اتوار 22 مئی، 2022



مضمون۔ جان اور جسم

SubjectSoul and Body

سنہری متن: یوحنا 6 باب27 آیت

”فانی خوراک کے لئے محنت نہ کرو بلکہ اْس خوراک کے لئے جو ہمیشہ کی زندگی تک برقرار رہتی ہے جِسے ابنِ آدم تمہیں دے گا۔“



Golden Text: John 6 : 27

Labour not for the meat which perisheth, but for that meat which endureth unto everlasting life, which the Son of man shall give unto you.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: زبور 107: 8، 9آیات • زبور 19: 7تا 11 آیات


8۔ کاش کہ لوگ خداوند کی شفقت کی خاطر اور بنی آدم کے لئے اْس کے عجائب کی خاطر اْس کی ستائش کرتے!

9۔ کیونکہ وہ ترستی جان کو سیر کرتا ہے۔ اور بھوکی جان کو نعمتوں سے مالا مال کرتا ہے۔

7۔ خداوند کی شریعت کامل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ خداوندکی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔

8۔ خداوند کے قوانین راست ہیں۔ وہ دِل کو فرحت پہنچاتے ہیں۔ خداوند کا حکم بے عیب ہے۔ وہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔

9۔ خداوند کا خوف پاک ہے۔ وہ ابد تک قائم رہتا ہے۔ خداوند کے احکام برحق اور بالکل راست ہیں۔

10۔ وہ سونے سے بلکہ بہت کندن سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔ وہ شہد سے بلکہ چھتے کے ٹپکوں سے بھی شیریں ہیں۔

11۔ نیز اْن سے تیرے بندے کو آگاہی ملتی ہے۔ اْن کو ماننے کا اجر بڑا ہے۔

Responsive Reading: Psalm 107 : 8, 9Psalm 19 : 7-11

8.     Oh that men would praise the Lord for his goodness, and for his wonderful works to the children of men!

9.     For he satisfieth the longing soul, and filleth the hungry soul with goodness.

7.     The law of the Lord is perfect, converting the soul: the testimony of the Lord is sure, making wise the simple.

8.     The statutes of the Lord are right, rejoicing the heart: the commandment of the Lord is pure, enlightening the eyes.

9.     The fear of the Lord is clean, enduring for ever: the judgments of the Lord are true and righteous altogether.

10.     More to be desired are they than gold, yea, than much fine gold: sweeter also than honey and the honeycomb.

11.     Moreover by them is thy servant warned: and in keeping of them there is great reward.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یسعیاہ 55 باب1تا3 آیات

1۔ اے سب پیاسو پانی کے پاس آؤ اور وہ بھی جس کے پاس پیسہ نہ ہو۔ آؤ مول لو اور کھاؤ۔ ہا ں آؤ اور دودھ بے زر اور بے قیمت خریدو۔

2۔ تم کس لئے اپنا روپیہ اْس چیز کے لئے جو روٹی نہیں اور اپنی محنت اْس چیز کے واسطے جو آسودہ نہیں کرتی خرچ کرتے ہو؟ تم غور سے میری سنو اور ہر وہ چیز جو اچھی ہے کھاؤ اور تمہاری جان فربہی سے لذت اٹھائے۔

3۔ کان لگاؤ اور میرے پاس آؤ اور سنو اور تمہاری جان زندہ رہے گی اور مَیں تم کو ابدی عہد یعنی داؤد کی سچی نعمتیں بخشوں گا۔

1. Isaiah 55 : 1-3

1     Ho, every one that thirsteth, come ye to the waters, and he that hath no money; come ye, buy, and eat; yea, come, buy wine and milk without money and without price.

2     Wherefore do ye spend money for that which is not bread? and your labour for that which satisfieth not? hearken diligently unto me, and eat ye that which is good, and let your soul delight itself in fatness.

3     Incline your ear, and come unto me: hear, and your soul shall live; and I will make an everlasting covenant with you, even the sure mercies of David.

2 . ۔ یرمیاہ 31 باب14 آیت

14۔ اور مَیں کاہنوں کی جان کو چکنائی سے سیر کروں گا اور میرے لوگ میری نعمتوں سے آسودہ ہوں گے خداوند فرماتا ہے۔

2. Jeremiah 31 : 14

14     And I will satiate the soul of the priests with fatness, and my people shall be satisfied with my goodness, saith the Lord.

