اتوار 19 جون، 2022
”کیا ہم سب کا ایک ہی باپ نہیں؟ کیا ایک ہی خدا نے ہم سب کو پیدا نہیں کیا؟“
“Have we not all one father? hath not one God created us?”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
5۔ جس نے آسمان کو پیدا کیا اور تان دیا جس نے زمین کو اور جو کچھ اْس میں سے نکلتا ہے پھیلایا اور جو اْس کے باشندوں کو سانس اور اْس پر چلنے والوں کو روح عنایت کرتا ہے یعنی خداوند خدا یوں فرماتا ہے۔
6۔ مَیں خداوند نے تجھے صداقت سے بلایا مَیں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لئے تجھے دوں گا۔
7۔ کہ تْو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور اسیروں کو قید سے نکالے اور اْن کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خانے سے چھڑائے۔
8۔ یہواہ مَیں ہی ہوں یہی میرا نام ہے مَیں اپنا جلال کسی دوسرے کے لئے اور اپنی حمد کھودی مورتوں کے لئے روا نہ رکھوں گا۔
9۔دیکھو پرانی باتیں پوری ہو گئیں اور مَیں نئی باتیں بتاتا ہوں۔ اِس سے پیشتر کہ واقع ہوں مَیں تم سے بیان کرتا ہوں۔
6۔ کیا تم اے بیوقوف اور کم عقل لوگو! اِس طرح خداوند کو بدلہ دو گے؟ کیا وہ تمہارا باپ نہیں جس نے تم کو خریدا؟ اْس ہی نے تم کو بنایا اور قیام بخشا۔
3۔ جان رکھو کہ خداوند ہی خدا ہے۔ اْسی نے ہم کو بنایا اور ہم اْسی کے ہیں۔ ہم اْس کے لوگ اور اْس کی چراہ گاہ کی بھیڑیں ہیں۔
6۔ آؤ ہم جھکیں اور سجدہ کریں! اور اپنے خالق ِخداوند کے حضور گھٹنے ٹیکیں۔
5. Thus saith God the Lord, he that created the heavens, and stretched them out; he that spread forth the earth, and that which cometh out of it; he that giveth breath unto the people upon it, and spirit to them that walk therein:
6. I the Lord have called thee in righteousness, and will hold thine hand, and will keep thee, and give thee for a covenant of the people, for a light of the Gentiles;
7. To open the blind eyes, to bring out the prisoners from the prison, and them that sit in darkness out of the prison house.
8. I am the Lord: that is my name: and my glory will I not give to another, neither my praise to graven images.
9. Behold, the former things are come to pass, and new things do I declare: before they spring forth I tell you of them.
6. Do ye thus requite the Lord, O foolish people and unwise? is not he thy father that hath bought thee? hath he not made thee, and established thee?
3. Know ye that the Lord he is God: it is he that hath made us, and not we ourselves; we are his people, and the sheep of his pasture.
6. O come, let us worship and bow down: let us kneel before the Lord our maker.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
24۔ خداوند تیرا فدیہ دینے والا جس نے رحم سے ہی تجھے بنایا یوں فرماتا ہے کہ مَیں خداوند سب کا خالق ہوں میں ہی اکیلا آسمان کو تاننے والا اور زمین کو بچھانے والا ہوں کون میرا شریک ہے؟
24 Thus saith the Lord, thy redeemer, and he that formed thee from the womb, I am the Lord that maketh all things; that stretcheth forth the heavens alone; that spreadeth abroad the earth by myself;
1۔ خوف نہ کر کیونکہ مَیں نے تیرا فدیہ دیا ہے۔ مَیں نے تیرا نام لے کر تجھے بلایا ہے تْو میرا ہے۔
2۔ جب تْو سیلاب میں سے گزرے تو مَیں تیرے ساتھ ہوں گا اور جب تْو ندیوں میں سے گزرے تو وہ تجھے نہ ڈبائیں گی۔ جب تْو آگ پر چلے گا تو تجھے آنچ نہ لگے گی اور شعلہ تجھے نہ جلائے گا۔
3۔ کیونکہ مَیں خداوند تیرا خدا اسرائیل کا قدوس تیرا نجات دینے والاہوں۔
10۔ خداوند فرماتا ہے کہ تم میرے گواہ ہو اور میراخادم بھی جسے مَیں نے برگزیدہ کیا تاکہ تم جانو اور مجھ پر ایمان لاؤ اور سمجھو کہ مَیں وہی ہوں۔ مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہوا اور میرے بعد بھی نہ ہوگا۔
11۔ مَیں ہی یہواہ ہوں اور میرے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔
12۔ مَیں نے اعلان کیا اور مَیں نے نجات بخشی اور مَیں ہی نے ظاہر کیا جب تم میں کوئی اجنبی معبو د نہیں تھا سو تم میرے گواہ ہو خداوند فرماتا ہے کہ مَیں ہی خدا ہوں۔
13۔ آج سے مَیں ہی ہوں اور کوئی نہیں جو میرے ہاتھ سے چھڑا سکے۔ مَیں کام کروں گا۔ کون ہے جو اسے رد کرے؟
