اتوار 15 مئی، 2022
”خدا کی بخشش ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔“
“The gift of God is eternal life through Jesus Christ our Lord.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
1۔ خداوند میرا چوپان ہے۔ مجھے کمی نہ ہو گی۔
2۔ وہ مجھے ہری ہری چراہگاہوں میں بٹھاتا ہے۔ وہ مجھے راحت کے چشموں کے پاس لے جاتا ہے۔
3۔ وہ میری جان کو بحال کرتا ہے۔ وہ مجھے اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں پر لے چلتا ہے۔
4۔ بلکہ خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گزر ہو میں کسی بلا سے نہیں ڈروں گا کیونکہ تْو میرے ساتھ ہے۔ تیرے عصا اور تیری لاٹھی سے مجھے تسلی ہے۔
5۔ تْو میرے دشمنوں کے روبرو میرے آگے دستر خوان بچھاتا ہے۔ تْو نے میرے سر پر تیل ملا ہے۔ میرا پیالہ لبریز ہوتا ہے۔
6۔ یقیناً بھلائی اور رحمت عمر بھر میرے ساتھ ساتھ رہیں گی اور میں ہمیشہ خداوند کے گھر میں سکونت کروں گا۔
1. The Lord is my shepherd; I shall not want.
2. He maketh me to lie down in green pastures: he leadeth me beside the still waters.
3. He restoreth my soul: he leadeth me in the paths of righteousness for his name’s sake.
4. Yea, though I walk through the valley of the shadow of death, I will fear no evil: for thou art with me; thy rod and thy staff they comfort me.
5. Thou preparest a table before me in the presence of mine enemies: thou anointest my head with oil; my cup runneth over.
6. Surely goodness and mercy shall follow me all the days of my life: and I will dwell in the house of the Lord for ever.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
16۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔
17۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اْس کے وسیلہ سے نجات پائے۔
16 God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.
17 For God sent not his Son into the world to condemn the world; but that the world through him might be saved.
1۔ پھر جب خداوند کو معلوم ہوا کہ فریسیوں نے سنا ہے کہ یسوع یوحنا سے زیادہ شاگرد کرتا اور بپتسمہ دیتا ہے۔
3۔تو وہ یہودیہ کو چھوڑ کر پھر گلیل کو چلا گیا۔
4۔اور اُس کو سامریہ سے ہو کر جاناضرور تھا۔
5۔ پس وہ سامریہ کے ایک شہر تک آیا جو سوخار کہلاتا ہے۔ وہ اُس قطہ کے نزدیک ہے جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دیا تھا۔
6۔اور یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔ چنانچہ یسوع سفر سے تھکاماندہ ہو کر اُس کنویں پر یونہی بیٹھ گیا۔ یہ چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔
7۔ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا مجھے پانی پلا۔
9۔ اُس سامری عورت نے اُس سے کہا کہ تو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے۔
10۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اگر تو خدا کی بخشش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ وہ کون ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پانی پلا تو تو اُس سے مانگتی اور وہ تجھے زندگی کا پانی دیتا۔
11۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کچھ ہے نہیں اور کنواں گہرا ہے۔ پھر وہ زندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا؟
13۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا جو کوئی اِس پانی میں سے پیتا ہے وہ پھر پیاسا ہو گا۔
14۔ مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پیئے گا جو میں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ جو پانی میں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائیگا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری ر ہے گا۔
15۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند وہ پانی مجھ کو دے تاکہ میں نہ پیاسی ہوں نہ پانی بھرنے کو یہاں تک آؤں۔
16۔ یسوع نے اُس سے کہا جا اپنے شوہر کو یہاں بُلا لا۔
17۔عورت نے جواب میں اُس سے کہا میں بے شوہر ہوں۔ یسوع نے اُس سے کہا تُونے خوب کہا کہ میں بے شوہر ہوں۔
18۔ کیونکہ تُو پانچ شوہر کر چکی ہے اور جس کے پاس تُواب ہے وہ تیرا شوہر نہیں یہ تُو نے سچ کہا۔
19۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تُو نبی ہے۔
20۔ ہمارے باپ دادا نے اِس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنا چاہیے یروشلم میں ہے۔
21۔ یسوع نے اُس سے کہا اے عورت! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلم میں۔
22۔ہم جسے جانتے ہیں اُس کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔
23۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔
24۔ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستارروح اور سچائی سے پرستش کریں۔
25۔عورت نے اُس سے کہا میں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرستُس کہلاتا ہے آنے والا ہے۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتادے گا۔
26۔ یسوع نے اُس سے کہا میں جو تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہوں۔