3 . ۔ لوقا 4 باب(تا پہلی)، 33تا37 آیات

1۔ یسوع روح القدس سے بھرا ہوا یردن سے لوٹا۔

33۔ اور عبادتخانہ میں ایک آدمی تھا جس میں ناپاک دیو کی روح تھی وہ بڑی آواز سے چلااْٹھا کہ

34۔ اے یسوع ناصری ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تْو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تجھے جانتا ہوں کہ تْو کون ہے۔ خدا کا قدوس ہے۔

35۔ یسوع نے اْسے جھڑک کر کہا چْپ رہ اور اْس میں سے نکل جا۔ اِس پر بد روح اْسے بیچ میں پٹک کر بغیر ضرر پہنچائے اْس میں سے نکل گئی۔

36۔ اور سب حیران ہو کر آپس میں کہنے لگے یہ کیسا کلام ہے؟ کیونکہ وہ اختیار اور قدرت سے ناپاک روحوں کو حکم دیتا ہے اور وہ نکل جاتی ہیں۔

37۔ اور گردو نواح میں ہر جگہ اْس کی دھوم مچ گئی۔

3. Luke 4 : 1 (to 1st ,), 33-37

1     And Jesus being full of the Holy Ghost returned from Jordan,

33     And in the synagogue there was a man, which had a spirit of an unclean devil, and cried out with a loud voice,

34     Saying, Let us alone; what have we to do with thee, thou Jesus of Nazareth? art thou come to destroy us? I know thee who thou art; the Holy One of God.

35     And Jesus rebuked him, saying, Hold thy peace, and come out of him. And when the devil had thrown him in the midst, he came out of him, and hurt him not.

36     And they were all amazed, and spake among themselves, saying, What a word is this! for with authority and power he commandeth the unclean spirits, and they come out.

37     And the fame of him went out into every place of the country round about.

4 . ۔ لوقا 12 باب1(تا تیسری)، 13 (ایک) تا 24، 28تا31 آیات

1۔ اتنے میں ہزاروں آدمیوں کی بھیڑ لگ گئی یہاں تک کہ ہر ایک دوسرے پر گِرا پڑتا تھا۔

13۔ پھر بھیڑ میں سے کسی نے اْس سے کہا اے استاد! میرے بھائی سے کہہ کہ میراث کا میرا حصہ مجھے دے۔

14۔ اْس نے اْس سے کہا۔ میاں! کس نے مجھے تمہارا منصف یا بانٹنے والا مقرر کیا ہے؟

15۔ اور اْس نے اْن سے کہا خبردار! اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو۔ کیونکہ کسی کی زندگی اْس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔

16۔ اور اْس نے اْن سے تمثیل کہی کہ کسی دولتمند کی زمین میں بڑی فصل ہوئی۔

17۔ پس وہ اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگا مَیں کیا کروں کیونکہ میرے ہا ں جگہ نہیں جہاں اپنی پیداوار بھر رکھوں۔

18۔ اْس نے کہا مَیں یوں کروں گا کہ اپنی کوٹھیاں ڈھا کر اْن سے بڑی بناؤں گا۔

19۔ اور اْن میں اپنا سارا اناج اور مال بھر رکھوں گا اور اپنی جان سے کہوں گا اے جان! تیرے پاس بہت برسوں کے لئے بہت سا مال جمع ہے۔ چین کر، کھا پی۔ خوش رہ۔

20۔ مگر خداوند نے اْس سے کہا اے نادان! اسی رات تیری جان تجھ سے طلب کر لی جائے گی۔ پس جو کچھ تْو نے تیار کیا ہے وہ کس کاہوگا؟

21۔ ایسا ہی وہ شخص ہے جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولتمند نہیں۔

22۔ پھر اْس نے اپنے شاگردوں سے کہا اس لئے مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرو کہ ہم کیا کھائیں گے اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔

23۔ کیونکہ جان خوراک سے بڑھ کر ہے اور بدن پوشاک سے۔

24۔ کوؤں پر غور کرو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں۔ اور نہ اْن کا کھِتا ہوتا ہے اور نہ کوٹھی۔ تو بھی خدا اْنہیں کھلاتا ہے۔ تمہاری قدر تو پرندوں سے کہیں زیادہ ہے۔

