اتوار 28 جولائی ، 2024
”اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔“
“Ye shall know the truth, and the truth shall make you free.”
12۔ یسوع نے پھر اْن سے مخاطب ہو کر کہا کہ دنیا کا نور مَیں ہوں۔جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔
13۔ فریسیوں نے اْس سے کہا تْو اپنی گواہی آپ دیتا ہے۔ تیری گواہی سچی نہیں۔
14۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا اگرچہ مَیں اپنی گواہی آپ دیتا ہوں تو بھی میری گواہی سچی ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں لیکن تم کو معلوم نہیں کہ مَیں کہاں سے آتا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں۔
15۔تم جسم کے مطابق فیصلہ کرتے ہو۔ مَیں کسی کا فیصلہ نہیں کرتا۔
16۔ اور اگر مَیں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ مَیں اکیلا نہیں بلکہ مَیں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔
28۔ پس یسوع نے کہا کہ جب تم ابنِ آدم کو اونچے پہاڑ پر چڑھاؤ گے تو جانو گے کہ مَیں وہی ہوں اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اْسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں۔
29۔ اور جس نے مجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے۔ اْس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ مَیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اْسے پسند آتے ہیں۔
36۔ پس اگر بیٹا تمہیں آزاد کرے گا تو تم واقعی آزاد ہوگے۔
12. Then spake Jesus again unto them, saying, I am the light of the world: he that followeth me shall not walk in darkness, but shall have the light of life.
13. The Pharisees therefore said unto him, Thou bearest record of thyself; thy record is not true.
14. Jesus answered and said unto them, Though I bear record of myself, yet my record is true: for I know whence I came, and whither I go; but ye cannot tell whence I come, and whither I go.
15. Ye judge after the flesh; I judge no man.
16. And yet if I judge, my judgment is true: for I am not alone, but I and the Father that sent me.
28. Then said Jesus unto them, When ye have lifted up the Son of man, then shall ye know that I am he, and that I do nothing of myself; but as my Father hath taught me, I speak these things.
29. And he that sent me is with me: the Father hath not left me alone; for I do always those things that please him.
36. If the Son therefore shall make you free, ye shall be free indeed.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
4۔اے خداوند!اپنی راہیں مجھے دکھا اپنے راستے مجھے بتا دے۔
5۔مجھے اپنی سچائی پر چلا اور تعلیم دے۔کیونکہ تو میرا نجات دینے والا خدا ہے۔ میں دن بھر تیرا ہی منتظر رہتا ہوں۔
8۔خداوند نیک اور راست ہے۔اِس لیے وہ گنہگاروں کو راہ حق کی تعلیم دے گا۔
9۔وہ حلیموں کو انصاف کی ہدایت کرے گا۔ ہاں وہ حلیموں کو اپنی راہ بتائے گا۔
10۔جو خداوند کے عہد اور اس کی شہادتوں کو مانتے ہیں۔ان کے لئے اس کی سب راہیں شفقت اور سچائی ہیں۔
12۔ وہ کون ہے جو خداوند سے ڈرتا ہے؟ خداوند اْس کو اْسی راہ کی تعلیم دے گا جو اْسے پسند ہے۔
