اتوار 17 نومبر ، 2024



مضمون۔ فانی اور لافانی

SubjectMortals And Immortals

سنہری متن: 1 سلاطین 18 باب21 آیت

تم کب تک دو خیالوں میں ڈانواڈول رہو گے؟ اگر خداوند ہی خدا ہے تو اُس کے پیرو ہو جاؤ۔



Golden Text: I Kings 18 : 21

How long halt ye between two opinions? if the Lord be God, follow him.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: 1 کرنتھیوں 15 باب50، 51، 53، 54 آیات • رومیوں 8باب31 آیت


50۔ اے بھائیو! میرا مطلب یہ ہے کہ گوشت اور خون خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہو سکتے اور نہ فنا بقا کی وارث ہو سکتی ہے۔

51۔ دیکھو میں تم سے بھید کی بات کہتا ہوں۔ ہم سب تو نہیں سوئیں گے مگر سب بدل جائیں گے۔

53۔ کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے اور مرنے والا جسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہنے۔

54۔ اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیات ِ ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوگا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لْقمہ ہو گئی۔

31۔ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟

Responsive Reading: I Corinthians 15 : 50, 51, 53, 54   •   Romans 8 : 31

50.     Now this I say, brethren, that flesh and blood cannot inherit the kingdom of God; neither doth corruption inherit incorruption.

51. Behold, I shew you a mystery; We shall not all sleep, but we shall all be changed,

53.     For this corruptible must put on incorruption, and this mortal must put on immortality.

54.     So when this corruptible shall have put on incorruption, and this mortal shall have put on immortality, then shall be brought to pass the saying that is written, Death is swallowed up in victory.

31.     If God be for us, who can be against us?



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ 1 کرنتھیوں 15 باب10 (سے) (تا پہلی:)، 22، 45تا49، 58 آیات

10۔۔۔۔ جو کچھ ہوں خدا کے فضل سے ہوں۔

22۔ اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے۔

45۔ چنانچہ لکھا بھی ہے کہ پہلا آدمی یعنی آدم زاد نفس بنا۔ پچھلا آدمی زندگی بخشنے والی روح بنا۔

46۔ لیکن روحانی پہلے نہ تھا بلکہ نفسانی تھا۔ اْس کے بعد روحانی ہوا۔

47۔ پہلا آدمی زمین سے یعنی خاکی تھا۔ دوسرا آسمانی ہے۔

48۔ جیسا وہ خاکی تھا ویسے ہی اور خاکی بھی ہیں۔ اور جیسا وہ آسمانی تھا ویسا ہی وہ آسمانی بھی ہے۔

49۔ اور جس طرح ہم اِس خاکی کی صورت پر ہوئے اْسی طرح اْس آسمانی کی صورت پر بھی ہوں گے۔

58۔ پس اے میرے عزیز بھائیو! ثابت قدم اور قائم رہو اور خداوند کے کام میں ہمیشہ افزائش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تمہاری محنت خداوند میں بے فائدہ نہیں ہے۔

1. I Corinthians 15 : 10 (by) (to 1st :), 22, 45-49, 58

10     ... by the grace of God I am what I am:

22     For as in Adam all die, even so in Christ shall all be made alive.

45     And so it is written, The first man Adam was made a living soul; the last Adam was made a quickening spirit.

46     Howbeit that was not first which is spiritual, but that which is natural; and afterward that which is spiritual.

47     The first man is of the earth, earthy: the second man is the Lord from heaven.

48     As is the earthy, such are they also that are earthy: and as is the heavenly, such are they also that are heavenly.

49     And as we have borne the image of the earthy, we shall also bear the image of the heavenly.

58     Therefore, my beloved brethren, be ye stedfast, unmoveable, always abounding in the work of the Lord, forasmuch as ye know that your labour is not in vain in the Lord.