28۔ پس جب خدا گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟

29۔ اور تم اِس کی تلاش میں نہ رہو کہ کیا کھائیں گے کیا پہنیں گے اور نہ شکی بنو۔

30۔ کیونکہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں دنیا کی قومیں رہتی ہیں لیکن تمہارا باپ جانتا ہے کہ تم کن چیزوں کے محتاج ہو۔

31۔ ہاں اْس کی بادشاہی کی تلاش میں رہو تو یہ چیزیں بھی تمہیں مل جائیں گی۔

4. Luke 12 : 1 (to 3rd ,), 13 (one)-24, 28-31

1     In the mean time, when there were gathered together an innumerable multitude of people, insomuch that they trode one upon another,

13     …one of the company said unto him, Master, speak to my brother, that he divide the inheritance with me.

14     And he said unto him, Man, who made me a judge or a divider over you?

15     And he said unto them, Take heed, and beware of covetousness: for a man’s life consisteth not in the abundance of the things which he possesseth.

16     And he spake a parable unto them, saying, The ground of a certain rich man brought forth plentifully:

17     And he thought within himself, saying, What shall I do, because I have no room where to bestow my fruits?

18     And he said, This will I do: I will pull down my barns, and build greater; and there will I bestow all my fruits and my goods.

19     And I will say to my soul, Soul, thou hast much goods laid up for many years; take thine ease, eat, drink, and be merry.

20     But God said unto him, Thou fool, this night thy soul shall be required of thee: then whose shall those things be, which thou hast provided?

21     So is he that layeth up treasure for himself, and is not rich toward God.

22     And he said unto his disciples, Therefore I say unto you, Take no thought for your life, what ye shall eat; neither for the body, what ye shall put on.

23     The life is more than meat, and the body is more than raiment.

24     Consider the ravens: for they neither sow nor reap; which neither have storehouse nor barn; and God feedeth them: how much more are ye better than the fowls?

28     If then God so clothe the grass, which is to day in the field, and to morrow is cast into the oven; how much more will he clothe you, O ye of little faith?

29     And seek not ye what ye shall eat, or what ye shall drink, neither be ye of doubtful mind.

30     For all these things do the nations of the world seek after: and your Father knoweth that ye have need of these things.

31     But rather seek ye the kingdom of God; and all these things shall be added unto you.

5 . ۔ متی 10 باب28 آیت

28۔ جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور روح کو قتل نہیں کر سکتے اْن سے نہ ڈرو بلکہ اْسی سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔

5. Matthew 10 : 28

28     And fear not them which kill the body, but are not able to kill the soul: but rather fear him which is able to destroy both soul and body in hell.

6 . ۔ متی 16 باب24تا26 آیات

24۔ اْس وقت یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔

25۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے وہ اْسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اْسے پائے گا۔

26۔ اور اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اٹھائے تو اْسے کیا فائدہ؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے گا؟

6. Matthew 16 : 24-26

24     Then said Jesus unto his disciples, If any man will come after me, let him deny himself, and take up his cross, and follow me.

25     For whosoever will save his life shall lose it: and whosoever will lose his life for my sake shall find it.

26     For what is a man profited, if he shall gain the whole world, and lose his own soul? or what shall a man give in exchange for his soul?

7 . ۔ یوحنا 6 باب31تا33، 38، 40 آیات

31۔ ہمارے باپ دادا نے بیابان میں من کھایا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ اْس نے انہیں کھانے کے لئے آسمان سے روٹی دی۔

32۔ یسوع نے اْن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ موسیٰ نے تو وہ روٹی تمہیں آسمان سے نہ دی لیکن میرا باپ آسمان سے تمہیں حقیقی روٹی دیتا ہے۔

33۔ کیونکہ خداوند کی روٹی وہ ہے جو آسمان سے اْتر کر دنیا کو زندگی بخشتی ہے۔

38۔ کیونکہ مَیں آسمان سے اِس لئے نہیں اْترا ہوں کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کرو ں بلکہ اِس لئے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں۔

40۔ کیونکہ میرے باپ کی مرضی یہ ہے کہ جو کوئی بیٹے کو دیکھے اور اْس پر ایمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے۔

7. John 6 : 31-33, 38, 40

31     Our fathers did eat manna in the desert; as it is written, He gave them bread from heaven to eat.

32     Then Jesus said unto them, Verily, verily, I say unto you, Moses gave you not that bread from heaven; but my Father giveth you the true bread from heaven.

