اتوار 15 جون، 2025



مضمون۔ خدا محافظِ انسان

SubjectGod The Preserver Of Man

سنہری متن: یسعیاہ 3 باب10 آیت

راستبازوں کی بابت کہو کہ بھلا ہوگا۔



Golden Text: Isaiah 3 : 10

Say ye to the righteous, that it shall be well with him.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: نوحہ 3 باب21 تا 26 آیات


21۔ مَیں اِس پر چلتا رہتا ہوں۔ اِسی لئے مَیں امیدوار ہوں۔

22۔ یہ خداوند کی شفقت ہے کہ ہم فنا نہیں ہوئے کیونکہ اْس کی رحمت لازوال ہے۔

23۔ وہ ہر صبح تازہ ہے۔ تیری وفاداری عظیم ہے۔

24۔ میری جان نے کہا میرا بخرہ خداوند ہے! اِس لئے میری امید اْسی سے ہے۔

25۔ خداوند اْن پر مہربان ہے جو اْس کے منتظر ہیں۔ اْس جان پر جو اْس کی طالب ہے۔

26۔ یہ خوب ہے کہ آدمی امید دار رہے اور خاموشی سے خداوند کی نجات کا انتظار کرے۔

Responsive Reading: Lamentations 3 : 21-26

21.     This I recall to my mind, therefore have I hope.

22.     It is of the Lord’s mercies that we are not consumed, because his compassions fail not.

23.     They are new every morning: great is thy faithfulness.

24.     The Lord is my portion, saith my soul; therefore will I hope in him.

25.     The Lord is good unto them that wait for him, to the soul that seeketh him.

26.     It is good that a man should both hope and quietly wait for the salvation of the Lord.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ 2 کرنتھیوں 6 باب1، 16 (چنانچہ)، 18 آیات

1۔ اور ہم جو اْس کے ساتھ کام میں شریک ہیں یہ بھی تم سے التماس کرتے ہیں کہ خدا کا فضل جو تم پر ہوا ہے بے فائدہ نہ رہنے دو۔

16۔۔۔۔چنانچہ خدا نے فرمایا ہے کہ میں اْن میں بسوں گا اور اْن میں چلوں پھروں گا اور میں اْن کا خدا ہوں گا اور وہ میری امت ہوں گے۔

18۔ اور تمہارا باپ ہوں گا اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہوگے۔ یہ خداوند قادر مطلق کا قول ہے۔

1. II Corinthians 6 : 1, 16 (as), 18

1     We then, as workers together with him, beseech you also that ye receive not the grace of God in vain.

16     …as God hath said, I will dwell in them, and walk in them; and I will be their God, and they shall be my people.

18     And will be a Father unto you, and ye shall be my sons and daughters, saith the Lord Almighty.

2 . ۔ خروج 19 باب3، 4، 5 (چلو) (تا پہلی) آیات

3۔ اور موسیٰ اْس پر چڑھ کر خدا کے پاس گیا اور خداوند نے اْسے پہاڑ پر سے پکار کر کہا کہ تْو یعقو ب کے خاندان سے یوں کہہ اور بنی اسرائیل کو سنا دے۔

4۔ کہ تم نے دیکھا کہ مَیں نے مصریوں کے ساتھ کیا کیا کِیا اور تم کو گویا عقاب کے پروں پر بیٹھا کر اپنے پاس لے آیا۔

5۔۔۔۔میرے عہد پر چلو،

2. Exodus 19 : 3, 4, 5 (keep) (to 1st ,)

3     And Moses went up unto God, and the Lord called unto him out of the mountain, saying, Thus shalt thou say to the house of Jacob, and tell the children of Israel;