2 . ۔ استثنا 5 باب1، 2 (تا ہمیں)، 4، 5 (کہتے ہیں)، 6تا8 (تا پہلی)، 9 (تتا دوسری)، 10 (دکھانا)، 23تا25 (تا؟)، 32، 33 (تا تیسری) آیات

1۔ پھر موسیٰ نے سب اسرائیلیوں کو بلوا کر اْن کو کہا اے اسرائیلیو! تم اْن آئین اور احکام کو سن لو جن کو مَیں آج تم کو سناتا ہوں تاکہ تم اْن کو سیکھ کر اْن پر عمل کرو۔

2۔ خداوند ہمارے خدا نے۔۔۔ہم سے ایک عہد باندھا۔

4۔ خداوند نے تم سے اْس پہاڑ پر روبرو آگ کے بیچ میں سے باتیں کیں۔

5۔۔۔۔۔اور کہا۔

6۔ خداوند تیرا خدا جو تجھ کو ملک مصر یعنی غلامی کے گھر سے نکال لایا مَیں ہوں۔

7۔ میرے آگے تْو اور معبودوں کو نہ ماننا۔

8۔ تْو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنایا،

9۔ تْو اْن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اْن کی عبادت کرنا کیونکہ مَیں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں۔

10۔۔۔۔ہزاروں پر جو مجھ سے محبت رکھتے اور میرے حکموں کو مانتے ہیں رحم کرتا ہوں۔

23۔ اور جب وہ پہاڑ آگ سے دہک رہا تھا اور تم نے وہ آواز اندھیرے میں سے آتی سنی تو تم اور تمہارے قبیلوں کے سردار اور بزرگ میرے پاس آئے۔

24۔ اور تم کہنے لگے کہ خداوند ہمارے خدا نے اپنی شوکت اور عظمت ہم کو دکھائی اور ہم نے اْس کی آواز آگ میں سے آتی سنی۔ آج ہم نے دیکھ لیا کہ خداوند انسان سے باتیں کرتا ہے تو بھی انسان زندہ رہتا ہے۔

25۔ سو اب ہم اپنی جان کیوں دیں۔

32۔ سو تم احتیاط رکھنا اور جیسا تمہارے خداوند خدا نے تم کو حکم دیا ہے ویسا ہی کرنا اور دہنے یا بائیں ہاتھ کو نہ مڑنا۔

33۔ تم اْس سارے طریق پر جس کا حکم خداوند تمہارے خدا نے تم کو دیا ہے چلنا تاکہ تم جیتے رہو اور تمہارا بھلا ہو۔

2. Deuteronomy 5 : 1, 2 (to us), 4, 5 (saying), 6-8 (to 1st ,), 9 (to 2nd ,), 10 (shewing), 23-25 (to ?), 32, 33 (to 3rd ,)

1     And Moses called all Israel, and said unto them, Hear, O Israel, the statutes and judgments which I speak in your ears this day, that ye may learn them, and keep, and do them.

2     The Lord our God made a covenant with us ...

4     The Lord talked with you face to face in the mount out of the midst of the fire,

5     ... saying,

6     I am the Lord thy God, which brought thee out of the land of Egypt, from the house of bondage.

7     Thou shalt have none other gods before me.

8     Thou shalt not make thee any graven image,

9     Thou shalt not bow down thyself unto them, nor serve them: for I the Lord thy God am a jealous God,

10     ... shewing mercy unto thousands of them that love me and keep my commandments.

23     And it came to pass, when ye heard the voice out of the midst of the darkness, (for the mountain did burn with fire,) that ye came near unto me, even all the heads of your tribes, and your elders;

24     And ye said, Behold, the Lord our God hath shewed us his glory and his greatness, and we have heard his voice out of the midst of the fire: we have seen this day that God doth talk with man, and he liveth.

25     Now therefore why should we die?

32     Ye shall observe to do therefore as the Lord your God hath commanded you: ye shall not turn aside to the right hand or to the left.

33     Ye shall walk in all the ways which the Lord your God hath commanded you, that ye may live, and that it may be well with you,

3 . ۔ یوحنا 5باب2تا9، 16، 17، 24 (تا چھٹی)، 26، 39، 40، 46، 47 آیات

2۔ یروشلیم میں بھیڑ دروازے کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیتِ سدا کہلاتا ہے اور اْس کے پانچ برآمدے ہیں۔

3۔ اِن میں بہت سے بیمار اور اندھے اور لنگڑے اور پژمردہ لوگ پانی کے ہلنے کے منتظر ہوکر پڑے تھے۔