13۔اس کی جان راحت میں رہے گی اور اس کی نسل زمین کی وارث ہو گی۔
4 Shew me thy ways, O Lord; teach me thy paths.
5 Lead me in thy truth, and teach me: for thou art the God of my salvation; on thee do I wait all the day.
8 Good and upright is the Lord: therefore will he teach sinners in the way.
9 The meek will he guide in judgment: and the meek will he teach his way.
10 All the paths of the Lord are mercy and truth unto such as keep his covenant and his testimonies.
12 What man is he that feareth the Lord? him shall he teach in the way that he shall choose.
13 His soul shall dwell at ease; and his seed shall inherit the earth.
6۔ دیکھ تْو باطن کی سچائی پسند کرتا ہے۔ اور باطن میں مجھے ہی دانائی سکھائے گا۔
6 Behold, thou desirest truth in the inward parts: and in the hidden part thou shalt make me to know wisdom.
1۔۔۔۔نبو کد نضر نے اپنی سلطنت کے دوسرے سال میں ایسے خواب دیکھے جن سے اْس کا دل گھبرا گیا اور اْس کی نیند جاتی رہی۔
2۔ تب بادشاہ نے حکم دیا کہ فالگیروں اور نجومیوں اور جادوگروں اور کسدیوں کو بلائیں کہ بادشاہ کے خواب اْسے بتائیں چنانچہ وہ آئے اور بادشاہ کے حضور کھڑے ہوئے۔
4۔ تب کسدیوں نے بادشاہ کے حضور ارامی زبان میں عرض کی کہ اے بادشاہ ابد تک جیتا رہ! اپنے خادموں سے خواب بیان کر اور ہم اْس کی تعبیر بیان کریں گے۔
5۔ بادشاہ نے کسدیوں کو جواب دیا کہ میں تو یہ حکم دے چکا ہوں کہ اگر تم خواب نہ بتاؤ اور اْس کی تعبیر نہ کر و تو ٹکڑے ٹکڑے کئے جا ؤ گے اور تمہارے گھر مزبلہ ہو جائیں گے۔
10۔ کسدیوں نے بادشاہ سے عرض کی کہ روئے زمین پر ایسا تو کوئی نہیں جو بادشاہ کی بات بتا سکے۔
13۔ سو یہ حکم جا بجا پہنچا کہ حکیم قتل کیے جائیں تب دانی ایل اور اْس کے رفیقوں کو بھی ڈھونڈنے لگے کہ اْن کو قتل کریں۔
16۔ اور دانی ایل نے اندر جا کر بادشاہ سے عرض کی کہ مجھے مہلت ملے تو میں بادشاہ کے حضور تعبیر بیان کروں گا۔
17۔ تب دانی ایل نے اپنے گھر جا کر حننیاہ، اور میسائیل اور عزریاہ اپنے رفیقوں کو اطلاع دی۔
18۔ تاکہ وہ اِس راز کے باب میں آسمان کے خدا سے رحمت طلب کریں کہ دانی ایل اور اْس کے رفیق بابل کے باقی حکیموں کے ساتھ ہلاک نہ ہوں۔
19۔ پھر رات کوخواب میں دانی ایل پر وہ راز کھْل گیا اور اْس نے آسمان کے خدا کو مبارک کہا۔
20۔دانی ایل نے کہا خدا کا نام تاابد مبارک ہو کیونکہ حکمت اور قدرت اْسی کی ہے۔
25۔ تب اریوک دانی ایل کو شتابی سے بادشاہ کے حضور لے گیا اور عرض کی مجھے یہودیوں کے اسیروں میں ایک شخص مل گیا ہے جو بادشاہ کو تعبیر بتا دے گا۔
26۔ بادشاہ نے دانی ایل سے جس کا لقب بلطیشضر تھا پوچھا کیا تْو اْس خواب کو جو میں نے دیکھا اور اْس کی تعبیر کو مجھے بیان کر سکتا ہے؟
27۔ دانی ایل نے بادشاہ سے عرض کی کہ وہ بھید جو بادشاہ نے پوچھا حکما اور نجومیوں اور جادو گر اور فالگیر بادشاہ کو بتا نہیں سکتے۔
28۔لیکن آسمان پر ایک خدا ہے جو راز کی باتیں آشکارا کرتا ہے اور اْس نے نبوکد نضر بادشاہ پر ظاہر کیا ہے کہ آخری ایام میں کیا وقوع میں آئے گا۔
1 ...in the second year of the reign of Nebuchadnezzar Nebuchadnezzar dreamed dreams, wherewith his spirit was troubled, and his sleep brake from him.
2 Then the king commanded to call the magicians, and the astrologers, and the sorcerers, and the Chaldeans, for to shew the king his dreams.
4 Then spake the Chaldeans to the king in Syriack, O king, live for ever: tell thy servants the dream, and we will shew the interpretation.
5 The king answered and said to the Chaldeans, The thing is gone from me: if ye will not make known unto me the dream, with the interpretation thereof, ye shall be cut in pieces, and your houses shall be made a dunghill.
10 The Chaldeans answered before the king, and said, There is not a man upon the earth that can shew the king’s matter:
13 And the decree went forth that the wise men should be slain; and they sought Daniel and his fellows to be slain.
16 Then Daniel went in, and desired of the king that he would give him time, and that he would shew the king the interpretation.
