اتوار 3 مارچ، 2024



مضمون۔ مسیح یسوع

SubjectChrist Jesus

سنہری متن: عبرانیوں 13 باب8 آیت

” یسوع مسیح کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے۔“



Golden Text: Hebrews 13 : 8

Jesus Christ the same yesterday, and to day, and for ever.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: یوحنا 3 باب 16، 18، 20، 21، 33، 35، 36 آیات


16۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

18۔ جو اْس پر ایمان لاتا ہے اْس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا۔ جو اْس پر ایمان نہیں لاتا اْس پر سزا کا حکم ہو چکا۔ اس لئے کہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہیں لایا۔

20۔ کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا۔ ایسا نہ ہو کہ اْس کے کاموں پر ملامت کی جائے۔

33۔ جس نے اْس کی گواہی قبول کی اْس نے اِس بات پر مہر کر دی کہ خدا سچا ہے۔

35۔ باپ بیٹے سے محبت رکھتا ہے اور اْس نے سب چیزیں اْس کے ہاتھ میں دے دی ہیں۔

36۔ جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اْس کی ہے۔

Responsive Reading: John 3 : 16, 18, 20, 21, 33, 35, 36

16.     For God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.

18.     He that believeth on him is not condemned: but he that believeth not is condemned already, because he hath not believed in the name of the only begotten Son of God.

20.     For every one that doeth evil hateth the light, neither cometh to the light, lest his deeds should be reproved.

21.     But he that doeth truth cometh to the light, that his deeds may be made manifest, that they are wrought in God.

33.     He that hath received his testimony hath set to his seal that God is true.

35.     The Father loveth the Son, and hath given all things into his hand.

36.     He that believeth on the Son hath everlasting life.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یسعیاہ 7 باب14 آیت

14۔لیکن خداوندآپ تم کو ایک نشان بخشے گا۔دیکھو ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور وہ اس کا نام عمانوائیل رکھے گی۔

1. Isaiah 7 : 14

14     Therefore the Lord himself shall give you a sign; Behold, a virgin shall conceive, and bear a son, and shall call his name Immanuel.

2 . ۔ لوقا 1 باب26تا28، 30تا32، (تا پہلی)، 33 (اور اْس کا) تا 35، 37، 80 (تا دوسری) آیات

26۔ چھٹے مہینے میں جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرت تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا۔

27۔ جس کی منگنی داؤد کے گھرانے کے ایک مرد یوسف نام سے ہوئی تھی اور اْس کنواری کا نام مریم تھا۔

28۔ اور فرشتے نے اْس کے پاس اندر آکر کہا سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے! خداوند تیرے ساتھ ہے۔

30۔ خوف نہ کر کیونکہ خداوند کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے۔

31۔ اور دیکھ تْو حاملہ ہوگی اور تیرے بیٹا ہوگا۔ اْس کا نام یسوع رکھنا۔

32۔ وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خداوند خدا اْس کے باپ داؤد کا تخت اْسے دے گا۔

34۔ مریم نے فرشتے سے کہا یہ کیونکر ہوگا جبکہ مَیں مرد کو نہیں جانتی؟

35۔ اور فرشتے نے جواب میں اْس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگا اور خدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہلائے گا۔

37۔ کیونکہ جو قول خدا کی طرف سے ہے وہ ہر گز بے تاثیر نہ ہوگا۔

80۔اور وہ لڑکا بڑھتا اور روح میں قوت پاتا گیا۔

2. Luke 1 : 26-28, 30-32 (to 1st :), 33 (and of)-35, 37, 80 (to 2nd ,)

26     And in the sixth month the angel Gabriel was sent from God unto a city of Galilee, named Nazareth,

27     To a virgin espoused to a man whose name was Joseph, of the house of David; and the virgin’s name was Mary.

28     And the angel came in unto her, and said, Hail, thou that art highly favoured, the Lord is with thee: blessed art thou among women.