33     For the bread of God is he which cometh down from heaven, and giveth life unto the world.

38     For I came down from heaven, not to do mine own will, but the will of him that sent me.

40     And this is the will of him that sent me, that every one which seeth the Son, and believeth on him, may have everlasting life: and I will raise him up at the last day.

8 . ۔ 2 کرنتھیوں 5 باب1، 6 تا8 آیات

1۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب ہمارا خیمہ کا گھر جو زمین پر ہے گرایا جائے گا تو ہم کو خدا کی طرف سے آسمان پر ایک ایسی عمارت ملے گی جو ہاتھ کا بنا ہوا گھر نہیں بلکہ ابدی ہے۔

6۔ پس ہمیشہ ہماری خاطر جمع رہتی ہے اور یہ جانتے ہیں کہ جب تک ہم بدن کے وطن میں ہیں خداوند کے ہاں سے جلا وطن ہیں۔

7۔ کیونکہ ہم ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔

8۔ غرض ہماری خاطر جمع ہے اور ہم کو بدن کے وطن سے جدا ہو کر خداوند کے وطن میں رہنا زیادہ منظور ہے۔

8. II Corinthians 5 : 1, 6-8

1     For we know that if our earthly house of this tabernacle were dissolved, we have a building of God, an house not made with hands, eternal in the heavens.

6     Therefore we are always confident, knowing that, whilst we are at home in the body, we are absent from the Lord:

7     (For we walk by faith, not by sight:)

8     We are confident, I say, and willing rather to be absent from the body, and to be present with the Lord.

9 . ۔ 1 تھسلینیکیوں 5 باب23 (اور مَیں) آیات

23۔۔۔۔اور تمہارے روح اور جان اور بدن ہمارے خداوند یسوع مسیح کے آنے تک پورے پورے اور بے عیب محفوظ رہیں۔

9. I Thessalonians 5 : 23 (and I)

23     …and I pray God your whole spirit and soul and body be preserved blameless unto the coming of our Lord Jesus Christ.



سائنس اور صح


1 . ۔ 477 :22۔29

جان مادہ، زندگی، انسان کی ذہانت ہے، جس کی انفرادیت ہوتی ہے لیکن مادے میں نہیں۔ جان روح سے کمتر کسی چیز کی عکاسی کبھی نہیں کر سکتی۔

انسان روح کا اظہار۔بھارتیوں نے بنیادی حقیقت کی چند جھلکیاں پکڑی ہیں، جب انہوں نے ایک خوبصورت جھیل کو ”عظیم روح کی مسکراہٹ“ کا نام دیا۔

1. 477 : 22-29

Soul is the substance, Life, and intelligence of man, which is individualized, but not in matter. Soul can never reflect anything inferior to Spirit.

Man is the expression of Soul. The Indians caught some glimpses of the underlying reality, when they called a certain beautiful lake "the smile of the Great Spirit."

2 . ۔ 209 :5۔9

عقل، اپنی تمام تر اصلاحات پر برتر اور اِن سب پر حکمرانی کرنے والی، اپنے خود کے خیالات کے نظاموں کا ایک مرکزی شمس ہے، یعنی اپنی خود کی وسیع تخلیق کی روشنی اور زندگی؛ اور انسان الٰہی عقل کا معاون ہے۔مادہ اور فانی بدن یا عقل انسان نہیں ہے۔

2. 209 : 5-9

Mind, supreme over all its formations and governing them all, is the central sun of its own systems of ideas, the life and light of all its own vast creation; and man is tributary to divine Mind. The material and mortal body or mind is not the man.

3 . ۔ 309 :24۔32

ہستی کی سائنس اسے لامحدود روح یا جان کے لئے ناممکن پیش کرتی ہے کہ یہ ایک محدود جسم یا انسان کے لئے اْس کے خالق سے الگ کوئی ذہانت رکھے۔ یہ اسے فرض کرنے کے لئے خود کار گواہی ہے کہ نامیاتی حیوان یا سبزہ زار زندگی جیسی حقیقت موجود ہو سکتی ہے، جب یہ نام نہاد زندگی موت پر ختم ہو جاتی ہے۔زندگی کبھی ایک ہی لمحے میں نابود نہیں ہو تی۔ اس لئے یہ کبھی بناوٹی یا نامیاتی نہیں ہوتی، اور نہ کبھی اپنی ہی بناوٹ کے باعث محدود یا غرق ہوتی ہے۔

3. 309 : 24-32

The Science of being shows it to be impossible for infinite Spirit or Soul to be in a finite body or for man to have an intelligence separate from his Maker. It is a self-evident error to suppose that there can be such a reality as organic animal or vegetable life, when such so-called life always ends in death. Life is never for a moment extinct. Therefore it is never structural nor organic, and is never absorbed nor limited by its own formations.

