اتوار 26 نومبر ، 2023



مضمون۔ قدیم و جدید جادوگری، عْرفیت، تنویم اور علمِ نومیات سے انکار

SubjectAncient And Modern Necromancy, Alias Mesmerism And Hypnotism, Denounced

سنہری متن: افسیوں 6 باب13 آیت

”اس واسطے تم خدا کے سب ہتھیار باندھ لو تاکہ بر ے دن میں مقابلہ کر سکو اور سب کاموں کا انجام دے کر قائم رہ سکو۔“



Golden Text: Ephesians 6 : 13

Take unto you the whole armour of God, that ye may be able to withstand in the evil day, and having done all, to stand.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: زبور 37: 23تا26، 35تا37 آیات


23۔انسان کی روشیں خداوند کی طرف سے قائم ہیں اور وہ اْس کی راہ سے خوش ہے۔

24۔اگر وہ گِر بھی جائے تو پڑا نہ رہے گا کیونکہ خدا وند اْسے اپنے ہاتھوں سے سنبھالتا ہے۔

25۔ مَیں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوں تو بھی مَیں نے صادق کو بیکس اور اْس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔

26۔وہ دن بھر رحم کرتا ہے اور قرض دیتا ہے اور اْس کی اولاد کو برکت ملتی ہے۔

35۔ مَیں نے شریر کو بڑے اقتدار میں اور ایسا پھیلتے دیکھا جیسے کوئی ہرا درخت اپنی اصلی زمین میں پھیلتا ہے۔

36۔ لیکن جب کوئی اْدھر سے گزرا اور دیکھا تو وہ تھا ہی نہیں بلکہ مَیں نے اْسے ڈھونڈا پر ملا ہی نہیں۔

37۔ کامل آدمی پر نگاہ کر اور راستباز کو دیکھ کیونکہ صلح دوست آدمی کے لئے اجر ہے۔

Responsive Reading: Psalm 37 : 23-26, 35-37

23.     The steps of a good man are ordered by the Lord: and he delighteth in his way.

24.     Though he fall, he shall not be utterly cast down: for the Lord upholdeth him with his hand.

25.     I have been young, and now am old; yet have I not seen the righteous forsaken, nor his seed begging bread.

26.     He is ever merciful, and lendeth; and his seed is blessed.

35.     I have seen the wicked in great power, and spreading himself like a green bay tree.

36.     Yet he passed away, and, lo, he was not: yea, I sought him, but he could not be found.

37.     Mark the perfect man, and behold the upright: for the end of that man is peace.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ خروج 20 باب1تا3 آیات

1۔ اور خدا نے یہ سب باتیں اْن کو بتائیں۔

2۔ خداوند تیرا خدا جو تجھے ملک مصر سے غلامی کے گھر سے نکال لایا مَیں ہوں۔

3۔ میرے حضور تْو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔

1. Exodus 20 : 1-3

1     And God spake all these words, saying,

2     I am the Lord thy God, which have brought thee out of the land of Egypt, out of the house of bondage.

3     Thou shalt have no other gods before me.

2 . ۔ احبار 26 باب 1 (تا پہلی)، 2تا8 (تا:)، 9، 12، 14، 19 (مَیں توڑوں گا)(تا:)، 20 (تا:) آیات

1۔ تم اپنے لئے بت نہ بنانا اور نہ کوئی تراشی ہوئی مْورت یا لاٹ اپنے لئے کھڑی کرنااور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھناکہ اسے سجدہ کرواس لئے کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔

2۔ تم میرے سبتوں کو ماننا اور میرے مقدس کی تعظیم کرنا۔ مَیں خداوند ہوں۔

3۔ اور تم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموں کو مانو اور ان پر عمل کرو۔

4۔ تو مَیں تمہارے لیے بروقت مینہ برساؤں گاا اور زمین سے اناج پیدا ہوگا اورمیدان کے درخت پھلیں گے۔

5۔ یہاں تک کہ انگور جمع کرنے کے وقت تک روتے رہو گے اور جوتنے بونے کے وقت تک انگور جمع کرو گے اور پیٹ بھر روٹی کھایا کرو گے اور چین سے اپنے ملک بسے رہو گے۔

