اتوار 13 جولائی ، 2025



مضمون۔ ساکرامنٹ

SubjectSacrament

سنہری متن: یوحنا 14 باب31 آیت

لیکن یہ اِس لئے ہوتا ہے کہ دنیا جانے کہ مَیں باپ سے محبت رکھتا ہوں اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا مَیں ویسا ہی کرتا ہوں۔ - مسیح یسوع



Golden Text: John 14 : 31

But that the world may know that I love the Father; and as the Father gave me commandment, even so I do.”— Christ Jesus





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: متی 5باب 6، 8، 11، 12، 43تا46، 48 آیات


6۔ مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے۔

8۔ مبارک ہیں وہ جو پاکدل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔

11۔ جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کریں گے اور ستائیں گے اور ہر طرح کی بری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تم مبارک ہو گے۔

12۔ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے اِس لئے کہ لوگوں نے اْن نبیوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اِسی طرح ستایا تھا۔

43۔ تم سْن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دْشمن سے عداوت۔

44۔ لیکن مَیں تم سے کہتاہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اوراپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو۔

45۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔

46۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارا کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والا بھی ایسا نہیں کرتے؟

48۔ پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔

Responsive Reading: Matthew 5 : 6, 8, 11, 12, 43-46, 48

6.     Blessed are they which do hunger and thirst after righteousness: for they shall be filled.

8.     Blessed are the pure in heart: for they shall see God.

11.     Blessed are ye, when men shall revile you, and persecute you, and shall say all manner of evil against you falsely, for my sake.

12.     Rejoice, and be exceeding glad: for great is your reward in heaven: for so persecuted they the prophets which were before you.

43.     Ye have heard that it hath been said, Thou shalt love thy neighbour, and hate thine enemy.

44.     But I say unto you, Love your enemies, bless them that curse you, do good to them that hate you, and pray for them which despitefully use you, and persecute you;

45.     That ye may be the children of your Father which is in heaven: for he maketh his sun to rise on the evil and on the good, and sendeth rain on the just and on the unjust.

46.     For if ye love them which love you, what reward have ye? do not even the publicans the same?

48.     Be ye therefore perfect, even as your Father which is in heaven is perfect.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ متی 26 باب6تا8 (تا دوسری)، 10، 12، 13، 20تا29، 32، 36، 38تا40، 42، 43 (تا:)، 44، 45، 46 (دیکھو)، 47، 49، 50 آیات

6۔اور جب یسوع بیت عنیاہ میں شمعون کوڑھی کے گھر میں تھا۔

7۔تو ایک عورت سنگ مرمر کے عطردان میں قیمتی عطر لے کر اُس کے پاس آئی اور جب وہ کھانا کھانے بیٹھا تو اُس کے سر پر ڈالا۔

8۔ شاگرد یہ دیکھ کر خفا ہوئے۔

10۔ یسوع نے یہ جان کر اُن سے کہا کہ اِس عورت کو کیوں دِق کرتے ہو؟ اِس نے تو میرے ساتھ بھلائی کی ہے۔

12۔اور اِس نے جو یہ عطر میرے بدن پر ڈالا یہ میرے دفن کی تیاری کے واسطے کیا۔

13۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کے تمام دنیا میں جہاں کہیں اِس خوشخبری کی منادی کی جائے گی یہ بھی جو اِس نے کِیا اِس کی یادگاری میں کہا جائے گا۔

20۔ جب شام ہوئی تو وہ بارہ شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تھا۔

21۔ اور جب وہ کھا رہے تھے تو اُس نے کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک مجھے پکڑوائے گا۔

22۔ وہ بہت ہی دلگیر ہوئے اور ہر ایک اُس سے کہنے لگا اے خداوند کیا مَیں ہوں؟

23۔ اُس نے جواب میں کہا جس نے میرے ساتھ طباق میں ہاتھ ڈالا ہے وہی مجھے پکڑوائے گا۔

24۔ ابنِ آدم تو جیسا اُس کے حق میں لکھا ہے جاتا ہی ہے لیکن اُس آدمی پر افسوس جس کے وسیلہ سے ابنِ آدم پکڑوایا جاتا ہے! اگر وہ آدمی پیدا نہ ہوتا تو اُس کے لئے اچھا ہوتا۔

25۔ اُس کے پکڑوانے والے یہوداہ نے جواب میں کہا اے ربی کیا مَیں ہُوں؟ اُس نے اُس سے کہا تو نے خود کہہ دیا۔