15۔ مَیں خداوند تمہارا قدوس اسرائیل کا خالق تمہارا بادشاہ ہوں۔
1 Fear not: for I have redeemed thee, I have called thee by thy name; thou art mine.
2 When thou passest through the waters, I will be with thee; and through the rivers, they shall not overflow thee: when thou walkest through the fire, thou shalt not be burned; neither shall the flame kindle upon thee.
3 For I am the Lord thy God, the Holy One of Israel, thy Saviour:
10 Ye are my witnesses, saith the Lord, and my servant whom I have chosen : that ye may know and believe me, and understand that I am he: before me there was no God formed, neither shall there be after me.
11 I, even I, am the Lord; and beside me there is no saviour.
12 I have declared, and have saved, and I have shewed, when there was no strange god among you: therefore ye are my witnesses, saith the Lord, that I am God.
13 Yea, before the day was I am he; and there is none that can deliver out of my hand: I will work, and who shall let it?
15 I am the Lord, your Holy One, the creator of Israel, your King.
1۔ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔
2۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔
3۔ سب چیزیں اْسی کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا اْس میں سے کوئی چیز بھی اْس کے بغیر پیدا نہ ہوئی۔
4۔اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔
5۔اور نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے قبول نہ کیا۔
10۔وہ دنیا میں تھا اور دنیا اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئی اور دنیا نے اُسے نہ پہچانا۔
11۔وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا۔
12۔لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر اِیمان لاتے ہیں۔
13۔ وہ نہ خون سے جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔
14۔اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہوکر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔
1 In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God.
2 The same was in the beginning with God.
3 All things were made by him; and without him was not any thing made that was made.
4 In him was life; and the life was the light of men.
5 And the light shineth in darkness; and the darkness comprehended it not.
10 He was in the world, and the world was made by him, and the world knew him not.
11 He came unto his own, and his own received him not.
12 But as many as received him, to them gave he power to become the sons of God, even to them that believe on his name:
13 Which were born, not of blood, nor of the will of the flesh, nor of the will of man, but of God.
14 And the Word was made flesh, and dwelt among us, (and we beheld his glory, the glory as of the only begotten of the Father,) full of grace and truth.
2۔ ہمارے باپ خدا اور خداوند یسوع مسیح کی طرف سے تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے۔
3۔ ہمارے خداوند یسوع مسیح کے خدااور باپ کی حمد ہو جو رحمتوں کا باپ اور ہر طرح کی تسلی کا خدا ہے۔
4۔ وہ ہماری سب مصیبتوں میں ہم کو تسلی دیتا ہے تاکہ ہم اْس تسلی کے سبب سے جو خدا ہمیں بخشتا ہے اْن کو بھی تسلی دے سکیں جو کسی طرح کی مصیبت میں ہیں۔
2 Grace be to you and peace from God our Father, and from the Lord Jesus Christ.
3 Blessed be God, even the Father of our Lord Jesus Christ, the Father of mercies, and the God of all comfort;
4 Who comforteth us in all our tribulation, that we may be able to comfort them which are in any trouble, by the comfort wherewith we ourselves are comforted of God.
