداری افلاک تک بلند ہے

6۔ تیری صداقت خدا کے پہاڑوں کی مانند ہے تیرے احکام نہایت عمیق ہیں۔ اے خداوند! تْو انسان اور حیوان دونوں کو محفوظ رکھتا ہے۔

1. Psalm 36 : 5, 6

5     Thy mercy, O Lord, is in the heavens; and thy faithfulness reacheth unto the clouds.

6     Thy righteousness is like the great mountains; thy judgments are a great deep: O Lord, thou preservest man and beast.

2 . ۔ زبور 55: 22 آیت

22۔ اپنا بوجھ خداوند پر ڈال دے۔ وہ تجھے سنبھال لے گا۔ وہ صادق کو کبھی جْنبش نہ کھانے دے گا۔

2. Psalm 55 : 22

22     Cast thy burden upon the Lord, and he shall sustain thee: he shall never suffer the righteous to be moved.

3 . ۔ خروج 17 باب1تا6، 8تا13 آیات

1۔ پھر بنی اسرائیل کی ساری جماعت نسین کے بیابان سے چلی اور خداوند کے حکم کے مطابق سفر کرتی ہوئی رفیدیم میں آکر ڈیرا کیا۔ وہاں اْن لوگوں کے پینے کا پانی نہ ملا۔

2۔ وہاں وہ لوگ موسیٰ سے جھگڑا کر کے کہنے لگے کہ ہم کو پینے کو پانی دے۔ موسیٰ نے اْن سے کہا تم مجھ سے کیوں جھگڑتے ہو اور خداوند کو کیوں آزماتے ہو؟

3۔ وہاں اْن لوگوں کو بڑی پیاس لگی۔ سو وہ لوگ موسیٰ پر بڑبڑانے لگے اور کہا کہ تم ہم کو اور ہمارے بچوں اور چوپائیوں کو پیاسا مرنے کیلئے ہم لوگوں کو کیوں ملک مصر سے نکال لایا؟

4۔ موسیٰ نے خداوند سے فریاد کر کے کہا مَیں اِن لوگوں سے کیا کروں؟ وہ سب تو ابھی مجھے سنگسار کرنے کو تیار ہیں۔

5۔ خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ لوگوں کے آگے ہو کر چل اور بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے چند کو اپنے ساتھ لے لے اور جس لاٹھی سے تْو نے دریا پر مارا تھا اْسے اپنے ہاتھ میں لیتا جا۔

6۔ دیکھ میں تیرے آگے جا کر وہاں حوریب کی ایک چٹان پر کھڑا رہوں گا اور تْو اْس چٹان پر مارنا تو اْس میں سے پانی نکلے گا کہ یہ لوگ پئیں۔ چنانچہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کے بزرگوں کے سامنے یہی کیا۔

8۔ تب عمالیقی آکر رفیدیم میں بنی اسرائیل سے لڑنے لگے۔

9۔ اور موسیٰ نے یشوع سے کہا کہ ہماری طرف کے کچھ آدمی چْن کر لے جا اور عمالیقیوں سے لڑ اور مَیں کل خدا کی لاٹھی ہاتھ میں لئے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا رہوں گا۔

10۔ سو موسیٰ کے حکم کے مطابق یشوع عمالیقیوں سے لڑنے لگا اور موسیٰ اور ہارون اور حور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔

11۔ اور جب تک موسیٰ اپنے ہاتھ اٹھائے رہتا تھا بنی اسرائیل غالب رہتے تھے۔ اور جب وہ ہاتھ لٹکا دیتا تھا تب عمالیقی غالب رہتے تھے۔

12۔ اور جب موسیٰ کے ہاتھ بھر گئے تو اْنہوں نے ایک پتھر لے کر موسیٰ کے نیچے رکھ دیا اور وہ اْس پر بیٹھ گیا اور ہارون اور حور ایک ادھر سے اور دوسرا اْدھر سے اْس کے ہاتھوں کو سنبھالے رہے۔ تب اْس کے ہاتھ آفتاب کے غروب ہونے تک مضبوطی سے اٹھے رہے۔

13۔ اور یشوع نے عمالیق اور اْس کے لوگوں کو تلوار کی دھار سے شکست دی۔

3. Exodus 17 : 1-6, 8-13

1     And all the congregation of the children of Israel journeyed from the wilderness of Sin, after their journeys, according to the commandment of the Lord, and pitched in Rephidim: and there was no water for the people to drink.

