اتوار 19 اکتوبر ، 2025



مضمون۔ کفارے کا عقیدہ

SubjectDoctrine Of Atonement

سنہری متن: اعمال 17 باب 28 آیت

کیونکہ اْسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔



Golden Text: Acts 17 : 28

For in him we live, and move, and have our being.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: رومیوں 6 باب 12 تا 18 آیات


12۔ پس گناہ تمہارے فانی بدن میں بادشاہی نہ کرے کہ تم اْس کی خواہش کے تابع رہو۔

13۔ اور اپنے اعضاء ناراستی کے اعضاء ہونے کے لئے گناہ کے حوالہ نہ کیا کرو بلکہ اپنے آپ کو مردوں میں سے زندہ جان کر خدا کے حوالہ کرو اور اپنے اعضاء راستبازی کے ہتھیار ہونے کے لئے خدا کے حوالہ کرو۔

14۔ اس لئے کہ گناہ کا تم پر اختیار ہوگا کیونکہ تم شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہو۔

15۔ پس کیا ہوا؟ کیا ہم اِس لئے گناہ کریں کہ شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہیں؟ ہر گز نہیں۔

16۔ کیا تم نہیں جانتے کہ جس کی فرمانبرداری کے لئے اپنے آپ کو غلاموں کی طرح حوالے کر دیتے ہو اْسی کے غلام ہو جس کے فرمانبردار ہو خواہ گناہ کے جس کا انجام موت ہے خواہ فرمانبرداری کے جس کا انجام راستبازی ہے۔

17۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اگرچہ تم گناہ کے غلام تھے تو بھی دل سے اْس تعلیم کے فرمانبردار ہوگئے جس کے سانچے میں تم ڈھالے گئے تھے۔

18۔ اور گناہ سے آزاد ہو کرراستبازی کے غلام ہوگئے۔

Responsive Reading: Romans 6 : 12-18

12.     Let not sin therefore reign in your mortal body, that ye should obey it in the lusts thereof.

13.     Neither yield ye your members as instruments of unrighteousness unto sin: but yield yourselves unto God, as those that are alive from the dead, and your members as instruments of righteousness unto God.

14.     For sin shall not have dominion over you: for ye are not under the law, but under grace.

15.     What then? shall we sin, because we are not under the law, but under grace? God forbid.

16.     Know ye not, that to whom ye yield yourselves servants to obey, his servants ye are to whom ye obey; whether of sin unto death, or of obedience unto righteousness?

17.     But God be thanked, that ye were the servants of sin, but ye have obeyed from the heart that form of doctrine which was delivered you.

18.     Being then made free from sin, ye became the servants of righteousness.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 32 باب 1، 2 آیات

1۔ مبارک ہے وہ جس کی خطا بخشی گئی اور جس کا گناہ ڈھانکا گیا۔

2۔ مبارک ہے وہ آدمی جس کی بدکاری کو خداوند حساب میں نہیں لاتا اور جس کے دل میں مکر نہیں۔

1. Psalm 32 : 1, 2

1     Blessed is he whose transgression is forgiven, whose sin is covered.

2     Blessed is the man unto whom the Lord imputeth not iniquity, and in whose spirit there is no guile.

2 . ۔ زبور 85 باب 7 تا 13 آیات

7۔ اے خداوند! تُو اپنی شفقت ہم کو دکھا اور اپنی نجات ہم کو بخش۔

8۔ میں سنونگا کہ خداوند خدا کیا فرماتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے لوگوں اور اپنے مقدسوں سے سلامتی کی باتیں کرے گا۔ پر وہ پھر حماقت کی طرف رجوع نہ کریں۔

9۔ یقیناً اُسکی نجات اُس سے ڈرنے والوں کے قریب ہے تاکہ جلال ہمارے ملک میں بسے۔

10۔شفقت اور راستی باہم مل گئی ہیں صداقت اور سلامتی نے ایک دوسرے کا بوسہ لیا ہے۔

11۔ راستی زمین سے نکلتی ہے اور صداقت آسمان سے جھانکتی ہے۔

12۔ جو کچھ اچھا ہے وہی خداوند عطا فرمائے گا اور ہماری زمین اپنی پیداوار دے گی۔

13۔ صداقت اْس کے آگے آگے چلے گی اور اْس کے نقشِ قدم کو ہماری راہ بنائے گی۔

2. Psalm 85 : 7-13

7     Shew us thy mercy, O Lord, and grant us thy salvation.

8     I will hear what God the Lord will speak: for he will speak peace unto his people, and to his saints: but let them not turn again to folly.

