اتوار 21 اپریل ، 2024



مضمون۔ کفارے کا عقیدہ

SubjectDoctrine Of Atonement

سنہری متن: لوقا 15 باب31 آیت

”بیٹا! تْو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے۔“



Golden Text: Luke 15 : 31

Son, thou art ever with me, and all that I have is thine.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: رومیوں 8باب31، 35، 37تا39 آیات • اعمال 17 باب28آیت


31۔ پس ہم اِن باتوں کی بابت کیا کہیں َ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟

35۔ کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال نہ ننگا پن یا خطرہ یا تلوار؟

37۔ مگر اْن سب حالتوں میں اْس کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کے غلبہ حاصل ہوتا ہے۔

38۔ کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی محبت جو ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہے اْس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی۔

39۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں۔ نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق۔

28۔ کیونکہ اْسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔

Responsive Reading: Romans 8 : 31, 35, 37-39Acts 17 : 28

31.     What shall we then say to these things? If God be for us, who can be against us?

35.     Who shall separate us from the love of Christ? shall tribulation, or distress, or persecution, or famine, or nakedness, or peril, or sword?

37.     Nay, in all these things we are more than conquerors through him that loved us.

38.     For I am persuaded, that neither death, nor life, nor angels, nor principalities, nor powers, nor things present, nor things to come,

39.     Nor height, nor depth, nor any other creature, shall be able to separate us from the love of God, which is in Christ Jesus our Lord.

28.     For in him we live, and move, and have our being.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ پیدائش 1 باب26 (تا:)، 27، 28، (تا پہلی)، 31 (تا پہلی) آیات

26۔ پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔

27۔ اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اْس کو پیدا کیا۔ نر اور ناری اْن کو پیدا کیا۔

28۔ خدا نے اْن کو برکت دی۔

31۔ اور خدا نے سب پر جو اْس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔

1. Genesis 1 : 26 (to :), 27, 28 (to 1st ,), 31 (to 1st .)

26     And God said, Let us make man in our image, after our likeness:

27     So God created man in his own image, in the image of God created he him; male and female created he them.

28     And God blessed them,

31     And God saw every thing that he had made, and, behold, it was very good.

2 . ۔ زبور 8: 3تا6 آیات

3۔ جب مَیں تیرے آسمان پر جو تیری دستکاری ہے اور چاند اور ستاروں پر جن کو تْو نے مقرر کیا غور کرتا ہوں۔

4۔ تو پھر انسان کیا ہے کہ تْو اْسے یاد رکھے اور آدم زاد کیا ہے کہ تْو اْس کی خبر لے؟

5۔ کیونکہ تْو نے اْسے خدا سے کچھ ہی کمتر بنایا ہے اور جلال اور شوکت سے اْسے تاجدار کرتا ہے۔

6۔ تْو نے اْسے اپنی دستکاری پر تسلط بخشا ہے۔ تْو نے سب کچھ اْس کے قدموں کے نیچے کر دیا ہے۔

2. Psalm 8 : 3-6

3     When I consider thy heavens, the work of thy fingers, the moon and the stars, which thou hast ordained;

4     What is man, that thou art mindful of him? and the son of man, that thou visitest him?

5     For thou hast made him a little lower than the angels, and hast crowned him with glory and honour.

6     Thou madest him to have dominion over the works of thy hands; thou hast put all things under his feet:

3 . ۔ یوحنا 10 باب22تا34 (تا پہلی)، 37تا39 آیات

22۔ یروشلیم میں عیدِ تجدید ہوئی اور جاڑے کا موسم تھا۔

23۔ اور یسوع ہیکل کے اندر سلیمانی برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔

24۔ پس یہودیوں نے اْس کے گرد جمع ہو کر اْس سے کہا تْو کب تک ہمارے دلوں کو ڈانواں ڈول رکھے گا؟ اگر تْو مسیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔

25۔ یسوع نے اْن سے کہا میں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں۔