2     Wherefore the people did chide with Moses, and said, Give us water that we may drink. And Moses said unto them, Why chide ye with me? wherefore do ye tempt the Lord?

3     And the people thirsted there for water; and the people murmured against Moses, and said, Wherefore is this that thou hast brought us up out of Egypt, to kill us and our children and our cattle with thirst?

4     And Moses cried unto the Lord, saying, What shall I do unto this people? they be almost ready to stone me.

5     And the Lord said unto Moses, Go on before the people, and take with thee of the elders of Israel; and thy rod, wherewith thou smotest the river, take in thine hand, and go.

6     Behold, I will stand before thee there upon the rock in Horeb; and thou shalt smite the rock, and there shall come water out of it, that the people may drink. And Moses did so in the sight of the elders of Israel.

8     Then came Amalek, and fought with Israel in Rephidim.

9     And Moses said unto Joshua, Choose us out men, and go out, fight with Amalek: to morrow I will stand on the top of the hill with the rod of God in mine hand.

10     So Joshua did as Moses had said to him, and fought with Amalek: and Moses, Aaron, and Hur went up to the top of the hill.

11     And it came to pass, when Moses held up his hand, that Israel prevailed: and when he let down his hand, Amalek prevailed.

12     But Moses’ hands were heavy; and they took a stone, and put it under him, and he sat thereon; and Aaron and Hur stayed up his hands, the one on the one side, and the other on the other side; and his hands were steady until the going down of the sun.

13     And Joshua discomfited Amalek and his people with the edge of the sword.

4 . ۔ استثناء 34 باب7 آیت

7۔ اور موسیٰ اپنی وفات کے وقت ایک سو بیس برس کا تھا اور نہ تو اْس کی آنکھ دْھندلانے پائی اور نہ اْس کی طبعی قوت کم ہوئی۔

4. Deuteronomy 34 : 7

7     And Moses was an hundred and twenty years old when he died: his eye was not dim, nor his natural force abated.

5 . ۔ 2 سیموئیل 22 باب33تا35، 37، 40 (تا:)، 50 آیات

33۔ خدا میرا مضبوط قلعہ ہے۔ وہ اپنی راہ میں کامل شخص کی راہنمائی کرتا ہے۔

34۔ وہ اْس کے پاؤں ہرنیوں کے سے بنا دیتا ہے۔ اور مجھے میری اونچی جگہوں میں قائم کرتا ہے۔

35۔ وہ میرے ہاتھوں کو جنگ کرنا سکھاتا ہے یہاں تک کہ میرے بازو پیتل کی کمان کو جھکا دیتے ہیں۔

37۔ تْو نے میرے نیچے میرے قدم کشادہ کر دئیے اور میرے پاؤں نہیں پھسلے۔

40۔ کیونکہ تْو نے لڑائی کے لئے مجھے قوت سے کمر بستہ کیا۔

50۔ اِس لئے اے خداوند! مَیں قوموں کے درمیان تیری شکرگزاری اور تیرے نام کی مدح سرائی کروں گا۔

5. II Samuel 22 : 33-35, 37, 40 (to :), 50

33     God is my strength and power: and he maketh my way perfect.

34     He maketh my feet like hinds’ feet: and setteth me upon my high places.

35     He teacheth my hands to war; so that a bow of steel is broken by mine arms.

37     Thou hast enlarged my steps under me; so that my feet did not slip.

40     For thou hast girded me with strength to battle:

50     Therefore I will give thanks unto thee, O Lord, among the heathen, and I will sing praises unto thy name.

6 . ۔ متی 4باب23، 24 آیات

23۔ اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور اْن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا۔

24۔ اور اْس کی شہرت تمام سوریہ میں پھیل گئی اور لوگ سب بیماروں کو جو طرح طرح کی بیماریوں اور تکلیفوں میں گرفتار تھے اور اْن کو جن میں بد روحیں تھیں اور مرگی والوں اور مفلوجوں کو اْس کے پاس لائے اور اْس نے اْن کو اچھا کیا۔

6. Matthew 4 : 23, 24

23     And Jesus went about all Galilee, teaching in their synagogues, and preaching the gospel of the kingdom, and healing all manner of sickness and all manner of disease among the people.

