اتوار 23 نو مبر ، 2025



مضمون۔ جان اور جسم

SubjectSoul And Body

سنہری متن: رومیوں 12 باب 1 آیت

پس اے بھائیو۔ مَیں خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔



Golden Text: Romans 12 : 1

I beseech you therefore, brethren, by the mercies of God, that ye present your bodies a living sacrifice, holy, acceptable unto God, which is your reasonable service.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: یرمیاہ 31 باب 10 تا 14 آیات


10۔ اے قومو! خداوند کا کلام سنو اور دور کے جزیروں میں منادی کرو اور کہو کہ جس نے اسرائیل کو تتر بتر کیا وہی اْسے جمع کرے گا اور اْس کی ایسی نگہبانی کرے گا جیسی گڈریا اپنے گلے کی۔

11۔ کیونکہ خداوند نے یعقوب کا فدیہ دیا ہے اور اْسے اْس کے ہاتھ سے جو اْس سے زور آور تھا رہائی بخشی ہے۔

12۔ پس وہ آئیں گے اور صیہون کی چوٹی پر گائیں گے اور خداوند کی نعمتوں یعنی اناج اور مے اور تیل اور گائے بیل کے اور بھیڑ بکری کے بچوں کی طرف اکٹھے رواں ہوں گے اور اْن کی جان سیراب باغ کی مانند ہوگی اور وہ پھر کبھی غمزدہ نہ ہوں گے۔

13۔ اْس وقت کنواریاں اور پیر و جوان خوشی سے رقص کریں گے کیونکہ مَیں اْن کے غم کو خوشی سے بدل دوں گا اور اْن کو تسلی دے کر غم کے بعد شادمان کروں گا۔

14۔ اور مَیں کاہنوں کی جان کو چکنائی سے سیر کروں گا اور میرے لوگ میری نعمتوں سے آسودہ ہوں گے خداوند فرماتا ہے۔

Responsive Reading: Jeremiah 31 : 10-14

10.     Hear the word of the Lord, O ye nations, and declare it in the isles afar off, and say, He that scattered Israel will gather him, and keep him, as a shepherd doth his flock.

11.     For the Lord hath redeemed Jacob, and ransomed him from the hand of him that was stronger than he.

12.     Therefore they shall come and sing in the height of Zion, and shall flow together to the goodness of the Lord, for wheat, and for wine, and for oil, and for the young of the flock and of the herd: and their soul shall be as a watered garden; and they shall not sorrow any more at all.

13.     For I will turn their mourning into joy, and will comfort them, and make them rejoice from their sorrow.

14.     And I will satiate the soul of the priests with fatness, and my people shall be satisfied with my goodness, saith the Lord.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 107 1 تا 9 آیات

1۔ خداوند کا شکر کرو کیونکہ وہ بھلا ہے اور اْس کی شفقت ابدی ہے۔

2۔ خدا وند کے چھْڑائے ہوئے یہی کہیں۔ جن کو اْس نے فدیہ دے کر مخالف کے ہاتھ سے چھْڑا لیا۔

3۔ اور اْن کو ملک ملک سے جمع کیا۔ پورب سے پچھم سے۔ اْتر سے اور دکھن سے۔

4۔ وہ بیابان میں صحرا کے راستے پر بھٹکتے پھرے۔ اْن کو بسنے کے لئے کوئی شہر نہ ملا۔

5۔ وہ بھوکے اور پیاسے تھے اور اْن کا دل بیٹھا جاتا تھا۔

6۔ تب اپنی مصیبت میں اْنہوں نے فریاد کی۔ اور اْس نے اْن کو اْن کے دکھوں سے رہائی بخشی۔

7۔ وہ اْن کو سیدھی راہ سے لے گیا تاکہ بسنے کے لئے کسی شہر میں جا پہنچیں۔

8۔ کاش کہ لوگ خداوند کی شفقت کی خاطر اور بنی آدم کے لئے اْس کے عجائب کی خاطر اْس کی ستائش کرتے۔

