اتوار 18 دسمبر، 2022
”اِس سے پیشتر کہ مَیں نے تجھے بطن میں خلق کیا مَیں تجھے جانتا تھا اور تیری ولادت سے پہلے مَیں تجھے جانتا تھا، کیونکہ خداوند فرماتا ہے مَیں تیرے ساتھ ہوں۔“
“Before I formed thee in the belly I knew thee; and before thou camest forth out of the womb I sanctified thee, for I am with thee, saith the Lord.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
1۔یارب! پشت در پشت تو ہماری پناہ گاہ رہا ہے۔
2۔اس سے پیشتر کہ پہاڑ پیدا ہوئے یا زمین اور دنیا کو تو نے بنایا۔ ازل سے ابدتک تو ہی خدا ہے۔
24۔ اے خداوند! تیری صعنتیں کیسی بے شمار ہیں! تو نے سب کچھ حکمت سے بنایا۔ زمین تیری مخلوقات سے معمور ہیں۔
30۔تو اپنی روح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں۔ اورتو روی زمین کو نیا بنا دیتا ہے۔
31۔خداوند کا جلال ابدتک رہے خداوند اپنی صعنتوں سے خوش ہو۔
24۔ اْس کے کام کی بڑائی کرنا یاد رکھ جس کی تعریف لوگ گاتے رہے ہیں۔
25۔ سب لوگوں نے اِس کو دیکھا ہے۔ انسان اْسے دور سے دیکھتا ہے۔
14۔ چپ چاپ کھڑا رہ اور خداوند کے حیرت انگیز کاموں پر غور کر۔
1. Lord, thou hast been our dwelling place in all generations.
2. Before the mountains were brought forth, or ever thou hadst formed the earth and the world, even from everlasting to everlasting, thou art God.
24. O Lord, how manifold are thy works! in wisdom hast thou made them all: the earth is full of thy riches.
30. Thou sendest forth thy spirit, they are created: and thou renewest the face of the earth.
31. The glory of the Lord shall endure for ever: the Lord shall rejoice in his works.
24. Remember that thou magnify his work, which men behold.
25. Every man may see it; man may behold it afar off.
14. Stand still, and consider the wondrous works of God.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
22۔ خداوند نے انتظامِ عالم کے شروع میں اپنی قدیمی صنعتوں سے پہلے مجھے پیدا کیا۔
23۔ مَیں ازل سے یعنی ابتدا ہی سے مقرر ہوئی۔ اِس سے پہلے کہ زمین تھی۔
22 The Lord possessed me in the beginning of his way, before his works of old.
23 I was set up from everlasting, from the beginning, or ever the earth was.
24۔ اے میرے خدا!۔۔۔تیرے برس پشت در پشت ہیں۔
25۔تو نے قدیم سے زمین کی بنیاد ڈالی۔ آسمان تیرے ہاتھ کی صنعت ہے۔
27۔۔۔۔تو لاتبدیل ہے۔ اور تیرے برس لاانتہا ہوں گے۔
24 O my God, … thy years are throughout all generations.
25 Of old hast thou laid the foundation of the earth: and the heavens are the work of thy hands.
27 …thou art the same, and thy years shall have no end.
1۔ خداوند کی حمد کرو۔ آسمان پر سے خداوند کی حمد کرو۔ بلندیوں پر اْس کی حمد کرو۔
2۔ اے اْس کے فرشتو! سب اْس کی حمد کرو۔ اے اْس کے لشکرو! سب اْس کی حمد کرو۔
3۔ اے سورج! اے چاند! اْس کی حمد کرو۔ اے نورانی ستارو! سب اْس کی حمد کرو۔
4۔ اے افلاک افلاک! اْس کی حمد کرو۔ اور تْو بھی اے فضا پر کے پانی۔
5۔ یہ سب خداوند کے نام کی حمد کریں۔ کیونکہ اْس نے حکم دیا اور یہ پیدا ہوگئے۔
6۔ اْس نے اْن کو ابد الا آباد کے لئے قائم کیاہے۔ اْس نے اٹل قانون مقرر کیا ہے۔
7۔ زمین پر سے خداوند کی حمد کرو۔ اے اژدھاؤ اور سر گہرے سمندرو!
