اتوار 19 فروری، 2023
”تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھے۔“
“And the peace of God, which passeth all understanding, shall keep your hearts and minds through Christ Jesus.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
5۔ میں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں میرے سوا کوئی خدا نہیں۔ میں نے تیری کمر باندھی اگرچہ تو نے مجھے نہ پہچانا۔
6۔ تاکہ مشرق سے مغرب تک لوگ یہ جان لیں کہ میرے سوا کوئی نہیں مَیں ہی خداوند ہو ں میرے سوا کوئی دوسرا نہیں۔
9۔ افسوس اْس پر جو خالق سے جھگڑتا ہے! ٹھیکرا توزمین کے ٹھیکروں میں سے ہے کیا مٹی کمہار سے کہے کہ تْو کیا بناتا ہے؟ کیا تیری دستکاری کہے اْس کے تو ہاتھ نہیں؟
12۔ میں نے زمین بنائی اْس پر انسان کو پیدا کیا اورمیں ہی نے آسمان کو تانا اور اسکے سب لشکروں پر میں نے حکم کیا۔
19۔ مَیں خداوند سچ کہتا ہوں اور راست باتیں بیان فرماتا ہوں۔
22۔ اے انتہائے زمین کے سب رہنے والو تم میری طرف متوجہ ہو اور نجات پاؤ کیونکہ مَیں خدا ہوں اور میرے سوا کوئی نہیں۔
5. I am the Lord, and there is none else, there is no God beside me: I girded thee, though thou hast not known me:
6. That they may know from the rising of the sun, and from the west, that there is none beside me. I am the Lord, and there is none else.
9. Woe unto him that striveth with his Maker! Let the potsherd strive with the potsherds of the earth. Shall the clay say to him that fashioneth it, What makest thou? or thy work, He hath no hands?
12. I have made the earth, and created man upon it: I, even my hands, have stretched out the heavens, and all their host have I commanded.
19. I the Lord speak righteousness, I declare things that are right.
22. Look unto me, and be ye saved, all the ends of the earth: for I am God, and there is none else.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
7۔ کیونکہ جیسے اْس کے دل کے اندیشے ہیں وہ ویسا ہی ہے۔
7 For as he thinketh in his heart, so is he:
1۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور جو کچھ مجھ میں ہے اْس کے قدوس نام کو مبارک کہے۔
2۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور اْس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر۔
3۔ وہ تیری ساری بدکاری بخشتا ہے۔ وہ تجھے تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔
4۔ وہ تیری جان ہلاکت سے بچاتا ہے۔ وہ تیرے سر پر شفقت و رحمت کا تاج رکھتا ہے۔
1 Bless the Lord, O my soul: and all that is within me, bless his holy name.
2 Bless the Lord, O my soul, and forget not all his benefits:
3 Who forgiveth all thine iniquities; who healeth all thy diseases;
4 Who redeemeth thy life from destruction; who crowneth thee with lovingkindness and tender mercies;
1۔ اور اے بھائیو! جب مَیں تمہارے پاس آیا اور تم میں خدا کے بھید کی منادی کرنے لگا تو اعلیٰ درجے کی تقریر یا حکمت کے ساتھ نہیں آیا۔
4۔اور میری تقریر اور میری منادی میں حکمت کی لبھانے والی باتیں نہ تھیں بلکہ وہ روح اور قدرت سے ثابت ہوتی تھی۔
5۔تاکہ تمہارا ایمان انسان کی حکمت پر نہیں بلکہ خدا کی قدرت پر موقوف ہو۔
12۔ مگر ہم نے نہ دنیا کی روح بلکہ وہ روح پایا جو خدا کی طرف سے ہے تاکہ اْن باتوں کو جانیں جو خدا نے ہمیں عنایت کی ہیں۔
13۔ اور ہم اْن باتوں کو اْن الفاظ میں بیان نہیں کرتے جو انسانی حکمت نے ہم کو سکھائے ہوں بلکہ اْن الفاظ میں جو روح نے سکھائے ہیں اور روحانی باتوں کا روحانی باتوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔
16۔ خدا کی عقل کو کس نے جانا ہے کہ اْس کو تعلیم دے سکے؟ مگر ہم میں مسیح کی عقل ہے۔
1 And I, brethren, when I came to you, came not with excellency of speech or of wisdom, declaring unto you the testimony of God.
