اتوار 26 فروری، 2023
”مَیں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ جیسا سنتا ہوں عدالت کرتا ہوں اور میری عدالت راست ہے کیونکہ مَیں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں۔“- مسیح یسوع
“I can of mine own self do nothing: as I hear, I judge: and my judgment is just; because I seek not mine own will, but the will of the Father which hath sent me.”— Christ Jesus
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
27۔ اب میری جان گھبراتی ہے۔ پس مَیں کیا کہوں؟ اے باپ! مجھے اِس گھڑی سے بچا لیکن مَیں اسی گھڑی کے سبب سے تو اِس گھڑی کو پہنچا ہوں۔
28۔ اے باپ اپنے نام کو جلال دے۔ پس آسمان سے آواز آئی کہ مَیں نے اْس کو جلال دیا ہے اور پھر بھی دوں گا۔
29۔ جو لوگ کھڑے سن رہے تھے اْنہیں نے کہا بادل گرجا۔ اوروں نے کہا کہ فرشتہ اْس سے ہم کلام ہوا۔
30۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا کہ آواز میرے لئے نہیں بلکہ تمہارے لئے آئی ہے۔
16۔ ہر وقت خوش رہو۔
17۔ بلا ناغہ دعا کرو۔
27. Now is my soul troubled; and what shall I say? Father, save me from this hour: but for this cause came I unto this hour.
28. Father, glorify thy name. Then came there a voice from heaven, saying, I have both glorified it, and will glorify it again.
29. The people therefore, that stood by, and heard it, said that it thundered: others said, An angel spake to him.
30. Jesus answered and said, This voice came not because of me, but for your sakes.
16. Rejoice evermore.
17. Pray without ceasing.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
16۔ اور یسوع بپتسمہ لے کر فی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیا۔
17۔ اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔
16 And Jesus, when he was baptized, went up straightway out of the water:
17 And lo a voice from heaven, saying, This is my beloved Son, in whom I am well pleased.
1۔ پھر ایسا ہوا کہ وہ کسی جگہ دعا کر رہا تھا۔ جب کر چْکا تو اْس کے شاگردوں میں سے ایک نے اْس سے کہا اے خداوند جیسا یوحنا نے اپنے شاگردوں کو دعا کرنا سکھایا تْو بھی ہمیں سکھا۔
1 And it came to pass, that, as he was praying in a certain place, when he ceased, one of his disciples said unto him, Lord, teach us to pray, as John also taught his disciples.
2۔ اور وہ اپنی زبان کھول کر اْن کو یوں تعلیم دینے گا۔
2 And he opened his mouth, and taught them, saying,
9۔ پس تم اِس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ تْو جو آسمان پر ہے۔ تیرا نام پاک مانا جائے۔
10۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔
11۔ ہمارے روز کی روٹی آج ہمیں دے۔
12۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے تْو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔
13۔ اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں۔ آمین۔
9 After this manner therefore pray ye: Our Father which art in heaven, Hallowed be thy name.
10 Thy kingdom come. Thy will be done in earth, as it is in heaven.
11 Give us this day our daily bread.
12 And forgive us our debts, as we forgive our debtors.
13 And lead us not into temptation, but deliver us from evil: For thine is the kingdom, and the power, and the glory, for ever. Amen.
34۔ اور اْس نے بہتوں کو جو طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار تھے اچھا کیا اور بہت سی بدروحوں کو نکالا۔
35۔ اور صبح ہی دن نکلنے سے بہت پہلے وہ اْٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہاں دعا کی۔
39۔ اور وہ تمام گلیل میں اْن کے عبادت خانوں میں جا جا کر منادی کرتا اور بدروحوں کو نکالتا رہا۔
40۔ اور ایک کوڑھی نے اْس کے پاس آکر اْس کی منت کی اور اْس کے سامنے گھْٹنے ٹیک کر اْس سے کہا اگر تْو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔
41۔ اْس نے اْس پر ترس کھا کر ہاتھ بڑھایا اور اْسے چھْو کر اْس سے کہا مَیں چاہتا ہوں تْو پاک صاف ہوجا۔
42۔ اور فی الفور اْس کا کوڑھ جاتا رہا اور وہ پاک صاف ہوگیا۔
34 And he healed many that were sick of divers diseases, and cast out many devils;
35 And in the morning, rising up a great while before day, he went out, and departed into a solitary place, and there prayed.
39 And he preached in their synagogues throughout all Galilee, and cast out devils.
40 And there came a leper to him, beseeching him, and kneeling down to him, and saying unto him, If thou wilt, thou canst make me clean.