17 Then Daniel went to his house, and made the thing known to Hananiah, Mishael, and Azariah, his companions:
18 That they would desire mercies of the God of heaven concerning this secret; that Daniel and his fellows should not perish with the rest of the wise men of Babylon.
19 Then was the secret revealed unto Daniel in a night vision. Then Daniel blessed the God of heaven.
20 Daniel answered and said, Blessed be the name of God for ever and ever: for wisdom and might are his:
25 Then Arioch brought in Daniel before the king in haste, and said thus unto him, I have found a man of the captives of Judah, that will make known unto the king the interpretation.
26 The king answered and said to Daniel, whose name was Belteshazzar, Art thou able to make known unto me the dream which I have seen, and the interpretation thereof?
27 Daniel answered in the presence of the king, and said, The secret which the king hath demanded cannot the wise men, the astrologers, the magicians, the soothsayers, shew unto the king;
28 But there is a God in heaven that revealeth secrets, and maketh known to the king Nebuchadnezzar what shall be in the latter days.
37۔ اب میں نبوکدنضر آسمان کے بادشاہ کی ستائش اور تکریم و تعظیم کرتا ہوں کیونکہ وہ اپنے کاموں میں راست اور اپنی سب راہوں میں عادل ہے:
37 Now I Nebuchadnezzar praise and extol and honour the King of heaven, all whose works are truth, and his ways judgment:
1۔ اے میرے بیٹے!میری تعلیم کو فراموش نہ کربلکہ تیرا دل میرے حکموں کو مانے۔
2۔ کیونکہ تْو اِن سے عمر کی درازی اور پیری اور سلامتی حاصل کرے گا۔
3۔ شفقت اور سچائی تجھ سے جدا نہ ہوں تْو اْن کو اپنے گلے کا طوق بنانا اور اپنے دل کی تختی پر لکھ لینا۔
4۔ یوں تْو خدا اور انسان کی نظر میں مقبولیت اور عقلمندی حاصل کرے گا۔
1 My son, forget not my law; but let thine heart keep my commandments:
2 For length of days, and long life, and peace, shall they add to thee.
3 Let not mercy and truth forsake thee: bind them about thy neck; write them upon the table of thine heart:
4 So shalt thou find favour and good understanding in the sight of God and man.
5۔ کیونکہ خداوند بھلا ہے۔ اْس کی شفقت ابدی ہے اور اْس کی وفاداری پشت در پشت رہتی ہے۔
5 For the Lord is good; his mercy is everlasting; and his truth endureth to all generations.
14۔ اور جب عیدکے آدھے دن گزر گئے تو یسوع ہیکل میں جا کر تعلیم دینے لگا۔
15۔ پس یہودیوں نے تعجب کر کے کہا کہ اِس کو بغیر پڑھے کیونکر علم آ گیا؟
16۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا کہ میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔
17۔ اگر کوئی اْس کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اِس تعلیم کی بابت جان جائے گا کہ خدا کی طرف سے ہے یا میں اپنی طرف سے کہتا ہوں۔
18۔ جو اپنی طرف سے کچھ کہتا ہے وہ اپنی عزت چاہتا ہے لیکن جو اپنے بھیجنے والے کی عزت چاہتا ہے وہ سچا ہے اور اْس میں ناراستی نہیں۔
14 Now about the midst of the feast Jesus went up into the temple, and taught.
15 And the Jews marvelled, saying, How knoweth this man letters, having never learned?
16 Jesus answered them, and said, My doctrine is not mine, but his that sent me.
17 If any man will do his will, he shall know of the doctrine, whether it be of God, or whether I speak of myself.
18 He that speaketh of himself seeketh his own glory: but he that seeketh his glory that sent him, the same is true, and no unrighteousness is in him.
35۔ پس یسوع نے اْن سے کہا کہ اور تھوڑی دیر تک نور تمہارے درمیان ہے۔ جب تک نور تمہارے ساتھ ہے چلے چلو۔ ایسا نہ ہو کہ تاریکی تمہیں آپکڑے اور جو تاریکی میں چلتا ہے نہیں جانتا کہ کدھر جاتا ہے۔
46۔ مَیں نور ہو کر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔
35 Then Jesus said unto them, Yet a little while is the light with you. Walk while ye have the light, lest darkness come upon you: for he that walketh in darkness knoweth not whither he goeth.