30     And the angel said unto her, Fear not, Mary: for thou hast found favour with God.

31     And, behold, thou shalt conceive in thy womb, and bring forth a son, and shalt call his name JESUS.

32     He shall be great, and shall be called the Son of the Highest:

33     ...and of his kingdom there shall be no end.

34     Then said Mary unto the angel, How shall this be, seeing I know not a man?

35     And the angel answered and said unto her, The Holy Ghost shall come upon thee, and the power of the Highest shall overshadow thee: therefore also that holy thing which shall be born of thee shall be called the Son of God.

37     For with God nothing shall be impossible.

80     And the child grew, and waxed strong in spirit,

3 . ۔ لوقا 4 باب14، 15، 32تا36، 38 تا41 آیات

14۔ پھر یسوع روح کی قوت سے بھرا ہوا گلیل سے لوٹا اور سارے گردو نواح میں اْس کی شہرت پھیل گئی۔

15۔ اور وہ اْن کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا رہا اور سب اْس کی بڑائی کرتے رہے۔

32۔ اور لوگ اْس کی تعلیم سے حیران تھے کیونکہ اْس کا کلام اختیار کے ساتھ تھا۔

33۔ اور عبادتخانہ میں ایک آدمی تھا جس میں ناپاک دیو کی روح تھی وہ بڑی آواز سے چلااْٹھا کہ

34۔ اے یسوع ناصری ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تْو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تجھے جانتا ہوں کہ تْو کون ہے۔ خدا کا قدوس ہے۔

35۔ یسوع نے اْسے جھڑک کر کہا چْپ رہ اور اْس میں سے نکل جا۔ اِس پر بد روح اْسے بیچ میں پٹک کر بغیر ضرر پہنچائے اْس میں سے نکل گئی۔

36۔ اور سب حیران ہو کر آپس میں کہنے لگے یہ کیسا کلام ہے؟ کیونکہ وہ اختیار اور قدرت سے ناپاک روحوں کو حکم دیتا ہے اور وہ نکل جاتی ہیں۔

38۔ پھر وہ عبادتخانہ سے اٹھ کر شمعون کے گھر میں داخل ہوا اور شمعون کی ساس کو بڑی تپ چڑھی ہوئی تھی اور اْنہوں نے اْس کے لئے اْس سے عرض کی۔

39۔وہ کھڑا ہو کر اْس کی طرف جھکا اور تپ کو جھڑکا تو وہ اْتر گئی اور وہ اْسی دم اْٹھ کر اْن کی خدمت کرنے لگی۔

40۔ اور سورج کے ڈوبتے وقت وہ سب لوگ جن کے ہاں طرح طرح کی بیماریوں کے مریض تھے اْنہیں اْس کے پاس لائے اور اْس نے اْن میں سے ہر ایک پر ہاتھ رکھ کر اْنہیں اچھا کیا۔

41۔ اور بد روحیں بھی چِلا کر اور یہ کہہ کر کہ تو خدا کا بیٹا ہے بہتوں میں سے نکل گئیں اور وہ انہیں جھڑکتا اور بولنے نہ دیتا تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ یہ مسیح ہے۔

3. Luke 4 : 14, 15, 32-36, 38-41

14     And Jesus returned in the power of the Spirit into Galilee: and there went out a fame of him through all the region round about.

15     And he taught in their synagogues, being glorified of all.

32     And they were astonished at his doctrine: for his word was with power.

33     And in the synagogue there was a man, which had a spirit of an unclean devil, and cried out with a loud voice,

34     Saying, Let us alone; what have we to do with thee, thou Jesus of Nazareth? art thou come to destroy us? I know thee who thou art; the Holy One of God.

35     And Jesus rebuked him, saying, Hold thy peace, and come out of him. And when the devil had thrown him in the midst, he came out of him, and hurt him not.

36     And they were all amazed, and spake among themselves, saying, What a word is this! for with authority and power he commandeth the unclean spirits, and they come out.

