اتوار 19 نومبر ، 2023



مضمون۔ جان اور جسم

SubjectSoul And Body

سنہری متن: 1 کرنتھیوں 6 باب20 آیت

”اپنے بدن سے خدا کا جلال ظاہر کرو۔“



Golden Text: I Corinthians 6 : 20

Glorify God in your body, and in your spirit, which are God’s.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: رومیوں 8 باب1تا6، 11، 16، 17 آیات


1۔ پس اب جو مسیح یسوع میں ہیں اُن پر سزا کا حکم نہیں،جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔

2۔ کیونکہ زندگی کے روح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اورموت کی شریعت سے آزاد کردیا۔

3۔اس لئے کہ جو کام شریعت جسم کے سبب سے کمزور ہو کر نہ کر سکی وہ خدا نے کیا یعنی اْس نے اپنے بیٹے کو گناہ آلود جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کے لئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا۔

4۔تاکہ شریعت کا تقاضا ہم میں پورا ہو جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔

5۔کیونکہ جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں لیکن جو روحانی ہیں وہ روحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں۔

6۔اور جسمانی نیت موت ہے مگر روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔

11۔ اگر اْسی کا روح تم میں بسا ہوا ہے جس نے یسوع کو مردوں میں سے جلایا تو جس نے مسیح یسوع کو مردوں میں سے جلایا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اْس روح کے وسیلہ زندہ کرے گا جو تم میں بسا ہوا ہے۔

16۔ روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔

17۔ اور اگر فرزند ہیں تو وارث بھی ہیں یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث۔

Responsive Reading: Romans 8 : 1-6, 11, 16, 17

1.     There is therefore now no condemnation to them which are in Christ Jesus, who walk not after the flesh, but after the Spirit.

2.     For the law of the Spirit of life in Christ Jesus hath made me free from the law of sin and death.

3.     For what the law could not do, in that it was weak through the flesh, God sending his own Son in the likeness of sinful flesh, and for sin, condemned sin in the flesh:

4.     That the righteousness of the law might be fulfilled in us, who walk not after the flesh, but after the Spirit.

5.     For they that are after the flesh do mind the things of the flesh; but they that are after the Spirit the things of the Spirit.

6.     For to be carnally minded is death; but to be spiritually minded is life and peace.

11.     But if the Spirit of him that raised up Jesus from the dead dwell in you, he that raised up Christ from the dead shall also quicken your mortal bodies by his Spirit that dwelleth in you.

16.     The Spirit itself beareth witness with our spirit, that we are the children of God:

17.     And if children, then heirs; heirs of God, and joint-heirs with Christ.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ متی 4 باب23 (یسوع) آیت

23۔اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور اْن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوش خبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماری اور ہرطرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا۔

1. Matthew 4 : 23 (Jesus)

23     Jesus went about all Galilee, teaching in their synagogues, and preaching the gospel of the kingdom, and healing all manner of sickness and all manner of disease among the people.

2 . ۔ متی 5 باب1، 2 آیات

1۔وہ اْس بھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ گیا تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آئے۔

2۔ اور وہ اپنی زبان ہوکر اْن کو یوں تعلیم دینے گا۔

2. Matthew 5 : 1, 2

1     And seeing the multitudes, he went up into a mountain: and when he was set, his disciples came unto him:

2     And he opened his mouth, and taught them, saying,

3 . ۔ متی 6 باب19تا21، 25، 26، 28تا33 آیات

19۔ اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگا کر چراتے ہیں۔

20۔ بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔

21۔ کیونکہ جہاں تیرا مال ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا۔

25۔اِس لئے مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کیا پہنیں گے؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟

26۔ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں، نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ اْن کو کھلاتا ہے۔

28۔ اور پوشاک کے لئے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے ہیں نہ کاتتے ہیں۔

29۔ تو بھی مَیں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے اْن میں سے کسی کی مانند ملبس نہ تھا۔

30۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟

31۔ اِس لئے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟

32۔ کیونکہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔

33۔ بلکہ تم پہلے اْس کی بادشاہی اور اْس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔

3. Matthew 6 : 19-21, 25, 26, 28-33

19     Lay not up for yourselves treasures upon earth, where moth and rust doth corrupt, and where thieves break through and steal:

20     But lay up for yourselves treasures in heaven, where neither moth nor rust doth corrupt, and where thieves do not break through nor steal:

21     For where your treasure is, there will your heart be also.

25     Therefore I say unto you, Take no thought for your life, what ye shall eat, or what ye shall drink; nor yet for your body, what ye shall put on. Is not the life more than meat, and the body than raiment?

26     Behold the fowls of the air: for they sow not, neither do they reap, nor gather into barns; yet your heavenly Father feedeth them. Are ye not much better than they?

28     And why take ye thought for raiment? Consider the lilies of the field, how they grow; they toil not, neither do they spin:

29     And yet I say unto you, That even Solomon in all his glory was not arrayed like one of these.

30     Wherefore, if God so clothe the grass of the field, which to day is, and to morrow is cast into the oven, shall he not much more clothe you, O ye of little faith?

31     Therefore take no thought, saying, What shall we eat? or, What shall we drink? or, Wherewithal shall we be clothed?

32     (For after all these things do the Gentiles seek:) for your heavenly Father knoweth that ye have need of all these things.

33     But seek ye first the kingdom of God, and his righteousness; and all these things shall be added unto you.

4 . ۔ متی 8 باب5تا10، 13 آیات

5۔ اور جب وہ کفر نحوم میں داخل ہوا تو ایک صوبہ دار اْس کے پاس آیا اور اْس کی منت کر کے کہا

6۔ اے خداوند میرا خادم فالج کا مارا گھرمیں پڑا ہے اور نہایت تکلیف میں ہے۔

7۔ اْس نے اْس سے کہا مَیں آکر اْسے شفا دوں گا۔

8۔ صوبہ دار نے جواب میں کہا اے خداوند مَیں اِس لائق نہیں کہ تْو میری چھت کے نیچے آئے بلکہ صرف زبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پا جا ئے گا۔

9۔ کیونکہ مَیں بھی دوسروں کے اختیار میں ہوں اور سپاہی میرے ماتحت ہیں جب ایک سے کہتا ہوں کہ جا تو وہ جاتا ہے اور دوسرے سے کہ آ تو وہ آتا ہے اور اپنے نوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے۔

10۔ یسوع نے یہ سْن کر تعجب کیا اور پیچھے آنے والوں سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مَیں نے اسرائیل میں بھی ایسا ایمان نہیں پایا۔

13۔ اور یسوع نے صوبہ دار سے کہا جا جیسا تو نے اعتقاد کیا ہے تیرے لئے ویسا ہی ہواور اْسی گھڑی خادم نے شفا پائی۔

4. Matthew 8 : 5-10, 13

5     And when Jesus was entered into Capernaum, there came unto him a centurion, beseeching him,

6     And saying, Lord, my servant lieth at home sick of the palsy, grievously tormented.

7     And Jesus saith unto him, I will come and heal him.

8     The centurion answered and said, Lord, I am not worthy that thou shouldest come under my roof: but speak the word only, and my servant shall be healed.

9     For I am a man under authority, having soldiers under me: and I say to this man, Go, and he goeth; and to another, Come, and he cometh; and to my servant, Do this, and he doeth it.

10     When Jesus heard it, he marvelled, and said to them that followed, Verily I say unto you, I have not found so great faith, no, not in Israel.

13     And Jesus said unto the centurion, Go thy way; and as thou hast believed, so be it done unto thee. And his servant was healed in the selfsame hour.

