اتوار 28فروری،2021



مضمون۔ مسیح یسوع

SubjectChrist Jesus

سنہری متن: یوحنا 16 باب33 آیت

”دنیا میں مصیبت اٹھاتے ہو، لیکن خاطر جمع رکھو مَیں دنیا پر غالب آیا ہوں۔“۔ مسیح یسوع



Golden Text: John 16 : 33

In the world ye shall have tribulation: but be of good cheer; I have overcome the world.”– Christ Jesus





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: یوحنا 3 باب17 آیت • 1یوحنا 2 باب 15تا17 آیات • 1 یوحنا 5 باب 4، 5، 20 آیات


17۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اِس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزاکا حکم کرے بلکہ اِس لئے کہ دنیا اْس کے وسیلہ سے نجات پائے۔

15۔ نہ دنیا سے محبت رکھو نہ اْن چیزوں سے جو دنیا میں ہیں۔ جو کوئی دنیا سے محبت رکھتا ہے اْس میں باپ کی محبت نہیں۔

16۔ کیونکہ جو کچھ دنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی طرف سے ہے۔

17۔ دنیا اور اْس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔

4۔ جو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے وہ دنیا پر غالب آتا ہے اور وہ غلبہ جس سے دنیا مغلوب ہوئی ہے ہمارا ایمان ہے۔

5۔ دنیا کا مغلوب کرنے والا کون ہے سوا اْس شخص کے جس کا ایمان ہے کہ یسوع خدا کا بیٹا ہے۔

20۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا آگیا ہے اور اْس نے ہمیں سمجھ بخشی ہے تاکہ اْس کو جو حقیقی ہے جانیں اور ہم اْس میں جو حقیقی ہے یعنی اْس کے بیٹے یسوع مسیح میں حقیقی ہیں۔حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے۔

Responsive Reading: John 3 : 17 ; I John 2 : 15-17 ; I John 5 : 4, 5, 20

17.     For God sent not his Son into the world to condemn the world; but that the world through him might be saved.

15.     Love not the world, neither the things that are in the world. If any man love the world, the love of the Father is not in him.

16.     For all that is in the world, the lust of the flesh, and the lust of the eyes, and the pride of life, is not of the Father, but is of the world.

17.     And the world passeth away, and the lust thereof: but he that doeth the will of God abideth for ever.

4.     For whatsoever is born of God overcometh the world: and this is the victory that overcometh the world, even our faith.

5.     Who is he that overcometh the world, but he that believeth that Jesus is the Son of God?

20.     And we know that the Son of God is come, and hath given us an understanding, that we may know him that is true, and we are in him that is true, even in his Son Jesus Christ. This is the true God, and eternal life.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ یوحنا 1 باب1، 4، 9، 10، 12، 13 آیات

1۔ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔

4۔ اْس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔

9۔ حقیقی نورجو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے دنیا میں آنے کو تھا۔

10۔ وہ دنیا میں تھا اور دنیا اْس کے وسیلہ سے پید اہوئی اور دنیا نے اْسے نہ پہچانا۔

12۔ لیکن جتنوں نے اْسے قبول کیا اْس نے اْنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اْنہیں جو اْس کے نام پر ایمان لاتے ہیں۔

13۔ وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔

1. John 1 : 1, 4, 9, 10, 12, 13

1     In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God.

4     In him was life; and the life was the light of men.

9     That was the true Light, which lighteth every man that cometh into the world.

10     He was in the world, and the world was made by him, and the world knew him not.

12     But as many as received him, to them gave he power to become the sons of God, even to them that believe on his name:

13     Which were born, not of blood, nor of the will of the flesh, nor of the will of man, but of God.

2۔ متی 11 باب2تا6 آیات

2۔ اور یوحنا نے قید خانہ میں مسیح کے کاموں کا حال سْن کر اپنے شاگردوں کی معرفت اْس سے پْچھوا بھیجا۔

