اتوار 14 جنوری، 2024



مضمون۔ ساکرامنٹ

SubjectSacrament

سنہری متن: 1 سیموئیل 16 باب7 آیت

”کیونکہ خداوند انسان کی مانند نظر نہیں کرتا کہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر خداوند دل پر نظر کرتا ہے۔“



Golden Text: I Samuel 16 : 7

For the Lord seeth not as man seeth; for man looketh on the outward appearance, but the Lord looketh on the heart.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: زبور 51:6، 7، 10، 15تا17 آیات • زبور 19: 14 آیت


6۔ دیکھ تْو باطن کی سچائی پسند کرتا ہے۔ اور باطن میں مجھے ہی دانائی سکھائے گا۔

7۔ زْوفے سے مجھے صاف کر تو مَیں ہوں گا۔ مجھے دھو اور میں برف سے زیادہ سفید ہوں گا۔

10۔ اے خدا میرے اندر پاک دل پیدا کراور میرے باطن میں از سرے نو مستقیم روح ڈال۔

15۔ اے خداوند میرے ہونٹوں کو کھول دے تو میری منہ سے تیری ستائش نکلے گی۔

16۔ کیونکہ قربانی میں تیری خوشنودی نہیں ورنہ میں دیتا۔سوختنی قربانی سے تجھے کچھ خوشی نہیں۔

17۔ شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔اے خدا تْو شکستہ اور خستہ دل حقیر نہ جانے گا۔

14۔ میرے منہ کا کلام اور میرے دل کا خیال تیرے حضور مقبول ٹھہرے۔ اے خداوند! اے میرے چٹان اور میرے فدیہ دینے والے۔

Responsive Reading: Psalm 51 : 6, 7, 10, 15-17   •   Psalm 19 : 14

6.     Behold, thou desirest truth in the inward parts: and in the hidden part thou shalt make me to know wisdom.

7.     Purge me with hyssop, and I shall be clean: wash me, and I shall be whiter than snow.

10.     Create in me a clean heart, O God; and renew a right spirit within me.

15.     O Lord, open thou my lips; and my mouth shall shew forth thy praise.

16.     For thou desirest not sacrifice; else would I give it: thou delightest not in burnt offering.

17.     The sacrifices of God are a broken spirit: a broken and a contrite heart, O God, thou wilt not despise.

14.     Let the words of my mouth, and the meditation of my heart, be acceptable in thy sight, O Lord, my strength, and my redeemer.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ استثنا 10 باب12، 13 آیات

12۔ پس اے اسرائیل خداوند تیرا خدا تجھ سے اِس کے سوا کیا چاہتا ہے کہ تْو خداوند اپنے خدا کا خوف مانے اور اْس کی سب راہوں پر چلے اور اْس سے محبت رکھے اور اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے خداوند اپنے خدا کی بندگی کرے۔

13۔ اور خداوند کے جو احکام اور آئین مَیں تجھ کو آج بتاتا ہوں اْن پر عمل کرے تاکہ تیری خیر ہو؟

1. Deuteronomy 10 : 12, 13

12     And now, Israel, what doth the Lord thy God require of thee, but to fear the Lord thy God, to walk in all his ways, and to love him, and to serve the Lord thy God with all thy heart and with all thy soul,

13     To keep the commandments of the Lord, and his statutes, which I command thee this day for thy good?

2 . ۔ زبور 86:11، 12 آیات

11۔ اے خداوند! مجھ کو اپنی راہ کی تعلیم دے۔ مَیں تیری راستی میں چلوں گا۔ میرے دل کو یکسوئی بخش تاکہ تیرے نام کا خوف مانوں۔

12۔ یا رب! میرے خدا! مَیں پورے دل سے تیری تعریف کروں گا۔ مَیں ابد تک تیرے نام کی تمجید کروں گا۔

2. Psalm 86 : 11, 12

11     Teach me thy way, O Lord; I will walk in thy truth: unite my heart to fear thy name.

12     I will praise thee, O Lord my God, with all my heart: and I will glorify thy name for evermore.

3 . ۔ استثنا 30 باب6 آیت

6۔ اور خداوند تیرا خدا تیرے اور تیری اولاد کے دل کا ختنہ کرے گا تاکہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے محبت رکھے اور جیتا رہے۔

3. Deuteronomy 30 : 6

6     And the Lord thy God will circumcise thine heart, and the heart of thy seed, to love the Lord thy God with all thine heart, and with all thy soul, that thou mayest live.