26۔ لیکن تم اس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔

27۔ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔

28۔ اور میں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔

29۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔

30۔ میں اور باپ ایک ہیں۔

31۔ یہودیوں نے اْسے سنگسار کرنے کے لئے پھر پتھر اٹھائے۔

32۔ یسوع نے اْنہیں جواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں۔ اْن میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو؟

33۔ یہودیوں نے اْسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اس لئے کہ تْو آدمی ہو کر خود کو خدا بناتا ہے۔

34۔ یسوع نے انہیں جواب دیا۔

37۔ اگر مَیں اپنے باپ کے کام نہیں کرتا تو میرا یقین نہ کرو۔

38۔ لیکن اگر میں کرتا ہوں تو گو میرا یقین نہ کرو مگر اْن کاموں کا تو یقین کرو تاکہ تم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں ہے اور مَیں باپ میں۔

39۔ انہوں نے پھر اْسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اْن کے ہاتھ سے نکل گیا۔

3. John 10 : 22-34 (to 1st ,), 37-39

22     And it was at Jerusalem the feast of the dedication, and it was winter.

23     And Jesus walked in the temple in Solomon’s porch.

24     Then came the Jews round about him, and said unto him, How long dost thou make us to doubt? If thou be the Christ, tell us plainly.

25     Jesus answered them, I told you, and ye believed not: the works that I do in my Father’s name, they bear witness of me.

26     But ye believe not, because ye are not of my sheep, as I said unto you.

27     My sheep hear my voice, and I know them, and they follow me:

28     And I give unto them eternal life; and they shall never perish, neither shall any man pluck them out of my hand.

29     My Father, which gave them me, is greater than all; and no man is able to pluck them out of my Father’s hand.

30     I and my Father are one.

31     Then the Jews took up stones again to stone him.

32     Jesus answered them, Many good works have I shewed you from my Father; for which of those works do ye stone me?

33     The Jews answered him, saying, For a good work we stone thee not; but for blasphemy; and because that thou, being a man, makest thyself God.

34     Jesus answered them,

37     If I do not the works of my Father, believe me not.

38     But if I do, though ye believe not me, believe the works: that ye may know, and believe, that the Father is in me, and I in him.

39     Therefore they sought again to take him: but he escaped out of their hand,

4 . ۔ یوحنا 14 باب9 (یسوع نے کہا) صرف، 10، 12تا14، 27 آیات

9۔ یسوع نے کہا۔۔۔

10۔ کیا تْو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں مَیں جو تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ رہ کر اپنے کام کرتا ہے۔

12۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں۔

13۔ اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے مَیں وہی کروں گا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔

14۔ اگر میرے نام سے مجھ سے کچھ چاہو گے تو مَیں وہی کروں گا۔

27۔ مَیں تمہیں اطمینان دئے جاتا ہوں۔ اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔ جس طرح دنیا دیتی ہے مَیں تمہیں اْس طرح نہیں دیتا۔ تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے۔

4. John 14 : 9 (Jesus saith) only, 10, 12-14, 27

9     Jesus saith ...

10     Believest thou not that I am in the Father, and the Father in me? the words that I speak unto you I speak not of myself: but the Father that dwelleth in me, he doeth the works.

12     Verily, verily, I say unto you, He that believeth on me, the works that I do shall he do also; and greater works than these shall he do; because I go unto my Father.

13     And whatsoever ye shall ask in my name, that will I do, that the Father may be glorified in the Son.

14     If ye shall ask any thing in my name, I will do it.

27     Peace I leave with you, my peace I give unto you: not as the world giveth, give I unto you. Let not your heart be troubled, neither let it be afraid.

