اتوار 28 اپریل، 2024



مضمون۔ موت کے بعد امتحان

SubjectProbation After Death

سنہری متن: مکاشفہ 22 باب14 آیت

”مبارک ہیں وہ جو اپنے جامے دھوتے ہیں کیونکہ زندگی کے درخت کے پاس آنے کا اختیار پائیں گے اور اْن دروازوں سے شہر میں داخل ہوں گے۔“



Golden Text: Revelation 22 : 14

Blessed are they that do his commandments, that they may have right to the tree of life, and may enter in through the gates into the city





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: یوحنا 5 باب24تا26، 28، 29 آیات


24۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا ہے اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اْس کی ہے اور اْس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔

25۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سنیں گے وہ جیئں گے۔

26۔ کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اْسی طرح اْس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔

28۔ اِس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اْس کی آواز سن کر نکلیں گے۔

29۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔

Responsive Reading: John 5 : 24-26, 28, 29

24.     Verily, verily, I say unto you, He that heareth my word, and believeth on him that sent me, hath everlasting life, and shall not come into condemnation; but is passed from death unto life.

25.     Verily, verily, I say unto you, The hour is coming, and now is, when the dead shall hear the voice of the Son of God: and they that hear shall live.

26.     For as the Father hath life in himself; so hath he given to the Son to have life in himself.

28.     Marvel not at this: for the hour is coming, in the which all that are in the graves shall hear his voice,

29.     And shall come forth; they that have done good, unto the resurrection of life.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یسعیاہ 25 باب1، 6تا8 آیات

1۔ اے خداوند! تْو میرا خدا ہے۔ مَیں تیری تمجید کروں گا۔ تیرے نام کی ستائش کروں گا کیونکہ تْو نے عجیب کام کئے ہیں۔

6۔ اور رب الافواج اِس پہاڑ پر سب قوموں کے لئے فربہ چیزوں سے ایک ضیافت تیار کرے گا بلکہ ایک ضیافت تلچھٹ پر سے نتھری ہوئی مے سے۔ ہاں فربہ چیزوں سے جو پْر مغز ہوں اور مے سے جو تلچھٹ پر سے خوب نتھری ہوئی ہو۔

7۔ اور وہ اِس پہاڑ پر اِس پردہ کو جو تمام لوگوں پر گر پڑا اور اْس نقاب کو جو سب قوموں پر لٹک رہا ہے دور کرے گا۔

8۔ وہ موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا اور خداوند خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالے گا اور اپنے لوگوں کی رسوائی تمام زمین پر سے مٹا ڈالے گا کیونکہ خداوند نے یہ فرمایا ہے۔

1. Isaiah 25 : 1, 6-8

1     O Lord, thou art my God; I will exalt thee, I will praise thy name; for thou hast done wonderful things; thy counsels of old are faithfulness and truth.

6     And in this mountain shall the Lord of hosts make unto all people a feast of fat things, a feast of wines on the lees, of fat things full of marrow, of wines on the lees well refined.

7     And he will destroy in this mountain the face of the covering cast over all people, and the vail that is spread over all nations.

8     He will swallow up death in victory; and the Lord God will wipe away tears from off all faces; and the rebuke of his people shall he take away from off all the earth: for the Lord hath spoken it.

2 . ۔ یوحنا 11 باب1، 4 (تا چوتھی)، 7، 11، 11 (ہمارا)، 15، 17، 21تا27، 32تا34 (تا؟)، 38تا44 آیات

1۔ مریم اور اْس کی بہن مارتھا کے گاؤں بیت عنیاہؔ کا لعزر نامی ایک آدمی بیمار تھا۔

4۔ یسوع نے سْن کر کہا کہ یہ بیماری موت کی نہیں بلکہ خدا کے جلال کے لئے ہے تاکہ اْس کے وسیلہ سے خدا کے بیٹے کا جلال ظاہر ہو۔

