اتوار 20 اکتوبر ، 2024
خداوند تمہارے ساتھ ہے جب تک تم اْس کے ساتھ ہو اور اگر تم اْس کے طالب ہو تو وہ تمہیں ملے گا۔“
“The Lord is with you, while ye be with him; and if ye seek him, he will be found of you.”
5۔ خداوند خدا نے میرے کان کھول دیئے اور مَیں باغی اور برگشتہ نہ ہوا۔
7۔ پر خداوند خدا میری حمایت کرے گا اور اِس لئے مَیں شرمندہ نہ ہوں گا اور اِسی لئے مَیں نے اپنا منہ سنگ خار کی مانند بنایا اور مجھے یقین ہے کہ مَیں شرمسار نہ ہوں گا۔
8۔ اور مجھے راستباز ٹھہرانے والا نزدیک ہے۔ کون مجھ سے جھگڑا کرے گا؟ آؤ ہم آمنے سامنے کھڑے ہوں، میرا مخالف کون ہے؟ وہ میرے پاس آئے۔
9۔ دیکھو خداوند خدا میری حمایت کرے گا۔ کون مجھے مجرم ٹھہرائے گا؟ دیکھو وہ سب کپڑے کی مانند پرانے ہو جائیں گے۔ اْن کو کیڑے کھا جائیں گے۔
10۔ تمہارے درمیان کون ہے جو خداوند سے ڈرتا ہے اور اْس کے خادم کی باتیں سنتا ہے؟ جو اندھیرے میں چلتا اور روشنی نہیں پاتا۔ خداوند خدا کے نام پر توکل کرے اور اپنے خدا پر بھروسہ رکھے۔
19۔ کیونکہ شریعت نے کسی چیز کو کامل نہیں کیا اور اْس کی جگہ ایک بہتر امید رکھی گئی جس کے وسیلہ سے ہم خدا کے نزدیک جا سکتے ہیں۔
3۔ کان لگاؤ اور میرے پاس آؤ سنو اور تمہاری جان زندہ رہے گی اور مَیں تم کو ابدی عہد یعنی داؤد کی سچی نعمتیں بخشوں گا۔
5. The Lord God hath opened mine ear, and I was not rebellious, neither turned away back.
7. For the Lord God will help me; therefore shall I not be confounded: therefore have I set my face like a flint, and I know that I shall not be ashamed.
8. He is near that justifieth me; who will contend with me? let us stand together: who is mine adversary? let him come near to me.
9. Behold, the Lord God will help me; who is he that shall condemn me? lo, they all shall wax old as a garment; the moth shall eat them up.
10. Who is among you that feareth the Lord, that obeyeth the voice of his servant, that walketh in darkness, and hath no light? let him trust in the name of the Lord, and stay upon his God.
19. For the law made nothing perfect, but the bringing in of a better hope did; by the which we draw nigh unto God.
3. Incline your ear, and come unto me: hear, and your soul shall live; and I will make an everlasting covenant with you, even the sure mercies of David.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
23۔ خداوند خدا فرماتا ہے کیا مَیں نزدیک ہی کا خدا ہوں اور دور کا خدا نہیں؟
24۔ کیا کوئی آدمی پوشیدہ جگہوں میں چھپ سکتا ہے کہ مَیں اْسے نہ دیکھوں؟ خداوند فرماتا ہے کیا زمین و آسمان مجھ سے معمور نہیں؟ خداوند خدا فرماتا ہے۔
23 Am I a God at hand, saith the Lord, and not a God afar off?
24 Can any hide himself in secret places that I shall not see him? saith the Lord. Do not I fill heaven and earth? saith the Lord.
7۔ اْس وقت حنانی غیب بین یہوداہ کے بادشاہ آسا کے پاس آکر کہنے لگا۔
9۔ کیونکہ خداوند کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اْن کی امداد میں جن کا دل اْس کی طرف کامل ہے اپنے تئیں قوی دکھائے۔
7 And at that time Hanani the seer came to Asa king of Judah, and said unto him,
9 For the eyes of the Lord run to and fro throughout the whole earth, to shew himself strong in the behalf of them whose heart is perfect toward him.