6۔ اور میں ملک میں امن بخشوں گا اور تم سوؤگے اور تم کو کوئی ڈر نہ آئے گااور میں برے درندوں کو ملک سے نیست کر دوں گااور تلوار تمہارے ملک میں نہیں چلے گی۔

7۔ اور تم اپنے دشمنوں کا پیچھا کرو گے اور وہ تمہارے آگے آگے تلوار سے مارے جائیں گے۔

8۔اور تمہارے پانچ آدمی سو کو رگیدیں گے اور تمہارے سو آدمی دس ہزار کوکھدیڑ دیں گے۔

9۔اور مَیں تم پر نظر عنایت رکھوں گااور تم کو برو مند کروں گااور بڑھاؤں گا اور جو میرا عہد تمہارے ساتھ ہے اسے پورا کروں گا۔

12۔اور مَیں تمہارے درمیان چلا پھرا بھی کروں گااور تمہارا خدا ہوں گا اور تم میری قوم ہوگے۔

14۔لیکن اگر تم میری نہ سنو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو۔

19۔اور مَیں تمہاری شہزوری کے فخر کوتوڑ ڈالوں گااور تمہارے لئے آسمان کو لوہے اور زمین کو پیتل کی مانند کر دوں گا۔

20۔اور تمہاری قوت بے فائد ہ صرف ہو گی کیونکہ تمہاری زمین سے کچھ پیدا نہ ہو گا اور میدان کے درخت پھلنے کے ہی نہیں۔

2. Leviticus 26 : 1 (to 1st ,), 2-8 (to :), 9, 12, 14, 19 (I will break) (to ;), 20 (to :)

1     Ye shall make you no idols nor graven image,

2     Ye shall keep my sabbaths, and reverence my sanctuary: I am the Lord.

3     If ye walk in my statutes, and keep my commandments, and do them;

4     Then I will give you rain in due season, and the land shall yield her increase, and the trees of the field shall yield their fruit.

5     And your threshing shall reach unto the vintage, and the vintage shall reach unto the sowing time: and ye shall eat your bread to the full, and dwell in your land safely.

6     And I will give peace in the land, and ye shall lie down, and none shall make you afraid: and I will rid evil beasts out of the land, neither shall the sword go through your land.

7     And ye shall chase your enemies, and they shall fall before you by the sword.

8     And five of you shall chase an hundred, and an hundred of you shall put ten thousand to flight:

9     For I will have respect unto you, and make you fruitful, and multiply you, and establish my covenant with you.

12     And I will walk among you, and will be your God, and ye shall be my people.

14     But if ye will not hearken unto me, and will not do all these commandments;

19     I will break the pride of your power;

20     And your strength shall be spent in vain:

3 . ۔ پیدائش 13 باب1تا3 (تا پہلی)، 4تا7 (تا:)، 8 تا13 آیات

1۔ اور ابرام مصر سے اپنی بیوی اور اپنے سب مال اور لوط کو ساتھ لے کر کعنان کے جنوب کی طرف چلا۔

2۔ اور ابرام کے پاس چوپائے اور سونا چاندی بکثرت تھا۔

3۔اور وہ کعنان کے جنوب سے سفر کرتا ہوابیت ایل میں اْس جگہ پہنچا جہاں پہلے بیت ایل اورعّی کے درمیان اْس کا ڈیرا تھا۔

4۔یعنی وہ مقام جہاں اْس نے شروع میں قربان گاہ بنائی تھی اور وہاں ابرام نے خداوند سے دعا کی۔

5۔ اور لوط کے پاس بھی جو ابرام کا ہمسفر تھا بھیڑ بکریاں گائے بیل اور ڈیرے تھے۔

6۔ اور اْس ملک میں اتنی گنجائش نہ تھی کہ وہ اکٹھے رہیں کیونکہ اْن کے پاس اِتنا مال تھا کہ وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

7۔ اور ابرام کے چرواہوں اور لوط کے چرواہوں کے درمیان جھگڑا ہوا اور کعنانی اور فرزی اْس وقت ملک میں رہتے تھے۔

