اتوار 14 اپریل ، 2024
”اے انتہائے زمین کے سب رہنے والو تم میری طرف متوجہ ہو اور نجات پاؤ کیونکہ مَیں خدا ہوں اور میرے سوا کوئی نہیں۔“
“Look unto me, and be ye saved, all the ends of the earth: for I am God, and there is none else.”
1۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور جو کچھ مجھ میں ہے اْس کے قدوس نام کو مبارک کہے۔
2۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور اْس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر۔
3۔ وہ تیری ساری بدکاری بخشتا ہے۔ وہ تجھے تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔
4۔ وہ تیری جان ہلاکت سے بچاتا ہے۔ وہ تیرے سر پر شفقت و رحمت کا تاج رکھتا ہے۔
5۔ وہ تجھے عمر بھر اچھی اچھی چیزوں سے آسودہ کرتا ہے۔ تْو عْقاب کی مانند از سرِ نو جوان ہوتا ہے۔
10۔ اْس نے ہمارے گناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہمیں بدلہ نہیں دیا۔
11۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اْسی قدر اْس کی شفقت اْن پر ہے جو اْس سے ڈرتے ہیں۔
19۔ خداوند نے اپنا تخت آسمان پر قائم کیا ہے۔ اور اْس کی سلطنت سب پر مسلط ہے۔
1. Bless the Lord, O my soul: and all that is within me, bless his holy name.
2. Bless the Lord, O my soul, and forget not all his benefits:
3. Who forgiveth all thine iniquities; who healeth all thy diseases;
4. Who redeemeth thy life from destruction; who crowneth thee with lovingkindness and tender mercies;
5. Who satisfieth thy mouth with good things; so that thy youth is renewed like the eagle’s.
10. He hath not dealt with us after our sins; nor rewarded us according to our iniquities.
11. For as the heaven is high above the earth, so great is his mercy toward them that fear him.
19. The Lord hath prepared his throne in the heavens; and his kingdom ruleth over all.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
14۔ اے خداوند! تْو مجھے شفا بخش تو مَیں شفا پاؤں گا۔ تْو ہی بچائے تو بچوں گا کیونکہ تْو میرا فخر ہے۔
14 Heal me, O Lord, and I shall be healed; save me, and I shall be saved: for thou art my praise.
1۔ اور شاہ ارام کا لشکر کے سردار نعمان اپنے آقا کے نزدیک معزز و مکرم تھا کیونکہ خداوند نے اْس کے وسیلہ سے ارام کو فتح بخشی تھی وہ زبردست سورما بھی تھا لیکن کوڑھی تھا۔
2۔ اور ارامی دَل باندھ کر نکلے تھے اور اسرائیل کے ملک میں سے ایک چھوٹی لڑکی کو اسیر کر کے لے آئے تھے۔ وہ نعمان کی بیوی کی خدمت کرتی تھی۔
3۔ اْس نے اپنی بی بی سے کہا کاش میرا آقا اْس نبی کے ہاں ہوتا جو سامریہ میں ہے تو وہ اْسے اْس کے کوڑھ سے شفا دے دیتا۔
4۔ سو کسی نے اندر جا کر اپنے مالک سے کہا وہ چھوکری جو اسرائیل کے ملک کی ہے ایسا ایسا کہتی ہے۔
9۔ سو نعمان اپنے گھوڑوں اور رتھوں سمیت آیا اور الیشع کے دروازے پر کھڑا ہوا۔
10۔ اور الیشع نے ایک قاصد کی معرفت کہلا بھیجا کہ جا اور یردن میں سات بار غوطہ مار تو تیرا جسم پھر بحال ہو جائے گا اور تْو پاک صاف ہوگا۔
11۔ پر نعمان ناراض ہو کر چلا گیا اور کہنے لگا مجھے گْمان تھا کہ وہ نکل کر ضرور میرے پاس آئے گا اور کھڑا ہو کر خداوند اپنے خدا سے دعا کرے گا اور اْس جگہ کے اوپر اپنا ہاتھاادھر اْدھر ہلا کر کوڑھی کو شفا دے گا۔
12۔کیا دمشق کے دریا ابانہ اور فر فر اسرائیل کی سب ندیوں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ کیا مَیں اْن میں نہا کر پاک صاف نہیں ہو سکتا؟سو وہ مْڑا اور بڑے قہر میں چلا گیا۔