26۔ جب وہ کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا لو کھاؤ۔ یہ میرا بدن ہے۔

27۔ پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور اُن کو دے کر کہا تم سب اِس میں سے پیو۔

28۔ کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کے لئے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے۔

29۔ مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ انگور کا یہ شیرہ پھر کبھی نہ پیوں گا۔ اُس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہی میں نیا نہ پیوں۔

32۔ لیکن میں اپنے جی اٹھنے کے بعد تم سے پہلے گلیل کو جاؤں گا۔

36۔اُس وقت یسوع اُن کے ساتھ گتسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا یہیں بیٹھے رہنا جب تک کہ مَیں وہاں جا کر دعا کروں۔

38۔ اُس وقت اُس نے اُن سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو۔

39۔پھر ذرا آگے بڑھا اور منہ کے بل گر کر یوں دعا کی کہ اے میرے باپ! اگر ہوسکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ تو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔

40۔ پھر شاگردوں کے پاس آ کر اُن کو سوتے پایا اور پطرس سے کہا کیا تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے؟

42۔ پھر دوبارہ اُس نے جا کر یوں دعا کی کہ اے میرے باپ! اگر یہ میرے پِئے بغیر نہیں ٹل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو۔

43۔ اور آ کر اُنہیں پھر سوتے پایا۔

44۔ اور اُن کو چھوڑ کر پھر چلا گیا اور پھر وہی بات کہہ کر تیسری بار دعا کی۔

45۔ تب شاگردوں کے پاس آ کر اُن سے کہا اب سوتے رہو اور آرام کرو۔ دیکھو وقت آ پہنچا اور ابنِ آدم گنہگاروں کے حوالہ کیا جاتا ہے۔

46۔۔۔۔دیکھو میرا پکڑوانے والا نزدیک آ پہنچا ہے۔

47۔ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ یہوداہ جو اُن بارہ میں سے ایک تھا آیا اور اُس کے ساتھ ایک بڑی بھیڑ تلواریں اور لاٹھیاں لئے سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں کی طرف سے آ پہنچی۔

49۔ اور فوراً اْس نے یسوع کے پاس آکر کہا اے ربی سلام! اور اْس کے بوسے لئے۔

50۔ یسوع نے اُس سے کہا میاں! جس کام کو آیا ہے وہ کرلے۔ اِس پر اُنہوں نے پاس آ کر یسوع پر ہاتھ ڈالا اور اُسے پکڑ لِیا۔

1. Matthew 26 : 6-8 (to 2nd ,), 10, 12, 13, 20-29, 32, 36, 38-40, 42, 43 (to :), 44, 45, 46 (behold), 47, 49, 50

6     Now when Jesus was in Bethany, in the house of Simon the leper,

7     There came unto him a woman having an alabaster box of very precious ointment, and poured it on his head, as he sat at meat.

8     But when his disciples saw it, they had indignation,

10     When Jesus understood it, he said unto them, Why trouble ye the woman? for she hath wrought a good work upon me.

12     For in that she hath poured this ointment on my body, she did it for my burial.

13     Verily I say unto you, Wheresoever this gospel shall be preached in the whole world, there shall also this, that this woman hath done, be told for a memorial of her.

20     Now when the even was come, he sat down with the twelve.

21     And as they did eat, he said, Verily I say unto you, that one of you shall betray me.

22     And they were exceeding sorrowful, and began every one of them to say unto him, Lord, is it I?

23     And he answered and said, He that dippeth his hand with me in the dish, the same shall betray me.

24     The Son of man goeth as it is written of him: but woe unto that man by whom the Son of man is betrayed! it had been good for that man if he had not been born.

25     Then Judas, which betrayed him, answered and said, Master, is it I? He said unto him, Thou hast said.

26     And as they were eating, Jesus took bread, and blessed it, and brake it, and gave it to the disciples, and said, Take, eat; this is my body.

27     And he took the cup, and gave thanks, and gave it to them, saying, Drink ye all of it;

28     For this is my blood of the new testament, which is shed for many for the remission of sins.

29     But I say unto you, I will not drink henceforth of this fruit of the vine, until that day when I drink it new with you in my Father’s kingdom.

32     But after I am risen again, I will go before you into Galilee.

36     Then cometh Jesus with them unto a place called Gethsemane, and saith unto the disciples, Sit ye here, while I go and pray yonder.