5 . ۔ یوحنا 15 باب1تا11، 14 آیات

1۔ انگور کا حقیقی درخت مَیں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔

2۔ جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اورجو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے تاکہ زیادہ پھل لائے۔

3۔ اب تم اُس کلام کے سبب سے جو مَیں نے تم سے کیا پاک ہو۔

4۔ تم مجھ میں قائم رہو اور مَیں تم میں۔ جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لاسکتی اُسی طرح تم بھی اگر مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لاسکتے۔

5۔ مَیں انگور کا درخت ہوں تُم ڈالیاں ہو۔ جو مجھ قائم رہتا ہے اور مَیں اُس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جدا ہوکرتم کچھ نہیں کرسکتے۔

6۔اگر کوئی مجھ میں قائم نہ رہے تو وہ ڈالی کی طرح پھینک دیا جاتا اور سُوکھ جاتا ہے اور لوگ اُنہِیں جمع کر کے آگ میں جھونک دیتے ہیں اور وہ جل جاتی ہیں۔

7۔ اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں قائم رہیں تو جو چاہو مانگو۔ وہ تمہارے لئے ہوجائے گا۔

8۔میرے باپ کا جلال اِسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔

9۔جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی مَیں نے تم سے محبت رکھی تم میری محبت میں قائم رہو۔

10۔ اگر تم میرے حکموں پر عمل کروگے تو میری محبت میں قائم رہوگے جیسے مَیں نے اپنے باپ کے حُکموں پر عمل کیا ہے اور اُس کی محبت میں قائم ہوں۔

11۔ مَیں نے یہ باتیں اس لئے تم سے کہی ہیں کہ میری خوشی تم میں ہو اورتمہاری خوشی پوری ہوجائے۔

14۔ جو کچھ مَیں تم کو حکم دیتا ہوں اگر تم اْسے کرو تو میرے دوست ہو۔

5. John 15 : 1-11, 14

1     I am the true vine, and my Father is the husbandman.

2     Every branch in me that beareth not fruit he taketh away: and every branch that beareth fruit, he purgeth it, that it may bring forth more fruit.

3     Now ye are clean through the word which I have spoken unto you.

4     Abide in me, and I in you. As the branch cannot bear fruit of itself, except it abide in the vine; no more can ye, except ye abide in me.

5     I am the vine, ye are the branches: He that abideth in me, and I in him, the same bringeth forth much fruit: for without me ye can do nothing.

6     If a man abide not in me, he is cast forth as a branch, and is withered; and men gather them, and cast them into the fire, and they are burned.

7     If ye abide in me, and my words abide in you, ye shall ask what ye will, and it shall be done unto you.

8     Herein is my Father glorified, that ye bear much fruit; so shall ye be my disciples.

9     As the Father hath loved me, so have I loved you: continue ye in my love.

10     If ye keep my commandments, ye shall abide in my love; even as I have kept my Father’s commandments, and abide in his love.

11     These things have I spoken unto you, that my joy might remain in you, and that your joy might be full.

14     Ye are my friends, if ye do whatsoever I command you.

6 . ۔ یوحنا 17 باب1(تا تیسری)، 4تا7، 15، 20، 21آیات

1۔ یسوع نے یہ باتیں کہیں اور اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھا کر کہا کہ اے باپ! وہ گھڑی آ پہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔

4۔ جو کام تْو نے مجھے کرنے کو دیا تھا اْس کو تمام کر کے مَیں نے زمین پر تیرا جلال ظاہر کیا ہے۔

5۔ اور اب اے باپ! تْو اْس جلال سے جو مَیں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے۔

6۔ مَیں نے تیرے نام کو اْن آدمیوں پر ظاہر کیا جنہیں تْو نے دنیا میں سے مجھے دیا۔وہ تیرے تھے اور تْو نے اْنہیں مجھے دیا اور اْنہوں نے تیرے کلام پر عمل کیا ہے۔

7۔ اب وہ جان گئے کہ جو کچھ تْو نے مجھے دیا ہے وہ سب تیری ہی طرف سے ہے۔

15۔ میں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تْو انہیں دنیا سے اْٹھا لے بلکہ یہ کہ اْس شریر سے اْن کی حفاظت کر۔

20۔ مَیں صرف انہی کے لئے درخواست نہیں کرتا بلکہ اْن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایمان لائیں گے۔

21۔ تاکہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اے باپ! تْو مجھ میں ہے اور مَیں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں اور دنیا ایمان لائے کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا۔

6. John 17 : 1 (to 3rd ,), 4-7, 15, 20, 21

1     These words spake Jesus, and lifted up his eyes to heaven, and said,

4     I have glorified thee on the earth: I have finished the work which thou gavest me to do.

5     And now, O Father, glorify thou me with thine own self with the glory which I had with thee before the world was.

6     I have manifested thy name unto the men which thou gavest me out of the world: thine they were, and thou gavest them me; and they have kept thy word.