9۔ کیونکہ وہ ترستی جان کو سیر کرتا ہے۔ اور بھوکی جان کو نعمتوں سے مالامال کرتا ہے۔

1. Psalm 107 : 1-9

1     O give thanks unto the Lord, for he is good: for his mercy endureth for ever.

2     Let the redeemed of the Lord say so, whom he hath redeemed from the hand of the enemy;

3     And gathered them out of the lands, from the east, and from the west, from the north, and from the south.

4     They wandered in the wilderness in a solitary way; they found no city to dwell in.

5     Hungry and thirsty, their soul fainted in them.

6     Then they cried unto the Lord in their trouble, and he delivered them out of their distresses.

7     And he led them forth by the right way, that they might go to a city of habitation.

8     Oh that men would praise the Lord for his goodness, and for his wonderful works to the children of men!

9     For he satisfieth the longing soul, and filleth the hungry soul with goodness.

2 . ۔ متی 12 باب 1 (تا؛) 22 تا 29 آیات

1۔ اْس وقت یسوع سبت کے دن کھیتوں میں ہو کر گیا؛

22۔اْس وقت لوگ اْس کے پاس ایک اندھے گونگے کو لائے جس میں بد روح تھی۔ اْس نے اْسے اچھا کر دیا، چنانچہ وہ گونگاہ بولنے اور دیکھنے لگا۔

23۔ اور ساری بھیڑ حیران ہو کر کہنے لگی کیا یہ ابنِ داؤد ہے؟

24۔ فریسیوں نے سْن کر کہا کیا یہ بدوحوں کے سردار بعلزبول کی مدد کے بغیر بدروحوں کو نہیں نکالتا۔

25۔ اْس نے اْن کے خیالوں کو جان کراْن سے کہا جس بادشاہی میں پھوٹ پڑتی ہے وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس شہر یا گھر میں پھوٹ پڑے گی وہ قائم نہ رہے گا۔

26۔ اور اگر شیطان ہی نے شیطان کو نکالا تو وہ آپ اپنا مخالف ہو گیا۔ پھر اْس کی بادشاہی کیونکر قائم رہے گی؟

27۔ اور اگر میں بعلزبول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو تمہارے بیٹے کس کی مدد سے نکالتے ہیں؟ پس وہی تمہارے مْنصف ہوں گے۔

28۔ لیکن اگر میں خدا کی روح کی مدد سے روحیں نکالتا ہوں تو خدا کی بادشای تمہارے پاس آ پہنچی۔

29۔ یا کیونکہ کوئی آدمی کسی زور آور کے گھر میں گھْس کر اْس کا اسباب لوٹ سکتا ہے جب تک کہ پہلے اْس زور آور کو نہ باندھ لے؟ پھر وہ اْس کا گھر لْوٹے گا۔

2. Matthew 12 : 1 (to ;), 22-29

1     At that time Jesus went on the sabbath day through the corn;

22     Then was brought unto him one possessed with a devil, blind, and dumb: and he healed him, insomuch that the blind and dumb both spake and saw.

23     And all the people were amazed, and said, Is not this the son of David?

24     But when the Pharisees heard it, they said, This fellow doth not cast out devils, but by Beelzebub the prince of the devils.

25     And Jesus knew their thoughts, and said unto them, Every kingdom divided against itself is brought to desolation; and every city or house divided against itself shall not stand:

26     And if Satan cast out Satan, he is divided against himself; how shall then his kingdom stand?

27     And if I by Beelzebub cast out devils, by whom do your children cast them out? therefore they shall be your judges.

28     But if I cast out devils by the Spirit of God, then the kingdom of God is come unto you.

29     Or else how can one enter into a strong man’s house, and spoil his goods, except he first bind the strong man? and then he will spoil his house.