3۔ کہ آنے والا تْو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟

4۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا جو کچھ تم دیکھتے اور سْنتے ہو جا کر یوحنا سے بیان کر دو۔

5۔ کہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے پھرتے ہیں۔ کوڑھی پاک صاف کئے جاتے ہیں اور بہرے سْنتے اور مردے زندہ کئے جاتے ہیں اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے۔

6۔ اور مبارک ہے وہ جومیرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔

2. Matthew 11 : 2-6

2     Now when John had heard in the prison the works of Christ, he sent two of his disciples,

3     And said unto him, Art thou he that should come, or do we look for another?

4     Jesus answered and said unto them, Go and shew John again those things which ye do hear and see:

5     The blind receive their sight, and the lame walk, the lepers are cleansed, and the deaf hear, the dead are raised up, and the poor have the gospel preached to them.

6     And blessed is he, whosoever shall not be offended in me.

3۔ متی 13 باب1تا8، 10، 13 (باتیں کرتا ہوں)، 15، 20 (پہلا وہ) تا 23 آیات

1۔ اْسی روز یسوع گھر سے نکل کر جھیل کے کنارے جا بیٹھا۔

2۔ اور اْس کے پاس ایسی بڑی بھیڑ جمع ہو گئی کہ وہ کشتی پر چڑھ بیٹھا اور ساری بھیڑ کنارے پر کھڑی رہی۔

3۔ اور اْس نے اْن سے بہت سی باتیں تمثیلوں میں کہیں کہ دیکھو ایک بیج بونے والا بیج بونے نکلا۔

4۔ اور بوتے وقت کچھ دانے راہ کے کنارے گرے اور پرندوں نے آکر اْنہیں چْگ لیا۔

5۔ اور کچھ پتھریلی زمین پر گرے جہاں اْن کو بہت مٹی نہ ملی اور گہری مٹی نہ ملنے کے سبب سے جلد اْگ آئے۔

6۔ اور جب سورج نکلا تو جل گئے اور جڑ نہ ہونے کے سبب سے سوکھ گئے۔

7۔ اور کچھ جھاڑیوں میں گرے اور جھاڑیوں نے بڑھ کر اْن کو دبا لیا۔

8۔ اور کچھ اچھی زمین میں گر ے اور پھل لائے۔ کچھ سو گنا کچھ ساٹھ گنا کچھ تیس گنا۔

10۔ شاگردوں نے پاس آکر اْس سے کہا کہ تْو اْن سے تمثیلوں میں باتیں کیوں کرتا ہے؟

13۔۔۔۔مَیں اْن سے تمثیلوں میں اِس لئے باتیں کرتا ہوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے اور نہیں سمجھتے۔

15۔ کیونکہ اِس امت کے دل پر چربی چھا گئی ہے اور وہ کانوں سے اونچا سنتے ہیں اور اْنہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ہیں تا ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کریں اور کانوں سے سنیں اور دل سے سمجھیں اور رجوح لائیں اور مَیں اْن کو شفا دوں۔

20۔۔۔۔جو پتھریلی زمین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور فی الفور خوشی سے قبول کر لیتا ہے۔

21۔ لیکن اپنے اندر جڑ نہیں رکھتا بلکہ چند روزہ ہے اور جب کلام کے سبب سے مصیبت یا ظلم برپا ہوتا ہے تو فی الفور ٹھوکر کھاتا ہے۔

22۔ اور جو جھاڑیوں میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور دنیا کی فکر اور دولت کا فریب اْس کلام کو دبا دیتا ہے اور وہ بے پھل رہ جاتا ہے۔

23۔ اور جو اچھی زمین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا اور سمجھتا ہے اور پھل بھی لاتا ہے۔ کوئی سو گنا پھلتا ہے کوئی ساٹھ گنا کوئی تیس گنا۔

3. Matthew 13 : 1-8, 10, 13 (speak), 15, 20 (1st he)-23

1     The same day went Jesus out of the house, and sat by the sea side.

2     And great multitudes were gathered together unto him, so that he went into a ship, and sat; and the whole multitude stood on the shore.