7۔ پھر اْس کے بعد شاگردوں سے کہا آؤ پھر یہودیہ کو چلیں۔

11۔ ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے اور میں اْسے جگانے جاتا ہوں۔

15۔ اور میں تمہارے سبب سے خوش ہوں کہ وہاں نہ تھا تاکہ تم ایمان لاؤ، لیکن آؤ ہم اْس کے پاس چلیں۔

17۔ پس یسوع کو آکر معلوم ہوا کہ اْسے قبر میں رکھے چار دن ہوئے۔

21۔ مارتھا نے یسوع سے کہا اے خداوند! اگر تْو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔

22۔ اور اب بھی مَیں جانتی ہوں کہ جو کچھ تْو خدا سے مانگے گا وہ تجھے دے گا۔

23۔ یسوع نے اْس سے کہا تیرا بھائی جی اٹھے گا۔

24۔ مارتھا نے اْس سے کہا مَیں جانتی ہوں کہ قیامت کے دن میں آخری دن جی اٹھے گا۔

25۔ یسوع نے اْس سے کہا قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر بھی جائے تو بھی زندہ رہتا ہے۔

26۔ اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔ کیا تْو اِس پر ایمان رکھتی ہے؟

27۔ اْس نے اْس سے کہا ہاں اے خداوند مَیں ایمان لا چکی ہوں کہ خدا کا بیٹا مسیح جو دنیا میں آنے والا تھا تْو ہی ہے۔

32۔ جب مریم وہاں پہنچی جہاں یسوع تھا اور اْسے دیکھا تو اْس کے قدموں میں گر کر اْس سے کہا اے خداوند اگر تْو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔

33۔جب یسوع نے اْسے اور اْن یہودیوں کو جو اْس کے ساتھ آئے تھے روتے دیکھا تو دل میں نہایت رنجیدہ ہوا۔

34۔ تم نے اْسے کہاں رکھا ہے؟ انہوں نے کہا اے خداوند چل کر دیکھ لے۔

38۔ یسوع پھر اپنے دل میں نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر آیا۔ وہ ایک غار تھا اور اْس پر پتھر دھرا تھا۔

39۔ یسوع نے کہا پتھر کو ہٹاؤ۔ اْس مرے ہوئے شخص کی بہن مارتھا نے اْس سے کہا اے خداوند! اْس میں سے تو اب بدبو آتی ہے کیونکہ اْسے چار دن ہو گئے۔

40۔ یسوع نے اْس سے کہا میں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تْو ایمان لائے گی تو خدا کا جلال دیکھے گی؟

41۔ پس انہوں نے اْس پتھر کو ہٹا دیا۔ پھر یسوع نے آنکھیں اْٹھا کر کہا اے باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تْو نے میری سْن لی۔

42۔ اور مجھے تو معلوم تھا کہ تْو ہمیشہ میری سْنتا ہے مگر ان لوگوں کے باعث جو آس پاس کھڑے ہیں مَیں نے کہا تاکہ وہ ایمان لائیں کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا ہے۔

43۔ اور یہ کہہ کر اْس نے بلند آواز سے پکارا کہ اے لعزر نکل آ۔

44۔ جو مر گیا تھا کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نکل آیا اور اْس کا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔ یسوع نے اْن سے کہا اِسے کھول کر جانے دو۔

2. John 11 : 1, 4 (to 4th ,), 7, 11 (Our), 15, 17, 21-27, 32-34 (to ?), 38-44

1     Now a certain man was sick, named Lazarus, of Bethany, the town of Mary and her sister Martha.

4     When Jesus heard that, he said, This sickness is not unto death, but for the glory of God,

7     Then after that saith he to his disciples, Let us go into Judæa again.

11     Our friend Lazarus sleepeth; but I go, that I may awake him out of sleep.

15     And I am glad for your sakes that I was not there, to the intent ye may believe; nevertheless let us go unto him.

17     Then when Jesus came, he found that he had lain in the grave four days already.

21     Then said Martha unto Jesus, Lord, if thou hadst been here, my brother had not died.

22     But I know, that even now, whatsoever thou wilt ask of God, God will give it thee.

23     Jesus saith unto her, Thy brother shall rise again.

24     Martha saith unto him, I know that he shall rise again in the resurrection at the last day.

25     Jesus said unto her, I am the resurrection, and the life: he that believeth in me, though he were dead, yet shall he live:

26     And whosoever liveth and believeth in me shall never die. Believest thou this?

27     She saith unto him, Yea, Lord: I believe that thou art the Christ, the Son of God, which should come into the world.

32     Then when Mary was come where Jesus was, and saw him, she fell down at his feet, saying unto him, Lord, if thou hadst been here, my brother had not died.

33     When Jesus therefore saw her weeping, and the Jews also weeping which came with her, he groaned in the spirit, and was troubled,

34     And said, Where have ye laid him?

38     Jesus therefore again groaning in himself cometh to the grave. It was a cave, and a stone lay upon it.

39     Jesus said, Take ye away the stone. Martha, the sister of him that was dead, saith unto him, Lord, by this time he stinketh: for he hath been dead four days.

40     Jesus saith unto her, Said I not unto thee, that, if thou wouldest believe, thou shouldest see the glory of God?

41     Then they took away the stone from the place where the dead was laid. And Jesus lifted up his eyes, and said, Father, I thank thee that thou hast heard me.

42     And I knew that thou hearest me always: but because of the people which stand by I said it, that they may believe that thou hast sent me.

43     And when he thus had spoken, he cried with a loud voice, Lazarus, come forth.

44     And he that was dead came forth, bound hand and foot with graveclothes: and his face was bound about with a napkin. Jesus saith unto them, Loose him, and let him go.

3 . ۔ یوحنا 12 باب35، 46 آیات

35۔ پس یسوع نے اْن سے کہا کہ اور تھوڑی دیر تک نور تمہارے درمیان ہے۔ جب تک نور تمہارے ساتھ ہے چلے چلو۔ ایسا نہ ہو کہ تاریکی تمہیں آپکڑے اور جو تاریکی میں چلتا ہے نہیں جانتا کہ کدھر جاتا ہے۔

46۔ مَیں نور ہو کر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔

3. John 12 : 35, 46

35     Then Jesus said unto them, Yet a little while is the light with you. Walk while ye have the light, lest darkness come upon you: for he that walketh in darkness knoweth not whither he goeth.

46     I am come a light into the world, that whosoever believeth on me should not abide in darkness.

4 . ۔ رومیوں 13باب11 (اب یہ ہے) تا14 آیات

11۔۔۔۔اب وہ گھڑی آپہنچی ہے کہ تم نیند سے جاگو کیونکہ جس وقت ہم ایمان لائے تھے اْس وقت کی نسبت اب ہماری نجات نزدیک ہے۔

12۔ رات بہت گزر گئی اور دن نکلنے والا ہے۔ پس ہم تاریکی کے کاموں کو ترک کر کے روشنی کے ہتھیار باندھ لیں۔

13۔ جیسا دن کو دستور ہے شائستگی سے چلیں۔ نہ کہ ناچ رنگ اور نشہ بازی سے۔ نہ زنا کاری اور شہوت پرستی سے اور نہ جھگڑے اور حسد سے۔

14۔ اور خداوند یسوع مسیح کو پہن لو اور جسم کی خواہشوں کے لئے تدبیر نہ کرو۔

4. Romans 13 : 11 (now it is)-14

11     ...now it is high time to awake out of sleep: for now is our salvation nearer than when we believed.

12     The night is far spent, the day is at hand: let us therefore cast off the works of darkness, and let us put on the armour of light.

13     Let us walk honestly, as in the day; not in rioting and drunkenness, not in chambering and wantonness, not in strife and envying.