4     Ye have seen what I did unto the Egyptians, and how I bare you on eagles’ wings, and brought you unto myself.

5 …keep my covenant,

3 . ۔ ملاکی 3 باب6 آیت

6۔ کیونکہ مَیں خداوند لاتبدیل ہوں اسی لئے اے بنی یعقوب تم نیست نہیں ہوئے۔

3. Malachi 3 : 6

6     For I am the Lord, I change not; therefore ye sons of Jacob are not consumed.

4 . ۔ 2 سلاطین 4 باب8تا16 (تا پہلی)، 17تا23، 25 تا27، 30تا37 آیات

8۔ اور ایک روز اایسا ہوا کہ الیشع شونیم کو گیا۔ وہاں ایک دولتمند عورت تھی اور اْس نے اْسے روٹی کھانے پر مجبور کیا۔ پھر تو جب کبھی وہ وہاں سے گزرتا روٹی کھانے کے لئے وہاں چلا جاتا تھا۔

9۔ سو اْس نے اپنے شوہر سے کہا دیکھ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرد خدا جو اکثر ہماری طرف آتا ہے مقدس ہے۔

10۔ ہم اْس کے لئے ایک پلنگ اور کوٹھری دیوار پر بنا دیں اور اْس کے لئے ایک پلنگ اور میز اور چوکی اور شمعدان لگا دیں۔ پھر جب کبھی وہ ہمارے پاس آئے تو وہیں ٹھہرے گا۔

11۔ سو ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اْدھر گیا اور اْس کوٹھری میں جا کر وہیں سویا۔

12۔ پھر اْس نے اپنے خادم جیحازی سے کہا کہ اِس شونیمی عورت کو بلا لے۔ اْس نے اْسے بلالیا اور وہ اْس کے سامنے کھڑی ہوئی۔

13۔ پھر اْس نے اپنے خادم سے کہا تْو اْس سے پوچھ کہ تْو نے جو ہمارے لئے اتنی فکریں کیں تو تیرے لئے کیا کِیا جائے؟ کیا تْو چاہتی ہے کہ بادشاہ سے یا فوج کے سردار سے تیری سفارش کی جائے؟ اْس نے جواب دیا کہ مَیں اپنے ہی لوگوں میں رہتی ہوں۔

14۔ پھر اْس نے اْس سے کہا اْس کے لئے کیا کِیا جائے؟ تب جیحازی نے جواب دیاکہ کیا واقعی اْس کے کوئی فرزند نہیں اور اْس کا شوہر بْڈھا ہے۔

15۔ تب اْس نے اْس سے کہا اْسے بلا لے اور جب اْس نے اْسے بلایا تو وہ دروازے پر کھڑی ہوئی۔

16۔ تب اْس نے کہا موسمِ بہار میں وقت پورا ہونے پر تیری گود میں بیٹا ہوگا۔

17۔ سو وہ عورت حاملہ ہوئی اور جیسا الیشع نے اْس سے کہا تھا موسمِ بہار میں وقت پوراہونے پر اْس کے بیٹا ہوا۔

18۔ اور جب وہ لڑکا بڑھا تو ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اپنے باپ کے پاس کھیت کاٹنے والوں میں چلا گیا۔

19۔اور اْس نے باپ سے کہا ہائے میرا سر! ہائے میرا سر! اْس نے اْس سے کہا اْسے اْس کی ماں کے پاس لے جا۔

20۔ جب اْس نے اْسے لے کر اْس کی ماں کے پاس پہنچا دیا تو وہ اْس کے گھٹنوں پر دوپہر تک بیٹھا رہا اِس کے بعد مر گیا۔

21۔ اِس کے بعد اْس کی ماں نے اوپرجا کر اْسے مردِ خدا کے پلنگ پر لیٹا دیا اور دروازہ بند کر کے باہر چلی گئی۔

22۔ اور اْس نے اپنے شوہر سے پکار کر کہا جلد جوانوں میں سے ایک کو اور گدھوں میں سے ایک کو میرے لئے بھیج دے تاکہ میں مردِ خدا کے پاس دوڑ جاؤں اور پھر لوٹ آؤں۔

23۔ اْس نے کہا آج تْو اْس کے پاس کیوں جانا چاہتی ہے آج نہ تو نیا چاند ہے نہ سبت۔ اْس نے جواب دیا کہ اچھا ہی ہوگا۔

25۔ سو وہ چلی اور کوہِ کِرمل کو مردِ خدا کے پاس گئی۔ اْس مردِ خدا نے دور سے اْسے دیکھ کر اپنے خادم جیحازی سے کہا دیکھ اْدھر وہ شونیمی عورت ہے۔