7     Now they have known that all things whatsoever thou hast given me are of thee.

15     I pray not that thou shouldest take them out of the world, but that thou shouldest keep them from the evil.

20     Neither pray I for these alone, but for them also which shall believe on me through their word;

21     That they all may be one; as thou, Father, art in me, and I in thee, that they also may be one in us: that the world may believe that thou hast sent me.



سائنس اور صح


1 . ۔ 522 :10۔11

وجودیت کو، الوہیت سے الگ، سائنس بطور ناممکن واضح کر تی ہے۔

1. 522 : 10-11

Existence, separate from divinity, Science explains as impossible.

2 . ۔ 361: 16۔20

پانی کا ایک قطرہ سمندر کے ساتھ ایک ہے، روشنی کی ایک کرن سورج کے ساتھ ایک ہے، اسی طرح خدا اور انسان، باپ اور بیٹا ہستی میں ایک ہیں۔ کلام کہتا ہے: ”کیونکہ اْسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔“

2. 361 : 16-20

As a drop of water is one with the ocean, a ray of light one with the sun, even so God and man, Father and son, are one in being. The Scripture reads: "For in Him we live, and move, and have our being."

3 . ۔ 587: 5۔8

خدا۔ عظیم مَیں ہوں؛ سب جاننے والا، سب دیکھنے والا، سب عمل کرنے والا، عقل کْل، کْلی محبت، اور ابدی؛ اصول؛ جان، روح، زندگی، سچائی، محبت، سارا مواد؛ ذہانت۔

3. 587 : 5-8

God. The great I am; the all-knowing, all-seeing, all-acting, all-wise, all-loving, and eternal; Principle; Mind; Soul; Spirit; Life; Truth; Love; all substance; intelligence.

4 . ۔ 475 :5۔22

سوال: انسان کیا ہے؟

جواب: انسان مادا نہیں ہے، وہ دماغ، خون، ہڈیوں اور دیگر مادی عناصر سے نہیں بنایا گیا۔کلام پاک ہمیں اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ انسان خدا کی شبیہ اور صورت پر خلق کیا گیا ہے۔ یہ مادے کی شبیہ نہیں ہے۔ روح کی شبیہ اس قدر غیر روحانی نہیں ہوسکتی۔ انسان روحانی اور کامل ہے؛ اور چونکہ وہ روحانی اور کامل ہے اس لئے اْسے کرسچن سائنس میں ایسا ہی سمجھا جانا چاہئے۔انسان محبت کا خیال، شبیہ ہے؛ وہ بدن نہیں ہے۔وہ خدا کا ایک مرکب خیال ہے،جس میں تمام تر درست خیالات شامل ہیں، ایسی عمومی اصطلاح جو خدا کی صورت اور شبیہ کی عکاسی کرتی ہے؛ سائنس میں پائے جانے والی ہستی کی با خبر شناخت، جس میں انسان خدا یا عقل کی عکاسی ہے، اور اسی لئے وہ ابدی ہے،یعنی وہ جس کی خدا سے مختلف کوئی عقل نہیں ہے؛ وہ جس میں ایسی ایک بھی خاصیت نہیں جو خدا سے نہ لی گئی ہو؛ وہ جو خود سے اپنی کوئی زندگی، ذہانت اور نہ ہی کوئی تخلیقی قوت رکھتا ہے؛ مگر اْس سب کی روحانی طور پر عکاسی کرتا ہے جو اْس کے بنانے والے سے تعلق رکھتی ہے۔

4. 475 : 5-22

Question. — What is man?