8۔ اے آگ اور اولو! اے برف اور کْہر! اے طوفانی ہوا! جو اْس کے کلام کی تعمیل کرتی ہے۔
9۔ اے پہاڑو اور سب ٹیلو! اے میوہ دار درختو اور سب دیودارو!
10۔ اے جانورو اور سب چوپایو! اے رینگنے والو اور پرندو!
11۔ اے زمین کے بادشاہو اورسب امتو! اے امرا اور زمین کے سب حاکمو!
2 Praise ye him, all his angels: praise ye him, all his hosts.
3 Praise ye him, sun and moon: praise him, all ye stars of light.
4 Praise him, ye heavens of heavens, and ye waters that be above the heavens.
5 Let them praise the name of the Lord: for he commanded, and they were created.
6 He hath also stablished them for ever and ever: he hath made a decree which shall not pass.
7 Praise the Lord from the earth, ye dragons, and all deeps:
8 Fire, and hail; snow, and vapour; stormy wind fulfilling his word:
9 Mountains, and all hills; fruitful trees, and all cedars:
10 Beasts, and all cattle; creeping things, and flying fowl:
11 Kings of the earth, and all people; princes, and all judges of the earth:
3۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔
13۔۔۔۔ نہ خون سے جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔
3 All things were made by him; and without him was not any thing made that was made.
13 …born, not of blood, nor of the will of the flesh, nor of the will of man, but of God.
1۔ یسوع زیتون کے پہاڑ پر گیا۔
2۔ صبح سویرے ہی وہ پھر ہیکل میں آیا اور سب لوگ اْس کے پاس آئے۔
12۔ یسوع نے پھر اْن سے مخاطب ہو کر کہا کہ دنیا کا نور مَیں ہوں۔جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔
13۔ فریسیوں نے اْس سے کہا تْو اپنی گواہی آپ دیتا ہے۔ تیری گواہی سچی نہیں۔
14۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا اگرچہ مَیں اپنی گواہی آپ دیتا ہوں تو بھی میری گواہی سچی ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں لیکن تم کو معلوم نہیں کہ مَیں کہاں سے آتا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں۔
25۔ انہوں نے اْس سے کہا تْو کون ہے؟ یسوع نے اْن سے کہا وہی ہوں جو شروع سے تم سے کہتا آیا ہوں۔
31۔ پس یسوع نے اْن یہودیوں سے کہا جنہوں نے اْس کا یقین کیا تھا کہ اگر تم میرے کلام پر عمل کرو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔
32۔ اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔
42۔۔۔۔اِس لئے کہ مَیں خدا سے نکلا اور آیا ہوں۔ کیونکہ مَیں آپ سے نہیں آیا بلکہ اْسی نے مجھے بھیجا ہے۔
51۔ مَیں تم سے سچ کہتاہوں کہ اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔
52۔ یہودیوں نے اْس سے کہا کہ اب ہم نے جان لیا ہے کہ تجھ میں بد روح ہے ابراہام مر گیا اور نبی مر گئے مگر تْو کہتا ہے کہ اگر کوئی میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کا مزا نہ چکھے گا۔
54۔ یسوع نے جواب دیا۔
56۔ تمہار ا باپ ابراہام میرا دن دیکھنے کی اْمید پر بہت خوش تھا چنانچہ اْس نے دیکھا اور خوش ہوا۔
57۔ یہودیوں نے اْس سے کہا تیری عمر تو ابھی پچاس برس کی نہیں پھر کیا تْو نے ابراہام کو دیکھا ہے؟
58۔ یسوع نے اْن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ پیشتر اِس کے کہ ابراہام پیدا ہوا مَیں ہوں۔
1 Jesus went unto the mount of Olives.
2 And early in the morning he came again into the temple, and all the people came unto him; and he sat down, and taught them.