1۔ اور اْس کابیٹا یہوسفط اْس کی جگہ بادشاہ ہوا اور اْس نے اسرائیل کے مقابل اپنے آپ کو قوی کیا۔
3۔ اور خداوند یہوسفط کے ساتھ تھا کیونکہ اْس کی روش اْس کے باپ داؤد کے پہلے طریقوں پر تھی اور وہ بعلیم کا طالب نہ ہوا۔
4۔ بلکہ اپنے باپ داؤد کے خدا کا طالب ہوا اور اْس کے حکموں پر چلتا رہا اور اسرائیل کے سے کام نہ کئے۔
5۔ اِس لئے خداوند نے اْس کے ہاتھو ں میں سلطنت کو مستحکم کیا اور سارا یہوداہ یہوسفط کے پاس ہدیے لایا اور اْس کی دولت اور عزت بہت فراوان ہوئی۔
6۔ اور اْس کا دل خداوند کی باتوں میں بہت مسرور تھا اور اْس نے اونچے مقاموں یسیرتوں کو یہوداہ میں سے دور کیا۔
7۔ اور اپنی سلطنت کے تیسرے برس اْس نے بن خیل اور عبدیاہ اور زکریا ہ کو اور نتنیل کو میکایاہ کو جو اْس کے امرا تھے یہوداہ کے شہروں میں تعلیم دینے بھیجا۔
9۔ سو اْنہوں نے خداوند کی شریعت کی کتاب ساتھ رکھ کر یہوداہ کوتعلیم دی اور وہ یہوداہ کے سب شہروں میں گئے اور لوگوں کو تعلیم دی۔
10۔ اور خداوند کا خوف یہوداہ کے گردا گرد ممالک کی سب سلطنتوں میں چھا گیا یہاں تک کہ اْنہوں نے یہوسفط سے کبھی جنگ نہ کی۔
12۔ اور یہوسفط بہت ہی بڑھا اور اْس نے یہوداہ میں قلعے اور ذخیرہ کے شہر بنائے۔
13۔ اور یہوداہ کے شہروں میں اْس کے بہت سے کاروبار تھے۔
1 And Jehoshaphat his son reigned in his stead, and strengthened himself against Israel.
3 And the Lord was with Jehoshaphat, because he walked in the first ways of his father David, and sought not unto Baalim;
4 But sought to the Lord God of his father, and walked in his commandments, and not after the doings of Israel.
5 Therefore the Lord stablished the kingdom in his hand; and all Judah brought to Jehoshaphat presents; and he had riches and honour in abundance.
6 And his heart was lifted up in the ways of the Lord: moreover he took away the high places and groves out of Judah.
7 Also in the third year of his reign he sent to his princes, even to Benhail, and to Obadiah, and to Zechariah, and to Nethaneel, and to Michaiah, to teach in the cities of Judah.
9 And they taught in Judah, and had the book of the law of the Lord with them, and went about throughout all the cities of Judah, and taught the people.
10 And the fear of the Lord fell upon all the kingdoms of the lands that were round about Judah, so that they made no war against Jehoshaphat.
12 And Jehoshaphat waxed great exceedingly; and he built in Judah castles, and cities of store.
13 And he had much business in the cities of Judah:
1۔ خدا ہماری پناہ اور قوت ہے۔ مصیبت میں مْستعد مددگار۔
2۔ اس لئے ہم کو کچھ خوف نہیں خواہ زمین اْلٹ جائے۔ اور پہاڑ سمندر کی تہہ میں ڈال دئیے جائیں۔
3۔ خواہ اْس کا پانی شور مچائے اور موجزن ہو اور پہاڑ اْس کی طْغیانی سے ہل جائیں۔
4۔ ایک ایسا دریا ہے جس کی شاخوں سے خدا کے شہر کو یعنی حق تعالیٰ کے مقدس مسکن کو فرحت ہوتی ہے۔