3 . ۔ متی 16 باب 12 تا 19، 24 تا 27 آیات

12۔ تب اْن کی سمجھ میں آیا کہ اْس نے روٹی کے خمیر سے نہیں بلکہ فریسیوں اور صدوقیوں کی تعلیم سے خبردار رہنے کو کہا۔

13۔ جب یسوع قیصریہ فلپی کے علاقے میں آیا تو اْس نے اپنے شاگردوں سے یہ پوچھا کہ لوگ ابن آدم کو کیا کہتے ہیں؟

14۔ اْنہوں نے کہا بعض یوحنا بپتسمہ دینے والا کہتے ہیں بعض ایلیاہ بعض یرمیاہ بعض نبیوں میں سے کوئی۔

15۔ اْس نے اْن سے کہا مگر تم مجھے کیا کہتے ہو؟

16۔ شمعون پطرس نے جواب میں کہا تْو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔

17۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا مبارک ہے تْو شمعون بر یوناہ کیونکہ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے۔

18۔ اور مَیں تجھ سے کہتا ہوں کہ تْو پتھر ہے اور مَیں اِس پتھر پر اپنی کلیسیا بناؤں گا اور عالمِ ارواح کے دروازے اْس پر غالب نہ آئیں گے۔

19۔میں آسمان کی بادشاہی کی کنجیاں تجھے دوں گا جو کچھ تو زمین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھے گا اور جو کچھ تو زمین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھلے گا۔

24۔اُس وقت یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر کوئی میرے پِیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔

25۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا اسے پائے گا۔

26۔اور اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اٹھائے تو اسے کیا فائدہ ہوگا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے گا؟

27۔ کیونکہ ابن آدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئے گا۔ اُس وقت ہر ایک کو اُس کے کاموں کے مطابق بدلہ دے گا۔

3. Matthew 16 : 12-19, 24-27

12     Then understood they how that he bade them not beware of the leaven of bread, but of the doctrine of the Pharisees and of the Sadducees.

13     When Jesus came into the coasts of Cæsarea Philippi, he asked his disciples, saying, Whom do men say that I the Son of man am?

14     And they said, Some say that thou art John the Baptist: some, Elias; and others, Jeremias, or one of the prophets.

15     He saith unto them, But whom say ye that I am?

16     And Simon Peter answered and said, Thou art the Christ, the Son of the living God.

17     And Jesus answered and said unto him, Blessed art thou, Simon Bar-jona: for flesh and blood hath not revealed it unto thee, but my Father which is in heaven.

18     And I say also unto thee, That thou art Peter, and upon this rock I will build my church; and the gates of hell shall not prevail against it.

19     And I will give unto thee the keys of the kingdom of heaven: and whatsoever thou shalt bind on earth shall be bound in heaven: and whatsoever thou shalt loose on earth shall be loosed in heaven.

24     Then said Jesus unto his disciples, If any man will come after me, let him deny himself, and take up his cross, and follow me.

25     For whosoever will save his life shall lose it: and whosoever will lose his life for my sake shall find it.

26     For what is a man profited, if he shall gain the whole world, and lose his own soul? or what shall a man give in exchange for his soul?

27     For the Son of man shall come in the glory of his Father with his angels; and then he shall reward every man according to his works.

4 . ۔ متی 6 باب 19 تا 21، 24، 25، 33 آیات

19۔ اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگا کر چراتے ہیں۔

20۔ بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔

21۔ کیونکہ جہاں تیرا مال ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا۔

24۔ کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت، یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیزجانے گا۔تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔

25۔اِس لئے مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کیا پہنیں گے؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟

33۔ بلکہ تم پہلے اْس کی بادشاہی اور اْس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔

4. Matthew 6 : 19-21, 24, 25, 33

19     Lay not up for yourselves treasures upon earth, where moth and rust doth corrupt, and where thieves break through and steal:

20     But lay up for yourselves treasures in heaven, where neither moth nor rust doth corrupt, and where thieves do not break through nor steal:

21     For where your treasure is, there will your heart be also.

24     No man can serve two masters: for either he will hate the one, and love the other; or else he will hold to the one, and despise the other. Ye cannot serve God and mammon.