8۔ تب ابرام نے لوط سے کہا کہ میرے اور تیرے درمیان اور میرے چرواہوں اور تیرے چرواہوں کے درمیان جھگڑا نہ ہوا کرے کیونکہ ہم بھائی ہیں۔

9۔ کیا یہ سارا ملک تیرے سامنے نہیں؟ سو تْو مجھ سے الگ ہوجا۔ اگر تْو بائیں جائے تو مَیں دائیں جاؤں گا اور اگر تْو دہنے جائے تو مَیں بائیں جاؤں گا۔

10۔ تب لوط نے گردن اٹھا کر یردن کی ساری ترائی پر جو ضغر کی طرف ہے نظر دوڑائی کیونکہ وہ اِس سے پیشتر کہ خداوند نے سدوم اور عمورہ کو تباہ کیا خداوند کے باغ اور مصر کے ملک کی مانند خوب سیراب تھی۔

11۔ سو لوط نے یردن کی ساری ترائی کو اپنے لئے چن لیا اور وہ مشرق کی طرف چلا اور وہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔

12۔ ابرام تو ملک کعنان میں رہا اور لوط نے ترائی کے شہروں میں سکونت اختیار کی اور سدوم کی طرف اپنا ڈیرہ لگایا۔

13۔اور سدوم کے لوگ خداوند کی نظر میں نہایت بدکار اور گنہگار تھے۔

3. Genesis 13 : 1-3 (to 1st ,), 4-7 (to :), 8-13

1     And Abram went up out of Egypt, he, and his wife, and all that he had, and Lot with him, into the south.

2     And Abram was very rich in cattle, in silver, and in gold.

3     And he went on his journeys from the south even to Beth-el,

4     Unto the place of the altar, which he had made there at the first: and there Abram called on the name of the Lord.

5     And Lot also, which went with Abram, had flocks, and herds, and tents.

6     And the land was not able to bear them, that they might dwell together: for their substance was great, so that they could not dwell together.

7     And there was a strife between the herdmen of Abram’s cattle and the herdmen of Lot’s cattle:

8     And Abram said unto Lot, Let there be no strife, I pray thee, between me and thee, and between my herdmen and thy herdmen; for we be brethren.

9     Is not the whole land before thee? separate thyself, I pray thee, from me: if thou wilt take the left hand, then I will go to the right; or if thou depart to the right hand, then I will go to the left.

10     And Lot lifted up his eyes, and beheld all the plain of Jordan, that it was well watered every where, before the Lord destroyed Sodom and Gomorrah, even as the garden of the Lord, like the land of Egypt, as thou comest unto Zoar.

11     Then Lot chose him all the plain of Jordan; and Lot journeyed east: and they separated themselves the one from the other.

12     Abram dwelled in the land of Canaan, and Lot dwelled in the cities of the plain, and pitched his tent toward Sodom.

13     But the men of Sodom were wicked and sinners before the Lord exceedingly.

4 . ۔ پیدائش 19 باب1(تا پہلی؛)، 15 (پھر) (تا دوسری)، 17 (بھاگ)، 24، 27، 28 آیات

1۔ اور وہ دونوں فرشتے شام کو سدوم میں آئے۔

15۔۔۔۔تو فرشتوں نے لوط سے جلدی کرائی اور کہا۔

17۔ اپنی جان بچانے کو بھاگ۔ نہ تو پیچھے مڑ کر دیکھنا نہ کہیں میدان میں ٹھہرنا۔ اُس پہاڑ کو چلا جا۔ تانہ ہو کہ تو ہلاک ہو جائے۔

24۔تب خداوند نے اپنی طرف سے سْدوم اورعْمورہ پر گندھک اور آگ اسمان سے برسائی۔

27۔اور ابرام صبح سویرے اٹھ کراْس جگہ گیا جہاں وہ خداوند کے حضور کھڑا ہوا تھا۔

28۔اْس نے سْدوم اور عْمورہ اوراْس ترائی کی طرف نظر کی اورکیا دیکھتا ہے کہ زمین پر سے دھواں ایسا اٹھ رہا ہے جیسے بھٹّی کا دھواں۔

4. Genesis 19 : 1 (to 1st ;), 15 (then) (to 2nd ,), 17 (Escape), 24, 27, 28

1     And there came two angels to Sodom at even;

15     …then the angels hastened Lot, saying,

17     Escape for thy life; look not behind thee, neither stay thou in all the plain; escape to the mountain, lest thou be consumed.