1 When therefore the Lord knew how the Pharisees had heard that Jesus made and baptized more disciples than John,
3 He left Judæa, and departed again into Galilee.
4 And he must needs go through Samaria.
5 Then cometh he to a city of Samaria, which is called Sychar, near to the parcel of ground that Jacob gave to his son Joseph.
6 Now Jacob’s well was there. Jesus therefore, being wearied with his journey, sat thus on the well: and it was about the sixth hour.
7 There cometh a woman of Samaria to draw water: Jesus saith unto her, Give me to drink.
9 Then saith the woman of Samaria unto him, How is it that thou, being a Jew, askest drink of me, which am a woman of Samaria? for the Jews have no dealings with the Samaritans.
10 Jesus answered and said unto her, If thou knewest the gift of God, and who it is that saith to thee, Give me to drink; thou wouldest have asked of him, and he would have given thee living water.
11 The woman saith unto him, Sir, thou hast nothing to draw with, and the well is deep: from whence then hast thou that living water?
13 Jesus answered and said unto her, Whosoever drinketh of this water shall thirst again:
14 But whosoever drinketh of the water that I shall give him shall never thirst; but the water that I shall give him shall be in him a well of water springing up into everlasting life.
15 The woman saith unto him, Sir, give me this water, that I thirst not, neither come hither to draw.
16 Jesus saith unto her, Go, call thy husband, and come hither.
17 The woman answered and said, I have no husband. Jesus said unto her, Thou hast well said, I have no husband:
18 For thou hast had five husbands; and he whom thou now hast is not thy husband: in that saidst thou truly.
19 The woman saith unto him, Sir, I perceive that thou art a prophet.
20 Our fathers worshipped in this mountain; and ye say, that in Jerusalem is the place where men ought to worship.
21 Jesus saith unto her, Woman, believe me, the hour cometh, when ye shall neither in this mountain, nor yet at Jerusalem, worship the Father.
22 Ye worship ye know not what: we know what we worship: for salvation is of the Jews.
23 But the hour cometh, and now is, when the true worshippers shall worship the Father in spirit and in truth: for the Father seeketh such to worship him.
24 God is a Spirit: and they that worship him must worship him in spirit and in truth.
25 The woman saith unto him, I know that Messias cometh, which is called Christ: when he is come, he will tell us all things.
26 Jesus saith unto her, I that speak unto thee am he.
44۔ یسوع نے پکار کر کہا کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مجھ پر نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہے۔
45۔ اور جو مجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتا ہے۔
46۔ مَیں نور ہو کر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔
47۔ اگر کوئی میری باتیں سن کر اْن پر عمل نہ کرے تو مَیں اْس کو مجرم نہیں ٹھہراتا کیونکہ مَیں دنیا کو مجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دنیا کو نجات دینے آیا ہوں۔
48۔ جو مجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبول نہیں کرتا اْس کا ایک مجرم ٹھرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کیا ہے وہی اْسے مجرم ٹھہرائے گا۔
49۔ کیونکہ مَیں نے کچھ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اْسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ کیا کہوں اور کیا بولوں۔
50۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ اْس کا حکم ہمیشہ کی زندگی ہے۔ پس جو کچھ مَیں کہتا ہوں جس طرح باپ نے مجھ سے فرمایا ہے اْسی طر ح کہتا ہوں۔
44 Jesus cried and said, He that believeth on me, believeth not on me, but on him that sent me.
45 And he that seeth me seeth him that sent me.
46 I am come a light into the world, that whosoever believeth on me should not abide in darkness.
47 And if any man hear my words, and believe not, I judge him not: for I came not to judge the world, but to save the world.
48 He that rejecteth me, and receiveth not my words, hath one that judgeth him: the word that I have spoken, the same shall judge him in the last day.
49 For I have not spoken of myself; but the Father which sent me, he gave me a commandment, what I should say, and what I should speak.