13۔ تب اْ س کے ملازم اْس کے پاس آکر یوں کہنے لگے اے ہمارے باپ اگر وہ نبی کوئی بڑا کام کرنے کا تجھے حکم دیتا تو کیا تْو اْسے نہ کرتا؟ پس جب وہ کہتا ہے کہ نہا لے اور پاک صاف ہو جا تو کتنا زیادہ اْسے ماننا چاہئے؟
14۔ تب اْس نے اتر کر مردِ خدا کے کہنے کے مطابق یردن میں سات غوطے مارے اور اْس کا جسم چھوٹے بچے کے جسم کی مانند ہوگیا اور وہ پاک صاف ہوگیا۔
15۔ پھر وہ اپنی جلو کے سب لوگوں کے ساتھ مردِ خدا کے پاس لوٹا اور اْس کے سامنے کھڑا ہوا اور کہنے لگا دیکھ اب مَیں نے جان لیا کہ اسرائیل کو چھوڑ اور کہیں روئے زمین پر کوئی خدا نہیں اِس لئے اب کرم فرما کر اپنے خادم کا ہدیہ قبول کر۔
1 Now Naaman, captain of the host of the king of Syria, was a great man with his master, and honourable, because by him the Lord had given deliverance unto Syria: he was also a mighty man in valour, but he was a leper.
2 And the Syrians had gone out by companies, and had brought away captive out of the land of Israel a little maid; and she waited on Naaman’s wife.
3 And she said unto her mistress, Would God my lord were with the prophet that is in Samaria! for he would recover him of his leprosy.
4 And one went in, and told his lord, saying, Thus and thus said the maid that is of the land of Israel.
9 So Naaman came with his horses and with his chariot, and stood at the door of the house of Elisha.
10 And Elisha sent a messenger unto him, saying, Go and wash in Jordan seven times, and thy flesh shall come again to thee, and thou shalt be clean.
11 But Naaman was wroth, and went away, and said, Behold, I thought, He will surely come out to me, and stand, and call on the name of the Lord his God, and strike his hand over the place, and recover the leper.
12 Are not Abana and Pharpar, rivers of Damascus, better than all the waters of Israel? may I not wash in them, and be clean? So he turned and went away in a rage.
13 And his servants came near, and spake unto him, and said, My father, if the prophet had bid thee do some great thing, wouldest thou not have done it? how much rather then, when he saith to thee, Wash, and be clean?
14 Then went he down, and dipped himself seven times in Jordan, according to the saying of the man of God: and his flesh came again like unto the flesh of a little child, and he was clean.
15 And he returned to the man of God, he and all his company, and came, and stood before him: and he said, Behold, now I know that there is no God in all the earth, but in Israel:
17۔ اْس وقت سے یسوع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔
24۔ اور اْس کی شہرت تمام سوریہ میں پھیل گئی اور لوگ سب بیماروں کو جو طرح طرح کی بیماریوں اور تکلیفوں میں گرفتار تھے اور اْن کو جن میں بد روحیں تھیں اور مرگی والوں اور مفلوجوں کو اْس کے پاس لائے اور اْس نے اْن کو اچھا کیا۔
17 Jesus began to preach, and to say, Repent: for the kingdom of heaven is at hand.
24 And his fame went throughout all Syria: and they brought unto him all sick people that were taken with divers diseases and torments, and those which were possessed with devils, and those which were lunatick, and those that had the palsy; and he healed them.