24     And his fame went throughout all Syria: and they brought unto him all sick people that were taken with divers diseases and torments, and those which were possessed with devils, and those which were lunatick, and those that had the palsy; and he healed them.

7 . ۔ متی 5 باب1، 2 آیات

1۔وہ اْس بھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ گیا تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آئے۔

2۔ اور وہ اپنی زبان کھول کراْن کو یوں تعلیم دینے گا۔

7. Matthew 5 : 1, 2

1     And seeing the multitudes, he went up into a mountain: and when he was set, his disciples came unto him:

2     And he opened his mouth, and taught them, saying,

8 . ۔ متی 11 باب28تا30 آیات

28۔ اے محنت اْٹھانے والو اور بوجھ کے دبے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تم کو آرام دوں گا۔

29۔ میرا جوااپنے اوپر اٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔

30۔ کیونکہ میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا ہے۔

8. Matthew 11 : 28-30

28     Come unto me, all ye that labour and are heavy laden, and I will give you rest.

29     Take my yoke upon you, and learn of me; for I am meek and lowly in heart: and ye shall find rest unto your souls.

30     For my yoke is easy, and my burden is light.

9 . ۔ اعمال 9 باب36تا41 آیات

36۔ اور یافا میں ایک شاگرد تھی تبیِتا نام جس کا ترجمہ ہرنی ہے وہ بہت ہی نیک کام اور خیرات کیا کرتی تھی۔

37۔ انہی دنوں میں ایسا ہوا کہ وہ بیمار ہو کر مر گئی اور اْسے نہلا کر بالاخانہ میں رکھ دیا۔

38۔ اور چونکہ لْدہ یافا کے نزدیک تھا شاگردوں نے یہ سن کر کہ پطرس وہاں ہے دو آدمی بھیجے اور اْس سے درخواست کی کہ ہمارے پاس آنے میں دیر نہ کر۔

39۔ پطرس اْٹھ کر اْن کے ساتھ ہو لیا۔ جب پہنچا تو اْسے بالا خانہ میں لے گئے اور سب بیوائیں روتی ہوئیں اْس کے پاس آکھڑی ہوئیں اور جو کْرتے اور کپڑے ہرنی نے اْن کے ساتھ رہ کر بنائے تھے دکھانے لگیں۔

40۔ پطرس نے سب کو باہر کر دیا اور گھْٹنے ٹیک کر دعا کی۔ پھر لاش کی طرف متوجہ ہو کر کہا اے تبِیتا اْٹھ۔ پس اْس نے آنکھیں کھول دیں اور پطرس کو دیکھ کر اْٹھ بیٹھی۔

41۔ اْس نے ہاتھ پکڑ کر اْسے اْٹھایا اور مقدسوں اور بیواؤں کو بلا کر اْسے زندہ اْن کے سپرد کیا۔

9. Acts 9 : 36-41

36     Now there was at Joppa a certain disciple named Tabitha, which by interpretation is called Dorcas: this woman was full of good works and almsdeeds which she did.

37     And it came to pass in those days, that she was sick, and died: whom when they had washed, they laid her in an upper chamber.

38     And forasmuch as Lydda was nigh to Joppa, and the disciples had heard that Peter was there, they sent unto him two men, desiring him that he would not delay to come to them.

39     Then Peter arose and went with them. When he was come, they brought him into the upper chamber: and all the widows stood by him weeping, and shewing the coats and garments which Dorcas made, while she was with them.

40     But Peter put them all forth, and kneeled down, and prayed; and turning him to the body said, Tabitha, arise. And she opened her eyes: and when she saw Peter, she sat up.

