اتوار 30 اپریل، 2023
”مبارک ہے وہ آدمی جس کی بدکاری کو خداوند حساب میں نہیں لاتا اور جس کے دل میں مکر نہیں۔“
“Blessed is the man unto whom the Lord imputeth not iniquity, and in whose spirit there is no guile.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
1۔ اے خدا! اپنی شفقت کے مطابق مجھ پر رحم کر۔ اپنی رحمت کی کثرت کے مطابق میری خطائیں مٹا دے۔
2۔ میری بدی کو مجھ سے دھو ڈال اور میرے گناہ سے مجھے پاک کر۔
3۔ کیونکہ مَیں اپنی خطاؤں کو مانتا ہوں۔ اور میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے۔
10۔ اے خدا! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں از سرے نو مستقیم روح ڈال۔
11۔ مجھے اپنے حضور سے خارج نہ کر۔ اور اپنی روح کو مجھ سے جدا نہ کر۔
12۔ اپنی نجات کی شادمانی مجھے پھر عنایت کر اور مستعد روح سے مجھے سنبھال۔
13۔ تب مَیں خطاکاروں کو تیری راہیں سکھاؤں گا اور گناہگار تیری طرف رجوع کریں گے۔
1. Have mercy upon me, O God, according to thy lovingkindness: according unto the multitude of thy tender mercies blot out my transgressions.
2. Wash me throughly from mine iniquity, and cleanse me from my sin.
3. For I acknowledge my transgressions: and my sin is ever before me.
10. Create in me a clean heart, O God; and renew a right spirit within me.
11. Cast me not away from thy presence; and take not thy holy spirit from me.
12. Restore unto me the joy of thy salvation; and uphold me with thy free spirit.
13. Then will I teach transgressors thy ways; and sinners shall be converted unto thee.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
8۔ خداوند رحیم اور کریم ہے۔ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی۔
9۔ وہ سدا جھڑکتا نہ رہے گا۔ وہ ہمیشہ غضبناک نہ رہے گا۔
10۔ اْس نے ہمارے گناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہمیں بدلہ نہیں دیا۔
11۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اْسی قدر اْس کی شفقت اْن پر ہے جو اْس سے ڈرتے ہیں۔
12۔ جیسے پورب پچھم سے دور ہے ویسے ہی اْس نے ہماری خطائیں ہم سے دور کردیں۔
17۔ لیکن خداوند کی شفقت اْس سے ڈرنے والوں پر ازل سے ابد تک اور اْس کی صداقت نسل در نسل ہے۔
18۔ یعنی اْن پر جو اْس کے عہد پر قائم رہتے ہیں۔ اور اْس کے قوانین پر عمل کرنا یاد رکھتے ہیں۔
8 The Lord is merciful and gracious, slow to anger, and plenteous in mercy.
9 He will not always chide: neither will he keep his anger for ever.
10 He hath not dealt with us after our sins; nor rewarded us according to our iniquities.
11 For as the heaven is high above the earth, so great is his mercy toward them that fear him.
12 As far as the east is from the west, so far hath he removed our transgressions from us.
17 But the mercy of the Lord is from everlasting to everlasting upon them that fear him, and his righteousness unto children’s children;
18 To such as keep his covenant, and to those that remember his commandments to do them.
1۔ یسوع زیتون کے پہاڑ پر گیا۔
2۔ صبح سویرے ہی وہ پھر ہیکل میں آیا اور سب لوگ اس کے پاس آئے اور وہ بیٹھ کر انہیں تعلیم دینے لگا۔
3۔ اور فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی اور اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا۔
4۔ اے استاد!یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے۔
5۔ توریت میں موسٰی نے ہم کوحکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں۔ پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے؟
6۔ انہوں نے اسے آزمانے کے لئے یہ کہا تاکہ اس پر الزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں مگر یسوع جھک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا۔
7۔ جب وہ اس سے سوال کرتے ہی رہے تو اس نے سیدھے ہو کر ان سے کہا کہ جو تم میں بیگناہ ہو وہی پہلے اس کے پتھر مارے۔
8۔ اور پھر جھک کر زمین پر انگلی سے لکھنے لگا۔
9۔ وہ یہ سن کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے نکل گئے اور یسوع اکیلا رہ گیا اور عورت وہیں بیچ میں رہ گئی۔
10۔ یسوع نے سیدھے ہو کر اس سے کہا اے عورت یہ لوگ کہاں گئے؟کیا کسی نے تجھ پرحکم نہیں لگایا؟
11۔ اس نے کہا اے خداوند کسی نے نہیں۔ یسوع نے کہا میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا۔ جا۔ پھر گناہ نہ کرنا۔
1 Jesus went unto the mount of Olives.
2 And early in the morning he came again into the temple, and all the people came unto him; and he sat down, and taught them.