5 . ۔ متی 16 باب21تا27 آیات

21۔ اُس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اُسے ضرور ہے کہ یروشلیم کو جائے اور بزرگوں اورسردارکاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دکھ اٹھائے اور قتل کیا جائے اور تیسرے دن جی اٹھے۔

22۔اِس پر پطرس اُس کو الگ لے جا کر ملامت کرنے لگا کہ اے خداوند خدا نے کرے۔ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔

23۔اُس نے پھر کر پطرس سے کہا اے شیطان میرے سامنے سے دور ہو۔ تو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے کیونکہ تو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔

24۔اُس وقت یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر کوئی میرے پِیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔

25۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا اسے پائے گا۔

26۔اور اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اٹھائے تو اسے کیا فائدہ ہوگا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے گا؟

27۔ کیونکہ ابن آدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئے گا۔ اُس وقت ہر ایک کو اُس کے کاموں کے مطابق بدلہ دے گا۔

5. Matthew 16 : 21-27

21     From that time forth began Jesus to shew unto his disciples, how that he must go unto Jerusalem, and suffer many things of the elders and chief priests and scribes, and be killed, and be raised again the third day.

22     Then Peter took him, and began to rebuke him, saying, Be it far from thee, Lord: this shall not be unto thee.

23     But he turned, and said unto Peter, Get thee behind me, Satan: thou art an offence unto me: for thou savourest not the things that be of God, but those that be of men.

24     Then said Jesus unto his disciples, If any man will come after me, let him deny himself, and take up his cross, and follow me.

25     For whosoever will save his life shall lose it: and whosoever will lose his life for my sake shall find it.

26     For what is a man profited, if he shall gain the whole world, and lose his own soul? or what shall a man give in exchange for his soul?

27     For the Son of man shall come in the glory of his Father with his angels; and then he shall reward every man according to his works.

6 . ۔ 2 کرنتھیوں 5 باب1تا9 آیات

1۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب ہمارا خیمہ کا گھر جو زمین پر ہے گرایا جائے گا تو ہم کو خدا کی طرف سے آسمان پر ایک ایسی عمارت ملے گی جو ہاتھ کا بنا ہوا گھر نہیں بلکہ ابدی ہے۔

2۔ چنانچہ ہم اس میں کراہتے ہیں اور بڑی آرزو رکھتے ہیں کہ اپنے آسمانی گھر سے ملبس ہو جائیں۔

3۔ تاکہ ملبس ہونے کے باعث ننگے نہ پائے جائیں۔

4۔ کیونکہ ہم اس خیمہ میں رہ کر بوجھ کے مارے کراہتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ یہ لباس اتارنا چاہتے ہیں بلکہ اس پر اور پہننا چاہتے ہیں تاکہ وہ جو فانی ہے زندگی میں غرق ہو جائے۔

5۔ اور جس نے ہم کو اِس بات کے لئے تیار کیا وہ خدا ہے اور اسی نے ہمیں روح بیعانہ میں دیا۔

6۔ پس ہمیشہ ہماری خاطر جمع رہتی ہے اور یہ جانتے ہیں کہ جب تک ہم بدن کے وطن میں ہیں خداوند کے ہاں سے جلاوطن ہیں۔

7۔ (کیونکہ ہم ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔)

8۔ غرض ہماری خاطر جمع ہے اور ہم کو بدن کے وطن سے جدا ہوکر خداوند کے وطن میں رہنا زیادہ منظور ہے۔

9۔ اِسی واسطے ہم یہ حوصلہ رکھتے ہیں کہ وطن میں ہوں خواہ جلاوطن اْس کو خوش کریں۔

6. II Corinthians 5 : 1-9

1     For we know that if our earthly house of this tabernacle were dissolved, we have a building of God, an house not made with hands, eternal in the heavens.

2     For in this we groan, earnestly desiring to be clothed upon with our house which is from heaven:

3     If so be that being clothed we shall not be found naked.

4     For we that are in this tabernacle do groan, being burdened: not for that we would be unclothed, but clothed upon, that mortality might be swallowed up of life.