Answer. — Man is not matter; he is not made up of brain, blood, bones, and other material elements. The Scriptures inform us that man is made in the image and likeness of God. Matter is not that likeness. The likeness of Spirit cannot be so unlike Spirit. Man is spiritual and perfect; and because he is spiritual and perfect, he must be so understood in Christian Science. Man is idea, the image, of Love; he is not physique. He is the compound idea of God, including all right ideas; the generic term for all that reflects God's image and likeness; the conscious identity of being as found in Science, in which man is the reflection of God, or Mind, and therefore is eternal; that which has no separate mind from God; that which has not a single quality underived from Deity; that which possesses no life, intelligence, nor creative power of his own, but reflects spiritually all that belongs to his Maker.

5 . ۔ 42 :19۔21

یہ عقیدہ کہ انسان خدا سے الگ وجود یا عقل رکھتا ہے فنا ہونے والی ایک غلطی ہے۔ اِس کا سامنا یسوع نے الٰہی سائنس کے ساتھ کیا اور اس کے عدم کو ثابت کیا۔

5. 42 : 19-21

The belief that man has existence or mind separate from God is a dying error. This error Jesus met with divine Science and proved its nothingness.

6 . ۔ 18: 3۔12

یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔ اْس کا مشن انفرادی اور اجتماعی دونوں تھا۔ اْس نے زندگی کا مناسب کام سر انجام دیا نہ صرف خود کے انصاف کے لئے بلکہ انسانوں پر رحم کے باعث، انہیں یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے، بلکہ نہ تو اْن کے لئے خود کچھ کرنے یا نہ ہی اْنہیں کسی ایک ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئے یہ کیا۔یسوع نے دلیری سے حواس کے تسلیم شْدہ ثبوت کے خلاف، منافقانہ عقائد اور مشقوں کے خلاف کام کیا، اور اْس نے اپنی شفائیہ طاقت کی بدولت اپنے سبھی حریفوں کی تردید کی۔

6. 18 : 3-12

Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage. His mission was both individual and collective. He did life's work aright not only in justice to himself, but in mercy to mortals, — to show them how to do theirs, but not to do it for them nor to relieve them of a single responsibility. Jesus acted boldly, against the accredited evidence of the senses, against Pharisaical creeds and practices, and he refuted all opponents with his healing power.

7 . ۔ 19: 29۔5

یسوع نے اِس حکم پر زور دیا، ”تْو میرے حضور غیر معبودوں کونہ ماننا،“ جسے شاید یوں پیش کیا جائے: تْو بشر جیسا زندگی کا ایمان نہ رکھنا؛ تْو بدی کو نہ جانے گا، کیونکہ یہاں صرف ایک زندگی ہے، یعنی خدا، اچھائی۔اْس نے ”جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو“ پیش کیا۔ اْس نے انسانی عقیدے کی صورتوں یا انسان کے نظریات کو کوئی خراجِ عقیدت پیش نہ کی، بلکہ ویسے ہی عمل کیا اور بات کی جیسے اْس نے روح سے نہ کی بد روحوں سے تحریک پائی تھی۔

7. 19 : 29-5

Jesus urged the commandment, "Thou shalt have no other gods before me," which may be rendered: Thou shalt have no belief of Life as mortal; thou shalt not know evil, for there is one Life, — even God, good. He rendered "unto Caesar the things which are Caesar's; and unto God the things that are God's." He at last paid no homage to forms of doctrine or to theories of man, but acted and spake as he was moved, not by spirits but by Spirit.

8 . ۔ 136: 2۔6

اْس نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ اْس کا مذہب الٰہی اصول تھا، جو خطا کو خارج کرتا اور بیمار اور گناہگار دونوں کو شفا دیتا تھا۔ اْس نے خدا سے جدا کسی دانش، عمل اور نہ ہی زندگی کا دعویٰ کیا۔

8. 136 : 2-6

He taught his followers that his religion had a divine Principle, which would cast out error and heal both the sick and the sinning. He claimed no intelligence, action, nor life separate from God.