3 And the scribes and Pharisees brought unto him a woman taken in adultery; and when they had set her in the midst,
4 They say unto him, Master, this woman was taken in adultery, in the very act.
5 Now Moses in the law commanded us, that such should be stoned: but what sayest thou?
6 This they said, tempting him, that they might have to accuse him. But Jesus stooped down, and with his finger wrote on the ground, as though he heard them not.
7 So when they continued asking him, he lifted up himself, and said unto them, He that is without sin among you, let him first cast a stone at her.
8 And again he stooped down, and wrote on the ground.
9 And they which heard it, being convicted by their own conscience, went out one by one, beginning at the eldest, even unto the last: and Jesus was left alone, and the woman standing in the midst.
10 When Jesus had lifted up himself, and saw none but the woman, he said unto her, Woman, where are those thine accusers? hath no man condemned thee?
11 She said, No man, Lord. And Jesus said unto her, Neither do I condemn thee: go, and sin no more.
5۔۔۔۔خداوند کی تنبیہ کو ناچیز نہ جان اور جب وہ تجھے ملامت کرے تو بے دل نہ ہو۔
6۔ کیونکہ جس سے خدا محبت رکھتا ہے اْسے تنبیہ بھی کرتا ہے اور جس کو بیٹا بنا لیتا ہے اْس کو کوڑے بھی لگاتا ہے۔
7۔ تم جو کچھ دکھ سہتے ہو وہ تمہاری تربیت کے لئے ہے۔ خدا فرزند جان کر تمہارے ساتھ سلوک کرتا ہے۔ وہ کون سا بیٹا ہے جسے باپ تنبیہ نہیں کرتا؟
11۔ اور بالفعل ہر قسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں بلکہ غم کا باعث معلوم ہوتی ہے مگر جو اْس کو سہتے سہتے پختہ ہو گئے ہیں اْن کو بعد میں چین کے ساتھ راستبازی کا پھل بخشتی ہے۔
5 ... despise not thou the chastening of the Lord, nor faint when thou art rebuked of him:
6 For whom the Lord loveth he chasteneth, and scourgeth every son whom he receiveth.
7 If ye endure chastening, God dealeth with you as with sons; for what son is he whom the father chasteneth not?
11 Now no chastening for the present seemeth to be joyous, but grievous: nevertheless afterward it yieldeth the peaceable fruit of righteousness unto them which are exercised thereby.
9۔ خداوند اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اس لئے کہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔
9 The Lord is not slack concerning his promise, as some men count slackness; but is longsuffering to us-ward, not willing that any should perish, but that all should come to repentance.
8۔لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔
9۔پس جب ہم اُس کے خون کے باعث اب راستباز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضب الہٰی سے ضرور ہی بچیں گے۔
10۔ کیونکہ جب باوجود دشمن ہونے کے خدا سے اس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہوگیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔
17۔ کیونکہ جب ایک شخص کے گناہ کے سبب سے موت نے اْس ایک کے ذریعہ سے بادشاہی کی تو جو لوگ فضل اور بادشاہی کی بخشش افراط سے حاصل کرتے ہیں وہ ایک شخص یعنی یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی میں ضرور ہی بادشاہی کریں گے۔
18۔ غرض جیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فیصلہ ہوا جس کا نتیجہ سب آدمیوں کی سزا کا حکم تھا ویسا ہی راستبازی کے کام کے وسیلہ سے سب آدمیوں کو وہ نعمت ملی جس سے راستباز ٹھہر کر زندگی پائیں۔
19۔ کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گناہگار ٹھہرے اْسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے۔
20۔ اور بیچ میں شریعت آموجود ہوئی تاکہ گناہ زیادہ ہو جائے مگر جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اْس سے بھی زیادہ ہوا۔
21۔ تاکہ جس طرح گناہ نے موت کے سبب سے بادشاہی کی اْسی طرح فضل بھی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعہ سے بادشاہی کرے۔
8 God commendeth his love toward us, in that, while we were yet sinners, Christ died for us.
9 Much more then, being now justified by his blood, we shall be saved from wrath through him.
10 For if, when we were enemies, we were reconciled to God by the death of his Son, much more, being reconciled, we shall be saved by his life.