41 And Jesus, moved with compassion, put forth his hand, and touched him, and saith unto him, I will; be thou clean.
42 And as soon as he had spoken, immediately the leprosy departed from him, and he was cleansed.
12۔ اور اْن دنوں میں ایسا ہوا کہ وہ پہاڑ پر دعا کرنے کو نکلا اور خدا سے دعا کرنے میں ساری رات گزاری۔
13۔ جب دن ہوا تو اْس نے اپنے شاگردوں کو پاس بلا کر اْن میں سے بارہ چن لئے اور اْن کو رسول کا لقب دیا۔
20۔ پھر اْس نے اپنے شاگردوں کی طرف نظر کر کے کہا مبارک ہو تم جو غریب ہو کیونکہ خدا کی بادشاہی تمہاری ہے۔
21۔ مبارک ہو تم جو اب بھوکے ہو کیونکہ آسودہ ہوگے۔ مبارک ہو تم جو اب روتے ہو کیونکہ ہنسو گے۔
22۔ جب ابن آدم کے سبب سے لوگ تم سے عداوت رکھیں گے اور تمہیں خارج کر دیں گے اور لعن طعن کریں گے اور تمہار ا نام برا جان کر کاٹ دیں گے تو تم مبارک ہوگے۔
23۔ اْس دن خوش ہونا اور خوشی کے مارے اچھلنا۔ اِس لئے کہ دیکھو آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے کیونکہ اْن کے باپ دادا نبیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
12 And it came to pass in those days, that he went out into a mountain to pray, and continued all night in prayer to God.
13 And when it was day, he called unto him his disciples: and of them he chose twelve, whom also he named apostles;
20 And he lifted up his eyes on his disciples, and said, Blessed be ye poor: for yours is the kingdom of God.
21 Blessed are ye that hunger now: for ye shall be filled. Blessed are ye that weep now: for ye shall laugh.
22 Blessed are ye, when men shall hate you, and when they shall separate you from their company, and shall reproach you, and cast out your name as evil, for the Son of man’s sake.
23 Rejoice ye in that day, and leap for joy: for, behold, your reward is great in heaven: for in the like manner did their fathers unto the prophets.
1۔ یسوع نے یہ باتیں کہیں اوراپنی آنکھیں آسمان کی طرف اْٹھا کر کہا اے باپ! وہ گھڑی آپہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔
2۔ چنانچہ تْو نے اْسے ہر بشر پر اختیار دیا ہے تاکہ جنہیں تْو نے اْسے بخشا ہے اْن سب کو ہمیشہ کی زندگی دے۔
3۔ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور بر حق کو اور یسوع مسیح کو جسے تْو نے بھیجا ہے جانیں۔
4۔ جو کام تْو نے مجھے کرنے کو دیا تھا اْس کو تمام کر کے مَیں نے زمین پر تیرا جلال ظاہر کیا ہے۔
5۔ اور اب اے باپ! تْو اْس جلال سے جو مَیں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے۔
6۔ مَیں نے تیرے نام کو اْن آدمیوں پر ظاہر کیا جنہیں تْو نے دنیا میں سے مجھے دیا۔وہ تیرے تھے اور تْو نے اْنہیں مجھے دیا اور اْنہوں نے تیرے کلام پر عمل کیا ہے۔
7۔ اب وہ جان گئے کہ جو کچھ تْو نے مجھے دیا ہے وہ سب تیری ہی طرف سے ہے۔
8۔ کیونکہ جو کلام تْو نے مجھے پہنچایا وہ مَیں نے اْن کو پہنچا دیا اور اْنہوں نے اْسے قبول کیا اور سچ جان لیا کہ مَیں تیری طرف سے نکلا ہوں۔اور وہ ایمان لائے کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا۔
1 These words spake Jesus, and lifted up his eyes to heaven, and said, Father, the hour is come; glorify thy Son, that thy Son also may glorify thee:
2 As thou hast given him power over all flesh, that he should give eternal life to as many as thou hast given him.
3 And this is life eternal, that they might know thee the only true God, and Jesus Christ, whom thou hast sent.
4 I have glorified thee on the earth: I have finished the work which thou gavest me to do.
5 And now, O Father, glorify thou me with thine own self with the glory which I had with thee before the world was.
6 I have manifested thy name unto the men which thou gavest me out of the world: thine they were, and thou gavest them me; and they have kept thy word.