38     And he arose out of the synagogue, and entered into Simon’s house. And Simon’s wife’s mother was taken with a great fever; and they besought him for her.

39     And he stood over her, and rebuked the fever; and it left her: and immediately she arose and ministered unto them.

40     Now when the sun was setting, all they that had any sick with divers diseases brought them unto him; and he laid his hands on every one of them, and healed them.

41     And devils also came out of many, crying out, and saying, Thou art Christ the Son of God. And he rebuking them suffered them not to speak: for they knew that he was Christ.

4 . ۔ یوحنا 8 باب58 آیت

58۔ یسوع نے اْن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ پیشتر اِس کے کہ ابراہام پیدا ہوا مَیں ہوں۔

4. John 8 : 58

58     Jesus said unto them, Verily, verily, I say unto you, Before Abraham was, I am.

5 . ۔ یوحنا 14 باب2 (تا:)، 16، 17 (تا پہلی؛)، 19 (تا؛)، 26، 30، 31 آیات

2۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں اگر نہ ہوتے تو مَیں تم سے کہہ دیتا کیونکہ مَیں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں۔

16۔ اور مَیں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔

17۔ یعنی روحِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اْسے دیکھتی نہ جانتی ہے۔ تم اْسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہوگا۔

19۔تھوڑی دیر باقی ہے کہ دنیا مجھے پھر نہ دیکھے گی مگر تم مجھے دیکھتے رہو گے۔چونکہ میں جیتا ہوں اور تم بھی جیتے رہو گے۔

26۔ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ مَیں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔

30۔ اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گاکیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔

31۔ لیکن یہ اس لیے ہوتا ہے کہ دنیا جانے کہ میں باپ سے محبت رکھتا ہوں اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیامیں ویسا ہی کرتا ہوں۔اٹھو یہاں سے چلیں۔

5. John 14 : 2 (to :), 16, 17 (to 1st ;), 19 (to ;), 26, 30, 31

2     In my Father’s house are many mansions:

16     And I will pray the Father, and he shall give you another Comforter, that he may abide with you for ever;

17     Even the Spirit of truth;

19     Yet a little while, and the world seeth me no more;

26     But the Comforter, which is the Holy Ghost, whom the Father will send in my name, he shall teach you all things, and bring all things to your remembrance, whatsoever I have said unto you.

30     Hereafter I will not talk much with you: for the prince of this world cometh, and hath nothing in me.

31     But that the world may know that I love the Father; and as the Father gave me commandment, even so I do. Arise, let us go hence.

6 . ۔ متی 27 باب1، 33، 35 (تا)، آیات

1۔ جب صبح ہوئی تو سب سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں نے یسوع کے خلاف مشورہ کیا کہ اسے مار ڈالیں۔

23۔ اْس نے کہا کیوں اس نے کیا برائی کی ہے؟مگر وہ اور بھی چِلاچِلا کر کہنے لگے وہ مصلوب ہو۔

35۔ اورانہوں نے اْسے مصلوب کیا اوراس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لئے۔

6. Matthew 27 : 1, 23, 35 (to ,)

1     When the morning was come, all the chief priests and elders of the people took counsel against Jesus to put him to death:

23     And the governor said, Why, what evil hath he done? But they cried out the more, saying, Let him be crucified.

35     And they crucified him, and parted his garments, casting lots: that it might be fulfilled which was spoken by the prophet, They parted my garments among them, and upon my vesture did they cast lots.