9     Surely his salvation is nigh them that fear him; that glory may dwell in our land.

10     Mercy and truth are met together; righteousness and peace have kissed each other.

11     Truth shall spring out of the earth; and righteousness shall look down from heaven.

12     Yea, the Lord shall give that which is good; and our land shall yield her increase.

13     Righteousness shall go before him; and shall set us in the way of his steps.

3 . ۔ متی 8 باب 18 آیت

18۔ جب یسوع نے اپنے گرد بہت سی بھیڑ دیکھی تو پار چلنے کا حکم دیا۔

3. Matthew 8 : 18

18     Now when Jesus saw great multitudes about him, he gave commandment to depart unto the other side.

4 . ۔ متی 9 باب 1 تا 8 آیات

1۔ پھر وہ کشتی پر چڑھ کر پار گیااور اپنے شہر میں آیا۔

2۔ اور دیکھو لوگ ایک مفلوج کو چار پائی پر پڑا ہوا اْس کے پاس لائے۔ یسوع نے اْن کا ایمان دیکھ کر مفلوج سے کہا بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے۔

3۔ اور دیکھو بعض فقیہوں نے اپنے دل میں کہا یہ کفر بکتا ہے۔

4۔ یسوع نے اْن کے خیال معلوم کر کے کہا تم کیوں اپنے دلوں میں برا خیال لاتے ہو؟

5۔ آسان کیا ہے۔ یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہ اٹھ اور چل پھر؟

6۔ لیکن اِس لئے کہ تم جان لو کہ ابنِ آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ (اْس نے مفلوج سے کہا) اْٹھ اپنی چار پائی اْٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔

7۔ وہ اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔

8۔ لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا۔

4. Matthew 9 : 1-8

1     And he entered into a ship, and passed over, and came into his own city.

2     And, behold, they brought to him a man sick of the palsy, lying on a bed: and Jesus seeing their faith said unto the sick of the palsy; Son, be of good cheer; thy sins be forgiven thee.

3     And, behold, certain of the scribes said within themselves, This man blasphemeth.

4     And Jesus knowing their thoughts said, Wherefore think ye evil in your hearts?

5     For whether is easier, to say, Thy sins be forgiven thee; or to say, Arise, and walk?

6     But that ye may know that the Son of man hath power on earth to forgive sins, (then saith he to the sick of the palsy,) Arise, take up thy bed, and go unto thine house.

7     And he arose, and departed to his house.

8     But when the multitudes saw it, they marvelled, and glorified God, which had given such power unto men.

5 . ۔ لوقا 7 باب 36 تا 48، 50 آیات

36۔ اورکسی فریسی نے اُس سے دخواست کی کہ میرے ساتھ کھانا کھا۔ پس وہ اُس فریسی کے گھر جا کر کھانا کھانے بیٹھا۔

37۔ تو دیکھو ایک بدچلن عورت جو اُس شہر کی تھی۔ یہ جان کر کہ وہ اُس فریسی کے گھر میں کھانا کھانے بیٹھا ہے سنگ مر مر کے عطردان میں عطر لائی۔

38۔ اور اُس کے پاؤں کے پاس روتی ہوئی پیچھے کھڑی ہوکر اُس کے پاؤں آنسوؤں سے بھگونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے اُن کو پونچھا اور اُس کے پاؤں بہت چومے اور ان پر عطر ڈالا۔