2۔ یروشلیم میں بھیڑ دروازے کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیتِ صیداکہلاتا ہے اور اْس کے پانچ بر آمدے ہیں۔
5۔ وہاں ایک شخص تھا جو اڑتیس برس سے بیماری میں مبتلا تھا۔
8۔ یسوع نے اْس سے کہا اْٹھ اپنی چار پائی اْٹھا کرچل پھر۔
9۔ وہ شخص فوراً تندرست ہوگیا اوراپنی چار پائی اٹھا کر چلنے پھرنے لگا۔وہ دن سبت کا تھا۔
15۔ اْس آدمی نے جا کر یہودیوں کو خبر دی کہ جس نے مجھے تندرست کیا وہ یسوع ہے۔
16۔ اِس لئے یہودی یسوع کو ستانے لگے کیونکہ وہ ایسے کام سبت کے دن کرتا تھا۔
17۔ لیکن یسوع نے اْن سے کہا کہ میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہوں۔
18۔ اِس سبب سے یہودی اور بھی زیادہ اْس کو قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ وہ نہ فقط سبت کا حکم توڑتا بلکہ خدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خدا کے برابر بناتا تھا۔
19۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سوا اْس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جن کاموں کو وہ کرتا ہے انہیں بیٹا بھی اْسی طرح کرتا ہے۔
20۔اِس لئے کہ باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے اور جتنے کام خود کرتا ہے اْسے دکھاتا ہے بلکہ اِن سے بھی بڑے کام انہیں دکھائے گا تاکہ تم تعجب کرو۔
24۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا ہے اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اْس کی ہے اور اْس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔
26۔ کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اْسی طرح اْس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔
2 Now there is at Jerusalem by the sheep market a pool,
5 And a certain man was there, which had an infirmity thirty and eight years.
8 Jesus saith unto him, Rise, take up thy bed, and walk.
9 And immediately the man was made whole, and took up his bed, and walked: and on the same day was the sabbath.
15 The man departed, and told the Jews that it was Jesus, which had made him whole.
16 And therefore did the Jews persecute Jesus,
17 But Jesus answered them, My Father worketh hitherto, and I work.
18 Therefore the Jews sought the more to kill him, because he not only had broken the sabbath, but said also that God was his Father, making himself equal with God.
19 Then answered Jesus and said unto them, Verily, verily, I say unto you, The Son can do nothing of himself, but what he seeth the Father do: for what things soever he doeth, these also doeth the Son likewise.
20 For the Father loveth the Son, and sheweth him all things that himself doeth: and he will shew him greater works than these, that ye may marvel.
24 Verily, verily, I say unto you, He that heareth my word, and believeth on him that sent me, hath everlasting life, and shall not come into condemnation; but is passed from death unto life.
26 For as the Father hath life in himself; so hath he given to the Son to have life in himself;
9۔ اور زمین پر کسی کو اپنا باپ نہ کہو کیونکہ تمہارا باپ ایک ہی ہے جو آسمانی ہے۔
10۔ اور نہ تم ہادی کہلاؤ کیونکہ تمہارا ہادی ایک ہی ہے یعنی مسیح۔
11۔ لیکن جو تم میں بڑا ہے وہ تمہارا خادم بنے۔
12۔ اور جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔
9 And call no man your father upon the earth: for one is your Father, which is in heaven.
10 Neither be ye called masters: for one is your Master, even Christ.
11 But he that is greatest among you shall be your servant.
12 And whosoever shall exalt himself shall be abased; and he that shall humble himself shall be exalted.
21۔ اْسی گھڑی وہ روح القدس سے خوشی میں بھر گیا اور کہنے لگا اے باپ آسمان اور زمین کے خداوند! مَیں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے یہ باتیں داناؤں اور عقلمندوں سے چھِپائیں اور بچوں پر ظاہر کیں۔ ہاں اے باپ کیونکہ ایسا ہی تجھے پسند آیا۔
22۔ میرے باپ کی طرف سے سب کو مجھے سونپا گیا اور کوئی نہیں جانتا کہ بیٹا کون ہے سوا باپ کے اور کوئی نہیں جانتا کہ باپ کون ہے سوا بیٹے کے اور اْس شخص کے جس پر بیٹا اْسے ظاہر کرنا چاہے۔
21 In that hour Jesus rejoiced in spirit, and said, I thank thee, O Father, Lord of heaven and earth, that thou hast hid these things from the wise and prudent, and hast revealed them unto babes: even so, Father; for so it seemed good in thy sight.
22 All things are delivered to me of my Father: and no man knoweth who the Son is, but the Father; and who the Father is, but the Son, and he to whom the Son will reveal him.