4۔ کیونکہ ایک وقت پر خداوند کا فرشتہ حوض پر اْتر کر پانی کو ہلایا کرتا تھا۔ پانی ہلتے ہی جو کوئی پہلے اْترتا تھا سو شفا پاتا خواہ اْس کی جو کچھ بیماری کیوں نہ ہو۔

5۔وہاں ایک شخص تھا جو اڑتیس برس سے بیماری میں مبتلا تھا۔

6۔ اْس کو یسوع نے پڑا دیکھ کر اور یہ جان کر کہ وہ بڑی مدت سے اس حالت میں ہے اْس سے کہا کیا تْو تندرست ہونا چاہتا ہے؟

7۔ اْس بیمار نے اْسے جواب دیا۔ اے خداوند میرے پاس کوئی آدمی نہیں کہ جب پانی ہلایا جائے تو مجھے حوض میں اْتار دے بلکہ میرے پہنچتے پہنچتے دوسرا مجھ سے پہلے اْتر پڑتا ہے۔

8۔ یسوع نے اْس سے کہا اْٹھ اور اپنی چار پائی اْٹھا کر چل پھر۔

9۔ وہ شخص فوراً تندرست ہو گیا اور اپنی چار پائی اْٹھا کر چلنے پھرنے لگا۔ وہ دن سبت کا تھا۔

16۔ اِس لئے یہودی یسوع کو ستانے لگے کیونکہ وہ ایسے کام سبت کے دن کرتا تھا۔

17۔ لیکن یسوع نے اْن سے کہا کہ میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہوں۔

24۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا ہے اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اْس کی ہے اور اْس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔

26۔ کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اْسی طرح اْس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔

39۔ تم کتابِ مقدس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اْس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔

40۔ مَیں آدمیوں سے عزت نہیں چاہتا۔

46۔ کیونکہ اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے۔ اِس لئے کہ اْس نے میرے حق میں لکھا۔

47۔ لیکن جب تم اْس کے نوشتوں کا یقین نہیں کرتے تو میری باتوں کا یقین کیونکر کرو گے؟

3. John 5 : 2-9, 16, 17, 24 (to 6th ,), 26, 39, 40, 46, 47

2     Now there is at Jerusalem by the sheep market a pool, which is called in the Hebrew tongue Bethesda, having five porches.

3     In these lay a great multitude of impotent folk, of blind, halt, withered, waiting for the moving of the water.

4     For an angel went down at a certain season into the pool, and troubled the water: whosoever then first after the troubling of the water stepped in was made whole of whatsoever disease he had.

5     And a certain man was there, which had an infirmity thirty and eight years.

6     When Jesus saw him lie, and knew that he had been now a long time in that case, he saith unto him, Wilt thou be made whole?

7     The impotent man answered him, Sir, I have no man, when the water is troubled, to put me into the pool: but while I am coming, another steppeth down before me.

8     Jesus saith unto him, Rise, take up thy bed, and walk.

9     And immediately the man was made whole, and took up his bed, and walked: and on the same day was the sabbath.

16     And therefore did the Jews persecute Jesus, and sought to slay him, because he had done these things on the sabbath day.

17     But Jesus answered them, My Father worketh hitherto, and I work.

24     Verily, verily, I say unto you, He that heareth my word, and believeth on him that sent me, hath everlasting life,

26     For as the Father hath life in himself; so hath he given to the Son to have life in himself;

39     Search the scriptures; for in them ye think ye have eternal life: and they are they which testify of me.

40     And ye will not come to me, that ye might have life.

46     For had ye believed Moses, ye would have believed me: for he wrote of me.

47     But if ye believe not his writings, how shall ye believe my words?

4 . ۔ رومیوں 8 باب5، 9 (تا پہلی)، 11، 14تا17 (تا دوسری؛)، 35، 37تا39 آیات

5۔کیونکہ جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں لیکن جو روحانی ہیں وہ روحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں۔

9۔ لیکن تم جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوبشرطیکہ خدا کا روح تم میں بسا ہو اہے۔

11۔ لیکن اگر اْسی کا روح تم میں بسا ہوا ہے جس نے یسوع کو مردوں میں سے جلایا تو جس نے مسیح یسوع کو مردوں میں سے جلایا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اْس روح کے وسیلہ زندہ کرے گا جو تم میں بسا ہوا ہے۔