4 . ۔ یرمیاہ 29 باب11تا14 (تا:)آیات

11۔ کیونکہ میں تمہارے حق میں اپنے خیالات کو جانتا ہوں خداوند فرماتا ہے یعنی سلامتی کے خیالات۔ برائی کے نہیں تاکہ میں تم کو نیک انجام کی امید بخشوں۔

12۔ تب تم میرا نام لو گے اور مجھ سے دعا کرو گے اور میں تمہاری سنوں گا۔

13۔ اور تم مجھے ڈھونڈو گے اور پاؤ گے۔جب پورے دل سے میرے طالب ہوگے۔

14۔ اور مَیں تم کو مل جاؤں گا خداوند فرماتا ہے اور مَیں تمہاری اسیری کو موقوف کراؤں گا۔

4. Jeremiah 29 : 11-14 (to :)

11     For I know the thoughts that I think toward you, saith the Lord, thoughts of peace, and not of evil, to give you an expected end.

12     Then shall ye call upon me, and ye shall go and pray unto me, and I will hearken unto you.

13     And ye shall seek me, and find me, when ye shall search for me with all your heart.

14     And I will be found of you, saith the Lord:

5 . ۔ متی 4 باب17 آیت

17۔ اْس وقت سے یسوع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔

5. Matthew 4 : 17

17     From that time Jesus began to preach, and to say, Repent: for the kingdom of heaven is at hand.

6 . ۔ متی 5 باب1، 2، 8، 16تا20 آیات

1۔ وہ اِس بھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ گیا تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آئے۔

2۔ اور وہ اپنی زبان کھول کر اْن کو یوں تعلیم دینے لگا۔

8۔ مبارک ہیں وہ جو پاکدل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔

16۔ تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔

17۔ یہ نہ سمجھو کہ مَیں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔

18۔ کیونکہ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔

19۔ پس جو کوئی اِن چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو اْن پر عمل کرے گا اور اْن کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا۔

20۔ کیونکہ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں سے زیادہ نہ ہوگی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہ ہوگے۔

6. Matthew 5 : 1, 2, 8, 16-20

1     And seeing the multitudes, he went up into a mountain: and when he was set, his disciples came unto him:

2     And he opened his mouth, and taught them, saying,

8     Blessed are the pure in heart: for they shall see God.

16     Let your light so shine before men, that they may see your good works, and glorify your Father which is in heaven.

17     Think not that I am come to destroy the law, or the prophets: I am not come to destroy, but to fulfil.

18     For verily I say unto you, Till heaven and earth pass, one jot or one tittle shall in no wise pass from the law, till all be fulfilled.

19     Whosoever therefore shall break one of these least commandments, and shall teach men so, he shall be called the least in the kingdom of heaven: but whosoever shall do and teach them, the same shall be called great in the kingdom of heaven.

20     For I say unto you, That except your righteousness shall exceed the righteousness of the scribes and Pharisees, ye shall in no case enter into the kingdom of heaven.

7 . ۔ متی 19 باب16تا30 آیات

16۔ اور دیکھو ایک شخص نے پاس آکر اْس سے کہا کہ اے استاد مَیں کون سی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟

17۔ اْس نے اْس سے کہا کہ تْو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے؟ نیک تو ایک ہی ہے لیکن اگر تْو زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو حکموں پر عمل کر۔

18۔ اْس نے اْس سے کہا کون سے حکموں پر؟ یسوع نے کہا یہ کہ خون نہ کر۔ زنا نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھوٹی گواہی نہ دے۔

19۔ اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔

20۔ اْس جوان نے اْس سے کہا کہ مَیں نے اِن سب پر عمل کیا ہے۔ اب مجھ میں کس بات کی کمی ہے؟