5۔ خدا اْس میں ہے۔ اْسے کبھی جْنبش نہ ہوگی۔ خدا صبح سویرے اْس کی کْمک کرے گا۔
10۔ خاموش ہو جاؤ اور جان لو کہ میں خدا ہوں۔ مَیں قوموں کے درمیان سر بلند ہوں گا۔
11۔ لشکروں کا خداوند ہمارے ساتھ ہے۔ یعقوب کا خدا ہماری پناہ ہے۔
1 God is our refuge and strength, a very present help in trouble.
2 Therefore will not we fear, though the earth be removed, and though the mountains be carried into the midst of the sea;
3 Though the waters thereof roar and be troubled, though the mountains shake with the swelling thereof.
4 There is a river, the streams whereof shall make glad the city of God, the holy place of the tabernacles of the most High.
5 God is in the midst of her; she shall not be moved: God shall help her, and that right early.
10 Be still, and know that I am God: I will be exalted among the heathen, I will be exalted in the earth.
11 The Lord of hosts is with us; the God of Jacob is our refuge.
2۔ یروشلیم میں بھیڑ دروازے کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیتِ سدا کہلاتا ہے اور اْس کے پانچ برآمدے ہیں۔
5۔وہاں ایک شخص تھا جو اڑتیس برس سے بیماری میں مبتلا تھا۔
8۔ یسوع نے اْس سے کہا اْٹھ اور اپنی چار پائی اْٹھا کر چل پھر۔
9۔ وہ شخص فوراً تندرست ہو گیا اور اپنی چار پائی اْٹھا کر چلنے پھرنے لگا۔ وہ دن سبت کا تھا۔
15۔ اْس آدمی نے جا کر یہودیوں کو خبر دی کہ جس نے مجھے تندرست کیا وہ یسوع ہے۔
16۔ اِس لئے یہودی یسوع کو ستانے لگے کیونکہ وہ ایسے کام سبت کے دن کرتا تھا۔
17۔ لیکن یسوع نے اْن سے کہا کہ میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہوں۔
18۔ اِس سبب سے یہودی اور بھی زیادہ اْس کو قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ وہ نہ فقط سبت کا حکم توڑتا بلکہ خدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خدا کے برابر بناتا تھا۔
19۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سوا اْس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جن کاموں کو وہ کرتا ہے انہیں بیٹا بھی اْسی طرح کرتا ہے۔
20۔اِس لئے کہ باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے اور جتنے کام خود کرتا ہے اْسے دکھاتا ہے بلکہ اِن سے بھی بڑے کام انہیں دکھائے گا تاکہ تم تعجب کرو۔
2 Now there is at Jerusalem by the sheep market a pool,
5 And a certain man was there, which had an infirmity thirty and eight years.
8 Jesus saith unto him, Rise, take up thy bed, and walk.
9 And immediately the man was made whole, and took up his bed, and walked: and on the same day was the sabbath.
15 The man departed, and told the Jews that it was Jesus, which had made him whole.
16 And therefore did the Jews persecute Jesus,
17 But Jesus answered them, My Father worketh hitherto, and I work.
18 Therefore the Jews sought the more to kill him, because he not only had broken the sabbath, but said also that God was his Father, making himself equal with God.
19 Then answered Jesus and said unto them, Verily, verily, I say unto you, The Son can do nothing of himself, but what he seeth the Father do: for what things soever he doeth, these also doeth the Son likewise.
20 For the Father loveth the Son, and sheweth him all things that himself doeth: and he will shew him greater works than these, that ye may marvel.