38     Then saith he unto them, My soul is exceeding sorrowful, even unto death: tarry ye here, and watch with me.

39     And he went a little further, and fell on his face, and prayed, saying, O my Father, if it be possible, let this cup pass from me: nevertheless not as I will, but as thou wilt.

40     And he cometh unto the disciples, and findeth them asleep, and saith unto Peter, What, could ye not watch with me one hour?

42     He went away again the second time, and prayed, saying, O my Father, if this cup may not pass away from me, except I drink it, thy will be done.

43     And he came and found them asleep again:

44     And he left them, and went away again, and prayed the third time, saying the same words.

45     Then cometh he to his disciples, and saith unto them, Sleep on now, and take your rest: behold, the hour is at hand, and the Son of man is betrayed into the hands of sinners.

46     …behold, he is at hand that doth betray me.

47     And while he yet spake, lo, Judas, one of the twelve, came, and with him a great multitude with swords and staves, from the chief priests and elders of the people.

49     And forthwith he came to Jesus, and said, Hail, master; and kissed him.

50     And Jesus said unto him, Friend, wherefore art thou come? Then came they, and laid hands on Jesus, and took him.

2 . ۔ یوحنا 19 باب 16(اور)، 17، 18 (تا)، 41 (تا،)، 42 (تا یسوع) آیات

16۔ پس وہ یسوع کو لے گئے۔

17۔ اور وہ اپنی صلیب آپ اٹھائے اْس جگہ تک باہر گیا جو کھوپڑی کی جگہ کہلاتی ہے۔ جس کا عبرانی میں ترجمہ گلگتا ہے۔

18۔ وہاں اْنہوں نے اْس کو مصلوب کیا۔

41۔ اور جس جگہ وہ مصلوب ہوا وہاں ایک باغ تھا اور اْس باغ میں ایک نئی قبر تھی۔

42۔ پس اْنہوں نے۔۔۔ یسوع کووہیں رکھ دیا۔

2. John 19 : 16 (And), 17, 18 (to ,), 41 (to ,), 42 (to Jesus)

16     And they took Jesus, and led him away.

17     And he bearing his cross went forth into a place called the place of a skull, which is called in the Hebrew Golgotha:

18     Where they crucified him,

41     Now in the place where he was crucified there was a garden; and in the garden a new sepulchre,

42     There laid they Jesus … .

3 . ۔ متی 28 باب1تا3، 5، 6 (تا پہلی)، 7 (تا پہلی)، 8، 9 (تا پہلی)، 10 آیات

1۔ اور سبت کے بعد ہفتہ کے پہلے دن پو پھٹتے وقت مریم مگدلینی اور دوسری مریم قبر کو دیکھنے آئیں۔

2۔ اور دیکھو ایک بڑا بھونچال آیا کیونکہ خداوند کا فرشتہ آسمان سے اترا اور پاس آ کر پتھر کو لڑھکا دیا اور اُس پر بیٹھ گیا۔

3۔ اُس کی صورت بجلی کی مانند تھی اور اُس کی پوشاک برف کی مانند سفید تھی۔

5۔ فرشتہ نے عورتوں سے کہا تم نہ ڈرو کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ تم یسوع کو ڈھونڈتی ہو جو مصلوب ہوا تھا۔

6۔ وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہنے کے مطابق جی اُٹھا ہے۔

7۔ اور جلد جا کر اُس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔

8۔ اور وہ خوف اور بڑی خوشی کے ساتھ قبر سے روانہ ہوکر اُس کے شاگردوں کو خبر دینے دوڑیں۔

9۔ اور دیکھو یسوع اُن سے ملا اور اُس نے کہا سلام!

10۔ اِس پر یسوع نے اُن سے کہا ڈرو نہیں۔ جاؤ میرے بھائیوں کوخبر دو تاکہ گلیل کو چلے جائیں۔ وہاں مجھے دیکھیں گے۔

3. Matthew 28 : 1-3, 5, 6 (to 1st .), 7 (to 1st ;), 8, 9 (to 1st .), 10

1     In the end of the sabbath, as it began to dawn toward the first day of the week, came Mary Magdalene and the other Mary to see the sepulchre.

2     And, behold, there was a great earthquake: for the angel of the Lord descended from heaven, and came and rolled back the stone from the door, and sat upon it.