26۔ اب ذرا اْس کے استقبال کو دوڑ جا اور اْس سے پْوچھ کیا تْو خیریت سے ہے؟ تیرا شوہر خیریت سے ہے؟ بچہ خیریت سے ہے؟ اْس نے جواب دیا خیریت ہے۔

27۔ اور جب وہ اْس پہاڑ پر مردِ خدا کے پاس آئی اور اْس کے پاؤں پکڑ لئے اور جیحازی اْسے اٹھانے کے لئے نزدیک آیا پر مردِ خدا نے کہا اْسے چھوڑ دے کیونکہ اْس کا جی پریشان ہے اور خداوند نے یہ بات مجھ سے چھپائی اور مجھے نہ بتائی۔

30۔ اْس لڑکے کی ماں نے کہا خداوند کی حیات کی قسم اور تیری جان کی سوگند مَیں تجھے نہیں چھوڑوں گی تب وہ اْٹھ کر اْس کے پیچھے پیچھے چلا۔

31۔ اور جیحازی نے اْس سے پہلے آکر عصا کو اْس لڑکے کے منہ پر رکھا پر نہ تو کچھ آواز ہوئی نہ سننا اِس لئے وہ اْس سے ملنے کو لوٹا اور اْسے بتایا کہ لڑکا نہیں جاگا۔

32۔ جب الیشع اْس گھر میں آیا تو دیکھو وہ لڑکا مرا ہوا اْس کے پلنگ پر پڑا تھا۔

33۔ سو وہ اندر گیا اور دروازہ بند کر کے خداوند سے دعا کی۔

34۔ اور اوپر چڑھ کر اْس بچے پر لیٹ گیا اور اْس کے منہ پر اپنا منہ اور اْس کی آنکھوں پر اپنی آنکھیں اور اْس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ لئے اور اْس کے اوپر پسر گیا۔ تب اْس بچے کا جسم گرم ہونے لگا۔

35۔ پھر وہ اٹھ کر اْس گھر میں ایک بار ٹہلا اور اوپر چڑھ کر اْس بچے کے اوپر پسر گیا اوروہ بچہ سات بار چھینکا اور بچے نے آنکھیں کھول دیں۔

36۔ تب اْس نے جیحازی کو بلا کر کہا اْس شونیمی عورت کو بلا لے سو اْس نے اْسے بلایا اور جب وہ اْس کے پاس آئی تو اْس نے اْس سے کہا اپنے بیٹے کو اٹھا لے۔

37۔ تب وہ اندر جا کر اْس کے قدموں پر گری اور زمین پر سر نگوں ہوگئی پھر اپنے بیٹے کو اٹھا کر باہر چلی گئی۔

4. II Kings 4 : 8-16 (to 1st .), 17-23, 25-27, 30-37

8     And it fell on a day, that Elisha passed to Shunem, where was a great woman; and she constrained him to eat bread. And so it was, that as oft as he passed by, he turned in thither to eat bread.

9     And she said unto her husband, Behold now, I perceive that this is an holy man of God, which passeth by us continually.

10     Let us make a little chamber, I pray thee, on the wall; and let us set for him there a bed, and a table, and a stool, and a candlestick: and it shall be, when he cometh to us, that he shall turn in thither.

11     And it fell on a day, that he came thither, and he turned into the chamber, and lay there.

12     And he said to Gehazi his servant, Call this Shunammite. And when he had called her, she stood before him.

13     And he said unto him, Say now unto her, Behold, thou hast been careful for us with all this care; what is to be done for thee? wouldest thou be spoken for to the king, or to the captain of the host? And she answered, I dwell among mine own people.

14     And he said, What then is to be done for her? And Gehazi answered, Verily she hath no child, and her husband is old.

15     And he said, Call her. And when he had called her, she stood in the door.

16     And he said, About this season, according to the time of life, thou shalt embrace a son.

17     And the woman conceived, and bare a son at that season that Elisha had said unto her, according to the time of life.