30۔ مَیں اور باپ ایک ہیں۔
30 I and my Father are one.
12۔ یسوع نے پھر اْن سے مخاطب ہو کر کہا کہ دنیا کا نور مَیں ہوں۔جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔
13۔ فریسیوں نے اْس سے کہا تْو اپنی گواہی آپ دیتا ہے۔ تیری گواہی سچی نہیں۔
14۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا اگرچہ مَیں اپنی گواہی آپ دیتا ہوں تو بھی میری گواہی سچی ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں لیکن تم کو معلوم نہیں کہ مَیں کہاں سے آتا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں۔
15۔تم جسم کے مطابق فیصلہ کرتے ہو۔ مَیں کسی کا فیصلہ نہیں کرتا۔
16۔ اور اگر مَیں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ مَیں اکیلا نہیں بلکہ مَیں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔
28۔ پس یسوع نے کہا کہ جب تم ابنِ آدم کو اونچے پہاڑ پر چڑھاؤ گے تو جانو گے کہ مَیں وہی ہوں اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اْسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں۔
29۔ اور جس نے مجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے۔ اْس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ مَیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اْسے پسند آتے ہیں۔
30۔جب وہ یہ باتیں کہہ رہا تھا تو بہتیرے اس پر ایمان لائے۔
12 Then spake Jesus again unto them, saying, I am the light of the world: he that followeth me shall not walk in darkness, but shall have the light of life.
13 The Pharisees therefore said unto him, Thou bearest record of thyself; thy record is not true.
14 Jesus answered and said unto them, Though I bear record of myself, yet my record is true: for I know whence I came, and whither I go; but ye cannot tell whence I come, and whither I go.
15 Ye judge after the flesh; I judge no man.
16 And yet if I judge, my judgment is true: for I am not alone, but I and the Father that sent me.
28 Then said Jesus unto them, When ye have lifted up the Son of man, then shall ye know that I am he, and that I do nothing of myself; but as my Father hath taught me, I speak these things.
29 And he that sent me is with me: the Father hath not left me alone; for I do always those things that please him.
30 As he spake these words, many believed on him.
6۔ خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔
7۔ پس خدا کے تابع ہو جاؤ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا۔
8۔ خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔ اے گناہگارو! اپنے ہاتھوں کو صاف کرو اور اے دو دلو! اپنے دلوں کو پاک کرو۔
10۔ خداوند کے سامنے فروتنی کرو۔ وہ تمہیں سر بلند کرے گا۔
6 God resisteth the proud, but giveth grace unto the humble.
7 Submit yourselves therefore to God. Resist the devil, and he will flee from you.
8 Draw nigh to God, and he will draw nigh to you.
10 Humble yourselves in the sight of the Lord, and he shall lift you up.
سائنس میں خدا اور انسان، الٰہی اصول اور خیال، کے تعلقات لازوال ہیں؛ اور سائنس بھول چوک جانتی ہے نہ ہم آہنگی کی جانب واپسی، لیکن یہ الٰہی ترتیب یا روحانی قانون رکھتی ہے جس میں خدا اور جو کچھ وہ خلق کرتا ہے کامل اور ابدی ہیں، جو اس کی پوری تاریخ میں غیر متغیر رہے ہیں۔
The relations of God and man, divine Principle and idea, are indestructible in Science; and Science knows no lapse from nor return to harmony, but holds the divine order or spiritual law, in which God and all that He creates are perfect and eternal, to have remained unchanged in its eternal history.
الوہیت کے لئے مادر پدر نام ہے، جو اْس کی روحانی مخلوق کے ساتھ اْس کے شفیق تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جیسا کہ رسول نے ان الفاظ میں یہ ظاہر کیا جنہیں ایک بہترین شاعر کی منظوری سے لیا گیا ہے: ”اِس لئے کہ ہم بھی اْس کی اولاد ہیں“۔
Father-Mother is the name for Deity, which indicates His tender relationship to His spiritual creation. As the apostle expressed it in words which he quoted with approbation from a classic poet: "For we are also His offspring."
اگر انسان اس کامل اصول یا عقل کے بغیر کبھی وجود رکھتا تھا تو پھر انسان کی وجودیت ایک فرضی داستان ہی تھی۔
If man ever existed without this perfect Principle or Mind, then man's existence was a myth.