4 And my speech and my preaching was not with enticing words of man’s wisdom, but in demonstration of the Spirit and of power:
5 That your faith should not stand in the wisdom of men, but in the power of God.
12 Now we have received, not the spirit of the world, but the spirit which is of God; that we might know the things that are freely given to us of God.
13 Which things also we speak, not in the words which man’s wisdom teacheth, but which the Holy Ghost teacheth; comparing spiritual things with spiritual.
16 For who hath known the mind of the Lord, that he may instruct him? But we have the mind of Christ.
40۔ جب یسوع واپس آرہا تھا تو لوگ اْس سے خوشی کے ساتھ ملے کیونکہ سب اْس کی راہ تکتے تھے۔
41۔ اور دیکھو یائیر نام ایک شخص جو عبادتخانے کا سردار تھا آیا اور یسوع کے قدموں پر گر کر اْس کی منت کی کہ میرے گھر چل۔
42۔ کیونکہ اْس کی اکلوتی بیٹی جو بارہ برس کی تھی مرنے کو تھی۔
49۔ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ عبادتخانہ کے سردار کے ہاں سے کسی نے آکر کہا تیری بیٹی مرگئی۔استاد کو تکلیف نہ دے۔
50۔ یسوع نے سن کر اْسے جواب دیا خوف نہ کر فقط اعتقاد رکھ۔ وہ بچ جائے گی۔
51۔ اور گھر میں پہنچ کر پطرس اور یوحنا اور یعقوب اور لڑکی کے ماں باپ کے سوا کسی کو اپنے ساتھ اندر نہ جانے دیا۔
52۔ اور سب اْس کے لئے رو پیٹ رہے تھے مگر اْس نے کہا ماتم نہ کرو۔ وہ مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔
53۔ وہ اْس پر ہنسنے لگے کیونکہ جانتے تھے کہ وہ مر گئی ہے۔
54۔ مگر اْس نے اْس کا ہاتھ پکڑا اور پکار کر کہا اے لڑکی اْٹھ۔
55۔ اْس کی روح پھر آئی اور وہ اْسی دم اْٹھی۔ پھر یسوع نے حکم دیا کہ لڑکی کو کچھ کھانے کو دو۔
56۔ اْس کے ماں باپ حیران ہوئے۔
40 And it came to pass, that, when Jesus was returned, the people gladly received him: for they were all waiting for him.
41 And, behold, there came a man named Jairus, and he was a ruler of the synagogue: and he fell down at Jesus’ feet, and besought him that he would come into his house:
42 For he had one only daughter, about twelve years of age, and she lay a dying.
49 While he yet spake, there cometh one from the ruler of the synagogue’s house, saying to him, Thy daughter is dead; trouble not the Master.
50 But when Jesus heard it, he answered him, saying, Fear not: believe only, and she shall be made whole.
51 And when he came into the house, he suffered no man to go in, save Peter, and James, and John, and the father and the mother of the maiden.