1۔ اے لوگو جو خداوند کی صداقت کی پیروی کرتے ہو اور خداوند کے جو یان ہو میری سنو اِس چٹان پر جس میں تم کاٹے گئے ہو نظر کرو۔
1 Hearken to me, ye that follow after righteousness, ye that seek the Lord: look unto the rock whence ye are hewn,
سائنس میں انسان روح کی اولاد ہے۔ اْس کا نسب خوبصورت، اچھائی اور پاکیزگی تشکیل دیتی ہے۔ اْس کا اصل، بشر کی مانند، وحشی جبلت میں نہیں اور نہ ہی وہ ذہانت تک پہنچنے سے پہلے مادی حالات سے گزرتا ہے۔ روح اْس کی ہستی کا ابتدائی اور اصلی منبع ہے؛ خدا اْس کا باپ ہے، اور زندگی اْس کی ہستی کا قانون ہے۔
In Science man is the offspring of Spirit. The beautiful, good, and pure constitute his ancestry. His origin is not, like that of mortals, in brute instinct, nor does he pass through material conditions prior to reaching intelligence. Spirit is his primitive and ultimate source of being; God is his Father, and Life is the law of his being.
یسوع نے کسی بدنی تعلق کو تسلیم نہیں کیا۔ اْس نے کہا: ”زمین پر کسی کو اپنا باپ نہ کہو کیونکہ تمہارا باپ ایک ہی ہے جو آسمانی ہے۔“ اْس نے دوبارہ کہا: ”کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی“، یہ مطلب دیتے ہوئے کہ یہ وہی ہیں جو اْس کے باپ کی مرضی بجا لاتے ہیں۔ ہمارے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں کہ وہ کسی شخص کو باپ کے نام سے پکارتا ہو۔وہ روح، خدا کو واحد خالق کے روپ میں جانتا تھا اور اِس لئے اْسے بطور سب کا باپ بھی جانتا تھا۔
Jesus acknowledged no ties of the flesh. He said: "Call no man your father upon the earth: for one is your Father, which is in heaven." Again he asked: "Who is my mother, and who are my brethren," implying that it is they who do the will of his Father. We have no record of his calling any man by the name of father. He recognized Spirit, God, as the only creator, and therefore as the Father of all.
انسان، جو خدا کا عکس ہے، کی تلاش خدا کی ابتداء سے متعلق جاننے کے برابر ہے جو خود موجود اور ابدی ہے۔صرف کمزور غلطی ہی روح کو مادے کے ساتھ، اچھائی کو بدی کے ساتھ، لافانیت کو فانیت کے ساتھ متحد کرنے کی کوشش کرے گی، اور اِس نقلی اتحاد کو انسان کہے گی، جیسے کہ انسان عقل اور مادے، خدا اور انسان دونوں کی نسل ہو۔ تخلیق روحانی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے۔ ہم اپنی کاملیت کا معیار کھو دیتے اور الوہیت کے مناسب تصور کو ایک طرف کر دیتے ہیں، جب ہم یہ قبول کرتے ہیں کہ کامل اْس عدم کا مصنف ہے جو نامکمل ہو سکتا ہے، کہ خدا گناہ کو طاقت بخشتا ہے، یا یہ کہ سچائی غلطی کو قابلیت عنایت کرتی ہے۔ ہمارا بڑا نمونہ، یسوع، وجودیت کے ذاتی اظہار کو بحال کرسکا، جو موت کے وقت غائب ہوچکا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ خدا انسان کی زندگی ہے، مصلوب ہونے کے بعد یسوع خود کو غیر تبدیل شدہ پیش کرنے کے قابل تھا۔
Searching for the origin of man, who is the reflection of God, is like inquiring into the origin of God, the self-existent and eternal. Only impotent error would seek to unite Spirit with matter, good with evil, immortality with mortality, and call this sham unity man, as if man were the offspring of both Mind and matter, of both Deity and humanity. Creation rests on a spiritual basis. We lose our standard of perfection and set aside the proper conception of Deity, when we admit that the perfect is the author of aught that can become imperfect, that God bestows the power to sin, or that Truth confers the ability to err. Our great example, Jesus, could restore the individualized manifestation of existence, which seemed to vanish in death. Knowing that God was the Life of man, Jesus was able to present himself unchanged after the crucifixion.
سائنس میں، نہ تو عقل مادے کو پیدا کرتی ہے نہ مادا عقل کو پیدا کرتا ہے۔کسی مادے میں طاقت یا اہلیت یا دانش نہیں کہ وہ کچھ پیدا کرے یا نیست کرے۔سب کچھ صرف ایک عقل، یعنی خدا کے اختیارمیں ہے۔
In Science, Mind neither produces matter nor does matter produce mind. No mortal mind has the might or right or wisdom to create or to destroy. All is under the control of the one Mind, even God.