41     And he gave her his hand, and lifted her up, and when he had called the saints and widows, presented her alive.

10 . ۔ زبور 92: (تْو)، 12تا 14 آیات

4۔۔۔۔اے خداوند! تْو نے اپنے کام سے خوش کیا۔ مَیں تیری صنعت کاری کے سبب سے شادیانہ بجاؤں گا۔

12۔ صادق کھجور کے درخت کی مانند سر سبز ہوگا۔ وہ لبنان کے دیودار کی طرح بڑھے گا۔

13۔ جو خداوند کے گھر میں لگائے گئے ہیں وہ ہمارے خدا کی بارگاہوں میں سر سبز ہوں گے۔

14۔ وہ بڑھاپے میں بھی برو مند ہوں گے۔ وہ ترو تازہ اور سر سبز رہیں گے۔

10. Psalm 92 : 4 (thou), 12-14

4     …thou, Lord, hast made me glad through thy work: I will triumph in the works of thy hands.

12     The righteous shall flourish like the palm tree: he shall grow like a cedar in Lebanon.

13     Those that be planted in the house of the Lord shall flourish in the courts of our God.

14     They shall still bring forth fruit in old age; they shall be fat and flourishing.



سائنس اور صح


1 . ۔ 387 :27۔32

مسیحت کی تاریخ اْس آسمانی باپ، قادرِمطلق فہم، کے عطا کردہ معاون اثرات اور حفاظتی قوت کے شاندار ثبوتوں کو مہیا کرتی ہے جو انسان کو ایمان اور سمجھ مہیا کرتا ہے جس سے وہ خود کو بچا سکتا ہے نہ صرف آزمائش سے بلکہ جسمانی دْکھوں سے بھی۔

1. 387 : 27-32

The history of Christianity furnishes sublime proofs of the supporting influence and protecting power bestowed on man by his heavenly Father, omnipotent Mind, who gives man faith and understanding whereby to defend himself, not only from temptation, but from bodily suffering.

2 . ۔ 5: 16 (خدا)۔18

خدا، ہمارے دور کے مطابق ہمیں قوت دیتے ہوئے، فہم اور الفت میں اپنی محبت کی دولت انڈیلتا ہے۔

2. 5 : 16 (God)-18

God pours the riches of His love into the understanding and affections, giving us strength according to our day.

3 . ۔ 407 :11 (مسیحی)۔16

یہاں بشری عقل کی کمزوری کو طاقت مہیا کرتے ہوئے، یعنی وہ طاقت جو لافانی اور قادر مطلق عقل سے ملتی ہے، اور انسانیت کو پاکیزہ ترین خواہشات میں، حتیٰ کہ روحانی طاقت اور انسان کے لئے خیر سگالی میں بھی، خود سے بلند درجہ دیتے ہوئے کرسچن سائنس خود مختار اکسیرِ اعظم ہے۔

3. 407 : 11 (Christian)-16

Christian Science is the sovereign panacea, giving strength to the weakness of mortal mind, — strength from the immortal and omnipotent Mind, — and lifting humanity above itself into purer desires, even into spiritual power and good-will to man.

4 . ۔ 80 :1۔3

سچائی سے متعلق ہماری سمجھ کے تناسب میں ہمارے اندر قوت ہے اور ہماری طاقت سچائی کو اظہار دینے سے کم نہیں ہوتی۔

4. 80 : 1-3

We have strength in proportion to our apprehension of the truth, and our strength is not lessened by giving utterance to truth.

5 . ۔ 485 :30۔3

یہ کہنا کہ طاقت مادے میں ہے، یہ کہنے کے برابر ہے کہ طاقت ڈنڈے میں ہے۔ مادے میں کسی قسم کی زندگی یا ذہانت کا تصور حقیقت میں بنیاد سے عاری ہے، اور جب آپ جھوٹ کی حقیقی فطرت سے آگاہ ہوجاتے ہیں تو آپ جھوٹ پر ایمان نہیں رکھ سکتے۔

5. 485 : 30-3

To say that strength is in matter, is like saying that the power is in the lever. The notion of any life or intelligence in matter is without foundation in fact, and you can have no faith in falsehood when you have learned falsehood's true nature.