3     And he spake many things unto them in parables, saying, Behold, a sower went forth to sow;

4     And when he sowed, some seeds fell by the way side, and the fowls came and devoured them up:

5     Some fell upon stony places, where they had not much earth: and forthwith they sprung up, because they had no deepness of earth:

6     And when the sun was up, they were scorched; and because they had no root, they withered away.

7     And some fell among thorns; and the thorns sprung up, and choked them:

8     But other fell into good ground, and brought forth fruit, some an hundredfold, some sixtyfold, some thirtyfold.

10     And the disciples came, and said unto him, Why speakest thou unto them in parables?

13     …speak I to them in parables: because they seeing see not; and hearing they hear not, neither do they understand.

15     For this people’s heart is waxed gross, and their ears are dull of hearing, and their eyes they have closed; lest at any time they should see with their eyes, and hear with their ears, and should understand with their heart, and should be converted, and I should heal them.

20     …he that received the seed into stony places, the same is he that heareth the word, and anon with joy receiveth it;

21     Yet hath he not root in himself, but dureth for a while: for when tribulation or persecution ariseth because of the word, by and by he is offended.

22     He also that received seed among the thorns is he that heareth the word; and the care of this world, and the deceitfulness of riches, choke the word, and he becometh unfruitful.

23     But he that received seed into the good ground is he that heareth the word, and understandeth it; which also beareth fruit, and bringeth forth, some an hundredfold, some sixty, some thirty.

4۔ متی 16 باب13تا17، 21تا23، 24 (اگر) تا 26 (تا پہلا؟) آیات

13۔ جب یسوع قیصریہ فلپی کے علاقے میں آیا تو اْس نے اپنے شاگردوں سے یہ پوچھا کہ لوگ ابن آدم کو کیا کہتے ہیں؟

14۔ اْنہوں نے کہا بعض یوحنا بپتسمہ دینے والا کہتے ہیں بعض ایلیاہ بعض یرمیاہ بعض نبیوں میں سے کوئی۔

15۔ اْس نے اْن سے کہا مگر تم مجھے کیا کہتے ہو؟

16۔ شمعون پطرس نے جواب میں کہا تْو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔

17۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا مبارک ہے تْو شمعون بر یوناہ کیونکہ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے۔

21۔ اْس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اْسے ضرور ہے کہ یروشلیم کو جائے اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دْکھ اٹھائے اور قتل کیا جائے اور تیسرے دن جی اٹھے۔

22۔ اِس پر پطرس اْس کو الگ لے جا کر ملامت کرنے لگا کہ اے خداوند، خدا نہ کرے۔ یہ تجھ پر ہر گز نہیں آنے کا۔

23۔ اْس نے پھر کر پطرس سے کہا اے شیطان میرے سامنے سے دور ہو۔ تْو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے کیونکہ تْو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتاہے۔

24۔ اْس وقت یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔

25۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اْسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا اْسے پائے گا۔

26۔ اور اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اٹھائے تو اْسے کیا فائدہ ہوگا؟

4. Matthew 16 : 13-17, 21-23, 24 (If)-26 (to 1st ?)

13     When Jesus came into the coasts of Cæsarea Philippi, he asked his disciples, saying, Whom do men say that I the Son of man am?

14     And they said, Some say that thou art John the Baptist: some, Elias; and others, Jeremias, or one of the prophets.

15     He saith unto them, But whom say ye that I am?

16     And Simon Peter answered and said, Thou art the Christ, the Son of the living God.

17     And Jesus answered and said unto him, Blessed art thou, Simon Bar-jona: for flesh and blood hath not revealed it unto thee, but my Father which is in heaven.