17 For if by one man’s offence death reigned by one; much more they which receive abundance of grace and of the gift of righteousness shall reign in life by one, Jesus Christ.
18 Therefore as by the offence of one judgment came upon all men to condemnation; even so by the righteousness of one the free gift came upon all men unto justification of life.
19 For as by one man’s disobedience many were made sinners, so by the obedience of one shall many be made righteous.
20 Moreover the law entered, that the offence might abound. But where sin abounded, grace did much more abound:
21 That as sin hath reigned unto death, even so might grace reign through righteousness unto eternal life by Jesus Christ our Lord.
12۔ پس گناہ تمہارے فانی بدن میں بادشاہی نہ کرے کہ تم اْس کی خواہش کے تابع رہو۔
13۔ اور اپنے اعضاء ناراستی کے اعضاء ہونے کے لئے گناہ کے حوالہ نہ کیا کرو بلکہ اپنے آپ کو مردوں میں سے زندہ جان کر خدا کے حوالہ کرو اور اپنے اعضاء راستبازی کے ہتھیار ہونے کے لئے خدا کے حوالہ کرو۔
14۔ اس لئے کہ گناہ کا تم پر اختیار ہوگا کیونکہ تم شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہو۔
16۔ کیا تم نہیں جانتے کہ جس کی فرمانبرداری کے لئے اپنے آپ کو غلاموں کی طرح حوالے کر دیتے ہو اْسی کے غلام ہو جس کے فرمانبردار ہو خواہ گناہ کے جس کا انجام موت ہے خواہ فرمانبرداری کے جس کا انجام راستبازی ہے۔
17۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اگرچہ تم گناہ کے غلام تھے تو بھی دل سے اْس تعلیم کے فرمانبردار ہوگئے جس کے سانچے میں تم ڈھالے گئے تھے۔
18۔ اور گناہ سے آزاد ہو کرراستبازی کے غلام ہوگئے۔
21۔ پس جن باتوں سے اب تم شرمندہ ہو اْن سے تم اْس وقت کیا پھل پاتے تھے؟کیونکہ اْن کا انجام تو موت ہے۔
22۔ مگر اب گناہ سے آزاد اور خدا کے غلام ہو کر تم کو اپنا پھل ملا جس سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور اِس کا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے۔
12 Let not sin therefore reign in your mortal body, that ye should obey it in the lusts thereof.
13 Neither yield ye your members as instruments of unrighteousness unto sin: but yield yourselves unto God, as those that are alive from the dead, and your members as instruments of righteousness unto God.
14 For sin shall not have dominion over you: for ye are not under the law, but under grace.
16 Know ye not, that to whom ye yield yourselves servants to obey, his servants ye are to whom ye obey; whether of sin unto death, or of obedience unto righteousness?
17 But God be thanked, that ye were the servants of sin, but ye have obeyed from the heart that form of doctrine which was delivered you.
18 Being then made free from sin, ye became the servants of righteousness.
21 What fruit had ye then in those things whereof ye are now ashamed? for the end of those things is death.
22 But now being made free from sin, and become servants to God, ye have your fruit unto holiness, and the end everlasting life.
اب تک کا بہترین وعظ جسکی تعلیم دی گئی ہے وہ سچائی ہے جس کا اظہار اور مشق گناہ، بیماری اور موت کی تباہی سے ہوا ہے۔
ہم جھوٹی بنیادوں پر محفوظ تعمیرات نہیں کر سکتے۔سچائی ایک نئی مخلوق بناتی ہے، جس میں پرانی چیزیں جاتی رہتی ہیں اور ”سب چیزیں نئی ہو جاتی ہیں۔“جذبات، خود غرضی، نفرت، خوف، ہر سنسنی خیزی، روحانیت کو تسلیم کرتے ہیں اور ہستی کی افراط خدا، یعنی اچھائی کی طرف ہے۔
مادی عقل میں سے غلطی کو باہر نکالنے کا راستہ یہ ہے کہ اْس میں محبت کی سیلابی لہروں کے وسیلہ سچائی کو بھر دیا جائے۔مسیحی کاملیت کو کسی اور بنیاد پر فتح نہیں کیا جاتا۔
پاکیزگی پر پاکیزگی کی پیوند کاری کرنا، یہ فرض کرنا کہ گناہ بِنا ترک کئے معاف کیا جاسکتا ہے، ایسی ہی بیوقوفی ہے جیسے مچھروں کو نکیل ڈالنا اور اونٹوں کو نگلنا ہوتا ہے۔
سائنسی اتحاد جو خدا اور انسا ن کے درمیان موجود ہے اْسے عملی زندگی میں کشیدہ کرنا چاہئے اور خدا کی مرضی عالگیر طور پر پوری کی جانی چاہئے۔
The best sermon ever preached is Truth practised and demonstrated by the destruction of sin, sickness, and death.