21۔ یسوع نے اْس سے کہا اگر تْو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے۔ تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آکر میرے پیچھے ہو لے۔

22۔ مگر وہ جوان یہ بات سن کر غمگین ہو کر چلا گیا کیونکہ بڑا مالدار تھا۔

23۔اور یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولتمند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونا مشکل ہے۔

24۔ اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اِس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔

25۔ شاگرد یہ سن کر بہت ہی حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ پھر کون نجات پا سکتا ہے؟

26۔ یسوع نے اْن کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ آدمیوں سے تونہیں ہوسکتا لیکن خدا سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔

27۔ اِس پر پطرس نے جواب میں اْس سے کہا دیکھ ہم تو سب کچھ چھوڑ کر تیرے پیچھے ہو لئے ہیں۔ پس ہم کو کیا ملے گا؟

28۔ یسوع نے اْن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب ابنِ آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تم بھی جو میرے پیچھے ہو لئے ہو بارہ تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔

29۔ اور جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اْس کو سو گنا ملے گا اور وہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا۔

30۔ لیکن بہت سے اول آخر ہو جائیں گے اور آخر اول۔

7. Matthew 19 : 16-30

16     And, behold, one came and said unto him, Good Master, what good thing shall I do, that I may have eternal life?

17     And he said unto him, Why callest thou me good? there is none good but one, that is, God: but if thou wilt enter into life, keep the commandments.

18     He saith unto him, Which? Jesus said, Thou shalt do no murder, Thou shalt not commit adultery, Thou shalt not steal, Thou shalt not bear false witness,

19     Honour thy father and thy mother: and, Thou shalt love thy neighbour as thyself.

20     The young man saith unto him, All these things have I kept from my youth up: what lack I yet?

21     Jesus said unto him, If thou wilt be perfect, go and sell that thou hast, and give to the poor, and thou shalt have treasure in heaven: and come and follow me.

22     But when the young man heard that saying, he went away sorrowful: for he had great possessions.

23     Then said Jesus unto his disciples, Verily I say unto you, That a rich man shall hardly enter into the kingdom of heaven.

24     And again I say unto you, It is easier for a camel to go through the eye of a needle, than for a rich man to enter into the kingdom of God.

25     When his disciples heard it, they were exceedingly amazed, saying, Who then can be saved?

26     But Jesus beheld them, and said unto them, With men this is impossible; but with God all things are possible.

27     Then answered Peter and said unto him, Behold, we have forsaken all, and followed thee; what shall we have therefore?

28     And Jesus said unto them, Verily I say unto you, That ye which have followed me, in the regeneration when the Son of man shall sit in the throne of his glory, ye also shall sit upon twelve thrones, judging the twelve tribes of Israel.

29     And every one that hath forsaken houses, or brethren, or sisters, or father, or mother, or wife, or children, or lands, for my name’s sake, shall receive an hundredfold, and shall inherit everlasting life.

30     But many that are first shall be last; and the last shall be first.

8 . ۔ متی 26 باب17تا20، 26، 27، 29 آیات

17۔ اور عیدِ فطیر کے پہلے دن شاگردوں نے یسوع کے پاس آکر کہا تْو کہاں چاہتا ہے کہ ہم تیرے لئے فسح کھانے کی تیاری کریں؟

18۔ اْس نے کہا شہر میں فلاں شخص کے پاس جا کر کہنا اْستاد فرماتا ہے کہ میرا وقت نزدیک ہے۔ میں اپنے شاگردوں کے ساتھ تیرے ہاں عید فسح کروں گا۔

19۔ اور جیسا یسوع نے شاگردوں کو حکم دیا تھا اْنہوں نے ویسا ہی کیا اور فسح تیار کیا۔

20۔ جب شام ہوئی تو وہ بارہ شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تھا۔

26جب وہ کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا لو کھاؤ۔ یہ میرا بدن ہے۔

27۔ پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور اْن سے کہا تم سب اِس میں سے پیو۔

29۔ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کا یہ شیرہ پھر کبھی نہ پیوں گا۔ اْس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہت میں نیا نہ پیوں۔

8. Matthew 26 : 17-20, 26, 27, 29

17     Now the first day of the feast of unleavened bread the disciples came to Jesus, saying unto him, Where wilt thou that we prepare for thee to eat the passover?