3     His countenance was like lightning, and his raiment white as snow:

5     And the angel answered and said unto the women, Fear not ye: for I know that ye seek Jesus, which was crucified.

6     He is not here: for he is risen, as he said.

7     And go quickly, and tell his disciples that he is risen from the dead;

8     And they departed quickly from the sepulchre with fear and great joy; and did run to bring his disciples word.

9     And as they went to tell his disciples, behold, Jesus met them, saying, All hail.

10     Then said Jesus unto them, Be not afraid: go tell my brethren that they go into Galilee, and there shall they see me.

4 . ۔ یوحنا 21باب1، 4(جب)، 6، 7 (تا پہلی)، 8 (تا؛)، 9، 12تا14، 25 آیات

1۔ اِن باتوں کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تبریاس کی جھیل کے کنارے شاگردوں پر ظاہر کیا اور اِس طرح ظاہر کیا۔

4۔۔۔۔صبح ہوتے ہی یسوع کنارے پر آکھڑا ہوا مگر شاگردوں نے نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔

6۔ اُس نے اُن سے کہا کشتی کی دہنی طرف جال ڈالو تو پکڑوگے۔ پس اُنہوں نے ڈالا اور مَچھلیوں کی کثرت سے پھر کھینچ نہ سکے۔

7۔ اِس لئے اُس شاگرد نے جس سے یسوع محبت رکھتا تھا پطرس سے کہا کہ یہ تو خداوند ہے۔

8۔اور باقی شاگرد چھوٹی کشتی پر سوار ہوئے آئے۔

9۔جس وقت کنارے پر اترے تو اُنہوں نے کوئلوں کی آگ اور اُس پر مَچھلی رکھی ہوئی اور روٹی دیکھی۔

12۔ یسوع نے اُن سے کہا آؤ کھانا کھالو اور شاگرودں میں سے کسی کو جرات نہ ہوئی کہ اُس سے پوچھتا کہ تو کون ہے؟کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خداوند ہی ہے۔

13۔ یسوع آیا اور روٹی لے کر انہیں دی۔ اسی طرح مَچھلی بھی دی۔

14۔ یسوع مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد یہ تیسری بار شاگردوں پر ظاہر ہوا۔

25۔ اَور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے۔ اگر وہ جدا جدا لکھے جاتے تو مَیں سمجھتا ہوں جو کتابیں لکھی جاتیں اْن کے لئے دنیا میں گنجائش نہ ہوتی۔آمین

4. John 21 : 1, 4 (when), 6, 7 (to 1st .), 8 (to ;), 9, 12-14, 25

1     After these things Jesus shewed himself again to the disciples at the sea of Tiberias; and on this wise shewed he himself.

4     …when the morning was now come, Jesus stood on the shore: but the disciples knew not that it was Jesus.

6     And he said unto them, Cast the net on the right side of the ship, and ye shall find. They cast therefore, and now they were not able to draw it for the multitude of fishes.

7     Therefore that disciple whom Jesus loved saith unto Peter, It is the Lord.

8     And the other disciples came in a little ship;

9     As soon then as they were come to land, they saw a fire of coals there, and fish laid thereon, and bread.

12     Jesus saith unto them, Come and dine. And none of the disciples durst ask him, Who art thou? knowing that it was the Lord.

13     Jesus then cometh, and taketh bread, and giveth them, and fish likewise.

14     This is now the third time that Jesus shewed himself to his disciples, after that he was risen from the dead.

25     And there are also many other things which Jesus did, the which, if they should be written every one, I suppose that even the world itself could not contain the books that should be written. Amen.



سائنس اور صح


1 . ۔ 26: 21۔ 23

سچائی سے متعلق یسوع کی تعلیم اور اْس کی مشق میں ایک قربانی شامل ہوتی ہے جو ہمیں اِس کے اصول کو بطور محبت قبول کرنے کی جانب راغب کرتی ہے۔

1. 26 : 21-23

Jesus' teaching and practice of Truth involved such a sacrifice as makes us admit its Principle to be Love.

2 . ۔ 117: 16۔23

بطور ایک الٰہی طالبِ علم خود میں زندگی اور سچائی کو بیان کرتے اور ظاہر کرتے ہوئے اور بیمار اور گناہگار پر اپنی قوت کی بدولت اْس نے انسان پر خدا کو آشکار کیا۔انسانی نظریات اْس الٰہی اصول کی تشریح کرنے کے لئے ناقص ہیں جو یسوع کی طرف سے کئے گئے معجزات (عجائبات) میں اور خصوصاً جسم میں سے اْس کی بڑی، اعلیٰ، بے مثال اور کامیاب رخصتی میں شامل تھا۔

2. 117 : 16-23

As a divine student he unfolded God to man, illustrating and demonstrating Life and Truth in himself and by his power over the sick and sinning. Human theories are inadequate to interpret the divine Principle involved in the miracles (marvels) wrought by Jesus and especially in his mighty, crowning, unparalleled, and triumphant exit from the flesh.