18     And when the child was grown, it fell on a day, that he went out to his father to the reapers.

19     And he said unto his father, My head, my head. And he said to a lad, Carry him to his mother.

20     And when he had taken him, and brought him to his mother, he sat on her knees till noon, and then died.

21     And she went up, and laid him on the bed of the man of God, and shut the door upon him, and went out.

22     And she called unto her husband, and said, Send me, I pray thee, one of the young men, and one of the asses, that I may run to the man of God, and come again.

23     And he said, Wherefore wilt thou go to him to day? it is neither new moon, nor sabbath. And she said, It shall be well.

25     So she went and came unto the man of God to mount Carmel. And it came to pass, when the man of God saw her afar off, that he said to Gehazi his servant, Behold, yonder is that Shunammite:

26     Run now, I pray thee, to meet her, and say unto her, Is it well with thee? is it well with thy husband? is it well with the child? And she answered, It is well.

27     And when she came to the man of God to the hill, she caught him by the feet: but Gehazi came near to thrust her away. And the man of God said, Let her alone; for her soul is vexed within her: and the Lord hath hid it from me, and hath not told me.

30     And the mother of the child said, As the Lord liveth, and as thy soul liveth, I will not leave thee. And he arose, and followed her.

31     And Gehazi passed on before them, and laid the staff upon the face of the child; but there was neither voice, nor hearing. Wherefore he went again to meet him, and told him, saying, The child is not awaked.

32     And when Elisha was come into the house, behold, the child was dead, and laid upon his bed.

33     He went in therefore, and shut the door upon them twain, and prayed unto the Lord.

34     And he went up, and lay upon the child, and put his mouth upon his mouth, and his eyes upon his eyes, and his hands upon his hands: and he stretched himself upon the child; and the flesh of the child waxed warm.

35     Then he returned, and walked in the house to and fro; and went up, and stretched himself upon him: and the child sneezed seven times, and the child opened his eyes.

36     And he called Gehazi, and said, Call this Shunammite. So he called her. And when she was come in unto him, he said, Take up thy son.

37     Then she went in, and fell at his feet, and bowed herself to the ground, and took up her son, and went out.

5 . ۔ یسعیاہ 49 باب8تا10 آیات

8۔ خداوند یوں فرماتا ہے کہ مَیں نے قبولیت کے وقت تیری سنی اور نجات کے دن تیری مدد کی مَیں تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے لئے تجھے ایک عہد ٹھہراؤں گا تاکہ تْو ملک کو بحال کرے اور ویران میراث وارثوں کو دے۔

9۔ تاکہ تْو قیدیوں کو کہے کہ نکل چلو اور اْن کو جو اندھیرے میں ہیں کہ اپنے آپ کو دکھلاؤ۔وہ راستوں میں چریں گے اور سب ننگے ٹیلے اْن کی چراگاہیں ہوں گی۔

10۔ وہ نہ بھوکے ہوں گے اور نہ پیاسے اور نہ گرمی نہ دھوپ سے اْن کو ضرر پہنچے گا کیونکہ وہ جس کی رحمت اْن پر ہے اْن کا راہنما ہوگا اور پانی کے سوتوں کی طرف اْن کی راہبری کرے گا۔

5. Isaiah 49 : 8-10

8     Thus saith the Lord, In an acceptable time have I heard thee, and in a day of salvation have I helped thee: and I will preserve thee, and give thee for a covenant of the people, to establish the earth, to cause to inherit the desolate heritages;

9     That thou mayest say to the prisoners, Go forth; to them that are in darkness, Shew yourselves. They shall feed in the ways, and their pastures shall be in all high places.

10     They shall not hunger nor thirst; neither shall the heat nor sun smite them: for he that hath mercy on them shall lead them, even by the springs of water shall he guide them.

6 . ۔ عبرانیوں 4 باب16 آیت

16۔ پس آؤ ہم فضل کے تخت کے پاس دلیری سے چلیں تاکہ ہم پر رحم ہو تاکہ وہ فضل حاصل کریں جو ضرورت کے وقت ہماری مدد کرے۔

6. Hebrews 4 : 16

16     Let us therefore come boldly unto the throne of grace, that we may obtain mercy, and find grace to help in time of need.