18     And he said, Go into the city to such a man, and say unto him, The Master saith, My time is at hand; I will keep the passover at thy house with my disciples.

19     And the disciples did as Jesus had appointed them; and they made ready the passover.

20     Now when the even was come, he sat down with the twelve.

26     And as they were eating, Jesus took bread, and blessed it, and brake it, and gave it to the disciples, and said, Take, eat; this is my body.

27     And he took the cup, and gave thanks, and gave it to them, saying, Drink ye all of it;

29     But I say unto you, I will not drink henceforth of this fruit of the vine, until that day when I drink it new with you in my Father’s kingdom.

9 . ۔ رومیوں 16 باب24 آیت

24۔ ہمارے خداوند یسوع مسیح کا فضل تم سب کے ساتھ ہو۔آمین۔

9. Romans 16 : 24

24     The grace of our Lord Jesus Christ be with you all. Amen.



سائنس اور صح


1 . ۔ 18: 3۔12

یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔ اْس کا مشن انفرادی اور اجتماعی دونوں تھا۔ اْس نے زندگی کا مناسب کام سر انجام دیا نہ صرف خود کے انصاف کے لئے بلکہ انسانوں پر رحم کے باعث، انہیں یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے، بلکہ نہ تو اْن کے لئے خود کچھ کرنے یا نہ ہی اْنہیں کسی ایک ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئے یہ کیا۔یسوع نے دلیری سے حواس کے تسلیم شْدہ ثبوت کے خلاف، منافقانہ عقائد اور مشقوں کے خلاف کام کیا، اور اْس نے اپنی شفائیہ طاقت کی بدولت اپنے سبھی حریفوں کی تردید کی۔

1. 18 : 3-12

Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage. His mission was both individual and collective. He did life's work aright not only in justice to himself, but in mercy to mortals, — to show them how to do theirs, but not to do it for them nor to relieve them of a single responsibility. Jesus acted boldly, against the accredited evidence of the senses, against Pharisaical creeds and practices, and he refuted all opponents with his healing power.

2 . ۔ 32 :28۔10

وہ فسح جو یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ نیسان کے مہینے میں اپنے مصلوب ہونے سے قبل کھائی وہ ایک غمگین موقع تھا، ایک سوگوار کھانا جو دن کے آخر پر، پر نور چاندنی میں تھاجس کے ساتھ تیزی سے گہرے سایے ارد گرد پھیل رہے تھے؛ اور اس کھانے نے مادے کے لئے یسوع کی رسم پرستی یا منظوری کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔

اْس کے پیروکار، افسردہ اور خاموش، اپنے مالک کے ساتھ ہونے والی بے وفائی کی گھڑی پر غور کر رہے تھے، آسمانی من میں حصہ لیتے ہیں، جو ماضی کے بیابان میں ستائے ہوئے سچائی کے ماننے والوں نے کھایا تھا۔اْن کی خوراک واقعتاً آسمان سے اتری تھی۔بیماروں کو شفا دینے اور غلطی کو باہر نکالنے والی روحانی ہستی کی یہ بہت بڑی حقیقت تھی۔اْن کے مالک نے انہیں یہ پہلے ہی واضح کر دیا تھا، اور اب یہ روٹی انہیں خوراک دے رہی تھی اور انہیں قائم رکھ رہی تھی۔

2. 32 : 28-10

The Passover, which Jesus ate with his disciples in the month Nisan on the night before his crucifixion, was a mournful occasion, a sad supper taken at the close of day, in the twilight of a glorious career with shadows fast falling around; and this supper closed forever Jesus' ritualism or concessions to matter.

His followers, sorrowful and silent, anticipating the hour of their Master's betrayal, partook of the heavenly manna, which of old had fed in the wilderness the persecuted followers of Truth. Their bread indeed came down from heaven. It was the great truth of spiritual being, healing the sick and casting out error. Their Master had explained it all before, and now this bread was feeding and sustaining them.