4 . ۔ 478 :3۔8

فانیت کے اندر آپ کے پاس روح یا لافانیت کا کیا ثبوت ہے؟ حتیٰ کہ فطری سائنس کے مطابق بھی بدن کو چھوڑتے اور اِس میں داخل ہوتے ہوئے انسان نے کبھی روح یا جان کو نہیں پکڑا۔فانی عقیدے کے دعویٰ کے علاوہ روح کے اندر بسنے کے نظریے کی کیا بنیاد ہے؟

4. 478 : 3-8

What evidence of Soul or of immortality have you within mortality? Even according to the teachings of natural science, man has never beheld Spirit or Soul leaving a body or entering it. What basis is there for the theory of indwelling spirit, except the claim of mortal belief?

5 . ۔ 372 :2۔13

فانی بدن مادے پر عقل کامحض ایک غلط فانی عقیدہ ہے۔ جسے آپ مادا کہتے ہیں وہ در اصل حل میں ایک غلطی، ابتدائی فانی عقل، میلٹن کی پیش کردہ ”افراتفری اور پرانی رات“ کے ساتھ مماثلت ہے۔اِس فانی عقل سے متعلق ایک نظریہ یہ ہے کہ اِس کے احساسات نئے انسان کو جنم دے سکتے، خون، گوشت اور ہڈیاں تشکیل دے سکتے ہیں۔ ہستی کی سائنس، جس میں سب کچھ الٰہی عقل، یا خدا اور اْس کا خیال شامل ہے، اِس دور میں واضح تر ہوگا مگر اِس عقیدے کے لئے کہ مادا انسان کا آلہ ہے یا یہ کہ انسان اپنی جسمانی سوچ میں داخل ہو سکتا ہے، اْس کے خود کے عقائد کے ساتھ اْسے باندھتا ہے اور پھر اْس کے بندھنوں کو مادا کہتا اور انہیں الٰہی شریعت کا نام دیتا ہے۔

5. 372 : 2-13

The mortal body is only an erroneous mortal belief of mind in matter. What you call matter was originally error in solution, elementary mortal mind, — likened by Milton to "chaos and old night." One theory about this mortal mind is, that its sensations can reproduce man, can form blood, flesh, and bones. The Science of being, in which all is divine Mind, or God and His idea, would be clearer in this age, but for the belief that matter is the medium of man, or that man can enter his own embodied thought, bind himself with his own beliefs, and then call his bonds material and name them divine law.

6 . ۔ 60: 29۔3

جان میں لامتناہی وسائل ہیں جن سے انسان کو برکت دینا ہوتی ہے اور خوشی مزید آسانی سے حاصل کی جاتی ہے اور ہمارے قبضہ میں مزید محفوظ رہے گی، اگر جان میں تلاش کی جائے گی۔ صرف بلند لطف ہی لافانی انسان کے نقوش کو تسلی بخش بنا سکتے ہیں۔ ہم ذاتی فہم کی حدود میں خوشی کو محدود نہیں کر سکتے۔حواس کوئی حقیقی لطف عطا نہیں کرتے۔

6. 60 : 29-3

Soul has infinite resources with which to bless mankind, and happiness would be more readily attained and would be more secure in our keeping, if sought in Soul. Higher enjoyments alone can satisfy the cravings of immortal man. We cannot circumscribe happiness within the limits of personal sense. The senses confer no real enjoyment.

7 . ۔ 232 :19۔25

یسوع نے یہ تعلیم کبھی نہیں دی کہ ادویات، خوراک، ہوا اور ورزش انسان کو صحتمند رکھتے ہیں یا ان سے انسانی زندگی تباہ ہوسکتی ہے؛ نہ ہی اْس نے ان غلطیوں کو اپنے عمل سے بیان کیا۔ اْس نے انسان کی ہم آہنگی کا عقل کے ساتھ حوالہ دیا نہ کہ مادے کے ساتھ، اور کبھی بھی خدا کے فرمان کو غیر موثر نہیں بنایا، جس نے گناہ، بیماری اور موت کی خدا کی طرف سے ہلاکت پر مہر کی۔

7. 232 : 19-25

Jesus never taught that drugs, food, air, and exercise could make a man healthy, or that they could destroy human life; nor did he illustrate these errors by his practice. He referred man's harmony to Mind, not to matter, and never tried to make of none effect the sentence of God, which sealed God's condemnation of sin, sickness, and death.