39۔ اس کی دعوت کرنے والا فریسی یہ دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اُسے چھوتی ہے وہ کون اور کیسی عورت ہے کیونکہ بدچلن ہے۔

40۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اے شمعون مجھے تجھ سے کچھ کہنا ہے۔ اُس نے کہا اے استاد کہہ۔

41۔ کسی ساہوکار کے دو قرضدار تھے۔ ایک پانچ سو دینار کا دوسرا پچاس کا۔

42۔ جب ان کے پاس ادا کرنے کو کچھ نہ رہا تو اس نے دونوں کو بخش دیا۔ پس اُن میں سے کون اُس سے زیادہ محبت رکھے گا؟

43۔ شمعون نے جواب میں اُس سے کہا میری دانست میں وہ جسے اُس نے زیادہ بخشا۔ اُس نے اُس سے کہا تو نے ٹھیک فیصلہ کیا۔

44۔ اور اُس عورت کی طرف پھر کر اُس نے شمعون سے کہا کیا تو اس عورت کو دیکھتا ہے؟ میں تیرے گھر میں آیا۔ تونے میرے پاؤں دھونے کو پانی نہ دیا مگر اِس نے میرے پاؤں آنسوؤں سے بھگو دئے اور اپنے بالوں سے پونچھے۔

45۔ تونے مجھ کو بوسہ نہ دیا مگر اِس نے جب سے میں آیا ہوں میرے پاؤں چومنا نہ چھوڑا۔

46۔ تونے میرے سر پر تیل نہ ڈالا مگر اِس نے میرے پاؤں پر عطر ڈالا ہے۔

47۔ اسی لئے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ اس کے گناہ جو بہت تھے معاف ہوئے کیونکہ اِس نے بہت محبت کی مگر جس کے تھوڑے گناہ معاف ہوئے وہ تھوڑی محبت کرتا ہے۔

48۔ اور اُس عورت سے کہا تیرے گناہ معاف ہوئے۔

50۔ مگر اُس نے عورت سے کہا تیرے ایمان نے تجھے بچا لیا ہے۔ سلامت چلی جا۔

5. Luke 7 : 36-48, 50

36     And one of the Pharisees desired him that he would eat with him. And he went into the Pharisee’s house, and sat down to meat.

37     And, behold, a woman in the city, which was a sinner, when she knew that Jesus sat at meat in the Pharisee’s house, brought an alabaster box of ointment,

38     And stood at his feet behind him weeping, and began to wash his feet with tears, and did wipe them with the hairs of her head, and kissed his feet, and anointed them with the ointment.

39     Now when the Pharisee which had bidden him saw it, he spake within himself, saying, This man, if he were a prophet, would have known who and what manner of woman this is that toucheth him: for she is a sinner.

40     And Jesus answering said unto him, Simon, I have somewhat to say unto thee. And he saith, Master, say on.

41     There was a certain creditor which had two debtors: the one owed five hundred pence, and the other fifty.

42     And when they had nothing to pay, he frankly forgave them both. Tell me therefore, which of them will love him most?

43     Simon answered and said, I suppose that he, to whom he forgave most. And he said unto him, Thou hast rightly judged.

44     And he turned to the woman, and said unto Simon, Seest thou this woman? I entered into thine house, thou gavest me no water for my feet: but she hath washed my feet with tears, and wiped them with the hairs of her head.

45     Thou gavest me no kiss: but this woman since the time I came in hath not ceased to kiss my feet.

46     My head with oil thou didst not anoint: but this woman hath anointed my feet with ointment.

47     Wherefore I say unto thee, Her sins, which are many, are forgiven; for she loved much: but to whom little is forgiven, the same loveth little.