6 . ۔ 198 :29۔14

چونکہ لوہار کے بازو کے پٹھے مضبوطی سے بنے ہوتے ہیں، تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ ورزش کرنے کا نتیجہ ہے یا کم استعمال ہونے والا بازو کمزور ہے۔اگر کام کا سبب مادہ ہوتا اور اگر پٹھا، فانی عقل کی مرضی کے بغیر، ہتھوڑا اٹھاسکتا اور آہرن پر مار سکتا، تو یہ حقیقت سمجھی جا سکتی تھی کہ ہتھوڑا چلانے سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ ٹرپ ہیمر کو مشق کے ذریعے سائز میں نہیں بڑھایا جاتا۔کیوں نہیں، جبکہ پٹھے بھی ایسے ہی مادی ہیں جیسے لکڑی یا لوہا ہے؟ کیونکہ کوئی بھی یہ نہیں مانتا کہ ہتھوڑے پر ایسا نتیجہ عقل کی وجہ سے ہوتا ہے۔

پٹھے خود بخود کام نہیں کرتے۔ اگر عقل انہیں حرکت میں نہیں لاتی، تو وہ بے حرکت ہی رہتے ہیں۔ لہٰذہ یہ بڑی حقیقت ہے کہ واحد عقل ہی اپنے اختیار سے، اِس کی طلب اور فراہمی کی قوت کے باعث،انسان کو بڑھاتی اور اْس کو طاقت فراہم کرتی ہے۔ پٹھوں کی مشق کی بدولت نہیں، بلکہ مشق پر لوہار کے یقین کی بدولت اْس کا بازو مضبوط ہوتا ہے۔

6. 198 : 29-14

Because the muscles of the blacksmith's arm are strongly developed, it does not follow that exercise has produced this result or that a less used arm must be weak. If matter were the cause of action, and if muscles, without volition of mortal mind, could lift the hammer and strike the anvil, it might be thought true that hammering would enlarge the muscles. The trip-hammer is not increased in size by exercise. Why not, since muscles are as material as wood and iron? Because nobody believes that mind is producing such a result on the hammer.

Muscles are not self-acting. If mind does not move them, they are motionless. Hence the great fact that Mind alone enlarges and empowers man through its mandate, — by reason of its demand for and supply of power. Not because of muscular exercise, but by reason of the blacksmith's faith in exercise, his arm becomes stronger.

7 . ۔ 217 :24۔8

تھکاوٹ کے لئے سائنسی اور مستقل علاج بدن اور کسی بھی جسمانی تھکاوٹ کے بھرم پر عقل کی طاقت کو سمجھنا ہے، پس اس بھرم کو نیست کریں، کیونکہ مادہ کبھی تھکا ہوا اور بوجھ سے دبا ہوا نہیں ہوتا۔

آپ کہتے ہیں کہ ”محنت مجھے تھکا دیتی ہے۔“ مگر یہ مجھے کیا ہے؟ کیا یہ پٹھا ہے یا عقل؟ کون سی چیز تھکتی ہے اور ایسا بولتی ہے؟ عقل کے بنا، کیا پٹھے تھک سکتے ہیں؟ کیا پٹھے بولتے ہیں، یا آپ اْن کے لئے بولتے ہیں؟ مادہ کم عقل ہے۔ فانی عقل جھوٹ بولتی ہے، اور وہ جو اِس تھکاوٹ کی تصدیق کرتا ہے وہی اِس تھکاوٹ کو بناتا ہے۔

آپ یہ نہیں کہتے کہ پہیہ تھک گیا ہے؛ تاہم بدن بھی پہئے کی طرح ہی موادہے۔اگر یہ وہ نہیں جو انسان بدن کے لئے کہتا ہے، تو بدن کسی بھی بے جان پہئے کی طرح، کبھی نہیں تھکے گا۔کئی گھنٹوں لاشعوری کے آرام سے زیادہ سچائی کا شعور ہمیں آرام دیتا ہے۔

7. 217 : 24-8

The scientific and permanent remedy for fatigue is to learn the power of Mind over the body or any illusion of physical weariness, and so destroy this illusion, for matter cannot be weary and heavy-laden.

