اتوار 24 اگست ، 2025
لیکن حکمت کہاں ملے گی؟ اور خرد کی جگہ کہاں ہے؟ اور اْس نے انسان سے کہا دیکھ خداوند کا خوف ہی حکمت ہے اور بدی سے دور رہنا خرد ہے۔
“Where shall wisdom be found? and where is the place of understanding? Behold, the fear of the Lord, that is wisdom; and to depart from evil is understanding.”
5۔ سارے دل سے خداوند پر توکل کراور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔
6۔ اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔
7۔ تو اپنی ہی نگاہ میں دانشمندنہ بن۔خداوند سے ڈر اور بدی سے کنارہ کر۔
8۔ یہ تیری ناف کی صحت اور تیری ہڈیوں کی تازگی ہو گی۔
11۔اے میرے بیٹے!خداوند کی تنبیہ کو حقیر نہ جان اور اْس کی ملامت سے بیزار نہ ہو۔
12۔ کیونکہ خداوند اْسی کو ملامت کرتا ہے جس سے اْسے محبت ہے۔ جیسے باپ اْس بیٹے کو جس سے وہ خوش ہے۔
5. Trust in the Lord with all thine heart; and lean not unto thine own understanding.
6. In all thy ways acknowledge him, and he shall direct thy paths.
7. Be not wise in thine own eyes: fear the Lord, and depart from evil.
8. It shall be health to thy navel, and marrow to thy bones.
11. My son, despise not the chastening of the Lord; neither be weary of his correction:
12. For whom the Lord loveth he correcteth; even as a father the son in whom he delighteth.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
4۔ سْن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔
5۔ تْو اپنے سار ے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔
4 Hear, O Israel: The Lord our God is one Lord:
5 And thou shalt love the Lord thy God with all thine heart, and with all thy soul, and with all thy might.
6۔ خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔
7۔ پس خدا کے تابع ہو جاؤ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا۔
8۔ خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔ اے گناہگارو! اپنے ہاتھوں کو صاف کرو اور اے دو دلو! اپنے دلوں کو پاک کرو۔
10۔ خداوند کے سامنے فروتنی کرو۔ وہ تمہیں سر بلند کرے گا۔
6 God resisteth the proud, but giveth grace unto the humble.
7 Submit yourselves therefore to God. Resist the devil, and he will flee from you.
8 Draw nigh to God, and he will draw nigh to you. Cleanse your hands, ye sinners; and purify your hearts, ye double minded.
10 Humble yourselves in the sight of the Lord, and he shall lift you up.
4۔ مَیں نبو کد نضر اپنے گھر میں مطمئن اور اپنے قصر میں کامران تھا۔
5۔ مَیں نے ایک خواب دیکھا جس سے مَیں ہراساں ہوگیا۔
7۔ چنانچہ ساحر اور نجومی اور کسدی اور فال گیر حاضر ہوئے اور مَیں نے اْن سے اپنے خواب کا بیان کیا پر اْنہوں نے اْس کی تعبیر مجھ سے بیان نہ کی۔
8۔ آخر کار دانی ایل میرے سامنے آیا۔۔۔مَیں نے اْس کے روبرو خواب کا بیان کیا۔
19۔ تب دانی ایل نے۔۔۔جواب دیا اور کہا۔
20۔ وہ درخت جو تْو نے دیکھا۔۔۔
22۔ اے بادشاہ وہ تْو ہی ہے جو بڑھا اور مضبوط ہوا کیونکہ تیری بزرگی بڑھی اور آسمان تک پہنچی اور تیری سلطنت زمین کی انتہا تک۔
23۔ اور جو بادشاہ نے دیکھا کہ ایک نگہبان ہاں ایک قدوسی آسمان سے اْترا اور کہنے لگا کہ درخت کو کاٹ ڈالو اور اْسے برباد کرو۔
24۔ اے بادشاہ اِس کی تعبیر اور حق تعالیٰ کا وہ حکم جو بادشاہ میرے خداوند کے حق میں ہوا ہے یہی ہے۔