50 And I know that his commandment is life everlasting: whatsoever I speak therefore, even as the Father said unto me, so I speak.
1۔ پولوس جو ہمارے منجی اور خدا کے حکم سے مسیح یسوع کا رسول ہے۔
12۔ میں اپنے طاقت بخشنے والے خداوند یسوع مسیح کا شکر کرتا ہوں کہ اْس نے مجھے دیانتدار سمجھ کر اپنی خدمت کے لئے مقرر کیا۔
13۔ اگرچہ میں پہلے کفر بکنے والا اور ستانے والا اور بے عزت کرنے والا تھا تو بھی مجھ پر رحم ہوا اس واسطے کہ میں نے بے ایمانی کی حالت میں نادانی سے یہ کام کئے تھے۔
14۔ اور ہمارے خداوند کا فضل اْس ایمان اور محبت کے ساتھ جو مسیح یسوع میں ہے بہت زیادہ ہوا ہے۔
15۔ یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوع گناہگاروں کو نجات دینے کے لئے دنیا میں آیا جن میں سب سے بڑا مَیں ہوں۔
16۔ لیکن مجھ پر رحم اس لئے ہوا کہ مسیح یسوع مجھ بڑے گناہگار پر اپنا کمال تحمل ظاہر کرے تاکہ جو لوگ ہمیشہ کی زندگی کے لئے اْس پر ایمان لائیں گے اْن کے لئے میں نمونہ بنوں۔
1 Paul, an apostle of Jesus Christ by the commandment of God our Saviour,
12 I thank Christ Jesus our Lord, who hath enabled me, for that he counted me faithful, putting me into the ministry;
13 Who was before a blasphemer, and a persecutor, and injurious: but I obtained mercy, because I did it ignorantly in unbelief.
14 And the grace of our Lord was exceeding abundant with faith and love which is in Christ Jesus.
15 This is a faithful saying, and worthy of all acceptation, that Christ Jesus came into the world to save sinners; of whom I am chief.
16 Howbeit for this cause I obtained mercy, that in me first Jesus Christ might shew forth all longsuffering, for a pattern to them which should hereafter believe on him to life everlasting.
50۔ اے بھائیو! میرا مطلب یہ ہے کہ گوشت اور خون خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہو سکتے اور نہ فنا بقا کی وارث ہو سکتی ہے۔
51۔ دیکھو میں تم سے بھید کی بات کہتا ہوں۔ ہم سب تو نہیں سوئیں گے مگر سب بدل جائیں گے۔
52۔ اور یہ ایک دم میں۔ ایک پل میں۔ پچھلا نرسنگا پھونکتے ہی ہوگا کیونکہ نرسنگا پھونکا جائے گا اور مردے غیر فانی حالت میں اْٹھیں گے اور ہم بدل جائیں گے۔
53۔ کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے اور مرنے والا جسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہنے۔
54۔ اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیات ِ ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوگا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لْقمہ ہو گئی۔
55۔ اے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟
56۔ موت کا ڈنک گناہ ہے اور گناہ کا زور شریعت ہے۔
57۔ مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔
50 Now this I say, brethren, that flesh and blood cannot inherit the kingdom of God; neither doth corruption inherit incorruption.
51 Behold, I shew you a mystery; We shall not all sleep, but we shall all be changed,
52 In a moment, in the twinkling of an eye, at the last trump: for the trumpet shall sound, and the dead shall be raised incorruptible, and we shall be changed.
53 For this corruptible must put on incorruption, and this mortal must put on immortality.
54 So when this corruptible shall have put on incorruption, and this mortal shall have put on immortality, then shall be brought to pass the saying that is written, Death is swallowed up in victory.
55 O death, where is thy sting? O grave, where is thy victory?
56 The sting of death is sin; and the strength of sin is the law.
57 But thanks be to God, which giveth us the victory through our Lord Jesus Christ.
۔۔۔ کرسچن سائنس میں حقیقی انسان پر خدا یعنی اچھائی حکومت کرتی ہے نہ کہ بدی، اور اسی لئے وہ فانی نہیں بلکہ لافانی ہے۔
…in Christian Science the true man is governed by God — by good, not evil — and is therefore not a mortal but an immortal.