14     But put ye on the Lord Jesus Christ, and make not provision for the flesh, to fulfil the lusts thereof.

5 . ۔ مکاشفہ 1باب1 (تا؛) آیت

1۔ یسوع مسیح کا مکاشفہ جو اْسے خدا کی طرف سے اس لئے ہوا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دکھائے جن کا جلد ہونا ضرور ہے۔

5. Revelation 1 : 1 (to ;)

1     The Revelation of Jesus Christ, which God gave unto him, to shew unto his servants things which must shortly come to pass;

6 . ۔ مکاشفہ 2 باب7 آیت

7۔ جس کے کان ہوں وہ سنے کہ روح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔ جو غالب آئے میں اْسے زندگی کے درخت میں سے جو خدا کے فردوس میں ہے پھل کھانے کو دوں گا۔

6. Revelation 2 : 7

7     He that hath an ear, let him hear what the Spirit saith unto the churches; To him that overcometh will I give to eat of the tree of life, which is in the midst of the paradise of God.

7 . ۔ مکاشفہ 3 باب19تا21 آیات

19۔ مَیں جن جن کو عزیز رکھتا ہوں اْن سب کو ملامت اور تنبیہ کرتا ہوں۔پس سرگرم ہو اور توبہ کر۔

20۔ دیکھ مَیں دروازے پر کھڑا ہوا کھٹکھٹاتا ہوں۔ اگر کوئی میری آواز سن کر دروازہ کھولے گا تو مَیں اْس کے پاس اندر جا کر اْس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ۔

21۔ جو غالب آئے مَیں اْسے اپنے ساتھ تخت پر بٹھاؤں گا جس طرح مَیں غالب آکر اپنے باپ کے ساتھ اْس کے تخت پر بیٹھ گیا۔

7. Revelation 3 : 19-21

19     As many as I love, I rebuke and chasten: be zealous therefore, and repent.

20     Behold, I stand at the door, and knock: if any man hear my voice, and open the door, I will come in to him, and will sup with him, and he with me.

21     To him that overcometh will I grant to sit with me in my throne, even as I also overcame, and am set down with my Father in his throne.

8 . ۔ 1 کرنتھیوں 15 باب26، 55تا58 آیات

26۔ سب سے پچھلا دْشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے۔

55۔ اے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟

56۔ موت کا ڈنک گناہ ہے اور گناہ کا زورشریعت ہے۔

57۔مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔

58۔پس اے میرے عزیز بھائیو! ثابت قدم اور قائم رہو اور خداوند کے کام میں ہمیشہ افزائش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تمہاری محنت خداوند میں بے فائدہ نہیں ہے۔

8. I Corinthians 15 : 26, 55-58

26     The last enemy that shall be destroyed is death.

55     O death, where is thy sting? O grave, where is thy victory?

56     The sting of death is sin; and the strength of sin is the law.

57     But thanks be to God, which giveth us the victory through our Lord Jesus Christ.

58     Therefore, my beloved brethren, be ye stedfast, unmoveable, always abounding in the work of the Lord, forasmuch as ye know that your labour is not in vain in the Lord.



سائنس اور صح


1 . ۔ 246 :27 (زندگی)۔28 (تا دوسرا)

زندگی ابدی ہے۔ ہمیں اس کی تلاش کرنی چاہئے اور اس سے اظہار کا آغاز کرنا چاہئے۔ زندگی اور اچھائی لافانی ہیں۔

1. 246 : 27 (Life)-28 (to 2nd .)

Life is eternal. We should find this out, and begin the demonstration thereof. Life and goodness are immortal.

2 . ۔ 303 :28۔30

روحانی انسان خدا کی شبیہ یا خیال ہے، ایسا خیال جو گم ہو سکتا اور نہ ہی اپنے الٰہی اصول سے جدا ہو سکتا ہے۔

2. 303 : 28-30

Spiritual man is the image or idea of God, an idea which cannot be lost nor separated from its divine Principle.