12 Then spake Jesus again unto them, saying, I am the light of the world: he that followeth me shall not walk in darkness, but shall have the light of life.
13 The Pharisees therefore said unto him, Thou bearest record of thyself; thy record is not true.
14 Jesus answered and said unto them, Though I bear record of myself, yet my record is true: for I know whence I came, and whither I go; but ye cannot tell whence I come, and whither I go.
25 Then said they unto him, Who art thou? And Jesus saith unto them, Even the same that I said unto you from the beginning.
31 Then said Jesus to those Jews which believed on him, If ye continue in my word, then are ye my disciples indeed;
32 And ye shall know the truth, and the truth shall make you free.
42 …for I proceeded forth and came from God; neither came I of myself, but he sent me.
51 Verily, verily, I say unto you, If a man keep my saying, he shall never see death.
52 Then said the Jews unto him, Now we know that thou hast a devil. Abraham is dead, and the prophets; and thou sayest, If a man keep my saying, he shall never taste of death.
54 Jesus answered,
56 Your father Abraham rejoiced to see my day: and he saw it, and was glad.
57 Then said the Jews unto him, Thou art not yet fifty years old, and hast thou seen Abraham?
58 Jesus said unto them, Verily, verily, I say unto you, Before Abraham was, I am.
1۔ یسوع نے یہ باتیں کہیں اوراپنی آنکھیں آسمان کی طرف اْٹھا کر کہا اے باپ! وہ گھڑی آپہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔
3۔ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور بر حق کو اور یسوع مسیح کو جسے تْو نے بھیجا ہے جانیں۔
5۔ اور اب اے باپ!
24۔ مَیں جانتا ہوں کہ جنہیں تو نے مجھے دیا ہے جہاں مَیں ہو ں وہ بھی میرے ساتھ ہوں گے تاکہ میرے اْس جلال کو دیکھیں جو تو مجھے دیا ہے کیونکہ تو نے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی۔
1 These words spake Jesus, and lifted up his eyes to heaven, and said,
3 And this is life eternal, that they might know thee the only true God, and Jesus Christ, whom thou hast sent.
5 And now, O Father,
24 I will that they also, whom thou hast given me, be with me where I am; that they may behold my glory, which thou hast given me: for thou lovedst me before the foundation of the world.
21۔ کیا تم نہیں پہنچانتے؟ کیا تم نے نہیں سنا؟ کیا یہ بات ابتدا ہی سے تم کو بتائی نہیں گئی؟ کیا تم بنائے عالم سے نہیں سمجھے؟
26۔ اپنی آنکھیں اوپر اٹھاؤ اور دیکھو کہ اِن سب کا خالق کون ہے۔ وہی جو اِن کے لشکر کو شمار کر کے نکالتا ہے اور اِن سب کو نام بنام بلاتا ہے اْس کی قدرت کی عظمت اور اْس کے بازو کی توانائی کے سبب سے ایک بھی غیر حاضر نہیں رہتا۔
21 Have ye not known? have ye not heard? hath it not been told you from the beginning? have ye not understood from the foundations of the earth?
26 Lift up your eyes on high, and behold who hath created these things, that bringeth out their host by number: he calleth them all by names by the greatness of his might, for that he is strong in power: not one faileth.