25۔ کہ تجھے آدمیوں میں سے نکال کر ہانک دیں گے اور تْو میدان کے حیوانوں کے ساتھ رہے گا اور تْو بیل کی طرح گھاس کھائے گا اور آسمان کی شبنم سے تر ہوگا اور تجھ پر سات دور گزر جائیں گے۔ تب تجھ کو معلوم ہوگا کہ حق تعالیٰ انسانی مملکت میں حکمرانی کرتا ہے اور اْسے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔
26۔ اور یہ جو اْنہوں نے حکم کیا کہ درخت کی جڑوں کے کْندہ کو باقی رہنے دو اْس کا مطلب یہ ہے کہ جب تْو معلو م کر چکے گا کہ بادشاہی کا اقتدار آسمان کی طرف سے ہے تو تْو اپنی سلطنت پر پھر قائم ہو جائے گا۔
27۔ اِس لئے اے بادشاہ تیرے حضور میری صلاح قبول ہو اور تْو اپنی خطاؤں کو صداقت سے اور اپنی بد کرداری کو مسکینوں پر رحم کرنے سے دور کر۔ ممکن ہے کہ اِس سے تیرا اطمینان زیادہ ہو۔
29۔ ایک سال کے بعد وہ بابل کے شاہی محل میں ٹہل رہا تھا۔
30۔ بادشاہ نے فرمایا کہ یہ بابل اعظم نہیں جس کو مَیں نے اپنی توانائی کی قدرت سے تعمیر کیا ہے کہ دارالسلطنت اور میرے جاہ و جلال کا نمونہ ہو؟
31۔ بادشاہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ آسمان سے آواز آئی کہ اے نبوکد نضر بادشاہ تیرے حوالے میں یہ فتویٰ ہے کہ سلطنت تجھ سے جاتی رہی۔
33۔ اْسی وقت نبوکد نضر بادشاہ پر یہ بات پوری ہوئی اور وہ آدمیوں میں سے نکالا گیا اور بیلوں کی طرح گھاس کھاتا رہا اور اْس کا بدن آسمان کی شبنم سے تر ہوا یہاں تک کہ اْس کے بال عقاب کے پروں کی مانند اور اْس کے ناخن پرندوں کے چْنگل کی مانند بڑھ گئے۔
34۔ اور اِن ایام کے گزرنے کے بعد میں نبو کد نضر نے آسمان کی طرف آنکھیں اْٹھائیں اور میری عقل مجھ میں پھر آئی اور مَیں نے حق تعالیٰ کا شکر کیا اور اْس حی القیوم کی حمد و ثنا کی جس کی سلطنت ابدی اور جس کی مملکت پشت در پشت ہے۔
35۔ اور زمین کے تمام باشندے ناچیز گنے جاتے ہیں اور وہ آسمانی لشکر اور اہلِ زمین کے ساتھ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اْس کا ہاتھ روک سکے یا اْس سے کہے کہ تْو کیا کرتا ہے؟
36۔ اْسی وقت میری عقل مجھ میں آئی اور میری سلطنت کی شوکت کے لئے میرا رعب اور دبدبہ پھر بحال ہوگیا اور میرے مشیروں اور امیروں نے مجھے پھر ڈھونڈا اور مَیں اپنی مملکت میں قائم ہوا اور میری عظمت میں افزونی ہوئی۔
37۔ اب مَیں نبو کد نضر آسمان کے بادشاہ کی ستائش اور تکریم و تعظیم کرتا ہوں کیونکہ وہ اپنے کاموں میں راست اور اپنی سب راہوں میں عادل ہے اور جو مغروری میں چلتے ہیں اْن کو ذلیل کر سکتا ہے۔
4 I Nebuchadnezzar was at rest in mine house, and flourishing in my palace:
5 I saw a dream which made me afraid,
7 Then came in the magicians, the astrologers, the Chaldeans, and the soothsayers: and I told the dream before them; but they did not make known unto me the interpretation thereof.
8 But at the last Daniel came in before me, … and before him I told the dream,
19 Then Daniel, … answered and said,
20 The tree that thou sawest,
22 It is thou, O king, that art grown and become strong: for thy greatness is grown, and reacheth unto heaven, and thy dominion to the end of the earth.
23 And whereas the king saw a watcher and an holy one coming down from heaven, and saying, Hew the tree down, and destroy it;
24 This is the interpretation, O king, and this is the decree of the most High, which is come upon my lord the king:
25 That they shall drive thee from men, and thy dwelling shall be with the beasts of the field, and they shall make thee to eat grass as oxen, and they shall wet thee with the dew of heaven, and seven times shall pass over thee, till thou know that the most High ruleth in the kingdom of men, and giveth it to whomsoever he will.