3 . ۔ 203 :31۔2

خدا، الٰہی اچھائی، انسان کو اِس لئے نہیں مارتا کہ اْسے ابدی زندگی عطا کرے، کیونکہ خدا اکیلا ہی انسان کی زندگی ہے۔خدا بیک وقت ہستی کا مرکز اور احاطہ ہے۔ یہ بدی ہے جو مر جاتی ہے؛ اچھائی کبھی نہیں مرتی۔

3. 203 : 31-2

God, divine good, does not kill a man in order to give him eternal Life, for God alone is man's life. God is at once the centre and circumference of being. It is evil that dies; good dies not.

4 . ۔ 324 :32۔7

در اصل یسوع نے کہا، ”جو مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔“ یعنی، وہ جو زندگی کا حقیقی تصور پا لیتا ہے وہ موت پر اپنا ایمان کھو دیتا ہے۔ جس کے پاس نیکی کا حقیقی تصور ہے وہ بدی کا سارا فہم کھو دیتا ہے، اور اِس وجہ سے روح کے نا مرنے والے حقائق میں رہنمائی پاتا ہے۔ ایسا شخص زندگی میں قائم ہوتا ہے، ایسی زندگی جو زندگی کو سہارا نہ دینے کے قابل بدن سے نہیں بلکہ اْس سچائی سے حاصل کی گئی ہوجو خود کے لافانی خیال کو آشکار کرتی ہے۔

4. 324 : 32-7

Jesus said substantially, "He that believeth in me shall not see death." That is, he who perceives the true idea of Life loses his belief in death. He who has the true idea of good loses all sense of evil, and by reason of this is being ushered into the undying realities of Spirit. Such a one abideth in Life, — life obtained not of the body incapable of supporting life, but of Truth, unfolding its own immortal idea.

5 . ۔ 90 :24۔32

کسی شخص کا خود یہ قبول کرنا کہ انسان خدا کی اپنی شبیہ ہے انسان کو لامحدود خیال پر حکمرانی کرنے کے لئے آزاد کرتا ہے۔یہ راسخ عقیدہ موت کے لئے دروازہ بند کرتا ہے اور لافانیت کی جانب اِسے وسیع کھول دیتا ہے۔ آخر کار روح کی سمجھ اور پہچان ضرور ہونی چاہئے اور ہم الٰہی اصول کے ادراک کے وسیلہ ہستی کے بھیدوں کو سْلجھانے میں ہمارے وقت کو بہتر فروغ دیں گے۔فی الحال ہم یہ نہیں جانتے کہ انسان کیا ہے مگر ہم یقیناً تب یہ جان پائیں گے جب انسان خدا کی عکاسی کرتا ہے۔

5. 90 : 24-32

The admission to one's self that man is God's own likeness sets man free to master the infinite idea. This conviction shuts the door on death, and opens it wide towards immortality. The understanding and recognition of Spirit must finally come, and we may as well improve our time in solving the mysteries of being through an apprehension of divine Principle. At present we know not what man is, but we certainly shall know this when man reflects God.

6 . ۔ 75 :12۔20

یسوع نے لعزر کے بارے میں کہا: ”ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے اور میں اْسے جگانے جاتا ہوں۔“یسوع نے لعزر کو اس فہم کے ساتھ بحال کیا کہ لعزر کبھی مرا نہیں تھا، نہ کہ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اْس کا بدن مر گیا تھا اور وہ پھر زندہ ہوگیا۔ اگر یسوع یہ مانتا کہ لعزر اپنے بدن میں جیتا تھا یا مرگیا، تو ہمارا مالک ایمان کے بالکل اْسی مقام پر کھڑا ہوتا جہاں وہ لوگ تھے جنہوں نے لعزر کو دفنایا تھا، اور وہ اْسے بازیافت نہ کر پاتا۔

6. 75 : 12-20

Jesus said of Lazarus: "Our friend Lazarus sleepeth; but I go, that I may awake him out of sleep." Jesus restored Lazarus by the understanding that Lazarus had never died, not by an admission that his body had died and then lived again. Had Jesus believed that Lazarus had lived or died in his body, the Master would have stood on the same plane of belief as those who buried the body, and he could not have resuscitated it.