52 And all wept, and bewailed her: but he said, Weep not; she is not dead, but sleepeth.
53 And they laughed him to scorn, knowing that she was dead.
54 And he put them all out, and took her by the hand, and called, saying, Maid, arise.
55 And her spirit came again, and she arose straightway: and he commanded to give her meat.
56 And her parents were astonished:
14۔ اور جب وہ شاگردوں کے پاس آئے تو دیکھا کہ اُن کے چاروں طرف بڑی بھیڑ ہے فقیہ اُن سے بحث کررہے ہیں۔
17۔ اور بھیڑ میں سے ایک نے اُسے جواب دیا کہ اے استاد میں اپنے بیٹے کو جس میں گونگی روح ہے تیرے پاس لایا تھا۔
18۔ وہ جہاں اُسے پکڑتی ہے پٹک دیتی ہے اور کف بھر لاتا اور دانت پیستا اور سوکھتا جاتا ہے اور میں نے تیرے شاگردوں سے کہا تھا کہ وہ اسے نکال دیں مگر وہ نہ نکال سکے۔
19۔ اس نے جواب میں اُن سے کہا اے بے اعتقاد قوم میں کب تک تمہارے ساتھ رہوں گا؟ کب تک تمہاری برداشت کروں گا؟ اسے میرے پاس لاؤ۔
21۔ اُس نے اُس کے باپ سے پوچھا یہ اس کو کتنی مدت سے ہے؟ اُس نے کہا بچپن سے۔
22۔ اور اُس نے اکثر اسے آگ اور پانی میں ڈالا تاکہ اُسے ہلاک کرے لیکن اگر تو کچھ کر سکتا ہے تو ہم پر ترس کھا کر ہماری مدد کر۔
23۔ یسوع نے اُس سے کہا کیا! اگر تو کر سکتا ہے! جو اعتقاد رکھتا ہے اُس کے لئے سب کچھ ہو سکتا ہے۔
24۔ اُس لڑکے کے باپ نے فی الفور چلا کر کہا میں اعتقاد رکھتا ہوں۔ تو میری بے اعتقادی کا علاج کر۔
25۔ جب یسوع نے دیکھا کہ لوگ دوڑ دوڑ کر جمع ہورہے ہیں تو اُس ناپاک روح کو جھڑک کر اُس سے کہا اے گونگی بہری روح! میں تجھے حکم کرتا ہوں اس میں سے نکل آ اور اس میں پھر کبھی داخل نہ ہو۔
26۔ وہ چلا کر اور اُسے بہت مروڑ کر نکل آئی اور وہ مردہ سا ہوگیا ایسا کہ اکثروں نے کہا کہ وہ مرگیا۔
27۔ مگر یسوع نے اُس کا ہاتھ پکڑکر اُسے اٹھایا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
14 And when he came to his disciples, he saw a great multitude about them,
17 And one of the multitude answered and said, Master, I have brought unto thee my son, which hath a dumb spirit;
18 And wheresoever he taketh him, he teareth him: and he foameth, and gnasheth with his teeth, and pineth away: and I spake to thy disciples that they should cast him out; and they could not.
19 He answereth him, and saith, O faithless generation, how long shall I be with you? how long shall I suffer you? bring him unto me.
21 And he asked his father, How long is it ago since this came unto him? And he said, Of a child.
22 And ofttimes it hath cast him into the fire, and into the waters, to destroy him: but if thou canst do any thing, have compassion on us, and help us.
23 Jesus said unto him, If thou canst believe, all things are possible to him that believeth.
24 And straightway the father of the child cried out, and said with tears, Lord, I believe; help thou mine unbelief.
25 When Jesus saw that the people came running together, he rebuked the foul spirit, saying unto him, Thou dumb and deaf spirit, I charge thee, come out of him, and enter no more into him.
26 And the spirit cried, and rent him sore, and came out of him: and he was as one dead; insomuch that many said, He is dead.