14۔ اِس لئے کہ جتنے خدا کی روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں۔

15۔ کیونکہ تم کو غلامی کی روح نہیں ملی جس سے پھر ڈر پیدا ہو بلکہ لے پالک ہونے کی روح ملی جس سے ہم ابا یعنی اے باپ کہہ کر پکارتے ہیں۔

16۔ روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔

17۔ اور اگر فرزند ہیں تو وارث بھی ہیں یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث۔

35۔ کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال نہ ننگا پن یا خطرہ یا تلوار؟

37۔ مگر اْن سب حالتوں میں اْس کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کے غلبہ حاصل ہوتا ہے۔

38۔ کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی محبت جو ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہے اْس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی۔

39۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں۔ نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق۔

4. Romans 8 : 5, 9 (to 1st .), 11, 14-17 (to 2nd ;), 35, 37-39

5     For they that are after the flesh do mind the things of the flesh; but they that are after the Spirit the things of the Spirit.

9     But ye are not in the flesh, but in the Spirit, if so be that the Spirit of God dwell in you.

11     But if the Spirit of him that raised up Jesus from the dead dwell in you, he that raised up Christ from the dead shall also quicken your mortal bodies by his Spirit that dwelleth in you.

14     For as many as are led by the Spirit of God, they are the sons of God.

15     For ye have not received the spirit of bondage again to fear; but ye have received the Spirit of adoption, whereby we cry, Abba, Father.

16     The Spirit itself beareth witness with our spirit, that we are the children of God:

17     And if children, then heirs; heirs of God, and joint-heirs with Christ;

35     Who shall separate us from the love of Christ? shall tribulation, or distress, or persecution, or famine, or nakedness, or peril, or sword?

37     Nay, in all these things we are more than conquerors through him that loved us.

38     For I am persuaded, that neither death, nor life, nor angels, nor principalities, nor powers, nor things present, nor things to come,

39     Nor height, nor depth, nor any other creature, shall be able to separate us from the love of God, which is in Christ Jesus our Lord.

5 . ۔ 1 تمیتھیس 1باب17 (تا دوسری) آیت

17۔ اب ازلی بادشاہ یعنی غیر فانی نادیدہ واحد خدا کی عزت اور تمجید ابد الا آباد ہوتی رہے۔ آمین۔

5. I Timothy 1 : 17 (to 2nd .)

17     Now unto the King eternal, immortal, invisible, the only wise God, be honour and glory for ever and ever. Amen.



سائنس اور صح


1 . ۔ 42 :26 (میں)۔28

۔۔۔ کرسچن سائنس میں حقیقی انسان پر خدا یعنی اچھائی حکومت کرتی ہے نہ کہ بدی، اور اسی لئے وہ فانی نہیں بلکہ لافانی ہے۔

1. 42 : 26 (in)-28

... in Christian Science the true man is governed by God — by good, not evil — and is therefore not a mortal but an immortal.

2 . ۔ 14 :5۔11

ہم ”دو مالکوں کی غلامی“ نہیں کر سکتے۔ ”خداوند کے وطن“ میں رہنا محض جذباتی خوشی یا ایمان رکھنا نہیں بلکہ زندگی کا اصل اظہار اور سمجھ رکھنا ہے جیسا کہ کرسچن سائنس میں ظاہر کیا گیا ہے۔ ”خداوند کے وطن“ میں رہنا خدا کی شریعت کا فرمانبردار ہونا، مکمل طور پر الٰہی محبت کی، روح کی نہ کہ مادے کی،حکمرانی میں رہنا ہے۔

2. 14 : 5-11

We cannot "serve two masters." To be "present with the Lord" is to have, not mere emotional ecstasy or faith, but the actual demonstration and understanding of Life as revealed in Christian Science. To be "with the Lord" is to be in obedience to the law of God, to be absolutely governed by divine Love, — by Spirit, not by matter.