26 And whereas they commanded to leave the stump of the tree roots; thy kingdom shall be sure unto thee, after that thou shalt have known that the heavens do rule.
27 Wherefore, O king, let my counsel be acceptable unto thee, and break off thy sins by righteousness, and thine iniquities by shewing mercy to the poor; if it may be a lengthening of thy tranquillity.
29 At the end of twelve months he walked in the palace of the kingdom of Babylon.
30 The king spake, and said, Is not this great Babylon, that I have built for the house of the kingdom by the might of my power, and for the honour of my majesty?
31 While the word was in the king’s mouth, there fell a voice from heaven, saying, O king Nebuchadnezzar, to thee it is spoken; The kingdom is departed from thee.
33 The same hour was the thing fulfilled upon Nebuchadnezzar: and he was driven from men, and did eat grass as oxen, and his body was wet with the dew of heaven,
34 And at the end of the days I Nebuchadnezzar lifted up mine eyes unto heaven, and mine understanding returned unto me, and I blessed the most High, and I praised and honoured him that liveth for ever, whose dominion is an everlasting dominion, and his kingdom is from generation to generation:
35 And all the inhabitants of the earth are reputed as nothing: and he doeth according to his will in the army of heaven, and among the inhabitants of the earth: and none can stay his hand, or say unto him, What doest thou?
36 At the same time my reason returned unto me; … and I was established in my kingdom, and excellent majesty was added unto me.
37 Now I Nebuchadnezzar praise and extol and honour the King of heaven, all whose works are truth, and his ways judgment: and those that walk in pride he is able to abase.
16۔ کیونکہ جو کچھ دنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی طرف سے ہے۔
17۔ دنیا اور اْس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔
16 For all that is in the world, the lust of the flesh, and the lust of the eyes, and the pride of life, is not of the Father, but is of the world.
17 And the world passeth away, and the lust thereof: but he that doeth the will of God abideth for ever.
17۔ اِس لئے مَیں یہ کہتا ہوں اور خداوند میں جتائے دیتا ہوں کہ جس طرح غیر قومیں اپنے بیہودہ خیالات کے موافق چلتی ہیں تم آئندہ کو اْس طرح نہ چلنا۔
18۔ کیونکہ اْن کی عقل تاریک ہوگئی ہے اور وہ اْس نادانی کے سبب سے جو اْن میں ہے اور اپنے دلوں کی سختی کے باعث خدا کی زندگی سے خارج ہیں۔
22۔ کہ تم اپنے اگلے چال چلن کی پرانی انسانیت کو اتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔
23۔ اور اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے بنتے جاؤ۔
17 This I say therefore, and testify in the Lord, that ye henceforth walk not as other Gentiles walk, in the vanity of their mind,
18 Having the understanding darkened, being alienated from the life of God through the ignorance that is in them, because of the blindness of their heart:
22 That ye put off concerning the former conversation the old man, which is corrupt according to the deceitful lusts;
23 And be renewed in the spirit of your mind;
7۔ کیونکہ خدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور تربیت کی روح دی ہے۔
7 For God hath not given us the spirit of fear; but of power, and of love, and of a sound mind.
2۔ اور اِس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہوجانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے جاؤ۔
2 And be not conformed to this world: but be ye transformed by the renewing of your mind, that ye may prove what is that good, and acceptable, and perfect, will of God.
کیونکہ خدا حاکم کْل ہے اس لئے سب کچھ لامتناہی عقل اور اْس کا لامتناہی اظہار ہے۔
All is infinite Mind and its infinite manifestation, for God is All-in-all.
۔۔۔کرسچن سائنس میں پہلا فرض خدا کی فرمانبرداری کرنا، ایک عقل رکھنا اور دوسروں کے ساتھ اپنی مانند محبت رکھنا ہے۔
…in Christian Science the first duty is to obey God, to have one Mind, and to love another as yourself.
وہ کون ہے جو ہماری تابعداری کا مطالبہ کرتا ہے؟ وہ جو، کلام کی زبان میں، ”آسمانی لشکر اور اہل زمین کے ساتھ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اْس کا ہاتھ روک سکے یا اْس سے کہے کہ تْو کیا کرتا ہے؟“
Who is it that demands our obedience? He who, in the language of Scripture, "doeth according to His will in the army of heaven, and among the inhabitants of the earth; and none can stay His hand, or say unto Him, What doest Thou?"