7 Now they have known that all things whatsoever thou hast given me are of thee.
8 For I have given unto them the words which thou gavest me; and they have received them, and have known surely that I came out from thee, and they have believed that thou didst send me.
36۔ اْس وقت یسوع اْن کے ساتھ گتسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا یہیں بیٹھے رہنا جب تک کہ مَیں وہاں جا کر دعا کروں۔
37۔ اور پطرس اور زبدی کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر غمگین اور بے قرار ہونے لگا۔
38۔ اْس وقت اْس نے اْن سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو۔
39۔ پھر ذرا آگے بڑھا اورمنہ کے بل گر کر یوں دعا کی کہ اے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ تو بھی نہ جیسا مَیں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تْو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔
40۔ پھر شاگردوں کے پاس آکر اْن کو سوتے پایا اور پطرس سے کہا کیا تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے؟
41۔ جاگو اور دعا کروتاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔ روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے۔
42۔ پھر دوبارہ اْس نے جا کر یوں دعا کی کہ اے میرے باپ! اگر یہ میرے پئے بغیر نہیں ٹل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو۔
43۔ اور آکر اْنہیں پھر سوتے پایا کیونکہ اْن کی آنکھیں نیند سے بھری تھیں۔
44۔ اور اْن کو چھوڑ کر پھر چلا گیا اور پھر وہی بات کہہ کر تیسری بار دعا کی۔
36 Then cometh Jesus with them unto a place called Gethsemane, and saith unto the disciples, Sit ye here, while I go and pray yonder.
37 And he took with him Peter and the two sons of Zebedee, and began to be sorrowful and very heavy.
38 Then saith he unto them, My soul is exceeding sorrowful, even unto death: tarry ye here, and watch with me.
39 And he went a little further, and fell on his face, and prayed, saying, O my Father, if it be possible, let this cup pass from me: nevertheless not as I will, but as thou wilt.
40 And he cometh unto the disciples, and findeth them asleep, and saith unto Peter, What, could ye not watch with me one hour?
41 Watch and pray, that ye enter not into temptation: the spirit indeed is willing, but the flesh is weak.
42 He went away again the second time, and prayed, saying, O my Father, if this cup may not pass away from me, except I drink it, thy will be done.
43 And he came and found them asleep again: for their eyes were heavy.
44 And he left them, and went away again, and prayed the third time, saying the same words.
1۔ اے خداوند! میرا توکل تجھ پر ہے۔ مجھے کبھی شرمندہ نہ ہونے دے۔ اپنی صداقت کی خاطر مجھے رہائی دے۔
2۔ اپنا کان میری طرف جھکا۔ جلد مجھے چھڑا۔ تْو میرے لئے مضبوط چٹان میرے بچانے کو پناہ گاہ ہو۔
3۔ کیونکہ تْو ہی میری چٹان اور میرا قلعہ ہے۔ اِس لئے اپنے نام کی خاطر میری راہبری اور راہنمائی کر۔
5۔ مَیں اپنی روح تیرے ہاتھ میں سونپتا ہوں۔ اے خداوند! سچائی کے خدا! تْو نے میرا فدیہ دیا ہے۔
14۔ اے خداوند! میرا توکل تجھ پر ہے۔ مَیں نے کہا تْو میرا خدا ہے۔
15۔ میرے ایام تیرے ہاتھ میں ہیں۔
1 In thee, O Lord, do I put my trust; let me never be ashamed: deliver me in thy righteousness.
2 Bow down thine ear to me; deliver me speedily: be thou my strong rock, for an house of defence to save me.
3 For thou art my rock and my fortress; therefore for thy name’s sake lead me, and guide me.
5 Into thine hand I commit my spirit: thou hast redeemed me, O Lord God of truth.
14 I trusted in thee, O Lord: I said, Thou art my God.
15 My times are in thy hand:
30۔ مَیں اور باپ ایک ہیں۔
30 I and my Father are one.
10۔۔۔۔باپ مجھ میں رہ کر کام کرتا ہے۔
10 …the Father that dwelleth in me, he doeth the works.
29۔۔۔۔جس نے مجھے بھیجا ہے وہ میرے ساتھ ہے۔ اْس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔
29 …he that sent me is with me: the Father hath not left me alone;
کیا دعا کرنے سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ جی ہاں، وہ خواہش جو راستبازی کی بھوک کی جانب لے جاتی ہے وہ ہمارے باپ کی برکت ہے، اور وہ ہمارے پاس خالی واپس نہیں آتی۔
Are we benefited by praying? Yes, the desire which goes forth hungering after righteousness is blessed of our Father, and it does not return unto us void.