خدا کائنات کو،بشمول انسان،خلق کرتا اور اْس پر حکومت کرتا ہے، یہ کائنات روحانی خیالات سے بھری پڑی ہے، جنہیں وہ تیار کرتا ہے، اور وہ اْس عقل کی فرمانبرداری کرتے ہیں جو انہیں بناتے ہیں۔ فانی عقل مادی کو روحانی میں تبدیل کر دے گی، اور پھر انسان کی اصل خودی کو غلطی کی فانیت سے رہا کرنے کے لئے ٹھیک کرے گی۔ فانی لوگ غیر فانیوں کی مانند خدا کی صورت پر پیدا نہیں کئے گئے، بلکہ لامحدود روحانی ہستی کی مانند فانی ضمیر بالا آخر سائنسی حقیقت کو تسلیم کرے گا اور غائب ہو جائے گا،اور ہستی کا،کامل اور ہمیشہ سے برقرار حقیقی فہم سامنے آئے گا۔
God creates and governs the universe, including man. The universe is filled with spiritual ideas, which He evolves, and they are obedient to the Mind that makes them. Mortal mind would transform the spiritual into the material, and then recover man's original self in order to escape from the mortality of this error. Mortals are not like immortals, created in God's own image; but infinite Spirit being all, mortal consciousness will at last yield to the scientific fact and disap-pear, and the real sense of being, perfect and forever intact, will appear.
انسانی پیدائش، بالیدگی، بلوغت اورزوال اْس گھاس کی مانند ہیں جو سبز پتوں کے ساتھ مٹی میں سے اگتی ہے، تاکہ بعد میں مرجھا ئے اور اپنے آبائی عدم میں لوٹ جائے۔ یہ فانی اظہار عارضی ہے، یہ لافانی ہستی میں کبھی ضم نہیں ہوتا، بلکہ بالاآخر ختم ہو جاتا ہے، اور فانی انسان، روحانی اور ابدی، حقیقی انسان ہی سمجھا جاتا ہے۔
Human birth, growth, maturity, and decay are as the grass springing from the soil with beautiful green blades, afterwards to wither and return to its native nothingness. This mortal seeming is temporal; it never merges into immortal being, but finally disappears, and immortal man, spiritual and eternal, is found to be the real man.
بشر لافانیوں کا فریب ہیں۔ وہ بدکرداروں، یا بدوں کی اولاد ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان مٹی سے شروع ہوایا مادی ایمبریو کے طور پر پیدا ہوا ہے۔ الٰہی سائنس میں، خدااور حقیقی انسان الٰہی اصول اور خیال کی مانند ناقابل غیر مْنفک ہیں۔
خدا انسان کا اصول ہے، اور انسان خدا کا خیال ہے۔ لہٰذہ انسان نہ فانی ہے نہ مادی ہے۔فانی غائب ہو جائیں گے اور لافانی یا خدا کے فرزند انسان کی واحد اور ابدی سچائیوں کے طور پر سامنے آئیں گے۔ فانی بشر خدا کے گرائے گئے فرزند نہیں ہیں۔ وہ کبھی بھی ہستی کی کامل حالت میں نہیں تھے، جسے بعد ازیں دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔فانی تاریخ کے آغاز سے انہوں نے ”بدی میں حالت پکڑی اور گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑے۔“آخر کار فانیت غیر فانیت کے باعث ہڑپ کر لی جاتی ہے۔ جو حقائق غیر فانی انسان سے تعلق رکھتے ہیں انہیں جگہ فراہم کرنے کے لئے گناہ، بیماری اور موت کوغائب ہونا چاہئے۔
خدا کے لوگوں سے متعلق، نہ کہ انسان کے بچوں سے متعلق، بات کرتے ہوئے یسوع نے کہا، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے؛“ یعنی سچائی اور محبت حقیقی انسان پر سلطنت کرتی ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انسان خدا کی صورت پر بے گناہ اور ابدی ہے۔
Mortals are the counterfeits of immortals. They are the children of the wicked one, or the one evil, which declares that man begins in dust or as a material embryo. In divine Science, God and the real man are inseparable as divine Principle and idea.