27 But Jesus took him by the hand, and lifted him up; and he arose.
1۔پس مَیں جو خداوند میں قیدی ہوں تم سے التماس کرتا ہوں کہ جس بلاوے سے تم بلائے گئے تھے اْس کے لائق چال چلو۔
2۔ یعنی کمال فروتنی اور حِلم کے ساتھ تحمل کر کے محبت سے ایک دوسرے کی برداشت کرو۔
3۔ اور اِسی کوشش میں رہو کہ روح کی یگانگت صلح کے بند سے بندھی رہے۔
4۔ ایک ہی بدن ہے اور ایک ہی روح۔ چنانچہ تمہیں جو بلائے گئے تھے اپنے بلائے جانے سے امید بھی ایک ہی ہے۔
5۔ ایک ہی خداوند ہے۔ ایک ہی ایمان۔ ایک ہی بپتسمہ۔
6۔ اور سب کا خدااور باپ ایک ہی ہے جو سب کے اوپر اور سب کے درمیان اور سب کے اندر ہے۔
7۔ اور ہم میں سے ہر ایک پر مسیح کی بخشش کے اندازہ کے موافق فضل ہوا ہے۔
13۔ جب تک ہم سب کے سب خدا کے بیٹے کے ایمان اور اْس کی پہچان میں ایک نہ ہو جائیں اور کامل انسان نہ بنیں یعنی مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک نہ پہنچ جائیں۔
14۔ تاکہ ہم آگے کو بچے نہ رہیں اور آدمیوں کی بازیگری اورمکاری کے سبب اْن کے گمراہ کرنے والے منصوبوں کی طرف ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اچھلتے بہتے نہ پھریں۔
15۔ بلکہ محبت کے ساتھ سچائی پر قائم رہ کر اور اْس کے ساتھ جو سر ہے یعنی مسیح کے ساتھ پیوستہ ہوکر ہر طرح سے بڑھتے جائیں۔
22۔ کہ تم اپنے اگلے چال چلن کی پرانی انسانیت کو اتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔
23۔ اور اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے بنتے جاؤ۔
24۔ اور نئی انسانیت کو پہنو جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔
1 I therefore, the prisoner of the Lord, beseech you that ye walk worthy of the vocation wherewith ye are called,
2 With all lowliness and meekness, with longsuffering, forbearing one another in love;
3 Endeavouring to keep the unity of the Spirit in the bond of peace.
4 There is one body, and one Spirit, even as ye are called in one hope of your calling;
5 One Lord, one faith, one baptism,
6 One God and Father of all, who is above all, and through all, and in you all.
7 But unto every one of us is given grace according to the measure of the gift of Christ.
13 Till we all come in the unity of the faith, and of the knowledge of the Son of God, unto a perfect man, unto the measure of the stature of the fulness of Christ:
14 That we henceforth be no more children, tossed to and fro, and carried about with every wind of doctrine, by the sleight of men, and cunning craftiness, whereby they lie in wait to deceive;
15 But speaking the truth in love, may grow up into him in all things, which is the head, even Christ:
22 That ye put off concerning the former conversation the old man, which is corrupt according to the deceitful lusts;
23 And be renewed in the spirit of your mind;
24 And that ye put on the new man, which after God is created in righteousness and true holiness.
سوال: عقل کیا ہے؟
جواب: عقل خدا ہے۔ غلطی کو نیست کرنے والی اعلیٰ سچائی خدا یعنی اچھائی واحد عقل ہے اور یہ کہ لامحدود عقل کی جعلی مخالف، جسے شیطان یا بدی کہا جاتا ہے، عقل نہیں، سچائی نہیں بلکہ غلطی ہے، جو حقیقت اور ذہانت سے عاری ہے۔یہاں صرف ایک ہی عقل ہوسکتی ہے کیونکہ یہاں صرف ایک خدا کے سوا کوئی نہیں؛ لیکن اگر بشر کسی دوسری عقل کا دعویٰ نہیں کرتے اور کسی دوسرے کو نہیں مانتے، تو گناہ نامعلوم رہے گا۔
Question. — What is Mind?
Answer. — Mind is God. The exterminator of error is the great truth that God, good, is the only Mind, and that the supposititious opposite of infinite Mind — called devil or evil — is not Mind, is not Truth, but error, without intelligence or reality. There can be but one Mind, because there is but one God; and if mortals claimed no other Mind and accepted no other, sin would be unknown.
وہ الٰہی عقل جس نے انسان کو خلق کیا اپنی صورت اور شبیہ کو برقرار رکھتا ہے۔ انسانی عقل خدا کے مخالف ہے اور اِسے ختم ہونا چاہئے، جیسے کہ پولوس رسول واضح کرتا ہے۔جو وجود رکھتا ہے وہ محض الٰہی فہم اور اْس کا خیال ہے، اسی فہم میں ساری ہستی ہم آہنگ اور ابدی پائی جاتی ہے۔ سیدھا یا تنگ راستہ اس حقیقت کو دیکھنے اور تسلیم کرنے، اس قوت کو قبول کرنے اور سچائی کی راہوں کی پیروی کرنے کے لئے ہے۔
وہ فانی عقل جو فانی بدن کے ہر عضو پر حکمرانی کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، ہمارے پاس ایک زبردست ثبوت ہے۔ مگر یہ نام نہاد عقل ایک افسانہ ہے، اور اِسے خود اپنی مرضی سے سچائی کو تسلیم کرنا چاہئے۔یہ اعصائے سلطنت کو چلائے گا، مگر یہ بے اختیار ہوگا۔لافانی الٰہی عقل اِس کی تمام تر فرضی بالادستی لے لیتی ہے اور فانی عقل کو خوداِسی سے بچاتی ہے۔
The divine Mind that made man maintains His own image and likeness. The human mind is opposed to God and must be put off, as St. Paul declares. All that really exists is the divine Mind and its idea, and in this Mind the entire being is found harmonious and eternal. The straight and narrow way is to see and acknowledge this fact, yield to this power, and follow the leadings of truth.