7 . ۔ پیدائش 16 باب13 (تْو) (تا؛) آیت

13۔ اے خدا تْو بصیر ہے۔

7. Genesis 16 : 13 (Thou) (to :)

13     Thou God seest me:

8 . ۔ رومیوں 8 باب28، 31 آیات

28۔ اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اْن کے لئے جو خدا کے ارادہ کے موافق بلائے گئے۔

31۔ پس ہم اِن باتوں کی بابت کیا کہیں َ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟

8. Romans 8 : 28, 31

28     And we know that all things work together for good to them that love God, to them who are the called according to his purpose.

31     What shall we then say to these things? If God be for us, who can be against us?



سائنس اور صح


1 . ۔ 78 :28۔32

روح انسان کو برکت دیتی ہے، مگر انسان نہیں جانتا”کہ وہ کہاں سے آتی ہے“۔ اِس سے بیمار شفا پاتے ہیں، غمگین تسلی پاتے ہیں اور گناہگار بحال کئے جاتے ہیں۔ یہ ایک عالمگیر خدا کے اثرات ہیں جو ابدی سائنس میں پوشیدہ اچھی رہائش گاہ ہے۔

1. 78 : 28-32

Spirit blesses man, but man cannot "tell whence it cometh." By it the sick are healed, the sorrowing are comforted, and the sinning are reformed. These are the effects of one universal God, the invisible good dwelling in eternal Science.

2 . ۔ 1 :1۔4، 6۔14

وہ دعا جو گناہگار کو ٹھیک کرتی اور بیمار کو تندرست کرتی ہے وہ مکمل طور پر یہ ایمان ہے کہ خدا کے لئے سب کچھ ممکن ہے، جو اْس سے متعلق ایک روحانی فہم، ایک بے لوث محبت ہے۔۔۔۔دعا، دھیان رکھنا، اور کام کرنا خود کار تباہی کے ساتھ مل کر، اْسے پورا کرنے کے لئے خدا کے بابرکت ذرائع ہیں جو کچھ بھی مسیحت اور انسانیت کی صحت کے لئے کامیابی سے سر انجام دیا گیا ہو۔

اَن کہے خیالات الٰہی عقل کے لئے اجنبی نہیں ہیں۔ خواہش دعا ہے؛ اور ہماری خواہشات کے لئے خدا پر بھروسہ کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، کہ وہ الفاظ بننے اور عمل میں آنے سے قبل تشکیل پا چکے اور ممتاز کئے جا چکے ہیں۔

2. 1 : 1-4, 6-14

The prayer that reforms the sinner and heals the sick is an absolute faith that all things are possible to God, — a spiritual understanding of Him, an unselfed love. … Prayer, watching, and working, combined with self-immolation, are God's gracious means for accomplishing whatever has been successfully done for the Christianization and health of mankind.

Thoughts unspoken are not unknown to the divine Mind. Desire is prayer; and no loss can occur from trusting God with our desires, that they may be moulded and exalted before they take form in words and in deeds.

3 . ۔ 139 :4۔9

ابتدا سے آخر تک، پورا کلام پاک مادے پر روح، عقل کی فتح کے واقعات سے بھرپور ہے۔ موسیٰ نے عقل کی طاقت کو اس کے ذریعے ثابت کی جسے انسان معجزات کہتا ہے؛ اسی طرح یشوع، ایلیاہ اور الیشع نے بھی کیا۔ مسیحی دور کو علامات اور عجائبات کی مدد سے بڑھایا گیا۔

3. 139 : 4-9

From beginning to end, the Scriptures are full of accounts of the triumph of Spirit, Mind, over matter. Moses proved the power of Mind by what men called miracles; so did Joshua, Elijah, and Elisha. The Christian era was ushered in with signs and wonders.