25     Therefore I say unto you, Take no thought for your life, what ye shall eat, or what ye shall drink; nor yet for your body, what ye shall put on. Is not the life more than meat, and the body than raiment?

33     But seek ye first the kingdom of God, and his righteousness; and all these things shall be added unto you.

5 . ۔ 2 کرنتھیوں 5 باب 1 تا 9 آیات

1۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب ہمارا خیمہ کا گھر جو زمین پر ہے گرایا جائے گا تو ہم کو خدا کی طرف سے آسمان پر ایک ایسی عمارت ملے گی جو ہاتھ کا بنا ہوا گھر نہیں بلکہ ابدی ہے۔

2۔ چنانچہ ہم اس میں کراہتے ہیں اور بڑی آرزو رکھتے ہیں کہ اپنے آسمانی گھر سے ملبس ہو جائیں۔

3۔ تاکہ ملبس ہونے کے باعث ننگے نہ پائے جائیں۔

4۔ کیونکہ ہم اس خیمہ میں رہ کر بوجھ کے مارے کراہتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ یہ لباس اتارنا چاہتے ہیں بلکہ اس پر اور پہننا چاہتے ہیں تاکہ وہ جو فانی ہے زندگی میں غرق ہو جائے۔

5۔ اور جس نے ہم کو اِس بات کے لئے تیار کیا وہ خدا ہے اور اسی نے ہمیں روح بیعانہ میں دیا۔

6۔ پس ہمیشہ ہماری خاطر جمع رہتی ہے اور یہ جانتے ہیں کہ جب تک ہم بدن کے وطن میں ہیں خداوند کے ہاں سے جلاوطن ہیں۔

7۔ (کیونکہ ہم ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔)

8۔ غرض ہماری خاطر جمع ہے اور ہم کو بدن کے وطن سے جدا ہوکر خداوند کے وطن میں رہنا زیادہ منظور ہے۔

9۔ اِسی واسطے ہم یہ حوصلہ رکھتے ہیں کہ وطن میں ہوں خواہ جلاوطن اْس کو خوش کریں۔

5. II Corinthians 5 : 1-9

1     For we know that if our earthly house of this tabernacle were dissolved, we have a building of God, an house not made with hands, eternal in the heavens.

2     For in this we groan, earnestly desiring to be clothed upon with our house which is from heaven:

3     If so be that being clothed we shall not be found naked.

4     For we that are in this tabernacle do groan, being burdened: not for that we would be unclothed, but clothed upon, that mortality might be swallowed up of life.

5     Now he that hath wrought us for the selfsame thing is God, who also hath given unto us the earnest of the Spirit.

6     Therefore we are always confident, knowing that, whilst we are at home in the body, we are absent from the Lord:

7     (For we walk by faith, not by sight:)

8     We are confident, I say, and willing rather to be absent from the body, and to be present with the Lord.

9     Wherefore we labour, that, whether present or absent, we may be accepted of him.

6 . ۔ رومیوں 12باب 2 آیت

2۔ اور اِس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہوجانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے جاؤ۔

6. Romans 12 : 2

2     And be not conformed to this world: but be ye transformed by the renewing of your mind, that ye may prove what is that good, and acceptable, and perfect, will of God.



سائنس اور صح


1 . ۔ 466: 20۔ 21

جان یا روح خدا کے علاوہ کسی کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔ نہ کوئی محدود جان ہے نہ روح ہے۔

1. 466 : 20-21

Soul or Spirit signifies Deity and nothing else. There is no finite soul nor spirit.