24     Then the Lord rained upon Sodom and upon Gomorrah brimstone and fire from the Lord out of heaven;

27     And Abraham gat up early in the morning to the place where he stood before the Lord:

28     And he looked toward Sodom and Gomorrah, and toward all the land of the plain, and beheld, and, lo, the smoke of the country went up as the smoke of a furnace.

5 . ۔ زبور 91:1تا16 آیات

1۔ جو حق تعالیٰ کے پردے میں رہتا ہے وہ قادر مطلق کے سایہ میں سکونت کرے گا۔

2۔ مَیں خداوند کے بارے میں کہوں گا وہی میری پناہ اور میرا گڑھ ہے۔ وہ میرا خدا ہے جس پر میرا توکل ہے۔

3۔ کیونکہ وہ تجھے صیاد کے پھندے سے اور مہلک وبا سے چھڑائے گا۔

4۔ وہ تجھے اپنے پروں سے چھپا لے گا۔ اور تجھے اْس کے بازوؤں کے نیچے پناہ ملے گی۔ اْس کی سچائی ڈھال اور سِپر ہے۔

5۔ تْو نہ رات کی ہیبت سے ڈرے گا اور نہ دن کو اْڑنے والے تیر سے۔

6۔ نہ اْس وبا سے جو اندھیرے میں چلتی ہے۔ نہ اْس ہلاکت سے جو دوپہر کو ویران کرتی ہے۔

7۔ تیرے آس پاس ایک ہزار گر جائیں گے۔ اور تیرے دہنے ہاتھ کی طرف دس ہزار لیکن وہ تیرے نزدیک نہ آئے گی۔

8۔ لیکن تْو اپنی آنکھوں سے نگاہ کرے گا۔ اور شریروں کے انجام کو دیکھے گا۔

9۔ پر تْو اے خداوند!میری پناہ ہے! تْو نے حق تعالیٰ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔

10۔ تجھ پر کوئی آفت نہ آئے گی۔ اور کوئی وبا تیرے خیمہ کے نزدیک نہ پہنچے گی۔

11۔ کیونکہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ تیری سب راہوں میں تیری حفاظت کریں۔

12۔ وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے تاکہ ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔

13۔ تْو شیر ببر اور افعی روندے گا تْو جوان شیر اور اژدھا کو پامال کرے گا۔

14۔ چونکہ اْس نے مجھ سے دل لگایا ہے۔ اِس لئے مَیں اْسے چھڑاؤں گا۔ مَیں اْسے سرفراز کروں گا۔ کیونکہ اْس نے میرا نام پہچانا ہے۔

15۔ وہ مجھے پکارے گا اورمَیں اْسے جواب دوں گا۔مَیں مصیبت میں اْس کے ساتھ رہوں گا۔ مَیں اْسے چھڑاؤں گا اور عزت بخشوں گا۔

16۔ مَیں اْسے عمر کی درازی سے آسودہ کروں گا۔ اور اپنی نجات اْسے دکھاؤں گا۔

5. Psalm 91 : 1-16

1     He that dwelleth in the secret place of the most High shall abide under the shadow of the Almighty.

2     I will say of the Lord, He is my refuge and my fortress: my God; in him will I trust.

3     Surely he shall deliver thee from the snare of the fowler, and from the noisome pestilence.

4     He shall cover thee with his feathers, and under his wings shalt thou trust: his truth shall be thy shield and buckler.

5     Thou shalt not be afraid for the terror by night; nor for the arrow that flieth by day;

6     Nor for the pestilence that walketh in darkness; nor for the destruction that wasteth at noonday.

7     A thousand shall fall at thy side, and ten thousand at thy right hand; but it shall not come nigh thee.

8     Only with thine eyes shalt thou behold and see the reward of the wicked.

9     Because thou hast made the Lord, which is my refuge, even the most High, thy habitation;

10     There shall no evil befall thee, neither shall any plague come nigh thy dwelling.

11     For he shall give his angels charge over thee, to keep thee in all thy ways.

12     They shall bear thee up in their hands, lest thou dash thy foot against a stone.

13     Thou shalt tread upon the lion and adder: the young lion and the dragon shalt thou trample under feet.

14     Because he hath set his love upon me, therefore will I deliver him: I will set him on high, because he hath known my name.