21     From that time forth began Jesus to shew unto his disciples, how that he must go unto Jerusalem, and suffer many things of the elders and chief priests and scribes, and be killed, and be raised again the third day.

22     Then Peter took him, and began to rebuke him, saying, Be it far from thee, Lord: this shall not be unto thee.

23     But he turned, and said unto Peter, Get thee behind me, Satan: thou art an offence unto me: for thou savourest not the things that be of God, but those that be of men.

24     If any man will come after me, let him deny himself, and take up his cross, and follow me.

25     For whosoever will save his life shall lose it: and whosoever will lose his life for my sake shall find it.

26     For what is a man profited, if he shall gain the whole world, and lose his own soul?

5۔ یوحنا 6 باب63 (جو باتیں)، 64(تا پہلا)، 66تا69 آیات

63۔۔۔۔ جو باتیں مَیں نے تم سے کہی ہیں وہ روح ہیں اور زندگی بھی۔

64۔ مگر تم میں سے بعض ایسے ہیں جو ایمان نہیں لائے۔

66۔ اِس پر اْس کے شاگردوں میں سے بہتیرے اْلٹے پھرے اور اِس کے بعد اْس کے ساتھ نہ رہے۔

67۔ پس یسوع نے اْن بارہ سے کہا کیا تم بھی چلے جانا چاہتے ہو؟

68۔ شمعون پطرس نے اْسے جواب دیا اے خداوند! ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔

69۔ اور ہم ایمان لائے اور جان گئے ہیں کہ خدا کا قدوس تْو ہی ہے۔

5. John 6 : 63 (the words), 64 (to 1st .), 66-69

63     …the words that I speak unto you, they are spirit, and they are life.

64     But there are some of you that believe not.

66     From that time many of his disciples went back, and walked no more with him.

67     Then said Jesus unto the twelve, Will ye also go away?

68     Then Simon Peter answered him, Lord, to whom shall we go? thou hast the words of eternal life.

69     And we believe and are sure that thou art that Christ, the Son of the living God.

6۔ کلسیوں 2 باب6تا8، 10 (تم)، 14، 15، 20 تا22 آیات

6۔ پس جس طرح تم نے مسیح یسوع خداوند کو قبول کیا اْسی طرح اْس میں چلتے رہو۔

7۔ اور اْس میں جڑ پکڑتے اور تعمیر ہوتے جاؤ اور جس طرح تم نے تعلیم پائی اْسی طرح ایمان میں مظبوط رہو اور خوب شکر گزاری کیا کرو۔

8۔ خبردار کوئی تم کو اْس فلسفی اور لاحاصل فریب سے شکار نہ کرلے جو انسانوں کی روایت اور دنیوی ابتدائی باتوں کے موافق ہیں نہ کہ مسیح کے موافق۔

10۔۔۔۔تم اْس میں معمور ہو گئے ہو جو ساری حکومت اور اختیار کا سر ہے۔

14۔ اور حکموں کی وہ دستاویز مٹا ڈالی جو ہمارے نام پر اور ہمارے خلاف تھی اور اْس کو صلیب پر کیلوں سے جڑ کر سامنے سے ہٹا دیا۔

15۔ اْس نے حکومتوں اورا ختیاروں کو اپنے اوپر سے اْتار کر اْن کا برملا تماشہ بنایا اور صلیب کے سبب سے اْن پر فتح یابی کا شادیانہ بجایا۔

20۔ جب تم مسیح کے ساتھ دنیوی ابتدائی باتوں کی طرف سے مر گئے تو پھر اْن کی مانند جو دنیا میں زندگی گزارتے ہیں انسانی احکام اور تعلیم کے موافق ایسے قاعدوں کے کیوں پابند ہوتے ہو۔

21۔ کہ اِسے نہ چھونا۔ اْسے نہ چکھنا۔ اْسے ہاتھ نہ لگانا۔

22۔( کیونکہ یہ سب چیزیں کام میں لاتے لاتے فنا ہو جائیں گی)؟

6. Colossians 2 : 6-8, 10 (ye), 14, 15, 20-22

6     As ye have therefore received Christ Jesus the Lord, so walk ye in him:

7     Rooted and built up in him, and stablished in the faith, as ye have been taught, abounding therein with thanksgiving.