1۔ پھر وہ کشتی پر چڑھ کر پار گیااور اپنے شہر میں آیا۔
2۔ اور دیکھو لوگ ایک مفلوج کو چار پائی پر پڑا ہوا اْس کے پاس لائے۔ یسوع نے اْن کا ایمان دیکھ کر مفلوج سے کہا بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے۔
3۔ اور دیکھو بعض فقیہوں نے اپنے دل میں کہا یہ کفر بکتا ہے۔
4۔ یسوع نے اْن کے خیال معلوم کر کے کہا تم کیوں اپنے دلوں میں برا خیال لاتے ہو؟
5۔ آسان کیا ہے۔ یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہ اٹھ اور چل پھر؟
6۔ لیکن اِس لئے کہ تم جان لو کہ ابنِ آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ (اْس نے مفلوج سے کہا) اْٹھ اپنی چار پائی اْٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔
7۔ وہ اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔
8۔ لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا۔
1 And he entered into a ship, and passed over, and came into his own city.
2 And, behold, they brought to him a man sick of the palsy, lying on a bed: and Jesus seeing their faith said unto the sick of the palsy; Son, be of good cheer; thy sins be forgiven thee.
3 And, behold, certain of the scribes said within themselves, This man blasphemeth.
4 And Jesus knowing their thoughts said, Wherefore think ye evil in your hearts?
5 For whether is easier, to say, Thy sins be forgiven thee; or to say, Arise, and walk?
6 But that ye may know that the Son of man hath power on earth to forgive sins, (then saith he to the sick of the palsy,) Arise, take up thy bed, and go unto thine house.
7 And he arose, and departed to his house.
8 But when the multitudes saw it, they marvelled, and glorified God, which had given such power unto men.
11۔ تھوڑے عرصے کے بعد ایسا ہوا کہ وہ نائین نام کے ایک شہر کو گیا اور اْس کے شاگرد اور بہت سے لوگ اْس کے ہمراہ تھے۔
12۔ جب وہ شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھو ایک مردے کو باہر لئے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھااور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بہتیرے لوگ اْس کے ساتھ تھے۔
13۔ اْسے دیکھ کر خداوند کو ترس آیا اور اْس سے کہا مت رو۔
14۔ پھر اْس نے پاس آکر جنازے کو چھوا اور اٹھانے والے کھڑے ہوگئے اور اْس نے کہا اے جوان! مَیں تجھ سے کہتا ہوں اْٹھ۔
15۔ وہ مردہ اْٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اْس نے اْسے اْس کی ماں کو سونپ دیا۔
16۔ اور سب پر دہشت چھا گئی اور خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہوا ہے اور خدا نے اپنی امت پر توجہ کی ہے۔
11 And it came to pass the day after, that he went into a city called Nain; and many of his disciples went with him, and much people.
12 Now when he came nigh to the gate of the city, behold, there was a dead man carried out, the only son of his mother, and she was a widow: and much people of the city was with her.
13 And when the Lord saw her, he had compassion on her, and said unto her, Weep not.
14 And he came and touched the bier: and they that bare him stood still. And he said, Young man, I say unto thee, Arise.
15 And he that was dead sat up, and began to speak. And he delivered him to his mother.
16 And there came a fear on all: and they glorified God, saying, That a great prophet is risen up among us; and, That God hath visited his people.