الٰہی عقل بجا طور پر انسان کی مکمل فرمانبرداری، پیار اور طاقت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس سے کم وفاداری کے لئے کوئی تحفظات نہیں رکھے جاتے۔ سچائی کی تابعداری انسان کو قوت اور طاقت فراہم کرتی ہے۔ غلطی کو سپردگی طاقت کی کمی کو بڑھا دیتی ہے۔
Divine Mind rightly demands man's entire obedience, affection, and strength. No reservation is made for any lesser loyalty. Obedience to Truth gives man power and strength. Submission to error superinduces loss of power.
”جو کوئی آدمیوں کے سامنے میرا انکار کرے گا مَیں بھی اپنے باپ کے سامنے جو آسمان پر ہے اْس کا انکار کروں گا۔“ کرسچن سائنس میں، سچائی سے انکار جان لیوا ہے، جبکہ سچائی کا ایک عادل اعتراف اور جو کچھ اس سچائی نے ہمارے لئے کیا ہے ایک موثر مدد ہے۔ اگر تکبر،توہم پرستی یا کوئی بھی غلطی حاصل ہونے والے فوائد کی ایماندار پہچان کو روکتے ہیں تو یہ بیمار کی شفا یابی اور طالب علم کی کامیابی میں ایک رکاوٹ ہوگی۔
"Whosoever shall deny me before men, him will I also deny before my Father which is in heaven." In Christian Science, a denial of Truth is fatal, while a just acknowledgment of Truth and of what it has done for us is an effectual help. If pride, superstition, or any error prevents the honest recognition of benefits received, this will be a hindrance to the recovery of the sick and the success of the student.
بشری عقل انسانی مقاصد کی تسلیم شْدہ نشست ہے۔ یہ مادی نظریات کو تشکیل دیتی اور بدن کے ہربے آہنگ عمل کو پیدا کرتی ہے۔اگر کوئی عمل الٰہی عقل سے جنم لیتا ہے تو وہ عمل ہم آہنگ ہوگا۔اگر یہ غلطی کرنے والی بشری عقل سے آتا ہے تو یہ بے آہنگ ہوتا ہے اور اِس کا انجام گناہ، بیماری اور موت ہوتا ہے۔یہ دو مخالف ذرائع کبھی چشمے یا ندی میں نہیں ملتے۔کامل عقل کاملیت پیدا کرتی ہے،کیونکہ خدا عقل ہے۔غیر کامل فانی عقل اپنی مشابہتیں پیدا کرتی ہے، جن سے متعلق دانشمند انسان نے کہا، ”سب باطل ہے۔“
Mortal mind is the acknowledged seat of human motives. It forms material concepts and produces every discordant action of the body. If action proceeds from the divine Mind, action is harmonious. If it comes from erring mortal mind, it is discordant and ends in sin, sickness, death. Those two opposite sources never mingle in fount or stream. The perfect Mind sends forth perfection, for God is Mind. Imperfect mortal mind sends forth its own resemblances, of which the wise man said, "All is vanity."
پاگل پن کا علاج خاص طور پر بہت دلچسپ ہے۔ تاہم معاملے میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے،یہ دوسری بیماریوں کی نسبت زیادہ آسانی سے سچائی کے صحت بخش کام کے لئے راضی ہوجاتا ہے، جو غلطی کی جوابی کاروائی ہوتا ہے۔پاگل پن کا علاج کرنے کے لئے جن دلائل کو استعمال کیا جاتا ہے یہ وہی ہیں جو دوسری بیماریوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں، یعنی، وہ انہونی جسے مادا، ذہن، قابو کر سکتا ہے یا جو عقل کو بے ترتیب کر سکتا ہے،یہ دْکھ اٹھا سکتا یا دْکھوں کا موجب بن سکتا ہے؛ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت کہ سچائی اورمحبت ایک صحت مند حالت قائم کرتی ہے، فانی عقل یا مریض کے خیالات کی راہنمائی کرتی اور اْس پر حکمرانی کرتی ہے، اور سب غلطیوں کو نیست کرتی ہے، خواہ اسے ڈیمنشیا، نفرت یا کوئی بھی دوسرا مسئلہ کہا جا سکتا ہے۔
The treatment of insanity is especially interesting. However obstinate the case, it yields more readily than do most diseases to the salutary action of truth, which counteracts error. The arguments to be used in curing insanity are the same as in other diseases: namely, the impossibility that matter, brain, can control or derange mind, can suffer or cause suffering; also the fact that truth and love will establish a healthy state, guide and govern mortal mind or the thought of the patient, and destroy all error, whether it is called dementia, hatred, or any other discord.