Hence man is not mortal nor material. Mortals will disappear, and immortals, or the children of God, will appear as the only and eternal verities of man. Mortals are not fallen children of God. They never had a perfect state of being, which may subsequently be regained. They were, from the beginning of mortal history, "conceived in sin and brought forth in iniquity." Mortality is finally swallowed up in immortality. Sin, sickness, and death must disappear to give place to the facts which belong to immortal man.
When speaking of God's children, not the children of men, Jesus said, "The kingdom of God is within you;" that is, Truth and Love reign in the real man, showing that man in God's image is unfallen and eternal.
ترقی تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ فانی انسان کی پختگی ہے، جس کے وسیلہ لافانی کی خاطر فانی بشر کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خواہ یہاں یا اس کے بعد، تکالیف یا سائنس کو زندگی اور عقل کے حوالے سے تمام تر فریب نظری کو ختم کر دینا چاہئے، او ر مادی فہم اور خودی کو از سرے نو پیدا کرنا چاہئے۔پرانی انسانیت کو اْس کے اعمال کے ساتھ منسوخ کر دینا چاہئے۔ کوئی بھی نفس پرستی یا گناہ آلود چیز لافانی نہیں ہے۔یہ مادے کی موت نہیں بلکہ جھوٹے مادی فہم اور گناہ کی موت ہی ہے جسے انسان اور زندگی ہم آہنگ، حقیقی اور ابدی ظاہر کرتے ہیں۔
Progress is born of experience. It is the ripening of mortal man, through which the mortal is dropped for the immortal. Either here or hereafter, suffering or Science must destroy all illusions regarding life and mind, and regenerate material sense and self. The old man with his deeds must be put off. Nothing sensual or sinful is immortal. The death of a false material sense and of sin, not the death of organic matter, is what reveals man and Life, harmonious, real, and eternal.
”موت کا ڈنک گناہ ہے اور گناہ کا زور شریعت ہے“، فانی عقیدے کی شریعت جو لافانی زندگی کے حقائق کے ساتھ جنگ کرتی ہے، حتیٰ کہ روحانی شریعت کے ساتھ بھی جو قبرکو کہتی ہے، ”تیری فتح کہاں رہی؟“ لیکن ”اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوگا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لْقمہ ہوگئی۔“
"The sting of death is sin; and the strength of sin is the law," — the law of mortal belief, at war with the facts of immortal Life, even with the spiritual law which says to the grave, "Where is thy victory?" But "when this corruptible shall have put on incorruption, and this mortal shall have put on immortality, then shall be brought to pass the saying that is written, Death is swallowed up in victory."
ایک بڑی روحانی حقیقت سامنے لائی جانی چاہئے کہ انسان کامل اور لافانی ہوگا نہیں بلکہ ہے۔ ہمیں وجودیت کے شعور کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے اور جلد یا بدیر، مسیح اور کرسچن سائنس کے وسیلہ گناہ اور موت پر حاکم ہونا چاہئے۔ جب مادی عقائد کو ترک کیا جاتا ہے اورہستی کے غیر فانی حقائق کو قبول کر لیا جاتا ہے تو انسان کی لافانیت کی شہادت مزید واضح ہو جاتی ہے۔
The great spiritual fact must be brought out that man is, not shall be, perfect and immortal. We must hold forever the consciousness of existence, and sooner or later, through Christ and Christian Science, we must master sin and death. The evidence of man's immortality will become more apparent, as material beliefs are given up and the immortal facts of being are admitted.
زندگی ابدی ہے۔ ہمیں اس کی تلاش کرنی چاہئے اور اس سے اظہار کا آغاز کرنا چاہئے۔ زندگی اور اچھائی لافانی ہیں۔ توآئیے ہم وجودیت سے متعلق ہمارے خیالات کوعمر اور خوف کی بجائے محبت، تازگی اور تواتر کے ساتھ تشکیل دیں۔
Life is eternal. We should find this out, and begin the demonstration thereof. Life and goodness are immortal. Let us then shape our views of existence into loveliness, freshness, and continuity, rather than into age and blight.