5     Now he that hath wrought us for the selfsame thing is God, who also hath given unto us the earnest of the Spirit.

6     Therefore we are always confident, knowing that, whilst we are at home in the body, we are absent from the Lord:

7     (For we walk by faith, not by sight:)

8     We are confident, I say, and willing rather to be absent from the body, and to be present with the Lord.

9     Wherefore we labour, that, whether present or absent, we may be accepted of him.

7 . ۔ گلتیوں 5 باب13، 14 آیات

13۔ اے بھائیو! تم آزادی کے لئے بلائے گئے ہو مگر ایسا نہ ہو کہ وہ آزادی جسمانی باتوں کا موقع بنے بلکہ محبت کی راہ سے ایک دوسرے کی خدمت کرو۔

14۔کیونکہ ساری شریعت پر ایک ہی بات سے پورا عمل ہو جاتا ہے یعنی اِس سے کہ تْو اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔

7. Galatians 5 : 13, 14

13     For, brethren, ye have been called unto liberty; only use not liberty for an occasion to the flesh, but by love serve one another.

14     For all the law is fulfilled in one word, even in this; Thou shalt love thy neighbour as thyself.



سائنس اور صح


1 . ۔ 330 :11 (خدا)۔15

خدا لامحدود، واحد زندگی، مواد، روح یا جان، کائنات،بشمول انسان کی واحد ذہانت ہے۔ آنکھ نے نہ خدا کو دیکھا ہے اور نہ اْس کی شبیہ اور صورت کو۔ نہ تو خدا اور نہ ہی کامل انسان مادی حواس کی بدولت جانے جاسکتے ہیں۔

1. 330 : 11 (God)-15

God is infinite, the only Life, substance, Spirit, or Soul, the only intelligence of the universe, including man. Eye hath neither seen God nor His image and likeness. Neither God nor the perfect man can be discerned by the material senses.

2 . ۔ 307 :25 (دی)۔30

الٰہی فہم بشر کی جان ہے، اور انسان کو سب چیزوں پر حاکمیت عطا کرتا ہے۔ انسان کو مادیت کی بنیاد پر خلق نہیں کیا گیا اور نہ اسے مادی قوانین کی پاسداری کا حکم دیا گیا جو روح نے کبھی نہیں بنائے؛ اس کا صوبہ روحانی قوانین، فہم کے بلند آئین میں ہے۔

2. 307 : 25 (The)-30

The divine Mind is the Soul of man, and gives man dominion over all things. Man was not created from a material basis, nor bidden to obey material laws which Spirit never made; his province is in spiritual statutes, in the higher law of Mind.

3 . ۔ 60 :29۔2

جان میں لامتناہی وسائل ہیں جن سے انسان کو برکت دینا ہوتی ہے اور خوشی مزید آسانی سے حاصل کی جاتی ہے اور ہمارے قبضہ میں مزید محفوظ رہے گی، اگر جان میں تلاش کی جائے گی۔ صرف بلند لطف ہی لافانی انسان کے نقوش کو تسلی بخش بنا سکتے ہیں۔ ہم ذاتی فہم کی حدود میں خوشی کو محدود نہیں کر سکتے۔

3. 60 : 29-2

Soul has infinite resources with which to bless mankind, and happiness would be more readily attained and would be more secure in our keeping, if sought in Soul. Higher enjoyments alone can satisfy the cravings of immortal man. We cannot circumscribe happiness within the limits of personal sense.

4 . ۔ 210 :11۔16

یہ جانتے ہوئے کہ جان اور اْس کی خصوصیات ہمیشہ کے لئے انسان کے وسیلہ ظاہر کی جاتی رہی ہیں، مالک نے بیمار کو شفا دی، اندھے کو آنکھیں دیں، بہرے کو کان دئیے، لنگڑے کو پاؤں دئیے، یوں وہ انسانی خیالوں اور بدنوں پر الٰہی عقل کے سائنسی عمل کو روشنی میں لایااور انہیں جان اور نجات کی بہتر سمجھ عطا کی۔

4. 210 : 11-16

Knowing that Soul and its attributes were forever manifested through man, the Master healed the sick, gave sight to the blind, hearing to the deaf, feet to the lame, thus bringing to light the scientific action of the divine Mind on human minds and bodies and giving a better understanding of Soul and salvation.