3 . ۔ 72 :1۔6، 9 (جیسے)۔19، 21۔23، 32۔1

صرف ایک روحانی وجود ہے، وہ جس کا جسمانی ا حساس کوئی سمجھ نہیں رکھتا۔انسان کا الٰہی اصول لافانی فہم کے وسیلہ بات کرتا ہے۔ اگر ایک مادی بدن، دوسرے لفظوں میں، فانی، مادی فہم، روح کے وسیلہ پھیلا ہوا ہے، تو وہ بدن فانی فہم میں غائب ہوجائے گا، لازوال ہوجائے گا۔

جیسے روشنی اندھیرے کو نیست کرتی ہے اور اْس اندھیرے کی جگہ ہر طرف روشنی ہوتی ہے، ویسے ہی (مطلق سائنس میں) جان، یا خدا اکیلا ہی انسان کو سچائی دینے والا ہے۔ سچائی فانی کو نیست کرتی، اور لافانی کو روشنی میں لاتی ہے۔ فانی عقیدہ (زندگی کا مادی فہم) اور لافانی سچائی (روحانی فہم) گیہوں اور دانے ہیں، جو ترقی سے متحد نہیں ہوتے بلکہ الگ ہوتے ہیں۔

کاملیت کا اظہار ناکاملیت سے نہیں ہوتا۔ روح کا مادے، روح کے مخالف، کے وسیلہ اظہار نہیں کیا جاتا۔

خدائی ہستی، اچھائی، ہمیشہ سے موجود ہے، یہ الٰہی منطق میں مانتی ہے کہ بدی، اچھائی کی فرضی مخالف، کبھی موجود نہیں ہے۔۔۔۔ جیسے آسانی سے آپ آگ اور ٹھنڈ کو ملا سکتے ہیں روح اور مادے کو بھی ملا سکتے ہیں۔

3. 72 : 1-6, 9 (As)-19, 21-23, 32-1

There is but one spiritual existence, — the Life of which corporeal sense can take no cognizance. The divine Principle of man speaks through immortal sense. If a material body — in other words, mortal, material sense — were permeated by Spirit, that body would disappear to mortal sense, would be deathless.

As light destroys darkness and in the place of darkness all is light, so (in absolute Science) Soul, or God, is the only truth-giver to man. Truth destroys mortality, and brings to light immortality. Mortal belief (the material sense of life) and immortal Truth (the spiritual sense) are the tares and the wheat, which are not united by progress, but separated.

Perfection is not expressed through imperfection. Spirit is not made manifest through matter, the antipode of Spirit.

God, good, being ever present, it follows in divine logic that evil, the suppositional opposite of good, is never present. ... As readily can you mingle fire and frost as Spirit and matter.

4 . ۔ 169 :16۔2

اگر ہم نے بدن پر عقل کا اختیار سمجھا ہے تو ہمیں مادی ذرائع پر ایمان نہیں رکھنا چاہئے۔

سائنس نہ صرف سب بیماریوں کا منبع دماغی قرار دیتی ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ سب بیماریاں الٰہی عقل سے شفا پاتی ہیں۔اس عقل کے علاوہ کسی اور چیز سے شفا نہیں ہوتی، خواہ ہم کتنا ہی کسی دوا یا اس حوالے سے کسی ذرائع پر بھروسہ کیوں نہ کرتے ہوں جس کی طرف انسانی کوشش یا ایمان راہنمائی دیتا ہے۔مادیت سے جو کچھ بھی بیمار کو حاصل ہوتا دکھائی دیتا ہے یہ فانی عقل ہی ہے جو اْس کے لئے لاتی ہے نہ کہ مادا لاتا ہے۔لیکن بیمار الٰہی طاقت کے علاوہ کسی اور چیز سے شفا نہیں پاتے۔ صرف سچائی، زندگی اور محبت کے کام ہم آہنگی لا سکتے ہیں۔

جو کچھ بھی انسان کو الٰہی عقل کی بجائے دیگر طاقتوں کو ماننے اور دوسرے قوانین کی پاسداری کرنے کی تعلیم دیتا ہے وہ مخالفِ مسیح ہے۔ایک زہریلی دوائی جو نیکی کرتی دکھائی دیتی ہے وہ بدی ہے، کیونکہ یہ انسان کا خدا، قادرِ مطلق عقل،پر انحصار چْراتی ہے اور ایمان کے مطابق، انسانی نظام کو زہر دیتی ہے۔

4. 169 : 16-2

If we understood the control of Mind over body, we should put no faith in material means.