That mortal mind claims to govern every organ of the mortal body, we have overwhelming proof. But this so-called mind is a myth, and must by its own consent yield to Truth. It would wield the sceptre of a monarch, but it is powerless. The immortal divine Mind takes away all its supposed sovereignty, and saves mortal mind from itself.
شفا دینے والی عقل کا ہمارا نظام کْلی ہستی کی فطرت اور جوہر، الٰہی عقل اور محبت کی بنیادی خصوصیات پر بنیاد رکھتا ہے۔اِس کی دوا سازی اخلاقی ہے، اور اِ س کی دوا عقلی اور روحانی ہے، حالانکہ یہ جسمانی شفا کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔تاہم مابعد الاطبعیات کا یہ بنیادی ترین حصہ سمجھنے اور ظاہر کرنے میں مشکل تر ہے، کیونکہ مادی شعور کے لئے سب کچھ مادی ہے، جب تک کہ ایسا شعور روح کے وسیلہ تصدیق نہ پائے۔
Our system of Mind-healing rests on the apprehension of the nature and essence of all being, — on the divine Mind and Love's essential qualities. Its pharmacy is moral, and its medicine is intellectual and spiritual, though used for physical healing. Yet this most fundamental part of metaphysics is the one most difficult to understand and demonstrate, for to the material thought all is material, till such thought is rectified by Spirit.
بعض اوقات یسوع نے کسی بیماری کو نام سے پکارا، جیسا کہ اْس نے مرگی والے لڑکے سے کہا، ”اے گونگی بہری روح! میں تجھے حکم کرتا ہوں اس میں سے نکل آ اور اس میں پھر کبھی داخل نہ ہو۔“اِس میں یہ شامل ہوتا ہے کہ ”وہ روح(یعنی غلطی) چلا کر اور اُسے بہت مروڑ کر نکل آئی اور مردہ سا ہوگیا،“ یہ واضح ثبوت تھا کہ وہ بیماری مادی نہیں تھی۔یہ واقعات وہ منظوریاں دکھاتے ہیں جو یسوع روحانی زندگی کے قوانین سے لاعلمی کے لئے بنانے کی خواہش رکھتا تھا۔اکثر اْس نے جس بدمزاجی کا بھی علاج کیا اْسے کوئی نام نہیں دیا۔ ہیکل کے سردار کی بیٹی سے، جسے وہ مردہ کہہ رہے تھے مگر اْس نے جسے کہا، ”لڑکی مری نہیں بلکہ سوتی ہے،“ اْس نے بس اِتنا ہی کہا، ”اے لڑکی! مَیں تجھ سے کہتا ہوں اْٹھ!“ سوکھے ہاتھ کا دْکھ اٹھانے والے سے اْس نے کہا، ”اپنا ہاتھ بڑھا،“ اور وہ ”دوسرے ہاتھ کی مانند ٹھیک ہوگیا۔“
Sometimes Jesus called a disease by name, as when he said to the epileptic boy, "Thou dumb and deaf spirit, I charge thee, come out of him, and enter no more into him." It is added that "the spirit [error] cried, and rent him sore and came out of him, and he was as one dead," — clear evidence that the malady was not material. These instances show the concessions which Jesus was willing to make to the popular ignorance of spiritual Life-laws. Often he gave no name to the distemper he cured. To the synagogue ruler's daughter, whom they called dead but of whom he said, "she is not dead, but sleepeth," he simply said, "Damsel, I say unto thee, arise!" To the sufferer with the withered hand he said, "Stretch forth thine hand," and it "was restored whole, like as the other."