4 . ۔ 328 :4۔13

بشر سمجھتے ہیں کہ وہ اچھائی کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں، جبکہ خدا اچھائی اورواحد حقیقی زندگی ہے۔ تو اِس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اْس الٰہی اصول سے متعلق کم فہم رکھتے ہوئے جو نجات اور شفا دیتا ہے، بشر صرف ایمان کے ساتھ گناہ، بیماری اور موت سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں۔ یہ غلطیاں حقیقت میں یوں تباہ نہیں ہوتیں، اور انہیں تب تک،یہاں یا اس کے بعد، انسانوں کے ساتھ جْڑے رہنا چاہئے جب تک وہ سائنس میں خدا کے حقیقی ادراک کو نہیں پا لیتے جس سے خدا کے متعلق انسان کی غلط فہمیاں ہوتی ہیں اور یہ اْس کی کاملیت سے متعلق بڑے حقائق کو ظاہر کرتا ہے۔

4. 328 : 4-13

Mortals suppose that they can live without goodness, when God is good and the only real Life. What is the result? Understanding little about the divine Principle which saves and heals, mortals get rid of sin, sickness, and death only in belief. These errors are not thus really destroyed, and must therefore cling to mortals until, here or hereafter, they gain the true understanding of God in the Science which destroys human delusions about Him and reveals the grand realities of His allness.

5 . ۔ 120: 15۔24

صحت مادے کی حالت نہیں بلکہ عقل کی حالت ہے؛اور نہ ہی مادی حواس صحت کے موضوع پر قابل یقین گواہی پیش کر سکتے ہیں۔ شفائیہ عقل کی سائنس کسی کمزور کے لئے یہ ہونا ناممکن بیان کرتی ہے جبکہ عقل کے لئے اِس کی حقیقتاً تصدیق کرنا یا انسان کی اصلی حالت کو ظاہر کرنا ممکن پیش کرتی ہے۔اس لئے سائنس کا الٰہی اصول جسمانی حواس کی گواہی کو تبدیل کرتے ہوئے انسان کو بطور سچائی میں ہم آہنگی کے ساتھ موجود ہوتا ظاہر کرتا ہے، جو صحت کی واحد بنیاد ہے؛ اور یوں سائنس تمام بیماری سے انکار کرتی، بیمار کو شفا دیتی، جھوٹی گواہی کو برباد کرتی اور مادی منطق کی تردید کرتی ہے۔

5. 120 : 15-24

Health is not a condition of matter, but of Mind; nor can the material senses bear reliable testimony on the subject of health. The Science of Mind-healing shows it to be impossible for aught but Mind to testify truly or to exhibit the real status of man. Therefore the divine Principle of Science, reversing the testimony of the physical senses, reveals man as harmoniously existent in Truth, which is the only basis of health; and thus Science denies all disease, heals the sick, overthrows false evidence, and refutes materialistic logic.

6 . ۔ 371 :7۔19، 27۔32

کرسچن سائنس میں موجود غیر تربیت یافتہ لوگوں کی جانب سے، مادی وجود سے متعلق اصل میں کچھ بھی نہیں سمجھا جاتا۔خیال یہ کیا جاتا ہے کہ انسان اْن کی رضا مندی کے بغیر یہاں ہیں، اور اْنہیں غیر ارادی طور پر ہٹا دیا ہے، بنا یہ جانے کہ کیوں اور کب۔ جس طرح خوفزدہ بچے کسی خیالی بھوت کو ادھر اْدھر دیکھتے ہیں، اْسی طرح بیمار انسانیت بھی ہر طرف خطرہ دیکھتی ہے، اور درست راستے کے علاوہ ہر طرف سے راحت تلاش کرتی ہے۔اندھیرا خوف کو جنم دیتا ہے۔ کوئی بالغ شخص اپنے عقائد کی غلامی میں اپنے حقیقی وجود کو کسی بچے سے زیادہ نہیں سمجھ سکتا؛ اور بالغ شخص کو اْس کے اندھیرے سے باہر نکالنا چاہئے، اِس سے پہلے کہ وہ اِن فریبی دْکھوں سے چھٹکارا حاصل کر سکے جن کی تاریکی بڑھتی جاتی ہے۔اِس صورتِ حال سے نکلنے کا واحد راستہ کرسچن سائنس میں ہے۔