7 . ۔ یوحنا 20باب1، 11تا13 (تا چوتھی)، 14تا16، 19 آیات

1۔ ہفتہ کے پہلے دن مریم مگدلینی ایسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا قبر پر آئی اور پتھر کو قبر پر سے ہٹا دیکھا۔

11۔ لیکن مریم باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی۔ اور جب روتے روتے قبر کی طرف جھْک کر اندر نظر کی۔

12۔ تو دو فرشتوں کو سفید پوشاک پہنے ہوئے ایک کو سرہانے اور دوسرے کو پینتانے بیٹھے دیکھا جہاں یسوع کی لاش پڑی تھی۔

13۔ انہوں نے اْس سے کہا اے عورت! تْوکیوں روتی ہے؟ اْس نے اْن سے کہا اِس لئے کہ میرے خداوند کو اٹھا لے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ اْسے کہاں رکھا ہے۔

14۔ یہ کہہ کر وہ پیچھے مْڑی اور یسوع کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔

15۔ یسوع نے اْس سے کہا اے عورت! تْو کیوں روتی ہے؟ کس کو ڈھونڈتی ہے؟ اْس نے باغبان سمجھ کر اْس سے کہا میاں اگر تْو نے اْس کو یہاں سے اٹھایا ہو تو مجھے بتا دے کہ اْسے کہاں رکھا ہے تاکہ مَیں اْسے لے جاؤں۔

16۔ یسوع نے اْس سے کہا مریم! اْس نے مڑ کر اْسے عبرانی زبان میں کہا ربْونی! یعنی اے استاد!

19۔پھر اْسی دن جو ہفتے کا پہلا دن تھا شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے یہودیوں کے ڈر سے بند تھے یسوع آکر بیچ میں کھڑا ہوا اور اْن سے کہا تمہاری سلامتی ہو!

7. John 20 : 1, 11-13 (to 4th ,), 14-16, 19

1     The first day of the week cometh Mary Magdalene early, when it was yet dark, unto the sepulchre, and seeth the stone taken away from the sepulchre.

11     But Mary stood without at the sepulchre weeping: and as she wept, she stooped down, and looked into the sepulchre,

12     And seeth two angels in white sitting, the one at the head, and the other at the feet, where the body of Jesus had lain.

13     And they say unto her, Woman, why weepest thou? She saith unto them, Because they have taken away my Lord,

14     And when she had thus said, she turned herself back, and saw Jesus standing, and knew not that it was Jesus.

15     Jesus saith unto her, Woman, why weepest thou? whom seekest thou? She, supposing him to be the gardener, saith unto him, Sir, if thou have borne him hence, tell me where thou hast laid him, and I will take him away.

16     Jesus saith unto her, Mary. She turned herself, and saith unto him, Rabboni; which is to say, Master.

19     Then the same day at evening, being the first day of the week, when the doors were shut where the disciples were assembled for fear of the Jews, came Jesus and stood in the midst, and saith unto them, Peace be unto you.

8 . ۔ لوقا 24 باب45، 46، 48، 50تا53 آیات

45۔ پھر اْس نے اْن کا ذہن کھولا تاکہ کتابِ مقدس کو سمجھیں۔

46۔ اور اْن سے کہا یوں لکھا ہے کہ مسیح دْکھ اٹھائے گا اور تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھے گا۔

48۔تم ان باتوں کے گواہ ہو۔

50۔ پھر وہ اْنہیں بیت عنیا ہ کے سامنے تک باہر لے گیا اور اپنے ہاتھ اْٹھا کر اْنہیں برکت دی۔

51۔ جب وہ اْنہیں برکت دے رہا تھا تو ایسا ہوا کہ اْن سے جدا ہو گیا اور آسمان پر اٹھایا گیا۔

52۔ اور وہ اْس کو سجدہ کر کے بڑی خوشی سے یروشلیم کو لوٹ گئے۔

53۔ اور ہر وقت ہیکل میں حاضر ہو کر خدا کی حمد کیا کرتے تھے۔

8. Luke 24 : 45, 46, 48, 50-53

45     Then opened he their understanding, that they might understand the scriptures,

46     And said unto them, Thus it is written, and thus it behoved Christ to suffer, and to rise from the dead the third day:

48     And ye are witnesses of these things.

50     And he led them out as far as to Bethany, and he lifted up his hands, and blessed them.

51     And it came to pass, while he blessed them, he was parted from them, and carried up into heaven.

52     And they worshipped him, and returned to Jerusalem with great joy:

53     And were continually in the temple, praising and blessing God. Amen.



سائنس اور صح


1 . ۔ 333 :16 (دی)۔23، 26۔30

یسوع ناصری کی آمد مسیحی دور کی پہلی صدی کا احاطہ کرتی ہے، لیکن مسیح ابتدائی برسوں یا آخری ایام کی قید سے مبرا ہے۔ مسیحی دورسے پیشتر اور بعد ازاں نسل در نسل مسیح بطور روحانی خیال، بطور خدا کے سایہ، اْن لوگوں کے لئے کچھ خاص طاقت اور فضل کے ساتھ آیا جو مسیح، یعنی سچائی کو حاصل کرنے کے لئے تیار تھے۔۔۔۔ الٰہی شبیہ، خیال یا مسیح الٰہی اصول یعنی خدا سے غیر منفِک تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یسوع نے اپنی روحانی شناخت کے اس اتحاد کو یوں بیان کیا: ”پیشتر اِس سے کہ ابراہیم پیدا ہوا، میں ہوں“؛ ”مَیں اور باپ ایک ہیں؛“ ”باپ مجھ سے بڑا ہے۔“

1. 333 : 16 (The)-23, 26-30

The advent of Jesus of Nazareth marked the first century of the Christian era, but the Christ is without beginning of years or end of days. Throughout all generations both before and after the Christian era, the Christ, as the spiritual idea, — the reflection of God, — has come with some measure of power and grace to all prepared to receive Christ, Truth. ... The divine image, idea, or Christ was, is, and ever will be inseparable from the divine Principle, God. Jesus referred to this unity of his spiritual identity thus: "Before Abraham was, I am;" "I and my Father are one;" "My Father is greater than I."

2 . ۔ 52 :1۔14

وہ اپنے لڑکپن کی ابتدا ہی سے ”باپ کے کام“ میں لگ گیا تھا۔ اْس کے مشاغل دوسروں سے بہت منفرد تھے۔ اْس کا مالک روح تھا؛ جب کہ دوسروں کا مالک مادا تھا۔ وہ خدا کی خدمت کرتا؛ وہ حرص کی خدمت کرتے۔ اْس کے جذبات پاکیزہ تھے؛ اْن کے جسمانی تھے۔ اْس کے حواس صحت، پاکیزگی اور زندگی کی روحانی گواہی میں گْم ہو چکے تھے؛ اْن کے حواس متضاد تصدیق کرتے ہیں، اور وہ گناہ، بیماری اور موت کی مادی گواہی میں محوہوتے ہیں۔

اْن کی خامیوں اور ناپاکی نے اْس کی کاملیت اور پاکیزگی کی ازلی ملامت کو محسوس کیا۔لہٰذہ عادل اور کامل یسوع سے دنیا کی نفرت، اور مستقبل کی غلطی سے متعلق نبی کی پیش بینی اْسے دے گی۔”آدمیوں میں حقیر و مردود“، یہ یسعیاہ کی طرف سے آنے والے سلامتی کے شہزادے کے لئے واضح الفاظ تھے۔

2. 52 : 1-14

From early boyhood he was about his "Father's business." His pursuits lay far apart from theirs. His master was Spirit; their master was matter. He served God; they served mammon. His affections were pure; theirs were carnal. His senses drank in the spiritual evidence of health, holiness, and life; their senses testified oppositely, and absorbed the material evidence of sin, sickness, and death.

Their imperfections and impurity felt the ever-present rebuke of his perfection and purity. Hence the world's hatred of the just and perfect Jesus, and the prophet's foresight of the reception error would give him. "Despised and rejected of men," was Isaiah's graphic word concerning the coming Prince of Peace.