15     He shall call upon me, and I will answer him: I will be with him in trouble; I will deliver him, and honour him.

16     With long life will I satisfy him, and shew him my salvation.



سائنس اور صح


1 . ۔ 228 :25۔27

خدا سے جدا کوئی طاقت نہیں ہے۔ قادر مطلق میں ساری طاقت ہے، اور کسی اور طاقت کو ماننا خدا کی بے حرمتی کرنا ہے۔

1. 228 : 25-27

There is no power apart from God. Omnipotence has all-power, and to acknowledge any other power is to dishonor God.

2 . ۔ 109 :32۔12

روح کی تین عظیم سچائیاں، قادر مطلق، ہر جا موجود، علام الغیوب، تمام طاقتیں رکھنے والا، ساری جگہ کو پر کرنے والا، ساری سائنس رکھنے والا روح ہمیشہ اِس عقیدے کی نفی کرتا ہے کہ مادہ اصل ہو سکتا ہے۔یہ ابدی سچائیاں خدا کی منور حقیقت کے طور پر ابتدائی وجودیت کا اظہار کرتی ہیں، جس میں وہ سب جو اْس نے بنایا ہے اْس کی نیک سیرت کے باعث واضح ہوتا ہے۔

لہٰذہ یوں ہوا کہ مَیں نے، جیسا کہ پہلے کبھی نہیں کیا، بدی کہلانے والی ہولناک غیر حقیقت پر غور کیا۔خداکی تساوی قوت ایک اور جلالی تجویز کو روشنی میں لائی، یعنی انسان کی کاملیت اورزمین پر آسمان کی بادشاہی کا استحکام۔

2. 109 : 32-12

The three great verities of Spirit, omnipotence, omnipresence, omniscience, — Spirit possessing all power, filling all space, constituting all Science, — contradict forever the belief that matter can be actual. These eternal verities reveal primeval existence as the radiant reality of God's creation, in which all that He has made is pronounced by His wisdom good.

Thus it was that I beheld, as never before, the awful unreality called evil. The equipollence of God brought to light another glorious proposition, — man's perfectibility and the establishment of the kingdom of heaven on earth.

3 . ۔ 194 :1 (دی)۔2

۔۔۔قادرِ مطلق روح کی طاقت مادے یا انسانی مرضی کے ساتھ اپنی قوت نہیں بانٹتی۔

3. 194 : 1 (the)-2

…the might of omnipotent Spirit shares not its strength with matter or with human will.

4 . ۔ 103 :15۔28، 32۔2

اچھائی کی حدلامتناہی خدا اور اْس کا خیال ہے، جو حاکم کل ہے۔ بدی فرضی جھوٹ ہے۔

جیسے کہ کرسچن سائنس میں نام دیا گیا ہے، حیوانی مقناطیسیت یا علم نومیات غلطی یا فانی عقل کے لئے خاص اصطلاح ہے۔ یہ ایک جھوٹا عقیدہ ہے کہ عقل مادے میں ہے اور کہ یہ اچھائی اور برائی دونوں ہے؛ کہ بدی اچھائی جتنی حقیقی اور زیادہ طاقتور ہے۔ اس عقیدے میں سچائی کی ایک بھی خصوصیت نہیں ہے۔ یہ یا توبے خبر ہے یا حاسدہے۔ نومیات کی حاسد شکل اخلاقی گراوٹ میں بنیاد رکھتی ہے۔لافانی عقل کی سچائیاں انسان کو قائم رکھتی ہیں، اور یہ فانی عقل کی داستانیں تباہ کرتی ہیں، جس کے چمکیلے بھڑکیلے دعوے، ایک نادان پروانے کی مانند، اپنے ہی پر جلا کر راکھ ہو جاتے ہیں۔

کرسچن سائنس میں، انسان کوئی نقصان نہیں دے سکتا، کیونکہ سائنسی خیالات حقیقی خیالات ہیں، جو خدا سے انسان میں منتقل ہوتے ہیں۔

4. 103 : 15-28, 32-2

The maximum of good is the infinite God and His idea, the All-in-all. Evil is a suppositional lie.