دوڑ کو تیز کرنے کی ضرورت اس حقیقت کا باپ ہے کہ عقل یہ کر سکتی ہے؛ کیونکہ عقل آلودگی کی بجائے پاکیزگی، کمزوری کی بجائے طاقت، اور بیماری کی بجائے صحتمندی بخش سکتی ہے۔ یہ پورے نظام میں قابل تبدیل ہے، اور اسے ”ہر ذرے تک“ بنا سکتی ہے۔

6. 371 : 7-19, 27-32

By those uninstructed in Christian Science, nothing is really understood of material existence. Mortals are believed to be here without their consent and to be removed as involuntarily, not knowing why nor when. As frightened children look everywhere for the imaginary ghost, so sick humanity sees danger in every direction, and looks for relief in all ways except the right one. Darkness induces fear. The adult, in bondage to his beliefs, no more comprehends his real being than does the child; and the adult must be taken out of his darkness, before he can get rid of the illusive sufferings which throng the gloaming. The way in divine Science is the only way out of this condition.

The necessity for uplifting the race is father to the fact that Mind can do it; for Mind can impart purity instead of impurity, strength instead of weakness, and health instead of disease. Truth is an alterative in the entire system, and can make it "every whit whole."

7 . ۔ 596 :20۔27

وادی۔ نفسیاتی دباؤ، مسکینی، تاریکی۔

”بلکہ خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گزر ہو میں کسی بلا سے نہیں ڈرونگا۔“(زبور 23: 4آیت)

اگرچہ بشری سوچ کے مطابق رستہ تاریک ہے تاہم الٰہی حیاتی اور محبت اسے روشن کرتی ہے اور بشری تصورکی بد امنی، موت کے خوف، اور غلطی کی فرضی حقیقت کو نیست کرتی ہے۔ کرسچن سائنس، حواس کی مخالفت کرتے ہوئے، وادی کو گلاب کی مانند پھوٹنے اور کھِلنے کے لئے تیار کرتی ہے۔

7. 596 : 20-27

Valley. Depression; meekness; darkness.

"Though I walk through the valley of the shadow of death, I will fear no evil." (Psalm xxiii.4.)

Though the way is dark in mortal sense, divine Life and Love illumine it, destroy the unrest of mortal thought, the fear of death, and the supposed reality of error. Christian Science, contradicting sense, maketh the valley to bud and blossom as the rose.

8 . ۔ 151 :18 (دی)۔30

خوف کبھی خود کے ہونے اور اپنے کاموں سے رْکتا نہیں۔ خون، دل، پھیپھڑوں وغیرہ کا زندگی، خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقی انسان کا ہر عمل الٰہی فہم کی نگرانی میں ہے۔ انسانی سوچ قتل کرنے یا علاج کرنے کی کوئی قوت نہیں رکھتی، اور اس کا خدا کے بشر پر کوئی ختیار نہیں ہے۔ وہ الٰہی فہم جس نے انسان کو خلق کیا اپنی صورت اور شبیہ کو برقرار رکھتا ہے۔ انسانی عقل خدا کے مخالف ہے اور اِسے ختم ہونا چاہئے، جیسے کہ پولوس رسول واضح کرتا ہے۔جو وجود رکھتا ہے وہ محض الٰہی فہم اور اْس کا خیال ہے، اسی فہم میں ساری ہستی ہم آہنگ اور ابدی پائی جاتی ہے۔ سیدھا یا تنگ راستہ اس حقیقت کو دیکھنے اور تسلیم کرنے، اس قوت کو قبول کرنے اور سچائی کی راہوں کی پیروی کرنے کے لئے ہے۔

8. 151 : 18 (The)-30

The blood, heart, lungs, brain, etc., have nothing to do with Life, God. Every function of the real man is governed by the divine Mind. The human mind has no power to kill or to cure, and it has no control over God's man. The divine Mind that made man maintains His own image and likeness. The human mind is opposed to God and must be put off, as St. Paul declares. All that really exists is the divine Mind and its idea, and in this Mind the entire being is found harmonious and eternal. The straight and narrow way is to see and acknowledge this fact, yield to this power, and follow the leadings of truth.