1۔ یسوع مسیح کا مکاشفہ جو اْسے خدا کی طرف سے اس لئے ہوا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دکھائے جن کا جلد ہونا ضرور ہے اور اْس نے اپنے فرشتے کو بھیج کر اْس کی معرفت انہیں اپنے بندہ یوحنا پر ظاہر کیا۔
1 The Revelation of Jesus Christ, which God gave unto him, to shew unto his servants things which must shortly come to pass; and he sent and signified it by his angel unto his servant John:
1۔ پھر مَیں نے ایک نیا آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔
2۔ پھر مَیں نے شہرِ مقدس نئے یرشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اترتے دیکھا اور وہ اْس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کے لئے شنگھار کیا ہو۔
3۔ پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اْن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اْس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اْن کے ساتھ رہے گا اور اْن کا خدا ہوگا۔
4۔ اور وہ اْن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اور اْس کے بعد نہ موت رہے گی نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔
5۔ اور جو تخت پر بیٹھا ہوا تھا اْس نے کہا دیکھ مَیں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں۔ پھر اْس نے کہا لکھ لے کیونکہ یہ باتیں سچ اور بر حق ہیں۔
6۔ پھر اْس نے مجھ سے کہا یہ باتیں پوری ہوگئیں۔ مَیں الفا اور اومیگا یعنی ابتدا اور انتہا ہوں۔ مَیں پیاسے کو آبِ حیات کے چشمے سے مفت پلاؤں گا۔
1 And I saw a new heaven and a new earth: for the first heaven and the first earth were passed away; and there was no more sea.
2 And I John saw the holy city, new Jerusalem, coming down from God out of heaven, prepared as a bride adorned for her husband.
3 And I heard a great voice out of heaven saying, Behold, the tabernacle of God is with men, and he will dwell with them, and they shall be his people, and God himself shall be with them, and be their God.
4 And God shall wipe away all tears from their eyes; and there shall be no more death, neither sorrow, nor crying, neither shall there be any more pain: for the former things are passed away.
5 And he that sat upon the throne said, Behold, I make all things new. And he said unto me, Write: for these words are true and faithful.
6 And he said unto me, It is done. I am Alpha and Omega, the beginning and the end. I will give unto him that is athirst of the fountain of the water of life freely.
سچی روحانیت کے پْر سکون، مضبوط دھارے، جن کے اظہار صحت، پاکیزگی اور خود کار قربانی ہیں، اِنہیں اْس وقت انسانی تجربے کو گہرا کرنا چاہئے جب تک مادی وجودیت کے عقائد واضح مسلط ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور گناہ، بیماری اور موت روحانی الوہیت کے سائنسی اظہاراور خدا کے روحانی، کامل انسان کو جگہ فراہم نہیں کرتے۔
The calm, strong currents of true spirituality, the manifestations of which are health, purity, and self-immolation, must deepen human experience, until the beliefs of material existence are seen to be a bald imposition, and sin, disease, and death give everlasting place to the scientific demonstration of divine Spirit and to God's spiritual, perfect man.
تمام تندرستی، پاکیزگی اور لافانیت کی بنیاد اسی بڑی حقیقت میں ہے کہ خدا ہی واحد عقل ہے او ر اِس عقل پر محض ایمان نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اِسے سمجھا جانا چاہئے۔
The basis of all health, sinlessness, and immortality is the great fact that God is the only Mind; and this Mind must be not merely believed, but it must be understood.
صحت مادے کی حالت نہیں بلکہ عقل کی حالت ہے؛اور نہ ہی مادی حواس صحت کے موضوع پر قابل یقین گواہی پیش کر سکتے ہیں۔ شفائیہ عقل کی سائنس کسی کمزور کے لئے یہ ہونا ناممکن بیان کرتی ہے جبکہ عقل کے لئے اِس کی حقیقتاً تصدیق کرنا یا انسان کی اصلی حالت کو ظاہر کرنا ممکن پیش کرتی ہے۔اس لئے سائنس کا الٰہی اصول جسمانی حواس کی گواہی کو تبدیل کرتے ہوئے انسان کو بطور سچائی میں ہم آہنگی کے ساتھ موجود ہوتا ظاہر کرتا ہے، جو صحت کی واحد بنیاد ہے؛ اور یوں سائنس تمام بیماری سے انکار کرتی، بیمار کو شفا دیتی، جھوٹی گواہی کو برباد کرتی اور مادی منطق کی تردید کرتی ہے۔
Health is not a condition of matter, but of Mind; nor can the material senses bear reliable testimony on the subject of health. The Science of Mind-healing shows it to be impossible for aught but Mind to testify truly or to exhibit the real status of man. Therefore the divine Principle of Science, reversing the testimony of the physical senses, reveals man as harmoniously existent in Truth, which is the only basis of health; and thus Science denies all disease, heals the sick, overthrows false evidence, and refutes materialistic logic.