3 . ۔ 314: 10۔12، 19۔22

اْن یہودی لوگوں نے، جو خدا کے اِس بندے کو قتل کرنے کی فراق میں تھے،واضح طور پر یہ دکھایا کہ اْن کے مادی خیالات اْن کے بدکار اعمال کے تابع تھے۔۔۔۔اِس مادیت پرستی نے حقیقی یسوع پر سے نظر ہٹا دی؛ مگر فرمانبردار مریم نے اْسے دیکھا، اور اْس نے اْس پر پہلے سے کہیں زیادہ مواد اور زندگی کے حقیقی خیال کو ظاہر کیا۔

3. 314 : 10-12, 19-22

The Jews, who sought to kill this man of God, showed plainly that their material views were the parents of their wicked deeds. … This materialism lost sight of the true Jesus; but the faithful Mary saw him, and he presented to her, more than ever before, the true idea of Life and substance.

4 . ۔ 47: 10 (یہوداہ)۔26

یہوادہ نے یسوع کے خلاف سازش رچی۔ اس راست شخص کی جانب دنیا کی ناشکری اور نفرت نے اْس کے دغا کو متاثر کیا۔ اْس غداری کی قیمت تیس چاندی کے سکے اور فریسیوں کی مسکراہٹیں تھی۔ اْس نے اپنا وہ وقت منتخب کیا، جب لوگ یسوع کی تعلیم سے متعلق شک میں مبتلا تھے۔

وہ وقت قریب آرہا تھا جو یہوداہ اور اْس کے مالک کے مابین لامحدود فاصلے کو ظاہر کرے گا۔یہوداہ اسخریوطی یہ جانتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اْس کے مالک کی بڑی اچھائی نے یسوع اور اْس کے غدار کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کر دی ہے، اور اِس روحانی دور نے یہوداہ کے حسد کو بھڑکایا۔سونے کے لالچ نے اْس کی ناشکری کو بڑھایا، اْس نے کچھ دیر کے لئے اْس کے پچھتاوے کو خاموش کر دیا۔وہ جانتا تھا کہ عموماً دنیا سچ سے زیادہ جھوٹ کو پسند کرتی ہے؛ اِس لئے اْس نے اپنے آپ کو مقبول طور پر اونچا کرنے کے لئے یسوع کو دھوکہ دینے کی سازش کی۔اْس کی سیاہ سازش ناکام ہوئی، اور غدار بھی اْس کے ساتھ ہی ناکام ہو گیا۔

4. 47 : 10 (Judas)-26

Judas conspired against Jesus. The world's ingratitude and hatred towards that just man effected his betrayal. The traitor's price was thirty pieces of silver and the smiles of the Pharisees. He chose his time, when the people were in doubt concerning Jesus' teachings.

A period was approaching which would reveal the infinite distance between Judas and his Master. Judas Iscariot knew this. He knew that the great goodness of that Master placed a gulf between Jesus and his betrayer, and this spiritual distance inflamed Judas' envy. The greed for gold strengthened his ingratitude, and for a time quieted his remorse. He knew that the world generally loves a lie better than Truth; and so he plotted the betrayal of Jesus in order to raise himself in popular estimation. His dark plot fell to the ground, and the traitor fell with it.

5 . ۔ 32 :3۔14

قدیم روم میں ایک سپاہی کے لئے اپنے جرنل کے ساتھ وفاداری کا عہد باندھناضروری ہوتا تھا۔اِس عہد کے لئے لاطینی لفظ ساکرامینٹم تھا، اور ہمارا انگریزی لفظ ساکرامنٹ اِسی سے اخذ کیا گیا ہے۔یہودیوں میں یہ قدیم روایت تھی کہ دعوت کا مالک ہر کسی کو مے کا پیالہ دیا کرتا تھا۔ مگر یوخرست کسی رومی سپاہی کے حلف کی یاد گاری نہیں تھا اور نہ ہی مے تھی، جو اجتماعی مواقعوں میں اور یہودی رسوم میں استعمال ہوتی تھی، یعنی ہمارے خداوند کا پیالہ تھی۔پیالہ اْس کے تلخ تجربے کو ظاہر کرتا ہے، یعنی وہ پیالہ جس کے لئے اْس نے دعا چاہی کہ وہ اْس سے ٹل جائے، حالانکہ وہ الٰہی فرمان کی پاک سپردگی میں جھک گیا تھا۔