7 . ۔ 302 :3۔13، 19۔24

مادی بدن اور عقل عارضی ہیں، مگر حقیقی انسان روحانی اور ابدی ہے۔حقیقی انسان کی شناخت کھو نہیں جاتی، بلکہ اِس وضاحت کے وسیلہ پائی جاتی ہے؛ کیونکہ ہستی اور پوری شناخت کی شعوری لامحدودیت غیر ترمیم شْدہ سمجھی جاتی اورقائم رہتی ہے۔جب خدا مکمل اور ابدی طور پر اْس کا ہے، تو یہ ناممکن ہے کہ انسان ایسا کچھ گوا بیٹھے جو حقیقی ہے۔یہ خیال کہ عقل مادے میں ہے، اور یہ کہ نام نہاد خوشیاں اور درد، مادے کی پیدائش، گناہ، بیماری اور موت حقیقی ہیں، ایک فانی یقین ہے؛ اور یہی وہ عقیدہ ہے جو گم ہو جائے گا۔

ہستی کی سائنس انسان کو کامل ظاہر کرتی ہے، حتیٰ کہ جیسا کہ باپ کامل ہے، کیونکہ روحانی انسان کی جان یا عقل خدا ہے، جو تمام تر مخلوقات کا الٰہی اصول ہے، اور یہ اس لئے کہ اس حقیقی انسان پر فہم کی بجائے روح کی حکمرانی ہوتی ہے، یعنی شریعت کی روح کی، نہ کہ نام نہاد مادے کے قوانین کی۔

7. 302 : 3-13, 19-24

The material body and mind are temporal, but the real man is spiritual and eternal. The identity of the real man is not lost, but found through this explanation; for the conscious infinitude of existence and of all identity is thereby discerned and remains unchanged. It is impossible that man should lose aught that is real, when God is all and eternally his. The notion that mind is in matter, and that the so-called pleasures and pains, the birth, sin, sickness, and death of matter, are real, is a mortal belief; and this belief is all that will ever be lost.

The Science of being reveals man as perfect, even as the Father is perfect, because the Soul, or Mind, of the spiritual man is God, the divine Principle of all being, and because this real man is governed by Soul instead of sense, by the law of Spirit, not by the so-called laws of matter.

8 . ۔ 427 :13۔21

موت خواب کا ایک مرحلہ ہے کیونکہ وجود مادی ہوسکتا ہے۔ہستی کی ہم آہنگی میں کوئی چیز مداخلت نہیں کرسکتی اورنہ ہی سائنس میں انسان کی وجودیت کو ختم کرسکتی ہے۔ انسان ویسا ہی رہتا ہے جیسا وہ ہڈی ٹوٹنے یا سر قلم ہونے سے پہلے تھا۔ اگر انسان نے کبھی موت پر فتح مند نہیں ہونا تو کلام یہ کیوں کہتا ہے کہ، ”سب سے پچھلا دْشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے“؟ کلام کا یہ حصہ واضح کرتا ہے کہ ہم گناہ پر فتح پانے کے تناسب میں موت پر فتح حاصل کریں گے۔

8. 427 : 13-21

Death is but another phase of the dream that existence can be material. Nothing can interfere with the harmony of being nor end the existence of man in Science. Man is the same after as before a bone is broken or the body guillotined. If man is never to overcome death, why do the Scriptures say, "The last enemy that shall be destroyed is death"? The tenor of the Word shows that we shall obtain the victory over death in proportion as we overcome sin.