3 . ۔ 33 :13۔17

روحانی ہستی کی اِس سچائی کے لئے، اْن کا مالک تشددسہنے کو تھا اور دْکھ کا یہ پیالہ آخری قطرے تک خشک ہونے کو تھا۔اْس نے انہیں چھوڑ دینا تھا۔اْس پر چھانے والی ابدی فتح کے بڑے جلال کے ساتھ، اْس نے شکر کیا اور کہا، ”تم سب اِس میں سے پیو۔“

3. 33 : 13-17

For this truth of spiritual being, their Master was about to suffer violence and drain to the dregs his cup of sorrow. He must leave them. With the great glory of an everlasting victory overshadowing him, he gave thanks and said, "Drink ye all of it."

4 . ۔ 25 :13۔16، 22۔32

یسوع نے اظہار کی بدولت زندگی کا طریقہ کار سکھایا، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کیسے الٰہی اصول بیمار کو شفادیتا، غلطی کو باہر نکالتا اور موت پر فتح مند ہوتا ہے۔

اگرچہ گناہ اور بیماری پر اپنا اختیار ظاہر کرتے ہوئے، عظیم معلم نے کسی صورت دوسروں کو اْن کے تقویٰ کے مطلوبہ ثبوت دینے میں مدد نہیں کی۔ اْس نے اْن کی ہدایت کے لئے کام کیا، کہ وہ اِس طاقت کا اظہار اْسی طرح کریں جیسے اْس نے کیا اور اِس کے الٰہی اصول کو سمجھیں۔ استاد پر مکمل ایمان اور وہ سارا جذباتی پیار جو ہم اْس پر نچھاور کر سکتے ہیں، صرف یہی ہمیں اْس کی تقلید کرنے والے نہیں بنائیں گے۔ ہمیں جا کر اْسی کی مانند کام کرنا چاہئے، وگرنہ ہم اْن بڑی برکات کو فروغ نہیں دے رہے جو ہمارے مالک نے ہمیں عطا کرنے کے لئے کام کیا اور تکلیف اٹھائی۔ مسیح کی الوہیت کا اظہار یسوع کی انسانیت میں کیا گیا تھا۔

4. 25 : 13-16, 22-32

Jesus taught the way of Life by demonstration, that we may understand how this divine Principle heals the sick, casts out error, and triumphs over death.

Though demonstrating his control over sin and disease, the great Teacher by no means relieved others from giving the requisite proofs of their own piety. He worked for their guidance, that they might demonstrate this power as he did and understand its divine Principle. Implicit faith in the Teacher and all the emotional love we can bestow on him, will never alone make us imitators of him. We must go and do likewise, else we are not improving the great blessings which our Master worked and suffered to bestow upon us. The divinity of the Christ was made manifest in the humanity of Jesus.

5 . ۔ 4: 27۔2

قابلِ سماعت دعا کبھی بھی روحانی فہم کے کام نہیں کر سکتی، جو نئے سرے سے پیداہوتی ہے؛ بلکہ خاموش دعا، چوکسی اور دیندار اطاعت ہمیں یسوع کے نمونے کی پیروی کرنے کے قابل بناتی ہے۔طویل دعائیں، توہم پرستی اور عقائد محبت کے مضبوط پروں کو کمزور کرتے ہیں، اور مذہب کو انسانی شکل میں ملبوس کرتے ہیں۔ جو کچھ بھی عبادت کو مادی بناتا ہے وہ انسان کی روحانی بڑھوتری میں رکاوٹ بنتا ہے اور اْسے غلطی پر اپنی طاقت کا اظہار کرنے سے روکتا ہے۔

5. 4 : 27-2

Audible prayer can never do the works of spiritual understanding, which regenerates; but silent prayer, watchfulness, and devout obedience enable us to follow Jesus' example. Long prayers, superstition, and creeds clip the strong pinions of love, and clothe religion in human forms. Whatever materializes worship hinders man's spiritual growth and keeps him from demonstrating his power over error.