5 . ۔ 477 :19۔26

سوال: بدن اور جان کیا ہیں؟

جواب: شناخت روح کا عکس ہے، وہ عکس جو الٰہی اصول، یعنی محبت کی متعدد صورتوں میں پایا جاتا ہے۔ جان مادہ، زندگی، انسان کی ذہانت ہے، جس کی انفرادیت ہوتی ہے لیکن مادے میں نہیں۔ جان روح سے کمتر کسی چیز کی عکاسی کبھی نہیں کر سکتی۔

انسان روح کا اظہار۔

5. 477 : 19-26

Question. — What are body and Soul?

Answer. — Identity is the reflection of Spirit, the reflection in multifarious forms of the living Principle, Love. Soul is the substance, Life, and intelligence of man, which is individualized, but not in matter. Soul can never reflect anything inferior to Spirit.

Man is the expression of Soul.

6 . ۔ 467 :1۔16

سوال۔ جان کی سائنس کی شرائط کیاہیں؟

جواب۔ اس سائنس کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ”تْو میرے حضور غیر معبودوں کو نہ ماننا۔“یہ لفظ”میرے“ روح ہے۔لہٰذہ اس حکم کا مطلب ہے یہ: تو میرے سامنے نہ کوئی ذہانت، نہ زندگی، نہ مواد، نہ سچائی، نہ محبت رکھنا ماسوائے اْس کے جو روحانی ہے۔دوسرا بھی اسی طرح ہے، ”تْو اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔“اس بات کی پوری طرح سے سمجھ آجانی چاہئے کہ تمام انسانوں کی عقل ایک ہے، ایک خدا اور باپ، ایک زندگی، حق اور محبت ہے۔ جب یہ حقیقت ایک تناسب میں ایاں ہوگی تو انسان کامل ہوجائے گا، جنگ ختم ہو جائے گی اور انسان کا حقیقی بھائی چارہ قائم ہو جائے گا۔دوسرے دیوتا نہ ہونا، دوسروں کی طرف جانے کی بجائے راہنمائی کے لئے ایک کامل عقل کے پاس جاتے ہوئے، انسان خدا کی مانند پاک اور ابدی ہوجاتا ہے، جس کے پاس وہی عقل ہے جو مسیح میں بھی تھی۔

6. 467 : 1-16

Question. — What are the demands of the Science of Soul?

Answer. — The first demand of this Science is, "Thou shalt have no other gods before me." This me is Spirit. Therefore the command means this: Thou shalt have no intelligence, no life, no substance, no truth, no love, but that which is spiritual. The second is like unto it, "Thou shalt love thy neighbor as thyself." It should be thoroughly understood that all men have one Mind, one God and Father, one Life, Truth, and Love. Mankind will become perfect in proportion as this fact becomes apparent, war will cease and the true brotherhood of man will be established. Having no other gods, turning to no other but the one perfect Mind to guide him, man is the likeness of God, pure and eternal, having that Mind which was also in Christ.