8     Beware lest any man spoil you through philosophy and vain deceit, after the tradition of men, after the rudiments of the world, and not after Christ.

10     …ye are complete in him, which is the head of all principality and power:

14     Blotting out the handwriting of ordinances that was against us, which was contrary to us, and took it out of the way, nailing it to his cross;

15     And having spoiled principalities and powers, he made a shew of them openly, triumphing over them in it.

20     Wherefore if ye be dead with Christ from the rudiments of the world, why, as though living in the world, are ye subject to ordinances,

21     (Touch not; taste not; handle not;

22     Which all are to perish with the using;) after the commandments and doctrines of men?

7۔ کلسیوں 3باب1، 24 آیات

1۔ پس جب تم مسیح کے ساتھ جلائے گئے تو عالم بالا کی چیزوں کی تلاش میں رہو جہاں مسیح موجود ہے اور خدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے۔

24۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ خداوند کی طرف سے اِس کے بدلہ میں تم کو میراث ملے گی۔ تم خداوند مسیح کی خدمت کرتے ہو۔

7. Colossians 3 : 1, 24

1     If ye then be risen with Christ, seek those things which are above, where Christ sitteth on the right hand of God.

24     Knowing that of the Lord ye shall receive the reward of the inheritance: for ye serve the Lord Christ.



سائنس اور صح


1۔ 333 :16 (دی)۔23

یسوع ناصری کی آمد مسیحی دور کی پہلی صدی کا احاطہ کرتی ہے، لیکن مسیح ابتدائی برسوں یا آخری ایام کی قید سے مبرا ہے۔ مسیحی دورسے پیشتر اور بعد ازاں نسل در نسل مسیح بطور روحانی خیال، بطور خدا کے سایہ، اْن لوگوں کے لئے کچھ خاص طاقت اور فضل کے ساتھ آیا جو مسیح، یعنی سچائی کو حاصل کرنے کے لئے تیار تھے۔

1. 333 : 16 (The)-23

The advent of Jesus of Nazareth marked the first century of the Christian era, but the Christ is without beginning of years or end of days. Throughout all generations both before and after the Christian era, the Christ, as the spiritual idea, — the reflection of God, — has come with some measure of power and grace to all prepared to receive Christ, Truth.

2۔ 583 :10۔11

مسیح۔ خدا کا الٰہی اظہار، جو مجسم غلطی کو نیست کرنے کے لئے بدن کی صورت میں آتا ہے۔

2. 583 : 10-11

Christ. The divine manifestation of God, which comes to the flesh to destroy incarnate error.

3۔ 589 :16۔18

یسوع۔ الٰہی خیال کا بلند ترین انسانی جسمانی تصور، غلطی کو ملامت کرتے اور نیست کرتے ہوئے اور انسانی لافانیت کو روشنی میں لاتے ہوئے۔

3. 589 : 16-18

Jesus. The highest human corporeal concept of the divine idea, rebuking and destroying error and bringing to light man's immortality.

4۔ 131 :22۔29

ماضی کی مانند، مسیح کا روح، جو انسانی عقائد اور رسوم کو دور کر دیتا ہے، تب تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک انسان کے دل اْس کے لئے تیار نہیں کئے جاتے۔

یسوع کے مشن نے پیشن گوئی کی تصدیق کی اور پرانے زمانے کے نام نہاد معجزے کی وضاحت کی جیسے کہ الٰہی قوت کے قدرتی اظہار تھے، وہ اظہار جنہیں سمجھا نہیں گیا تھا۔

4. 131 : 22-29

As aforetime, the spirit of the Christ, which taketh away the ceremonies and doctrines of men, is not accepted until the hearts of men are made ready for it.