8 . ۔ 388 :12۔24

ان مفروضوں کو تسلیم کریں کہ خوراک زندگی کی غذائیت ہے؛ اور اس کے بعد مخالف سمت میں ایک اور اعتراف کی ضرورت پڑتی ہے، یہ کہ خوراک میں کسی کمی یا زیادتی، معیار یا مقدار کے ذریعے زندگی، خدا، کوتباہ کرنے کی طاقت پائی جاتی ہے۔صحت سے متعلق تمام تر مادی مفروضوں کی مبہم فطرت کا یہ ایک نمونہ ہے۔یہ خود مخالف اور خود کْش ہیں، جو قائم کرتے ہیں ایک ایسی ”سلنطت جس میں پھوٹ پڑ جائے“تو وہ ”ویران ہوجاتی ہے“۔ اگر اپنے شاگردوں کے لئے کھانا یسوع کی طرف سے تیار کیا گیا ہو تو یہ زندگی کو تباہ نہیں کر سکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ خوراک انسان کی مکمل زندگی کو متاثر نہیں کرتی، اور جب ہم یہ سیکھتے ہیں کہ خدا ہماری زندگی ہے تو یہ خود عیاں ہو جاتی ہے۔

8. 388 : 12-24

Admit the common hypothesis that food is the nutriment of life, and there follows the necessity for another admission in the opposite direction, — that food has power to destroy Life, God, through a deficiency or an excess, a quality or a quantity. This is a specimen of the ambiguous nature of all material health-theories. They are self-contradictory and self-destructive, constituting a "kingdom divided against itself," which is "brought to desolation." If food was prepared by Jesus for his disciples, it cannot destroy life.

The fact is, food does not affect the absolute Life of man, and this becomes self-evident, when we learn that God is our Life.

9 . ۔ 220 :22۔32

ایک دفعہ ایک پادری نے روٹی اور پانی کا پرہیزی کھانا کھانے کی عادت اپنائی کہ اپنی روحانیت کو بڑھا سکے۔ اپنی صحت کو خراب ہوتے دیکھ اْس نے اپنی پرہیزی ختم کردی، اور دوسروں کو اِس بات کی تلقین کی کہ فضل میں بڑھوتری کے لئے غذایات کم کرنے کی کوشش کبھی نہ کریں۔

یہ یقین کہ روزہ یا دعوت انسان کو اخلاقی یا جسمانی طور پر بہتر بناتے ہیں ”نیکی اور بدی کی پہچان کے درخت“ کے پھلوں میں سے ایک ہے جس کے متعلق خدا نے کہا، ”تم اسے ہر گز نہ کھانا۔“فانی عقل فانی بدن کی تمام تر حالتوں کو ترتیب دیتی ہے، اور وہ معدے، ہڈیوں، پھیپھڑوں، دل، خون وغیرہ کواْتناقابو کر سکتی ہے جتنا براہ راست وہ اپنی مرضی یا رضا سے ہاتھ ہلاتی ہے۔

9. 220 : 22-32

A clergyman once adopted a diet of bread and water to increase his spirituality. Finding his health failing, he gave up his abstinence, and advised others never to try dietetics for growth in grace.

The belief that either fasting or feasting makes men better morally or physically is one of the fruits of "the tree of the knowledge of good and evil," concerning which God said, "Thou shalt not eat of it." Mortal mind forms all conditions of the mortal body, and controls the stomach, bones, lungs, heart, blood, etc., as directly as the volition or will moves the hand.