We cannot build safely on false foundations. Truth makes a new creature, in whom old things pass away and "all things are become new." Passions, selfishness, false appetites, hatred, fear, all sensuality, yield to spirituality, and the superabundance of being is on the side of God, good.
The way to extract error from mortal mind is to pour in truth through flood-tides of Love. Christian perfection is won on no other basis.
Grafting holiness upon unholiness, supposing that sin can be forgiven when it is not forsaken, is as foolish as straining out gnats and swallowing camels.
The scientific unity which exists between God and man must be wrought out in life-practice, and God's will must be universally done.
ہم گناہ کی تباہی اور اْس روحانی فہم میں خدا کی معافی کو تسلیم کرتے ہیں جو بدی کو بطور غیر حقیقی باہر نکالتا ہے۔ لیکن گناہ پر یقین تب تک سزا پاتا ہے جب تک یہ یقین ختم نہیں ہوجاتا۔
We acknowledge God's forgiveness of sin in the destruction of sin and the spiritual understanding that casts out evil as unreal. But the belief in sin is punished so long as the belief lasts.
خدا ویسے ہی گناہ، بیماری اور موت کو پیدا کرنے کے لئے نااہل ہے جیسے وہ ان غلطیوں کا تجربہ کرنے کے لئے نااہل ہے۔ تو پھر اْس کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ غلطیوں کے ترازو سے مزین انسان کو خلق کرے، ایسا انسان جو الٰہی صورت پر پیدا کیا گیا ہے؟
کیا خدا خود، یعنی روح، سے ایک مادی انسان خلق کرتا ہے؟ کیا بدی اچھائی سے جنم لیتی ہے؟ کیا الٰہی محبت انسانیت کے ساتھ فریب کرتی ہے جب وہ انسان کو بدی کے ساتھ شریک کرتی اور پھر اِس پر اْسے سزا دیتی ہے؟
God is as incapable of producing sin, sickness, and death as He is of experiencing these errors. How then is it possible for Him to create man subject to this triad of errors, — man who is made in the divine likeness?
Does God create a material man out of Himself, Spirit? Does evil proceed from good? Does divine Love commit a fraud on humanity by making man inclined to sin, and then punishing him for it?
عام انصاف میں، ہمیں یہ قبول کرنا چاہئے کہ خدا انسان کو اْس کے لئے سزا نہیں دے گا جو کرنے کے قابل خدا نے انسان پیدا کیا تھا، اور وہ ابتدا سے جانتا تھا کہ انسان یہ کرے گا۔خدا ”کی آنکھیں ایسی پاک ہیں کہ بدی کو نہیں دیکھ سکتیں۔“
In common justice, we must admit that God will not punish man for doing what He created man capable of doing, and knew from the outset that man would do. God is "of purer eyes than to behold evil."
غلطی خود کو ہم آہنگی سے منہا کرتی ہے۔ گناہ اپنے آپ کی ہی سزا ہے۔
Error excludes itself from harmony. Sin is its own punishment.
گناہ کا عقیدہ، جو طاقت اور اثر میں شدت اختیار کرچکا ہوتا ہے، شروع میں ایک لاشعوری غلطی، کسی مقصد کے بغیر ایک جینیاتی خیال ہے؛ مگر بعد میں یہ نام نہاد انسان پر حکومت کرتا ہے۔شوق، گندی بھوک، بے ایمانی، حسد، نفرت، بدلہ صرف شرم اور افسوس سے گزر کر آخری سزا تک پہنچنے کے لئے سر گرمِ عمل ہوتے ہیں۔
The belief of sin, which has grown terrible in strength and influence, is an unconscious error in the beginning, — an embryonic thought without motive; but afterwards it governs the so-called man. Passion, depraved appetites, dishonesty, envy, hatred, revenge ripen into action, only to pass from shame and woe to their final punishment.