48     And he said unto her, Thy sins are forgiven.

50     And he said to the woman, Thy faith hath saved thee; go in peace.

6 . ۔ یوحنا 14 باب 8 تا 13آیات

8۔ فلپس نے اْس سے کہا اے خداوند! باپ کو ہم کو دکھا۔ یہی ہمیں کافی ہے۔

9۔ یسوع نے اْس سے کہا اے فلپس! مَیں اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تْو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا ہے اْس نے باپ کو دیکھا ہے۔ تْو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟

10۔ کیا تْو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو مَیں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر کام کرتا ہے۔

11۔ میرا یقین کرو کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو۔

12۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں۔

13۔ اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے مَیں وہی کروں گا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔

6. John 14 : 8-13

8     Philip saith unto him, Lord, shew us the Father, and it sufficeth us.

9     Jesus saith unto him, Have I been so long time with you, and yet hast thou not known me, Philip? he that hath seen me hath seen the Father; and how sayest thou then, Shew us the Father?

10     Believest thou not that I am in the Father, and the Father in me? the words that I speak unto you I speak not of myself: but the Father that dwelleth in me, he doeth the works.

11     Believe me that I am in the Father, and the Father in me: or else believe me for the very works’ sake.

12     Verily, verily, I say unto you, He that believeth on me, the works that I do shall he do also; and greater works than these shall he do; because I go unto my Father.

13     And whatsoever ye shall ask in my name, that will I do, that the Father may be glorified in the Son.

7 . ۔ رومیوں 5باب 1، 2، 8 تا 11آیات

1۔ پس جب ہم ایمان سے راستباز ٹھہرے تو خدا کے ساتھ اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ صلح رکھیں۔

2۔جس کے وسیلہ سے ایمان کے سبب سے اُس فضل تک ہماری رسائی بھی ہوئی جس پر قائم ہیں اور خدا کے جلال کی امید پر فخر کریں۔

8۔لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔

9۔پس جب ہم اُس کے خون کے باعث اب راستباز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضب الہٰی سے ضرور ہی بچیں گے۔

10۔ کیونکہ جب باوجود دشمن ہونے کے خدا سے اس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہوگیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔

11۔اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے خداوند یسوع مسیح کے طفیل سے جس کے وسیلہ سے اب ہمارا خدا کے ساتھ میل ہوگیا خدا پر فخر بھی کرتے ہیں۔

7. Romans 5 : 1, 2, 8-11

1     Therefore being justified by faith, we have peace with God through our Lord Jesus Christ:

2     By whom also we have access by faith into this grace wherein we stand, and rejoice in hope of the glory of God.

8     But God commendeth his love toward us, in that, while we were yet sinners, Christ died for us.

9     Much more then, being now justified by his blood, we shall be saved from wrath through him.

10     For if, when we were enemies, we were reconciled to God by the death of his Son, much more, being reconciled, we shall be saved by his life.

11     And not only so, but we also joy in God through our Lord Jesus Christ, by whom we have now received the atonement.



سائنس اور صح


1 . ۔ 18: 1۔ 9، 13۔ 14 (تا؛)

کفارہ خدا کے ساتھ انسانی اتحاد کی مثال ہے، جس کے تحت انسان الٰہی سچائی، زندگی اور محبت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔ اْس کا مشن انفرادی اور اجتماعی دونوں تھا۔ اْس نے زندگی کا مناسب کام سر انجام دیا نہ صرف خود کے انصاف کے لئے بلکہ انسانوں پر رحم کے باعث، انہیں یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے، بلکہ نہ تو اْن کے لئے خود کچھ کرنے یا نہ ہی اْنہیں کسی ایک ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئے یہ کیا۔

مسیح کا کفارہ انسان کی خدا کے ساتھ نہ کہ خدا کی انسان کے ساتھ مفاہمت کرواتا ہے؛

1. 18 : 1-9, 13-14 (to ;)

Atonement is the exemplification of man's unity with God, whereby man reflects divine Truth, Life, and Love. Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage. His mission was both individual and collective. He did life's work aright not only in justice to himself, but in mercy to mortals, — to show them how to do theirs, but not to do it for them nor to relieve them of a single responsibility.