2 . ۔ 310: 14 (سائنس)۔ 20

سائنس روح کو بطور خدا، گناہ اور موت سے مبرا، بطور زندگی اور ذہانت ظاہر کرتی ہے جس کے گرد ہم آہنگی کے ساتھ عقل کے نظام میں ساری چیزیں گردش کرتی ہے۔

روح بدلتی نہیں۔عموماً ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ ایک انسانی جان ہوتی ہے جو گناہ کرتی ہے اور روحانی طور پر گم ہوجاتی ہے، وہ جان کھو سکتی ہے اور پھر بھی لافانی ہو سکتی ہے۔

2. 310 : 14 (Science)-20

Science reveals Soul as God, untouched by sin and death, — as the central Life and intelligence around which circle harmoniously all things in the systems of Mind.

Soul changeth not. We are commonly taught that there is a human soul which sins and is spiritually lost, — that soul may be lost, and yet be immortal.

3 . ۔ 477: 6۔ 8، 2۔ 19

جان کے لئے انسان مادی رہائش نہیں ہے؛ وہ خود روحانی ہے۔جان یعنی روح ہونا، نا مکمل یا مادی میں سے کسی میں دکھائی نہیں دیتا ہے۔

سوال: بدن اور جان کیا ہیں؟

جواب: شناخت روح کا عکس ہے، وہ عکس جو الٰہی اصول، یعنی محبت کی متعدد صورتوں میں پایا جاتا ہے۔ جان مادہ، زندگی، انسان کی ذہانت ہے، جس کی انفرادیت ہوتی ہے لیکن مادے میں نہیں۔ جان روح سے کمتر کسی چیز کی عکاسی کبھی نہیں کر سکتی۔

انسان روح کا اظہار۔بھارتیوں نے بنیادی حقیقت کی چند جھلکیاں پکڑی ہیں، جب انہوں نے ایک خوبصورت جھیل کو ”عظیم روح کی مسکراہٹ“ کا نام دیا۔ انسان سے جْدا، جو جان کو ظاہر کرتا ہے، روح غیر دیوتائی ہوگی؛ انسان، جو روح سے دریافت شدہ ہے، اپنی الوہیت کھو دے گا۔لیکن یہاں ایسی کوئی تقسیم نہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے، کیونکہ انسان خدا کے ساتھ باہم وجود رکھتا ہے۔

3. 477 : 6-8, 19-2

Man is not a material habitation for Soul; he is himself spiritual. Soul, being Spirit, is seen in nothing imperfect nor material.

Question. — What are body and Soul?

Answer. — Identity is the reflection of Spirit, the reflection in multifarious forms of the living Principle, Love. Soul is the substance, Life, and intelligence of man, which is individualized, but not in matter. Soul can never reflect anything inferior to Spirit.

Man is the expression of Soul. The Indians caught some glimpses of the underlying reality, when they called a certain beautiful lake "the smile of the Great Spirit." Separated from man, who expresses Soul, Spirit would be a nonentity; man, divorced from Spirit, would lose his entity. But there is, there can be, no such division, for man is coexistent with God.

4 . ۔ 467: 17۔ 28 (تا دوسری)

سائنس جان، روح کو بدن میں غیر موجود ظاہر کرتی ہے، اور خدا کو انسان میں نہیں بلکہ انسان کے وسیلہ منعکس ظاہر کرتی ہے۔عظیم ترین کم ترین نہیں ہو سکتا۔یہ عقیدہ کہ عظیم ترین کم ترین میں ہو سکتا ہے ایک غلطی ہے جو ناکام ہو جاتی ہے۔جان کی سائنس میں یہ ایک نمایاں نقطہ ہے کہ اصول اْس کے خیال میں نہیں ہوتا۔روح، جان انسان میں محدود نہیں ہیں، اور مادے میں کبھی نہیں ہوتی۔ جب ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مادہ روح کا اثر ہے، تو ہم اثر سے وجہ تک کا نامکمل تجزیہ کرتے ہیں؛ مگر ایک ترجیحی تجزیہ مادی وجود کو خفیہ طور سے ظاہرکرتا ہے۔ روح حقیقی ذہنی تصور دیتی ہے۔ ہم مادے کے ذریعے روح، عقل کی تشریح نہیں کرسکتے۔ مادہ نہ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے اور نہ محسوس کرتا۔

4. 467 : 17-28 (to 2nd .)