4۔ مَیں نے تجھے نام لے کر بلایا۔ مَیں نے تجھے ایک لقب بخشا۔
5۔ مَیں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں میرے سوا کوئی خدا نہیں۔ مَیں نے تیری کمر باندھی اگرچہ تْو نے مجھے نہ پہچانا۔
6۔ تاکہ مشرق سے مغرب تک لوگ جان لیں کہ میرے سوا کوئی نہیں مَیں ہی خداوند ہوں میرے سوا کوئی دوسرا نہیں۔
8۔ اے آسمان اوپر سے ٹپک پڑ! ہاں بادل راستبازی برسائیں۔ زمین کھل جائے اور نجات اور صداقت کا پھل لائے۔وہ اْن کو اکٹھے اْگائے۔ مَیں خداوند اْس کا پیدا کرنے والا ہوں۔
11۔ خداوند اسرائیل کا قدوس اور خالق یوں فرماتا ہے کیا تم آنے والی چیزوں کی بابت مجھ سے پوچھو گے؟ کیا تم میرے بیٹوں اور میری دستکاری کی بابت مجھے حکم دوگے؟
12۔ مَیں نے زمین بنائی اِس پر انسان کو پیدا کیا اور مَیں ہی نے آسمان کو تانا اور اْس کے سب لشکروں پر مَیں نے حکم کیا۔
13۔ رب الافواج فرماتا ہے مَیں نے اْس کو صداقت میں برپا کیا ہے اور مَیں اْس کی تمام راہوں کو ہموار کروں گا۔
4 I have even called thee by thy name: I have surnamed thee,
5 I am the Lord, and there is none else, there is no God beside me: I girded thee, though thou hast not known me:
6 That they may know from the rising of the sun, and from the west, that there is none beside me. I am the Lord, and there is none else.
8 Drop down, ye heavens, from above, and let the skies pour down righteousness: let the earth open, and let them bring forth salvation, and let righteousness spring up together; I the Lord have created it.
11 Thus saith the Lord, the Holy One of Israel, and his Maker, Ask me of things to come concerning my sons, and concerning the work of my hands command ye me.
12 I have made the earth, and created man upon it: I, even my hands, have stretched out the heavens, and all their host have I commanded.
13 I have raised him up in righteousness, and I will direct all his ways:
24۔ جو تم نے شروع سے سنا ہے وہی تم میں قائم رہے۔ جو تم نے شروع سے سنا ہے اگر وہ تم میں قائم رہے تو تم بھی بیٹے اور باپ میں قائم رہو گے۔
24 Let that therefore abide in you, which ye have heard from the beginning. If that which ye have heard from the beginning shall remain in you, ye also shall continue in the Son, and in the Father.
3۔ ہمارے خداوند یسوع مسیح کے خدا اور باپ کی حمد ہو جس نے ہم کو مسیح میں آسمانی مقاموں پر ہر طرح کی روحانی برکت بخشی۔
4۔چنانچہ اْس نے ہم کو بنائے عالم سے پیشتر اْس میں چن لیا۔
3 Blessed be the God and Father of our Lord Jesus Christ, who hath blessed us with all spiritual blessings in heavenly places in Christ:
4 According as he hath chosen us in him before the foundation of the world,
عظیم ”مَیں ہوں“ نے وہ سب کچھ بنایا ”جو خلق کیا گیا تھا۔“ لہٰذہ انسان اور روحانی کائنات خدا کے ساتھ باہم وجود رکھتے ہیں۔
The great I am made all "that was made." Hence man and the spiritual universe coexist with God.
روح، جان کے علاوہ زندگی کو کچھ بھی مرتب نہیں کر سکتا، کیونکہ روح باقی کسی بھی چیز سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
Nothing but Spirit, Soul, can evolve Life, for Spirit is more than all else.