الٰہی محبت انسان کی اصلاح کرتی اور اْس پر حکمرانی کرتی ہے۔ انسان معافی مانگ سکتے ہیں لیکن صرف الٰہی اصول ہی گناہگار کی اصلاح کرتا ہے۔خدا اْس حکمت سے الگ نہیں جو وہ عطا کرتا ہے۔جو صلاحتیں وہ ہمیں دیتا ہے ہمیں اْنہیں فروغ دینا چاہئے۔ ہمارے غلط کاموں یا نامکمل کاموں کے لئے معافی پانے کی خاطر اْسے پکارنا اِس بیکار مفروضے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمیں معافی مانگنے کے سوا کچھ نہیں کرنا اور اِس کے بعد ہم اِس جرم کو دوہرانے کے لئے آزاد ہو جائیں گے۔
گناہ کے نتیجے میں تکالیف کا موجب بننا، گناہ کو تباہ کرنے کا وسیلہ ہے۔ گناہ میں ملنے والی ہر فرضی تسکین اس کے متوازی درد سے زیادہ آراستہ ہوگی، جب تک کہ مادی زندگی اور گناہ پر یقین تباہ نہیں کر دیا جاتا۔آسمان یعنی ہستی کی ہم آہنگی پر پہنچنے کے لئے ہمیں الٰہی اصول کی ہستی کو سمجھنا ہوگا۔
Divine Love corrects and governs man. Men may pardon, but this divine Principle alone reforms the sinner. God is not separate from the wisdom He bestows. The talents He gives we must improve. Calling on Him to forgive our work badly done or left undone, implies the vain supposition that we have nothing to do but to ask pardon, and that afterwards we shall be free to repeat the offence.
To cause suffering as the result of sin, is the means of destroying sin. Every supposed pleasure in sin will furnish more than its equivalent of pain, until belief in material life and sin is destroyed. To reach heaven, the harmony of being, we must understand the divine Principle of being.
محبت ہمیں آزمائش سے نکالنے کے لئے جلد باز نہیں ہے، کیونکہ محبت کا مطلب ہے کہ آپ کو آزمایا اور پاک کیا جائے گا۔
Love is not hasty to deliver us from temptation, for Love means that we shall be tried and purified.
یاد رکھیں کہ انسان جلد یا بدیر، خواہ دْکھوں کی بدولت یا سائنس کی بدولت، غلطی پر آمادہ ہو جائیں گے کہ اِسے زیر ہونا ہے۔
فہم کی غلطیوں کو کالعدم کرنے کی کوشش میں کسی بھی شخص کو مکمل اور منصفانہ طور پر انتہائی انمول قیمت ادا کرناہوگی جب تک کہ ساری غلطی مکمل طور پر سچائی کے ماتحت نہ لائی جائے۔گناہ کی مزدوری ادا کرنے کے الٰہی طریقہ کار میں کسی شخص کی گْتھیوں کو سلجھانا اور اِس تجربے سے یہ سیکھنا شامل ہے کہ فہم اور جان کو کیسے الگ الگ کرنا چاہئے۔
Remember that mankind must sooner or later, either by suffering or by Science, be convinced of the error that is to be overcome.
In trying to undo the errors of sense one must pay fully and fairly the utmost farthing, until all error is finally brought into subjection to Truth. The divine method of paying sin's wages involves unwinding one's snarls, and learning from experience how to divide between sense and Soul.