46 I am come a light into the world, that whosoever believeth on me should not abide in darkness.
1۔ اور ہم جو اْس کے ساتھ کام میں شریک ہیں یہ بھی تم سے التماس کرتے ہیں کہ خدا کا فضل جو تم پر ہوا ہے بے فائدہ نہ رہنے دو۔
4۔ بلکہ خدا کے خادموں کی طرح ہر بات سے اپنی خوبی ظاہر کرتے ہیں۔ بڑے صبر سے۔ مصیبت سے۔ احتیاج سے۔ تنگی سے۔
6۔ پاکیزگی سے۔ علم سے۔ تحمل سے۔ مہربانی سے۔ روح القدس سے۔ بے ریا محبت سے۔
7۔ کلام سے۔ خدا کی قدرت سے۔راستبازی کے ہتھیاروں کے وسیلہ سے جو داہنے بائیں ہیں۔
1 We then, as workers together with him, beseech you also that ye receive not the grace of God in vain.
4 But in all things approving ourselves as the ministers of God, in much patience,
6 By pureness, by knowledge, by longsuffering, by kindness, by the Holy Ghost, by love unfeigned,
7 By the word of truth,
20۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا آگیا ہے اور اْس نے ہمیں سمجھ بخشی ہے تاکہ اْس کو جو حقیقی ہے جانیں اور ہم اْس میں جو حقیقی ہے یعنی اْس کے بیٹے یسوع مسیح میں ہیں۔ حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے۔
20 And we know that the Son of God is come, and hath given us an understanding, that we may know him that is true, and we are in him that is true, even in his Son Jesus Christ. This is the true God, and eternal life.
سچائی لافانی عقل کی ذہانت ہے۔
سچائی وہ روشنی ہے جو غلطی کو دور کرتی ہے۔
Truth is the intelligence of immortal Mind.
Truth is the light which dispels error.
سچائی کو سمجھنے سے قبل سچائی کا روحانی فہم حاصل ہونا ضروری ہے۔ یہ فہم اْسی وقت ہمارے اندر سما سکتا ہے جب ہم ایماندار، بے غرض، پیار کرنے والے اور حلیم ہوتے ہیں۔ ایک ”ایماندار اور نیک دل“ کی مٹی میں بیج بویا جانا چاہئے؛
The spiritual sense of truth must be gained before Truth can be understood. This sense is assimilated only as we are honest, unselfish, loving, and meek. In the soil of an "honest and good heart" the seed must be sown;
ہستی، پاکیزگی، ہم آہنگی، لافانیت ہے۔یہ پہلے سے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ اس کا علم، حتیٰ کہ معمولی درجے میں بھی، انسانوں کے جسمانی اور اخلاقی معیار کو اونچا کرے گا، عمر کی درازی کو بڑھائے گا، کردار کو پاک اور بلند کرے گا۔ پس ترقی ساری غلطی کو تباہ کرے گی اور لافانیت کو روشنی میں لائے گی۔
Being is holiness, harmony, immortality. It is already proved that a knowledge of this, even in small degree, will uplift the physical and moral standard of mortals, will increase longevity, will purify and elevate character. Thus progress will finally destroy all error, and bring immortality to light.
کرسچن سائنس برق رفتاری سے سچائی کی فتح مندی دکھاتی ہے۔ ۔۔۔جسمانی فہم اور جسمانی فہم سے حاصل ہونے والے سارے،علم غیر فانی سچائی کی تمام تر چیزوں کے لئے سائنس قابل قبول ہونی چاہئے۔
Christian Science speedily shows Truth to be triumphant. ... All the evidence of physical sense and all the knowledge obtained from physical sense must yield to Science, to the immortal truth of all things.