ٹھیک طریقے سے دعا کرنے کے لئے، ہمیں کوٹھڑی کے اندر جاکر دروازہ بند کرنا ہوگا۔ ہمیں ہونٹوں کو بند کر نااور مادی حواس کو خاموش کرنا ہوگا۔پْر خلوص خواہشات کے خاموش مقدَس میں ہمیں گناہ سے انکار اور خدا کی ساری کاملیت کی التجا کرنی چاہئے۔ہمیں صلیب اٹھانے کی ہمت کرنی چاہئے اور حکمت، سچائی اور محبت پر غور کرنے اور اِن پر کام کرنے کے لئے سچے دل کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ہمیں ”بلا ناغہ دعا کرنی“ چاہئے۔ایسی ہی دعا کا جواب ملتا ہے، اِس حد تک کہ ہم ہماری خواہشات کی تکمیل پاتے ہیں۔ مالک کی ہدایت یہ ہے کہ ہم پوشیدگی میں دعا کریں اور ہماری زندگیوں سے ہماری وفاداری کی گواہی دیں۔
In order to pray aright, we must enter into the closet and shut the door. We must close the lips and silence the material senses. In the quiet sanctuary of earnest longings, we must deny sin and plead God's allness. We must resolve to take up the cross, and go forth with honest hearts to work and watch for wisdom, Truth, and Love. We must "pray without ceasing." Such prayer is answered, in so far as we put our desires into practice. The Master's injunction is, that we pray in secret and let our lives attest our sincerity.
ہمارے استاد نے اپنے شاگردوں کو ایک مختصر دعا سکھائی، جسے ہم نے اْس کے بعد دعائے ربانی کا نام دیا۔ہمارے مالک نے کہا، ”پس تم اِس طرح دعا کیا کرو،“ اور پھر اْس نے وہ دعا سکھائی جو تمام تر انسانی ضروریات کا احاطہ کرتی ہے۔
یہاں مجھے حاصل ہونے والی دعائے ربانی کی روحانی سمجھ کو واضح کرنے دیجئے:
اے ہمارے مادر پدر خدا، قادر ہم آہنگ
قابل ستائش
تیری بادشاہی آ گئی ہے؛ تْو ازل سے ہے۔
Our Master taught his disciples one brief prayer, which we name after him the Lord's Prayer. Our Master said, "After this manner therefore pray ye," and then he gave that prayer which covers all human needs.
Here let me give what I understand to be the spiritual sense of the Lord's Prayer:
Our Father-Mother God, all-harmonious,
Adorable One.
Thy kingdom is come; Thou art ever-present.
جیسے آسمان پر ہے زمین پر بھی ہمیں یہ جاننے کے قابل بنا کہ خدا قادر مطلق، اعلیٰ ہے۔
آج کے لئے ہمیں فضل عطا کر؛ محبت کے بھوکوں کو سیر کر؛
اور محبت، محبت میں منعکس ہوتی ہے؛
اور خدا ہمیں آزمائش میں نہیں ڈالتا، بلکہ ہمیں گناہ، بیماری اور موت سے بچاتا ہے۔
کیونکہ خدا لامحدود، قادر مطلق، بھر پور زندگی، سچائی، محبت، ہر ایک پر اور سب پر حاکم ہے۔
Enable us to know, — as in heaven, so on earth, — God is omnipotent, supreme.
Give us grace for to-day; feed the famished affections;
And Love is reflected in love;
And God leadeth us not into temptation, but delivereth us from sin, disease, and death.
For God is infinite, all-power, all Life, Truth, Love, over all, and All.
دعا کا مطلب ہے کہ جب تک یہ ہمیں میسر ہو ہم نور میں چلنے کی خواہش رکھیں اور ہم چلیں گے، خواہ ہمارے قدم لہولہان ہوجائیں، اور خداوند کا صبر کے ساتھ انتظار کرتے ہوئے، ہم ہماری حقیقی خواہشات کواْس سے اجر پانے کے لئے چھوڑ دیں گے۔
Prayer means that we desire to walk and will walk in the light so far as we receive it, even though with bleeding footsteps, and that waiting patiently on the Lord, we will leave our real desires to be rewarded by Him.