اگر بیماری حقیقی ہے،تو یہ لافانیت سے تعلق رکھتی ہے؛ اگر سچی ہے تو یہ سچائی سے تعلق رکھتی ہے۔ کیا آپ منشیات کے ساتھ یا بِنا سچائی کے معیار یا حالت کو نیست کرنے کی کوشش کر یں گے؟لیکن اگر بیماری یا گناہ فریب نظری ہیں، تو اس فانی خواب یا دھوکے سے بیدار ہونا ہمارے لئے صحت، پاکیزگی اور لافانیت پیدا کرے گا۔یہ بیداری مسیح کی ہمیشہ کے لئے آمد ہے، یعنی سچائی کا ترقی یافتہ ظہور، جو غلطی کو دور کرتا اور بیمار کو شفا دیتا ہے۔یہ وہ نجات ہے جو خدا، الٰہی اصول، محبت کی جانب سے آتی ہے، جس کا اظہار یسوع نے کیا۔
If sickness is real, it belongs to immortality; if true, it is a part of Truth. Would you attempt with drugs, or without, to destroy a quality or condition of Truth? But if sickness and sin are illusions, the awakening from this mortal dream, or illusion, will bring us into health, holiness, and immortality. This awakening is the forever coming of Christ, the advanced appearing of Truth, which casts out error and heals the sick. This is the salvation which comes through God, the divine Principle, Love, as demonstrated by Jesus.
جیسے اْس کے دل کے اندیشے ہیں وہ ویسا ہی ہے۔عقل وہ سب کچھ ہے جو محسوس کرتا، کام کرتا یا کام میں خلل ڈالتا ہے۔ اِس سے لاعلم ہونے یا اِس کی مضمر ذمہ داری سے ہٹنے سے شفائیہ کوشش غلط رْخ اختیار کرلیتی ہے اور یوں جسم پر ضمیر کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔
As a man thinketh, so is he. Mind is all that feels, acts, or impedes action. Ignorant of this, or shrinking from its implied responsibility, the healing effort is made on the wrong side, and thus the conscious control over the body is lost.
کچھ بھی حقیقی اور ابدی نہیں ہے، کچھ بھی روح نہیں ہے، ماسوائے خدا اور اْس کے خیال کے۔ بدی میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ نہ تو کوئی شخص، جگہ اور نہ ہی کوئی چیز ہے، بلکہ محض ایک عقیدہ، مادی حس کا ایک بھرم ہے۔
ساری حقیقت کی شناخت یا خیال ہمیشہ جاری رہتا ہے؛ لیکن روح یا سب کا الٰہی اصول، روح کی بناوٹیں نہیں ہیں۔ جان روح، خدا، خالق، حکمران محدود شکل سے باہر لامحدود اصول کا مترادف لفظ ہے، جو صرف عکس کی تشکیل کرتا ہے۔
اپنی آنکھیں بند کریں، اور آپ خواب دیکھیں کہ آپ ایک پھول کو دیکھ رہے ہیں، کہ آپ اِسے چھو اور سونگھ رہے ہیں۔ پس آپ یہ سیکھتے ہیں کہ پھول نام نہاد عقل کی پیداوار ہے، مادے کی بجائے سوچ کی ایک تشکیل ہے۔اپنی آنکھیں دوبارہ بند کریں، آپ مناظر، آدمی اور عورتیں دیکھتے ہیں۔ پس آپ سیکھتے ہیں کہ یہ بھی شبیہ ہیں، جو عقل کو قابو کرتیں اور مرتب کرتیں ہیں اور جو عقل، زندگی اور ذہانت کی نقل کرتی ہیں۔ خوابوں سے آپ یہ بھی سیکھتے ہیں کہ نہ تو مادی عقل نہ مادہ ہی خدا کی شبیہ یا صورت ہے، اور یہ کہ لافانی عقل مادہ نہیں ہے۔
Nothing is real and eternal, — nothing is Spirit, — but God and His idea. Evil has no reality. It is neither person, place, nor thing, but is simply a belief, an illusion of material sense.