9 . ۔ 46 :20۔24

یسوع کی موت کے بعداْسکی نہ بدلنے والی جسمانی حالت نے تمام تر مادی حالتوں پرسر بلندی پائی اور اِس سر بلندی نے اْس کے آسمان پر اٹھائے جانے کو واضح کیا، اور بغیر غلطی کے قبر سے آگے ایک امتحانی اور ترقی یافتہ حالت کو ظاہر کیا۔

9. 46 : 20-24

Jesus' unchanged physical condition after what seemed to be death was followed by his exaltation above all material conditions; and this exaltation explained his ascension, and revealed unmistakably a probationary and progressive state beyond the grave.

10 . ۔ 290 :16۔18 اگلا صفحہ

اگر تبدیلی جسے موت کہا جاتا ہے گناہ، بیماری اور موت کے یقین کو تباہ کردیتی ہے تو اس شکست کے موقع پر خوشی فتح مند ہوتی ہے اور ہمیشہ کے لئے مستقل ہو جاتی ہے، لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ کاملیت صرف کاملیت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ وہ جو ناراست ہیں تب تک ناراست ہی رہیں گے جب تک الٰہی سائنس میں مسیح یعنی سچائی تمام تر گناہ اور جہالت کو تلف نہیں کرتا۔

گناہ اور غلطی جو ہمیں موت کے دہانے پر لا کھڑا کرتے ہیں اْس لمحے رْکتے نہیں، بلکہ اِن غلطیوں کی موت تک مستقل رہتے ہیں۔مکمل طور پر روحانی بننے کے لئے انسان کو بے عیب ہونا چاہئے، اور یہ صرف تبھی ہوسکتا ہے جب وہ کاملیت تک پہنچتا ہے۔ اگرچہ عمل میں مقتول ہوتے ہوئے، ایک قاتل گناہ کو کبھی ترک نہیں کرتا۔وہ یہ ماننے کے لئے مزید روحانی نہیں ہے کہ اْس کا بدن مر ا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اْس کی ظالم سوچ نہیں مری۔اْس کے خیالات تب تک پاکیزہ نہیں ہوتے جب تک بدی کو اچھائی کے ذریعے غیر مسلح نہیں کیا جاتا۔اْس کا بدن اْتنا ہی مادی ہے جتنا اْس کی عقل ہے، اور اِس کے برعکس بھی۔

یہ قیاس آرائیاں کہ گناہ معاف کیا جاتا ہے لیکن بھولا نہیں جاتا، کہ گناہ کے دوران خوشی اصل ہو جاتی ہے، کہ جسم کی نام نہاد موت گناہ سے آزاد کر دیتی ہے اور یہ کہ خدا کی معافی گناہ کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، یہ سب گھمبیر غلطیاں ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ جب آخری نرسنگا پھونکا جائے گا سب”ایک پل میں“ بدل جائے گا؛ مگر حکمت کایہ آخری بْلاوہ تب تک نہیں آسکتاجب تک بشر مسیحی کردار کی ترقی میں ہر ایک چھوٹے بلاوے کو پہلے سے ہی تسلیم نہ کرتے ہوں۔انسان کو یہ گمان رکھنا چاہئے کہ موت کے تجربہ کا یقین انہیں جلالی ہستی میں بیدار کرے گا۔

عالمگیر نجات ترقی اور امتحان پر مرکوز ہے، اور ان کے بغیر غیر ممکن الحصول ہے۔آسمان کوئی جگہ نہیں، عقل کی الٰہی حالت ہے جس میں عقل کے تمام تر ظہور ہم آہنگ اور فانی ہوتے ہیں کیونکہ وہاں گناہ نہیں ہے اور انسان وہاں خود کی راستبازی کے ساتھ نہیں ”خداوند کی سوچ“ کی ملکیت میں پایا جاتا ہے جیسا کہ کلام یہ کہتا ہے۔

10. 290 : 16-18 next page

If the change called death destroyed the belief in sin, sickness, and death, happiness would be won at the moment of dissolution, and be forever permanent; but this is not so. Perfection is gained only by perfection. They who are unrighteous shall be unrighteous still, until in divine Science Christ, Truth, removes all ignorance and sin.