As named in Christian Science, animal magnetism or hypnotism is the specific term for error, or mortal mind. It is the false belief that mind is in matter, and is both evil and good; that evil is as real as good and more powerful. This belief has not one quality of Truth. It is either ignorant or malicious. The malicious form of hypnotism ultimates in moral idiocy. The truths of immortal Mind sustain man, and they annihilate the fables of mortal mind, whose flimsy and gaudy pretensions, like silly moths, singe their own wings and fall into dust.

In Christian Science, man can do no harm, for scientific thoughts are true thoughts, passing from God to man.

5 . ۔ 102 :1۔3، 30۔5

حیوانی مقناطیسیت کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے، کیونکہ جو کچھ حقیقی، ہم آہنگ اور ابدی ہے اْس سب پر خدا حکمرانی کرتا ہے اور اْس کی طاقت حیوانی ہے نہ انسانی۔

انسانیت کو یہ سیکھنا چاہئے کہ بدی کوئی طاقت نہیں ہے۔اس کی نام نہاد جبری حکومت عدم کے سوا کچھ نہیں۔کرسچن سائنس بدی کی سلطنت کو لوٹ لیتی ہے اور خاندانوں اسی طرح معاشرے میں امتیازی طور پر محبت اور نیکی کو فروغ دیتی ہے۔پولوس رسول بدی کے تجسم کا بطور ”اِس دنیا کی نیکی“ حوالہ دیتا ہے، اور آگے اِسے بطور بے ایمانی اور چالاکی واضح کرتا ہے۔ گناہ اسوریوں کے لئے چاند کا دیوتا تھا۔

5. 102 : 1-3, 30-5

Animal magnetism has no scientific foundation, for God governs all that is real, harmonious, and eternal, and His power is neither animal nor human.

Mankind must learn that evil is not power. Its so-called despotism is but a phase of nothingness. Christian Science despoils the kingdom of evil, and pre-eminently promotes affection and virtue in families and therefore in the community. The Apostle Paul refers to the personification of evil as "the god of this world," and further defines it as dishonesty and craftiness. Sin was the Assyrian moon-god.

6 . ۔ 186 :11۔22

بدی منفی ہے کیونکہ یہ سچائی کی غیر موجودگی ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ کچھ ہونے کی غیر موجودگی ہے۔ یہ غیر حقیقی ہے کیونکہ یہ خدا، قادرِ مطلق اور ہرجا موجود، کی پہلی سے قیاس شْدہ غیر موجودگی ہے۔ ہر بشر کو یہ سیکھنا چاہئے کہ بدی میں طاقت ہے نہ حقیقت۔

بدی خود ادعائی ہے۔ یہ کہتی ہے: ”مَیں حقیقی ہستی ہوں، نیکی کو مغلوب کرتی ہوں۔“ اِس جھوٹ کو بدی کے تمام تر دِکھاووں سے محروم کرنا چاہئے۔بدی میں صرف ایک خود کو تباہ کرنے کی طاقت ہے۔یہ اچھائی کا ذرا سا تِنکا بھی کبھی تباہ نہیں کرسکتی۔اچھائی کو تباہ کرنے کی بدی کی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے، اور یہ صرف عارضی طور پر بدی کرنے والے کو سزا دینے میں مدد دیتی ہے۔

6. 186 : 11-22

Evil is a negation, because it is the absence of truth. It is nothing, because it is the absence of something. It is unreal, because it presupposes the absence of God, the omnipotent and omni-present. Every mortal must learn that there is neither power nor reality in evil.

Evil is self-assertive. It says: "I am a real entity, overmastering good." This falsehood should strip evil of all pretensions. The only power of evil is to destroy itself. It can never destroy one iota of good. Every attempt of evil to destroy good is a failure, and only aids in peremptorily punishing the evil-doer.