روح۔۔۔ کہتی ہے:
میں روح ہوں۔ انسان، جس کے حواس روحانی ہیں، میری صورت پر ہے۔وہ لافانی فہم کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ میں لافانی ہوں۔ پاکیزگی کی خوبصورتی، وجود کی کاملیت، ناقابل تسخیر جلال، سب میرے ہیں، کیونکہ میں خدا ہوں۔ میں انسان کو لافانیت دیتی ہوں کیونکہ میں سچائی ہوں۔ میں تمام تر نعمتیں شامل کرتی اور عطا کرتی ہوں، کیونکہ میں محبت ہوں۔ میں، ازل اور ابد سے مبرا، زندگی دیتی ہوں کیونکہ میں زندگی ہوں۔ میں اعلیٰ ہوں اور سب کچھ عطا کرتی ہوں کیونکہ میں شعور ہوں۔ میں ہر چیز کا مواد ہوں، کیونکہ مَیں جو ہوں سومَیں ہوں۔
Spirit, … saith:
I am Spirit. Man, whose senses are spiritual, is my likeness. He reflects the infinite understanding, for I am Infinity. The beauty of holiness, the perfection of being, imperishable glory, — all are Mine, for I am God. I give immortality to man, for I am Truth. I include and impart all bliss, for I am Love. I give life, without beginning and without end, for I am Life. I am supreme and give all, for I am Mind. I am the substance of all, because I am that I am.
درست وجہ کی بنا پر یہاں تصور کے سامنے ایک حقیقت ہونی چاہئے، یعنی روحانی وجودیت۔
For right reasoning there should be but one fact before the thought, namely, spiritual existence.
اگر انسان مادی ترتیب کی شروعات سے قبل وجود نہیں رکھتا تھا، تو جسم کے خاتمہ کے بعد بھی وہ وجود نہیں رکھتا۔ اگر ہم موت کے بعد زندہ رہتے اور لافانی ہیں، تو ہم یقیناً پیدائش سے پہلے بھی زندہ ہوں گے، کیونکہ حتیٰ کہ فطری سائنس کے حساب سے بھی، اگر زندگی کی کوئی شروعات تھی، تو اِس کا خاتمہ بھی ضرور ہوگا۔کیا آپ اِس پر یقین کرتے ہیں؟ نہیں! کیا آپ یہ سمجھتے ہیں؟ نہیں!اِسی لئے آپ کو اِس بیان پر شبہ ہے اور آپ اِس میں شامل حقائق کو ظاہر نہیں کرتے۔ہمیں ہمارے مالک کی تمام باتوں پر ایمان رکھنا چاہئے۔
یسوع نے کہا (یوحنا 8 باب51 آیت)، ”اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابدتک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔“ یہ بیان روحانی زندگی تک محدود نہیں، بلکہ اس میں وجودیت کا کرشمہ بھی شامل ہے۔
If man did not exist before the material organization began, he could not exist after the body is disintegrated. If we live after death and are immortal, we must have lived before birth, for if Life ever had any beginning, it must also have an ending, even according to the calculations of natural science. Do you believe this? No! Do you understand it? No! This is why you doubt the statement and do not demonstrate the facts it involves. We must have faith in all the sayings of our Master,
Jesus said (John viii. 51), "If a man keep my saying, he shall never see death." That statement is not confined to spiritual life, but includes all the phenomena of existence.
صحائف بہت پاک ہیں۔ ہمارا مقصد اْن کے روحانی فہم کو حاصل کرنا ہونا چاہئے، کیونکہ صرف فہم ہی کی بدولت ہم سچائی پا سکتے ہیں۔ کائنات کا،بشمول انسان، حقیقی نظریہ مادی تاریخ میں نہیں بلکہ روحانی ترقی میں ہے۔ الہامی سوچ کائنات کے ایک مادی، جسمانی اور فانی نظریے کو ترک کرتی ہے، اور روحانی اور لافانی کو اپناتی ہے۔
The Scriptures are very sacred. Our aim must be to have them understood spiritually, for only by this understanding can truth be gained. The true theory of the universe, including man, is not in material history but in spiritual development. Inspired thought relinquishes a material, sensual, and mortal theory of the universe, and adopts the spiritual and immortal.