6 . ۔ 3: 32۔11

جب دل الٰہی سچائی اور محبت سے کوسوں دور ہو تو ہم بنجر زندگیوں کی ناشکری کو چھْپا نہیں سکتے۔

صبر، حلیمی، محبت اور نیک کاموں میں ظاہر ہونے والے فضل میں ترقی کرنے کی پْر جوش خواہش کے لئے ہمیں سب سے زیادہ دعا کرنے کی ضرورت ہے۔اپنے استاد کے حکموں پر عمل کرنا اور اْس کے نمونے کی پیروی کرناہم پر اْس کا مناسب قرض ہے اور جو کچھ اْس نے کیا ہے اْس کی شکر گزاری کا واحد موزوں ثبوت ہے۔باوفا اور دلی شکرگزاری کو ظاہر کرنے کے لئے بیرونی عبادت خود میں ہی کافی نہیں ہے، کیونکہ اْس نے کہا، ”اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو۔“

6. 3 : 32-11

While the heart is far from divine Truth and Love, we cannot conceal the ingratitude of barren lives.

What we most need is the prayer of fervent desire for growth in grace, expressed in patience, meekness, love, and good deeds. To keep the commandments of our Master and follow his example, is our proper debt to him and the only worthy evidence of our gratitude for all that he has done. Outward worship is not of itself sufficient to express loyal and heartfelt gratitude, since he has said: "If ye love me, keep my commandments."

7 . ۔ 8: 1۔9، 28۔30

ایک لفظی دعا شاید خود جوازی کے خاموش فہم کو برداشت کرسکتی ہے، اگرچہ یہ گناہگار کو ریاکار بناتی ہے۔ہمیں ایک ایماندار دل سے مایوس کبھی نہیں ہونا چاہئے؛ بلکہ یہاں اْن لوگوں کے لئے تھوڑی امید ہے جو رہ رہ کر اپنی بدکاری کے روبرو آتے اور پھر اِسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اْن کی دعائیں وہ اشاریے ہیں جو اْن کے کردار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وہ گناہ کے ساتھ خفیہ تعلق رکھتے ہیں اور ایسے بناوٹی لوگوں کے بارے میں یسوع نے کہا کہ وہ ”سفیدی پھری قبروں کی مانند۔۔۔ہر طرح کی نجاست سے بھرے ہیں۔“

ہمیں خود کا جائزہ لینا چاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ دل کی رغبت اور مقصد کیا ہے، کیونکہ صرف اسی صورت میں ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہم اصل میں کیا ہیں۔

7. 8 : 1-9, 28-30

A wordy prayer may afford a quiet sense of self-justification, though it makes the sinner a hypocrite. We never need to despair of an honest heart; but there is little hope for those who come only spasmodically face to face with their wickedness and then seek to hide it. Their prayers are indexes which do not correspond with their character. They hold secret fellowship with sin, and such externals are spoken of by Jesus as "like unto whited sepulchres ... full ... of all uncleanness."

We should examine ourselves and learn what is the affection and purpose of the heart, for in this way only can we learn what we honestly are.

8 . ۔ 13 :5۔12، 15 (خدا)۔16

اجتماعی دعا میں اکثر ہم ہمارے عقائدسے آگے، پرجوش خواہش کے ایماندار نقطہ نظر سے آگے نکل جاتے ہیں۔ اگر ہم خفیہ طور پر خواہش نہیں رکھتے اور کھلے عام اْس کی تکمیل کے لئے کوشاں نہیں ہوتے جو کچھ ہم مانگتے ہیں، تو ہماری دعائیں ”بک بک“ ہیں،جیسے کہ غیر قومیں کرتی ہیں۔ اگر ہماری منتیں مخلص ہیں، ہمارے مانگنے کے لئے ہم محنت کرتے ہیں توہمارا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے، ہمیں کھْلے عام اْس کا بدلہ دے گا۔۔۔۔خدا ہماری ضرورت کو جانتا ہے اِس سے پہلے کہ ہم اْسے یا ہمارے ساتھیوں کو اِس سے متعلق بتائیں۔

8. 13 : 5-12, 15 (God)-16

In public prayer we often go beyond our convictions, beyond the honest standpoint of fervent desire. If we are not secretly yearning and openly striving for the accomplishment of all we ask, our prayers are "vain repetitions," such as the heathen use. If our petitions are sincere, we labor for what we ask; and our Father, who seeth in secret, will reward us openly. … God knows our need before we tell Him or our fellow-beings about it.