7 . ۔ 95 :28۔ 25 (صفحہ 97)

بد بخت فریب النظری کے باعث خاموش رہ کر،کئی گھنٹوں تک خواب دیکھتے ہوئے، دنیا بچپن کے جھولے میں سو رہی ہے۔مادی فہم وجودیت کے حقائق کو اجاگر نہیں کرتا؛ بلکہ روحانی فہم انسانی شعور کو ابدی سچائی میں بلند کرتا ہے۔انسانیت روحانی سمجھ میں گناہ کے فہم سے آہستہ آہستہ باہر نکلتی ہے؛ سب باتوں کو بہتر سمجھنے کے لئے ناپسندیدگی مسیحی مملکت کو زنجیروں میں جکڑتی ہے۔

محبت بالاآخر ہم آہنگی کا وقت مقرر کرے گی، اور روحانیت اِس کی پیروی کرے گی، کیونکہ محبت روح ہے۔غلطی کے مکمل تباہ ہونے سے قبل عام مادی معمول کی مداخلتیں ہوں گی۔ زمین بے لْطف اور ویران ہو جائے گی، مگرموسمِ گرما اور سرما، تخم ریزی اور کاشت (البتہ بدلتے حالات میں)، آخر تک جاری رہیں گے، جب تک سب چیزیں کی روحانیت نہ ہو جائے۔”تاریک گھڑی فجرسے پہلے ہوتی ہے۔“

اب یہ مادی دنیا بھی متصادم قوتوں کا اکھاڑا بن رہی ہے۔ایک طرف تو یہاں مخالفت اور مایوسی ہوگی؛ جبکہ دوسری طرف یہاں سائنس اور امن ہوگا۔ مادی عقائد کی منسوخی گناہ، بیماری اور موت کے قحط اور وبا، خواہش اور افسوس کے ساتھ دیکھی جاسکے گی جو اپنے عدم کے ظاہر ہونے تک نئے ادوار کو قبول کرتے ہیں۔یہ پریشانیاں غلطی کے خاتمے تک جاری رہیں گی، جب پوری مخالفت روحانی سچائی سے ہڑپ کر لی جائے گی۔

بشری غلطی ایک اخلاقی کیمیائی عمل میں غائب ہوجائے گی۔ یہ ذہنی ابال شروع ہو چکا ہے،اور یہ تب تک جاری رہے گا جب تک ایمان کی تمام تر غلطیاں فہم کو تسلیم نہ کرلیں۔ایمان قابل تبدیل ہے، مگر روحانی فہم ناقابل تبدیل ہے۔

جیسے ہی یہ تکمیل قریب تر ہوتی جائے گی، وہ جس نے اپنے چال چلن کو الٰہی سائنس کے مطابق ڈھال لیاہے وہ آخر تک مقابلہ کرے گا۔ جب مادی علم ختم ہوتا اور روحانی سمجھ بڑھتی ہے، تو مادی کی بجائے ذہنی طور پر حقیقی چیزوں پر دھیان دیا جاتا ہے۔

اِس آخری تصادم کے دوران، بدکارذہن ایسے وسائل تلاش کرنے کی کوشش میں ہوں گے جن سے وہ مزید بدی مکمل کر سکیں؛ مگر وہ جو کرسچن سائنس کا ادراک رکھتے ہیں وہ جرم میں رکاوٹیں لائیں گے۔ وہ غلطی کے خاتمے میں مددکریں گے۔ وہ امن و امان کو برقرار رکھیں گے، اور وہ حتمی کاملیت کے یقینی ہونے کا خوشی کے ساتھ انتظار کریں گے۔

حقیقت میں، جتنی زیادہ قربت کے ساتھ غلطی سچائی کی نقل کرتی ہے اور نام نہاد مادا اس کے جوہر، فانی عقل، سے مشابہت رکھتا ہے اتنی ہی کمزور غلطی ایک عقیدے کے طور پر سامنے آتی ہے۔انسانی عقیدے کے مطابق، روشنی شدید اور برقی کرنٹ کی تیزی ہے، تاہم کرسچن سائنس میں ایک کی اڑان اور دوسرے کی نمود بے ضرر بنے گی۔جتنا زیادہ مادا تباہ کن بنتا ہے، اتنا ہی اِس کا عدم ظاہر ہوگا، جب تک کہ مادا فریب نظری میں اِس کے فانی زوال تک نہیں پہنچتا اور ہمیشہ کے لئے غائب نہیں ہو جاتا۔اْس حدود کے بغیر جہاں، الٰہی محبت کے وسیلہ تباہ ہوتے ہوئے، ایک جھوٹا عقیدہ ایک فریب نظری ہونا ترک کرتے ہوئے، جتنا سچائی کے قریب تر ہوتا جاتا ہے، اتنا ہی یہ تباہی کے لئے پکتا جاتا ہے۔