روحانی حقیقت سب چیزوں میں سائنسی سچائی ہے۔ روحانی سچائی، انسان اور پوری کائنات کے عمل میں دوہرائی جانے سے ہم آہنگ اور سچائی کے لئے مثالی ہے۔ روحانی حقائق اْلٹ نہیں ہیں؛ مخالف نفاق، جو روحانیت سے مشابہت نہیں رکھتا، حقیقی نہیں ہے۔اِس اْلٹ بہاؤ کا واحد ثبوت فرضی غلطی سے حاصل ہوتا ہے، جو خدا، روح یا روحانی تخلیق کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرتا۔ مادی فہم تمام چیزوں کو مادی طور پر واضح کرتا ہے، اور لامحدود کا محدود فہم رکھتا ہے۔
کلام کہتا ہے، ”کیونکہ اْسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔“ پھر خدا سے آزاد ایسی کون سی طاقت دکھائی پڑتی ہے جو بیماری کا موجب بنتی اور اْسے ٹھیک کرتی ہے؟یہ ایمان کی غلطی، بشری عقل کاقانون، ہر لحاظ سے غلط، گناہ، بیماری اور موت کو گلے لگانے کے سوا اور کیا ہے؟یہ لافانی عقل کے، سچائی کے اور روحانی قانون کے بالکل برعکس ہے۔ یہ خدا کے اچھے کردار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا کہ وہ کسی شخص کو بیمار کرے اور پھر انسان کو خود شفا پانے کے لئے چھوڑ دے، یہ فرض کرنا نہایت مضحکہ خیز بات ہے کہ مادہ بیماری کا سبب اور اعلاج دونوں ہو سکتا ہے، یا روح، خدا بیماری پیدا کرتا ہے اور اس کا اعلاج مادے پر چھوڑ دیتا ہے۔
The spiritual reality is the scientific fact in all things. The spiritual fact, repeated in the action of man and the whole universe, is harmonious and is the ideal of Truth. Spiritual facts are not inverted; the opposite discord, which bears no resemblance to spirituality, is not real. The only evidence of this inversion is obtained from suppositional error, which affords no proof of God, Spirit, or of the spiritual creation. Material sense defines all things materially, and has a finite sense of the infinite.
The Scriptures say, "In Him we live, and move, and have our being." What then is this seeming power, independent of God, which causes disease and cures it? What is it but an error of belief, — a law of mortal mind, wrong in every sense, embracing sin, sickness, and death? It is the very antipode of immortal Mind, of Truth, and of spiritual law. It is not in accordance with the goodness of God's character that He should make man sick, then leave man to heal himself; it is absurd to suppose that matter can both cause and cure disease, or that Spirit, God, produces disease and leaves the remedy to matter.
یہ جسمانی مادی ذہنیت، عقل کے نام کا غلط استعمال، فانی ہے۔اس لئے انسان فنا ہو جائے گا، جو حقیقی روحانی انسان کے اپنے خدا کے ساتھ ناقابل تسخیر رابطے کی جانب اشارہ ہے جسے یسوع روشنی میں لایا۔ اپنے جی اْٹھنے اور صعود میں، یسوع نے یہ ظاہر کیا کہ ایک فانی انسان جوانمردی کا حقیقی جوہر نہیں ہوتا، اورکہ یہ مادی غیر حقیقی مادیت حقیقت کی موجودگی میں غائب ہوجاتی ہے۔
This carnal material mentality, misnamed mind, is mortal. Therefore man would be annihilated, were it not for the spiritual real man's indissoluble connection with his God, which Jesus brought to light. In his resurrection and ascension, Jesus showed that a mortal man is not the real essence of manhood, and that this unreal material mortality disappears in presence of the reality.