The atonement of Christ reconciles man to God, not God to man;

2 . ۔ 19: 12۔ 28

مالک نے پورا سچ بولنے سے اجتناب کیا، اْس چیز کو بالکل واضح کرتے ہوئے جو بیماری، گناہ اور موت کو ختم کرے گی، حالانکہ اْس کی تعلیم نے گھریلو زندگیوں میں اختلاف برپا کیا، اور مادی عقائد کے لئے سکون کی بجائے تلوار لائی۔

توبہ اور دْکھوں کا ہر احساس، اصلاح کی ہر کوشش، ہر اچھی سوچ اور کام گناہ کے لئے یسوع کے کفارے کو سمجھنے میں مدد کرے گا اور اِس کی افادیت میں مدد کرے گا؛ لیکن اگر گناہگار دعا کرنا اور توبہ کرنا، گناہ کرنا اور معافی مانگنا جاری رکھتا ہے، تو کفارے میں، خدا کے ساتھ یکجہتی میں اْس کا بہت کم حصہ ہوگا، کیونکہ اْس میں عملی توبہ کی کمی ہے، جو دل کی اصلاح کرتی اور انسان کو حکمت کی رضا پوری کرنے کے قابل بناتی ہے۔وہ جو، کم از کم کسی حد تک، ہمارے مالک کی تعلیمات اور مشق کے الٰہی اصول کا اظہار نہیں کر سکتے اْن کی خدا میں کوئی شرکت نہیں ہے۔ اگر چہ خدا بھلا ہے، اگر ہم اْس کے ساتھ نافرمانی میں زندگی گزاریں، تو ہمیں کوئی ضمانت محسوس نہیں کرنی چاہئے۔

2. 19 : 12-28

The Master forbore not to speak the whole truth, declaring precisely what would destroy sickness, sin, and death, although his teaching set households at variance, and brought to material beliefs not peace, but a sword.

Every pang of repentance and suffering, every effort for reform, every good thought and deed, will help us to understand Jesus' atonement for sin and aid its efficacy; but if the sinner continues to pray and repent, sin and be sorry, he has little part in the atonement, — in the at-one-ment with God, — for he lacks the practical repentance, which reforms the heart and enables man to do the will of wisdom. Those who cannot demonstrate, at least in part, the divine Principle of the teachings and practice of our Master have no part in God. If living in disobedience to Him, we ought to feel no security, although God is good.

3 . ۔ 22: 20۔ 27، 30 (انصاف)۔ 31

خدا ہمیں آزمائش سے نکالنے کے لئے جلد باز نہیں ہے، کیونکہ محبت کا مطلب ہے کہ آپ کو آزمایا اور پاک کیا جائے گا۔

غلطی سے حتمی رہائی، جس کے تحت ہم لافانیت، بے انتہا آزادی، بے گناہ فہم میں شادمان ہوتے پھولوں سے سجی راہوں سے ہو کر نہیں پائے جاتے نہ کسی کے ایمان کے بغیر کسی اور کی متبادل کوشش سے سامنے آتے ہیں۔ جو کوئی یہ مانتا ہے کہ قہر راست ہے یا الوہیت انسانی تکالیف سے آسودہ ہوتی ہے، وہ خدا کو نہیں سمجھتا۔

عدل کے لئے گناہگار کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ رحم صرف تبھی قرض بخشتا ہے جب عدل تصدیق کرتا ہے۔

3. 22 : 20-27, 30 (Justice)-31

Love is not hasty to deliver us from temptation, for Love means that we shall be tried and purified.

Final deliverance from error, whereby we rejoice in immortality, boundless freedom, and sinless sense, is not reached through paths of flowers nor by pinning one's faith without works to another's vicarious effort.

Justice requires reformation of the sinner. Mercy cancels the debt only when justice approves.