The mission of Jesus confirmed prophecy, and explained the so-called miracles of olden time as natural demonstrations of the divine power, demonstrations which were not understood.

5۔ 132 :10 (وہ)۔13

۔۔۔اْس نے اپنی دعائے خیر کسی ایسے شخص کو دی جسے اِس سے انکار نہیں کرنا چاہئے کہ ایسے اثرات، جو الٰہی عقل سے آتے ہیں، خدا کی یکجہتی کو ثابت کرتے ہیں، یعنی وہ الٰہی اصول جو ساری ہم آہنگی لاتا ہے۔

5. 132 : 10 (he)-13

…he gave his benediction to any one who should not deny that such effects, coming from divine Mind, prove the unity of God, — the divine Principle which brings out all harmony.

6۔ 379 :6۔8

الٰہی عقل میں مقرر کردہ ہر اثر کو قابو میں کرتے ہوئے اور ساری وجہ کو پہچانتے ہوئے،دنیا کا حقیقی اختیار عقل میں ہے۔

6. 379 : 6-8

The real jurisdiction of the world is in Mind, controlling every effect and recognizing all causation as vested in divine Mind.

7۔ 136 :32۔11

یسوع صبر کے ساتھ اور سچائی کی ہستی کو ظاہر کرتے ہوئے اپنی تعلیم پر قائم رہا۔ اْس کے طالب علموں نے سچائی کی اِس طاقت کو بیمار کو شفا دیتے، بد روح کو نکالتے اور مردہ کو زندہ کرتے ہوئے دیکھا، مگر اِس عجیب کام کی کاملیت روحانی طور پر قبول نہیں کی گئی، حتیٰ کہ اْن کی جانب سے بھی، صلیب پر چڑھائے جانے کے بعد تک، جب اْن کا بیداغ استاد اْن کے سامنے کھڑا تھا، جو بیماری، گناہ اور عارضے، موت اور قبر پر فتح مند ہوئے۔

سمجھے جانے کی خواہش کرتے ہوئے مالک نے یہ بات دوہرائی کہ ”مگر تم مجھے کیا کہتے ہیں؟“ اِس تجدید شْدہ سوال کا مطلب یہ ہے: کون اور کیا ہے جو یہ کام کرنے کے قابل ہے، جومعروف عقل کے لئے نہایت پراسرار ہے؟

7. 136 : 32-11

Jesus patiently persisted in teaching and demonstrating the truth of being. His students saw this power of Truth heal the sick, cast out evil, raise the dead; but the ultimate of this wonderful work was not spiritually discerned, even by them, until after the crucifixion, when their immaculate Teacher stood before them, the victor over sickness, sin, disease, death, and the grave.

Yearning to be understood, the Master repeated, "But whom say ye that I am?" This renewed inquiry meant: Who or what is it that is able to do the work, so mysterious to the popular mind?

8۔ 137 :16۔21

اپنی عمومی سختی کے ساتھ، شمعون نے اپنے بھائیوں کے لئے جواب دیا، اور اْس کے جواب نے ایک بڑی حقیقت کو قائم کیا: ”تْو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے!“ یعنی: مسیحا وہ ہے جسے تْو نے ظاہر کیا، مسیح، خدا کا، سچائی کا، زندگی اور محبت کا روح، جو ذہنی طور پر شفا دیتا ہے۔

8. 137 : 16-21

With his usual impetuosity, Simon replied for his brethren, and his reply set forth a great fact: "Thou art the Christ, the Son of the living God!" That is: The Messiah is what thou hast declared, — Christ, the spirit of God, of Truth, Life, and Love, which heals mentally.

9۔ 350 :16۔18

مالک نے اکثر اپنے کلام کی وضاحت کرنے سے انکار کیا، کیونکہ ایک مادی دور میں روحانی سچائی کو سمجھنا خاصا کٹھن کام تھا۔

9. 350 : 16-18

The Master often refused to explain his words, because it was difficult in a material age to apprehend spiritual Truth.