فریب نظری، گناہ، بیماری اور موت مادی فہم کی جھوٹی گواہی سے جنم لیتے ہیں، جو لا محدود روح کے مرکزی فاصلے سے باہر ایک فرضی نظریے سے، عقل اور اصل کی پلٹی ہوئی تصویر پیش کرتی ہے، جس میں ہر چیز اوپر سے نیچے اْلٹ ہوئی ہوتی ہے۔
Delusion, sin, disease, and death arise from the false testimony of material sense, which, from a supposed standpoint outside the focal distance of infinite Spirit, presents an inverted image of Mind and substance with everything turned upside down.
تمام حقیقت خدا اور اْس کی مخلوق میں ہم آہنگ اور ابدی ہے۔ جو کچھ وہ بناتا ہے اچھا ہے اور جو کچھ بنا ہے اْسی نے بنایا ہے۔ اسی لئے گناہ، بیماری یا موت کی واحد سچائی یہ ہولناک حقیقت ہے کہ غیر واقعیات، غلط عقائد کے ساتھ، انسان کو حقیقی لگتے ہیں، جب تک کہ خدا اْن کا پردہ فاش نہ کردے۔ وہ حقیقی نہیں ہیں کیونکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہیں۔کرسچن سائنس میں ہم سیکھتے ہیں مادی سوچ یا جسم کی تمام خارج از آہنگی فریب نظری ہے جو اگرچہ حقیقی اور یکساں دکھائی دیتی ہے لیکن وہ نہ حقیقت کی نہ ہی یکسانیت کی ملکیت رکھتی ہے۔
عقل کی سائنس ساری بدی سے عاری ہوتی ہے۔ سچائی، خدا غلطی کا باپ نہیں ہے۔گناہ، بیماری اور موت کی بطور غلطی کے اثرات درجہ بندی کی جانی چاہئے۔ مسیح گناہ کے عقیدے کو نیست کرنے آیا۔ الٰہی اصول ہر جا موجود اور قادرِمطلق ہے۔خدا ہر جگہ موجود ہے اور اْس سے جْدا کوئی موجود نہیں ہے یا کوئی طاقت نہیں ہے۔ مسیح ایک مثالی سچائی ہے، جو کرسچن سائنس کے وسیلہ بیماری اور گناہ سے شفا دینے کو آتی ہے، اور ساری طاقت خدا کو منسوب کرتی ہے۔یسوع مسیح اْس شخص کا نام ہے جس نے بیماراور گناہگار کو شفا دینے سے اور موت کی طاقت کو تباہ کرنے سے مسیح کو دوسرے آدمیوں کی نسبت زیادہ پیش کیا۔
All reality is in God and His creation, harmonious and eternal. That which He creates is good, and He makes all that is made. Therefore the only reality of sin, sickness, or death is the awful fact that unrealities seem real to human, erring belief, until God strips off their disguise. They are not true, because they are not of God. We learn in Christian Science that all inharmony of mortal mind or body is illusion, possessing neither reality nor identity though seeming to be real and identical.
The Science of Mind disposes of all evil. Truth, God, is not the father of error. Sin, sickness, and death are to be classified as effects of error. Christ came to destroy the belief of sin. The God-principle is omnipresent and omnipotent. God is everywhere, and nothing apart from Him is present or has power. Christ is the ideal Truth, that comes to heal sickness and sin through Christian Science, and attributes all power to God. Jesus is the name of the man who, more than all other men, has presented Christ, the true idea of God, healing the sick and the sinning and destroying the power of death.