انسانی شبیہ اپناتے ہوئے (یعنی جیسا کہ فانی نظر کو دکھائی دیتا ہے)، انسانی ماں کے پیٹ میں حمل لیتے ہوئے، یسوع روح اور جسم کے مابین، سچائی اور غلطی کے مابین درمیانی تھا۔ الٰہی سائنس کی راہ کو واضح کرتے اور ظاہر کرتے ہوئے، وہ اْن سب کے لئے نجات کی راہ بن گیا جنہوں نے اْس کے کلام کو قبول کیا۔ بشر اْس سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ بدی سے کیسے بچا جائے۔ حقیقی انسان کا سائنس کی بدولت اپنے خالق سے تعلق استوار کرتے ہوئے، بشر کو صرف گناہ سے دور ہونے اور مسیح، یعنی حقیقی انسان اور خدا کے ساتھ اْس کے تعلق کو پانے اور الٰہی فرزندگی کو پہچاننے کے لئے فانی خودی سے نظر ہٹانے کی ضرورت ہے۔
Wearing in part a human form (that is, as it seemed to mortal view), being conceived by a human mother, Jesus was the mediator between Spirit and the flesh, between Truth and error. Explaining and demonstrating the way of divine Science, he became the way of salvation to all who accepted his word. From him mortals may learn how to escape from evil. The real man being linked by Science to his Maker, mortals need only turn from sin and lose sight of mortal selfhood to find Christ, the real man and his relation to God, and to recognize the divine sonship.
مادی انسان از خود اور رضاکارانہ غلطی سے، ایک منفی درستگی اور مثبت غلطی سے بنا ہے، دوسرے والا خود کو صحیح سمجھتا ہے۔انسان کی روحانی انفرادیت کبھی غلط نہیں ہوتی۔یہ انسان کے خالق کی شبیہ ہے۔ مادہ بشر کو حقیقی ابتداء اور ہستی کے حقائق سے نہیں جوڑ سکتا، جس میں سب کچھ ختم ہو جانا چاہئے۔ یہ صرف روح کی برتری کو تسلیم کرنے سے ہوگا، جو مادے کے دعووں کو منسوخ کرتا ہے، کہ بشر فانیت کو برخاست کریں اور کسی مستحکم روحانی تعلق کو تلاش کریں جو انسان کو ہمیشہ کے لئے، اپنے خالق کی طرف سے لازم و ملزوم الٰہی شبیہ میں قائم رکھتا ہے۔
Material man is made up of involuntary and voluntary error, of a negative right and a positive wrong, the latter calling itself right. Man's spiritual individuality is never wrong. It is the likeness of man's Maker. Matter cannot connect mortals with the true origin and facts of being, in which all must end. It is only by acknowledging the supremacy of Spirit, which annuls the claims of matter, that mortals can lay off mortality and find the indissoluble spiritual link which establishes man forever in the divine likeness, inseparable from his creator.
یسوع نے اظہار کی بدولت زندگی کا طریقہ کار سکھایا، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کیسے الٰہی اصول بیمار کو شفادیتا، غلطی کو باہر نکالتا اور موت پر فتح مند ہوتا ہے۔۔۔۔ خدا کے ساتھ اْس کی فرمانبرداری سے اْس نے دیگر سبھی لوگوں کی نسبت ہستی کے اصول کو زیادہ روحانی ظاہر کیا۔ اسی طرح اْس کی اس نصیحت کی طاقت ہے کہ ”اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔“
اگرچہ گناہ اور بیماری پر اپنا اختیار ظاہر کرتے ہوئے، عظیم معلم نے کسی صورت دوسروں کو اْن کے تقویٰ کے مطلوبہ ثبوت دینے میں مدد نہیں کی۔ اْس نے اْن کی ہدایت کے لئے کام کیا، کہ وہ اِس طاقت کا اظہار اْسی طرح کریں جیسے اْس نے کیا اور اِس کے الٰہی اصول کو سمجھیں۔
Jesus taught the way of Life by demonstration, that we may understand how this divine Principle heals the sick, casts out error, and triumphs over death. … By his obedience to God, he demonstrated more spiritually than all others the Principle of being. Hence the force of his admonition, "If ye love me, keep my commandments."
Though demonstrating his control over sin and disease, the great Teacher by no means relieved others from giving the requisite proofs of their own piety. He worked for their guidance, that they might demonstrate this power as he did and understand its divine Principle.