The sin and error which possess us at the instant of death do not cease at that moment, but endure until the death of these errors. To be wholly spiritual, man must be sinless, and he becomes thus only when he reaches perfection. The murderer, though slain in the act, does not thereby forsake sin. He is no more spiritual for believing that his body died and learning that his cruel mind died not. His thoughts are no purer until evil is disarmed by good. His body is as material as his mind, and vice versa.

The suppositions that sin is pardoned while unforsaken, that happiness can be genuine in the midst of sin, that the so-called death of the body frees from sin, and that God's pardon is aught but the destruction of sin, — these are grave mistakes. We know that all will be changed "in the twinkling of an eye," when the last trump shall sound; but this last call of wisdom cannot come till mortals have already yielded to each lesser call in the growth of Christian character. Mortals need not fancy that belief in the experience of death will awaken them to glorified being.

Universal salvation rests on progression and probation, and is unattainable without them. Heaven is not a locality, but a divine state of Mind in which all the manifestations of Mind are harmonious and immortal, because sin is not there and man is found having no righteousness of his own, but in possession of "the mind of the Lord," as the Scripture says.

11 . ۔ 254 :10۔15

جب ہم صبر کے ساتھ خدا کا انتظار کرتے اور راستبازی کے ساتھ سچائی کی تلاش کرتے ہیں تو وہ ہماری راہ میں راہنمائی کرتا ہے۔ غیر کامل انسان آہستہ آہستہ اصلی روحانی کاملیت کو گرفت میں لیتے ہیں؛ مگر ٹھیک طریقے سے شروع کرنے کے لئے اور ہستی کے بڑے مسئلے کے اظہار کے تنازع کو جاری رکھنا بہت بڑا کام ہے۔

11. 254 : 10-15

When we wait patiently on God and seek Truth righteously, He directs our path. Imperfect mortals grasp the ultimate of spiritual perfection slowly; but to begin aright and to continue the strife of demonstrating the great problem of being, is doing much.

12 . ۔ 426 :16۔22

جب یہ سیکھ لیا جاتا ہے کہ بیماری زندگی کو نیست نہیں کر سکتی، اور یہ کہ بشر موت کے وسیلہ گناہ یا بیماری سے نہیں بچائے جا سکتے تو یہ ادراک زندگی کی جدت میں تیزی لائے گا۔ اس سے یہ موت کی خواہش یا قبر کے خوف میں مہارت لائے گا اور یوں یہ اْس بڑے ڈر کوتباہ کرے گا جو فانی وجود کا گھیراؤ کرتا ہے۔

12. 426 : 16-22

When it is learned that disease cannot destroy life, and that mortals are not saved from sin or sickness by death, this understanding will quicken into newness of life. It will master either a desire to die or a dread of the grave, and thus destroy the great fear that besets mortal existence.

13 . ۔ 428 :3 صرف،6۔14

زندگی حقیقی ہے، اور موت بھرم ہے۔۔۔۔اس مقتدر لمحے میں انسان کی ترجیح اپنے مالک کے ان الفاظ کو ثابت کرنا ہے: ”اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔“ جھوٹے بھروسوں اور مادی ثبوتوں کے خیالات کو ختم کرنے کے لئے، تاکہ شخصی روحانی حقائق سامنے آئیں، یہ ایک بہت بڑا حصول ہے جس کی بدولت ہم غلط کو تلف کریں گے اور سچائی کو جگہ فراہم کریں گے۔ یوں ہم سچائی کی وہ ہیکل یا بدن تعمیر کرتے ہیں، ”جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے“۔

13. 428 : 3 only, 6-14

Life is real, and death is the illusion. ... Man's privilege at this supreme moment is to prove the words of our Master: "If a man keep my saying, he shall never see death." To divest thought of false trusts and material evidences in order that the spiritual facts of being may appear, — this is the great attainment by means of which we shall sweep away the false and give place to the true. Thus we may establish in truth the temple, or body, "whose builder and maker is God."


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