جتنا زیادہ عقیدہ مادی ہوگا، اتنا ہی واضح اِس کی غلطی ہوگی، جب تک کہ الٰہی روح، اپنی سلطنت میں اعلیٰ ترین، سارے مادے پر غالب نہیں آتی، اور انسان روح کی شبیہ، اپنی اصل ہستی، میں نہیں پایا جاتا۔

وسیع تر حقائق خود کے خلاف بڑی غلطیاں ترتیب دیتے ہیں، کیونکہ وہ خفیہ طور پر غلطی کو لاتے ہیں۔سچ بولنے کے لئے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ سچائی جتنی زیادہ اپنی آواز بلند کرتی ہے، غلطی کی چیخ اْتنی ہی اونچی ہوگی، جب تک کہ فراموشی میں اِس کی غیر واضح آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش نہ کر دیا جائے۔

7. 95 : 28 – 25 (pg. 97)

Lulled by stupefying illusions, the world is asleep in the cradle of infancy, dreaming away the hours. Material sense does not unfold the facts of existence; but spiritual sense lifts human consciousness into eternal Truth. Humanity advances slowly out of sinning sense into spiritual understanding; unwillingness to learn all things rightly, binds Christendom with chains.

Love will finally mark the hour of harmony, and spiritualization will follow, for Love is Spirit. Before error is wholly destroyed, there will be interruptions of the general material routine. Earth will become dreary and desolate, but summer and winter, seedtime and harvest (though in changed forms), will continue unto the end, — until the final spiritualization of all things. "The darkest hour precedes the dawn."

This material world is even now becoming the arena for conflicting forces. On one side there will be discord and dismay; on the other side there will be Science and peace. The breaking up of material beliefs may seem to be famine and pestilence, want and woe, sin, sickness, and death, which assume new phases until their nothingness appears. These disturbances will continue until the end of error, when all discord will be swallowed up in spiritual Truth.

Mortal error will vanish in a moral chemicalization. This mental fermentation has begun, and will continue until all errors of belief yield to understanding. Belief is changeable, but spiritual understanding is changeless.

As this consummation draws nearer, he who has shaped his course in accordance with divine Science will endure to the end. As material knowledge diminishes and spiritual understanding increases, real objects will be apprehended mentally instead of materially.

During this final conflict, wicked minds will endeavor to find means by which to accomplish more evil; but those who discern Christian Science will hold crime in check. They will aid in the ejection of error. They will maintain law and order, and cheerfully await the certainty of ultimate perfection.

In reality, the more closely error simulates truth and so-called matter resembles its essence, mortal mind, the more impotent error becomes as a belief. According to human belief, the lightning is fierce and the electric current swift, yet in Christian Science the flight of one and the blow of the other will become harmless. The more destructive matter becomes, the more its nothingness will appear, until matter reaches its mortal zenith in illusion and forever disappears. The nearer a false belief approaches truth without passing the boundary where, having been destroyed by divine Love, it ceases to be even an illusion, the riper it becomes for destruction. The more material the belief, the more obvious its error, until divine Spirit, supreme in its domain, dominates all matter, and man is found in the likeness of Spirit, his original being.

The broadest facts array the most falsities against themselves, for they bring error from under cover. It requires courage to utter truth; for the higher Truth lifts her voice, the louder will error scream, until its inarticulate sound is forever silenced in oblivion.

8 . ۔ 473 :7۔10

الٰہی اصول ہر جا موجود اور قادرِمطلق ہے۔خدا ہر جگہ موجود ہے اور اْس سے جْدا کوئی موجود نہیں ہے یا کوئی طاقت نہیں ہے۔

8. 473 : 7-10

The God-principle is omnipresent and omnipotent. God is everywhere, and nothing apart from Him is present or has power.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