The identity, or idea, of all reality continues forever; but Spirit, or the divine Principle of all, is not in Spirit's formations. Soul is synonymous with Spirit, God, the creative, governing, infinite Principle outside of finite form, which forms only reflect.
Close your eyes, and you may dream that you see a flower, — that you touch and smell it. Thus you learn that the flower is a product of the so-called mind, a formation of thought rather than of matter. Close your eyes again, and you may see landscapes, men, and women. Thus you learn that these also are images, which mortal mind holds and evolves and which simulate mind, life, and intelligence. From dreams also you learn that neither mortal mind nor matter is the image or likeness of God, and that immortal Mind is not in matter.
جب ہم الٰہی کے ساتھ اپنے رشتے کو مکمل طور پر سمجھتے ہیں، تو ہم کوئی اور عقل نہیں رکھتے ماسوائے اْس کی عقل کے، کوئی اور محبت، حکمت یا سچائی نہیں رکھتے، زندگی کا کوئی اور فہم نہیں رکھتے، اور مادے یا غلطی کی وجودیت کا کوئی اور شعور نہیں رکھتے۔
انسانی مرضی کی طاقت کا اظہار صرف سچائی کی تابعداری میں ہونا چاہئے؛ وگرنہ یہ فیصلے کو گمراہ کریں گے اور پست رجحانات کو آزاد کریں گے۔انسان پر حکمرانی کرنا روحانی فہم کا صوبہ ہے۔ مادی، غلط، انسانی سوچ جسم پر اور جسم کے وسیلے دونوں طرح سے ہی ہتک آمیزی سے کام کرتی ہے۔
When we fully understand our relation to the Divine, we can have no other Mind but His, — no other Love, wisdom, or Truth, no other sense of Life, and no consciousness of the existence of matter or error.
The power of the human will should be exercised only in subordination to Truth; else it will misguide the judgment and free the lower propensities. It is the province of spiritual sense to govern man. Material, erring, human thought acts injuriously both upon the body and through it.
ایک خدا، ایک عقل کو ماننا اْس قوت کو ایاں کرتا ہے جو بیمار کو شفا دیتی اور کلام کے ان اقوال کو پورا کرتی ہے کہ، ”مَیں خداوند تیرا شافی ہوں“ اور ”مجھے فدیہ مل گیا ہے۔“جب الٰہی احکامات کو سمجھ لیا جاتا ہے تو وہ شراکت کی اْس بنیاد کو ایاں کرتے ہیں جس میں ایک عقل دوسری کے ساتھ جنگ نہیں کرتی، بلکہ سب میں ایک روح، خدا، ایک ذہین وسیلہ ہوتا ہے، جو کلام کے اِس حکم سے مطابقت رکھتا ہے کہ: ”ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح کا تھا۔“انسان اور اْس کا خالق الٰہی سائنس میں باہمی شراکت رکھتے ہیں، اور حقیقی شعور صرف خدا کی باتوں سے ہی پہچانا جاتا ہے۔
Having one God, one Mind, unfolds the power that heals the sick, and fulfils these sayings of Scripture, "I am the Lord that healeth thee," and "I have found a ransom." When the divine precepts are understood, they unfold the foundation of fellowship, in which one mind is not at war with another, but all have one Spirit, God, one intelligent source, in accordance with the Scriptural command: "Let this Mind be in you, which was also in Christ Jesus." Man and his Maker are correlated in divine Science, and real consciousness is cognizant only of the things of God.
اور ہم سنجیدگی سے اْس عقل کے لئے دعا کرتے اور خیال رکھتے ہیں کہ وہ ہم میں بھی ہو جو مسیح یسوع میں تھی؛ دوسروں کے ساتھ ویسا ہی کریں جیسا ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں؛ اور کہ ہم رحمدل، عادل اور پاک بنیں۔
And we solemnly promise to watch, and pray for that Mind to be in us which was also in Christ Jesus; to do unto others as we would have them do unto us; and to be merciful, just, and pure.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████