غلط کام پر شرمندگی اصلاح کی جانب ایک قدم ہے لیکن بہت آسان قدم ہے۔ عقل کے باعث جوا گلا اور بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے وہ وفاداری کی آزمائش ہے، یعنی اصلاح۔ یہاں تک ہمیں حالات کے دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ آزمائش ہمیں جرم کو دوہرانے کی دعوت دیتی ہے، اورجو کچھ ہوا ہوتا ہے اس کے عوض غم و الم ملتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ہوگا، جب تک ہم یہ نہیں سیکھتے کہ عدل کے قانون میں کوئی ریایت نہیں ہے اور ہمیں ”کوڑی کوڑی“ ادا کرنا ہوگی۔جس پیمانے سے تم ناپتے ہو ”اسی سے تمہارے لئے ناپا جائے گا“، اور یہ لبریز ہوگا اور ”باہر چھلکے گا۔“
مقدسین اور گناہگار اپنا مکمل اجر پاتے ہیں، لیکن ہمیشہ اس دنیا میں ہی نہیں۔ مسیح کے پیروکاروں نے اْس کا پیالہ پیا۔ ناشکری اور ایذا نے اسے لبالب بھر دیا؛ لیکن خدا، ہمارے دور کے مطابق ہمیں قوت دیتے ہوئے، فہم اور الفت میں اپنی محبت کی دولت انڈیلتا ہے۔ گناہگار ”کسی ہرے درخت کی مانند“ پھلتے ہیں، لیکن دور اندیش ہوتے ہوئے زبور نویس اْن کا اختتام یعنی دْکھوں کی بدولت گناہ کی تباہی دیکھتا ہے۔
Sorrow for wrong-doing is but one step towards reform and the very easiest step. The next and great step required by wisdom is the test of our sincerity, — namely, reformation. To this end we are placed under the stress of circumstances. Temptation bids us repeat the offence, and woe comes in return for what is done. So it will ever be, till we learn that there is no discount in the law of justice and that we must pay "the uttermost farthing." The measure ye mete "shall be measured to you again," and it will be full "and running over."
Saints and sinners get their full award, but not always in this world. The followers of Christ drank his cup. Ingratitude and persecution filled it to the brim; but God pours the riches of His love into the understanding and affections, giving us strength according to our day. Sinners flourish "like a green bay tree;" but, looking farther, the Psalmist could see their end, — the destruction of sin through suffering.
اگر چہ خدا بھلا ہے، اگر ہم اْس کے ساتھ نافرمانی میں زندگی گزاریں، تو ہمیں کوئی ضمانت محسوس نہیں کرنی چاہئے۔
If living in disobedience to Him, we ought to feel no security, although God is good.
وہ تکلیف جو فانی عقل کو اِس کے جسمانی خواب سے بیدار کرتی ہے اْن جھوٹی خوشیوں سے بہتر ہے جو اِس خواب کو قائم رکھنے کا رجحان رکھتی ہیں۔گناہ اکیلا موت پیدا کرتا ہے، کیونکہ گناہ تباہی لانے کا واحد عنصر ہے۔
Better the suffering which awakens mortal mind from its fleshly dream, than the false pleasures which tend to perpetuate this dream. Sin alone brings death, for sin is the only element of destruction.
کیا آپ گناہ کو سزا دینے کے لئے نہیں بلکہ رحیم بننے کے لئے حکمت مانگتے ہیں؟ تو ”آپ غلط مانگتے ہیں“۔ سزا کے بغیر گناہ بڑھے گا۔ یسوع کی دعا، ”ہمارے قرض ہمیں بخش“ نے معافی کی اصطلاح کی وضاحت کی۔ جب زناکار عورت سے اْس نے کہا، ”جا اور پھر گناہ نہ کرنا۔“
Do you ask wisdom to be merciful and not to punish sin? Then "ye ask amiss." Without punishment, sin would multiply. Jesus' prayer, "Forgive us our debts," specified also the terms of forgiveness. When forgiving the adulterous woman he said, "Go, and sin no more."