اب تک کا بہترین وعظ جسکی تعلیم دی گئی ہے وہ سچائی ہے جس کا اظہار اور مشق گناہ، بیماری اور موت کی تباہی سے ہوا ہے۔یہ سب جانتے ہوئے اور اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جانتے ہوئے کہ ہماری ایک رغبت ہمارے اندر اعلیٰ ہے اور وہ ہماری زندگیوں میں آگے بڑھتی ہے، یسوع نے کہا، ”کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا۔“
ہم جھوٹی بنیادوں پر محفوظ تعمیرات نہیں کر سکتے۔سچائی ایک نئی مخلوق بناتی ہے، جس میں پرانی چیزیں جاتی رہتی ہیں اور ”سب چیزیں نئی ہو جاتی ہیں۔“جذبات، خود غرضی، نفرت، خوف، ہر سنسنی خیزی، روحانیت کو تسلیم کرتے ہیں اور ہستی کی افراط خدا، یعنی اچھائی کی طرف ہے۔
ہم بھرے ہوئے برتنوں کو پھر سے نہیں بھر سکتے۔ انہیں پہلے خالی ہونا ہوگا۔آئیے ہم غلطی سے منحرف ہوں۔ پھر، جب خدا کی آندھی چلتی ہے، تو ہم اپنے قریبی خستہ حالوں کو گلے نہیں لگائیں گے۔
مادی عقل میں سے غلطی کو باہر نکالنے کا راستہ یہ ہے کہ اْس میں محبت کی سیلابی لہروں کے وسیلہ سچائی کو بھر دیا جائے۔مسیحی کاملیت کو کسی اور بنیاد پر فتح نہیں کیا جاتا۔
The best sermon ever preached is Truth practised and demonstrated by the destruction of sin, sickness, and death. Knowing this and knowing too that one affection would be supreme in us and take the lead in our lives, Jesus said, "No man can serve two masters."
We cannot build safely on false foundations. Truth makes a new creature, in whom old things pass away and "all things are become new." Passions, selfishness, false appetites, hatred, fear, all sensuality, yield to spirituality, and the superabundance of being is on the side of God, good.
We cannot fill vessels already full. They must first be emptied. Let us disrobe error. Then, when the winds of God blow, we shall not hug our tatters close about us.
The way to extract error from mortal mind is to pour in truth through flood-tides of Love. Christian perfection is won on no other basis.
”کیا تْو تلاش سے خدا کو پا سکتا ہے؟“کسی شخص کا خود کو غلطی سے بچانے کی نسبت سچائی کی خواہش رکھنا زیادہ آسان ہے۔بشر کرسچن سائنس کے فہم کی تلاش کر سکتے ہیں، مگر وہ کرسچن سائنس میں سے ہستی کے حقائق کو جدوجہد کے بغیر چننے کے قابل نہیں ہوں گے۔یہ اختلاف ہر قسم کی غلطی کو ترک کرنے اور اچھائی کے علاوہ کوئی دوسرا شعور نہ رکھنے کی کوشش کرنے پر مشتمل ہے۔
"Canst thou by searching find out God?" It is easier to desire Truth than to rid one's self of error. Mortals may seek the understanding of Christian Science, but they will not be able to glean from Christian Science the facts of being without striving for them. This strife consists in the endeavor to forsake error of every kind and to possess no other consciousness but good.
مزید سمجھنے کے لئے، جو ہم پہلے سے جانتے ہیں اْسے اور عمل میں لانا ہوگا۔ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ حق کو جب سمجھا جاتا ہے تو وہ قابل ا ثبات ہوگا، اور یہ کہ اچھائی تب تک نہیں سمجھی جا تی جب تک اْسے ظاہر نہ کیا جائے۔ اگر ”تھوڑے میں دیانتدار ہیں“، تو ہمیں زیادہ کا مختار بنایا جائے گا؛ لیکن ایک غیر استعمال شدہ صلاحیت فنا ہوجاتی اور کھو جاتی ہے۔جب بیمار یا گناہگار اپنی ضرورت کی اْس چیز کے لئے خود کو بیدار محسوس کرتے ہیں جو اْن کے پاس نہیں ہوتی، تو وہ الٰہی سائنس کے قبول کرنے والے ہوں گے، جو روح کی جانب کشش رکھتی ہے اور مادی فہم سے دور ہوتی جاتی ہے، بدن سے خیالات کو ختم کرتی ہے، اور فانی عقل کو بیماری یا گناہ کی نسبت کسی بہتر چیز کی فکر کے لئے سر بلند کرتی ہے۔ خدا کا حقیقی تصور زندگی اور محبت کی حقیقی سمجھ عطا کرتا ہے، فتح کی قبر چْرا لیتا ہے، تمام گناہوں اور اِس فریب نظری کو دور کردیتا ہے کہ یہاں اور عقلیں بھی موجود ہیں اور یہ فانیت کو نیست کرتا ہے۔
In order to apprehend more, we must put into practice what we already know. We must recollect that Truth is demonstrable when understood, and that good is not understood until demonstrated. If "faithful over a few things," we shall be made rulers over many; but the one unused talent decays and is lost. When the sick or the sinning awake to realize their need of what they have not, they will be receptive of divine Science, which gravitates towards Soul and away from material sense, removes thought from the body, and elevates even mortal mind to the contemplation of something better than disease or sin. The true idea of God gives the true understanding of Life and Love, robs the grave of victory, takes away all sin and the delusion that there are other minds, and destroys mortality.