رسول کہتا ہے، ”ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کرتے جاؤ،“ اوروہ برائے راست یہ بات شامل کرتا ہے کہ،”کیونکہ جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو اپنے نیک ارادہ کو انجام دینے کے لئے پیدا کرتا ہے وہ خدا ہے،“ (فلپیوں 2 باب12، 13آیات)۔ سچائی نے بادشاہت کی کنجی تیار کر لی ہے، اور اِس کنجی کی بدولت کرسچن سائنس نے انسانی فہم کا دروازہ کھول لیا ہے۔
"Work out your own salvation with fear and trembling," says the apostle, and he straightway adds: "for it is God which worketh in you both to will and to do of His good pleasure" (Philippians ii. 12, 13). Truth has furnished the key to the kingdom, and with this key Christian Science has opened the door of the human understanding.
اگر آپ کی زور مرہ کی زندگی اور گفتگو میں سچائی غلطی پر فتح پا رہی ہے، تو آپ بالاآخر کہہ سکتے ہیں، ”میں اچھی کْشتی لڑ چکا۔۔۔مَیں نے ایمان کو محفوظ رکھا،“ کیونکہ آپ ایک بہتر انسان ہیں۔ یہ سچائی اور محبت کے ساتھ یکجہتی میں حصہ لینا ہے۔
اگر شاگرد روحانی طور پر ترقی کر رہا ہے، تو وہ داخل ہونے کی جدجہد کر رہا ہے۔ وہ مادی حِس سے دور ہونے کی مسلسل کوشش کررہا ہے اور روح کی ناقابل تسخیر چیزوں کا متلاشی ہے۔اگر ایماندار ہے تو وہ ایمانداری سے ہی آغاز کرے گا اور آئے دن درست سمت پائے گا جب تک کہ وہ آخر کار شادمانی کے ساتھ اپنا سفر مکمل نہیں کر لیتا۔
If Truth is overcoming error in your daily walk and conversation, you can finally say, "I have fought a good fight ... I have kept the faith," because you are a better man. This is having our part in the at-one-ment with Truth and Love.
If the disciple is advancing spiritually, he is striving to enter in. He constantly turns away from material sense, and looks towards the imperishable things of Spirit. If honest, he will be in earnest from the start, and gain a little each day in the right direction, till at last he finishes his course with joy.
یقین کرنے کی نسبت اِسے سمجھنا زیادہ ضروری ہے جو ہستی کی خوشی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ایک انسانی عقیدے پر ایمان کے وسیلہ حق کو تلاش کرنا لامحدود کو سمجھنا نہیں ہے۔ہمیں محدود، قابلِ تبدیل اور فانی کے وسیلہ ناقابلِ تبدیل اور لافانی کی تلاش نہیں کرنی چاہئے، اور یوں اظہار کی بجائے ایمان پر انحصار کرنا چاہئے، کیونکہ یہ سائنس کے علم کے لئے مہلک ہے۔ حق کا فہم سچائی پر مکمل ایمان مہیا کرتا ہے، اور روحانی سمجھ تمام سوختنی قربانیوں سے بہتر ہے۔
مالک نے کہا، ”کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ(ہستی کے الٰہی اصول) کے پاس نہیں آتا،“ یعنی مسیح، زندگی، حق اور محبت کے بغیر؛ کیونکہ مسیح کہتا ہے، ”راہ مَیں ہوں۔“
It is essential to understand, instead of believe, what relates most nearly to the happiness of being. To seek Truth through belief in a human doctrine is not to understand the infinite. We must not seek the immutable and immortal through the finite, mutable, and mortal, and so depend upon belief instead of demonstration, for this is fatal to a knowledge of Science. The understanding of Truth gives full faith in Truth, and spiritual understanding is better than all burnt offerings.
The Master said, "No man cometh unto the Father [the divine Principle of being] but by me," Christ, Life, Truth, Love; for Christ says, "I am the way."
بت پرستی اور مادہ پرستی دیوتا کو بطور ”عظیم نامعلوم“ بیان کر سکتی ہے؛ مگر کرسچن سائنس خدا کو انسان کے قریب تر لاتی ہے، اور اْسے ہمیشہ نزدیک، کامل کْل کے طور پر بہتر مشہور کرتی ہے۔
Paganism and agnosticism may define Deity as "the great unknowable;" but Christian Science brings God much nearer to man, and makes Him better known as the All-in-all, forever near.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