محبت کا ڈیزائن گناہگار کی اصلاح کے لئے ہے۔ اگر یہاں گناہگار کی سزا اْس کی اصلاح کے لئے ناکافی ہے، تو نیک انسان کی جنت گناہگار کے لئے دوزخ ہوگی۔ وہ جو تجربے سے پاکیزگی اور پیار کو نہیں سمجھتے، وہ محض کسی دوسرے حلقے میں تبادلے کے باعث سچائی اور محبت کی بابرکت صحبت سے فیض یاب کبھی نہیں ہو سکتے۔گناہ سے محبت کے جذبے کو بجھانے کے لئے، موت سے قبل یا بعد میں، الٰہی سائنس مناسب تکلیف کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔ گناہ کی بدولت ملنے والی سزا کو ختم کرنے کا انحصار محبت کے غلطی کو معاف کرنے پر ہے۔ چونکہ انصاف رحم کی لونڈی ہے اِس لئے سزا سے بچنا خدا کی حکومت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
The design of Love is to reform the sinner. If the sinner's punishment here has been insufficient to reform him, the good man's heaven would be a hell to the sinner. They, who know not purity and affection by experience, can never find bliss in the blessed company of Truth and Love simply through translation into another sphere. Divine Science reveals the necessity of sufficient suffering, either before or after death, to quench the love of sin. To remit the penalty due for sin, would be for Truth to pardon error. Escape from punishment is not in accordance with God's government, since justice is the handmaid of mercy.
الٰہی محبت انسان کی اصلاح کرتی اور اْس پر حکمرانی کرتی ہے۔ انسان معافی مانگ سکتے ہیں لیکن صرف الٰہی اصول ہی گناہگار کی اصلاح کرتا ہے۔
Divine Love corrects and governs man. Men may pardon, but this divine Principle alone reforms the sinner.
انسانیت روحانی سمجھ میں گناہ کے فہم سے آہستہ آہستہ باہر نکلتی ہے؛ سب باتوں کو بہتر سمجھنے کے لئے ناپسندیدگی مسیحی مملکت کو زنجیروں میں جکڑتی ہے۔
محبت بالاآخر ہم آہنگی کا وقت مقرر کرے گی، اور روحانیت اِس کی پیروی کرے گی، کیونکہ محبت روح ہے۔
Humanity advances slowly out of sinning sense into spiritual understanding; unwillingness to learn all things rightly, binds Christendom with chains.
Love will finally mark the hour of harmony, and spiritualization will follow, for Love is Spirit.
وہ راہ جس سے لافانیت اور زندگی کی تعلیم پائی جاتی ہے وہ کلیسیائی نہیں بلکہ مسیحی، انسانی نہیں الٰہی، جسمانی نہیں مابعد الطبیعاتی، مادی نہیں بلکہ سائنسی طور پر روحانی ہے۔انسانی فلسفہ، اخلاقیات اور توہم اْس قابل اثبات الٰہی اصول کو برداشت نہیں کرتے جس کی بدولت بشر گناہ سے فرار ہو سکیں؛ تاہم گناہ سے فرار، بائبل کا مطالبہ ہے۔رسول کہتا ہے، ”ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کرتے جاؤ،“ اوروہ برائے راست یہ بات شامل کرتا ہے کہ،”کیونکہ جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو اپنے نیک ارادہ کو انجام دینے کے لئے پیدا کرتا ہے وہ خدا ہے،“ (فلپیوں 2 باب12، 13آیات)۔ سچائی نے بادشاہت کی کنجی تیار کر لی ہے، اور اِس کنجی کی بدولت کرسچن سائنس نے انسانی فہم کا دروازہ کھول لیا ہے۔
The way through which immortality and life are learned is not ecclesiastical but Christian, not human but divine, not physical but metaphysical, not material but scientifically spiritual. Human philosophy, ethics, and superstition afford no demonstrable divine Principle by which mortals can escape from sin; yet to escape from sin, is what the Bible demands. "Work out your own salvation with fear and trembling," says the apostle, and he straightway adds: "for it is God which worketh in you both to will and to do of His good pleasure" (Philippians ii. 12, 13). Truth has furnished the key to the kingdom, and with this key Christian Science has opened the door of the human understanding.
سچی روحانیت کے پْر سکون، مضبوط دھارے، جن کے اظہار صحت، پاکیزگی اور خود کار قربانی ہیں، اِنہیں اْس وقت انسانی تجربے کو گہرا کرنا چاہئے جب تک مادی وجودیت کے عقائد واضح مسلط ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور گناہ، بیماری اور موت روحانی الوہیت کے سائنسی اظہاراور خدا کے روحانی، کامل انسان کو جگہ فراہم نہیں کرتے۔
The calm, strong currents of true spirituality, the manifestations of which are health, purity, and self-immolation, must deepen human experience, until the beliefs of material existence are seen to be a bald imposition, and sin, disease, and death give everlasting place to the scientific demonstration of divine Spirit and to God's spiritual, perfect man.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████