10۔ 38 :26۔32

جو لوگ صرف اپنی خوشی اور حواس کی تسکین میں جیتے ہوئے گناہ پر یقین کرتے اور خودی میں دفن ہیں اْن کے لئے اْس نے مادیت میں کہا: آنکھیں ہیں پر تم دیکھتے نہیں، کان ہیں پر تم سنتے نہیں؛ کہ کہیں تم دل سے رجوح لے آؤ اور باز آؤ اور میں تمہیں شفا دوں۔ اْس نے تعلیم دی کہ مادی حواس سچائی کواور اْس کی شفائیہ قوت کو خاموش کرتے ہیں۔

10. 38 : 26-32

To those buried in the belief of sin and self, living only for pleasure or the gratification of the senses, he said in substance: Having eyes ye see not, and having ears ye hear not; lest ye should understand and be converted, and I might heal you. He taught that the material senses shut out Truth and its healing power.

11۔ 27 :17۔32

یسوع کی تماثیل زندگی کی وضاحت کرتی ہیں جو کبھی گناہ اور موت سے ملاوٹ زدہ نہیں ہوتی۔اْس نے سائنس کا کلہاڑا مادی علم کی جڑ پر رکھا ہے، تاکہ یہ شرک کے جھوٹے عقیدے کو کاٹنے کے لئے تیار رہے کہ خدا یا زندگی مادے کی یا مادے میں ہے۔

یسوع نے ایک ہی وقت میں ستر لوگوں کو بھیجا، لیکن صرف بارہ ہی مطلوبہ تاریخی ریکارڈ بنا سکے۔ روایت اْس کے سر پر دو یا تین سو شاگردوں کا سہرا باندھتی ہے جن کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ ”بلائے ہوئے توبہت ہیں مگر برگزیدہ تھوڑے ہیں۔“وہ فضل سے دور ہو گئے کیونکہ انہوں نے حقیقت میں اپنے مالک کی ہدایت کو نہیں سمجھا تھا۔

وہ لوگ جو مسیح کی پیروی کرنے کا اقرار کرتے ہیں اْس ابتدائی مذہب کو رد کردیتے ہیں جو اْس نے قائم کیا؟ یسوع کو اذیت دینے والے اِسی خاص نقطے پراپنا مظبوط ترین حملہ کرتے تھے۔اْنہوں نے مادے کے رحم و کرم پر اْسے پکڑنے کی اور چند خاص فرضی مادی قوانین کے مطابق اْسے قتل کرنے کی کوشش کی۔

11. 27 : 17-32

Jesus' parables explain Life as never mingling with sin and death. He laid the axe of Science at the root of material knowledge, that it might be ready to cut down the false doctrine of pantheism, — that God, or Life, is in or of matter.

Jesus sent forth seventy students at one time, but only eleven left a desirable historic record. Tradition credits him with two or three hundred other disciples who have left no name. "Many are called, but few are chosen." They fell away from grace because they never truly understood their Master's instruction.

Why do those who profess to follow Christ reject the essential religion he came to establish? Jesus' persecutors made their strongest attack upon this very point. They endeavored to hold him at the mercy of matter and to kill him according to certain assumed material laws.

12۔ 210 :5۔10

مسیحت کا اصول اور ثبوت روحانی فہم کے وسیلہ سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں یسوع کے اظہاروں کے سامنے رکھا جاتا ہے، اْس کے بیمار کو شفا دینے، بدروحوں کو نکالنے اور اْس موت یعنی جو ”سب سے پچھلا دْشمن ہے جسے نیست کیا جائے گا“، اِسے تباہ کرنے کے وسیلہ مادے اور اِس کے نام نہاد قوانین کے لئے اْس کی لاپروائی دکھاتے ہیں۔

12. 210 : 5-10

The Principle and proof of Christianity are discerned by spiritual sense. They are set forth in Jesus' demonstrations, which show — by his healing the sick, casting out evils, and destroying death, "the last enemy that shall be destroyed," — his disregard of matter and its so-called laws.