بدکار شخص اپنے نیک پڑوسی کا حاکم نہیں ہے۔ یہ بات سمجھی جانی چاہئے کہ غلطی کی کامیابی سچائی کی شکست ہے۔کرسچن سائنس کا اصولی قول کلام میں سے ہے: ”شریر اپنی راہ کو ترک کرے اور بدکردار اپنے خیالوں کو۔“
ہماری ترقی کا تعین کرنے کے لئے، ہمیں یہ سیکھنا چاہئے کہ ہماری ہمدردیاں کہاں ہیں اور ہم کسے بطور خدا قبول کرتے اور اْس کی تابعداری کرتے ہیں۔ اگر الٰہی محبت ہمارے نزدیک تر، عزیز تر اور زیادہ حقیقی ہوتی جاتی ہے، تو مادا روح کے حوالے ہو رہا ہے۔ تو جن مقاصد کا ہم تعاقب کرتے ہیں اورجس روح کو ہم ظاہر کرتے ہیں وہ ہمارے نقطہ نظر کو پیش کرتی ہے، اور دکھاتی ہے کہ ہم کیا فتح کر رہے ہیں۔
The wicked man is not the ruler of his upright neighbor. Let it be understood that success in error is defeat in Truth. The watchword of Christian Science is Scriptural: "Let the wicked forsake his way, and the unrighteous man his thoughts."
To ascertain our progress, we must learn where our affections are placed and whom we acknowledge and obey as God. If divine Love is becoming nearer, dearer, and more real to us, matter is then submitting to Spirit. The objects we pursue and the spirit we manifest reveal our standpoint, and show what we are winning.
روحانی حس روحانی نیکی کا شعور ہے۔ فہم حقیقی اورغیر حقیقی کے مابین حد بندی کی لکیر ہے۔ روحانی فہم عقل -یعنی زندگی، سچائی اور محبت، کو کھولتا ہے اور الٰہی حس کو، کرسچن سائنس میں کائنات کا روحانی ثبوت فراہم کرتے ہوئے، ظاہر کرتا ہے۔
یہ فہم شعوری نہیں ہے،محققانہ حاصلات کا نتیجہ نہیں ہے؛ یہ نور میں لائی گئی سب چیزوں کی حقیقت ہے۔
Spiritual sense is the discernment of spiritual good. Understanding is the line of demarcation between the real and unreal. Spiritual understanding unfolds Mind, — Life, Truth, and Love, — and demonstrates the divine sense, giving the spiritual proof of the universe in Christian Science.
This understanding is not intellectual, is not the result of scholarly attainments; it is the reality of all things brought to light.
فہم خدا کی ایک خصوصیت ہے، ایسی خصوصیت جو کرسچن سائنس کو مفروضے سے الگ کرتی اور سچائی کو حتمی قرار دیتی ہے۔
Understanding is a quality of God, a quality which separates Christian Science from supposition and makes Truth final.
الٰہی سائنس درج ذیل خود عیاں تجویز کے ذریعے اِس خیالی بیان کو واضح کرتی ہے کہ عقل ایک ہے: اگر خدا، یا نیکی حقیقی ہے تو بدی، خدا کی غیر مشابہت بھی غیر حقیقی ہے۔ اور بدی محض غیر حقیقی کو حقیقت کا روپ دینے سے ہی حقیقی دکھائی دے سکتی ہے۔ خدا کے فرزندوں کے پاس ایک عقل کے علاوہ کچھ نہیں۔
Divine Science explains the abstract statement that there is one Mind by the following self-evident proposition: If God, or good, is real, then evil, the unlikeness of God, is unreal. And evil can only seem to be real by giving reality to the unreal. The children of God have but one Mind.
ایک باپ،حتیٰ کے خدا،کے ساتھ انسان کا پورا خاندان بھائی ہوں گے اور ایک عقل اور خدا، یا اچھائی کے ساتھ انسان کا بھائی چارہ محبت اور سچائی پر اور اصول اور روحانی قوت پر مشتمل ہو گا جو الٰہی سائنس کو قائم کرتے ہیں۔
With one Father, even God, the whole family of man would be brethren; and with one Mind and that God, or good, the brotherhood of man would consist of Love and Truth, and have unity of Principle and spiritual power which constitute divine Science.
سائنس میں خدا اور انسان، الٰہی اصول اور خیال، کے تعلقات لازوال ہیں؛ اور سائنس بھول چوک جانتی ہے نہ ہم آہنگی کی جانب واپسی، لیکن یہ الٰہی ترتیب یا روحانی قانون رکھتی ہے جس میں خدا اور جو کچھ وہ خلق کرتا ہے کامل اور ابدی ہیں، جو اس کی پوری تاریخ میں غیر متغیر رہے ہیں۔
The relations of God and man, divine Principle and idea, are indestructible in Science; and Science knows no lapse from nor return to harmony, but holds the divine order or spiritual law, in which God and all that He creates are perfect and eternal, to have remained unchanged in its eternal history.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