Science not only reveals the origin of all disease as mental, but it also declares that all disease is cured by divine Mind. There can be no healing except by this Mind, however much we trust a drug or any other means towards which human faith or endeavor is directed. It is mortal mind, not matter, which brings to the sick whatever good they may seem to receive from materiality. But the sick are never really healed except by means of the divine power. Only the action of Truth, Life, and Love can give harmony.

Whatever teaches man to have other laws and to acknowledge other powers than the divine Mind, is anti-Christian. The good that a poisonous drug seems to do is evil, for it robs man of reliance on God, omnipotent Mind, and according to belief, poisons the human system.

5 . ۔ 170: 3۔6

مادے کے طور طریقے نہ اخلاقی اور نہ ہی روحانی نظام بناتے ہیں۔وہ اختلاف جو مادی طریقوں کا مطالبہ کرتا ہے وہ مادی طریقوں پر ایمان کی مشق، یعنی روح کی بجائے مادے پر ایمان کی مشق کا نتیجہ ہے۔

5. 170 : 3-6

Modes of matter form neither a moral nor a spiritual system. The discord which calls for material methods is the result of the exercise of faith in material modes, — faith in matter instead of in Spirit.

6 . ۔ 60: 29۔6

جان میں لامتناہی وسائل ہیں جن سے انسان کو برکت دینا ہوتی ہے اور خوشی مزید آسانی سے حاصل کی جاتی ہے اور ہمارے قبضہ میں مزید محفوظ رہے گی، اگر جان میں تلاش کی جائے گی۔ صرف بلند لطف ہی لافانی انسان کے نقوش کو تسلی بخش بنا سکتے ہیں۔ ہم ذاتی فہم کی حدود میں خوشی کو محدود نہیں کر سکتے۔حواس کوئی حقیقی لطف عطا نہیں کرتے۔

انسانی ہمدردیوں میں اچھائی کو بدی پر اور جانور پر روحانی کو غلبہ پانا چاہئے وگرنہ خوشی کبھی فتح مند نہیں ہوگی۔

6. 60 : 29-6

Soul has infinite resources with which to bless mankind, and happiness would be more readily attained and would be more secure in our keeping, if sought in Soul. Higher enjoyments alone can satisfy the cravings of immortal man. We cannot circumscribe happiness within the limits of personal sense. The senses confer no real enjoyment.

The good in human affections must have ascendency over the evil and the spiritual over the animal, or happiness will never be won.

7 . ۔ 200 :4۔13، 16۔24، 27 (مسیحی)۔29

موسیٰ نے ایک قوم کو مادے کی بجائے روح میں خدا کی عبادت کرنے کی جانب گامزن کیا، اور لافانی عقل کی عطا کردہ ہستی کی بڑی انسانی قابلیتوں کو بیان کیا۔

جو کوئی بھی جان کو واضح کرنے کے لئے نااہل ہوتا ہے وہ بدن کی وضاحت قبول نہ کرنے میں علقمند ہوتا ہے۔ زندگی ہمیشہ مادے سے آزاد ہے، تھی اور ہمیشہ رہے گی،کیونکہ زندگی خدا ہے اور انسان خدا کا تصور ہے، جسے مادی طور پر نہیں بلکہ روحانی طور پر خلق کیا گیا، اور وہ فنا ہونے اور نیست ہونے سے مشروط نہیں۔

ہستی کی سائنس میں یہ بڑی حقیقت کہ حقیقی انسان کامل تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا، ناقابل تردید بات ہے؛ کیونکہ اگر انسان خدا کی صورت، شبیہ ہے تو وہ نہ تو اونچا ہے نہ نیچا بلکہ وہ سیدھا اور خدا جیسا ہے۔

الٰہی لامحدود روح کا فرضی مخالف انسان کی نام نہاد جان یا روح ہے، دوسرے الفاظ میں حواسِ خمسہ، یعنی وہ بدن جو روح کے خلاف جنگ کرتا ہے۔اِن نام نہاد مادی حواس کو لامحدود روح، بنام خدا، کو تسلیم کرنا چاہئے۔

کرسچن سائنس کہتی ہے: کہ مَیں نے آپ کے درمیان سے، یسوع مسیح اور اْس کے جلال کے علاوہ، کسی اور چیز کو نہیں ماننا۔

7. 200 : 4-13, 16-24, 27 (Christian)-29

Moses advanced a nation to the worship of God in Spirit instead of matter, and illustrated the grand human capacities of being bestowed by immortal Mind.