3 . ۔ 26 :28۔32

ہمارے مالک نے محض نظریے، عقیدے یا ایمان کی تعلیم نہیں دی۔یہ الٰہی اصول کی مکمل ہستی تھی جس کی اْس نے تعلیم دی اور مشق کی۔ مسیحیت کے لئے اْس کا ثبوت مذہب اور عبادت کا کوئی نظام یا شکل نہیں تھی، بلکہ یہ کرسچن سائنس تھی جو زندگی اور محبت کی ہم آہنگی پر عمل کرتی ہے۔

3. 26 : 28-32

Our Master taught no mere theory, doctrine, or belief. It was the divine Principle of all real being which he taught and practised. His proof of Christianity was no form or system of religion and worship, but Christian Science, working out the harmony of Life and Love.

4 . ۔ 117 :16۔23

بطور ایک الٰہی طالبِ علم خود میں زندگی اور سچائی کو بیان کرتے اور ظاہر کرتے ہوئے اور بیمار اور گناہگار پر اپنی قوت کی بدولت اْس نے انسان پر خدا کو آشکار کیا۔انسانی نظریات اْس الٰہی اصول کی تشریح کرنے کے لئے ناقص ہیں جو یسوع کی طرف سے کئے گئے معجزات (عجائبات) میں اور خصوصاً جسم میں سے اْس کی بڑی، اعلیٰ، بے مثال اور کامیاب رخصتی میں شامل تھا۔

4. 117 : 16-23

As a divine student he unfolded God to man, illustrating and demonstrating Life and Truth in himself and by his power over the sick and sinning. Human theories are inadequate to interpret the divine Principle involved in the miracles (marvels) wrought by Jesus and especially in his mighty, crowning, unparalleled, and triumphant exit from the flesh.

5 . ۔ 45 :32۔12

یسوع کے طالبِ علموں نے، جو اپنے مالک کی فتح مندی کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے مناسب طور پر تیار نہیں تھے،کچھ خاص عجیب کام نہیں دکھائے جب تک کہ اْنہوں نے اْس کی مصلوبیت کو نہیں دیکھا تھا اور یہ نہیں جانا تھا کہ وہ مرا نہیں تھا۔اِس نے اْنہیں اْس سب کی سچائی کے لئے مائل کیا جو کچھ اْس نے اْنہیں سکھایا تھا۔

عماؤس کے سفر کے دوران، یسوع اپنے دوستوں پر اْن باتوں سے، جن سے اْن کے دل اندر سے روشن ہوگئے، اور روٹی توڑنے سے ظاہر ہوا۔اْس الٰہی روح نے، جس نے صدیوں پہلے یسوع کی نشاندہی کی، الٰہی کلام کے وسیلہ بات کی اور وہ اِس کے وسیلہ ہر دور اور موسم میں بات کرتا رہے گا۔یہ قبول کرنے والے دل پر ظاہر ہوتا ہے، اور دوبارہ بدروح کو نکالتے اور بیمار کو شفا دیتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔

5. 45 : 32-12

Jesus' students, not sufficiently advanced fully to understand their Master's triumph, did not perform many wonderful works, until they saw him after his crucifixion and learned that he had not died. This convinced them of the truthfulness of all that he had taught.

In the walk to Emmaus, Jesus was known to his friends by the words, which made their hearts burn within them, and by the breaking of bread. The divine Spirit, which identified Jesus thus centuries ago, has spoken through the inspired Word and will speak through it in every age and clime. It is revealed to the receptive heart, and is again seen casting out evil and healing the sick.

6 . ۔ 131: 26۔30

یسوع کے مشن نے پیشن گوئی کی تصدیق کی اور پرانے زمانے کے نام نہاد معجزے کی وضاحت کی جیسے کہ الٰہی قوت کے قدرتی اظہار تھے، وہ اظہار جنہیں سمجھا نہیں گیا تھا۔ یسوع کے کاموں نے اْس کے مسیحائی دعوے کو قیام بخشا۔

6. 131 : 26-30

The mission of Jesus confirmed prophecy, and explained the so-called miracles of olden time as natural demonstrations of the divine power, demonstrations which were not understood. Jesus' works established his claim to the Messiahship.