4 . ۔ 23: 1۔ 11

ہمیں گناہ سے بچانے کے لئے حکمت اور محبت خود کی بہت سی قربانیوں کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ایک قربانی، خواہ وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔کفارے کے لئے گناہگار کی طرف سے مسلسل بے لوث قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ الٰہی طور پر غیر فطری ہے کہ خدا کا غضب اْس کے پیارے بیٹے پر نکلے۔ایسا نظریہ انسان کا بنایا ہوا ہے۔علم الٰہیات میں کفارہ ایک سنگین مسئلہ ہے، مگر اِس کی سائنسی تفصیل یہ ہے کہ دْکھ گناہ آلودہ فہم کی ایک غلطی ہے جسے سچائی نیست کرتی ہے، اور بالاآخر یہ دونوں گناہ اور دْکھ ہمیشہ کی محبت کے قدموں پر آگرتے ہیں۔

4. 23 : 1-11

Wisdom and Love may require many sacrifices of self to save us from sin. One sacrifice, however great, is insufficient to pay the debt of sin. The atonement requires constant self-immolation on the sinner's part. That God's wrath should be vented upon His beloved Son, is divinely unnatural. Such a theory is man-made. The atonement is a hard problem in theology, but its scientific explanation is, that suffering is an error of sinful sense which Truth destroys, and that eventually both sin and suffering will fall at the feet of everlasting Love.

5 . ۔ 24: 20۔ 22

کیا ماہرِ الٰہیات یسوع کی مصلوبیت کا لحاظ رکھتا ہے خصوصاً اْن گناہگاروں کو فوری معافی مہیا کرتے ہوئے جو معافی کے طالب ہوں اور معاف کئے جانے کے لئے رضا مند ہوں؟

5. 24 : 20-22

Does erudite theology regard the crucifixion of Jesus chiefly as providing a ready pardon for all sinners who ask for it and are willing to be forgiven?

6 . ۔ 5: 22۔ 25

دعا کو گناہ کو ختم کرنے کے لئے بطور اعتراف استعمال نہیں ہوناچاہئے۔ ایسی غلطی سچے مذہب کو روکے گی۔ گناہ صرف تب معاف ہوگا جب اسے مسیح، سچائی اور زندگی کے وسیلہ تباہ کیا جائے گا۔

6. 5 : 22-25

Prayer is not to be used as a confessional to cancel sin. Such an error would impede true religion. Sin is forgiven only as it is destroyed by Christ, — Truth and Life.

7 . ۔ 327: 1۔ 7

اصلاح اس سمجھ سے پیدا ہوتی ہے کہ بدی میں کوئی قائم رہنے والا اطمینان نہیں ہے، اور سائنس کے مطابق یہ اطمینان اچھائی کے لئے ہمدردی رکھنے سے پیدا ہوتا ہے، جو اِس لافانی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ نہ خوشی نہ درد، نہ بھوک نہ جذبہ مادے سے یا مادے میں وجود رکھ سکتا ہے، جبکہ الٰہی عقل خوشی، درد یا خوف اور انسانی عقل کی تمام تر گناہ آلود بھوک کے جھوٹے عقائد کو نیست کر سکتا ہے۔

7. 327 : 1-7

Reform comes by understanding that there is no abiding pleasure in evil, and also by gaining an affection for good according to Science, which reveals the immortal fact that neither pleasure nor pain, appetite nor passion, can exist in or of matter, while divine Mind can and does destroy the false beliefs of pleasure, pain, or fear and all the sinful appetites of the human mind.

8 . ۔ 362: 1۔ 12

یہ لوقا کی انجیل کے ساتویں باب میں اس سے منسلک کیا گیا ہے کہ ایک بار یسوع کسی فریسی، بنام شمعون،کے گھر کا مہمانِ خصوصی بنا، وہ شمعون شاگردبالکل نہیں تھا۔ جب وہ کھانا کھا رہے تھے، ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا، جیسے کہ یہ مشرقی مہمان نوازی کے فہم میں رکاوٹ بناہو۔ایک ”اجنبی عورت“ اندر آئی۔اِس حقیقت سے غافل کہ اْسے ایسی جگہ اور ایسے معاشرے میں، خصوصاً سخت ربونی قوانین میں رہتے ہوئے، گویا کہ وہ کوئی ہندو اچھوت ہے جو ایک اعلیٰ ذات کے برہمن کے گھر میں گھس رہی ہو، یہ عورت (مریم مگدلینی، جیسا کہ اْسے تب کہا جاتا تھا) یسوع کے پاس پہنچی۔