7 . ۔ 122 :29۔10

دیگر نظریات بھی بدن اور جان سے متعلق وہی غلطی کرتے ہیں جو پٹولمی نے نظام شمسی سے متعلق کی۔ وہ اِس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ جان مادے کی معاونت کے لئے بدن اور عقل کے نظریے میں پائی جاتی ہے۔فلکیاتی سائنس نے آسمانی اجزاء سے متعلق جھوٹے نظریے کو تباہ کردیا ہے، اور کرسچن سائنس یقیناً ہمارے زمینی اجزاء سے متعلق بڑی غلطی کو نیست کر دے گی۔پھرحقیقی خیال اور انسان کا اصول ظاہر ہوگا۔ پٹولمی کی غلطی ہستی کی ہم آہنگی پر اثر انداز نہیں ہوسکے گی جیسے کہ جان اور بدن سے متعلق غلطی اثر انداز ہوتی ہے، جو سائنسی ترتیب کو الٹ دیتی ہے اور مادے کو روح پر اختیار اور طاقت فراہم کرتی ہے، تاکہ انسان کائنات کا سب سے مکمل کمزور اور غیر ہم آہنگ مخلوق بن جائے۔

7. 122 : 29-10

Our theories make the same mistake regarding Soul and body that Ptolemy made regarding the solar system. They insist that soul is in body and mind therefore tributary to matter. Astronomical science has destroyed the false theory as to the relations of the celestial bodies, and Christian Science will surely destroy the greater error as to our terrestrial bodies. The true idea and Principle of man will then appear. The Ptolemaic blunder could not affect the harmony of being as does the error relating to soul and body, which reverses the order of Science and assigns to matter the power and prerogative of Spirit, so that man becomes the most absolutely weak and inharmonious creature in the universe.

8 . ۔ 390 :4۔11

ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ زندگی خود پرور ہے، اور ہمیں روح کی ابدی ہم آہنگی سے منکر نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ، بظاہر فانی احساسات میں اختلاف ہیں۔ یہ خدا، الٰہی اصول، سے ہماری نا واقفیت ہے جو ظاہری اختلاف کو جنم دیتی ہے، اور اس سے متعلق بہتر سوچ ہم آہنگی کو بحال کرتی ہے۔سچائی تفصیل میں ہمیں مجبور کرے گی کہ ہم سب خوشیوں اور دْکھوں کے فہم کا زندگی کی خوشیوں کے ساتھ تبادلہ کریں۔

8. 390 : 4-11

We cannot deny that Life is self-sustained, and we should never deny the everlasting harmony of Soul, simply because, to the mortal senses, there is seeming discord. It is our ignorance of God, the divine Principle, which produces apparent discord, and the right understanding of Him restores harmony. Truth will at length compel us all to exchange the pleasures and pains of sense for the joys of Soul.

9 . ۔ 62: 22۔26

الٰہی عقل، جو شگوفے اور پھول کو تشکیل دیتی ہے، وہ انسانی جسم کا خیال رکھے گی، جیسے یہ سوسن کو ملبوس کرتی ہے؛ بلکہ کسی بشر کو خدا کی حکمرانی میں غلطی والے، انسانی نظریات پر زور دیتے ہوئے مداخلت نہیں کرنے دے گی۔

9. 62 : 22-26

The divine Mind, which forms the bud and blossom, will care for the human body, even as it clothes the lily; but let no mortal interfere with God's government by thrusting in the laws of erring, human concepts.

10 . ۔ 273 :16۔20

مادے کے نام نہاد قوانین اور طبی سائنس نے کبھی بشر کو مکمل، ہم آہنگ اور لافانی نہیں بنایا۔ انسان تب ہم آہنگ ہوتا ہے جب روح کی نگرانی میں ہوتا ہے۔اسی طرح ہستی کی سچائی کو سمجھنے کی اہمیت ہے، جو روحانی وجودیت کے قوانین کو ظاہر کرتی ہے۔

10. 273 : 16-20

The so-called laws of matter and of medical science have never made mortals whole, harmonious, and immortal. Man is harmonious when governed by Soul. Hence the importance of understanding the truth of being, which reveals the laws of spiritual existence.