9 . ۔ 11 :29 (دعا)۔32 (تا دوسرا)

۔۔۔دعا، خدا کی مرضی کو جاننے اور اْسے پورا کرنے کی پرجوش عادی خواہش کے ساتھ مل کر، ہمیں کْل سچائی تک لے جائے گی۔ ایسی خواہش میں بہت کم قابل سماعت اظہار پایا جاتا ہے۔یہ سوچ اور زندگی میں بہترین طور پر ظاہر ہوتی ہے۔

9. 11 : 29 (prayer)-32 (to 2nd .)

…prayer, coupled with a fervent habitual desire to know and do the will of God, will bring us into all Truth. Such a desire has little need of audible expression. It is best expressed in thought and in life.

10 . ۔ 15 :7۔9، 21۔24

باپ جو پوشیدگی میں ہے جسمانی حواس کیلئے نادیدہ ہے، لیکن وہ سب کچھ جانتا ہے اوروہ الفاظ کے مطابق نہیں بلکہ مقاصد کے مطابق اجر دیتا ہے۔

ایسی ہی دعا کا جواب ملتا ہے، اِس حد تک کہ ہم ہماری خواہشات کی تکمیل پاتے ہیں۔ مالک کی ہدایت یہ ہے کہ ہم پوشیدگی میں دعا کریں اور ہماری زندگیوں سے ہماری وفاداری کی گواہی دیں۔

10. 15 : 7-9, 21-24

The Father in secret is unseen to the physical senses, but He knows all things and rewards according to motives, not according to speech.

Such prayer is answered, in so far as we put our desires into practice. The Master's injunction is, that we pray in secret and let our lives attest our sincerity.

11 . ۔ 37 :20۔31

خدا کرے کہ آج کے مسیحی اِس چال چلن کی مزید عملی اہمیت کو قبول کریں!یہ ممکن ہے، ہاں یہ ہر بچے، مرد اور عورت کی ذمہ داری اور استحقاق ہے کہ وہ زندگی اور سچائی، صحت اور پاکیزگی کے اظہار کے وسیلہ مالک کے نمونے کی کسی حد تک پیروی کریں۔ مسیحی لوگ اْس کے پیروکار ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر کیا وہ اْس کی پیروی اْسی طرح کرتے ہیں جیسے اْس نے حکم دیا ہے؟اِن ناگزیر احکامات کو سنیں: ”پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے!“ ”تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو!“ ”بیمار کو شفا دو!“

11. 37 : 20-31

May the Christians of to-day take up the more practical import of that career! It is possible, — yea, it is the duty and privilege of every child, man, and woman, — to follow in some degree the example of the Master by the demonstration of Truth and Life, of health and holiness. Christians claim to be his followers, but do they follow him in the way that he commanded? Hear these imperative commands: "Be ye therefore perfect, even as your Father which is in heaven is perfect!" "Go ye into all the world, and preach the gospel to every creature!" "Heal the sick!"

12 . ۔ 34 :10۔17

اگر وہ سب جنہوں نے ساکرامنٹ میں حصہ لیا یسوع کے دکھوں کی حقیقتاً یادگاری منائی تھی اور اْس کے پیالے میں سے پیا تھا تو وہ دنیا میں انقلاب برپا کر دیتے۔ وہ سب جومادی علامات کے وسیلہ اْس کی یادگاری کے متلاشی ہیں وہ صلیب اٹھائیں گے، بیماروں کو شفا دیں گے، بدروحوں کو نکالیں گے اور مسیح، سچائی کی خوشخبری غریبوں، منفی سوچ والوں،کو دیں گے، وہ ہزار سالہ دور لائیں گے۔

روز مرہ کے فرائضمنجاب میری بیکر ایڈی

12. 34 : 10-17

If all who ever partook of the sacrament had really commemorated the sufferings of Jesus and drunk of his cup, they would have revolutionized the world. If all who seek his commemoration through material symbols will take up the cross, heal the sick, cast out evils, and preach Christ, or Truth, to the poor, — the receptive thought, — they will bring in the millennium.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