کلیسیائی جبر کے دور میں، یسوع نے، مسیحت کی سچائی اور محبت کے ثبوت کی استطاعت رکھتے ہوئے، مسیحت کی تعلیم اور مشق متعارف کروائی؛ مگر اْس کے نمونے تک پہنچنے کے لئے اور اْس کے اصول کے مطابق غلطی سے مبرا سائنس کو آزمانے کے لئے، بیماری، گناہ اور موت سے شفا دیتے ہوئے، انسانی یسوع یا اْس کی شخصیت کی بجائے خدا کو بطور الٰہی اصول اور محبت بہتر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اپنے کاموں کو اپنے الفاظ کی نسبت زیادہ ترجیح دیتے ہوئے یسوع نے جو کہا اْسے اظہار کی بدولت پورا کیا۔جو اْس نے سکھایا اْسے ثابت کیا۔ یہی مسیحت کی سائنس ہے۔ یسوع نے اْس اصول کو، جو بیمار کو شفا دیتا اور غلطی کو باہر نکالتا ہے، الٰہی ثابت کیا۔
In an age of ecclesiastical despotism, Jesus introduced the teaching and practice of Christianity, affording the proof of Christianity's truth and love; but to reach his example and to test its unerring Science according to his rule, healing sickness, sin, and death, a better understanding of God as divine Principle, Love, rather than personality or the man Jesus, is required.
Jesus established what he said by demonstration, thus making his acts of higher importance than his words. He proved what he taught. This is the Science of Christianity. Jesus proved the Principle, which heals the sick and casts out error, to be divine.
بیماری کا خوف اور گناہ سے پیار انسان کی غلامی کے ذرائع ہیں۔
The fear of disease and the love of sin are the sources of man's enslavement.
اگر آپ یہ سمجھ جائیں کہ یہ فانی وجود خود کار فریب ہے اور حقیقی نہیں ہے تو آپ صورت حال پر قابو پا لیتے ہیں۔فانی فہم متواتر طور پر فانی جسم کے لئے غلط آراء کے نتائج کو جنم دیتا ہے؛ اور یہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک حق فانی غلطی کو اس کی فرضی توانائیوں سے برطرف نہیں کرتا، جو فانی فریب کے ہلکے سے جالے کو صاف کر دیتا ہے۔
You command the situation if you understand that mortal existence is a state of self-deception and not the truth of being. Mortal mind is constantly producing on mortal body the results of false opinions; and it will continue to do so, until mortal error is deprived of its imaginary powers by Truth, which sweeps away the gossamer web of mortal illusion.
اگر بیماری حقیقی ہے تو یہ لافانیت سے تعلق رکھتی ہے؛ اگر سچی ہے تو یہ سچائی کا حصہ ہے۔ منشیات کے ساتھ یا بغیر کیاآپ سچائی کی حالت یا خصوصیت کو تباہ کریں گے؟ لیکن اگر گناہ اور بیماری بھرم ہیں، اس فانی خواب یا بھرم سے بیدار ہونا ہمیں صحتمندی، پاکیزگی اور لافانیت مہیا کرتا ہے۔یہ بیداری مسیح کی ہمیشہ آمد ہے، سچائی کا پیشگی ظہور، جو غلطی کو باہر نکالتا اور بیمار کو شفا دیتا ہے۔ یہ وہ نجات ہے جو خدا، الٰہی اصول،اْس محبت کے وسیلہ ملتی ہے جسے یسوع نے ظاہر کیا۔
If sickness is real, it belongs to immortality; if true, it is a part of Truth. Would you attempt with drugs, or without, to destroy a quality or condition of Truth? But if sickness and sin are illusions, the awakening from this mortal dream, or illusion, will bring us into health, holiness, and immortality. This awakening is the forever coming of Christ, the advanced appearing of Truth, which casts out error and heals the sick. This is the salvation which comes through God, the divine Principle, Love, as demonstrated by Jesus.