وجودیت کی متواتر فکر مندی، بطور مادی اور جسمانی، بطور شروع ہونے والی اور ختم ہونے والی، پیدائش، فنا پذیری اور خاتمہ کو اپنے ضروری مراحل کے طور پر رکھنے والی، حقیقی اور روحانی زندگی کو چھپا دیتی ہے اور ہمارے معیار کو مٹی میں ملانے کا باعث بنتی ہے۔اگر زندگی کا کوئی کیسا بھی نقطۂ آغاز ہے، تو عظیم مَیں ہوں ایک فرضی داستان ہے۔اگر زندگی خدا ہے، جیسا کہ کلام پاک اشارہ کرتا ہے، تو زندگی جینیاتی نہیں ہے، یہ لامحدود ہے۔
The continual contemplation of existence as material and corporeal — as beginning and ending, and with birth, decay, and dissolution as its component stages — hides the true and spiritual Life, and causes our standard to trail in the dust. If Life has any starting-point whatsoever, then the great I am is a myth. If Life is God, as the Scriptures imply, then Life is not embryonic, it is infinite.
لامتناہی کی کوئی ابتدا نہیں ہے۔یہ لفظ ابتدا اْس واحد کی طرف اشارہ کرنے کے لئے، یعنی انسان اور خدا کی، بشمول کائنات، ابدی حقیقت اور واحدانیت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔تخلیقی اصول، زندگی، سچائی اور محبت، خدا ہے۔ کائنات خدا کی عکاسی کرتی ہے۔
The infinite has no beginning. This word beginning is employed to signify the only, — that is, the eternal verity and unity of God and man, including the universe. The creative Principle — Life, Truth, and Love — is God. The universe reflects God.
کائنات کو، انسان کی مانند، اس کے الٰہی اصول، خدا، کی طرف سے سائنس کے ذریعے واضح کیا جانا چاہئے، تو پھر اسے سمجھا جا سکتا ہے، لیکن جب اسے جسمانی حواس کی بنیاد پر واضح کیا جاتا ہے اور نشوونما، بلوغت اور زوال کے ماتحت ہوتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے،تو کائنات، انسان کی مانند، ایک معمہ بن جاتا ہے اوریہ جاری رکھنا چاہئے۔
روح تمام چیزوں کی زندگی، مواد اور تواتر ہے۔
The universe, like man, is to be interpreted by Science from its divine Principle, God, and then it can be understood; but when explained on the basis of physical sense and represented as subject to growth, maturity, and decay, the universe, like man, is, and must continue to be, an enigma.
Spirit is the life, substance, and continuity of all things.
روح اْن تمام خیالات کو متفرق بناتی، درجہ بندی کرتی اور انفرادیت بخشتی ہے جو ویسے ہی ابدی ہیں جیسے عقل اْنہیں سمجھ رہی ہوتی ہے؛ مگرساری انفرادیت کی ذہانت، وجودیت اور تسلسل خدا میں ہی باقی رہتے ہیں، جو اِس چیز کا الٰہی طور پر تخلیقی اصول ہے۔
Spirit diversifies, classifies, and individualizes all thoughts, which are as eternal as the Mind conceiving them; but the intelligence, existence, and continuity of all individuality remain in God, who is the divinely creative Principle thereof.
سڑنے والا پھول، مرجھانے والی پنکھڑی، گھناؤنا بلوط کا درخت، وحشی جانور، بیماری، گناہ اور موت کی بے آہنگی کی مانند، غیر فطری ہیں۔ یہ فہم کی بددیانتیاں، فانی عقل کی تبدیل ہونے والی گمراہیاں ہیں؛ یہ عقل کے ابدی حقائق نہیں ہیں۔
The decaying flower, the blighted bud, the gnarled oak, the ferocious beast, — like the discords of disease, sin, and death, — are unnatural. They are the falsities of sense, the changing deflections of mortal mind; they are not the eternal realities of Mind.