11 . ۔ 302 :19۔24

ہستی کی سائنس انسان کو کامل ظاہر کرتی ہے، حتیٰ کہ جیسا کہ باپ کامل ہے، کیونکہ روحانی انسان کی جان یا عقل خدا ہے، جو تمام تر مخلوقات کا الٰہی اصول ہے، اور یہ اس لئے کہ اس حقیقی انسان پر فہم کی بجائے روح کی حکمرانی ہوتی ہے، یعنی شریعت کی روح کی، نہ کہ نام نہاد مادے کے قوانین کی۔

11. 302 : 19-24

The Science of being reveals man as perfect, even as the Father is perfect, because the Soul, or Mind, of the spiritual man is God, the divine Principle of all being, and because this real man is governed by Soul instead of sense, by the law of Spirit, not by the so-called laws of matter.

12 . ۔ 125 :12۔20

چونکہ انسانی سوچ شعوری درد اور بے آرامی،خوشی اور غمی، خوف سے امید اور ایمان سے فہم کے ایک مرحلے سے دوسرے میں تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس لئے ظاہری اظہاربالاآخر انسان پر جان کی حکمرانی ہوگا نہ کہ مادی فہم کی حکمرانی ہوگا۔خدا کی حکمرانی کی عکاسی کرتے ہوئے، انسان خود پر حکمران ہے۔صحت سے متعلق ہمارے مادی نظریات کو بے قیمت ثابت کرتے ہوئے جب انسان الٰہی روح کے ماتحت ہوجاتا ہے تو موت یا گناہ کے اختیار میں نہیں ہوسکتا۔

12. 125 : 12-20

As human thought changes from one stage to another of conscious pain and painlessness, sorrow and joy, — from fear to hope and from faith to understanding, — the visible manifestation will at last be man governed by Soul, not by material sense. Reflecting God's government, man is self-governed. When subordinate to the divine Spirit, man cannot be controlled by sin or death, thus proving our material theories about laws of health to be valueless.

13 . ۔ 322 :3۔13

جب مادی سے روحانی بنیادوں پر زندگی اور ذہانت کا فہم اپنا نقطہ نظر تبدیل کرتا ہے،تو ہمیں زندگی کی حقیقت میسر آئے گی، یعنی فہم پر روح کا قابو، تو ہم مسیحت یا سچائی کو اس کے الٰہی اصول میں پائیں گے۔کسی ہم آہنگ اور فانی انسان کے حاصل ہونے اور اْس کی قابلیتوں کے اظہار سے قبل یہ ایک نقطۂ عروج ہونا چاہئے۔ الٰہی سائنس کی شناخت ہونے سے قبل اس عظیم کام کی تکمیل کو دیکھتے ہوئے، الٰہی اصول سے اپنے خیالات کو ہٹانا بہت اہم ہے، تاکہ محدود عقیدے کو اس کی غلطی سے دستبردار ہونے کے لئے تیار کیا جا سکے۔

13. 322 : 3-13

When understanding changes the standpoints of life and intelligence from a material to a spiritual basis, we shall gain the reality of Life, the control of Soul over sense, and we shall perceive Christianity, or Truth, in its divine Principle. This must be the climax before harmonious and immortal man is obtained and his capabilities revealed. It is highly important — in view of the immense work to be accomplished before this recognition of divine Science can come — to turn our thoughts towards divine Principle, that finite belief may be prepared to relinquish its error.

14 . ۔ 9 :17۔24

”تو اپنے سارے دل، اپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔“ اس حکم میں بہت کچھ شامل ہے، حتیٰ کہ محض مادی احساس، افسوس اور عبادت۔ یہ مسیحت کا ایلڈوراڈو ہے۔ اس میں زندگی کی سائنس شامل ہے اور یہ روح پر الٰہی قابو کی شناخت کرتی ہے، جس میں ہماری روح ہماری مالک بن جاتی ہے اور مادی حس اور انسانی رضا کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔

14. 9 : 17-24

Dost thou "love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy mind"? This command includes much, even the surrender of all merely material sensation, affection, and worship. This is the El Dorado of Christianity. It involves the Science of Life, and recognizes only the divine control of Spirit, in which Soul is our master, and material sense and human will have no place.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