کرسچن سائنس اور الٰہی محبت کی طاقت قادر مطلق ہے۔ در حقیقت گرفت کو ڈھیلا کرنا اور بیماری، موت اور گناہ کو نیست کرنا جائزہے۔
بیماری سے بچنے یا اِس کا علاج کرنے کے لئے، الٰہی روح کی، سچائی کی طاقت کو مادی حواس کے خواب کو چکنا چور کرنا ہوگا۔
ذہنی طور پر زور دیں کہ ہم آہنگی حقیقت ہے، اور کہ بیماری عارضی خواب ہے۔صحت مندی اور ہستی کی ہم آہنگی کی موجودگی کو سمجھیں، جب تک کہ جسم صحت اور ہم آہنگی کی عمومی حالتوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
The power of Christian Science and divine Love is omnipotent. It is indeed adequate to unclasp the hold and to destroy disease, sin, and death.
To prevent disease or to cure it, the power of Truth, of divine Spirit, must break the dream of the material senses.
Mentally insist that harmony is the fact, and that sickness is a temporal dream. Realize the presence of health and the fact of harmonious being, until the body corresponds with the normal conditions of health and harmony.
زندگی حقیقی ہے، اور موت بھرم ہے۔۔۔۔اس مقتدر لمحے میں انسان کی ترجیح اپنے مالک کے ان الفاظ کو ثابت کرنا ہے: ”اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔“ جھوٹے بھروسوں اور مادی ثبوتوں کے خیالات کو ختم کرنے کے لئے، تاکہ شخصی روحانی حقائق سامنے آئیں، یہ ایک بہت بڑا حصول ہے جس کی بدولت ہم غلط کو تلف کریں گے اور سچائی کو جگہ فراہم کریں گے۔ یوں ہم سچائی کی وہ ہیکل یا بدن تعمیر کرتے ہیں، ”جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے“۔
Life is real, and death is the illusion. ... Man's privilege at this supreme moment is to prove the words of our Master: "If a man keep my saying, he shall never see death." To divest thought of false trusts and material evidences in order that the spiritual facts of being may appear, — this is the great attainment by means of which we shall sweep away the false and give place to the true. Thus we may establish in truth the temple, or body, "whose builder and maker is God."
جب بیماری یا گناہ کا بھرم آپ کو آزماتا ہے تو خدا اور اْس کے خیال کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ منسلک رہیں۔ اْس کے مزاج کے علاوہ کسی چیز کو آپ کے خیال میں قائم ہونے کی اجازت نہ دیں۔ کسی خوف یا شک کو آپ کے اس واضح اورمطمین بھروسے پر حاوی نہ ہونے دیں کہ پہچانِ زندگی کی ہم آہنگی، جیسے کہ زندگی ازل سے ہے، اس چیز کے کسی بھی درد ناک احساس یا یقین کو تبا ہ کر سکتی ہے جو زندگی میں ہے ہی نہیں۔جسمانی حس کی بجائے کرسچن سائنس کو ہستی سے متعلق آپ کی سمجھ کی حمایت کرنے دیں، اور یہ سمجھ غلطی کو سچائی کے ساتھ اکھاڑ پھینکے گی، فانیت کوغیر فانیت کے ساتھ تبدیل کرے گی، اور خاموشی کی ہم آہنگی کے ساتھ مخالفت کرے گی۔
When the illusion of sickness or sin tempts you, cling steadfastly to God and His idea. Allow nothing but His likeness to abide in your thought. Let neither fear nor doubt overshadow your clear sense and calm trust, that the recognition of life harmonious — as Life eternally is — can destroy any painful sense of, or belief in, that which Life is not. Let Christian Science, instead of corporeal sense, support your understanding of being, and this understanding will supplant error with Truth, replace mortality with immortality, and silence discord with harmony.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