5. 32 : 3-14

In ancient Rome a soldier was required to swear allegiance to his general. The Latin word for this oath was sacramentum, and our English word sacrament is derived from it. Among the Jews it was an ancient custom for the master of a feast to pass each guest a cup of wine. But the Eucharist does not commemorate a Roman soldier's oath, nor was the wine, used on convivial occasions and in Jewish rites, the cup of our Lord. The cup shows forth his bitter experience, — the cup which he prayed might pass from him, though he bowed in holy submission to the divine decree.

6 . ۔ 586: 23۔25

گتسمنی۔ مریض کی تکلیف؛ انسان کا الٰہی کو تسلیم کرنا؛ محبت کی ملاقات کا کوئی جواب نہیں، پھر بھی محبت کا قائم رہنا۔

6. 586 : 23-25

Gethsemane. Patient woe; the human yielding to the divine; love meeting no response, but still remaining love.

7 . ۔ 47: 31۔9

باغ میں تاریک اور جلال کی رات کے دوران، یسوع نے کسی ممکنہ مادی ذہانت پر یقین کی سراسر غلطی کو سمجھا۔بے توجہی کے درد اور متعصب جہالت کی لاٹھیاں اْس پر شدت سے پڑیں۔ اْس کے طالب علم سو گئے۔ اْس نے اْن سے کہا: ”کیا تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے؟“

کیا وہ اْس کے ساتھ رکھوالی نہ کر سکے جو، بے زبان اذیت میں انتظار اور جدوجہد کرتے ہوئے، بلاشکایت دنیا کی حفاظت کررہا تھا؟ یہاں انسانی تڑپ کے لئے کوئی جواب نہ تھا، ا سلئے یسوع زمین سے آسمان، فہم سے جان کی طرف ہمیشہ کے لئے مڑ گیا۔

7. 47 : 31-9

During his night of gloom and glory in the garden, Jesus realized the utter error of a belief in any possible material intelligence. The pangs of neglect and the staves of bigoted ignorance smote him sorely. His students slept. He said unto them: "Could ye not watch with me one hour?" Could they not watch with him who, waiting and struggling in voiceless agony, held uncomplaining guard over a world? There was no response to that human yearning, and so Jesus turned forever away from earth to heaven, from sense to Soul.

8 . ۔ 39: 1۔9

عاجزی کے ساتھ ہمارے مالک نے اپنی غیر تسلیم شدہ عظمت کا مذاق اڑایا۔جیسی ملامت اْس نے اْٹھائی، اْس کے پیروکار مسیحیت کی آخری فتح تک برداشت کریں گے۔اْس نے ابدی اجر حاصل کئے۔اْس نے دنیا، بدن اور ساری غلطی پر قابو پایا، یوں اْن کے عدم کو ثابت کیا۔وہ گناہ، بیماری اور موت سے مکمل نجات لایا۔ ہمیں ”مسیح، اور اْس کے مصلوب ہونے“ کی ضرورت ہے۔ہمیں مشکلات اور خود انکاریوں کے ساتھ ساتھ خوشیاں اور کامیابیاں حاصل کرنی چاہئیں، جب تک کہ ساری غلطی نیست نہیں ہو جاتی۔

8. 39 : 1-9

Meekly our Master met the mockery of his unrecognized grandeur. Such indignities as he received, his followers will endure until Christianity's last triumph. He won eternal honors. He overcame the world, the flesh, and all error, thus proving their nothingness. He wrought a full salvation from sin, sickness, and death. We need "Christ, and him crucified." We must have trials and self-denials, as well as joys and victories, until all error is destroyed.