7 . ۔ 51 :6۔18

یسوع خود کو اپنے دشمنوں سے بچا سکتا تھا۔ اْس کے پاس الٰہی کی مانند اپنی روحانی شناخت کے لئے زندگی کے انسانی فہم کو ختم کرنے کی طاقت تھی؛ مگر اْس نے اپنے فانی بدن کو تباہ کرنے کے لئے انسان کو اِس کی اجازت دی تاکہ وہ لافانی زندگی کا ثبوت تیار کر سکے۔انسان کی اِس زندگی کو کوئی ختم نہ کرسکا۔ یسوع اپنی عارضی زندگی اپنے دشمنوں کے ہاتھ میں دے سکتا تھا؛ مگر جب اْس کا زمینی مشن مکمل ہوگیا، تو اْس کی روحانی زندگی، لازوال اور ابدی، ہمیشہ کے لئے ویسی ہی پائی گئی۔وہ جانتا تھا کہ مادے میں کوئی زندگی نہیں اور کہ حقیقی زندگی خدا ہے؛ اِس لئے وہ اپنی روحانی زندگی سے اِس لئے زیادہ الگ نہ ہوا کہ خدا ناپیدنہ ہوجائے۔

7. 51 : 6-18

Jesus could have withdrawn himself from his enemies. He had power to lay down a human sense of life for his spiritual identity in the likeness of the divine; but he allowed men to attempt the destruction of the mortal body in order that he might furnish the proof of immortal life. Nothing could kill this Life of man. Jesus could give his temporal life into his enemies' hands; but when his earth-mission was accomplished, his spiritual life, indestructible and eternal, was found forever the same. He knew that matter had no life and that real Life is God; therefore he could no more be separated from his spiritual Life than God could be extinguished.

8 . ۔ 18: 3۔12

یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔ اْس کا مشن انفرادی اور اجتماعی دونوں تھا۔ اْس نے زندگی کا مناسب کام سر انجام دیا نہ صرف خود کے انصاف کے لئے بلکہ انسانوں پر رحم کے باعث، انہیں یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے، بلکہ نہ تو اْن کے لئے خود کچھ کرنے یا نہ ہی اْنہیں کسی ایک ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئے یہ کیا۔یسوع نے دلیری سے حواس کے تسلیم شْدہ ثبوت کے خلاف، منافقانہ عقائد اور مشقوں کے خلاف کام کیا، اور اْس نے اپنی شفائیہ طاقت کی بدولت اپنے سبھی حریفوں کی تردید کی۔

8. 18 : 3-12

Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage. His mission was both individual and collective. He did life's work aright not only in justice to himself, but in mercy to mortals, — to show them how to do theirs, but not to do it for them nor to relieve them of a single responsibility. Jesus acted boldly, against the accredited evidence of the senses, against Pharisaical creeds and practices, and he refuted all opponents with his healing power.

9 . ۔ 134 :14۔26

انسان کے بنائے ہوئے عقیدے زوال پذیر ہیں۔ وہ مصیبت میں زیادہ مضبوط نہیں رہے۔ مسیح کی قوت سے خالی، وہ مسیح یا فضل کے معجزات سے متعلق عقیدوں کو کیسے بیان کر سکتے ہیں؟ مسیحی شفا کے امکان سے انکارہر عنصر کی مسیحیت چھین لیتاہے، جس نے پہلی صدی میں اسے الٰہی قوت اور اِس کی حیران کن اور بے مثل کامیابی عطا کی۔

حقیقی لوگوس قابل اثبات کرسچن سائنس ہے، ہم آہنگی کا فطری قانون جو اختلاف پر فتح مند ہوتا ہے، اس لئے نہیں کیونکہ یہ سائنس مافوق الفطری یا غیر طبعی ہے اور نہ ہی کیونکہ یہ الٰہی قانون کی خلاف ورزی ہے، بلکہ اسلئے کیونکہ یہ خدا یعنی اچھائی کا ناقابل تبدیل قانون ہے۔

9. 134 : 14-26

Man-made doctrines are waning. They have not waxed strong in times of trouble. Devoid of the Christ-power, how can they illustrate the doctrines of Christ or the miracles of grace? Denial of the possibility of Christian healing robs Christianity of the very element, which gave it divine force and its astonishing and unequalled success in the first century.