9 . ۔ 333: 16 (آمد)۔31، 32 (بدولت)۔9

یسوع ناصری کی آمد مسیحی دور کی پہلی صدی کا احاطہ کرتی ہے، لیکن مسیح ابتدائی برسوں یا آخری ایام کی قید سے مبرا ہے۔ مسیحی دورسے پیشتر اور بعد ازاں نسل در نسل مسیح بطور روحانی خیال، بطور خدا کے سایہ، اْن لوگوں کے لئے کچھ خاص طاقت اور فضل کے ساتھ آیا جو مسیح، یعنی سچائی کو حاصل کرنے کے لئے تیار تھے۔ ابراہیم، یعقوب، موسیٰ اور انبیاء نے مسیحا یا مسیح کی جلالی جھلکیاں پائی تھیں، جس نے ان دیکھنے والوں کو الٰہی فطرت، محبت کے جوہر میں بپتسمہ دیا تھا۔ الٰہی شبیہ، خیال یا مسیح الٰہی اصول یعنی خدا سے غیر منفِک تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یسوع نے اپنی روحانی شناخت کے اس اتحاد کو یوں بیان کیا: ”پیشتر اِس سے کہ ابراہیم پیدا ہوا، میں ہوں“؛ ”مَیں اور باپ ایک ہیں؛“ ”باپ مجھ سے بڑا ہے۔“ ایک روح میں ساری شناختیں پائی جاتی ہیں۔

اِن اقوال کی بدولت یسوع کی مراد یہ نہیں تھی کہ انسانی یسوع ابدی تھا یا ہے، بلکہ یہ کہ الٰہی خیال یا مسیح ابدی تھا اور ہے اس لئے ابراہام سے پیشتر جسمانی یسوع باپ کے ساتھ ایک نہیں تھا، بلکہ یہ روحانی خیال، مسیح ہے جو باپ خدا کی گود میں ہمیشہ بستا ہے، جہاں سے یہ آسمان اور زمین کو منور کرتا ہے؛ یہ نہیں کہ باپ روح سے بڑا ہے، جو خدا ہے بلکہ یہ اْس بدنی یسوع سے بڑا، لامتناہی بڑا ہے، جس کی زمینی زندگی کا دور مختصر تھا۔

9. 333 : 16 (The advent)-31, 32 (By)-9

The advent of Jesus of Nazareth marked the first century of the Christian era, but the Christ is without beginning of years or end of days. Throughout all generations both before and after the Christian era, the Christ, as the spiritual idea, — the reflection of God, — has come with some measure of power and grace to all prepared to receive Christ, Truth. Abraham, Jacob, Moses, and the prophets caught glorious glimpses of the Messiah, or Christ, which baptized these seers in the divine nature, the essence of Love. The divine image, idea, or Christ was, is, and ever will be inseparable from the divine Principle, God. Jesus referred to this unity of his spiritual identity thus: "Before Abraham was, I am;" "I and my Father are one;" "My Father is greater than I." The one Spirit includes all identities.

By these sayings Jesus meant, not that the human Jesus was or is eternal, but that the divine idea or Christ was and is so and therefore antedated Abraham; not that the corporeal Jesus was one with the Father, but that the spiritual idea, Christ, dwells forever in the bosom of the Father, God, from which it illumines heaven and earth; not that the Father is greater than Spirit, which is God, but greater, infinitely greater, than the fleshly Jesus, whose earthly career was brief.

10 . ۔ 336: 25 (خدا)۔31

خدا، انسان کا الٰہی اصول، اور خدا کی شبیہ پر بناانسان غیر منفک، ہم آہنگ اورابدی ہیں۔ ہستی کی سائنس کاملیت کے اصول کو سجاتی ہے اور لافانیت کو روشنی میں لاتی ہے۔ خدا اور انسان ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ الٰہی سائنس کی ترتیب میں،خدا اور انسان ایک ساتھ رہتے ہیں اور ابدی ہوتے ہیں۔ خدا ولدیت کی عقل ہے اور انسان خدا کی روحانی اولاد ہے۔

10. 336 : 25 (God)-31

God, the divine Principle of man, and man in God's likeness are inseparable, harmonious, and eternal. The Science of being furnishes the rule of perfection, and brings immortality to light. God and man are not the same, but in the order of divine Science, God and man coexist and are eternal. God is the parent Mind, and man is God's spiritual offspring.