اس سے قبل کہ انسانی علم چیزوں سے متعلق جھوٹے فہم میں گہرا غرق ہوتا، یعنی اْن مادی اصلیتوں میں جو واحد عقل اور ہستی کے حقیقی وسیلہ کو خارج کردیتی ہیں، یہ ممکن ہے کہ سچائی سے نکلنے والے تاثرات آواز کی مانند واضح ہوتے اور یہ کہ وہ تاریخی انبیاء پربطور آواز نازل ہوئے۔ اگر سننے کا وسیلہ مکمل طور پر روحانی ہے تو یہ عام اور لازوال ہے۔
Before human knowledge dipped to its depths into a false sense of things, — into belief in material origins which discard the one Mind and true source of being, — it is possible that the impressions from Truth were as distinct as sound, and that they came as sound to the primitive prophets. If the medium of hearing is wholly spiritual, it is normal and indestructible.
الٰہی سائنس اس کی منظوری بائبل سے پاتی ہے، اور سائنس کی الٰہی اصلیت بیماری اور گناہ سے شفا کے دوران سچائی کے پاک اثر کے وسیلہ ظاہر کی جاتی ہے۔سچائی کی یہ شفائیہ قوت اْس دور سے بھی کہیں پیشتر سے ہے جب یسوع رہا کرتا تھا۔ یہ ”قدیم زمانوں“ جتنی پرانی ہے۔ یہ ازل سے رہتی ہے اور مکمل وسعت رکھتی ہے۔
Divine Science derives its sanction from the Bible, and the divine origin of Science is demonstrated through the holy influence of Truth in healing sickness and sin. This healing power of Truth must have been far anterior to the period in which Jesus lived. It is as ancient as "the Ancient of days." It lives through all Life, and extends throughout all space.
کیونکہ سچائی لامتناہی ہے، اس لئے سچائی کو کچھ بھی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ کیونکہ سچائی اچھائی میں قادر مطلق ہے، تو غلطی، سچائی کی مخالف، میں کوئی طاقت نہیں ہے۔ لیکن بدی عدم کا ہم وزن مدِ مقابل ہے۔عظیم ترین غلطی بلند و بالا اچھائی کی جعلی مخالف ہے۔ سائنس سے اجاگر ہونے والا اعتماد اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ سچائی حقیقی ہے اور غلطی غیر حقیقی۔ غلطی سچائی کے سامنے بْزدل ہے۔الٰہی سائنس اِس پر اصرار کرتی ہے کہ وقت یہ سب کچھ ثابت کرے گا۔ سچائی اور غلطی دونوں بشر کی سوچ سے کہیں زیادہ قریب تر ہوئے ہیں، اور سچائی پھر بھی واضح تر ہوتی جائے گی کیونکہ غلطی خودکو تباہ کرنے والی ہے۔
Because Truth is infinite, error should be known as nothing. Because Truth is omnipotent in goodness, error, Truth's opposite, has no might. Evil is but the counterpoise of nothingness. The greatest wrong is but a supposititious opposite of the highest right. The confidence inspired by Science lies in the fact that Truth is real and error is unreal. Error is a coward before Truth. Divine Science insists that time will prove all this. Both truth and error have come nearer than ever before to the apprehension of mortals, and truth will become still clearer as error is self-destroyed.