8. 362 : 1-12

It is related in the seventh chapter of Luke's Gospel that Jesus was once the honored guest of a certain Pharisee, by name Simon, though he was quite unlike Simon the disciple. While they were at meat, an unusual incident occurred, as if to interrupt the scene of Oriental festivity. A "strange woman" came in. Heedless of the fact that she was debarred from such a place and such society, especially under the stern rules of rabbinical law, as positively as if she were a Hindoo pariah intruding upon the household of a high-caste Brahman, this woman (Mary Magdalene, as she has since been called) approached Jesus.

9 . ۔ 363: 8 (کیا یسوع نے)۔ 7

کیا یسوع نے اْس عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھا؟ کیا اْس نے اْس کی عقیدت کو روک دیا؟ نہیں! اْس نے نہایت شفقت کے ساتھ اْس کی تعریف کی۔ اور ایسا کچھ نہیں ہو اتھا۔ وہ سب جانتے ہوئے جو اْس کے ارد گرد کھڑے لوگ اپنے دلوں میں سوچ رہے تھے، خاص طور پر میزبان کے دل میں، وہ پریشان ہو رہے تھے کہ ایک نبی ہوتے ہوئے مہمان خصوصی ایک دم سے اس عورت کے اخلاقی درجے کو نہیں جانچ پایا اور اْسے دور ہٹنے کو نہیں کہا، یہ سب جانتے ہوئے، یسوع نے انہیں ایک مختصر تمثیل یا کہانی کے ساتھ ملامت کیا۔ اْس نے دو مقروضوں کا ذکر کیا ایک نے بڑی رقم ادا کرنا تھی اور دوسرے نے تھوڑی، جنہیں اپنے مشترکہ ساہوکار کی جانب سے اس ذمہ داری سے بری کیا گیا تھا۔ ”اْن میں سے کون اْس سے زیادہ محبت رکھے گا؟“ یہ مالک کا سوال شمعون فریسی سے تھا اور شمعون نے جواب دیا، ”وہ جسے اْس نے زیادہ قرض معاف کیا۔“ یسوع نے اس جواب کی تصدیق کی، اور یوں سب کے لئے ایک سبق دیا، جس کے بعد اْس عورت کے لئے یہ شاندار اعلان دیا، ”تیرے گناہ معاف ہوئے۔“

اْس نے اْس کے الٰہی محبت کے قرض کو کیوں معاف کر دیا؟ کیااْس نے توبہ کی اور تبدیل ہوئی، اور کیا اْس کی بصیرت نے اِس بے ساختہ اخلاقی شورش کو بھانپ لیا؟ اْس کے پاؤں پر عطر لگانے سے پہلے اْس نے اپنے آنسوؤں سے انہیں دھویا۔ دوسرے ثبوتوں کی غیر موجودگی میں، اْس کی معافی، تبدیلی اور دانش میں ترقی کی توقع کے لئے کیا اْس کا غم موزوں ثبوت تھا؟ یقیناً اس حقیقت میں حوصلہ افزائی پائی جاتی تھی کہ وہ ایک یقینی اچھائی اور پاکیزگی والے انسان کے لئے اپنا پیار ظاہر کر رہی تھی، جسے آج تک زمین کے سیارے پر پاؤں رکھنے والے سب سے بہترین آدمی کے طور پر جانا گیا ہے۔ اْس کی عقیدت بے تصنع تھی، اور اِس کا اظہار اْس شخص کے لئے ہوا جو جلد ہی سب گناہگاروں کی طرف سے اپنی فانی وجودیت کو لْٹانے والاتھا، اگرچہ وہ اس سے واقف نہیں تھے، تاکہ اْس کے کلام اور اعمال کے وسیلہ وہ ہوس پرستی اور گناہ سے آزاد ہو جائیں۔