کلام کہتا ہے، ”جو دعا ایمان کے ساتھ ہوگی اْس کے باعث بیمار بچ جائے گا۔“ یہ شفائیہ دعا کیا ہے؟ محض یہ التجا کہ خدا بیمار کو شفا دے گا الٰہی حضوری کی بدولت اِس سے زیادہ طاقت کبھی نہیں فراہم کرے گی جتنی کہ پہلے سے طاقت موجود ہے۔ اِس قسم کی دعا کابیمار کے لئے سود مند اثر انسانی عقل پر ہوتا ہے وہ بھی خدا پر اندھے اعتماد کے وسیلہ بدن پر زیادہ طاقت کے ساتھ عمل کرنے کے قابل بناتے ہوئے۔تاہم یہ ایک یقین کو باہر نکالنے کا دوسرا یقین ہے، یعنی بیماری پر یقین کو باہر نکالتے ہوئے کسی انجان پر یقین کرنا۔یہ سائنس ہے نہ سچائی ہے جو اندھے بھروسے کے وسیلہ کام کرتی ہے، نہ ہی یہ الٰہی شفائیہ اصول کا انسانی فہم ہے جیسا یسوع میں ظاہر ہوا تھا، جس کی عاجزانہ دعائیں گہری اور سچائی کے، انسان پر خدا کی شبیہ کے اور انسان کی سچائی اور محبت کے ساتھ یگانگت کے باضمیر احتجاج تھے۔
"The prayer of faith shall save the sick," says the Scripture. What is this healing prayer? A mere request that God will heal the sick has no power to gain more of the divine presence than is always at hand. The beneficial effect of such prayer for the sick is on the human mind, making
it act more powerfully on the body through a blind faith in God. This, however, is one belief casting out another, — a belief in the unknown casting out a belief in sickness. It is neither Science nor Truth which acts through blind belief, nor is it the human understanding of the divine healing Principle as manifested in Jesus, whose humble prayers were deep and conscientious protests of Truth, — of man's likeness to God and of man's unity with Truth and Love.
یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔ اْس کا مشن انفرادی اور اجتماعی دونوں تھا۔ اْس نے زندگی کا مناسب کام سر انجام دیا نہ صرف خود کے انصاف کے لئے بلکہ انسانوں پر رحم کے باعث، انہیں یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے، بلکہ نہ تو اْن کے لئے خود کچھ کرنے یا نہ ہی اْنہیں کسی ایک ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئے یہ کیا۔یسوع نے دلیری سے حواس کے تسلیم شْدہ ثبوت کے خلاف، منافقانہ عقائد اور مشقوں کے خلاف کام کیا، اور اْس نے اپنی شفائیہ طاقت کی بدولت اپنے سبھی حریفوں کی تردید کی۔
Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage. His mission was both individual and collective. He did life's work aright not only in justice to himself, but in mercy to mortals, — to show them how to do theirs, but not to do it for them nor to relieve them of a single responsibility. Jesus acted boldly, against the accredited evidence of the senses, against Pharisaical creeds and practices, and he refuted all opponents with his healing power.
جب خدا، ازلی فہم جو سب باتیں سمجھتا ہے، انسان پر حکومت کرتا ہے تو انسان جانتا ہے کہ خدا کے لئے سب کچھ ممکن ہے۔ اِس زندہ سچائی کو جاننے کا واحد راستہ، جو بیمار کو شفا دیتی ہے، الٰہی فہم کی سائنس میں پایا جاتا ہے کیونکہ یہ مسیح یسوع کے وسیلہ سے سکھائی گئی اور ظاہر ہوئی۔
سوجن کم کرنے، رسولی کو ختم کرنے یا جسمانی بیماری کاعلاج کرنے کے لئے،مَیں نے دیگر سبھی ادنیٰ علاجوں کی نسبت الٰہی سچائی کو زیادہ قوی پایا ہے۔اور کیوں نہیں، جبکہ عقل یعنی خدا ہی ساری وجودیت کا منبع اور لازمی شرط ہے۔ کسی شخص کو یہ فیصلہ کرنے سے قبل کہ بدن، مادہ خراب ہو چکا ہے، اْسے پوچھنا چاہئے، ”تْو کون ہے جو خدا کے سامنے جواب دیتا ہے؟ کیا مادہ خود بات کرسکتا ہے، یا کیا یہ زندگی کے معاملات کو سمجھتا ہے؟“ مادہ، جو نہ دْکھ سہ سکتا نہ خوش ہوسکتا ہے، اْس کا درد یا شادمانی کے ساتھ کوئی حصہ نہیں بلکہ فانی عقیدے کا ایسا حصہ ضرور ہے۔
When man is governed by God, the ever-present Mind who understands all things, man knows that with God all things are possible. The only way to this living Truth, which heals the sick, is found in the Science of divine Mind as taught and demonstrated by Christ Jesus.