9 . ۔ 387: 27۔32

مسیحت کی تاریخ اْس آسمانی باپ، قادرِمطلق فہم، کے عطا کردہ معاون اثرات اور حفاظتی قوت کے شاندار ثبوتوں کو مہیا کرتی ہے جو انسان کو ایمان اور سمجھ مہیا کرتا ہے جس سے وہ خود کو بچا سکتا ہے نہ صرف آزمائش سے بلکہ جسمانی دْکھوں سے بھی۔

9. 387 : 27-32

The history of Christianity furnishes sublime proofs of the supporting influence and protecting power bestowed on man by his heavenly Father, omnipotent Mind, who gives man faith and understanding whereby to defend himself, not only from temptation, but from bodily suffering.

10 . ۔ 514: 26۔3

اْس اختیار کو سمجھتے ہوئے جو محبت سب پر رکھتی ہے، دانی ایل نے شیروں کی ماند میں محفوظ محسوس کیا، اور پولوس نے سانپ کو بے ضرر ثابت کیا۔خدا کی تمام تر مخلوقات جو سائنس کی ہم آہنگی میں چلتے ہیں وہ بے ضرر، مفید اور لازوال ہیں۔ اِس بڑی حقیقت کا احساس ہی قدیم شْرفا کی طاقت کا وسیلہ تھا۔یہ مسیحی شفا میں مدد دیتا ہے، اور اِس کے مالک کو یسوع کے نمونے کی تقلید کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ”اور خدا نے دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔“

10. 514 : 26-3

Understanding the control which Love held over all, Daniel felt safe in the lions' den, and Paul proved the viper to be harmless. All of God's creatures, moving in the harmony of Science, are harmless, useful, indestructible. A realization of this grand verity was a source of strength to the ancient worthies. It supports Christian healing, and enables its possessor to emulate the example of Jesus. "And God saw that it was good."

11 . ۔ 261: 4۔7

برداشت، اچھائی اور سچائی کو مضبوطی سے تھام لیں تو آپ انہیں اپنے خیالات کے قبضے کے تناسب سے انہیں اپنے تجربات میں لائیں گے۔

11. 261 : 4-7

Hold thought steadfastly to the enduring, the good, and the true, and you will bring these into your experience proportionably to their occupancy of your thoughts.

12 . ۔ 369 :5۔13

اِس تناسب میں کہ انسانی فہم کے لئے جب مادا بطور انسان ساری ہستی کھو دیتا ہے تو اِسی تناسب میں وہ اِس کا مالک بن جاتا ہے۔وہ حقائق کے مزید الٰہی فہم میں داخل ہوجاتا ہے، اوروہ یسوع کی الٰہیات سمجھتا ہے جب یہ بیمار کو شفا دینے، مردے کو زندہ کرنے اور پانی پر چلنے سے ظاہر ہوئی۔اِن سب کاموں نے اِس عقیدے پر یسوع کے اختیار کو ظاہر کیا کہ مادا مواد ہے،کہ یہ زندگی کا ثالثی یا وجودیت کی کسی بھی شکل کو تعمیر کرنے والا ہو سکتا ہے۔

12. 369 : 5-13

In proportion as matter loses to human sense all entity as man, in that proportion does man become its master. He enters into a diviner sense of the facts, and comprehends the theology of Jesus as demonstrated in healing the sick, raising the dead, and walking over the wave. All these deeds manifested Jesus' control over the belief that matter is substance, that it can be the arbiter of life or the constructor of any form of existence.

13 . ۔ 368: 14۔19

جب ہم غلطی سے زیادہ زندگی کی سچائی پرایمان رکھتے ہیں، مادے سے زیادہ روح پر بھروسہ رکھتے ہیں، مرنے سے زیادہ جینے پر بھروسہ رکھتے ہیں، انسان سے زیادہ خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں، تو کوئی مادی مفرضے ہمیں بیماروں کو شفا دینے اور غلطی کو نیست کرنے سے نہیں روک سکتے۔

13. 368 : 14-19

When we come to have more faith in the truth of being than we have in error, more faith in Spirit than in matter, more faith in living than in dying, more faith in God than in man, then no material suppositions can prevent us from healing the sick and destroying error.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