9. 363 : 8 (Did Jesus)-7

Did Jesus spurn the woman? Did he repel her adoration? No! He regarded her compassionately. Nor was this all. Knowing what those around him were saying in their hearts, especially his host, — that they were wondering why, being a prophet, the exalted guest did not at once detect the woman's immoral status and bid her depart, — knowing this, Jesus rebuked them with a short story or parable. He described two debtors, one for a large sum and one for a smaller, who were released from their obligations by their common creditor. "Which of them will love him most?" was the Master's question to Simon the Pharisee; and Simon replied, "He to whom he forgave most." Jesus approved the answer, and so brought home the lesson to all, following it with that remarkable declaration to the woman, "Thy sins are forgiven."

Why did he thus summarize her debt to divine Love? Had she repented and reformed, and did his insight detect this unspoken moral uprising? She bathed his feet with her tears before she anointed them with the oil. In the absence of other proofs, was her grief sufficient evidence to warrant the expectation of her repentance, reformation, and growth in wisdom? Certainly there was encouragement in the mere fact that she was showing her affection for a man of undoubted goodness and purity, who has since been rightfully regarded as the best man that ever trod this planet. Her reverence was unfeigned, and it was manifested towards one who was soon, though they knew it not, to lay down his mortal existence in behalf of all sinners, that through his word and works they might be redeemed from sensuality and sin.

10 . ۔ 497: 13 (ہم)۔ 19

ہم یسوع کے کفارے کواْس الٰہی یعنی موثر محبت کے ثبوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں جو راہ دکھانے والے یسوع مسیح کے وسیلہ خدا کے ساتھ انسان کے اتحاد کو آشکار کرتی ہے؛ اور ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انسان مسیح کے وسیلہ، سچ،زندگی اور محبت کے وسیلہ نجات پاتا ہے جیسے کہ گلیلی نبی کی جانب سے بیمار کی شفا اور گناہ اور موت پر فتح یابی میں ظاہر کیا گیا تھا۔

10. 497 : 13 (We)-19

We acknowledge Jesus' atonement as the evidence of divine, efficacious Love, unfolding man's unity with God through Christ Jesus the Way-shower; and we acknowledge that man is saved through Christ, through Truth, Life, and Love as demonstrated by the Galilean Prophet in healing the sick and overcoming sin and death.

11 . ۔ 21: 1۔ 5

اگر آپ کی زور مرہ کی زندگی اور گفتگو میں سچائی غلطی پر فتح پا رہی ہے، تو آپ بالاآخر کہہ سکتے ہیں، ”میں اچھی کْشتی لڑ چکا۔۔۔مَیں نے ایمان کو محفوظ رکھا،“ کیونکہ آپ ایک بہتر انسان ہیں۔ یہ سچائی اور محبت کے ساتھ یکجہتی میں حصہ لینا ہے۔

11. 21 : 1-5

If Truth is overcoming error in your daily walk and conversation, you can finally say, "I have fought a good fight ... I have kept the faith," because you are a better man. This is having our part in the at-one-ment with Truth and Love.

12 . ۔ 568: 24۔ 30

صرف ایک واحد گناہ پر فتح یابی کے لئے ہم لشکروں کے خداوند کا شکر کرتے اور اْس کی عظمت بیان کرتے ہیں۔ تمام تر گناہوں پر ایک عظیم فتح کو ہم کیا کہیں گے؟ آسمان پر اِس سے پہلے کبھی اتنا میٹھا، ایک بلند گیت نہیں پہنچا، جو اب مسیح کے عظیم دل کے قریب تر اور واضح تر ہوکر پہنچتا ہے؛ کیونکہ الزام لگانے والا وہاں نہیں ہے، اور محبت اپنا بنیادی اور ابدی تناؤ باہر نکالتی ہے۔

12. 568 : 24-30

For victory over a single sin, we give thanks and magnify the Lord of Hosts. What shall we say of the mighty conquest over all sin? A louder song, sweeter than has ever before reached high heaven, now rises clearer and nearer to the great heart of Christ; for the accuser is not there, and Love sends forth her primal and everlasting strain.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