خوبصورتی، اس کے ساتھ ساتھ سچائی بھی، ابدی ہیں؛ لیکن مادی چیزوں کی خوبصورتی،فانی یقین کی مانند دھندلا تے اور عارضی ہوتے ہوئے، ختم ہو جاتی ہے۔ رواج، تعلیم اور فیشن فانی انسانوں کے عارضی معیار تشکیل دیتے ہیں۔ لافانیت، عمر اور فنا پذیری سے مستثنیٰ ہو تے ہوئے، اپنا جلال آپ،یعنی روح کی چمک رکھتی ہے۔غیر فانی مرد اور خواتین روحانی حس کا نمونہ ہوتے ہیں جو کامل عقل سے اور پاکیزگی کے اْن بلند نظریات کی عکاسی کرنے سے بنائے جاتے ہیں جو مادی حس سے بالا تر ہوتے ہیں۔
Beauty, as well as truth, is eternal; but the beauty of material things passes away, fading and fleeting as mortal belief. Custom, education, and fashion form the transient standards of mortals. Immortality, exempt from age or decay, has a glory of its own, — the radiance of Soul. Immortal men and women are models of spiritual sense, drawn by perfect Mind and reflecting those higher conceptions of loveliness which transcend all material sense.
بے گناہ خوشی، زندگی کی کامل ہم آہنگی اور لافانیت، ایک بھی جسمانی تسکین یا درد کے بِنا لامحدود الٰہی خوبصورتی اور اچھائی کی ملکیت رکھتے ہوئے، اصلی اور لازوال انسان تشکیل دیتی ہے، جس کا وجود روحانی ہوتا ہے۔ وجودیت کی یہ حالت سائنسی ہے اور برقرار ہے، یعنی ایسی کاملیت جو محض اْن لوگوں کے لئے قابل فہم ہے جنہیں الٰہی سائنس میں مسیح کی حتمی سمجھ ہے۔ موت وجودیت کی اس حالت کو کبھی تیز نہیں کر سکتی کیونکہ لافانیت کے ظاہر ہونے سے قبل موت پر فتح مند ہونا چاہئے نہ کہ اْس کے سپرد ہونا چاہئے۔
The sinless joy, — the perfect harmony and immortality of Life, possessing unlimited divine beauty and goodness without a single bodily pleasure or pain, — constitutes the only veritable, indestructible man, whose being is spiritual. This state of existence is scientific and intact, — a perfection discernible only by those who have the final understanding of Christ in divine Science. Death can never hasten this state of existence, for death must be overcome, not submitted to, before immortality appears.
جب بیماری یا گناہ کا بھرم آپ کو آزماتا ہے تو خدا اور اْس کے خیال کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ منسلک رہیں۔ اْس کے مزاج کے علاوہ کسی چیز کو آپ کے خیال میں قائم ہونے کی اجازت نہ دیں۔ کسی خوف یا شک کو آپ کے اس واضح اورمطمین بھروسے پر حاوی نہ ہونے دیں کہ پہچانِ زندگی کی ہم آہنگی، جیسے کہ زندگی ازل سے ہے، اس چیز کے کسی بھی درد ناک احساس یا یقین کو تبا ہ کر سکتی ہے جو زندگی میں ہے ہی نہیں۔جسمانی حس کی بجائے کرسچن سائنس کو ہستی سے متعلق آپ کی سمجھ کی حمایت کرنے دیں، اور یہ سمجھ غلطی کو سچائی کے ساتھ اکھاڑ پھینکے گی، فانیت کوغیر فانیت کے ساتھ تبدیل کرے گی، اور خاموشی کی ہم آہنگی کے ساتھ مخالفت کرے گی۔
When the illusion of sickness or sin tempts you, cling steadfastly to God and His idea. Allow nothing but His likeness to abide in your thought. Let neither fear nor doubt overshadow your clear sense and calm trust, that the recognition of life harmonious — as Life eternally is — can destroy any painful sense of, or belief in, that which Life is not. Let Christian Science, instead of corporeal sense, support your understanding of being, and this understanding will supplant error with Truth, replace mortality with immortality, and silence discord with harmony.
سائنس اْس لافانی انسان کے جلالی امکانات کو ظاہر کرتی ہے جو ہمیشہ کے لئے فانی حواس کی طرف سے لامحدود ہوتا ہے۔
r="rtl">چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔Science reveals the glorious possibilities of immortal man, forever unlimited by the mortal senses.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████