You say, "Toil fatigues me." But what is this me? Is it muscle or mind? Which is tired and so speaks? Without mind, could the muscles be tired? Do the muscles talk, or do you talk for them? Matter is non-intelligent. Mortal mind does the false talking, and that which affirms weariness, made that weariness.

You do not say a wheel is fatigued; and yet the body is as material as the wheel. If it were not for what the human mind says of the body, the body, like the inanimate wheel, would never be weary. The consciousness of Truth rests us more than hours of repose in unconsciousness.

8 . ۔ 385 :1۔18

یہ ضرب المثل ہے کہ فلورنس نائٹ انگیل اور انسانی مزدوری میں شامل ہونے والے دیگر ایثار پسند لوگ اْن تھکاوٹوں اور انکشافات میں غرق ہونے کے بغیر اِسے پار کرنے کے قابل ہوئے جنہیں عام لوگ برداشت نہ کرپائے۔اِس کی وضاحت اْس مدد میں پوشیدہ ہے جو اْنہوں نے اْس الٰہی قانون سے حاصل کی جو انسان سے اونچاتھا۔روحانی مطالبہ، مادے کو دبانا، دیگر تمام امداد پر سبقت رکھتے ہوئے طاقت اور برداشت مہیا کرتا ہے اور اْس سزا سے بچاتا ہے جو ہمارے عقائد ہمارے بہترین کاموں کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔آئیے یاد رکھیں کہ درست ہونے کاابدی قانون، اگرچہ یہ گناہ کو خود اپنا جلاد بننے کے قانون کو کبھی منسوخ نہیں کرسکتا، انسان کوماسوائے غلط کاموں کے تمام تر سزاؤں سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔

مسلسل مشقت، محرومیاں، انکشافات اور تمام ناخوشگوار حالات، اگر گناہ کے بغیر ہیں، تو اْن کا تجربہ بغیر تکلیف کے ہوسکتا ہے۔جو بھی کام آپ پر فرض ہو، آپ وہ خود کو تکلیف دئیے بغیر سر انجام دے سکتے ہیں۔

8. 385 : 1-18

It is proverbial that Florence Nightingale and other philanthropists engaged in humane labors have been able to undergo without sinking fatigues and exposures which ordinary people could not endure. The explanation lies in the support which they derived from the divine law, rising above the human. The spiritual demand, quelling the material, supplies energy and endurance surpassing all other aids, and forestalls the penalty which our beliefs would attach to our best deeds. Let us remember that the eternal law of right, though it can never annul the law which makes sin its own executioner, exempts man from all penalties but those due for wrong-doing.

Constant toil, deprivations, exposures, and all untoward conditions, if without sin, can be experienced without suffering. Whatever it is your duty to do, you can do without harm to yourself.

9 . ۔ 384 :3۔12

ہمیں اپنے ذہنوں کو اِس مایوس کن خیال سے آزاد کرنا چاہئے کہ ہم نے ایک مادی قانون کو تجاوز کیا ہے اور لازماً اِس کا خمیازہ ادا کرنا ہوگا۔ آئیے محبت کے قانون سے خود کی حوصلہ افزائی کریں۔خدا کبھی انسان کو ٹھیک کام کرنے پر، ایمانداری کی مزدوری پر، یا رحمدلی کے کام کرنے پرسزا نہیں دیتا، اگرچہ یہ سب انسان کو تھکاوٹ، گرمی، سردی، متعدی بیماریوں میں مبتلا کردیتے ہیں۔اگر انسان مادے کے وسیلہ سزا وار ہونا دکھائی دیتا ہے، تو یہ فانی عقل کے عقیدے کے سوا کچھ نہیں، نہ کہ یہ کوئی عقلمندی کا کام ہے، اور اِسے منسوخ کرنے کے لئے انسان کو صرف اِس عقیدے کے خلاف احتجاج میں شامل ہونا ہوگا۔

9. 384 : 3-12

We should relieve our minds from the depressing thought that we have transgressed a material law and must of necessity pay the penalty. Let us reassure ourselves with the law of Love. God never punishes man for doing right, for honest labor, or for deeds of kindness, though they expose him to fatigue, cold, heat, contagion. If man seems to incur the penalty through matter, this is but a belief of mortal mind, not an enactment of wisdom, and man has only to enter his protest against this belief in order to annul it.