13۔ 230 :1۔10

اگر بیماری حقیقی ہے تو یہ لافانیت سے تعلق رکھتی ہے؛ اگر سچی ہے تو یہ سچائی کا حصہ ہے۔ منشیات کے ساتھ یا بغیر کیاآپ سچائی کی حالت یا خصوصیت کو تباہ کریں گے؟ لیکن اگر گناہ اور بیماری بھرم ہیں، اس فانی خواب یا بھرم سے بیدار ہونا ہمیں صحتمندی، پاکیزگی اور لافانیت مہیا کرتا ہے۔یہ بیداری مسیح کی ہمیشہ آمد ہے، سچائی کا پیشگی ظہور، جو غلطی کو باہر نکالتا اور بیمار کو شفا دیتا ہے۔ یہ وہ نجات ہے جو خدا، الٰہی اصول،اْس محبت کے وسیلہ ملتی ہے جسے یسوع نے ظاہر کیا۔

13. 230 : 1-10

If sickness is real, it belongs to immortality; if true, it is a part of Truth. Would you attempt with drugs, or without, to destroy a quality or condition of Truth? But if sickness and sin are illusions, the awakening from this mortal dream, or illusion, will bring us into health, holiness, and immortality. This awakening is the forever coming of Christ, the advanced appearing of Truth, which casts out error and heals the sick. This is the salvation which comes through God, the divine Principle, Love, as demonstrated by Jesus.

14۔ 442 :19 (جب)۔22

جب مسیح گناہ پر ایک یقین یا بیماری پر ایک یقین کو بہتر ایمان میں تبدیل کرتا ہے، تو یقین روحانی فہم میں بدل جاتا ہے، اور گناہ، بیماری اور موت غائب ہو جاتے ہیں۔

14. 442 : 19 (When)-22

When Christ changes a belief of sin or of sickness into a better belief, then belief melts into spiritual understanding, and sin, disease, and death disappear.

15۔ 494 :30۔3

ہمارے مالک نے بدروحوں (برائیوں) کو نکالا اور بیمار کو شفا دی۔ یہ اْس کے پیروکاروں کے بارے میں بھی کہا جانا چاہئے کہ انہوں نے خود میں سے اور دوسروں میں سے خوف اور بدی کو نکال دیا اور بیمار کو شفا دی۔ جب بھی انسان پر خدا کی حکمرانی ہوتی ہے، خدا بیمار کو انسان کے وسیلہ شفادے گا۔سچائی غلطی کو اب بھی اتنے یقین کے ساتھ باہر نکال پھینکتی ہے جیسے اِس نے اْنیس صدیاں پہلے کیا تھا۔

15. 494 : 30-3

Our Master cast out devils (evils) and healed the sick. It should be said of his followers also, that they cast fear and all evil out of themselves and others and heal the sick. God will heal the sick through man, whenever man is governed by God. Truth casts out error now as surely as it did nineteen centuries ago.

16۔ 565 :13۔18

ہمارے مالک کی زمینی زندگی میں روحانی خیال کے روپ کی ایک مختصر سی تاریخ تھی؛ مگر ”اْس کی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا،“ کیونکہ مسیح، خدا کا خیال، تمام قوموں اور امتوں پر الٰہی سائنس کے ساتھ آمرانہ طور پر، مکمل طور پر، فیصلہ کن انداز میں حکومت کرے گا۔

16. 565 : 13-18

The impersonation of the spiritual idea had a brief history in the earthly life of our Master; but "of his kingdom there shall be no end," for Christ, God's idea, will eventually rule all nations and peoples — imperatively, absolutely, finally — with divine Science.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████