The true Logos is demonstrably Christian Science, the natural law of harmony which overcomes discord, — not because this Science is supernatural or preternatural, nor because it is an infraction of divine law, but because it is the immutable law of God, good.

10 . ۔ 304 :9۔15

یہ کرسچن سائنس کا عقیدہ ہے: کہ الٰہی محبت اپنے اظہار یا موضوع سے عاری نہیں ہوسکتی، کہ خوشی غم میں تبدیل نہیں ہو سکتی کیونکہ غمی خوشی کی مالک نہیں ہے؛ کہ اچھائی بدی کو کبھی پیدا نہیں کرسکتی؛ کہ مادا کبھی عقل کو پیدا نہیں کر سکتا نہ ہی زندگی کبھی موت کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ کامل انسان، خدایعنی اپنے کامل اصول کے ماتحت، گناہ سے پاک اور ابدی ہے۔

10. 304 : 9-15

This is the doctrine of Christian Science: that divine Love cannot be deprived of its manifestation, or object; that joy cannot be turned into sorrow, for sorrow is not the master of joy; that good can never produce evil; that matter can never produce mind nor life result in death. The perfect man — governed by God, his perfect Principle — is sinless and eternal.

11 . ۔ 55: 15۔26

سچائی کا لافانی نظریہ،اپنے پروں تلے بیماروں اور گناہگاروں کو یکجا کرتے ہوئے،صدیوں کا احاطہ کررہا ہے۔میری خستہ حال امید اْس خوشی کے دن کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے، جب انسان مسیح کی سائنس کو سمجھے گا اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھے گا، جب وہ یہ جانے گا کہ خدا قادر مطلق ہے اور جو کچھ اْس نے انسان کے لئے کیا ہے اور کر رہا ہے اْس میں الٰہی محبت کی شفائیہ طاقت کو جانے گا۔ وعدے پورے کئے جائیں گے۔ الٰہی شفا کے دوبارہ ظاہر ہونے کا وقت ہمہ وقت ہوتا ہے؛ اور جو کوئی بھی اپنازمینی سب کچھ الٰہی سائنس کی الطار پر رکھتا ہے، وہ اب مسیح کے پیالے میں سے پیتا ہے، اور وہ روح اور مسیحی شفا کی طاقت سے ملبوس ہوتا ہے۔

11. 55 : 15-26

Truth's immortal idea is sweeping down the centuries, gathering beneath its wings the sick and sinning. My weary hope tries to realize that happy day, when man shall recognize the Science of Christ and love his neighbor as himself, — when he shall realize God's omnipotence and the healing power of the divine Love in what it has done and is doing for mankind. The promises will be fulfilled. The time for the reappearing of the divine healing is throughout all time; and whosoever layeth his earthly all on the altar of divine Science, drinketh of Christ's cup now, and is endued with the spirit and power of Christian healing.

12 . ۔ 565 :13۔18

ہمارے مالک کی زمینی زندگی میں روحانی خیال کے روپ کی ایک مختصر سی تاریخ تھی؛ مگر ”اْس کی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا،“ کیونکہ مسیح، خدا کا خیال، تمام قوموں اور امتوں پر الٰہی سائنس کے ساتھ آمرانہ طور پر، مکمل طور پر، فیصلہ کن انداز میں حکومت کرے گا۔

12. 565 : 13-18

The impersonation of the spiritual idea had a brief history in the earthly life of our Master; but "of his kingdom there shall be no end," for Christ, God's idea, will eventually rule all nations and peoples — imperatively, absolutely, finally — with divine Science.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