Science reveals Spirit, Soul, as not in the body, and God as not in man but as reflected by man. The greater cannot be in the lesser. The belief that the greater can be in the lesser is an error that works ill. This is a leading point in the Science of Soul, that Principle is not in its idea. Spirit, Soul, is not confined in man, and is never in matter. We reason imperfectly from effect to cause, when we conclude that matter is the effect of Spirit; but a priori reasoning shows material existence to be enigmatical. Spirit gives the true mental idea. We cannot interpret Spirit, Mind, through matter. Matter neither sees, hears, nor feels.

5 . ۔ 204: 6۔ (عقیدہ) 30

یہ عقیدہ کہ خدا مادے میں رہتا ہے شِرک ہے۔ وہ غلطی جو کہتی ہے کہ روح بدن میں ہے، عقل مادے میں ہے، اور اچھائی بدی میں ہے اْسے اپنے یہ الفاظ واپس لینے چاہئیں اور ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے؛ وگرنہ خدا انسانیت سے پوشیدہ رہنا جاری رکھے گا اور بشر یہ جانے بغیر کہ وہ گناہ کر رہے ہیں گناہ کرتے رہیں گے، روح کی بجائے مادے کی طرف رجوح کریں گے، لنگڑے پن سے لڑکھڑائیں گے، نشے میں گریں گے، بیماری سے فنا ہوں گے، یہ سب اْن کے اندھے پن، خدا اور انسان سے متعلق اْن کے جھوٹے فہم کے سبب ہوگا۔

5. 204 : 30 (The belief)-6

The belief that God lives in matter is pantheistic. The error, which says that Soul is in body, Mind is in matter, and good is in evil, must unsay it and cease from such utterances; else God will continue to be hidden from humanity, and mortals will sin without knowing that they are sinning, will lean on matter instead of Spirit, stumble with lameness, drop with drunkenness, consume with disease, — all because of their blindness, their false sense concerning God and man.

6 . ۔ 207: 15۔ 18

بدن پہلے اور روح آخر میں نہیں ہے؛ نہ ہی بدی اچھائی سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہستی کی سائنس خود عیاں ناممکنات کا انکار کرتی ہے؛ جیسے کہ وجہ یا اثر میں غلطی اور سچائی کی آمیزش۔

6. 207 : 15-18

Body is not first and Soul last, nor is evil mightier than good. The Science of being repudiates self-evident impossibilities, such as the amalgamation of Truth and error in cause or effect.

7 . ۔ 265: 3۔ 15

جیسے جیسے سچائی اور محبت کی دولت وسعت پاتے ہیں انسان اسی تناسب سے روحانی وجودیت کو سمجھتا ہے۔ بشر کو خدا کی جانب راغب ہونا چاہئے، تو اْن کے مقاصد اور احساسات روحانی ہوں گے، انہیں ہستی کی تشریحات کو وسعت کے قریب تر لانا چاہئے، اور لامتناہی کا مناسب ادراک پانا چاہئے، تاکہ گناہ اور فانیت کو ختم کیا جا سکے۔

ہستی کا یہ سائنسی فہم، روح کے لئے مادے کو ترک کرتے ہوئے، کسی وسیلہ کے بغیر الوہیت میں انسان کے سوکھے پن اوراْس کی شناخت کی گمشْدگی کی تجویز دیتا ہے، لیکن انسان پر ایک وسیع تر انفرادیت نچھاور کرتا ہے،یعنی اعمال اور خیالات کا ایک بڑا دائرہ، وسیع محبت اور ایک بلند اورمزید مستقل امن عطا کرتا ہے۔

7. 265 : 3-15

Man understands spiritual existence in proportion as his treasures of Truth and Love are enlarged. Mortals must gravitate Godward, their affections and aims grow spiritual, — they must near the broader interpretations of being, and gain some proper sense of the infinite, — in order that sin and mortality may be put off.