یہ فہم کہ انا عقل ہے، اور یہ کہ ماسوائے ایک عقل یا ذہانت کے اور کچھ نہیں، فانی حس کی غلطیوں کو تباہ کرنے اور فانی حس کی سچائی کی فراہمی کے لئے ایک دم شروع ہو جاتا ہے۔یہ فہم بدن کو ہم آہنگ بناتا ہے؛ یہ ا عصاب، ہڈیوں، دماغ وغیرہ کو غلام بناتا ہے نہ کہ مالک بناتا ہے۔ اگر انسان پر الٰہی عقل کے قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، تو اْس کا بدن ہمیشہ کی زندگی اور سچائی اور محبت کے سپرد ہے۔
The understanding that the Ego is Mind, and that there is but one Mind or intelligence, begins at once to destroy the errors of mortal sense and to supply the truth of immortal sense. This understanding makes the body harmonious; it makes the nerves, bones, brain, etc., servants, instead of masters. If man is governed by the law of divine Mind, his body is in submission to everlasting Life and Truth and Love.
انسان کے لئے سچائی، زندگی اور محبت ہی واحد جائز اور ابدی شرائط ہیں اور یہ الٰہی قوانین کی فرمانبرداری پر عملدرآمد کرواتے ہوئے، روحانی شریعت دینے والے ہیں۔
Truth, Life, and Love are the only legitimate and eternal demands on man, and they are spiritual lawgivers, enforcing obedience through divine statutes.
سچ ہر قسم کی غلطی کے لئے خدا کا دیا ہوا علاج ہے، اور سچائی صرف اْسی چیز کو نیست کرتی ہے جو غیر حقیقی ہوتی ہے۔لہٰذہ یہ حقیقت ہے کہ کل کی مانند آج بھی مسیح بدروحوں کو نکالتا اور بیماروں کو شفا دیتا ہے۔
Truth is God's remedy for error of every kind, and Truth destroys only what is untrue. Hence the fact that, to-day, as yesterday, Christ casts out evils and heals the sick.
ابدی سچائی اِسے تباہ کرتی ہے جو بشر کو غلطی سے سیکھا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور بطور خدا کے فرزند انسان کی حقیقت روشنی میں آتی ہے۔ ظاہر کی گئی سچائی ابدی زندگی ہے۔
The eternal Truth destroys what mortals seem to have learned from error, and man's real existence as a child of God comes to light. Truth demonstrated is eternal life.
ہم صرف تبھی کرسچن سائنسدان ہیں،جب ہم اْس پر سے اپنا انحصار ترک کرتے ہیں جو جھوٹا اور سچائی کو نگلنے والا ہو۔جب تک ہم مسیح کے لئے سب کچھ ترک نہیں کرتے تب تک ہم مسیحی سائنسدان نہیں بنتے۔انسانی آراء روحانی نہیں ہوتیں۔وہ کان کے سننے سے آتیں ہیں، یعنی جسم سے آتی ہیں نہ کہ اصول سے، اور فانی سے آتی ہیں نہ کہ لافانی سے۔روح خدا سے الگ نہیں ہے۔ روح خدا ہے۔
الٰہی مابعد الطبیعات کے فہم میں ہم ہمارے مالک کے نمونے کی پیروی کرتے ہوئے محبت اور سچائی کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔
We are Christian Scientists, only as we quit our reliance upon that which is false and grasp the true. We are not Christian Scientists until we leave all for Christ. Human opinions are not spiritual. They come from the hearing of the ear, from corporeality instead of from Principle, and from the mortal instead of from the immortal. Spirit is not separate from God. Spirit is God.
We walk in the footsteps of Truth and Love by following the example of our Master in the understanding of divine metaphysics.
ابدی حق کائنات کو تبدیل کر رہا ہے۔ جب انسان اپنے ذہنی پوتڑے اْتار ڈالتا ہے، تو خیال اظہار میں وسعت پاتے ہیں۔ ”روشنی ہو جا،“ حق اور محبت کا دائمی مطالبہ ہے، جو افراتفری کو تہذیب میں اور بے سْرکو کائنات کی موسیقی میں تبدیل کرتا ہے۔
Eternal Truth is changing the universe. As mortals drop off their mental swaddling-clothes, thought expands into expression. "Let there be light," is the perpetual demand of Truth and Love, changing chaos into order and discord into the music of the spheres.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