9 . ۔ 32: 28۔10

وہ فسح جو یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ نیسان کے مہینے میں اپنے مصلوب ہونے سے قبل کھائی وہ ایک غمگین موقع تھا، ایک سوگوار کھانا جو دن کے آخر پر، پر نور چاندنی میں تھاجس کے ساتھ تیزی سے گہرے سایے ارد گرد پھیل رہے تھے؛ اور اس کھانے نے مادے کے لئے یسوع کی رسم پرستی یا منظوری کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔

اْس کے پیروکار، افسردہ اور خاموش، اپنے مالک کے ساتھ ہونے والی بے وفائی کی گھڑی پر غور کر رہے تھے، آسمانی من میں حصہ لیتے ہیں، جو ماضی کے بیابان میں ستائے ہوئے سچائی کے ماننے والوں نے کھایا تھا۔اْن کی خوراک واقعتاً آسمان سے اتری تھی۔بیماروں کو شفا دینے اور غلطی کو باہر نکالنے والی روحانی ہستی کی یہ بہت بڑی حقیقت تھی۔اْن کے مالک نے انہیں یہ پہلے ہی واضح کر دیا تھا، اور اب یہ روٹی انہیں خوراک دے رہی تھی اور انہیں قائم رکھ رہی تھی۔

9. 32 : 28-10

The Passover, which Jesus ate with his disciples in the month Nisan on the night before his crucifixion, was a mournful occasion, a sad supper taken at the close of day, in the twilight of a glorious career with shadows fast falling around; and this supper closed forever Jesus' ritualism or concessions to matter.

His followers, sorrowful and silent, anticipating the hour of their Master's betrayal, partook of the heavenly manna, which of old had fed in the wilderness the persecuted followers of Truth. Their bread indeed came down from heaven. It was the great truth of spiritual being, healing the sick and casting out error. Their Master had explained it all before, and now this bread was feeding and sustaining them.

10 . ۔ 33: 13۔26

روحانی ہستی کی اِس سچائی کے لئے، اْن کا مالک تشددسہنے کو تھا اور دْکھ کا یہ پیالہ آخری قطرے تک خشک ہونے کو تھا۔اْس نے انہیں چھوڑ دینا تھا۔اْس پر چھانے والی ابدی فتح کے بڑے جلال کے ساتھ، اْس نے شکر کیا اور کہا، ”تم سب اِس میں سے پیو۔“

جب اْس کے اندر انسانی عنصر الٰہی عنصر کے ساتھ کشمکش کر رہا تھا تو ہمارے عظیم استاد نے کہا: ”میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو!“، یعنی، مجھ میں بدن نہیں بلکہ روح ظاہر ہو۔ یہ روحانی محبت کی نئی سمجھ ہے۔ یہ سبھی کچھ مسیح یا سچائی کے لئے مہیا کرتا ہے۔ یہ دشمنوں کو برکت دیتا، بیماروں کو شفا دیتا، غلطیوں کو خارج کرتا، خطاؤں اور گناہوں میں مردہ لوگوں کو زندہ کرتا اور جو دل کے غریب اور فروتن ہیں اْن کو انجیل کی خوشخبری سناتا ہے۔

10. 33 : 13-26

For this truth of spiritual being, their Master was about to suffer violence and drain to the dregs his cup of sorrow. He must leave them. With the great glory of an everlasting victory overshadowing him, he gave thanks and said, "Drink ye all of it."

When the human element in him struggled with the divine, our great Teacher said: "Not my will, but Thine, be done!" — that is, Let not the flesh, but the Spirit, be represented in me. This is the new understanding of spiritual Love. It gives all for Christ, or Truth. It blesses its enemies, heals the sick, casts out error, raises the dead from trespasses and sins, and preaches the gospel to the poor, the meek in heart.

11 . ۔ 34: 18۔18 اگلا صفحہ

سبھی شاگردوں کے تجربات کے وسیلہ وہ مزید روحانی بنے اور اْسے بہتر طور پر سمجھے جو مالک نے انہیں سکھایا تھا۔ اْس کا جی اٹھنا اْن کا جی اٹھنا بھی تھا۔ اس نے اْن کی اور دیگر لوگوں کی روحانی بے حسی اور لامتناہی امکانات کے خیالات میں خدا پر اندھے توکل سے بیدار کیا۔ انہیں اس ارتکاز کی ضرورت تھی کیونکہ جلد ہی اْن کا مالک حقیقت کے روحانی دائرے میں دوبارہ جی اٹھنے، اور اْن کے تصور سے کہیں اونچا اٹھایا جانے والا ہوگا۔ اْس کی وفاداری کے اجر میں، وہ مادی حس کے لئے اِس تبدیلی میں غائب ہوجائے گا جسے معراج کہا جاتا رہا ہے۔