This scientific sense of being, forsaking matter for Spirit, by no means suggests man's absorption into Deity and the loss of his identity, but confers upon man enlarged individuality, a wider sphere of thought and action, a more expansive love, a higher and more permanent peace.

8 . ۔ 280: 4۔ 30

انسانی خیالات پر غور کرنے اور ہستی کی سائنس کو رد کرنے کا صرف ایک عْذر روح سے متعلق ہماری لا علمی ہے، وہ لاعلمی جو صرف الٰہی سائنس کے ادراک کو تسلیم کرتی ہے، ایسا ادراک جس کے وسیلہ ہم زمین پر سچائی کی بادشاہت میں داخل ہوتے ہیں اور یہ سیکھتے ہیں کہ روح لامحدود اور نہایت اعلیٰ ہے۔

8. 280 : 30-4

The only excuse for entertaining human opinions and rejecting the Science of being is our mortal ignorance of Spirit, — ignorance which yields only to the understanding of divine Science, the understanding by which we enter into the kingdom of Truth on earth and learn that Spirit is infinite and supreme.

9 . ۔ 530: 5۔ 12

الٰہی سائنس میں، انسان خدایعنی ہستی کے الٰہی اصول کے وسیلہ قائم رہتا ہے۔ زمین، خدا کے حکم پر، انسان کے استعمال کے لئے خوراک پیدا کرتی ہے۔یہ جانتے ہوئے، یسوع نے ایک بار کہا، ”اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے اور پئیں گے،“اپنے خالق کا استحقاق فرض کرتے ہوئے نہیں بلکہ خدا جو سب کا با پ اور ماں ہے، اْسے سمجھتے ہوئے کہ وہ ایسے ہی انسان کو خوراک اور لباس فراہم کرنے کے قابل ہے جیسے وہ سوسن کے پھولوں کو کرتا ہے۔

9. 530 : 5-12

In divine Science, man is sustained by God, the divine Principle of being. The earth, at God's command, brings forth food for man's use. Knowing this, Jesus once said, "Take no thought for your life, what ye shall eat, or what ye shall drink," — presuming not on the prerogative of his creator, but recognizing God, the Father and Mother of all, as able to feed and clothe man as He doth the lilies.

10 . ۔ 359: 11۔ 17

اگرچہ آپ وثوق سے یہ بات بیان کرتے ہیں کہ مادی حواس انسان کے وجود یا ہستی کے لئے ناگزیر ہیں، تو آپ کو زندگی سے متعلق انسانی خیال کو تبدیل کرنا چاہئے اور خود کو روحانی اور سائنسی طور پر جاننا چاہئے۔ روح اور جان کی وجودیت کا ثبوت صرف روحانی فہم پر واضح ہوتا ہے، اور اْن مادی حواس پر ظاہر نہیں ہوتا جو صرف اْسی چیز کا ادراک رکھتے ہیں جو روح کے مخالف ہوتی ہے۔

10. 359 : 11-17

Even though you aver that the material senses are indispensable to man's existence or entity, you must change the human concept of life, and must at length know yourself spiritually and scientifically. The evidence of the existence of Spirit, Soul, is palpable only to spiritual sense, and is not apparent to the material senses, which cognize only that which is the opposite of Spirit.

11 . ۔ 399: 8۔ 29

ہمارے مالک نے کہا: ”کسی زور آور شخص کے گھر میں کوئی کیسے گھْس کر اْسے لوٹ سکتا ہے جب تک کہ پہلے اْس کے ہاتھ نہ باندھ لے؟“ دوسرے الفاظ میں: میں جسم کو کیسے شفا دے سکتا ہوں، بغیرنام نہاد عقل سے شروع کئے، جو براہِ راست جسم کو کنٹرول کرتا ہے؟ جب ایک بار بیماری اِس نام نہاد عقل میں نیست کر دی جاتی ہے، تو بیماری کا خوف دور ہو جاتا ہے، اور اِسی لئے بیماری کا علاج بھی مکمل طور پرہو جاتا ہے۔ فانی بشر ”زور آور آدمی“ ہے، جسے تابع رہنا چاہئے اِس سے قبل کہ اِس کا اثر صحت اور اخلاقیات پر سے ختم کیا جائے۔اِس غلطی کو فتح کرنے سے، ہم ”زور آور آدمی“ کی چیزوں، یعنی گناہ اور بیماری کو لْوٹ سکتے ہیں۔