فانی مخالفت کی بنیاد انسانی ابتداء کا جھوٹا فہم ہے۔ درست طور پر شروع کرنا درست طور پر آخر ہونا ہے۔ ہر وہ نظریہ جو دماغ سے شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے غلط شروع ہوتا ہے۔الٰہی عقل ہی وجودیت کی واحدوجہ یا اصول ہے۔ وجہ مادے میں، فانی عقل میں یا جسمانی شکل میں موجود نہیں ہے۔
بشر غرور پسند ہوتے ہیں۔وہ خود کو آزاد کارکنان، ذاتی مصنف، کسی ایسی چیز کے بنانے والے تصور کرتے ہیں جو خدا نہ بنا سکا یا نہیں بنا سکتا۔فانی عقل کی تخلیقات مادی ہیں۔لافانی روحانی انسان تنہا سچائی کی تخلیق کو پیش کرتا ہے۔
The foundation of mortal discord is a false sense of man's origin. To begin rightly is to end rightly. Every concept which seems to begin with the brain begins falsely. Divine Mind is the only cause or Principle of existence. Cause does not exist in matter, in mortal mind, or in physical forms.
Mortals are egotists. They believe themselves to be independent workers, personal authors, and even privileged originators of something which Deity would not or could not create. The creations of mortal mind are material. Immortal spiritual man alone represents the truth of creation.
مادی ارتقاء بیان کرتا ہے کہ عظیم پہلی وجہ کو مادی بننا چاہئے اور اِس کے بعد عقل کے پاس یا خاک اور عدم میں لوٹ جانا چاہئے۔
Material evolution implies that the great First Cause must become material, and afterwards must either return to Mind or go down into dust and nothingness.
کیا روح اِس کے مخالف، مادے کو تشکیل دے سکتی ہے اور مادے کو گناہ کرنے اور تکلیف اٹھانے کی قابلیت دے سکتی ہے؟
Could Spirit evolve its opposite, matter, and give matter ability to sin and suffer?
یہ سائنسی حقیقت کہ انسان اور کائنات روح سے مرتب ہوتے ہیں، اور اسی طرح روحانی بھی ہوتے ہیں، الٰہی سائنس میں اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے جتنا کہ یہ ثبوت ہے کہ فانی بشر صرف تبھی صحتمندی کا فہم پاتے ہیں جب وہ گناہ اور بیماری کا فہم کھودیتے ہیں۔یہ مانتے ہوئے کہ انسان خالق ہے بشر خدا کی تخلیق کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ پہلے سے تخلیق شدہ خدا کے فرزند صرف تب اپنی پہچان پاتے ہیں جب انسان ہستی کی سچائی کو پا لیتا ہے۔
The scientific fact that man and the universe are evolved from Spirit, and so are spiritual, is as fixed in divine Science as is the proof that mortals gain the sense of health only as they lose the sense of sin and disease. Mortals can never understand God's creation while believing that man is a creator.
وراثت شریعت نہیں ہے۔
فانی عقل، مادے میں احساس کی بنیادوں پر عمل کرتے ہوئے، حیوانی مقناطیسیت ہے؛ مگر یہ نام نہاد عقل، جس میں سے ساری بدی نکلتی ہے، خود کی مخالفت کرتی ہے، اور اسے بالاآخر ابدی سچائی، یا کرسچن سائنس میں بیان کردہ الٰہی عقل کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ کرسچن سائنس میں ہمارے ادراک کے تناسب میں، ہمیں وراثت کے عقیدے، مادے پر عقل کے عقیدے یا حیوانی مقناطیسیت کے عقیدے سے آزاد کیا جاتا ہے؛ اور فانی ہستی کے معیار سے متعلق ہمارے روحانی فہم کے تناسب میں ہم گناہ کو اْس کی تصوراتی طاقت سے غیر مسلح کرتے ہیں۔
Heredity is not a law.
Mortal mind, acting from the basis of sensation in matter, is animal magnetism; but this so-called mind, from which comes all evil, contradicts itself, and must finally yield to the eternal Truth, or the divine Mind, expressed in Science. In proportion to our understanding of Christian Science, we are freed from the belief of heredity, of mind in matter or animal magnetism; and we disarm sin of its imaginary power in proportion to our spiritual understanding of the status of immortal being.