Whoever is incompetent to explain Soul would be wise not to undertake the explanation of body. Life is, always has been, and ever will be independent of matter; for Life is God, and man is the idea of God, not formed materially but spiritually, and not subject to decay and dust.

The great truth in the Science of being, that the real man was, is, and ever shall be perfect, is incontrovertible; for if man is the image, reflection, of God, he is neither inverted nor subverted, but upright and Godlike.

The suppositional antipode of divine infinite Spirit is the so-called human soul or spirit, in other words the five senses, — the flesh that warreth against Spirit. These so called material senses must yield to the infinite Spirit, named God.

Christian Science says: I am determined not to know anything among you, save Jesus Christ, and him glorified.

8 . ۔ 20: 14۔32

یسوع نے ہماری کمزوریاں سہیں؛ وہ بشری عقیدے کی غلطی کو جانتا تھا اور ”اْس کے مار کھانے سے (غلطی کو رد کرنے سے) ہم نے شفا پائی“۔ ”آدمیوں میں حقیر و مردود ہوتے ہوئے“، حقارت کے بدلے برکتیں دیتے ہوئے، اْس نے انسانوں کو اْن کے خود کے مخالف تعلیم دی، اور جب غلطی نے سچائی کی طاقت کو محسوس کیا تو کوڑے اور صلیب اْس عظیم معلم کے منتظر تھے۔ وہ یہ جانتے ہوئے کبھی نہ جھکا کہ الٰہی حکم کی فرمانبرداری کرنا اور خدا پر بھروسہ کرنا گناہ سے پاکیزگی کی جانب جانے والی نئی راہ کو استوار کرنا اور اْس پر چلنا نجات بخشتا ہے۔

مادی یقین اسے سمجھنے میں دھیما ہے جو روحانی حقیقت بیان کرتی ہے۔سچ سارے مذہب کا مرکز ہے۔یہ محبت کی سلطنت میں یقینی داخلے کا حکم دیتا ہے۔ مقدس پولوس لکھتا ہے، ”آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اْس گناہ کو جو ہم کو آسانی سے اْلجھا لیتا ہے دور کر کے اْس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے؛“یعنی، آئیے ہم اپنی مادی خوشی اور فہم کو ایک طرف رکھیں، اور الٰہی اصول اور شفا کی سائنس کو تلاش کریں۔

8. 20 : 14-32

Jesus bore our infirmities; he knew the error of mortal belief, and "with his stripes [the rejection of error] we are healed." "Despised and rejected of men," returning blessing for cursing, he taught mortals the opposite of themselves, even the nature of God; and when error felt the power of Truth, the scourge and the cross awaited the great Teacher. Yet he swerved not, well knowing that to obey the divine order and trust God, saves retracing and traversing anew the path from sin to holiness.

Material belief is slow to acknowledge what the spiritual fact implies. The truth is the centre of all religion. It commands sure entrance into the realm of Love. St. Paul wrote, "Let us lay aside every weight, and the sin which doth so easily beset us, and let us run with patience the race that is set before us;" that is, let us put aside material self and sense, and seek the divine Principle and Science of all healing.

9 . ۔ 21 :9۔14

اگر شاگرد روحانی طور پر ترقی کر رہا ہے، تو وہ داخل ہونے کی جدجہد کر رہا ہے۔ وہ مادی حِس سے دور ہونے کی مسلسل کوشش کررہا ہے اور روح کی ناقابل تسخیر چیزوں کا متلاشی ہے۔اگر ایماندار ہے تو وہ ایمانداری سے ہی آغاز کرے گا اور آئے دن درست سمت پائے گا جب تک کہ وہ آخر کار شادمانی کے ساتھ اپنا سفر مکمل نہیں کر لیتا۔

9. 21 : 9-14

If the disciple is advancing spiritually, he is striving to enter in. He constantly turns away from material sense, and looks towards the imperishable things of Spirit. If honest, he will be in earnest from the start, and gain a little each day in the right direction, till at last he finishes his course with joy.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