To reduce inflammation, dissolve a tumor, or cure organic disease, I have found divine Truth more potent than all lower remedies. And why not, since Mind, God, is the source and condition of all existence? Before deciding that the body, matter, is disordered, one should ask, "Who art thou that repliest to Spirit? Can matter speak for itself, or does it hold the issues of life?" Matter, which can neither suffer nor enjoy, has no partnership with pain and pleasure, but mortal belief has such a partnership.
باغ میں تاریک اور جلال کی رات کے دوران، یسوع نے کسی ممکنہ مادی ذہانت پر یقین کی سراسر غلطی کو سمجھا۔بے توجہی کے درد اور متعصب جہالت کی لاٹھیاں اْس پر شدت سے پڑیں۔ اْس کے طالب علم سو گئے۔ اْس نے اْن سے کہا: ”کیا تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے؟“ کیا وہ اْس کے ساتھ رکھوالی نہ کر سکے جو، بے زبان اذیت میں انتظار اور جدوجہد کرتے ہوئے، بلاشکایت دنیا کی حفاظت کررہا تھا؟ یہاں انسانی تڑپ کے لئے کوئی جواب نہ تھا، ا سلئے یسوع زمین سے آسمان، فہم سے جان کی طرف ہمیشہ کے لئے مڑ گیا۔
During his night of gloom and glory in the garden, Jesus realized the utter error of a belief in any possible material intelligence. The pangs of neglect and the staves of bigoted ignorance smote him sorely. His students slept. He said unto them: "Could ye not watch with me one hour?" Could they not watch with him who, waiting and struggling in voiceless agony, held uncomplaining guard over a world? There was no response to that human yearning, and so Jesus turned forever away from earth to heaven, from sense to Soul.
انسانی خیالات پر غور کرنے اور ہستی کی سائنس کو رد کرنے کا صرف ایک عْذر روح سے متعلق ہماری لا علمی ہے، وہ لاعلمی جو صرف الٰہی سائنس کے ادراک کو تسلیم کرتی ہے، ایسا ادراک جس کے وسیلہ ہم زمین پر سچائی کی بادشاہت میں داخل ہوتے ہیں اور یہ سیکھتے ہیں کہ روح لامحدود اور نہایت اعلیٰ ہے۔
The only excuse for entertaining human opinions and rejecting the Science of being is our mortal ignorance of Spirit, — ignorance which yields only to the understanding of divine Science, the understanding by which we enter into the kingdom of Truth on earth and learn that Spirit is infinite and supreme.
سائنسی اتحاد جو خدا اور انسا ن کے درمیان موجود ہے اْسے عملی زندگی میں کشیدہ کرنا چاہئے اور خدا کی مرضی عالگیر طور پر پوری کی جانی چاہئے۔
The scientific unity which exists between God and man must be wrought out in life-practice, and God's will must be universally done.
جب ہم غلطی سے زیادہ زندگی کی سچائی پرایمان رکھتے ہیں، مادے سے زیادہ روح پر بھروسہ رکھتے ہیں، مرنے سے زیادہ جینے پر بھروسہ رکھتے ہیں، انسان سے زیادہ خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں، تو کوئی مادی مفرضے ہمیں بیماروں کو شفا دینے اور غلطی کو نیست کرنے سے نہیں روک سکتے۔
When we come to have more faith in the truth of being than we have in error, more faith in Spirit than in matter, more faith in living than in dying, more faith in God than in man, then no material suppositions can prevent us from healing the sick and destroying error.
ہم یسوع کے کفارے کواْس الٰہی یعنی موثر محبت کے ثبوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں جو راہ دکھانے والے یسوع مسیح کے وسیلہ خدا کے ساتھ انسان کے اتحاد کو آشکار کرتی ہے؛ اور ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انسان مسیح کے وسیلہ، سچ،زندگی اور محبت کے وسیلہ نجات پاتا ہے جیسے کہ گلیلی نبی کی جانب سے بیمار کی شفا اور گناہ اور موت پر فتح یابی میں ظاہر کیا گیا تھا۔
We acknowledge Jesus' atonement as the evidence of divine, efficacious Love, unfolding man's unity with God through Christ Jesus the Way-shower; and we acknowledge that man is saved through Christ, through Truth, Life, and Love as demonstrated by the Galilean Prophet in healing the sick and overcoming sin and death.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████