فانی عقل کے لئے کائنات مائع، ٹھوس اور علم رکھنے والی ہے۔ روحانی تشریح کرتے ہوئے،پتھر اور پہاڑ ٹھوس ور بڑے خیالات کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ ذہانت کے پیمانے میں اْبھرتے ہوئے، مذکر، مونث یا بے لاگ جنس کی شکل لیتے ہوئے، جانور اور بشر استعاراً فانی خیال کے معیار کو پیش کرتے ہیں۔ وہ پرندے جو زمین سے اوپر فلک میں اڑتے ہیں،الٰہی اصول، محبت اور غیر مادی کے فہم کے لئے مادیت سے آگے اور بلند پرواز کرتے ہوئے کھلی ہوا سے تعلق رکھتے ہیں۔
To mortal mind, the universe is liquid, solid, and aëriform. Spiritually interpreted, rocks and mountains stand for solid and grand ideas. Animals and mortals metaphorically present the gradation of mortal thought, rising in the scale of intelligence, taking form in masculine, feminine, or neuter gender. The fowls, which fly above the earth in the open firmament of heaven, correspond to aspirations soaring beyond and above corporeality to the understanding of the incorporeal and divine Principle, Love.
حیوانی کشش کے دعوے کو جانتے ہوئے، کہ ساری بدی مادے، بجلی، جانوروں کی فطرت اور نامیاتی حیات کی زندگی، مواد اور شعور کے یقین میں اکٹھی ہوتی ہے، کون اس سے منکر ہو گا کہ یہ وہ غلطیاں ہیں سچائی جن کو نیست کرے گی اور کرنا بھی چاہئے؟
Knowing the claim of animal magnetism, that all evil combines in the belief of life, substance, and intelligence in matter, electricity, animal nature, and organic life, who will deny that these are the errors which Truth must and will annihilate?
اِس تناسب میں کہ انسانی فہم کے لئے جب مادا بطور انسان ساری ہستی کھو دیتا ہے تو اِسی تناسب میں وہ اِس کا مالک بن جاتا ہے۔وہ حقائق کے مزید الٰہی فہم میں داخل ہوجاتا ہے، اوروہ یسوع کی الٰہیات سمجھتا ہے جب یہ بیمار کو شفا دینے، مردے کو زندہ کرنے اور پانی پر چلنے سے ظاہر ہوئی۔اِن سب کاموں نے اِس عقیدے پر یسوع کے اختیار کو ظاہر کیا کہ مادا مواد ہے،کہ یہ زندگی کا ثالثی یا وجودیت کی کسی بھی شکل کو تعمیر کرنے والا ہو سکتا ہے۔
In proportion as matter loses to human sense all entity as man, in that proportion does man become its master. He enters into a diviner sense of the facts, and comprehends the theology of Jesus as demonstrated in healing the sick, raising the dead, and walking over the wave. All these deeds manifested Jesus' control over the belief that matter is substance, that it can be the arbiter of life or the constructor of any form of existence.
مواد، زندگی، ذہانت، سچائی اور محبت جو خدائے واحد کو متعین کرتے ہیں، اْس کی مخلوق سے منعکس ہوتے ہیں؛ اور جب ہم جسمانی حواس کی جھوٹی گواہی کو سائنسی حقائق کے ماتحت کر دیتے ہیں، تو ہم اس حقیقی مشابہت اور عکس کوہرطرف دیکھیں گے۔
The substance, Life, intelligence, Truth, and Love, which constitute Deity, are reflected by His creation; and when we subordinate the false testimony of the corporeal senses to the facts of Science, we shall see this true likeness and reflection everywhere.
خدا کی کائنات میں ہر چیز اْسی کو ظاہر کرتی ہے۔
Everything in God's universe expresses Him.
جب ہم کرسچن سائنس میں راستہ جانتے ہیں اور انسان کی روحانی ہستی کو پہچانتے ہیں، ہم خدا کی تخلیق کو سمجھیں اور دیکھیں گے،سارا جلال زمین اور آسمان اور انسان کے لئے۔
When we learn the way in Christian Science and recognize man's spiritual being, we shall behold and understand God's creation, — all the glories of earth and heaven and man.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████