11. 399 : 29-8

Our Master asked: "How can one enter into a strong man's house and spoil his goods, except he first bind the strong man?" In other words: How can I heal the body, without beginning with so-called mortal mind, which directly controls the body? When disease is once destroyed in this so-called mind, the fear of disease is gone, and therefore the disease is thoroughly cured. Mortal mind is "the strong man," which must be held in subjection before its influence upon health and morals can be removed. This error conquered, we can despoil "the strong man" of his goods, — namely, of sin and disease.

12 . ۔ 30: 26۔ 30

اگر ہم نے روح کو پورا اختیار سنبھالنے کی اجازت دینے کے لئے مادی فہم کی غلطیوں پر مناسب طور سے فتح پا لی ہے تو ہم گناہ سے نفرت کریں گے اور اِسے ہر صورت میں رد کریں گے۔صرف اسی طرح سے ہم ہمارے دشمنوں کے لئے برکت چاہ سکتے ہیں، اگرچہ ہوسکتا ہے وہ ہمارے الفاظ کو نہ سمجھیں۔

12. 30 : 26-30

If we have triumphed sufficiently over the errors of material sense to allow Soul to hold the control, we shall loathe sin and rebuke it under every mask. Only in this way can we bless our enemies, though they may not so construe our words.

13 . ۔ 302: 19۔ 24

ہستی کی سائنس انسان کو کامل ظاہر کرتی ہے، حتیٰ کہ جیسا کہ باپ کامل ہے، کیونکہ روحانی انسان کی جان یا عقل خدا ہے، جو تمام تر مخلوقات کا الٰہی اصول ہے، اور یہ اس لئے کہ اس حقیقی انسان پر فہم کی بجائے روح کی حکمرانی ہوتی ہے، یعنی شریعت کی روح کی، نہ کہ نام نہاد مادے کے قوانین کی۔

13. 302 : 19-24

The Science of being reveals man as perfect, even as the Father is perfect, because the Soul, or Mind, of the spiritual man is God, the divine Principle of all being, and because this real man is governed by Soul instead of sense, by the law of Spirit, not by the so-called laws of matter.

14 . ۔ 590: 1۔ 3

آسمان کی بادشاہی۔ الٰہی سائنس میں ہم آہنگی کی سلطنت؛ غلطی نہ کرنے والے کی ریاست، ابدی اور قادر مطلق عقل، روح کا ماحول، جہاں جان اعلیٰ ہے۔

14. 590 : 1-3

Kingdom of Heaven. The reign of harmony in divine Science; the realm of unerring, eternal, and omnipotent Mind; the atmosphere of Spirit, where Soul is supreme.

15 . ۔ 9: 17۔ 24

”تو اپنے سارے دل، اپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔“ اس حکم میں بہت کچھ شامل ہے، حتیٰ کہ محض مادی احساس، افسوس اور عبادت۔ یہ مسیحت کا ایلڈوراڈو ہے۔ اس میں زندگی کی سائنس شامل ہے اور یہ روح پر الٰہی قابو کی شناخت کرتی ہے، جس میں ہماری روح ہماری مالک بن جاتی ہے اور مادی حس اور انسانی رضا کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔

15. 9 : 17-24

Dost thou "love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy mind"? This command includes much, even the surrender of all merely material sensation, affection, and worship. This is the El Dorado of Christianity. It involves the Science of Life, and recognizes only the divine control of Spirit, in which Soul is our master, and material sense and human will have no place.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