10 . ۔ 376 :13 (یہاں)۔16

۔۔۔ایک نیک مقصد اور کام میں زندگی اور لافانیت اْس خون کی نسبت کہیں زیادہ ہے جو فانی رگوں میں بہتا ہے اور زندگی کے جسمانی فہم کو پیدا کرتا ہے۔

10. 376 : 13 (there)-16

…there is more life and immortality in one good motive and act, than in all the blood which ever flowed through mortal veins and simulated a corporeal sense of life.

11 . ۔ 387 :8 (جب)12

۔۔۔ جب ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ فانی عقل ہمیشہ چوکس ہے، اور یہ روحانی توانائیاں گھِس نہیں سکتیں اور نہ ہی یہ نام نہاد مادی قانون خداداد قوتوں اور وسائل میں دخل اندازی کر سکتا ہے، ہم سچائی میں آرام کرنے کے قابل ہیں،فانیت کے خلاف لافانیت کی ضمانت سے تازہ دم ہوتے ہوئے۔

11. 387 : 8 (when)-12

…when we realize that immortal Mind is ever active, and that spiritual energies can neither wear out nor can so-called material law trespass upon God-given powers and resources, we are able to rest in Truth, refreshed by the assurances of immortality, opposed to mortality.

12 . ۔ 167 :6۔10

ہم الٰہی سائنس میں صرف تبھی زندگی حاصل کرتے ہیں جب ہم جسمانی فہم سے بلند زندگی گزارتے اور اْسے درست کرتے ہیں۔ نیکی یا بدی کے دعووں کے لئے ہمارا متناسب اعتراف ہماری وجودیت کی ہم آہنگی، ہماری صحت، ہماری عمر کی درازی، اور ہماری مسیحت کا تعین کرتا ہے۔

12. 167 : 6-10

We apprehend Life in divine Science only as we live above corporeal sense and correct it. Our proportionate admission of the claims of good or of evil determines the harmony of our existence, — our health, our longevity, and our Christianity.

13 . ۔ 392 :27۔32

جب وہ حالت موجود ہو جسے آپ بیماری کی حوصلہ افزائی کہتے ہیں، خواہ یہ ہوا، ورزش، موروثیت، چھوت کی بیماری یا حادثہ ہو، تو بطور قلی اپنا فرض نبھائیں اور ایسے غیر صحت افزا خیالات اور خدشات کو ختم کردیں۔ فانی عقل میں سے بیزار کن غلطیوں کو خارج کردیں، تو آپ کابدن اْن سے تکلیف نہیں اْٹھائے گا۔

13. 392 : 27-32

When the condition is present which you say induces disease, whether it be air, exercise, heredity, contagion, or accident, then perform your office as porter and shut out these unhealthy thoughts and fears. Exclude from mortal mind the offending errors; then the body cannot suffer from them. 

14 . ۔ 393 :8۔15

عقل جسمانی حواس کامالک ہے، اور بیماری، گناہ اور موت کو فتح کرسکتی ہے۔ اس خداداد اختیار کی مشق کریں۔ اپنے بدن کی ملکیت رکھیں، اور اِس کے احساس اور عمل پر حکمرانی کریں۔ روح کی قوت میں بیدار ہوں اور وہ سب جو بھلائی جیسا نہیں اْسے مسترد کر دیں۔ خدا نے انسان کو اس قابل بنایا ہے، اور کوئی بھی چیز اْس قابل اور قوت کو بگاڑ نہیں سکتی جو الٰہی طور پر انسان کو عطا کی گئی ہے۔

14. 393 : 8-15

Mind is the master of the corporeal senses, and can conquer sickness, sin, and death. Exercise this God-given authority. Take possession of your body, and govern its feeling and action. Rise in the strength of Spirit to resist all that is unlike good. God has made man capable of this, and nothing can vitiate the ability and power divinely bestowed on man.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████