10 . ۔ 530 :5۔12

الٰہی سائنس میں، انسان خدایعنی ہستی کے الٰہی اصول کے وسیلہ قائم رہتا ہے۔ زمین، خدا کے حکم پر، انسان کے استعمال کے لئے خوراک پیدا کرتی ہے۔یہ جانتے ہوئے، یسوع نے ایک بار کہا، ”اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے اور پئیں گے،“اپنے خالق کا استحقاق فرض کرتے ہوئے نہیں بلکہ خدا جو سب کا با پ اور ماں ہے، اْسے سمجھتے ہوئے کہ وہ ایسے ہی انسان کو خوراک اور لباس فراہم کرنے کے قابل ہے جیسے وہ سوسن کے پھولوں کو کرتا ہے۔

10. 530 : 5-12

In divine Science, man is sustained by God, the divine Principle of being. The earth, at God's command, brings forth food for man's use. Knowing this, Jesus once said, "Take no thought for your life, what ye shall eat, or what ye shall drink," — presuming not on the prerogative of his creator, but recognizing God, the Father and Mother of all, as able to feed and clothe man as He doth the lilies.

11 . ۔ 382 :5۔8

حفظانِ صحت پر جتنی توجہ دی جاتی ہے اگر اْس سے آدھی بھی کرسچن سائنس کے مطالعہ اور روحانیت کے خیالات کو دی جاتی تو یہ صرف یہی ایک ہزار سال میں ایک عشرہ ہوتا۔

11. 382 : 5-8

If half the attention given to hygiene were given to the study of Christian Science and to the spiritualization of thought, this alone would usher in the millennium.

12 . ۔ 222 :31۔6

ہمیں اِس جھوٹے عقیدے کو نیست کر دینا چاہئے کہ زندگی اور ذہانت مادے میں ہیں، اور خود کو اْس پر قائم کرنا چاہئے جو کامل اور پاک ہے۔پولوس نے کہا، ”روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہر گز پورا نہ کرو گے۔“جلد یا بدیر ہم یہ سیکھیں گے کہ انسان کی متناہی حیثیت کی بیڑیاں اس فریب نظری کے باعث پگھلنے لگتی ہیں کہ وہ جان کی بجائے بدن میں، روح کی بجائے مادے میں رہتا ہے۔

12. 222 : 31-6

We must destroy the false belief that life and intelligence are in matter, and plant ourselves upon what is pure and perfect. Paul said, "Walk in the Spirit, and ye shall not fulfil the lust of the flesh." Sooner or later we shall learn that the fetters of man's finite capacity are forged by the illusion that he lives in body instead of in Soul, in matter instead of in Spirit.

13 . ۔ 427 :2۔12

زندگی جان کا قانون ہے، حتیٰ کہ سچائی کی روح کا قانون بھی، اور جان کسی نمائندہ کارکے بغیر کبھی نہیں ہوتی۔ انسان کی انفرادیت اپنے ضمیر میں کبھی مر سکتی ہے نہ غائب ہو سکتی ہے جیسے کہ جان ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں لافانی ہیں۔ اگر انسان اب موت پر ایمان رکھتا ہے، تو تب اْسے اِس پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ موت میں کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ ہستی کی سچائی موت سے مبرا ہے۔اس سے قبل کی زندگی کو سمجھا اور ہم آہنگی کو حاصل کیا جا سکے، اس یقین پر سائنس کی بدولت مہارت حاصل ہونی چاہئے کہ وجودیت مادے کا عارضی حصہ ہے۔

13. 427 : 2-12

Life is the law of Soul, even the law of the spirit of Truth, and Soul is never without its representative. Man's individual being can no more die nor disappear in unconsciousness than can Soul, for both are immortal. If man believes in death now, he must disbelieve in it when learning that there is no reality in death, since the truth of being is deathless. The belief that existence is contingent on matter must be met and mastered by Science, before Life can be understood and harmony obtained.

14 . ۔ 9: 17۔24

”تو اپنے سارے دل، اپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔“ اس حکم میں بہت کچھ شامل ہے، حتیٰ کہ محض مادی احساس، افسوس اور عبادت۔ یہ مسیحت کا ایلڈوراڈو ہے۔ اس میں زندگی کی سائنس شامل ہے اور یہ روح پر الٰہی قابو کی شناخت کرتی ہے، جس میں ہماری روح ہماری مالک بن جاتی ہے اور مادی حس اور انسانی رضا کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔

14. 9 : 17-24

Dost thou "love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy mind"? This command includes much, even the surrender of all merely material sensation, affection, and worship. This is the El Dorado of Christianity. It involves the Science of Life, and recognizes only the divine control of Spirit, in which Soul is our master, and material sense and human will have no place.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████