فانی سوچ اپنے تصورات کومنتقل کرتی ہے، اور اپنی نسل کو انسانی وہموں کی شبیہ پر بناتی ہے۔ خدا، روح روحانی طور پر کام کرتا ہے مادی طور پر نہیں۔ذہن یا مادے نے کبھی انسانی نظریے کو نہیں بنایا تھا۔ ارتعاش ذہانت نہیں ہے، پس یہ ایک خالق بھی نہیں ہے۔ لافانی خیالات، پاکیزہ، کامل اور مستقل، الٰہی عقل کے ذریعے الٰہی سائنس کے وسیلہ منتقل ہوتے ہیں، جو غلطی کو سچائی کے ساتھ درست کرتی اور آخر تک روحانی خیالات، الٰہی نظریات کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ وہ ہم آہنگ نتائج پیدا کر سکیں۔
Mortal thought transmits its own images, and forms its offspring after human illusions. God, Spirit, works spiritually, not materially. Brain or matter never formed a human concept. Vibration is not intelligence; hence it is not a creator. Immortal ideas, pure, perfect, and enduring, are transmitted by the divine Mind through divine Science, which corrects error with truth and demands spiritual thoughts, divine concepts, to the end that they may produce harmonious results.
عقل خیالات میں اپنی خود کی شبیہ پیدا کرتی ہے، اور خیال کا مواد غیر ذہین مادے کے فرضی مواد سے بہت دور ہے۔ پس عقل کاباپ مادے کا باپ نہیں ہے۔مادی حواس اور انسانی تصورات روحانی خیالات کا ترجمہ مادی عقائد میں کریں گے، اور کہیں گے کہ تشبیہاتی خدا، لامتناہی اصول کی بجائے، دوسرے لفظوں میں، الٰہی محبت بارش کا باپ ہے، ”شبنم کے قطرے جس سے تولد ہوئے،“ جو ”منطقتہ البروج کو اْن کے ہاتھو ں پر نکال سکتا ہے“ اور ”بنات النعش کی اْن کی سہیلیوں کے ساتھ“رہبری کر سکتا ہے۔
Mind creates His own likeness in ideas, and the substance of an idea is very far from being the supposed substance of non-intelligent matter. Hence the Father Mind is not the father of matter. The material senses and human conceptions would translate spiritual ideas into material beliefs, and would say that an anthropomorphic God, instead of infinite Principle, — in other words, divine Love, — is the father of the rain, "who hath begotten the drops of dew," who bringeth "forth Mazzaroth in his season," and guideth "Arcturus with his sons."
صرف روحانی ارتقا ء ہی الٰہی قوت کی مشق کرنے کے قابل ہے۔
Spiritual evolution alone is worthy of the exercise of divine power.
جب بشر خدا اور انسان سے متعلق درست خیالات رکھتے ہیں، تخلیق کے مقاصد کی کثرت، جو اس سے قبل نادیدنی تھی، اب دیدنی ہو جائے گی۔ جب ہمیں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ زندگی روح ہے، نہ کبھی مادے کا اور نہ کبھی مادے میں، یہ ادراک خدا میں سب کچھ اچھا پاتے ہوئے اور کسی دوسرے شعور کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے، خود کاملیت کی طرف وسیع ہو گا۔
روح اور اْس کی اصلاحات ہستی کے واحد حقائق ہیں۔مادا روح کی خورد بین تلے غائب ہوجاتا ہے۔ گناہ سچائی کے وسیلہ ناگزیر ہے، اور بیماری اور موت پر یسوع نے فتح پائی، جس نے اِنہیں غلطی کی اشکال ثابت کیا۔ روحانی زندگی اور برکت ہی واحد ثبوت ہیں جن کے وسیلہ ہم حقیقی وجودیت کو پہچان سکتے اور ناقابل بیان امن کو محسوس کرتے ہیں جو سب جذب کرنے والی روحانی محبت سے نکلتا ہے۔
جب ہم کرسچن سائنس میں راستہ جانتے ہیں اور انسان کی روحانی ہستی کو پہچانتے ہیں، ہم خدا کی تخلیق کو سمجھیں اور دیکھیں گے،سارا جلال زمین اور آسمان اور انسان کے لئے۔
As mortals gain more correct views of God and man, multitudinous objects of creation, which before were invisible, will become visible. When we realize that Life is Spirit, never in nor of matter, this understanding will expand into self-completeness, finding all in God, good, and needing no other consciousness.
Spirit and its formations are the only realities of being. Matter disappears under the microscope of Spirit. Sin is unsustained by Truth, and sickness and death were overcome by Jesus, who proved them to be forms of error. Spiritual living and blessedness are the only evidences, by which we can recognize true existence and feel the unspeakable peace which comes from an all-absorbing spiritual love.
When we learn the way in Christian Science and recognize man's spiritual being, we shall behold and understand God's creation, — all the glories of earth and heaven and man.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████