11 . ۔ 337: 7۔11

حقیقی خوشی کے لئے انسان کو اپنے اصول، الٰہی محبت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے؛ بیٹے کو باپ کے ساتھ،مسیح میں مطابقت کے ساتھ متحد ہونا چاہئے۔الٰہی سائنس کے مطابق انسا ن کا درجہ ویسا ہی کامل ہے جیسی وہ عقل ہے جو اْسے بناتی ہے۔

11. 337 : 7-11

For true happiness, man must harmonize with his Principle, divine Love; the Son must be in accord with the Father, in conformity with Christ. According to divine Science, man is in a degree as perfect as the Mind that forms him.

12 . ۔ 470: 21۔24، 32۔5

خدا انسان کا خالق ہے، اور انسان کا الٰہی اصول کامل ہونے سے الٰہی خیال یا عکس یعنی انسان کامل ہی رہتا ہے۔ انسان خدا کی ہستی کا ظہور ہے۔

سائنس میں خدا اور انسان، الٰہی اصول اور خیال، کے تعلقات لازوال ہیں؛ اور سائنس بھول چوک جانتی ہے نہ ہم آہنگی کی جانب واپسی، لیکن یہ الٰہی ترتیب یا روحانی قانون رکھتی ہے جس میں خدا اور جو کچھ وہ خلق کرتا ہے کامل اور ابدی ہیں، جو اس کی پوری تاریخ میں غیر متغیر رہے ہیں۔

12. 470 : 21-24, 32-5

God is the creator of man, and, the divine Principle of man remaining perfect, the divine idea or reflection, man, remains perfect. Man is the expression of God's being.

The relations of God and man, divine Principle and idea, are indestructible in Science; and Science knows no lapse from nor return to harmony, but holds the divine order or spiritual law, in which God and all that He creates are perfect and eternal, to have remained unchanged in its eternal history.

13 . ۔ 281: 14۔17

ایک خودی، ایک عقل یا روح جسے خدا کہا جاتا ہے لامتناہی انفرادیت ہے، جو سب روپ اور خوبصورتی دستیاب کرتا ہے اور جو انفرادی روحانی انسان اور چیزوں میں حقیقت اور الوہیت کی عکاسی کرتا ہے۔

13. 281 : 14-17

The one Ego, the one Mind or Spirit called God, is infinite individuality, which supplies all form and comeliness and which reflects reality and divinity in individual spiritual man and things.

14 . ۔ 539 :10۔12

خدا بدی کا کوئی عنصر فراہم نہیں کر سکتا، اور انسان ایسی کچھ بھی ملکیت نہیں رکھ سکتا جو اْس نے خدا سے حاصل نہ کی ہو۔

14. 539 : 10-12

God could never impart an element of evil, and man possesses nothing which he has not derived from God.

15 . ۔ 91 :1۔8

مکاشفہ لکھنے والا ہمیں ”ایک نئے آسمان اورایک نئی زمین“ کے بارے میں بتاتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی ایسے آسمان اور زمین کی تصویر کشی کی ہے، جس کے باشندے اعلیٰ حکمت کے اختیار میں ہوں؟

آئیے ہم اِس عقیدے سے پیچھا چھڑائیں کہ انسان خدا سے الگ ہے اور صرف الٰہی اصول، زندگی اور محبت کی فرمانبرداری کریں۔ یہاں پوری حقیقی روحانی ترقی کے لئے روانگی کا بڑا نقطہ آتا ہے۔

15. 91 : 1-8

The Revelator tells us of "a new heaven and a new earth." Have you ever pictured this heaven and earth, inhabited by beings under the control of supreme wisdom?

Let us rid ourselves of the belief that man is separated from God, and obey only the divine Principle, Life and Love. Here is the great point of departure for all true spiritual growth.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