خداوند کے آخری کھانے اور گلیل کی جھیل کے ساحل پرایک تازہ صبح کے پہر میں خوشگوار ملاقات میں اپنے شاگردوں کے ساتھ اْس کے روحانی ناشتے میں کتنا فرق ہے۔ اْس کا دْکھ جلال میں بدل گیا تھا، اور اْس کے شاگرد پشیمانی میں رنجیدہ ہوئے، دل کی تنبیہ ہوئی اور تکبر کی ملامت ہوئی۔ تاریکی میں اپنی مشقت کی بے اثری کو سمجھتے ہوئے اور اپنے مالک کی آواز سے بیدار ہوتے ہوئے، انہوں نے اپنے اطوار کو تبدیل کیا، مادی چیزوں سے پھِرے اور اپنے جال درست سمت میں ڈالے۔ وقت کے دھارے میں مسیح یعنی سچائی کو جانتے ہوئے وہ کسی حد تک فانی حسی یا مادے میں عقل کی تدفین کو زندگی کی بطور روح جدت میں تبدیل کرنے کے قابل بنے۔

نئی روشنی کے طلوع ہونے پر ہمارے خداوند کے ساتھ یہ روحانی ملاقات صبح کا وہ ناشتہ ہے جسکی یاد مسیحی سائنسدان مناتے ہیں۔ دوبارہ اْس کی حضوری حاصل کرنے کے لئے اور خاموشی کے ساتھ الٰہی اصول، محبت کے ساتھ شراکت کرنے کے لئے وہ مسیح، سچائی کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ وہ اْن کے خداوند کی موت پر فتح، موت کے بعد اْس کی بدنی آزمائش، انسانی آزمائش کی اِس مثال، اورجب وہ مادی نظر سے اوجھل اوپر اٹھایا گیا تو مادے، یا جسم سے اوپر اْس کے روحانی اور آخری صعود کو مناتے ہیں۔

11. 34 : 18-18 next page

Through all the disciples experienced, they became more spiritual and understood better what the Master had taught. His resurrection was also their resurrection. It helped them to raise themselves and others from spiritual dulness and blind belief in God into the perception of infinite possibilities. They needed this quickening, for soon their dear Master would rise again in the spiritual realm of reality, and ascend far above their apprehension. As the reward for his faithfulness, he would disappear to material sense in that change which has since been called the ascension.

What a contrast between our Lord's last supper and his last spiritual breakfast with his disciples in the bright morning hours at the joyful meeting on the shore of the Galilean Sea! His gloom had passed into glory, and his disciples' grief into repentance, — hearts chastened and pride rebuked. Convinced of the fruitlessness of their toil in the dark and wakened by their Master's voice, they changed their methods, turned away from material things, and cast their net on the right side. Discerning Christ, Truth, anew on the shore of time, they were enabled to rise somewhat from mortal sensuousness, or the burial of mind in matter, into newness of life as Spirit.

This spiritual meeting with our Lord in the dawn of a new light is the morning meal which Christian Scientists commemorate. They bow before Christ, Truth, to receive more of his reappearing and silently to commune with the divine Principle, Love. They celebrate their Lord's victory over death, his probation in the flesh after death, its exemplification of human probation, and his spiritual and final ascension above matter, or the flesh, when he rose out of material sight.

12 . ۔ 35 :25۔29

ہمارا یوخرست ایک خدا کے ساتھ روحانی شراکت ہے۔ ہماری روٹی ”جو آسمان سے اترتی ہے،“ سچائی ہے۔ ہمارا پیالہ صلیب ہے۔ ہماری مے، یعنی وہ مے جو ہمارے مالک نے پی اور اپنے پیروکاروں کو بھی اِس کا حکم دیا، محبت کا الہام ہے۔

12. 35 : 25-29

Our Eucharist is spiritual communion with the one God. Our bread, "which cometh down from heaven," is Truth. Our cup is the cross. Our wine the inspiration of Love, the draught our Master drank and commended to his followers.

13 . ۔ 497: 24 (اور)۔27

اور ہم سنجیدگی سے اْس عقل کے لئے دعا کرتے اور خیال رکھتے ہیں کہ وہ ہم میں بھی ہو جو مسیح یسوع میں تھی؛ دوسروں کے ساتھ ویسا ہی کریں جیسا ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں؛ اور کہ ہم رحمدل، عادل اور پاک بنیں۔

13. 497 : 24 (And)-27

And we solemnly promise to watch, and pray for that Mind to be in us which was also in Christ Jesus; to do unto others as we would have them do unto us; and to be merciful, just, and pure.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